نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

عقیدہ کی تبلیغ یا صداقت کی جستجو؟

ادھر کچھ عرصے سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے ذہین افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتیں ادنی درجے کی جاہلانہ یا منتقمانہ بحثوں کی نذر ہوئی جا رہی ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں کہ وہ سوائے مزید لغویت پھیلانے کے کوئی فلسفیانہ کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو زندگی اور کائنات سے متعلق اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں اہم سنگ میل نصب کر سکتے تھے۔ میں یہاں کسی شخص کا خصوصیت سے نام نہیں لوں گا بلکہ چند باتیں عمومی طور پر احباب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

بے ‏سمتی

جو لوگ یہ دعوی کریں کہ ان کے پاس ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ماضی و حال کی تاریخوں میں اپنوں اور غیروں سے وہ دست و گریبان ہوں، ہر قسم کے علمی، تہذیبی,معاشرتی اور دیگر قسم کے مسائل میں وہ گرفتار ہوں، بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہونے کے بعد بھی وہ ٹیکنالوجی میں اس قدر پسماندہ ہوں کہ ابھی تک اپنی زبانوں میں کمپیوٹر سائنس کے لیے انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکچر تک نہ لکھ سکے ہوں اور زندگی کے ہر شعبے میں سوائے خدا کی دی ہوئی فطری نعمتوں کو چھوڑ کر سخت تہی دامنی، محتاجی اور بیچارگی میں مبتلا ہوں، ایسے لوگوں سے کیا یہ نہیں پوچھنا چاہیے

ارطغرل غازی والی فلمی حکمت عملی

حالیہ دنوں میں ارطغرل غازی نامی سیریل نے مذہب کے نام پر جو غیرمعقول رجعت پسندانہ کیفیت ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کر دی ہے، اس کو کم لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ غیرمعقول میں نے اس لیے کہا کہ یہ سیریل جس مذہبی طنطنے کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اس کے چند ہی سین دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اسلام کی سچی ترجمانی نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر ایک خاص قسم کا فریب دیتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس نکتے کو ثابت کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس تاریخی کردار ارطغرل کو اس سیریل میں پیش کیا گیا ہے، ہمارے بعض ماضی پرست اردو مبصروں نے اس کا عقیدہ اور

بیرون دریا کچھ نہیں

یہ حقیقت ہے کہ قدیم تہذیبیں مثلاً مصری، یونانی، ایرانی، ہندوستانی وغیرہ سب اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں تھیں۔ قرون وسطی کی جس تہذیب کو اسلامی کہا جاتا ہے وہ بھی نہایت ترقی یافتہ تھی۔ ان سب تہذیبوں کے علمی اور فنی کارناموں پر ہماری جدید تہذیب کی بنیاد ہے۔ لیکن ہماری قدیم اور وسطی تہذیبوں کے بہت سے تاریک پہلو بھی تھے اور ان کو جاننا ضروری ہے تاکہ ان سے بچ کر ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچا جائے۔ ایک رجعت پسند صرف اپنی تہذیب کے روشن پہلو کو ہی دیکھتا ہے اور تاریک پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب کا مستقبل

آج سے کئی سال قبل ایک دوست نے مجھ سے کئی سوالات پوچھے تھے لیکن میں نے ان کا جو جواب دیا اس کے اندر نظم اور ربط کی کمی تھی، اور زیادہ تر اس وجہ سے کہ میرے اندر ان تمام سوالات کا جواب دینے کی علمی صلاحیت نہیں تھی۔ اس لیے میں اپنا جواب ان کو پوسٹ نہیں کر سکا۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا: کیا اپ سمجہتے ہیں که مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا وہ یہ تھا:

سر سید سے دو قدم آگے: ڈاکٹر اسرار احمد کا انکار حدیث

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم, عصر حاضر کے ایک تجدد پسند رجحان رکھنے والے مفسر قرآن ہیں. انہوں نے انکار حدیث کی انوکھی راہ نکالی ہے. ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیات جن میں سائنسی مضامین بیان ہوئے ہیں, ان کے سلسلے میں اسلاف (صحابہ, تبع تابعین, مفسرین وغیرہ) کی رائیں تو ایک طرف, خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی قطعی نہیں ہوگا. ڈاکٹر صاحب کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں: "...قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے, نہ سائنس کی ہے نہ ٹیکنالوجی کی ہے. اس حوالے سے ایک بڑا

تہذیبوں کا تصادم اور مولانا مودودی

مولانا مودودی کا مضمون "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب" ماہنامہ ترجمان القرآن کے ستمبر 1934 عیسوی کے شمارے میں شائع ہوا تھا. درج ذیل اقتباس سے معوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے گ...

قرآن کریم کی دو رخصتیں

ایک اہم اسٹیٹس پر میرے کچھ تبصرے: Tariq Ahmad Siddiqiقرآن کی وضربوھن والی آیت کی کیا نئی تفسیر ہو سکتی ہے تا کہ اس کی رو سے مرد کا عورت کو (یعنی شوہرکا بیوی کو) مارنے کا اختیار رکھنا ممنوع قرار پائے، اور متعدد دیگر معاملات میں عصری تقاضوں کے تحت قرآنی آیات کے نئے معانی وجود میں آ جائیں؟ 6 نو مبر کو 8:55 ﺻﺒﺢ بجے · Edited · Like Muhiuddin Ghazi طارق صاحب قرآن مجید میں اپنی مرضی کا حکم تلاش کرنے کے بجائے اللہ کا حکم تلاش کریں. اور پهر دیکهیں کہ اللہ کے حکم کی کیا شان ہوتی ہے اور وہ بندوں کے وسیع تر حقیقی مفادات کی کتنی حفاظت کرتا ہے. عصری تقاضوں سے زیادہ اہمیت ابدی تقاضوں کی ہوتی ہے. 6 نو مبر کو 9:40 ﺷﺎﻡ بجے · Like · 3 Tariq Ahmad Siddiqi سورہ نور کی درج ذیل آیت میں نکاح کے سلسلے میں جو ابدی ہدایات پیش کی گئی ہیں (یا آپ کے نقطۂ نظر کی رو سے جن ابدی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور ان میں جو آپشن دیے گئے ہیں، ان کی تمام شقوں پر عمل آوری کی کیا صورت آج لوگوں کو میسر آ سکتی ہے؟: وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ١ؕ اِنْ ي...

مسئلہ ٔ ارتداد پر ایک حدیث کا تجزیہ

[چند سال قبل ہمارے ایک دوست نے مسئلہ ٔ ارتداد پر مولانا عنایت اللہ سبحانی کے حوالے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تاویل پیش کی تھی۔ ان کی تاویل کے مطابق اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اسلام میں تبدیلی مذہب ارتداد کے مترادف نہیں ہے اس لیے مذہبِ اسلام ترک کرنے کی سزا ‘‘قتل ’’ نہیں ہے۔میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تھا جس پر آج اتفاق سے میری نظر پڑ گئی۔ میں نے اپنے لکھے تبصرے کو دوبارہ پڑھا اور قارئین کے فائدے کی غرض سے اس میں چند حذف اور اضافے کے بعد اسے بلاگر پر پوسٹ کر رہا ہوں:۔]

اسلام اور مسلمانوں کو درپیش اصل خطرے

18 اپریل 2018 کو فیس بک پر میں نے درجِ ذیل مراسلہ لکھا تھا: دین خطرے میں ہے۔ مجھے بھی اس جملے سے لفظ بہ لفظ اتفاق ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے خطرے میں ہے، اس پر میری رائے دنیا کے بہت سے لوگوں سے علیحدہ ہے۔ ہمارا دین آج سے چودہ سو سال پہلے وجود میں آیا اور پہلا خطرہ اس دین کو تب پیش آیا جب عالم اسلام میں یونانی فلسفہ داخل ہوا۔ اس وقت کے مسلمانوں نے اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں اسلام میں علوم عقلیہ کا ظہور ہوا اور ہر بات کو عقل کی میزان پر تولا جانے لگا۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق مختلف قسم کے سوالات کیے جانے لگے، وجودی اور شہودی جھگڑا پیدا ہوا۔ وحی و رسالت پر مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور عقیدہ ایسا غیر متزلزل ہوا کہ اس کے اجزائے ترکیبی کے ٹوٹنے بکھرنے ک سلسلہ آج تک جاری ہے۔ دوسرا خطرہ دور جدید میں مغرب کے فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی کے ہمہ گیر عالمی غلبہ سے پیدا ہوا اور عقائد دینیہ کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ بھی سوالات کے دائرے میں آ گئی۔ اب عقیدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین، احکام اور ہدایات کی غیر موزونیت پر گفتگو ہونے لگی۔ ایسے متکلمی...

اسلام میں چہرے کا پردہ اور تجدد پسندوں کا فہم قرآن

1 بعض اسلامی تجدد پسند یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت نہیں ہے۔ لیکن میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ملاحظہ ہو ایک فیسس بک دوست ا۔ش۔ صاحب کے ایک اسٹیٹس پر میرا درجِ ذیل تبصرہ: ذرا تفصیل کے ساتھ احزاب کی ان آیات پر غور کریں: وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ۠ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب ۵۳) يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۵۹ اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (احزاب ۵۹...

تلاوت یعنی پڑھنا اور سمجھنا دونوں؟

عصرِ حاضر کے ایک بلند پایہ عالم دین مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو فیس بک پر’قرآن کو سمجھ کر پڑھنے‘‘ سے متعلق ایک اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا جو درجِ ذیل ہے: ’’قرآن کے الفاظ اللہ کے ہیں انہیں پڑھنا مطلوب۔ یہ الفاظ بامعنی ہیں، انہیں سمجھنا مطلوب۔ یہی پڑھنا اور سمجھنا تلاوت ہے۔‘‘ میں نے موصوف کے اس اسٹیٹس اپڈیٹ پر ایک مختصر گفتگو کی تھی جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں:

اسلام میں شورائیت پر ایک سوال

کیا اسلام میں سرشماری کے بعد کثرت آرا پر مبنی شورائیت قرآن سے ثابت ہوتی ہے؟ یعنی صدر حکومت اس کو چنا جائے جس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں؟ اور ریاست کے معاملات میں صدر ریاست اپنے مشیروں کی اکثریت کی رائے ماننے کا پابند ہو؟ فرض کیجیے، اگر مشیر پانچ ہوں اور چھٹا خود صدر ریاست ہو تو پانچ مشیر مل کر صدر کو تگنی کا ناچ نچا دیں گے، اور اگر مشیر چار ہوں تو ان میں سے تین اگر آپس میں مل جائیں تو صدر صاحب کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ اسی لیے اسلام میں اکثریت کی حاکمیت پر مبنی شورائی نظام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ مشورے میں شریک ضرور ہوں لیکن چلے وہی بات جو حق ہو، اور حق وہ ہے جو طاقت کی بنیاد پر واقع ہو۔ اور طاقت وہ ہے جس کا لوہا طوعا و کرہاً سب کو ماننا پڑے۔

ابن صفی اور اسلامی ادب

بعض نیم عقلی دانشور کہتے ہیں کہ ابن صفی اسلامی رجحان کے حامل تھے اس لیے ان کے ناولوں میں اسلامی پسندی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اور محض اسی لیے وہ ابن صفی کو ناولوں کو بڑا ادب باور کرانے پر تل گئے ہیں۔ دراصل اردو میں اسلامی ادب قحط الرجال کا شکار ہے۔ اسلامی ادب کے نام پر لکھی گئی کہانیوں اور شاعری میں اس قدر واعظانہ اور مفتیانہ باتیں ہوتی ہیں کہ آدمی بوریت کا شکار ہوجاتاہے۔ معاشرہ میں بھی ایسے مذہبی ادب کے کردار کہیں چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔اس قسم کا پاکیزہ ادب لکھنے والوں کے فن میں بھی کوئی خاص ترقی نہیں دیکھی گئی۔ ساری ادبی شہرت اور وقار تو عصمت اور منٹو جیسے ’’فحش‘‘ لکھنے والوں کے حصے میں آئی اور پاکیزہ اسلامی ادب لکھنے والوں کو ادب کے بلند ترین معیار پر نہیں رکھا جا سکتا۔

عمران شاہد بھنڈر اور سارا مغربی فلسفہ

مغربی فلسفہ کی روایت میں ایک فلسفی کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی سامی مذہب کے پیغمبر کے پیش کردہ مقدس متون, ان سے ثابت شدہ عقائد کا اثبات کرے. اگر ایک فلسفی ایسا کرتا ہے تو یہ اپنے فلسفیانہ منہاج کو دریابرد کر دینے کے برابر ہے. فلسفہ میں علمیات کا شعبہ اسی لیے ہے تا کہ فلسفیوں کے ایک معاشرہ میں حصولِ علم کے ماخذ اور طریقوں کا تعین ہو. اس سلسلے میں پہلی اصولی بات یہ ہے کہ فلسفہ میں فلسفیانہ علم کاماخذ انسانی ذہن و دماغ ہوتا ہے نہ کہ انسان سے ماورا کوئی فوق فطری ہستی کسی فلسفی کو بذریعہ الہام و وحی حقیقت کا علم بخشتی ہے. اگر ایسا ہو تو فلسفی کا اپنا کارنامہ کیا رہ جائے گا؟ اور اس صورت میں ایک ہی دور کے فلسفیوں میں علمی اختلافات بھی نہیں پائے جا سکیں گے, کیونکہ اگر وہ فوق فطری یا برتر قوت فلسفیوں کو علم بخشتی ہے تو ایسا علم وقت واحد میں مختلف فیہ کیسے ہو سکتا ہے؟

مذہب اور سائنس دو راستے ہیں

سوال: یہ بات درست ہے  کہ سائنس  اور مذہب الگ راستے ہیں مگر قرآن کائنات پر تدبر کرنے کی ترغیب تو دیتا ہے ۔ اور چونکہ قرآن مذہبی کتاب ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ترغیب کس غرض سے دی گئی ہے؟ (خلیل خاں صاحب) جواب: انسان کے اندر خود یہ ترغیب موجود ہے، اور یہ ترغیب مذہبی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے اور سائنسداں بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب آپ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہی  کہ سائنس اور مذہب دو راستے ہیں تو  سائنس کے معاملے میں سائنس کا راستہ پکڑیے، اور مذہب کے معاملے میں مذہب کا۔ سائنس کے معاملے میں مذہب کا راستہ پکڑنے سے نہ مذہب ملے گی نہ سائنس۔

تہذیبی و مذہبی ادعا کی کامیابی کے اسباب

مختلف قبائل، ذات برادریوں، طبقوں یا قوموں کے معاشی مفادات پر مبنی ایک مجرد سیاسی صف بندی کوئی دیر پا یا مستقل چیز نہیں ہے۔ چونکہ اس سے مستقل جوڑ توڑ پر مبنی سیاسی کشمکش جاری رہتی ہے اور زندگی کا کوئی اونچا آدرش سامنے نہیں آ پاتا، اس لیے ایسی سیاسی صف بندیوں کے اثر سے محض معاشی و سیاسی مفادات پر مبنی ایک کمزور تقریر وجود میں آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیبی قوم پرستی یا مذہبی ادعا پر مبنی تحریکات اس لیے کامیاب ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ زندگی کا ایک ہمہ گیر، جامع اور کلی نقطہ نظر اور آدرش پیش کرتی ہیں خواہ وہ آدرش بجائے خود کتنا ہی غیر آدرش ہو یا دکھائی دیتا ہو۔

آزادی فکر و عمل کا مقصود

ہماری معاشرتی اور تہذیبی بیماریاں کیا ٹھیک وہی ہیں جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں؟ یا بیماریوں کا سبب وہ ہے جو اکثر ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا؟ معاشرے میں چور، غنڈے، بدمعاش، دہشت گرد، جارحیت پسند جس صورتحال میں وجود میں آتے ہیں اس میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانی شخصیت کو گوں ناگوں طریقوں سے مسخ کرتی ہے؟ انسانی معاشرہ گروہوں کی شکل میں ہوتا ہے اور ہر گروہ کا اپنا ایک علیحدہ طریقہ زندگی ہے۔ زندگی کے بہت سے طریقے بہ یک وقت درست ہو سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سب میں انسانی مساوات اور آزادی اظہار و عمل کو اس حد تک ملحوظ رکھا گیا ہو کسی کو کسی کے قول سے دشنام اور فعل سے جسمانی گزند نہ پہنچے۔ لیکن یہ محض ایک قانونی قسم کی بات ہوئی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ خود انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کو کس سمت میں اپنی صلاحیتوں کا ارتقا کرنا چاہیے۔

ذاکر نائیک اور تقابل ادیان

ذاکر نائیک نے تقابلِ ادیان کے نام سے ہندوستان میں پاپولر ٹی وی کلچر کی سطح پر ایک بڑی غیرسنجیدہ روایت شروع کی۔ ٹی وی پر دیگر مذاہب کے رہنما نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس میں دوسرے مذاہب کی کمی کو اچھالا جاتا ہو اور کسی ایک مذہب کو صداقت کا آخری اڈیشن بتایا جاتا ہو۔ ذاکر نائیک نے ایک طرف مختلف مذاہب کی تعلیمات کا مقابلہ پیش کیا اور اسلام کو سب سے زیادہ اچھے اور سچے مذہب کے طور پر پیش کیا، دوسری طرف انہوں نے چند لوگوں کو برسرِ عام کلمہ پڑھوا کر اسلام قبول کرنے کے عمل کو بار بار ٹی وی کے ذریعے مشتہر کیا، تیسری طرف انہوں نے بنیاد پرستی یا فنڈامنٹلزم کے متعلق کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، جو جتنا بنیاد پرست وہ اتنا اچھا مسلمان۔ ان تین اسباب سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا۔