[یہ ایک فیس بک نوٹ ہے جو ۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی کو لکھا گیا۔ مخاطب کا نام حذف کر دیا گیا ہے ۔] محترم … … … ، فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔ واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔ اسی کا نتیجہ ...