مطالعات ترجمہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مطالعات ترجمہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 29 جولائی، 2015

فلسفہ و سائنس میں مادری، تہذیبی و مذہبی زبان کا لزوم



[یہ ایک فیس بک نوٹ ہے جو۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی کو لکھا گیا۔ مخاطب کا نام حذف کر دیا گیا ہے ۔]

محترم … … …،
فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔ واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی  قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم علم و فکر کی ہر سطح پر کم مایگی و بے بسی کا شکار بنے رہے۔ اس کا ایک سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے ہمارے درمیان بقدر ضرورت ایسے حکما و فلاسفہ کا ظہور نہ ہو سکا جو کسی قوم یا تہذیب کو قعرمذلت سے نکال کر بام عروج تک لے جاتے ہیں۔
لیکن آپ کا موقف یہ ہے کہ زبان ترسیل و ابلاغ کا وسیلہ ٔ محض ہے اور فکر و فلسفہ اور سائنس کے باب میں اس کی اس سے زیادہ حیثیت نہیں۔ اور خاطرخواہ محنت کے بعد بھی انگریزی جیسی  غیر زبان میں بھی فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں اس دلیل پر زور دیا ہے کہ ابن سینا اور فارابی، اور غزالی وغیرہ کی مادری زبان فارسی ہونے کے باوجود انہوں نے عربی زبان میں بڑے فلسفیانہ اور سائنسی کارنامے انجام دیے۔ یہ آپ کے نزدیک امرواقعہ یا فیکٹ بھی ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ فی الحال ایک صحیح تاریخی معلومات ہے جس کو موضوع زیر بحث کے تناظر میں ’’حقائق‘‘ یا فیکٹ سے تعبیر کرنا گمراہ کن ہوگا۔ فیکٹ کہہ کر ہم ایک طرف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے لیے انگریزی میں فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے اور دوسری طرف ہم یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ علمی و عالمی نظام کے تناظر میں مختلف سطحوں پر انگریزی ذریعۂ تعلیم ہمارے حق میں ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے۔ اور غالباً آپ کا موقف یہ بھی ہے کہ زبان خواہ کوئی بھی رائج ہو، فکر و فلسفہ اور سائنس اور ٹکنالوجی میں تاریخ ساز ترقی کرنے کی انسانی اہلیت پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
’’فلسفہ کے باب میں زبان کا وظیفہ ابلاغ و ترسیل محض ہے‘‘، میں اس بحث میں جانے سے پہلے ان فیکٹس کی ایک صحیح توجیہ کی کوشش ضرور کروں گا جن پرآپ کا اصرار ہے اور جن سے میرے دعووں پر ضرب پڑ سکتی ہے:
1.     عہد وسطیٰ یا اسلامی عہد میں عربی حکومت کی زبان تھی، عربی پڑھی اور پڑھائی جا رہی تھی، بڑے پیمانے پر ترجمے کیے اور کرائے جا رہے تھے۔ لیکن صرف عربی کا مقتدر زبان کی حیثیت میں ہونا ہی بنیادی سبب نہیں تھا کہ ابن سینا اور دیگر اسلامی فلاسفہ عربی زبان کی طرف مائل ہوئے۔ اگر اس عہد کے عالم اسلام میں عربی زبان اسی طرح (یعنی اسی نوعیت، کیفیت اور حیثیت سے) ایران میں موجود ہوتی جس طرح آج انگریزی برصغیر ہند و پاک اور عالم عرب میں پائی جاتی ہے  اور فارسی ذہن میں عربی زبان کو اخذ و قبول کرنے کی فطری و تہذیبی نیز لسانی صلاحیت نہ پائی جاتی تو فارسی کے اہل زبان طبقے ہرگز عربی کا رخ نہ کرتے، اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔
2.     میرا خیال ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں انگریزی کی جو حیثیت ہے، اس دور کے ایران میں عربی کی وہ حیثیت نہیں تھی۔ عربی ایرانیوں کے لیے سات سمندر پار کی زبان نہیں تھی جس طرح انگریزی ہندوستانیوں کے لیے ہے۔ اردو آبادی کے کسی انگریزی مصنف کو انگریزی میں تحریری مشق بہم پہنچانے میں جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فارسی کے ایک مصنف کو اس دور میں عربی میں لکھنے کے لیے انہیں دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا رہا ہوگا۔ ابن سینا نے جس لسانیاتی ماحول میں آنکھ کھولی اور زندگی گزاری اس ماحول میں عربی ٹھیک اسی طرح ایک غیرملکی زبان، یعنی فارین یا سکنڈ لینگویج نہیں رہی ہوگی جس طرح آج انگریزی ہے۔ فارسی و عربی زبانین اپنے فطری اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب تھیں اور دونوں زبانوں کے افراد میں ایک دوسرے کی زبان پر قدرت حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی تھی۔   
3.     پس ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس پورے دور اور اس پورے جغرافیائی خطے کی لسانی اور لسانیاتی صورت حال کیا تھی، نیز پوری عربی زبان و تہذیب ایرانی زبان و تہذیب پر کس طور اثرانداز ہو رہی تھی۔ صرف تبھی ہم اس سلسلے میں کوئی مثبت یا منفی رائے دے سکتے ہیں کہ سینا و فارابی صرف فارسی کے اہل زبان تھے، عربی کے نہیں، اور انہوں نے ایک غیر اہل زبان کی حیثیت سے عربی کو اپنے فلسفیانہ اظہار کے طور پر منتخب کیا، جیسے ہم آج انگریزی کو منتخب کرتے ہیں۔
4.     عربی ایرانیوں کے لیے کوئی باہری، حملہ آور زبان کی حیثیت میں باقی نہیں رہی تھی کیونکہ وہ ان کی مذہبی زبان بن گئی تھی۔ انہیں اس سے ایک قلبی لگاو ہو گیا تھا۔ وہ اس کو جذبہ عبودیت کے ساتھ سیکھتے اور پڑھتے تھے۔ ہندوستان میں یہ مقام انگریزی کو حاصل نہیں رہا۔ کسی زبان سے مذہبی نوعیت کا لگاو اس زبان کو سیکھنے، اس پر قدرت حاصل کرنے، اور اس میں اظہار کرنے کے بے پناہ امکانات پیدا کر دیتا ہے، اور وہ زبان بمنزلہ مادری زبان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔ آپ نے خود مجھ سے پہلے اس امرواقعہ کو تسلیم کیا ہے کہ عربی ایرانیوں کی مادری زبان تھی۔
5.     پھر یہ تاریخی سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا عرب اسی طرح ایران گئے جس طرح انگریزی ہندوستان آئے؟ نیز قابض و دخیل ہو جانے کے بعد عربوں کا فارسیوں کے ساتھ وہی رویہ تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا؟ عرب جہاں بھی گئے طلب علم کی نیت کے ساتھ بھی گئے۔ وہ مشرق و مغرب کے علوم کے وارث ہونا چاہتے تھے۔ جبکہ انگریز جہاں بھی گئے اپنی تہذیبی احساس برتری کے ساتھ گئے۔ ظہور اسلام کے سبب عربوں کی تہذیبی احساس برتری کا انسداد ایران پر حملہ آور ہونے سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور اسی لیے ان کا وہ رویہ نہیں ہو سکتا تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا۔ البتہ عربوں میں ایک مذہبی احساس برتری ضرور پائی جا سکتی تھی۔ لیکن ایسی احساس برتری انگریزوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ اسی لیے عیسائی مشنریوں کا تانتا سا لگا رہتا تھا۔ لیکن عربوں اور انگریزوں کی مذہبی احساس برتری میں بھی نمایاں فرق تھا۔ عرب ایرانیوں سے ویسا غیرانسانی سلوک نہیں کر سکتے تھے جو انگریزوں نے ہندوستانیوں سے کیا۔ پھر عربوں کی مذہبی احساس برتری کی قلب ماہیئت بھی اسلامی مساوات کی تعلیم کے ذریعے ہو جاتی تھی کیونکہ مسلمان ہو جانے کے بعد ایرانی بھی عربوں جیسے مسلمان ہونے کی قانونی و اخلاقی حیثیت میں آ چکے تھے۔ اس لیے عربوں کا ایرانیوں کے ساتھ جو رویہ رہا وہ بہ حیثیت مجموعی مساویانہ ہی ہو سکتا تھا۔ عرب ایرانیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انہیں علمی و فکری ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ یہی تاریخی اسباب تھے کہ عربوں کے ایران پر غلبے کے تقریباً ساڑھے تین سو سال کے اندر ہی ابن سینا جیسا عبقری پیدا ہوا جو مشرق و مغرب کی علمی و فکری تاریخ پر’’معلم ثانی‘‘ کی حیثیت سے چھایا رہا (معلم اول ارسطو کے لیے مخصوص ہے)۔ اب یہیں سوال اٹھتا ہے کہ انگریزوں یا یورپیوں کےغلبے کے تقریباً اتنے ہی طویل عرصے میں ایشیا و افریقہ کے کسی خطے میں انگریزی میں لکھنے والے کتنے غیر انگریز یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے غیر یورپی فلسفی یا سائنسداں پیدا ہوئے جن کا مقابلہ سینا و فارابی یا خیام و طوسی سے کیا جا سکے؟ جن کا مقابلہ ڈارون مارکس، فرائیڈ، نیوٹن یا آئن اسٹائن سے کیا جا سکے؟ میرا خیال ہے کہ ایسے  فلسفیوں کو تو خود انگریز بھی پیدا نہ کر سکے۔ (جرمن اور فرانسیسی فلسفیوں کے تناظر میں ) عالم مغرب کی فکری  لحاظ سے نسبتاً ایک کمزور زبان جو اپنے بولنے والوں کے قوائے عملی کی بنیاد پر ساری دنیا میں چھا گئ، کیسے کسی ڈارون یا مارکس کو پیدا کر سکتی تھی؟ انگریزی میں تو زیادہ تر اعلیٰ درجے کے مقلد ہی ہو سکتے تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ مغربی استعمار اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانوں، یا غیر مسلموں میں ہی سہی،  کسی ایک عظیم المرتبت فلسفی یا سائنسداں کا ظہور نہ ہو سکا جو انگریزی یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھتا ہو اور اس کی تحریروں نے مشرق و مغرب کی علمی دنیا میں کوئی بڑا انقلاب برپا کر دیا ہو۔ بلاشبہ ایک لمحے کو اس سلسلے میں فرانسیسی یہودی فلسفی ژاک دریدا کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن اپنے وطن الجیریا میں اس کے مذہبی، تہذیبی اور جغرافیائی حالات و مسائل بالکل دوسرے تھے، اور وہ غیر یورپی ہونے کے باوجود مسلمہ طور فرانسیسی اہل زبان تھا اور فرانسیسی لہجے میں فرانسیسی بولنے اور لکھنے پر قادر تھا۔   
6.     زبان و ادب اور فکر و فلسفہ کی ترقی پر گفتگو کرتے ہوئے ’’مادری زبان‘‘ تو ایک عام حقیقت کے اظہار کئے لیے اپنایا جانے والا لفظ ہے۔ عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہی عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مادری زبان میں ہی بڑے کارنامے ممکن ہیں۔ لیکن جب بھی علمی نوعیت کی بحث ہوگی تو دیکھا جائے گا کہ کون فلسفی یا شاعر یا ادیب اہل زبان ہے اور کون نہیں ہے۔ اردو میں لکھنے والے کئی مغربی علما کو کیا ہم اہل زبان تسلیم کرسکتے ہیں؟ مثلاً رالف رسل؟ اگر کوئی یورپی شخص ہندوستان آکر فصیح و بلیغ اردو بولنا شروع بھی کر دیتا ہے تو بھی ہم اس کو اہل زبان تسلیم نہیں کرتے اور اس کے متعلق یہی کہتے رہتے ہیں کہ دیکھیے، یہ انگریز ہیں اور اہل زبان کی طرح اردو بولتے ہیں۔ ہم کبھی اس کو یہ نہیں کہتے کہ ’’یہ اردو کے برطانوی یا انگریز اہل زبان ہیں‘‘، کیونکہ انہوں نے اردو میں خواہ جس قدر بھی مشق بہم پہنچائی ہو وہ فطری نہیں سمجھی جائے گی۔ لیکن ہم اقبال کو اہل زبان قرار دینے میں ایک لمحہ کو بھی نہ ہچکچائیں گے خواہ ان کی مادری زبان پنجابی ہو کہ ہریانوی! مادری زبان اہل زبان ہونے کی شرط لازم نہیں ہے۔ ہم جس طرح علامہ اقبال کو اہل زبان قرار دیتے ہیں، اسی طرح ابن سینا کو اہل زبان کیوں نہیں سمجھ سکتے؟ انگریزی کی بالادستی کے دو ڈھائی سو سالوں کے بعد بھی طلبا جس بڑے پیمانے پر انگریزی میں بولنے اور لکھنے کی جتنی مشق کرتے ہیں، structure drills سے لے کر word usage تک، کیا ایرانی حکما و فلاسفہ اپنی طالب علمی کے دور میں اتنی ہی کدو کاوش کے ساتھ عربی کی مشق بہم پنچاتے رہے ہوں گے؟ یا یہ نسبتاً زیادہ آسان مرحلہ ہوتا ہوگا؟ کیونکہ ابن سینا کا ظہور عربی و فارسی کے اختلاط کے تین ساڑھے تین سو سالوں کے بعد ہی ہو سکا۔ اس پورے عرصے میں فارسی نے عربی کا رسم الخط اپنا لیا ہوگا، لاتعداد عربی الفاظ اپنی اصلی اور منحرف شکل و صورت میں فارسی میں داخل ہوچکے ہوں گے اور ایرانیوں کے لیے عربی سیکھنا بڑی حد تک اتنا ہی آسان ہو چکا ہوگا جتنا کہ پنجابی والوں کے لیے اردو، یا اردو والوں کے لیے ہندی، یا ہندی والوں کے بنگلہ۔
7.     آپ نے کارل مارکس کا حوالہ دیا ہے کہ وہ انگلینڈ کے دوران قیام انگریزی میں بھی لکھتا تھا۔ لیکن مارکس بنیادی طور پر اپنی انگریزی تحریروں کے لیے نہیں جانا جاتا۔ میرا خیال ہے مارکس داس کیپیٹل کسی اور یورپی زبان میں نہ لکھ سکتا۔ اس لیے مارکس اور اس جیسے تمام بائی لنگول مغربی فلاسفہ اس بحث سے خارج ہیں۔
8.      آپ نے علامہ اقبال کا حوالہ دیا ہے کہ ان کی مدر ٹنگ یا مادری بولی پنجابی تھی لیکن مدر ٹنگ اور مدر لینگویج میں فرق ہے۔ مدر ٹنگ یا مادری بولی تو وہی ہے جس کو ہم اپنے خاندان یا بہت آس پاس کے ماحول میں سنتے بولتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ مدر لینگویج یا مادری زبان سے مراد صرف ماں باپ کی، خاندان کی، گلی محلے یا شہر کی زبان یا بولی نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان کا تعین یوں نہیں ہوتا کہ ہمارے ماں باپ یا خاندان کے لوگ چونکہ بھوجپوری (یا پنجابی، اودھی، مگہی یا میتھلی) بولتے آئے ہیں اس لیے ہماری مادری بھی زبان لازماً بھوجپوری ہی ہے! یا ہمارے شہر کے لوگ چونکہ ہندی بولتے ہیں اس لیے ہماری مادری زبان ہندی ہے۔ مادری زبان کے تعین کے پس پشت نسلی، تاریخی اور مذہبی وابستگی کے ساتھ ساتھ صوبائی، ملکی اور جغرافیائی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ مذکورہ تمام ترمختلف عوامل پر مبنی پہلووں سے غور و فکر کرنے کے بعد ہی ایک نسل اور ایک قوم اپنی مادری زبان کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے مادری زبان کبھی ’’فطری‘‘ سے زیادہ ’’ترجیحی‘‘ نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی ترجیحی سے زیادہ فطری نوعیت کی، یا کبھی ان دونوں نوعیتوں کا تناسب یکساں ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک امرواقعہ ہے کہ علامہ اقبال ’’مادری زبان‘‘ پنجابی اس لیے تھی کہ ان کے اہل خاندان پنجابی بولتے تھے۔ لیکن اس بات پر زور دینا کہ ’’اردو علامہ اقبال کی مادری زبان نہیں تھی‘‘ خود صورت واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہوگی۔ کیا اقبال کے دور میں’’مادری زبان‘‘ کی اس ترجیحی سیاست کا وجود تھا جیسا کہ منقسم ہندوستان میں ہے؟ اگر نہیں تو پھر پنجابی اقبال کی مادری زبان ہونے کے باوجود ان کے لیے علمی و فکری لحاظ سے غیر اہم زبان تھی۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے اردو اسی طرح سیکھی تھی جس طرح ہم انگریزی سیکھتے ہیں؟ یا کیا خود اقبال نے اردو اسی طرح سیکھی تھی جس طرح خود انہوں نے فارسی یا انگریزی سیکھی تھی؟ ظاہر ہے نہیں۔ اقبال بچپن ہی سے اردو سنتے اور بولتے آئے تھے اور بہ نسبت فارسی کے اردو سے زیادہ قریب تھے۔ اور اسی طرح وہ انگریزی کے مقابلے میں فارسی سے زیادہ قریب تھے، اتنے قریب کہ ایک میں (یعنی فارسی میں) وہ بڑی شاعری کر سکتے تھے اور دوسری (یعنی انگریزی) میں نہیں۔
9.     آج بھی اگر تحقیق کی جائے تو کہ علامہ اقبال کی فارسی میں اور ایک ایرانی کی فارسی میں خاصا فرق پایا جا سکتا ہے، اور شعروادب اور فکروفلسفہ میں یہی فرق فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایران کا ایک فارسی اہل زبان فارسی کے روزمرہ، محاورات، ضرب الامثال اور دن بہ دن  بدلتی ہوئی کیفیتوں سے واقف ہوتا ہے۔ اقبال کو ہندوستان میں رہنے کی وجہہ سے ایسا موقع میسر نہیں تھا۔ اسی لیے وہ فارسی کے اس درجہ بلند پایہ اور ہمہ گیر شاعرنہیں ہو سکتے تھے جتنے کہ وہ اردو کے تھے۔ انہیں ایران کے لوگوں کے دکھ درد، مسائل، عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں کا ویسا اندازہ نہیں ہو سکتا تھا جیسا کہ ایران ہی کے ایک فارسی اہل زبان کو ہو سکتا تھا۔ اقبال کو برصغیر کے عوام کے دکھ درد اور مسائل  کا ہی کماحقہ اندازہ  ہو سکتا تھا اور وہ برصغیر ہی کی کسی زبان میں موثر شاعری کر سکتے تھے، ایسی موثر شاعری جس میں زبان زد خاص و عام ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
10.لیکن نہیں، آپ فرماتے ہیں کہ اقبال یکساں طور پر ایران میں مقبول ہے۔ اور آپ نے اس سلسلے میں ایک دلیل بھی دی ہے۔ لیکن وہ دلیل ’’یکساں مقبولیت‘‘ کے اس نظریے کو قبول کرنے کے لیے کافی نہیں۔ کیا اقبال کے فارسی اشعار ایران میں زبان زد خاص و عام ہو سکے ہیں؟ کیا اقبال کے فارسی اشعار ہندوپاک کی طرح ایران کی ہر سنجیدہ محفل حتی کہ مسجدوں کے خطبوں تک میں اسی شوق سے پڑھے جاتے رہے ہیں؟ اقبال کا خودی کو کر بلند اتنا والا شعر ہندوستان کی اردو آبادی میں ہی نہیں بلکہ ہندی آبادی میں بھی زبان زد خاص و عام ہے، غالب کے کسی بھی شعر سے زیادہ زبان زد خاص و عام ہے، یہاں تک زبان زد خاص و عام ہے کہ بہار کا ایک رکشا چالک بھی بے اختیار بول اٹھتا ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے! کیا اقبال کے ایسے کسی فارسی شعر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو ایران میں زبان زدِ خاص و عام ہو، اور اس حد تک ہو؟ میرا خیال ہے کہ اقبال کے فارسی شعروں میں زبان زد خاص و عام بننے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ ہو سکتا ہے اقبال کی ایران میں ’’یکساں مقبولیت‘‘ کوئی نئی اور تازہ صورت حال ہو لیکن برصغیر ہندوپاک میں اقبال کی شاعری کی زبان زدیت کے تسلسل میں خود اقبال کی زندگی سے لے کر آج تک ایک دن کا انقطاع بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
11.                          پھر یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں پر فکر اقبال کے جتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے کیا اس کے ویسے اثرات ایران کے مسلمانوں پر مرتب ہوئے؟ اور اگر مرتب نہیں ہو سکے تو اس کی کیا وجہیں تھیں؟ کیا اس کی وجہہ فکر اقبال کا سنی ہونا بھی تھا یا نہیں؟ یا کیا اس کی وجہہ اقبال کی فارسی کا اردو کے مقابلے میں کمزور ہونا تھا؟
12.حالانکہ اقبال فارسی میں اردو جیسی شاعری نہیں کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی فارسیت میں زیادہ دور تک کلام نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ تو فارسی کے اہل زبان بھی تسلیم کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس دور میں ہندوستان میں فارسی زبان مختلف سطحوں پر برقرار تھی، لیکن اردو اس سے کہیں زیادہ سطحوں پر رائج تھی۔ اگر ایک شاعر کسی بھی رائج یا مقتد زبان میں شاعری کر سکتا ہے تو اقبال نے انگریزی میں شاعری کیوں نہ کی (کہ انگریزی اس وقت بھی فارسی سے زیادہ مقتد زبان تھی)؟ میرا خیال ہے کہ صرف اس لیے کہ انگریزی ہندوستان کے عوام کی زبان نہ تھی اور نہ اقبال کی۔ عوام کی زبان تو فارسی بھی نہ تھی لیکن اقبال نے فارسی میں شاعری کی کیونکہ فارسی سے اردو کا گہرا مذہبی و تہذیبی رشتہ تھا۔
13.یہ واضح ہے کہ علامہ اقبال نے بھی مقتدر زبان ہونے کے باوجود انگریزی کو اپنے اظہار کے لیے منتخب نہیں کیا حالانکہ انہوں نے کالج میں انگریزی بھی پڑھی تھی۔ صرف اقتدار کی بنیاد پر فروغ پائی ہوئی زبان کسی قوم یا شخص کو شعروادب اور غوروفکر پر مائل نہیں کر سکتی۔ البتہ اقبال انگریزی میں ابلاغی نوعیت کے خطبے ضرور دے سکتے تھے (مثلا تشکیل الہیات اسلامیہ)۔ مگر کسی فلسفی کے ایک غیر زبان میں ابلاغی نوعیت کا خطبہ دے سکنے کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ محدود معنوں میں زبان ترسیل و ابلاغ کا ذریعہ محض ہے، جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ وسیع تر معنوں میں ایک شخص اپنی مادری زبان یا اپنی ماحولی زبان کے علاوہ کسی سیکھی ہوئی زبان میں اپنے مافی الضمیر کا ابلاغ نہیں کر سکتا۔ ’’کیا لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا‘‘ کا ابلاغ انگریزی میں ممکن ہے؟
14.پھر میں نے پڑھا ہے کہ علامہ اقبال نے عربی سے ایم اے بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اس زبان کو شاعری کے لیے انتخاب نہ کر سکتے تھے کیونکہ ہندوستان کے حالات اور ماحول انگریزی ہی کی طرح عربی کو بھی وسیلہ اظہار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ فکری و فلسفیانہ اظہار کے لیے زبان کا انتخاب کرتے وقت یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ مذہبی، سماجی، نسلی، تہذیبی اور جغرافیائی پہلووں سے ہماری ضروریات کیا ہیں اور خود ان پہلووں میں سے کسی ایک کو کیسے اور کیوں ترجیح دینا ضروری ہے۔
15.اگر اقبال کے عہد میں جو مقام اور حالت فارسی کی ہندوستان میں تھی، وہ فارسی کی نہ ہو کر انگریزی کی ہوتی تو کیا اقبال انگریزی میں شاعری کرتے؟ اور ٹھیک اسی طرز پر پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان میں فارسی کی جگہ عربی مقتدر زبان ہوتی تو کیا اقبال عربی کے شاعر ہوتے؟ میرا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں اقبال فارسی کی جگہ انگریزی یا عربی میں ضرور شعر کہتے۔ میں سمجھتا ہوں اقبال نے اردو اور فارسی میں شاعری اس لیے کی کہ وہ اردو اور فارسی کے صدیوں پرانے ہندوستانی ماحول میں رہ رہے تھے اور یہاں کے حالات و روایات سے واقف تھے۔
16.اقبال جس دور میں پیدا ہوئے تھے اس پورے دور کے ہندوستان کی لسانی حقیقت یہ تھی کہ ایک زبان یعنی اردو دوسری یعنی فارسی پر غالب آ رہی تھی۔ اس دور میں اردو زبان فارسی پر جس قدر غالب تھی اسی قدر اقبال کی اردو شاعری بھی ان کی فارسی شاعری پر غالب تھی۔ چونکہ ہندوستان میں انگریزی کی وہ حیثیت کبھی رہی ہی نہیں اس لیے اقبال جیسا شاعر انگریزی میں شاعری نہ کر سکا۔ انگریزی بالکل صحیح معنوں میں ایک غیر زبان ہے جس میں کوئی سچا ہندوستانی شاعر کچھ موزوں کر ہی نہیں سکتا۔ اور اگر موزوں کرتا بھی ہے تو اس کے کلام کی حیثیت اردو کے تیسرے درجے کے شاعرکے کلام سے بھی فروتر ہوگی۔ اور یہی بات فکروفلسفہ کے سلسلے میں بھی راست آتی ہے۔
17.جو حالت ہندوستان میں فارسی کی تھی، کیا یہ ممکن نہیں کہ بعینہ وہی حالت ایران میں عربی کی رہی ہو اور اسی لیے ایرانی یا فارسی حکما و فلاسفہ عربی میں اپنے علوم و افکار کو تشکیل دے سکے۔ اگر وہ بجائے عربی کے فارسی میں اپنے افکار لکھتے تو میرا خیال ہے کہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دیتے۔ آخر یہ سوچنے میں کیا اور کتنا حرج ہے کہ سینا و فارابی کی عبقریت کو عربی زبان کی بالادستی نے جلا نہیں دی بلکہ کسی نہ کسی حد تک اس کی تخفیف کی  (یا جو بھی لفظ تخفیف کی جگہ مناسب ہو) ۔ کیونکہ فارسی عربی سے بہت پہلے سے ایک بڑی علمی زبان تھی۔ پھر کیا وجہ تھی کہ سینا و فارابی فارسی میں بمقابلہ عربی زیادہ بڑے فکری کارنامے انجام نہ دے سکتے؟ جیسا کہ مودودی نے لکھا ہے کہ جو قومیں تلوار میں شکست کھا جاتی ہیں وہ فکر و فلسفہ کے میدان میں بھی سرنگوں ہو جاتی ہیں۔ فرزندان فارس چونکہ عربوں سے شکست کھا چکے تھے اس لیے وہ اپنی زبان میں بھی فکری لحاظ سے کسی نہ کسی حد تک خاموش ہو جانے پر مجبورومعتوب تھے۔ پس یہ سمجھنا کہ مادری زبان یا اپنے سماجی ماحول میں پائی جانے والی کسی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں شعروادب اور فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے ایک بڑی فکری غلطی ہے (اور انگریزی ہندوستان کے سماجی ماحول میں پائی جانے والی زبان نہیں)۔  میرا تو یہ خیال ہے کہ اگرآج بھی سینا و فارابی کی عربیت پر تنقید کی جائے گی تو معلوم ہوگا کہ ان کی زبان عربوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی حد تک ضرور فروتر تھی۔
18.چونکہ سائنسی معاملات و مسائل میں سماجی و تہذیبی روایات اور سروکاروں سے واقفیت رکھنے کی کوئی بہت (فوری) ضروت نہیں ہوتی اس لیے اپنے سماجی و ثقافتی حالات سے کٹی ہوئی زبان میں وقتی طور پر سائنسی مسائل کا کامیاب اظہار کیا جا سکتا ہے (فلسفیانہ اور سماجی، نفسیاتی، ادبی، مذہبی مسائل کا نہیں)۔ لیکن یہ عمل اگر طویل عرصے تک جاری رہے تو اس سے وہ سماج شدید طور پر متاثر ہوتا ہے جس کے افراد اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر ایک غیرمادری زبان یا غیر تہذیبی زبان میں علمی و فکری کارنامے انجام دیتے ہیں۔ آج ہماری اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں مغرب کے کام کیوں آ رہی ہیں؟ باصلاحیت افراد اس بڑے پیمانے پر مغرب میں کیوں منتقل ہو رہے ہیں؟ اور کیوں ساری ایجادات واختراعات صرف مغرب میں ہی انجام دی جا رہی ہیں؟ برصغیرہندوپاک اور عالم اسلام میں عبقری اور نابغہ روزگار شخصیات کا قحط کیوں ہے؟ ادبا و شعرا کو چھوڑ دیں تو سید احمد، آزاد، جمال الدین افغابی، مودودی، اقبال، سید قطب، حسن البنا وغیرہ درجن بھر شخصیتوں اور کارناموں کے علاوہ ہمارے پاس کیا ہے؟ ڈیسکارٹس، برکلے، کانٹ، ہیگل، ڈارون، مارکس اور فرائیڈ، نیوٹن، آئن اسٹائن، مارکونی ایسے پچاسوں جید و سید حکما و فلاسفہ اور سائنسداں ہمارے یہاں کیوں نہیں پیدا ہو رہے ہیں؟ جیدیت اور سیدیت کے تمام تر امکانات درجن بھر مغربی زبانوں تک کیوں محدود ہو کر رہ گئے ہیں؟ پس جناب والا بھی اگر غور فرمائیں گے تو اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ انگریزی زبان کے اتنے طویل المدت غلبے کے سبب ایسے عظیم نقصانات سے ہمیں دوچار ہونا پڑا۔
19.اہل فارس کے ذریعے عربی میں انجام دیے جانے والے عظیم فلسفیانہ کارنامے اس وجہہ سے وجود میں نہیں آئے کہ انسان اور اس کا ذہن اپنی سماجی و جغرافیائی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں فکروفلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت کے اسلامی فلاسفہ، خواہ ان کی مادری زبان جو بھی رہی ہو، عربی کو شعوری اور غیر شعوری طور پر‘اپنی زبانکا درجہ دیتے اور اس میں کوئی غیریت محسوس نہیں کرتے رہے ہوں گے، کیونکہ عربی زبان سے ان کو طبعی مناسبت رہی ہوگی، ایسی طبعی مناسبت جو دو زبانیں بولنے والی قوموں کے درمیان طویل عرصے تک باہمی اختلاط (تصادم، تنازعات، افہام و تفہیم، ادغام وغیرہ) کے بعد ہی انفرادی سطح  پر وجود میں آتی ہے۔ اور جب ایک بار ایسی طبعی مناسب وجود میں آ جاتی ہے پھر زبان اجنبی یا غیر نہیں رہتی، وہ اپنا لی جاتی ہے، اجتماعی شعور سے لے کر لاشعور تک میں سرایت کر جاتی ہے۔
20. عربی و فارسی ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ فارسی اہل زبان کے لیے عربی، یونانی جیسی کوئی غیرزبان نہیں۔ نہ عربی کے نزدیک فارسی اس درجہ غیر زبان ہے جتنی کہ یونانی۔ ظاہر ہے عربی و یونانی میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ مذہبی اعتبار سے بھی عربی و فارسی تہذیبیں طویل عرصے تک مشرکانہ مزاج کی حامل رہی تھیں۔ اس اعتبار سے بھی دونوں قوموں کے مابین اس زمانے میں ایک غیر شعوری ہم آہنگی رہی ہوگی۔ پھر یہ کہ تہذیبی اعتبار سے بھی دونوں اقوام میں مختلف الاقسام تبادلے ہوتے ہی رہے ہوں گے۔ اور سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی عہد میں فارسی نے عربی کا رسم الخط اپنا لیا۔ یہ فارسی کا عربی کو بحثیت ایک طاقتور اور امکانات سے بھرپور ایک زبان کے طور پر اپنا لیے جانے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ اور دیگر متعدد وجوہ سے عہد وسطیٰ میں فارسی ذہن میں عربی ذخیرۂ الفاظ سے استفادہ کرنے کی صلْاحیت بدرجہ اتم  موجود تھی۔ یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ فارسیوں میں یہ صلاحیت محض اس لیے پیدا ہوئی ہوگی کہ عربی اس وقت کی مقتدر زبان تھی۔ عربی و فارسی میں جیسی کچھ  قربتیں بھی پائی جاتی ہیں وہ صرف اس محدود اور چند روزہ اقتدار کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں جو عربوں کو فارسیوں پر حاصل ہوا۔ وہ نتیجہ ہو سکتی ہیں مدت ہائے دراز تک دونوں قوموں کے اختلاط کا، اقتدار جس کا صرف ایک خارجی سبب تھا۔ اقتدار تو عربوں کو اسپین پر بھی حاصل ہوا لیکن کیا اسپینی زبان میں عربی اسی طرح، اور اسی بڑے پیمانے پر، داخل ہو سکی جس طرح فارسی میں ہوئی؟ نہیں، اسپنی پر عربی اثرات فارسی کے مقابلے میں آٹے کے نمک کے برابر ہی ہوں گے، جیسا کہ میرا خیال ہے۔ پس، یہ جو تاریخی دخول عمل میں آیا اس کی وجہہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ فارسی نے اس وقت بھی عربی کو انتہائی فطری طور پرقبول کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح اردو نے فارسی و عربی کو فطری طور پر قبول کیا اور آج بھی کر رہی ہے، اور آئندہ بھی اگر اردو کو علمی و فکری، حتی کہ کوئی عظیم الشان ادبی کارنامہ بھی، انجام دینا ہوگا تو اس کو پہلے سے کہیں زیادہ عربی و فارسی سے رجوع کرنا ہوگا، نہ کہ انگریزی و فرانسیسی سے۔ زبانیں ایک دوسرے سے اسی صورت میں متاثر ہو سکتی ہیں جب ان کے بولنے والوں میں تہذیبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔ اسپینی زبان پر عربی کے فارسی جیسے اثرات اس لیے بھی نہیں پڑ سکے ہوں گے کہ دونوں زبانوں میں مغرب و مشرق کا تہذیبی فرق پایا جاتا ہے۔ زبانیں فطری و داخلی قربتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی ہیں، نہ کہ محض خارجی اقتدار کے سبب۔ پس، اگر فارسی عربی الفاظ کو اس حد تک جذب کرسکتی ہے تو فارسی بولنے والے افراد کیوں نہیں عربی کو بہت کچھ مادری زبان کی طرح ہی جذب کر کے اس میں کمال حاصل کر سکتے تھے؟ یہی وجہ تھی کہ ابن سینا جیسے عبقری، اور وہ تمام فلاسفہ جن کی مادری زبان فارسی تھی، عربی پر اس درجہ قدرت حاصل کر سکے جو فلسفیانہ کاوشوں کے لیے مطلوب تھی۔ (لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے عربی پر جس درجہ قدرت حاصل کی وہی فکر و فلسفہ کا معیار مطلوب بھی ہے!)۔ یہ سراسر ایک فطری صورت حال تھی، اور دو تہذیبوں کے باہمی تفاعل، ان کے فطری میلان اور ان کی ارتقائی رغبتوں کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ یہ زیادہ تر ایک خود رُو اور خود رَو صورت حال تھی نہ کہ اوپر سے بالجبر نافذ کی گئی، منصوبہ بند استحصال پر مبنی ایک ہمہ گیر کارروائی تھی جو انگریزوں نے ہندیوں کے ساتھ روا رکھی۔
21. اس پورے معاملے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھیے۔ انگریزوں نے اردو زبان کی ترقی کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں (فورٹ ولیم کالج اور دلی کالج)۔ تاہم انگریزی کا اردو پر ویسا اثر نہیں پڑ سکا جیسا کہ عربی و فارسی کا اردو پر پڑا۔ انگریزی سے اتنی قربت کے باوجود انگریزی زبان کے الفاظ اردو میں اس بڑے  پیمانے پر رائج نہ ہو سکے جس بڑے پیمانے پر اس میں عربی و فارسی کے رائج ہوئے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انگریزی ہندوستانیوں کی فطرت اور ان کے ذہن و تہذیب کے لیے اجنبی اور غیر زبان ہے جس میں وہ اعلٰی ترین فکری اظہار کی اہلیت پیدا نہیں کر سکتے۔ جبکہ ایرانیوں پر تین سو سالوں کے اندر عربی کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ لاتعداد عربی الفاظ فارسی کے اپنے الفاظ ہو گے۔ اگرعربوں کی جگہ انگریزوں نے فارس پر حملہ کیا ہوتا تو کیا اس صورت میں انگریزی الفاظ اسی پیمانے پر فارسی میں داخل ہو سکتے جس پیمانے پر عربی کے داخل ہوئے؟ ظاہر ہے یہ ناممکن ہوتا۔ پس فارسیوں کے لیے عربی ایک قریب کی زبان تھی۔ اور اسی لیے اس پر خاطر خواہ عبور حاصل کرنا ان کے لیے بہت کچھ مشکل نہ تھا۔
22. اس طرح کسی زبان میں اعلیٰ ترین فلسفیانہ یا سائنسی کارنامہ انجام دینے کے لیے اس زبان کی تہذیب و ثقافت اور اس کے ہرلحظہ تغیرپذیر اور زندہ سماج کے ’’اندر‘‘ ہونا یا کم از کم اس زبان کی تہذیب و ثقافت سے رابطے میں رہنا اور اس کو اپنی زبان سمجھنا لازم ہے۔ ایک شخص کسی زبان کو اپنی زبان تبھی سمجھ سکتا ہے جب اس کی مادری زبان اور اس زبان (جس کو اپنا سمجھنا ہے) کے مابین فطری و تہذیبی اور مذہبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔
23. دنیا کی زبانوں میں پائی جانے والی قربتوں اور دوریوں کی بنیاد پر بھی ہم اپنے لیے مختلف زبانوں کے اجنبی، کم اجنبی یا زیادہ اجنبی ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ (واضح رہے کہ فارسی انڈو یوروپین اور عربی افروایشاٹک خاندان السنہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں زبانوں میں خاندانی قربت نہیں۔ میں نسلی یا خاندانی بنیاد پر پائے جانے والے قرب و بعد یا اجنبیت و غیریت سے قطع نظر ایک دوسرے مفہوم میں عربی و فارسی کو باہم دگر قریب کہہ رہا ہوں۔ اور وہ مفہوم ہے: فارسی کا عربی الفاظ اور رسم الخط کو اپنا لینے کی صوتی و صرفی قربت)۔  انگریزی، اردو، فارسی اور عربی سے ایک بڑے فاصلے پر واقع ہوئی ہے اور اسی لیے ان مشرقی زبانوں کے بولنے والے انگریزی پر وہ قدرت حاصل نہیں کر سکتے جو شعروادب یا فکر و فلسفہ کا معیار مطلوب ہے۔ اور اسی وجہہ سے ان زبانوں کے بولنے والوں نے انگریزی میں لکھنے کی جرات کی بھی تو کوئی ایسا  کارنامہ انجام نہ دے پائے جو دنیا کے علمی و فکری نظام میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دے، ایسا عظیم انقلاب جو ڈارون، مارکس اور فرائڈ کی فلسفیانہ کاوشوں نے برپا کیا۔ آج ڈارون، مارکس اور فرائیڈ کی فلسفیانہ کاوشیں موجودہ علمی نظام کی بنیاد ہیں۔
24. مستثنیات کے پائے جانے سے کسی قاعدہ کلیہ کی صداقت پر حرف نہیں آتا۔ لیکن اس کے باوجود میں نے ان کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان مستثنیات کی بھی قلب ماہیئت ہوجائے اور اردو یا ہندی کے کاز کو نقصان نہ پہنچے۔ پھر اوپر جتنا کچھ میں نے سوچا ہے اس کی بنیاد پر میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ امرِ واقعہ ہوں تو ہوں، لیکن صورت واقعہ تو ہر گز نہیں ہیں۔ پس، صورت واقعہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان ‘‘حقائق‘‘ کو مستثنیات کے ذیل میں رکھنا مناسب نہیں ۔ زیر بحث معاملے میں استثنی تو اس کو کہیں گے کہ ایک شخص ہندوستان میں پلا بڑھا، انگریزی میں تعلیم پائی اور اس نے فلسفہ کے میدان میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو ابن سینا، ابن رشد، ڈارون یا مارکس یا مغرب کے دیگر جید فلاسفہ کے فلسفیانہ کارناموں کے مساوی ہوں۔ لیکن ایسا ہونا سخت محال ہے۔ اور بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اس سے فکر و فلسفہ کے لیے مادری زبان کے لزوم والے قاعدہ کلیہ پر کچھ فرق نہیں پڑ سکتا۔
25. ور اب لگے ہاتھوں انگریزیت کو تمام برصغیرہند سے بے دخل کرنے والے چند ریڈیکل سوالات: فی زمانہ ایشیا و افریقہ میں انگریزی یا یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں اہل زبان کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر ہیں تو انہوں نے اب تک کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ اور ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایشیا کے چند ملکوں مثلاً ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ میں ایک ہندوستانی نسل کا، یا کوئی اینگلو انڈین ہی سہی، واقعی انگریزی کا اسی پائے کا اہل زبان ہو سکتا ہے جس پائے کے اہل زبان یورپ امریکہ میں پائے جاتے ہیں؟ اور بالفرض محال اگر وہ اس پائے کا اہل زبان ہو بھی جائے، تو ایسے اہل زبان کا سماجی رول برصغیر ہندوپاک کے سماجی ماحول میں کیا ہو سکتا ہے؟ اور ایسے ہی کسی اہل زبان کے سماجی استعمالات اور فوائد کیا ہیں؟ اور کیا ایسے اہل زبان انگریزی میں برصغیر ہند کے پونے دو ارب افراد کے حقیقی مسائل، ان کے دکھ درد، ان کے جمالیاتی احساسات میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟ اور شریک ہونا تو دور، ایسے اہل زبان برصغیر کے تمامتر حالات و مسائل سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں؟ پھر یہ کہ ادب اگر سماجی حالات کا آئینہ دار ہے تو بتایا جائے کہ ہندوستانی انگریزی ادب نے ہندوستانی افراد کے حقیقی مسائل کی کتنی عکاسی کی ہے؟ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ انگریزی نے ہندوستان کے تمام تر سماجی حالات کی خاطرخواہ عکاسی کی بھی ہے تو ہندوستانی انگریزی ادب، ہندوستانی اردویا ہندی ادب سے کس درجہ بلند تر ہے؟ ہندوستان کی انگریزی شاعری اور ناول میں اور اردویا ہندی کی انگریزی شاعری اور ناول میں بہ اعتبار کیفیت اور کوالٹی کیا فرق ہے؟ اور کیا ہندوستان کا پورا انگریزی ادب ایسے تقابلی مطالعے کے بعد نقلی ثابت ہو کر ڈسٹ بن کی نذر نہیں ہو جائے گا ؟
26. پس، اگر ادب کے میدان میں ہندوستان میں انگریزی کا یہ حال ہے توپھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی میں سوچا جانے والا فلسفہ ہندی یا اردو میں سوچے جانے والے فلسفے سے بہ اعتبار گہرائی و گیرائی اور بہ اعتبار کیفیت زیادہ وقیع اور کارآمد ہوگا؟ کیونکہ ادب پہلے آتا ہے اور فلسفہ اس کے بعد، ادبی ہیئتوں اور اصناف کی تشکیل پہلے ہوتی ہے اور فلسفیانہ تجرید کی اس کے بعد؛ کیونکہ شعر و ادب فلسفی کو زبان سکھاتے ہیں، اس کو فلسفیانہ اسالیب کی تعلیم دیتے ہیں، اس کو علمی مسائل میں کلام کرنے کے آداب فراہم کرتے ہیں، کیونکہ فلسفہ کا عمل زبان کے اندر ہوتا ہے اور زبان بہ اعتبار ماہیئت و نوعیت آرٹ سے زیادہ قریب ہے نہ کہ سائنس سے۔
میرا خیال ہے اس سلسلے میں مجھے مزید مطالعہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ میں نے انتہائی عجلت میں لکھا ہے جس میں نہ معلوم کیا کیا خلاف واقعہ نکات در آئے ہوں گے۔ لیکن غوروفکر کا عمل اسی طرح جلا پاتا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ میری علمی غلطیوں پرگرفت نہ کرتے ہوئے (لیکن ان کی نشاندہی کے استثنیٰ کے ساتھ) میرے پیش کردہ فکری نکات پر توجہ فرمائیں گے۔ 
آپ کا
 طارق احمد صدیقی، حیدرآباد
۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی

مغرب سے فلسفیانہ تراجم

اردو میں مغربی طرز کی آزاد فلسفیانہ تفکیر کی کوئی قابل ذکر روایت نہیں پائی جاتی. فکر کے نام پر جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے اس کی نوعیت زیادہ تر مذہبی ہے. البتہ مارکسی نظریہ اور اس کے بنیادی ماخذوں کا ترجمہ, تفہیم و تشریح ضرور ہوئی ہے لیکن اردو میں اس پر کوئی بنیادی اضافہ نہیں ہو سکا. ترجمہ و تشریح کی دستیابی کے لحاظ سے مارکسیت سے بھی زیادہ برا حال جدیدیت وجودیت، ما بعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات جیسی چیزوں کا ہے. مذہبی افکار پر مبنی تحریروں سے صرف نظر کر لیں تو جتنا کچھ فکری سرمایہ ہمارے پاس ہے, اس پر ایک طائرانہ نظر سے ہی دنیائے فکر و نظر میں ہماری غربت و افلاس کا منظر سامنے آ جاتا ہے.
اردو میں مغرب سے خالص فلسفیانہ اور جدید ترین افکارونظریات پر ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتابوں کا ترجمہ بہت کم ہوا ہے. انگریزی یا دیگر مغربی زبانوں میں ان موضوعات پر مطالعہ اور غور و فکرکے بعد جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ اردو کے وسیع المطالعہ قارئین کی سمجھ میں آنا تو دور ، اردو کے بعض جید نقادوں اور محققوں کے لیے بھی چیستان بن جاتا ہے۔ یہ چند لوگ لوگ یا تو کوئی مفصل کتاب لکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں یا پھر متفرق مضامین لکھ کر۔ اردو میں اس قسم کی جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں انہیں کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ شروع نہیں کیا گیا, الا ماشا اللہ. بلکہ مصنفوں نے وقتاََ فوقتاََ جو مضامین مختلف رسائل و جرائد میں لکھے، انہیں ایک ترتیب کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے۔ گوپی چند نارنگ کی ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات ایسی ہی ایک کتاب ہے جس کے بعض مضامین ابتداً ماہنامہ شبخون اور دیگر رسائل میں شائع ہوئے تھے. حالانکہ اس میں نظم و ضبط پایا جاتا ہے لیکن اولاً, وقتاً فوقتاً مضامین کی شکل میں لکھا جانا ہی اس کتاب کی وہ بنیادی خصوصیت ہے جس کے سبب اس کا مقابلہ ایسی کتاب کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جوابتدا ہی سے اس ارادے کے ساتھ شروع اور ختم کی گئی ہو کہ اسے ایک مکمل کتاب کی شکل میں منظر عام پر آنا ہے اور اس سے قبل اس کے مضامین کو شائع نہیں کرنا ہے, ثانیاََ، بعض حلقوں نے نارنگ پر الزام لگایا ہے کہ اس کتاب کے مشتملات خاصی تعداد میں ترجمہ شدہ مواد پر مبنی ہیں جس کا صفحہ وار حوالہ نہیں دیا گیا ہے، اگر یہ الزام صحیح تو اس سے مصنف کا منشا معلوم ہوتا ہے کہ کتاب پر یہ اعتراض نہ کیا جا سکے کہ اس کا ایک خاصا حصہ ترجمہ پر مبنی ہے, ثالثاً, مصنف کا یہ منشا بھی واضح ہے کہ ایک طرف تو وہ ساختیات و مابعد کا ابتدائی تعارف پیش کرنا چاہتا ہے, لیکن ادق اور عسیرالفہم نکتوں کی عام فہم تسہیل کے بجائے اس نے اس پوری فکری صورت حال کا علمی رشتہ زمانہ قدیم و متوسط کے ثقافتی ورثوں سے جوڑ دیا, جو نظریہ سازی پر مبنی کارنامہ ہے اور جدید ترین فکر کے ابتدائی تعارف و تسہیل کے ساتھ نہیں چل سکتا. اگر انہیں ابتدائی تعارف پیش کرنا تھا, تو انہیں مفصل صرف یہی کرنا چاہیے تھا, جو انہوں نے کماحقہ پورا نہ کیا. کورس ان جنرل لنگوسٹکس ایک ضخیم کتاب ہے اور اس کی تفہیم پر جس قدر کتابیں لکھی گئیں, ان سب کے مطالعے کے بعد مصنف کو چاہیے تھا کہ بہ تمام و کمال اس بات کو بتاتے کہ ساختیات اپنی تمام تر تفصیلات میں کیا ہے, یہی موضوع اڑھائی تین سو صفحات بلکہ اس سے زیادہ کا متقاضی تھا, کجا کہ آپ اس کو پندرہ بیس صفحات میں سمیٹ دیں.
اور یہ بات بھی ہے کہ جب تک ہم کسی فکر یا فلسفہ کی بنیادوں سے واقف نہ ہوں، تب تک اس سے متعلق بحثیں ہمیں اپیل نہیں کر سکتیں ماخذ اور بنیاد کا درجہ رکھنے والے فکری کارناموں کا اردو میں ترجمہ نہ ہونے کے سبب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض عالمی اردو شخصیتیں شدومد سے پس ساختیات، رد تشکیل اور مابعدجدیدیت پر بحث و مباحثہ میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو اس سب سے بالکل بے نیاز نظر آتے ہیں، اور کچھ ہیں جن کے نزدیک یہ جدید افکار و نظریات ہی” سمجھ سے باہر “ہیں۔ اور جو لوگ انتہائی شد و مد سے جدید ترین افکار و نظریات پر بات کرتے ہیں، وہ بھی ایک قسم کا ترجمہ ہی کرتے ہیں، یعنی پہلے وہ انگریزی میں ایک فکری متن پڑھتے ہیں اور اسی میں کہیں کہیں کچھ تصرف یا حذف و اضافہ کرکے جزیرہ نما کے حالات پر اس کو چسپاں کرتے ہوئے کوئی فکری مضمون لکھ دیتے ہیں۔ ایسے مضامین اپنے موضوع کی بنیادی معلومات فراہم نہیں کرتے, اور نہ ان میں موضوع سے متعلق تمام ضروری لفظیات و اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے، اس سے ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے قاری کی معلومات میں جگہ جگہ خلا پید ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں جدید افکار و نظریات کا ایک ناکافی اور ناقص فہم پیدا ہوتا ہے، دوسرا نقصان اسی پہلے نقصان کا نتیجہ ہے جس میں معاصرانہ چشمک کا بھی اہم رول ہے۔ اس صورتحال کو ہم یوں سمجھیں: فرض کیجیے ایک مصنف اردو میں جدیدیت کی بنا ڈالتا ہے اور دوسرا مابعدجدیدیت کی تو پہلا دوسرے کو قبول نہیں کرتا،اور دوسرے کا یہ کہنا ہے کہ جدیدیت کا دور تو گزر چکا، اب مابعدجدیدیت کا دور ہے! اس قسم کی بحثوں کا ظاہری سبب یہ ضرور ہے کہ دونوں مصنفوں میں ایک معاصرانہ چشمک ہے لیکن اس کا حقیقی سبب یہ ہے کہ جس نے جدیدیت یا مابعدجدیدیت کی بنا ڈالی ہے ، خود اس نے اردو میں وجودیت اور جدیدیت سے متعلق بنیادی کتابوں کو نہیں پڑھا ہے اور صرف مغربی زبانوں میں اپنے مطالعہ کو اردو میں جدیدیت کی تحریک برپا کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا۔ غیر زبان سے کسی فکر کو درآمد کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ اس سے متعلق بنیادی کتابوں کا باقاعدہ ترجمہ کیا جائے، نہ کہ غیر زبان میں سو پچاس کتابیں پڑھ کر اپنے طور پر اردو میں وہ فکر درآمد کی جائے۔ اس سے یہ پتا نہیں چل سکتا کہ فکری درآمدات کرنے والے ایک مصنف نے غیرزبان میں رائج کسی فکر کے کن اجزا کو درآمد کیا اور کن کو ترک کر دیا، اس کے ساتھ ہی، اس نے اردو میں پرورش پانے والی درآمد شدہ نوزائیدہ فکر کا اوریجنل ماخذ ایک غیرزبان کو بنا دیا۔ اس کے سبب یہ ہوا کہ اردو قاری غیرزبان کا محتاج ہو کر رہ گیا ۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ کسی فکر اور اس سے متعلق تمام کتابوں کا ترجمہ دنیا کی کسی زبان میں ممکن نہیں لیکن جس قدر کتابیں ہم ترجمہ کر سکتے ہیں،کیوں نہ کریں جبکہ اسی پر فکری دیانت داری موقوف ہے۔ بصورت دیگر ماخذ کے ترجمہ سے پہلے اگر ایک مصنف کسی فکر کو درآمد کرتا ہے, اس کی بنیاد پر پوری ایک تحریک کھڑی کرنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت دانستہ یا نادانستہ ایک دلال کی سی ہوجاتی ہے۔اور ایک دلال ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ فریقین میں کوئی براہ راست مکالمہ ہو۔ اسی طرح ترجمہ کی سطح پر جب ہم ایک زبان بولنے اور سمجھنے والوں کو اصل مصنف سے بذریعہ ترجمہ براہ راست مکالمہ کراتے ہیں تو گویا قاری کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ متن کو اپنی طرح سمجھے. ایک شخص جو اردو میں وجودیت، جدیدیت، مابعدجدیدیت، ساختیات، پس ساختیات، ردتشکیل یا کوئی دوسری بڑی فکری تحریک برپا کرنا چاہتا ہو، اورترجمہ پر اس کی توجہ نہ ہو، اور وہ اپنی مطلوبہ درآمد شدہ فکر کے بنیادی ماخذوں کا ترجمہ کرانے کی تحریک نہ چلائے یا خود چند ایک بنیادی ماخذوں کا ترجمہ نہ کرے، تو اس سے درج ذیل باتوں کا علم ہوسکتا ہے:
1۔ یا تو اس مصنف کی دلچسپی باوائے فکر بننے میں زیادہ ہے
2۔ یا تو اس کے اندر یہ جرات نہیں کہ وہ کھل کر ترجمہ کی تحریک برپا کرنے کی بات کرے
3۔ یا وہ یہ سمجھتا کہ اردو میں ترجمہ کی مانگ نہیں اور اردو میں ترجمہ کرنا بے فائدہ ہے.
4۔ وہ مصنف کے مرتبے سے نیچے اترنا اور مترجم نہیں کہلانا چاہتا (اس صورت میں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں ترجمہ ایک دوئم درجے کی شئے ہے)۔
7۔ اس کے اندر باضابطہ ترجمہ کی صلاحیت نہیں پائی جاتی یا ترجمہ کی محنت وہ سرے سے کرنا ہی نہیں چاہتا۔
8۔ اس کی فکری درآمدات پروپگنڈہ ہیں کیونکہ وہ اپنی مطلوبہ فکر کو اس کی اصل شکل میں بذریعہ ترجمہ پیش نہیں کرنا چاہتا۔ وہ سیلیکٹیو ہے۔ اور ریزرویشنس کا شکار ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی جب مغربی افکار کو درآمد کرنے والا مصنف اپنی زبان کے قارئین کو یہ بتاتا ہے کہ ان جدید ترین مغربی افکار کا اصل ماخذ تو دراصل ہمارے ''مشرقی افکار'' ہی ہیں تو وہ گویا جڑوں کی طرف واپسی کے نقطۂ نظر کو بھی فروغ دیتا ہے جس کا نتیجہ صرف یہی ہونا ہے کہ اپنی زبان کے لوگ علمی و فکری استغنا میں اور ''ہمارے یہاں سب کچھ پہلے ہی موجود ہے'' کے زعم میں مبتلا ہو جائیں جس کے بعد فکری ترقی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی.