نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مذہب اور سائنس دو راستے ہیں

سوال: یہ بات درست ہے  کہ سائنس  اور مذہب الگ راستے ہیں مگر قرآن کائنات پر تدبر کرنے کی ترغیب تو دیتا ہے ۔ اور چونکہ قرآن مذہبی کتاب ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ترغیب کس غرض سے دی گئی ہے؟ (خلیل خاں صاحب)
جواب: انسان کے اندر خود یہ ترغیب موجود ہے، اور یہ ترغیب مذہبی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے اور سائنسداں بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔
جب آپ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہی  کہ سائنس اور مذہب دو راستے ہیں تو  سائنس کے معاملے میں سائنس کا راستہ پکڑیے، اور مذہب کے معاملے میں مذہب کا۔ سائنس کے معاملے میں مذہب کا راستہ پکڑنے سے نہ مذہب ملے گی نہ سائنس۔
اور مذہب کے معاملے میں سائنس کا راستہ پکڑنے میں بھی یہی ناکامی آپ کو ہاتھ آئے گی۔
قرآن یہ جو کہتا ہے کہ کائنات میں غور کرو تو اس کا مقصد سائنسی نہیں مذہبی ہے۔ یعنی انسان اس  اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہو جائے جس نے کائنات کو خلق کیا ہے۔
لیکن سائنس جب کہتی ہے کہ کائنات میں فکر و تحقیق کرو تو اس کا مقصد خالص علمی ہے، یعنی یہ جاننا ہے کہ یہ کائنات کیوں ہے؟ یہ آپ سے آپ پیدا ہو گئی یا کوئی اس کا خالق ہے؟ اگر کوئی اس کا خالق ہے تو وہ آپ سے آپ کیونکر پیدا ہو گیا؟ کیونکہ اگر ایک چیز یعنی یہ کائنات آپ سے آپ وجود میں نہیں آ سکتی تو دوسری چیز یعنی خدا آپ سے آپ کیسے وجود میں آسکتا ہے؟ اگر خدا ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا تو اسی طرز پر یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی؟ غرض سائنسداں کو ہر ایک رخ پر سوچنا پڑتا ہے اور سائنس میں جو بھی تحقیق ہوتی ہے وہ کسی مذہبی کتاب میں درج عقیدہ کے دائرے میں نہیں ہو سکتی۔ سائنسداں اپنے حسب منشا کوئی بھی عقیدہ اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن وہ جو سائنسی عقیدہ بھی اختیار کرے، وہ انسانی ذہن کی اپج ہو نہ کہ آسمان سے نازل ہوا ہو۔ اگر سائنسداں آسمانی عقیدہ کو مان لے گا تب تو وہ مومن اور مذہبی ہو گیا۔ پھر اس کو آزادی کہاں ہے کہ وہ اپنی انسانی عقل کی بنا پر مفروضات قائم کر سکے؟
اس لیے مذہب اور سائنس دو راستے ہیں۔ بیک وقت دونوں پر نہیں چل سکتے۔ البتہ یہ کر سکتے ہیں کہ مختلف اوقات میں جہاں تک ممکن ہو مذہب پر چل لیں اور جہاں تک ممکن ہو سائنس پر چل لیں۔ (طارق صدیقی)

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...