جو لوگ یہ دعوی کریں کہ ان کے پاس ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ماضی و حال کی تاریخوں میں اپنوں اور غیروں سے وہ دست و گریبان ہوں، ہر قسم کے علمی، تہذیبی,معاشرتی اور دیگر قسم کے مسائل میں وہ گرفتار ہوں، بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہونے کے بعد بھی وہ ٹیکنالوجی میں اس قدر پسماندہ ہوں کہ ابھی تک اپنی زبانوں میں کمپیوٹر سائنس کے لیے انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکچر تک نہ لکھ سکے ہوں اور زندگی کے ہر شعبے میں سوائے خدا کی دی ہوئی فطری نعمتوں کو چھوڑ کر سخت تہی دامنی، محتاجی اور بیچارگی میں مبتلا ہوں، ایسے لوگوں سے کیا یہ نہیں پوچھنا چاہیے
کہ بھائی تمہارا وہ مکمل نظام حیات کس کام کا جو تمہارے ذاتی مسائل کو بھی دور نہیں کر سکتا؟اس کے برعکس جن لوگوں کا یہ دعوی ہی نہ ہو کہ ان کے پاس کوئی مکمل نظام ہے یا ان کے پاس کوئی لکھی لکھائی کتاب ہے جس میں زندگی کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے، بلکہ وہ یہ کہتے ہوں کہ دراصل ہم زندگی کے ہر شعبے میں کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اپنی عقل کو بہت بڑی حد تک آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہے مفروضات قائم کرے، پھر اس کے بعد ہی ہم ان مفروضات کی بنا پر زندگی کے مختلف شعبوں میں تحقیق کرتے ہیں، کبھی کامیابی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔ بلاشبہ ہم مقدس کتابوں کا احترام کرتے ہیں۔ زندگی کے مقدس شعبوں میں ان پر حتی الامکان عمل کرتے ہیں، لیکن اپنی طرز معاشرت میں ان کی ہر بات کو حجت کی طرح اپنے اوپر مسلط نہیں رکھتے۔ طوطے کی طرح ہر وقت اپنی کتاب مقدس کے جملے نہیں سناتے رہتے۔ بلاشبہ ہم کو یہ قطعی علم نہیں کہ اس کائنات کا سبب کیا ہے، اور یہ سبزۂ و گل، جانور اور انسان، دریا، سمندر اور پہاڑ، چاند سورج اور ستارے، وغیرہ اپنے آپ بن گئے ہیں یا کسی نے انہیں بنایا ہے اور اس قطعی علم کی عدم موجودگی میں ہماری مقدس کتابیں جو کہتی ہیں ہم اس پر حتی الامکان یا بدرجہ مجبوری ایمان بھی لاتے ہیں ان پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپنے طبعی جذبہ تجسس کا انسداد نہیں کرتے۔ اپنے اندر کے سوالات کو مرنے نہیں دیتے۔ ہم سے جب بھی کسی مذہبی پیشوا نے کہا کہ اس کائنات کو خدا نے بنایا تو ہم نے سمعنا و اطعنا کہنے کے بجائے اس جواب کا فلسفیانہ تجزیہ کیا اور خوب کھول کھول کر بیان کر دیا کہ نہیں، یہ جواب قطعی نہیں ہے، اس جواب میں یہ دقت ہے۔ اگرچہ اس کے باوجود ہم اکثر انہیں کتابوں پر ایمان لائے جن پر ہمارے فلسفوں اور سائِنسوں نے اپنے دائرے میں تنقید کی، یعنی ہم رہے زیادہ تر مومن ہی لیکن ہمارے درمیان جو غیر مومن تھے ہم نے ان کی زندگی اجیرن نہیں کی، اور ماضی میں اگر کی تو اب اس روش کو ہم نےبہت بڑی حد تک ترک کر دیا ہے۔
ہمارے اندر جس قدر جامد عقائد موجود تھے اور ہیں ہم نے ان سب کا فلسفیانہ تجزیہ و تحلیل کیا لیکن اس کے باوجود ہم اس کائنات کی کنہ تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی اس کوشش میں ہر جہت سے ناکام و نامراد رہے۔ درحقیقت ہم نے اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود وہ سعی کی جسے پیغمبرانہ کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ آگ لینے گئے تھے اور پیغمبری مل گئی۔ لیکن ہمارے ساتھ اس کے برعکس ہی ہو سکا۔ یعنی ہم پیغمبری لینے گئے تھے اور آگ مل گئی! اور اس آگ سے ہم نے بہت فائدہ اٹھایا۔
پیغمبری کیا ہے؟ فلسفہ کی زبان میں کہیں تو "راز فطرت کو آشکار کرنا"۔ ہم نے اپنی سی کوشش کی، جی جان لگا کر راز فطرت کو آشکار کرنے چلے لیکن افسوس کہ یہ ہم سے اب تک نہ ہوسکا۔ البتہ اس کی جگہ کچھ دوسری اور کار آمد چیزیں مل گئیں جنہیں ہم نے زاد راہ اور سامان سفر سمجھ کر قبول کر لیا۔ اور ان کی مدد سے بھی اپنی راہوں میں روشنی کی تاکہ اسی دنیا کی زندگی میں اپنے کمزور، وقتی، عارضی اور سیال مفروضوں کی بدولت تحقیق و تجسس کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں۔ وہ لوگ جو ہم سے حسد کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مادی ترقی کی اندھی دوڑ لگا رہے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنی کسی منزلِ نامعلوم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے حاسدین ہمارا مضحکہ اڑاتے ہوئے ہم سے کہہ رہے ہیں: میاں کدھر جا رہے ہو، کچھ خبر بھی ہے؟ آؤ ہماری سمت چلو۔ ہمارا ایک قبلہ ہے۔ ہم ادھر ہی بڑھ رہے ہیں۔ چھوڑو مادیت کی یہ بے لگام دوڑ۔ تم نے اپنی کرتوت سے خشکی و تری میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اب ہمارا یہ امرت رس، ہمارا یہ آب حیات پی لو۔ مست ہو کر ناچنے لگوگے۔ اور ہمارا قبلہ مقصود تو ایسی جگہ ہے جہاں محض سکون ہی سکون ہے! ہم ایسے کرمفرماؤں سے کہتے ہیں کہ آپ کی سمت اور آپ کا قبلہ آپ کو مبارک۔ ہم اسی سمت سے آ رہے ہیں جدھر کو آپ جا رہے ہیں۔
بلکہ اب تو ہم نے سمت کا تعین کرنا بھی چھوڑ دیا ہے، کیونکہ جب معلوم ہی نہیں کہ کدھر جانا ہے تو سمت کا تعین کیوں؟ چنانچہ ہم ہر ایک سمت میں کچھ دور چلتے اور پلٹ آتے ہیں۔ اور دیکھا آپ نے کہ ہم نے بھی اتنی ہی مسافت طے کی ہے جتنی آپ نے لیکن ہمارے پاس سامان سفر زیادہ ہے اور باربرداری کے لیے سواریاں بھی آپ سے زیادہ ہیں، ہماری معلومات بھی آپ سے زیادہ ہیں، اور آپ کی سمت بھی ایک سمت ہے جس کے چپے چپے سے ہم واقف ہیں، اس لیے قبلہ، آپ ہمیں معاف فرمائیں اگر ہم آپ کی وحدانی سمت میں نہیں چلتے۔ لیکن کبھی آپ نے خود سے سوال کیا کہ اس یک سمتی و یکسوئی نے آپ کو کیا دیا؟ آپ کو یہ اصول معلوم ہی نہیں کہ جتنی زیادہ سمتوں میں بھٹکیں، اتنا زیادہ سامان سفر ملے گا اور صداقت کی تلاش کے سفر میں اتنے زیادہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر ہم آگے بڑھ سکیں گے۔
اگر تنقید کا سخت ترین معیار کوئی ہو سکتا ہے تو بلاشبہ اس کی بنیاد پر ہم پیغمبر کہلانے کے ہرگز لائق نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم راز فطرت کو آشکار نہ کر سکے۔ سقراط نے تو ڈھائی ہزار سال پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ علم کی معراج یہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہم کچھ نہ جان سکے۔ حالانکہ یہ قول بظاہر متناقض ہے۔ جب کچھ جانتے ہی نہیں تو یہ کیسے جان لیا کہ ہم کچھ نہ جان سکے؟ ایسا کہنے والا دراصل اپنی انکساری کے باعث ایسا کہتا ہے۔ تو علم والوں کے اندر اس انکسار کا پایا جانا ضروری ہے لیکن اگر صرف اس جملے کی حد تک بات ہو تو یہ پورا جملہ باطل ہے۔ ہم کچھ نہ کچھ تو جانتے ہیں۔ خواہ وہ کتنا ہی کم ہو اور کتنی ہی بے حقیقت ہو۔
پس، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے علوم و افکار میں بڑے زبردست علمی خلا پائے جاتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندر صرف خلا ہی خلا ہے جس میں کہیں کہیں پر علم ہے۔ اور اپنے وجود کے خلا میں موجود انہیں حقیر علوم و افکار کے بدلے دنیاوی نعمتوں کو برتنے اور ان کے انتظام و انصرام کا زبردست ہنر ہم۔کو بارگاہ فطرت سے عطا ہوا۔ یہ بھاپ، برق اور ایٹم کی قوتیں، یہ تھکان محسوس نہ کرنے والے انجن، آلات اور اوزار، یہ موٹر گاڑیاں، ٹرینیں، راکٹ اور ہوائی جہاز، یہ ریڈیو، ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن، یہ انٹرنیٹ اور موبائل، یہ ہماری حیاتیاتی، کیمیائی اور طبیعیاتی تحقیقات، یہ نئے نئے مادی یا مصنوعی عناصر اور جین ایڈیٹنگ کے ذریعے انسانوں کی ایک نئی اور زیادہ مضبوط اور زیادہ خوبصورت نسل پیدا کرنے، اور مریخ اور ٹائٹن پر رہائش گاہیں بنانے کا ہمارا خواب، یہ سب ہمیں اسی کوشش سے حاصل ہوئیں جو ہم نے اسرار کائنات کو فاش کرنے جذبے سے سرشار ہو کر انجام دیں۔ درحقیقت راز ہستی کو کھولنے کے مقابلے میں یہ مادی ترقیاں ہرگز کوئی بڑی بات نہیں، اور اگر آخرت واقعی کوئی چیز ہے تو اس آخرت کے مقابلے میں یہ مادی لوازمات پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے لیکن یہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ بھوکے پیٹ بھجن نہیں، اور جو دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ سو ہم نے بارگاہ فطرت کے ان بیش بہا انعامات کو قبول کیا لیکن اپنے جذبہ تجسس سے، اپنے سنس آف انکواِئری سے ہرگز ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ اگر ہم آخرت کو مان لیتے اور آپ کی طرح اپنا ایک مستقل عقیدہ قائم کر لیتے تو نئے نئے عقائد اور مفروضات کے ساتھ اتنی بڑی بڑی یا بقول آپ کے اس قدر مادی اور بے حقیقت ایجادات و انکشافات کیونکر سامنے آ سکتے جن سے آپ بھی فایدہ اٹھانے پر مجبور ہیں؟ یہ نہ سمجھیں کہ ہماری ان اختراعات کا ہمارے ان متنوع عقائد و افکار سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہمارے عقائد آپ کی طرح پختہ اور جامد ہوتے یا گھوم پھر کر ایک ہی بات کہتے تو جیسے آپ اس وقت باہمی مار دھاڑ میں مشغول ہیں ایسے ہی ہم بھی رہتے۔
ہماری پیغمبرانہ جستجو تو اب بھی جاری ہے اور اس عمل میں ہر دن ایک نئی روشنی ایک نیا انعام ہم پر نازل کیا جاتا ہے۔ ہم ہر دن ایک نئی ٹیکنالوجی پیدا کرتے ہیں اور نئے نئے طریقے اور تدبیریں سوچتے ہیں اور اپنی زندگی کو آسان بناتے جاتے ہیں۔
میرے پیارے قارئین، آپ غور کریں، کہ جن لوگوں کا نظریہ، عقیدہ اور عمل یہ ہو، کیا ان پر کسی تنقید کی گنجائش باقی رہتی ہے؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں