جمعرات، 8 جون، 2023

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

 یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔

کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے۔ اور ان دونوں کی شناخت بالترتیب عدم ڈیزائن اور عدم منصوبہ سے ہوتی ہے۔ ایک طرح کے مناظر سے پورے کل پر قیاس کرنا جبکہ دوسری طرح کے مناظر بھی پائے جاتے ہوں ایک آربٹریری عمل ہے اور کسی کا اپنے ایسے قیاس پر ایمان لانے کا مطالبہ کرنا نہ صرف آربٹریری ہے بلکہ جابرانہ عمل بھی ہے۔
ڈیزائن کے معنی کیا ہیں؟ مادہ کا مختلف اشکال یا صورتوں میں پایا جانا۔ لیکن کیا ہوا کی کوئی شکل و صورت ہوتی ہے؟ جواب ہوگا نہیں۔ ہوا کی اگر کوئی شکل ہوتی بھی ہے تو وہ فی الحقیقت خود بخود مرتب نہیں ہوتی۔ ہوا جیسے ظرف یا مکانی حدوں میں ہو ویسی ہی شکل لے لیتی ہے۔ جدھر سے جیسا دباؤ پڑے ویسی ہی شکل میں ہوا پھیلی ہوئی ہوتی ہے، یا ویسی ہی شکل لے لیتی ہے۔ یہی حال پانی کا ہے کہ جس بوتل میں رکھو ویسی ہو جائے۔ پانی کبھی بوتل کی شکل میں، کبھی قطرہ کی شکل میں، کبھی دریا کی شکل میں، کبھی موج کی شکل میں، اور کبھی سمندر کی شکل میں جیسا جس جس نے دباؤ ڈالا، اسی کے مطابق خود کو بدلتی رہتی ہے۔ ورنہ اس کی کوئی ابتدائی شکل کہاں تھی؟ پانی کی سب شکلیں اور کیفیتیں اس کو درپیش سرد و گرم حالات اور اس پر عائد ہونے والی قید و بند وغیرہ کا نتیجہ ہیں۔
اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ہوا اور پانی کی طرح ہی کائنات کے کسی مادے کی کوئی متعینہ شکل نہیں۔ سب ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے سبب ہی وجود میں آئے ہیں یعنی سب ایک دوسرے پر جبر کرنے کے سبب ہی مختلف اور متضاد شکلیں اور ہیئتیں بدلتے چلے گئے ہیں۔ سورج، چاند، ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، پیڑ پودوں، گھونسلوں اور پرندوں، جانوروں اور غاروں، انسانوں اور گھروں، گھروں اور ان کی مختلف اشیا، ان سب کی ہیئتیں ایسے ہی ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتی، ایک دوسرے پر عمل کرتی، ایک دوسرے کے اندر داخل ہوتی اور اس سے خارج ہوتی، اور اس طرح ایک دوسرے کو متشکل کرتی ہوئی گزر رہی ہیں اور خدا معلوم کب تک جابر و مجبور، قاہر و مقہور، فاعل و مفعول کا یہ کھیل چلتا رہے گا، اور خدا معلوم کب سے چلتا آ رہا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جبر کے اس عمل کی نہ کوئی ابتدا ہو نہ انتہا، آدی ہو نہ انت، بلکہ جبر کی لیلا اپرم پار ہو۔
پس، اس نظام کو سمجھنا ہے تو جبر کے عمل کو سمجھنا ہوگا۔ جابر و مجبور، اور فاعل و مفعول کو سمجھنا ہوگا اور اس کے لیے پھر فارم یا ہیئت ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ لیکن محض فارم کو سمجھنے سے کیا حاصل؟ اور فارم کیا ہے؟ یہ سوائے جبر کے نتیجے کے اور بھی کچھ ہے؟ اور اگر محض فارم کو سمجھنے میں لگوگے تو جبر کے لامتناہی سلسلے میں پڑ جاؤگے۔ اسی اپرم پار میں پھنسے رہ جاؤ گے اور جو حقیقت کا سرا ہے اس کو کھو دو گے۔ اس لیے صوفیا کہتے ہیں کہ عدم یا شونیہ کی طرف آؤ۔ اسی میں سما جاؤ۔ یہ سب ہیئتوں سے ماورا ایک غیر ہیئت ہے۔ اور اسی میں سب کو لین ہونا ہے۔
لیکن عدم یا شونیہ کی "غیر ہیئت" کی اہمیت جتلانا کیا ہیئت کی بحث کے بغیر ممکن ہے؟
ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
پھر صوفیا کا یہ کہنا کہ عدم یا شونیہ مصدر ہستی ہے، اس بیان میں اسی قدر دلیل ہے جس قدر اس بیان میں کہ خود عدم کا مصدر یہی عالم وجود ہے جس میں چیزوں کی ہیئتیں بدل جانے کے بعد ان کی ابتدائی ہیئتوں کے لیے عدم کا ایک لفظ تجویز کر دیا جاتا ہے جس کے بالذات کوئی معنی ہی نہیں۔ البتہ دیگر معانی کے ساتھ رکھنے پر یہ لفظ بامعنی ہو جاتا ہے۔
بہرحال، عدم یا شونیہ کوئی قائم بالذات تصور نہیں۔ یہ ہمیشہ وجود کے تصور پر قائم ہے۔ اور یہی بات وجود کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ بھی قائم بالذات نہیں اور عدم کے تصور پر قائم ہے۔ اس لیے جو کوئی عدم اور وجود کی بحث میں کسی ایک کو بھی اولیت یا فوقیت دیتا ہے وہ دراصل "پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا" جیسی بحث میں کوئی ایک موقف اختیار کرتا ہے۔
یہ کہنا کہ عدم اور وجود میں تفریقی رشتہ ہے، یعنی تصور عدم بالذات شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی شناخت موقوف ہے تصور وجود پر۔ اور تصور وجود بالذات شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ موقوف ہے تصور عدم پر۔ جیسے رات کی پہچان نہیں دن کے بغیر، اور دن کی پہچان نہیں ہے رات کے بغیر۔ اور چونکہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔ اسی طرح عدم کی پہچان نہیں ہے وجود کے بغیر، وجود کی پہچان نہیں ہے عدم کے بغیر، اور یہ منفیت بجائے خود یہ اعلان کر رہی ہے کہ نہ وجود ہے اور نہ عدم، پھر جو کچھ ہے اس کی حیثیت عدم کی ہوئی یا نہیں؟ صوفیا اور فلاسفہ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں دراصل ایک منطقی پھیر میں پڑ گئے ہیں۔ یہاں مسئلہ عدم اور وجود کا نہیں۔ بلکہ مسئلہ اشیا کے مابین شناخت اور تمیز کا ہے۔ وجدان کے جھروکے سے دکھائی دینے والی، یا ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات (خواہ وہ تصور عدم ہو یا تصور وجود) اگر تفریقی نوعیت رکھتے ہیں، اور اسی تفریقی بنیاد پر ہم ان میں باہم تمیز کرتے ہیں تو یہاں معاملہ عدم اور وجود کا ہوا یا شناخت کا؟ ظاہر ہے کوئی بھی کہے گا کہ یہاں معاملہ تمیز اور شناخت کا ہی ہے۔ یعنی ہم تفریقی بنیادوں پر اپنے ہونے اور دیگر تمام موجودات کے ہونے یا نہ ہونے کو وجدان اور ذہن کے ذریعے "پہچانتے" ہیں، نہ کہ ان کے عدم یا وجود کا "علم" حاصل کرتے ہیں۔ ساختیات اور پس ساختیات چیزوں کی پہچان اور پرکھ اور ان کی کارکردگی کی سائنسیں ہیں نہ کہ عدم اور وجود کے دو تصورات میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کے آلات۔ مزید یہ کہ تفریقی رشتہ کی بنا پر ہر موجود و معدوم کا رد کرتے ہوئے ہم خالص عدم یا شونیہ کے تصور کو تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ تمیز اور ادراک ہی کی سطح پر ہوتا ہے، اس کے ذریعے واقعتا اور حقیقتا خالص عدم تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ تصورات ذہنی میں تفریقی مظہر کا مشاہدہ خود ذہن ہی میں موجود اتحادی مظہر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی ہمارا ذہن فرق، اختلاف، تضاد، تباین وغیرہ کا مشاہدہ کرتا ہی ہے الحاق و اتحاد، اتفاق و اشتراک، ترادف اور توافق کے تصورات کی بنا پر جو خود ہمارے ذہن ہی میں ان تصورات کے عقب میں موجود ہوتے ہیں اور وہیں سے اپنے خارج میں پروجیکٹ کر کے تفریقی مظاہر یعنی تضادات کے نظام کا مشاہدہ کراتے ہیں۔
اور ذہن میں اس عقب کے عقب میں پھر فرق، اختلاف، تضاد اور تباین کے تصورات ہی ہوتے ہیں۔ اور ایک بار پھر، ذہن میں عقب کے عقب کے عقب میں الحاق و اتحاد، اتفاق و اشتراک، ترادف اور توافق کے تصورات ہوتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ لامتناہی ہو جاتا ہے، جیسے آئینے کے مقابلے میں آئینہ رکھ دیا جائے اور ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہو جائے:
جیوں مکھ ایک دیکھی دوئی درپن، گہلا تیتا گایا
جن رجب ایسی بدھی جانیں، جیوں تھا تیوں ٹھہرایا
حضرت اوشو کہتے ہیں: جیوں مکھ ایک دیکھی دوئی درپن ، چہرا تو ایک ہے، لیکن درپن میں جھانکوگے ، تو دو ہو جاتا ہے۔ اور درپن میں جھانکے بنا چہرے کا پتا نہیں چلتا۔ سو مجبوری ہے۔ جھانک کر ہی پتا چلے گا۔ درپن میں جھانکنا تو ہوگا۔ مگر جھانکتے ہی جو ایک تھا، وہ دو ہو جاتا ہے۔ اس لیے خطرہ بھی ہے۔
درپن میں جھانکنا مجبوری ہے یا لزوم ہے۔ اگر ابتدا میں روح ہی روح تھی۔ اور روح کو دراصل تشفی نہیں ہوتی تھی اس لیے اس نے درپن میں جھانکا۔ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ درپن کہاں سے آیا؟ درپن مجازی معنوں میں کہا گیا۔ درپن کے استعارے سے اصل مقصود یہ ہے کہ جس طرح درپن میں فرضی تصویر بنتی ہے اسی طرح مادہ جو ہے وہ دراصل روح کا مفروضہ ہے۔ روح نے فرض کر لیا ہے مادے کو ورنہ مادہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جیسے ہم فرض کر لیتے ہیں اپنے اندر اپنے ضمیر کو، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ایک ہی ہیں اور ضمیر ہمارا مفروضہ ہے جو ہماری غلط کاریوں پر متنبہ کرتا ہے۔ ضمیر حالانکہ صرف ایک مفروضہ ہے، وجود نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔ جس طرح ضمیر کا کانٹا انسان کے مادی وجود کا مفروضہ ہے اسی طرح مادہ روح کا مفروضہ ہے۔
اگر مادہ روح کی ہی پیداوار ہے تو پھر کسی ایک کو کسی دوسرے پر فضیلت کیوں دی جائے؟ کیونکہ ایک نے دوسرے کو پیدا کیا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوا تو دوسرا پہلے کا مقصود و مطلوب ٹھہرا۔ ورنہ پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اپنے سے کمتر شئے کو پیدا کرنا چہ معنی؟ صوفی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو ثنویت کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسری طرف مادہ کی تحقیر کرتا ہے جسے خود روح نے پیدا کیا ہے، یا جو روح کا نتیجہ ہے۔ روح نے مادہ کو اس لیے نہیں پیدا کیا، یا روح کے نتیجے میں مادہ اس لیے وجود میں نہیں آیا کہ اس کی تذلیل و تحقیر ہو ۔ صوفیا کی تقریروں کو جہاں سے بھی اٹھائیے ، ہر جگہ مادہ کی تکریم کے بجائے اس کی تذلیل و اہانت کا جذبہ کارفرما نظر آئے گا۔
روحانیت پرست شاید اس گہری حقیقت تک نہ پہنچ سکا کہ اس کائنات کا درد یہی ہے کہ یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ روح کی تمنا یہی ہے کہ کوئی دوسرا ہوتا۔ چنانچہ اپنی اسی تمنا کو پورا کرنے کے لیے اس نے اس مادی کائنات کی صورت میں ایک صنم تراش لیا۔ یہ صنم خود روح کی اپنی پیداوار ہے جو مادہ کی شکل میں مشہود و متمثل ہو گئی ہے۔ اور اسی مادہ کا ارتقا، اس کی ترقی، اس کی فلاح روح کا مقصود و مطلوب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہے، یعنی جو کچھ نظر آتا ہے، خواہ وہ مادہ ہو یا کچھ اور، اس کی پیدائش کا سبب روح کو کیوں قرار دیا جائے؟ جو کچھ موجود ہے اسی کو ‘‘سب کچھ’’ کیوں نہ مان لیا جائے؟ اب جو کچھ ہے، اسی میں ارتقا اور ترقی کو کائنات کا منتہائے مقصود کیوں نہ مان لیا جائے؟ اس لیے کہ اس کے بعد ہماری نظر میں یک جہتی پیدا ہو جائے گی جو سم قاتل ہے۔ اس لیے صوفیا مادی ترقی کے مقابلے پر روحانی سکون کو لاتے ہیں۔ لیکن مادی ترقی ہو یا روحانی سکون، یہ دونوں منتہائے مقصود ہمیں اس حقیقی علم تک نہیں پہنچاتے جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی علم یہی ہو سکتا ہے کہ یہ کائنات کیوں ہے؟ کیسے وجود میں آئی؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ دنیا کا یہ کھیل یا کارخانہ کب تک چلے گا؟ اور جب ختم ہو جائے گا پھر کیا کچھ اور ظہور میں آئے گا؟ مذہب ہو، تصوف ہو، فلسفہ ہو، سائنس ہو سب کا منتہائے مقصود انہیں سوالات کا جواب دینا ہے یا مسلسل اس کی کوشش کرتے رہنا ہے اور ان میں سے جو کوئی ان سوالات کے نئے جوابات دینے میں پیش قدمی نہیں کرتا، وہ رٹے رٹائے عقائد کا پشتارہ بن جاتا ہے، اور جو سبقت کرتا ہے وہی امامت کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔

احقاق حق کا صراط مستقیم

دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کی بقا و ترقی کا دارومدار بہت سی باتوں پر ہے۔ ان میں سے ایک ہے " اپنے عقیدے یا نظریے سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا اور اس کی خامیوں کی پردہ پوشی ہرگز نہ کرنا۔" لیکن یہ صرف ایک معقول طریقہ ہے اعلی درجے کی روش نہیں۔ اعلی درجے کی روش جس سے بڑھ کر کوئی اور راہ ہو ہی نہیں سکتی وہ کچھ یوں ہے۔ "اپنے عقیدے یا نظریے کے خلاف خود ہی غور و فکر کرتے رہنا اور جیسے ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خرابی یا غلطی معلوم ہو، اس کو فوری مشتہر کر دینا۔ اس طریقے کے مقابلے میں جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب ادنی اور پست درجے کے ہیں۔ ایک عالی دماغ شخص کے عقائد و نظریات کا یہی حال ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہی انہیں سخت تنقید و تنقیص کا ہدف بناتا ہے اور اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ہر لمحہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کب اس کو اپنے عقائد و نظریات کی کوئی کمی معلوم ہو اور کب وہ خود اسے سب سے پہلے سامنے لائے۔ اور اگر کوئی دوسرا اسے سامنے لائے تو وہ خود سب سے پہلے لپک کر اس کو قبول کرے۔
اگر ہم دنیا میں معروضی طور پر، سب کے لیے صداقت کے کسی اڈیشن یا حق کے کسی جز تک پہنچ سکتے ہیں یا صداقت کا کوئی جدید اڈیشن یا یا صداقت کا کوئی جز تخلیق کر سکتے ہیں تو اس کا طریق کار یہی ہے، یہی ہے، اور صرف یہی ہے۔ اس کے سوا جس قدر طریق ہائے کار ہیں وہ سراسر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرانے والے ہیں۔
فلسفہ یا سائنس جس چیز کا نام ہے وہ منجملہ دیگر بہت سے طریقہائے کار کے ناگزیر طور پر اسی طریقے سے وجود میں آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تحت جس قدر معلومات اور نظریات دنیا کو فراہم کی جاتی ہیں، لوگ ان کو بالآخر تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجیے کہ اس علم، عقیدہ یا نظریہ کی شان کیسی اعلی و ارفع ہوگی جس کا پیش کرنے والا خود اٹھ کر یہ کہے کہ اس کی خوب جانچ پرکھ کر لو، خوب اعتراضات کر لو، یہاں تک کہ اگر تمہیں میرے عقائد و نظریات کا خاکہ اڑانا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لو، لیکن اگر میرے عقائد و نظریات میں کسی بھی درجے میں صداقت ہے تو تم باوجود اس کی مضحک تردید کرنے کے اسے لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ کر سکوگے۔ اور اگر میرے نظریات میں کسی درجے کی کوئی صداقت نہیں تو پھر میں خود ان سے سب سے پہلے بیزار ہونے والا ہوں۔ ایک اعلی درجے کا فلسفی اسی خلق عظیم پر پیدا ہوتا ہے اور یہی وہ پہلا اور آخری نمونہ ہے جس سے پہلے اور جس کے بعد کسی اور نمونے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بھلا اس شخص سے بہتر اور کس کا نقطہ نظر ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ آؤ میں اور تم دونوں مل کر اپنے اپنے عقائد و نظریات پر بھی اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات پر بھی خوب تنقیدیں کریں اور خود اپنی اور ایک دوسرے کی علمی و فکری غلطیوں کو کھولیں، ایک دوسرے کی کجی پر گرفت کریں اور تب کہیں جا کر جو کچھ قابل قبول معلوم ہوتا ہو اس کو جزم و یقین کے بجائے نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ قبول کریں اور بعد میں جیسے ہی اپنی کسی اجتماعی یا انفرادی غلطی کا علم ہو، ہم اس کی پردہ پوشی کے بجائے اس کو افشا کر دیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور سیدھی راہ کا تصور تم کر سکتے ہو؟ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور اخلاقی رویے کو اپنا نمونہ بنا سکتے ہو اگر فلسفیانہ صداقت کا کوئی سوال درپیش ہو؟

جمعہ، 30 جولائی، 2021

عقیدہ کی تبلیغ یا صداقت کی جستجو؟

ادھر کچھ عرصے سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے ذہین افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتیں ادنی درجے کی جاہلانہ یا منتقمانہ بحثوں کی نذر ہوئی جا رہی ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں کہ وہ سوائے مزید لغویت پھیلانے کے کوئی فلسفیانہ کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو زندگی اور کائنات سے متعلق اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں اہم سنگ میل نصب کر سکتے تھے۔ میں یہاں کسی شخص کا خصوصیت سے نام نہیں لوں گا بلکہ چند باتیں عمومی طور پر احباب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
جو لوگ حقائق اشیاء پر غور کرتے ہیں ان کے پاس فضول کی مغز ماری بالخصوص ان عقائد و نظریات کے سلسلے میں بدزبانی کا کوئی موقع نہیں ہوتا جنہیں وہ "باطل" سمجھتے ہیں۔ کوئی عقیدہ اگر جدید سائنسی پیمانوں پر کھرا نہیں اترتا یا فلسفہ، جدید ہو یا قدیم، اس کے متعدد مکاتب فکر سے متصادم ہوتا ہے اور مبینہ طور پر "بحیثیت ایک مافوق الفطری ماخذ سے برامد ہونے کے" انسانی عقل میں نہیں آتا تو یہ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اس عقیدہ کے متعلق طنز و استہزا کا رویہ اپنایا جائے۔ البتہ ایسی عقلی تنقید و تردید سے جس میں کوئی غیراخلاقی پہلو نہ نکلتا ہو کوئی صاحب فہم اور سلیم الفطرت انکار نہیں کر سکتا۔
لیکن مخالف عقائد و نظریات پر تنقید، تردید، تنقیص جیسی چیزیں اس وقت زیادہ مفید ہوتی ہیں جبکہ خود ہمارے پاس کوئی فکر ہو، کوئی تحقیق ہو۔ مظاہرِ ہست و نیست کی کوئی نہ کوئی توجیہ ہو۔ اور اگر ایسی توجیہ ہو جو ماضی و حال کی ہر توجیہ سے کسی نہ کسی اعتبار سے علیحدہ ہو یا علیحدہ معلوم ہوتی ہو تو سونے پر سہاگہ۔
لیکن ایسے حضرات کی انرجی محض بدزبانی اور قال و قیل میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں کہتے۔ ممکن ہے اس رویے سے بھی کوئی چھوٹا موٹا فائدہ مرتب ہوتا ہو لیکن یہ ایسا فائدہ ہے جو بالعموم اس سے ہونے والے نقصانات ہی کی نذر ہو جاتا ہے۔
زندگی ایک ایسی انمول چیز ہے کہ اس کو کنکر پتھر چننے میں نہیں لگانا چاہیے (حالانکہ کوئی چننا چاہے تو چنتا رہے)۔ مخالف عقائد و نظریات میں اگر واقعی کوئی نقص ہے تو اس کو ظاہر کرنا ہرگز کوئی عیب نہیں ہے لیکن چوبیس گھنٹے ان ہی مزعومہ یا ممکنہ نقائص کی بنا پر بدزبانی میں لگے رہنا یقیناً اپنی وقت اور صلاحیت کا کوئی اچھا استعمال نہیں ہے اگر واقعی ہمارے پاس وہ چیز ہو جس کو صلاحیت کہتے ہیں۔ اگر صلاحیت نہ ہو یا بدزبانی ہی کی صلاحیت پیدا کی ہو تب تو حرج نہیں، جتنی چاہے کیجیے، لیکن اگر ہم اپنے اندر کوئی اعلی صلاحیت پاتے ہوں تو اس کو اس کے شایان شان کاموں میں لگانا چاہیے۔ ایسے حضرات کا اپنے بدکلامانہ طرز پیشکش کے حق میں یہ دلیل فراہم کرنا کہ ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں تا کہ مخالف عقائد و نظریات کے حاملین میں رواداری اور برداشت کی عادت پیدا ہو یہ پرلے درجے کا احمقانہ اجتہاد ہے۔
اس پس منظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں حقیقی اہمیت اپنے نظریات کی تبلیغ و ترویج یا مخالفین کے نظریات کی تردید و ابطال کی نہیں ہے۔ کوئی بڑا نظریہ دنیا کی پارکھی نظروں سے بالآخر پوشیدہ نہیں رہتا۔ نظریہ اضافیت اور کوانٹم تھیوری کی تبلیغ کس نے کی تھی؟ لیکن بے شمار عالی دماغ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور بہت سے مذہبی مبلغین تک اس کے اثر سے کہنے لگے ہیں کہ ہمارے مذاہب میں پہلے ہی یہ تھیوریاں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح نظریہ ارتقا کی طرف بھی کسی کو دعوت و تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑی۔ محض چند ایک یا مٹھی بھر لوگوں نے سخت علمی مجاہدہ اور محنت شاقہ کے ذریعے اسے مرتب کیا اور دنیا بھر کے علما نے اسے تسلیم کر لیا۔ اسی طرح نیوٹن کے قانون کشش ثقل، مارکس کی جدلیاتی و تاریخی مادیت اور طبقاتی کشمکش، فرائیڈ کے نظریہ لاشعور، سوسیئر کی ساختیات، لیوی اسٹراس کی ثقافتی بشریات، فوکو کے علم اور طاقت، دریدا کی ردتشکیل کی مثالیں ہیں جنہیں کسی نے بھونڈی دعوت و تبلیغ کے ذریعے نہیں پھیلایا۔ بلکہ پہلے پہل عالی دماغوں نے ہی اسے تسلیم کیا۔ دنیا میں کم ایسے اوریجنل فلسفی ہوں گے جو مداریوں، سپیروں، جادو گروں اور گویوں کی طرح گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر ہر کس و ناکس تک پیغام حق سناتے رہے ہوں۔ عظیم فلسفیوں یا سائنسدانوں کو اتنا وقت میسر نہیں آتا کہ وہ اپنے طبع زاد علمی نظریات کو اجدادی پشتارے کی طرح اپنی پیٹھ پر لیے لیے پھریں اور ہر ایک کو اپنے عقیدے کا گشتی فولڈر تحفتاً پیش کریں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے مختلف عقائد و نظریات کی تنقید و تردید میں بھی بڑا نام پیدا کیا وہ بھی اپنے اسلوب میں اس قدر صاف ستھرے تھے کہ ان کے طریقے کو بمشکل ہی مناظرانہ اور ابطالی کہا جا سکتا ہے اور اس کا تو امکان ہی نہیں کہ انہیں کسی مخصوص عقیدے اور نظریے کا مخالف داعی یا پرچارک قرار دیا جا سکے۔
کسی بھی عظیم فکری وجود کا تو زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے، غور و فکر، مشاہدہ اور تجربہ میں گزرتا ہے، دعوتی و تبلیغی یا ابطالی نوعیت کے بھچر بھچر کی اس کو فرصت کب ملتی ہے؟ وہ تو عمر بھر صداقت کی جستجو میں غلطاں و پیچاں رہتا ہے۔ اسے تو ہر وقت یہ خوف دامنگیر رہتا ہے کہ مبادا زندگی اور کائنات کے درک و فہم میں کہیں ایسی چوک نہ ہو جائے کہ اس کے نظریات کی پختہ عمارت ریت کے محل کی طرح زمیں بوس ہو جائے۔
ایسی ذہنی و نفسیاتی حالت میں مبتلا کوئی فلسفی جب روزمرہ کی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا بھی ہے تو صرف اس لیے کہ جسم و جان کا رشتہ بہ طرز احسن برقرار رہے، اور اس کی نیند، اس کا دماغ، اس کی صحت اعلی ترین معیار پر قائم رہے (جو اکثر بمشکل ہی ممکن ہوتا ہے) تا کہ اپنی فکری عمارت یا نظریات کی دنیا زیادہ بہتر طور پر تعمیر کر سکے۔
اور کسی فلاسفر کے افکار و نظریات کس لیے ہوتے ہیں؟ تاکہ وہ حیات و کائنات کی اصل یا وجہ کو جان سکے، سمجھ سکے۔ "جاننا" اس کی زندگی کا واحد مقصد ہے۔ اور اسی جاننے کی خاطر وہ بار بار شک کرتا ہے، بار بار رجوع اور توبہ کرتا ہے، لیکن اپنے شک پر وہ نہ کسی متقی و پرہیزگار کی طرح لاحول پڑھتا ہے اور نہ اپنی توبہ پر عاصی و گنہگار کی طرح تعوذ و استغفار۔ اس کی تشکیک اور اس کی توبہ کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ خود کو لاحق ہونے والے ہر ایک وسوسے پر وہ گمراہیوں کے گہرے گڑھے میں انایاس ہی اور کبھی پورے شعور کے ساتھ گرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے پیر گڑھے کی آخری سطح پر ٹھہر جاتے ہیں لیکن وہ اسی عالم ارتیاب میں ایک بار پھر اس سطح پر بھی اپنے پاؤں مار کر دیکھتا ہے، لیکن یقین کی سنگلاخ چٹان پر تشکیک کی موہوم ضربیں لاحاصل ہیں۔ پس، وہ ریب و تذبذب کا پھاوڑا ایک طرف رکھ کر ذہن و دماغ کی صحیح حالت میں گویا ہوتا ہے:
I THINK THEREFORE I AM
یہ ایسی شان ہوتی ہے کہ تمام تر گلزار ہست و بود اس کے ناتواں وجود میں سانس لیتے ہیں، اور بالآخر فطرت اس پر اپنے الہامات کی بارش کرتی ہے۔ اور ایسے ہی مٹھی بھر گنے چنے افراد بالآخر اور بالواسطہ دنیا کی علمی و فکری اور اخلاقی و تمدنی ترقی کی اصل بنیاد بن جاتے ہیں حالانکہ ان کی کوششیں ہرگز اس غرض کے لیے نہیں ہوتیں۔ ان کی فلسفیانہ زندگی کا پہلا اور آخری مقصد صرف اور صرف جاننا اور جانتے رہنا اور جانتے ہوئے ہی، یا جاننے کی کوشش کرتے ہوئے ہی مرتے چلے جانا ہوتا ہے۔ جاننے سے الگ فلسفیانہ طور پر زندہ رہنے کا کوئی اور مفہوم ان کے مذہب میں صریح گمراہی ہے۔
اب ہم کسی قدر سمجھ سکتے ہیں کہ فلسفی کے پاس جاننے یا جاننے کی کوشش سے متعلق سرگرمی کے علاوہ نہ اتنا وقت باقی رہ سکتا ہے کہ وہ اپنے افکار و نظریات کی مجلدات پیٹھ پر لاد کر گلی کوچوں میں آواز لگاتا رہے اور نہ اس کو یہی دھن سوار رہتی ہے کہ کس طرح نت نئے طریقوں سے اپنے مخالف نظریات کے خلاف مسلسل بدکلامانہ پرچار کیا جائے۔
بلاشبہ، ایک فلسفی اپنی فکری و تحقیقی یافت کے نتائج کی اشاعت بھی کرتا ہے، اور ایک گونہ اس کا امکان ہے کہ یہ بھی کسی قسم کی دعوت ہی ہو، لیکن کیا یہ اس دعوت و تبلیغ سے پرکاہ کے برابر بھی مشابہ ہے جیسی آج ہم مختلف نظریات کے حاملین کی عملی زندگی میں دیکھتے ہیں؟ کیا وہ فلاسفہ، جو عالم انسانیت کے قابل فخر کمال ہیں انہیں اپنے افکار کے تعارف یا اسے پھیلانے کے لیے بھی اسی طرح گلا کھینچنے اور زبان درازی کرنے کی ضرورت پڑی؟ حقیقت یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کی حاجت محض کمزور نظریات کو ہے۔ اور جب کمزور نظریات کو مضبوط بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور نادان لوگ انہیں مضبوط باور کر لیتے ہیں تب ان کے فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے بعض لوگ پہلے تنقید و تنقیص اور پھر بدزبانی پر اتر آتے ہیں جو ان کی کاہلی اور بے عملی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ حضرات دراصل اگلے لوگوں کے نظریات، عقائد اور کارناموں کو جھٹلانا چاہتے ہیں، یہ ان کی کھینچی گئی لکیروں کو مٹا کر انہیں چھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے دل و دماغ میں وہ گودا اور بوتا نہیں کہ اپنی علیحدہ لکیریں کھینچیں جو ماضی کی سب لکیروں سے بڑی ہو جائے۔
الغرض، دنیا میں اصل اہمیت جدید عقائد و نظریات کی تخلیق اور ان پر سائنسی طریقوں سے تحقیق کی ہے۔ جو لوگ ایسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں، وہی زندگی بھر کسی مروجہ عقیدے کی تبلیغ و اشاعت میں لکیر کے فقیر بنے رہتے یا اس کی تردید و مخالفت میں گزشتہ لکیروں کی تحقیر کرتے ہیں اور انہیں میں سے بعض بعض لوگ بدزبان کہلاتے ہیں۔
اور جو لوگ محض اپنی دلچسپی کی بنا پر حقائق کی تحقیق میں لگے رہتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، وہی دنیا میں علمی ترقی کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے قائم کردہ نظریات کو دعوت و تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ بس اپنے نظریات کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں اور اگر ان کے نظریات میں واقعی کوئی قوت ہوتی ہے تو لوگ خود بخود اس کو تسلیم کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔ جیسے معشوق کی ایک جھلک ہی عاشق کو بیتاب کر دیتی ہے ایسے ہی کسی انوکھے یا ممکنہ صحیح نظریے اور عقیدے کی ایک جھلک ہی انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس کے متعلق اور جانے اور اس پر وقتی طور پر ایمان لائے۔ بڑا فلسفی وہی ہے جس کے ان چھوئے اور کنوارے نظریات کی ایک جھلک دیکھ کر ہی گنے چنے باشعور اور پارکھی لوگ بیقرار ہو جائیں اور ان میں سے بھی چند لوگ اس تک پہنچیں اور اس سے اپنی پیاس بجھائیں۔ نادرالوجود فلسفی کے فلسفہ کا حال شہد کے چھتے جیسا نہیں ہوتا کہ لاتعداد مکھیاں اس پر تلے اوپر بھنبھنا رہی ہوں، یا یہ علاقے کے مشہور حلوائی کی دوکان پر چھنتی ہوئی جلیبیوں جیسی چیز بھی نہیں کہ اس پر موٹی موٹی مکھیاں بھجبھجا رہی ہوں اور حلوائی ہر ایک کو بقدر اس کی اداکردہ قیمت کے تول تول کر جلیبیاں دیے جا رہا ہو۔ بڑا فلسفہ کوئی شمع جیسی چیز بھی نہیں کہ جس پر پروانے آ آ کر نثار ہوتے رہیں اور ان کے جلنے کی بدبو اور چراندھ سے سارا ماحول دھوئیں اور غلاظت سے بھر جائے۔ فلسفہ ظاہری مظاہر سے پرے باطنی سبب اور علت کی دانائی اور آگہی کی خوراک ہے جسے اس کے ضرورتمند لوگوں کو ہی فراہم کرنی چاہیے۔ بعض لوگ تمسخرانہ طور پر علم و آگہی کی اس خوراک کو "تفلسف کا انجیکشن" کہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ دراصل بے شعورے اور بودے ہیں۔ ایسے ٹھس لوگوں پر فلسفہ کی خوشبو اسی طرح حرام ہے جیسے بدعقیدہ پر جنت کی۔ ازمنۂ قدیم میں بعض فلسفی ایسے بھی ہوتے تھے جو لوگوں سے اپنے نظریات پر ایمان لانے سے روکتے اور پہلے اس کا اہل بننے کی تاکید کرنے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ نااہلوں کے لیے عظیم نظریات بندر کے ہاتھ میں استرے کی طرح ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ فلسفی ہیں تو اپنے نظریات کو نااہلوں سے بچائیے اور اسے وہاں پہنچائیے جہاں اس کی ضرورت ہے جو لوگ اس کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہوں۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی مقبول یا نامقبول عقیدے اور نظریے کو نااہلوں اور کم فہموں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے اندر کوئی اعلی صلاحیت ہے تو اس کو تردید و ابطال پر مبنی جاہلانہ دعوتی و پرچاری نوعیت کے کاموں میں لگانے کے بجائے اس کا وہ استعمال کیجیے جس سے آپ علم و عرفان کی بلند ترین منزل پر پہنچ سکیں۔
( 30 جولائی 2021، فیس بک مراسلہ)

جمعہ، 16 اپریل، 2021

بے ‏سمتی

جو لوگ یہ دعوی کریں کہ ان کے پاس ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ماضی و حال کی تاریخوں میں اپنوں اور غیروں سے وہ دست و گریبان ہوں، ہر قسم کے علمی، تہذیبی,معاشرتی اور دیگر قسم کے مسائل میں وہ گرفتار ہوں، بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہونے کے بعد بھی وہ ٹیکنالوجی میں اس قدر پسماندہ ہوں کہ ابھی تک اپنی زبانوں میں کمپیوٹر سائنس کے لیے انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکچر تک نہ لکھ سکے ہوں اور زندگی کے ہر شعبے میں سوائے خدا کی دی ہوئی فطری نعمتوں کو چھوڑ کر سخت تہی دامنی، محتاجی اور بیچارگی میں مبتلا ہوں، ایسے لوگوں سے کیا یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ بھائی تمہارا وہ مکمل نظام حیات کس کام کا جو تمہارے ذاتی مسائل کو بھی دور نہیں کر سکتا؟ 
اس کے برعکس جن لوگوں کا یہ دعوی ہی نہ ہو کہ ان کے پاس کوئی مکمل نظام ہے یا ان کے پاس کوئی لکھی لکھائی کتاب ہے جس میں زندگی کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے، بلکہ وہ یہ کہتے ہوں کہ دراصل ہم زندگی کے ہر شعبے میں کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اپنی عقل کو بہت بڑی حد تک آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جیسے چاہے مفروضات قائم کرے، پھر اس کے بعد ہی ہم ان مفروضات کی بنا پر زندگی کے مختلف شعبوں میں تحقیق کرتے ہیں، کبھی کامیابی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔ بلاشبہ ہم مقدس کتابوں کا احترام کرتے ہیں۔ زندگی کے مقدس شعبوں میں ان پر حتی الامکان عمل کرتے ہیں، لیکن اپنی طرز معاشرت میں ان کی ہر بات کو حجت کی طرح اپنے اوپر مسلط نہیں رکھتے۔ طوطے کی طرح ہر وقت اپنی کتاب مقدس کے جملے نہیں سناتے رہتے۔ بلاشبہ ہم کو یہ قطعی علم نہیں کہ اس کائنات کا سبب کیا ہے، اور یہ سبزۂ و گل، جانور اور انسان، دریا، سمندر اور پہاڑ، چاند سورج اور ستارے، وغیرہ اپنے آپ بن گئے ہیں یا کسی نے انہیں بنایا ہے اور اس قطعی علم کی عدم موجودگی میں ہماری مقدس کتابیں جو کہتی ہیں ہم اس پر حتی الامکان یا بدرجہ مجبوری ایمان بھی لاتے ہیں ان پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اپنے طبعی جذبہ تجسس کا انسداد نہیں کرتے۔ اپنے اندر کے سوالات کو مرنے نہیں دیتے۔ ہم سے جب بھی کسی مذہبی پیشوا نے کہا کہ اس کائنات کو خدا نے بنایا تو ہم نے سمعنا و اطعنا کہنے کے بجائے اس جواب کا فلسفیانہ تجزیہ کیا اور خوب کھول کھول کر بیان کر دیا کہ نہیں، یہ جواب قطعی نہیں ہے، اس جواب میں یہ دقت ہے۔ اگرچہ اس کے باوجود ہم اکثر انہیں کتابوں پر ایمان لائے جن پر ہمارے فلسفوں اور سائِنسوں نے اپنے دائرے میں تنقید کی، یعنی ہم رہے زیادہ تر مومن ہی لیکن ہمارے درمیان جو غیر مومن تھے ہم نے ان کی زندگی اجیرن نہیں کی، اور ماضی میں اگر کی تو اب اس روش کو ہم نےبہت بڑی حد تک ترک کر دیا ہے۔ 
ہمارے اندر جس قدر جامد عقائد موجود تھے اور ہیں ہم نے ان سب کا فلسفیانہ تجزیہ و تحلیل کیا لیکن اس کے باوجود ہم اس کائنات کی کنہ تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم  اپنی اس کوشش میں ہر جہت سے ناکام و نامراد رہے۔ درحقیقت ہم نے اپنی تمام تر بے بضاعتی کے باوجود وہ سعی کی جسے پیغمبرانہ کہہ سکتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ آگ لینے گئے تھے اور پیغمبری مل گئی۔ لیکن ہمارے ساتھ اس کے برعکس ہی ہو سکا۔ یعنی ہم پیغمبری لینے گئے تھے اور آگ مل گئی! اور اس آگ سے ہم نے بہت فائدہ اٹھایا۔ 
پیغمبری کیا ہے؟ فلسفہ کی زبان میں کہیں تو "راز فطرت کو آشکار کرنا"۔ ہم نے اپنی سی کوشش کی، جی جان لگا کر راز فطرت کو آشکار کرنے چلے لیکن افسوس کہ یہ ہم سے اب تک نہ ہوسکا۔ البتہ اس کی جگہ کچھ دوسری اور کار آمد چیزیں مل گئیں جنہیں ہم نے زاد راہ اور سامان سفر سمجھ کر قبول کر لیا۔ اور ان کی مدد سے بھی اپنی راہوں میں روشنی کی تاکہ اسی دنیا کی زندگی میں اپنے کمزور، وقتی، عارضی اور سیال مفروضوں کی بدولت تحقیق و تجسس کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں۔ وہ لوگ جو ہم سے حسد کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مادی ترقی کی اندھی دوڑ لگا رہے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنی کسی منزلِ نامعلوم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے حاسدین ہمارا مضحکہ اڑاتے ہوئے ہم سے کہہ رہے ہیں: میاں کدھر جا رہے  ہو، کچھ خبر بھی ہے؟ آؤ ہماری سمت چلو۔ ہمارا ایک قبلہ ہے۔ ہم ادھر ہی بڑھ رہے ہیں۔ چھوڑو مادیت کی یہ بے لگام دوڑ۔ تم نے اپنی کرتوت سے خشکی و تری میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اب ہمارا یہ امرت رس، ہمارا یہ آب حیات پی لو۔ مست ہو کر ناچنے لگوگے۔ اور ہمارا قبلہ مقصود تو ایسی جگہ ہے جہاں محض سکون ہی سکون ہے! ہم ایسے کرمفرماؤں سے کہتے ہیں کہ آپ کی سمت اور آپ کا قبلہ آپ کو مبارک۔ ہم اسی سمت سے آ رہے ہیں جدھر کو آپ جا رہے ہیں۔   
بلکہ اب تو ہم نے سمت کا تعین کرنا بھی چھوڑ دیا ہے، کیونکہ جب معلوم ہی نہیں کہ کدھر جانا ہے تو سمت کا تعین کیوں؟ چنانچہ ہم ہر ایک سمت میں کچھ دور چلتے اور پلٹ آتے ہیں۔ اور دیکھا آپ نے کہ ہم نے بھی اتنی ہی مسافت طے کی ہے جتنی آپ نے لیکن ہمارے پاس سامان سفر زیادہ ہے اور باربرداری کے لیے سواریاں بھی آپ سے زیادہ ہیں، ہماری معلومات بھی آپ سے زیادہ ہیں، اور آپ کی سمت بھی ایک سمت ہے جس کے چپے چپے سے ہم واقف ہیں، اس لیے قبلہ، آپ ہمیں معاف فرمائیں اگر ہم آپ کی وحدانی سمت میں نہیں چلتے۔ لیکن کبھی آپ نے خود سے سوال کیا کہ  اس یک سمتی و یکسوئی نے آپ کو کیا دیا؟ آپ کو یہ اصول معلوم ہی نہیں کہ جتنی زیادہ سمتوں میں بھٹکیں، اتنا زیادہ سامان سفر ملے گا اور صداقت کی تلاش کے سفر میں اتنے زیادہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر ہم آگے بڑھ سکیں گے۔ 
اگر تنقید کا سخت ترین معیار کوئی ہو سکتا ہے تو بلاشبہ اس کی بنیاد پر ہم پیغمبر کہلانے کے ہرگز لائق نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم راز فطرت کو آشکار نہ کر سکے۔ سقراط نے تو ڈھائی ہزار سال پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ علم کی معراج یہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہم کچھ نہ جان سکے۔ حالانکہ یہ قول بظاہر متناقض ہے۔ جب کچھ جانتے ہی نہیں تو یہ کیسے جان لیا کہ ہم کچھ نہ جان سکے؟ ایسا کہنے والا دراصل اپنی انکساری کے باعث ایسا کہتا ہے۔ تو علم والوں کے اندر اس انکسار کا پایا جانا ضروری ہے لیکن اگر صرف اس جملے کی حد تک بات ہو تو یہ پورا جملہ باطل ہے۔ ہم کچھ نہ کچھ تو جانتے ہیں۔ خواہ وہ کتنا ہی کم ہو اور کتنی ہی بے حقیقت ہو۔ 
پس، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے علوم و افکار میں بڑے زبردست علمی خلا پائے جاتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندر صرف خلا ہی خلا ہے جس میں کہیں کہیں پر علم ہے۔ اور اپنے وجود کے خلا میں موجود انہیں حقیر علوم و افکار کے بدلے دنیاوی نعمتوں کو برتنے اور ان کے انتظام و انصرام کا زبردست ہنر ہم۔کو بارگاہ فطرت سے عطا ہوا۔ یہ بھاپ، برق اور ایٹم کی قوتیں، یہ تھکان محسوس نہ کرنے والے انجن، آلات اور اوزار، یہ موٹر گاڑیاں، ٹرینیں، راکٹ اور ہوائی جہاز، یہ ریڈیو، ٹیلیفون اور ٹیلی ویژن، یہ انٹرنیٹ اور موبائل، یہ ہماری حیاتیاتی، کیمیائی اور طبیعیاتی تحقیقات، یہ نئے نئے مادی یا مصنوعی عناصر اور جین ایڈیٹنگ کے ذریعے انسانوں کی ایک نئی اور زیادہ مضبوط اور زیادہ خوبصورت نسل پیدا کرنے، اور مریخ اور ٹائٹن پر رہائش گاہیں بنانے کا ہمارا خواب، یہ سب ہمیں اسی کوشش سے حاصل ہوئیں جو ہم نے اسرار کائنات کو فاش کرنے جذبے سے سرشار ہو کر انجام دیں۔ درحقیقت راز ہستی کو کھولنے کے مقابلے میں یہ مادی ترقیاں ہرگز کوئی بڑی بات نہیں، اور اگر آخرت واقعی کوئی چیز ہے تو اس آخرت کے مقابلے میں یہ مادی لوازمات پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے لیکن یہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا کہ بھوکے پیٹ بھجن نہیں، اور جو دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ سو ہم نے بارگاہ فطرت کے ان بیش بہا انعامات کو قبول کیا لیکن اپنے جذبہ تجسس سے، اپنے سنس آف انکواِئری سے ہرگز ہرگز کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ اگر ہم آخرت کو مان لیتے اور آپ کی طرح اپنا ایک مستقل عقیدہ قائم کر لیتے تو نئے نئے عقائد اور مفروضات کے ساتھ اتنی بڑی بڑی یا بقول آپ کے اس قدر مادی اور بے حقیقت ایجادات و انکشافات کیونکر سامنے آ سکتے جن سے آپ بھی فایدہ اٹھانے پر مجبور ہیں؟ یہ نہ سمجھیں کہ ہماری ان اختراعات کا ہمارے ان متنوع عقائد و افکار سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہمارے عقائد آپ کی طرح پختہ اور جامد ہوتے یا گھوم پھر کر ایک ہی بات کہتے تو جیسے آپ اس وقت باہمی مار دھاڑ میں مشغول ہیں ایسے ہی ہم بھی رہتے۔ 
ہماری پیغمبرانہ جستجو تو اب بھی جاری ہے اور اس عمل میں ہر دن ایک نئی روشنی ایک نیا انعام ہم پر نازل کیا جاتا ہے۔ ہم ہر دن ایک نئی ٹیکنالوجی پیدا کرتے ہیں اور نئے نئے طریقے اور تدبیریں سوچتے ہیں اور اپنی زندگی کو آسان بناتے جاتے ہیں۔  

میرے پیارے قارئین، آپ غور کریں، کہ جن لوگوں کا نظریہ، عقیدہ اور عمل یہ ہو، کیا ان پر کسی تنقید کی گنجائش باقی رہتی ہے؟

جمعرات، 21 مئی، 2020

ارطغرل غازی والی فلمی حکمت عملی

حالیہ دنوں میں ارطغرل غازی نامی سیریل نے مذہب کے نام پر جو غیرمعقول رجعت پسندانہ کیفیت ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کر دی ہے، اس کو کم لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ غیرمعقول میں نے اس لیے کہا کہ یہ سیریل جس مذہبی طنطنے کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اس کے چند ہی سین دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اسلام کی سچی ترجمانی نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر ایک خاص قسم کا فریب دیتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس نکتے کو ثابت کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس تاریخی کردار ارطغرل کو اس سیریل میں پیش کیا گیا ہے، ہمارے بعض ماضی پرست اردو مبصروں نے اس کا عقیدہ اور مسلک تک دریافت کر لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ارطغرل کا تعلق ترک قبائل کی شاخ قائی قبیلے سے تھا اور یہ قبیلہ عقیدتاً اہل سنت و الجماعت سے منسلک تھا اور مسلکاً حنفی تھا!
مجھے نہ ارطغرل غازی کے اہل سنت ہونے سے کچھ غرض ہے اور نہ اس کے مسلکاً حنفی ہونے سے۔ لیکن حنفیت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا ارطغرل غازی کے تاریخی کردار سے متوقع ہے۔ اسی طرح اس سیریل کے مصنف اور ہدایت کار چاہے کسی بھی اسلامی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، ان کو چاہیے تھا کہ فلم بناتے وقت حنفی مسلک کی فقہ کو دھیان میں رکھتے لیکن انہوں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اسی کے نتیجے میں پورے کا پورا سیریل غیرمعقول، غیراہل سنت والجماعت، غیرحنفی اور غیراسلامی ہو گیا ہے۔
یوں تو فلم اور سیریل بنانا ہی اسلام کی رو سے ناجائز و حرام ہے۔ سر سید احمد خاں صاحب کی تکفیر بھی دیگر وجوہ کے ساتھ اسی وجہ سے بھی ہوئی تھی کہ وہ تصویر کو جائز کہتے تھے۔ (مذاہب اسلام از نجم الغنی رامپوری) لیکن چلیے اب کمیرہ اور ٹی وی کی ذی روح تصویریں کو جائز کر ہی لیا گیا ہے تو کم از کم بقیہ اسلامی احکامات و ہدایات کا تو خیال ڈائرکٹر کو رکھنا ہی چاہیے تھا ورنہ پھر وہ کس اسلام اور اسلام کے کن زریں اصولوں کی تبلیغ اپنے سیریل میں فرما رہے ہیں؟ اور کس اسلامی تہذیب کا شوق ،نوجوانوں کو دلا رہے ہیں؟ اور بالفرض ارطغرل سیریل کے مصنف اور ہدایت کار صحیح اسلامی ہدایات سے واقف نہیں تو کیا برصغیر کے ہمارے اسلامسٹ مبصروں کو بھی ان کا علم نہیں جو اس سیریل کو بحیثیت ایک اسلامی سیریل کے متعارف کرا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، وہ یہ دعوی بھی کر رہے ہیں کہ ارطغرل غازی کو دیکھ کر متعدد لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں! فلموں اور سیریلوں کے ذریعے اسلام پھیلانے کی یہ کوشش سوائے نادانی کے اور کچھ نہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اس سیریل کے خالقوں کی اہل سنت و الجماعت اور حنفی فقہ اور اسلام سے ناواقفیت کا ثبوت فراہم کریں، ہم برصغیر کے چند مبصروں کا قول نقل کرتے ہیں تاکہ اسلام پسندوں کے نزدیک اس فلم کی اسلامی حیثیت کیا ہے، وہ واضح ہو جائے!
ایک مبصر فرماتے ہیں:
"حال ہی میں بی بی سی نے ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ارطغرل ڈرامہ میں جو دکھا گیا ہے وہ خلاف حقیقت اور تاریخ کے برعکس ہے ۔ کئی یورپین اور امریکی دانشوروں نے بھی اس ڈرمہ پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ارطغرل ایک گمنام ہے جسے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے زبردستی ہیرو بناکر پیش کردیا ہے ۔
۔۔۔
تاریخ پڑھنے اور ڈرامہ دیکھنے کے بعد آپ یقینی طور پر یہی کہیں گے کہ ڈرامہ میں جو کچھ دکھاگیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے اور اس وقت کے یہی حالات تھے جیسا ڈرامہ میں بتایا گیا ہے ۔
۔۔۔
ڈرامہ میں پیش کی گئی فکر ، جدو جہد، صلیبیبوں اور منگولوں سے لڑائی حقیقت پر مبنی ہے ۔ ارطغرل کا تعلق ایک خانہ بدوش قبیلہ سے تھا جس نے عظیم اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا اور اس کا مشن پورا ہوا ۔ اس کے نام سے منگولوں اور صلیبیوں پر ہیبت طاری تھی اور آج اس کے کردار پر ڈرامہ بننے کے بعد پھر یورپ اور امریکہ پر اس غازی کا خوف طاری ہوگیا ہے ۔"
شمس تبریز قاسمی، اڈیٹر، ملت ٹائمز اور جوائنٹ ڈائرکٹر پریس کلب آف انڈیا۔
https://urdu.millattimes.com/archives/55874

ایک اور مبصر لکھتے ہیں:
"۔۔۔ اسلام دشمن اور خدا کے منکرین کا طبقہ اس ڈرامے کے خلاف بہت ہی بدترین بدہضمی کا شکار ہےـ کیونکہ غازی ارطغرل کا یہ تاریخی ڈرامہ مسلمانوں میں جس نظریے اور جذبات کو انگیخت کررہاہے اسی سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے لیے عالمِ کفر نے گزشتہ ۲ سو سال لگاتار محنت کی ہے۔"
"دیریلیس ارطغرل غازی ایک شاہکار نظریاتی قوت کا ثبوت دے رہا ہے،اس نے پوری دنیا میں مسلم نوجوانوں کے اندر عروج کی انگڑائی پیدا کردی ہے، اس ڈرامے نے مسلمانوں کو اپنے ماضی کے عظیم شہسواروں اور ہیروز کی جستجو میں ڈال دیا ہے، امریکہ اور برطانیہ کے پروڈکشن ہاؤز کا اثر مسلمانوں سے کم ہوگیا، مغرب، بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے مسلط کردہ شیطانی ہیرو اپنا اثر کھو رہےہیں۔" (خان سمیع اللہ)
https://qindeelonline.com/urtugal-darama-asarat-aur-ateraz…/

یہ دو تبصرے اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ ارطغرل غازی سیریل کو ہمارے مذہبی لوگ کس قدر پسند کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جو لوگ اس سیریل کو پسند کر رہے ہیں ان کی دشمنی "منکرین خدا" اور "عالم کفر" سے کتنی زیادہ ہے اور انہیں "ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے شیطانی ہیروز" سے کس قدر نفرت ہے۔
لیکن اتنی بڑے اسلامی سیریل کے متعلق مفتیان دین اور حامیان شرعِ متین کا فتوی کیا ہے وہ بھی سن لیجیے۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہوں گا۔ مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی، بنگلور ارطغرل غازی کے متعلق فرماتے ہیں:
"اس ڈرامے کی پہلی خرابی یہ ہے کہ اس میں تاریخی سچائی سے انحراف کیا گیا ہے۔کیوں کہ غازی ارطغرل کی مستند تاریخ محفوظ نہیں ہے۔دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں حسین عورتوں کا کردار بھی شامل کیا گیا ہے۔ظاہر ہے یہ عورتیں دیکھنے والوں کے لئے نامحرم ہیں لہذا! اِن کو دیکھنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نامحرم عورتوں کو دیکھنا آنکھ کا زنا قراردیا ہے۔نامحرم خواتین پر نظرڈالنا ایسا گناہ ہے جو بھیانک گناہوں تک لے جاتاہے۔
اس ڈرامے کی تیسری خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں عشق و معاشقہ کے مناظر پیش کئے گئے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے مناظر معاشرہ کے لئے اوربالخصوص نوجوان نسل کے لئے کس قدر مہلک اوراخلاق سوز ثابت ہوتے ہیں۔علماء نے لکھا ہے کہ فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار لہوِ حرام میں داخل ہیں۔
پانچویں خرابی جو اظہرمن الشمس ہے،یہ ہے کہ یہ سراسر لایعنی اورعبث چیز ہے۔اس سے نہ دینی فائدہ ہے اورنہ دنیوی فائدہ .محض تضییع اوقات ہے۔اس طرح کی چیزیں روحانیت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔
اس ڈرامے کی چھٹی خرابی یہ ہے کہ اس میں تصویر یں ہیں جب کہ تصویر کا حرام ہونا ہرزمانہ میں تمام علماء کے نزدیک مسلم رہاہے۔تصویر کے سلسلے میں علماء کا شدت پسند رویہ اس حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔
یہ ساری خرابیاں اورکئی قسم کے گناہ ”ارطغرل“ڈرامے میں جمع ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام دارالافتاؤں نے ”ارطغرل“ ڈرامے کو دیکھنا حرام قراردیا ہے۔
جو لوگ اس کو یکھنے کے جواز پر اصرار کررہے ہیں یقینا ان کا یہ نظریہ غلط اور راہِ راست سے ہٹاہواہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کو دیکھنے سے انقلابی کیفیت اوربہادرانہ عزائم پیداہوتے ہیں تو میں اِن لوگوں سے کہوں گا کہ اگر وہ یہ صفات پیداکرناچاہتے ہیں تو انہیں قرآن و حدیث اورسیرتِ رسول و سیرت صحابہ سے وابستہ ہونا چاہیے۔اس سے صالح انقلاب کے جذبات بھی پیدا ہوں گے اوراخلاق وکردار میں پاکیزگی اوربلندی بھی آئے گی۔"
https://hindustanurdutimes.com/%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB…/

غرض ہم نے دیکھا کہ ماڈرنسٹ اسلام پسندوں کی ارطغرل غازی کے متعلق کیا رائے ہے اور روایتی علمائے دین کا فتوی کیا ہے۔ اگر کسی فلم میں مرد و زن کا بے پردہ اختلاط دکھایا جائے، حسین عورتیں ہوں جو اپنی شکل و صورت کے حسن کی نمائش کر رہی ہوں، مرد و زن کے مابین معاشقہ بھی اس فلم میں دکھایا گیا ہو تو اس کو "اسلامی فلم" کیونکر کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو صریح غیراسلامی فلم ہوگی! انہیں سب باتوں کے لیے تو ہم ہالی ووڈ - بالی ووڈ کو برا کہتے رہے ہیں اور ٹی وی کو شیطانی بکسا قرار دیتے رہے ہیں۔ انہیں باتوں کی وجہ سے ہم مغربی تہذیب کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ اب یہی سب کچھ ہم کو اسلام کے نام پر دیکھنے کو مل رہا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مغربی تہذیب اپنا مقدمہ جیت چکی ہے۔ اور ماڈرن فرزندان اسلام پاکیزہ معاشرہ کے قیام کا اپنا دعوی کہیں دور چھوڑ آئے ہیں اور اس بات پر آمادہ ہیں کہ نامحرم مرد اور خواتین کو ناظرین کے سامنے پردے پر سجا سنوار کر پیش کیا جائے۔ یہ صریح مغرب والے اختلاط مرد و زن کی شروعات ہے۔
اس سلسلے میں اسلامی فقہ کی رو سے اصل نکتہ "سترِ عورت" کا ہے۔ اگر ایک فلم کار فلم بناتے وقت ستر عورت کو ملحوظ نہ رکھے تو اس کی فلم کو اسلامی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ارطغرل غازی میں ستر عورت کے حنفی قواعد کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اگر کسی غیر حنفی نقطہ نظر سے بھی دیکھِیں تو اس میں ہیروئن کی زلف کھلی ہوئی ہے، یعنی سر کو ڈھانکا نہیں گیا۔ یہ اسلام کے نام پر بنائی گئی فلم کے گمراہ کن ہونے کی صریح دلیل ہے۔
اسلام میں خواتین کے زلف کھول کر شوٹنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ممکن ہے کہ ماڈرن اسلام پسند یہ کہیں کہ صرف زلف ہی تو کھولی گئی ہے، اس میں کیا حرج ہے، ہالی ووڈ بالی ووڈ کی فلموں میں تو اور بھی بہت کچھ کھلا رہتا ہے۔ تو ایسے ماڈرنسٹ مذہبی رجعتیوں سے میرا کہنا ہے کہ جو ہیرے کا چور وہ کھیرے کا چور۔ اس طریقے سے فلمیں بنانا صریح گناہ کی بات ہے۔ یہ مفتی خلیل الرحمان قاسمی، بنگلور کے متذکرہ بالا مضمون سے قطعی واضح ہے۔
میں نے ارطغرل غازی سیریل کو ادھر ادھر سے دیکھا ہے، پورا دیکھنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔ لیکن جس قدر اس کو دیکھ سکا ہوں، میں اپنی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ اس نے مجھے کہیں سے مجبور نہیں کیا کہ اس کو پورا دیکھوں۔ میں تو ایسی فلموں دیکھتا ہوں کہ جنہیں اگر پانچ منٹ دیکھ لیا جائے تو پوری فلم دیکھے بغیر چین نہ آئے۔ اس لحاظ سے میں ہالی ووڈ فلمیں بھی دیکھتا ہوں اور بالی ووڈ فلمیں بھی۔
اگر ایک شخص کو فلمیں بنانی ہی ہیں اور فلمیں دیکھنی ہی ہیں تو اس کے لیے اسلام کا نام لینے کی کیا ضرورت ہے؟ جیسا کہ روایتی علما کہتے ہیں اسلام میں تو اس کی اجازت ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا نام لیے بغیر ہم نے اعلی درجے کی معیاری فلمیں بنائی ہیں اور عالمی سطح کے اداکار پیدا بھی کیے ہیں۔ مثلاً مدھوبالا، نرگس، سائرہ بانو، دلیپ کمار، شاہ رخ خان، عامر خان، عرفان خان، نواز الدین صدیقی، سلمان خان وغیرہ۔ ان اداکاروں کی بہت سی فلمیں ایسی ہیں کہ ان کو سنیما کی تاریخ میں لازوال حیثیت حاصل ہے۔ انہیں اداکاروں سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔ یہ وہ اداکار ہیں جو بلاتفریق مذہب و ملت تمام عالم انسانیت کے لیے اپنے فلمی کارناموں اور معرکوں کے لحاظ نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ اداکار بقیہ سب اداکاروں سے عظیم تر ہیں۔ فلم انڈسٹری میں ہر اداکار کی اپنی انفرادیت اور اپنی عظمت ہوتی ہے جسے وہ اپنی اداکاری کے زور سے قائم کرتا ہے۔
سنیماٹوگرافی سراسر ایک مغربی چیز ہے۔ مغرب ہی میں یہ پیدا ہوئی، اور مغرب ہی کے واسطے سے بقیہ دنیا میں پھلی پھولی، سنیما اور اسلام کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے سنیما کے میدان میں پیش قدمی اگر کرنی ہو تو اسلام کا حوالہ دینا قطعی غلط ہے۔
رہی بات سنیما کے ذریعے عملی زندگی میں اسلامی قدروں کو فروغ دینا تو جس مذہب میں سنیما دیکھنا ہی جائز نہ ہو، اس کو سنیما کے ذریعے فروغ دینے کی کوشش غیرسنجیدہ اور نازیبا ہے۔
آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اسلامی نظام کا قیام چاہنے والے اہل اسلام کو ارطغرل غازی ایسی گمراہ اور غیرشرعی فلموں کے دیکھنے سے محفوظ فرمائے۔ یہ دعا اس لیے کہ یہ اسلامسٹ آخر کس اسلام کو نافذ کریں گے؟ اسلام میں تو خواتین کو برقعہ پہننا ہے یا کم از کم سر ڈھانپنا ہے۔ اگر ارطغرل غازی سیریل کے زور پر اسلامی خلاف قائم ہو گئی تو اس میں اسلامسٹ حجاب کی پابندی کیسے کروا سکیں گے؟ کیا ان کے نزدیک اب اسلام میں حجاب کی پابندی اور ستر عورت کی شرط نہیں رہی؟
معلوم ہوتا ہے یہ ماڈرنسٹ اسلامسٹ حضرات ارطغرل غازی فلم کو محض عبوری حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب ارطغرل غازی اس سیریل کے ذریعے تاریخ کے دھندھلکے سے یکایک جست لگا کر برامد ہوگا اور خلافت قائم کر دے گا، تب اسلامی ریاست کے شہریوں کو یہ بتایا جائے گا کہ شرعی پردہ کی حد کیا تھی اور انہیں کس قسم کا حجاب کرنا ہے! یوں بھی آج کل ماڈرن اسلامسٹ بھی فرماتے ہیں کہ خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو ارطغرل غازی کی ہیروئن حلیمہ باجی نے موجودہ حجاب جیسا حجاب کیوں نہیں فرمایا؟ واللہ اعلم۔ بہت کنفیوزن ہے!

بیرون دریا کچھ نہیں

یہ حقیقت ہے کہ قدیم تہذیبیں مثلاً مصری، یونانی، ایرانی، ہندوستانی وغیرہ سب اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں تھیں۔ قرون وسطی کی جس تہذیب کو اسلامی کہا جاتا ہے وہ بھی نہایت ترقی یافتہ تھی۔ ان سب تہذیبوں کے علمی اور فنی کارناموں پر ہماری جدید تہذیب کی بنیاد ہے۔ لیکن ہماری قدیم اور وسطی تہذیبوں کے بہت سے تاریک پہلو بھی تھے اور ان کو جاننا ضروری ہے تاکہ ان سے بچ کر ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچا جائے۔
ایک رجعت پسند صرف اپنی تہذیب کے روشن پہلو کو ہی دیکھتا ہے اور تاریک پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنی تہذیب کے تاریک پہلوؤں سے اپنی شناخت کرنے لگتا ہے۔ دوسری تہذیبوں میں نہ اس کو روشنی نظر آتی ہے اور نہ ان کے بزرگوں میں کمال۔ اصل خرابی کی جڑ یہی ہے۔
رجعت پسندوں کے برعکس ترقی کے حامی افراد دنیا کی ہر تہذیب کی قدر کرتے ہیں لیکن ان کے تاریک پہلوؤں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کے نزدیک ارسطو، بوعلی سینا، آریہ بھٹ وغیرہ میں مذہبی لحاظ سے کوئی فرق مراتب نہیں ہوتا۔ سب اس کے اپنے بزرگ ہوتے ہیں۔
جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے ان میں اس رجحان کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اسلامی اور مغربی تہذیبیں جنہوں نے دنیا کی ہر قدیم تہذیب کے علوم و افکار سے فائدہ اٹھایا۔ آج کے جو رجعت پسند ہیں، وہ اس صفت سے عاری ہیں۔ وہ معاصر دنیا میں علوم کے جو خزانے ہیں اور علوم کے جو دریا بہہ رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ وہ خود اپنا رخ بدلتے۔ ایسے لوگ مذہب کے جامد تصور کے مارے ہوئے ہیں اور مذہب کو صرف مذہبی کتابوں اور صرف اپنی مذہبی کتابوں کی مدد سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مذہب اور مذہبی عقائد کا مفہوم زندگی کے دیگر علوم اور ان کے تصورات کے مقابلے میں ہی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ یعنی مذہب دیگر علوم و افکار کے درمیان ہی بامعنی ہے۔ اسی طرح تنہا ایک مذہب دیگر مذاہب کے درمیان ہی اپنی معنویت رکھتا ہے۔ توحید اسی وقت تک بامعنی اور قابل فہم ہے جب تک دنیا میں شرک کا تصور باقی ہے۔ شرک کے خاتمے کے ساتھ ہی توحید بھی محو ہو جائے گا۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہ حال افراد کے ساتھ ہی نہیں، نظریات کے ساتھ بھی ہے، عقائد کے ساتھ بھی ہے، علوم کے ساتھ بھی ہے۔
ایک فرد دوسرے فرد کے بغیر، ایک نظریہ دوسرے نظریہ کے بغیر، ایک عقیدہ دوسرے عقیدے کے بغیر، ایک مذہب دوسرے مذہب کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتا۔
جب حقیقت یہ ہے تو کون یہ کہہ سکتا ہے کہ تنہا اس کی تہذیب خود کفیل اور خود مختار ہے اور اس کے تصوراتی اور واقعی وجود کے لیے دیگر تہذیبوں کی ضرورت نہیں ہے؟
جو لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھ پائیں، وہی نرگسیت کے شکار ہوتے ہیں۔
اس نرگسیت سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ چیزوں کو ان کی انفرادیت میں ہی نہیں ان کی جامعیت میں بھی دیکھا جائے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم چیزوں کو انفرادیت میں سوچ سکنے کے اہل ہیں۔ ہم چیزوں کو تنہا اور اکیلا سوچ ہی نہیں سکتے، ہم کو تو صرف یہ وہم ہوتا ہے کہ ہم مثلاً اسلام، عیسائیت، ہندو مت وغیرہ کو تنہا تنہا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں کسی منفرد مذہب یا عقیدہ پر سوچتے وقت پس منظر میں دیگر مذاہب اور عقائد موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ذہن میں موجود اس پس منظر کا ادراک ہو جائے۔ یہ ادراک ہو جائے کہ ایک شئے دیگر اشیا کے درمیان ہی بامعنی ہے۔ یا زیادہ فنڈامنٹل طور پر، ایک شئے دوسری شئے کے مقابلے میں ہی ذہناً اور وجوداً خاص شناخت ہو سکتی ہے۔ یہی ادراک تحفہ ہے اس نرگسیت کے لیے جو اپنے ہی ماضی کے خود ساختہ تصور کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
جب تک چیزیں مختلف نہ ہوں یا وہ جب تک متبائن اور متضاد نہ ہوں تب تک ان کو شناخت ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سب کچھ ایک جیسا ہو جائے تو دفعتاً ہستی کی روشنی معدوم ہو جائے۔ ہستی اسی وقت تک ہے جب تک کہ نیستی کا تصور ہے۔ حروف تہجی میں صرف ایک حرف سے کیا کام چل سکتا ہے؟ سب حروف مل کر ہی تو حروف تہجی بناتے ہیں۔ سب مذاہب مل کر مذہب کے شعبے کو وجود میں لاتے ہیں۔ سب فلسفے مل کر فلسفہ کے شعبے کو۔ پھر مذہب، فلسفہ، شاعری ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی بنا پر ہی ایک دوسرے سے علیحدہ خیال کیے جاتے ہیں اور انسانی زندگی کی تکمیل کرتے ہیں۔ تنہا ایک شعبہ کس طرح تمام شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے؟ اور اگر اس کی کوشش کی جائے تو فساد فی الارض کی مختلف صورتیں پیدا ہوں گی۔
اس رخ پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
صرف مذہبی رجعت پسندوں کے خلاف گفتگو کرتے رہنا ان کے مرض کو اور بڑھائے گا:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
یہ علاج ہی صحیح نہیں کہ ان کی خرابیوں کو واضح کیا جائے۔ کیونکہ آپ ان کا جس قدر علاج کریں گے، وہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔
(فیس بک پر میرا ایک تبصرہ، 11 مئی 2020)

منگل، 3 دسمبر، 2019

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیا, آیت نمبر 30)
آج میں اسی موضوع پر چند حقائق تاریخی ثبوتوں کے ساتھ پیش کروں گا. لیکن پہلے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمت اللہ علیہ کی کتاب انتباہات سے ایک اقتباس پڑھ لیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ جدید ترین سائنسی نظریات کی بنا پر قرآن کی صداقت کی دلیل پیش کرنا ہرگز کوئی مستحسن رویہ نہیں ہے. حضرت مولانا تھانوی اپنی کتاب انتباہات میں فرماتے ہیں:
"... دوسری غلطی یعنی قرآن میں اس کے مسائل کو سائنس پر مشتمل ہونے کی کوشش کرنا۔ جیسا آج کل اکثر اخباروں اور پرچوں میں اس قسم کے مضامین دیکھنے میں آتے ہیں کہ جب اہل یورپ کی کوئی تحقیق متعلق سائنس کے دیکھی سنی, جس طرح بن پڑا اس کو کسی آیت کا مدلول بنا دیا اور اس کو اسلام کی بڑی خیرخواہی اور قرآن کے لیے بڑی فخر کی بات اور اپنی بڑی ذکاوت سمجھتے ہیں اور اس غلطی میں بہت سے اہل علم کو مبتلا دیکھا جاتا ہے۔ اور اس میں ایک غلطی تو یہی ہے کہ مسائل سائنس پر مشتمل ہونے کو قرآن کا کمال سمجھا اور وجہ اس کی یہ ہوئی کہ قرآن کے اصلی موضوع پر نظر نہیں کی گئی۔
قرآن اصل میں نہ سائنس کی کتاب ہے نہ تاریخ کی نہ جغرافیہ کی۔ وہ ایک کتاب ہے اصلاح ارواح کی جس طرح کتب طبیہ میں مسائل ہیں اصلاحِ اجسام کے۔ پس جس طرح کسی کتاب طبی کا پارچہ بافی و کفش دوزی کی صنعت و حرفت کی تحقیق سے خالی ہونا اس کے لیے موجب نقصان نہیں بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس تحقیق پر بلاضرورت مشتمل ہونا خود بوجہ خلط مبحث کے ایک درجہ میں موجب نقصان ہے اور خالی ہونا کمال ہے۔" (انتباہات از مولانا اشرف علیتھانوی)
اب آئیے, قرآن اور بگ بینگ کے موضوع پر بات کریں.
پہلے یہ سمجھ لیں کہ بگ بینگ کا نظریہ جس کو سائنس کا ایک بڑا عظیم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے, کوئی جدید تصور نہیں ہے. اس کی جڑیں یونانی اساطیر اور یونانی فلسفہ میں پیوست ہیں. اس نظریے کا مرکزی خیال متعدد یونانی ماخذوں میں ملتا ہے. مثلا یوریپیڈس کے ڈرامے میلانپے میں یہ الفاظ آئے ہیں:
.... The heaven and earth were once a single form.
پہلی صدی قبل مسیح کے یونانی مورخ دیودور الصقلی (Diodorus Siculus) نے اس تصور کو انیکساغورس سے منسوب کیا ہے اور بازنطین زیزیس نے اس تصور کو انیکساغورس کے ساتھ ساتھ امپیڈوکلس, ہیسیوڈس اور اورفیوس سے بھی منسوب کیا ہے.
حوالہ:
Edmonds, Radcliffe G., III. 2013. Redefining ancient Orphism: A study in Greek religion. Cambridge, UK: Cambridge Univ. Press. Page No 85
ہندوستان کے معروف مفکر رادھاکرشنن نے اپنی کتاب

The Principal Upnishads
کے صفحہ 38 پر اس نقطہ نظر کو یوریپیدس کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی فلسفی انیکسامنڈر سے بھی منسوب کیا ہے:
Anaximander develops a scheme similar to the Orphic cosmology: (1) There is a primal undifferentiated unity. (2) A separation of opposites in pairs to form the world order. (3) A reunion of these sundered opposites to generate life. This formula is stated by Euripides (Melanippe, Fragment 484): "The tale is not mine; I had it from my mother: that Heaven and Earth were once one form, and when they had been sundered from one another, they gave birth to all things and brought them up into the light.'
یعنی انیکسامنڈر نے اورفیائی تصور کائنات سے ملتا جلتا منصوبہ پیش کیا ہے جو یہ ہے کہ (1) ایک ابتدائی غیرمنفک وحدت تھی (2) یہ وحدت اضدادی جوڑوں میں منقسم ہو گئی جس سے نظام عالم نے اپنی ہستی پکڑی (3) ان اضدادی جوڑوں کے ایک بار پھر ملنے سے زندگی وجود پذیر ہوئی.
یہ فارمولا یوریپیڈس (ملانپے, فریگمنٹس 484) میں بھی مذکور ہوا ہے. ... آسمان اور زمین کبھی ایک ہیئت تھے, اور جب وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے تو ان کے سبب تمام چیزیں پیدا ہوئیں اور روشنی میں آئیں.
حوالہ:
Radhakrishnan, Sarvepalli. 1913. The principal Upanishads. London: George Allen & Unwin. Page No 38
میں نے مزید تحقیق کی تو دیودور الصقلی, جس کا ذکر اوپر آیا, اس کے تاریخی متن میں اس تصور کا درج ذیل الفاظ میں تذکرہ ملا:
For whereas all things at the first were jumbled together, Heaven and Earth were in one Mass, and had the one and the same Form: But afterwards (they say) when Corporeal Beings appeared one after another, the World at length presented itself in the order we now see ...
حوالہ:
https://books.google.co.in/books?id=18NuQDkB0dMC&pg=PA1&dq=%22For+whereas+all+things+at+the+first+were+jumbled+together%22+diodorus&hl=ur&sa=X&ved=0ahUKEwjJ3v_1kpLpAhV6zzgGHevhDTgQ6AEICDAA#v=onepage&q=%22For%20whereas%20all%20things%20at%20the%20first%20were%20jumbled%20together%22%20diodorus&f=false
غرض ہم نے دیکھا کہ یہ نکتہ کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے, بعد ازاں جدا ہوئے, یہ سائنس کی کوئی ایسی معجزاتی تحقیق نہیں کہ بگ بینگ تھیوری سے پہلے لوگ اس کو نہ جانتے ہوں۔ یہ عقیدہ ہزاروں سالوں سے چلا آ رہا ہے, بیسویں صدی میں سائنسدانوں کو صرف یہ کامیابی ملی ہے کہ انہوں نے جدید ترین فلکیاتی آلات سے اس سمت میں مزید یقین بہم پہنچایا ہے تاہم اس کے باوجود یہ ابھی تک صرف ایک نظریہ ہی ہے. اور کبھی بھی اس کا خاتمہ ہو سکتا ہے. سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں, اس لیے یہ خواہش کہ کاش ہماری مذہبی کتاب میں بھی جدید ترین سائنسی نظریات کی گنجائش نکل آتی, ایک غیر موزوں ہی نہیں غیر محتاط خیال بھی ہے. کیونکہ اگر ہم نے یقین کر لیا کہ ہمارے بعض مذہبی عقائد سائنس سے ثابت ہیں اور آگے چل کر اگر خود سائنس بدل گئی تو کیا ہوگا؟ البتہ ہم کو اگر سائنسی تحقیقات سے ایسی ہی گہری دلچسپی ہے تو ہم خود آزادانہ ایک سائنسی نظریہ اور تحقیق پیش کر کے اس ہر بجا طور ہر فخر محسوس کر سکتے ہیں.
مذکورہ بالا ماخذوں سے جو اقتباسات میں نے پیش کیے ہیں, ان میں ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس طرح "آسمان اور زمین" کی لفظیات میں اولین تخلیق کا ذکر ان میں کیا گیا ہے بعینہ اسی طرح قرآن میں بھی "آسمان اور زمین" کے ساتھ کہا گیا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیا, آیت نمبر 30)
قدیم اساطیری و فلسفیانہ تصورات اور قرآن کریم دونوں "آسمان اور زمین" کی لفظیات میں اس لیے بات کرتے ہیں کہ ازمنہ قدیم اور قرون وسطی میں یہی لفظیات رائج تھیں. لوگ اسی طرح کائنات کو سوچتے تھے اس لیے اسی طرح کلام کیا گیا.
اب رہا یہ سوال کہ سابقہ اساطیری و فلسفیانہ کتابوں کی طرح قرآن کریم میں بھی یہ تصور کیوں پایا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانے میں اہل علم کا جو اعتقاد ہوتا ہے اسی کے اعتبار سے مذہبی کتابیں بھی نازل ہوتی ہیں اور وہ بنیادی طور پر یہ بتاتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ تم یہ جو سمجھ رہے ہو کہ کائنات کی ابتدا یوں نہیں یوں ہوئی ہوگی تو اس ابتدا کی تہہ میں کارفرما سبب دراصل رب العالمین کا ہے, اور رب وہ ہے جو کائنات کے نظام کو, خواہ تم کو وہ جیسا بھی نظر آئے, چلا رہا ہے. اس رب اور پاک پروردگار کو تم اصطلاحی طور پر خدا کہو, گاڈ کہو یا اللہ, بات ایک ہی ہے. یعنی مذہبی کتاب یہ نہیں بتاتی کہ کائنات کا راز کیا ہے, اور یہ کیونکر وجود میں آئی, اگر خدا تعالی ہم کو یہ بتا دے تب تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے. پس, مذہبی کتابیں ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ تم اگر اپنی عقل سے کائنات کی ابتدا اس طرح سے ہونا سمجھ رہے ہو تو یہ مت سمجھنا کہ یہ کوئی کھیل تماشہ ہے اور بلاارادہ و الل ٹپ یہ سب کچھ واقع ہو رہا ہے بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک صاحب ارادہ اور فعال ہستی کے اثر سے واقع ہو رہا ہے. اس کا ایک عظیم مقصد ہے جس کو سمجھنے کی کوشش تم کر سکتے ہو لیکن ہر حال میں یاد رکھنا کہ زندگی عشق و محبت اور امن و شانتی, صلح و آشتی, باہمی ہمدردی اور وسیع المشربی سے عبارت ہے. ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے. سب کی آزمائش اسی میں ہے کہ کارخانہ کائنات کو کارعبث نہ سمجھیں بلکہ اس کی حکمتوں میں فکر و تحقیق کریں.
اس تحقیق سے ہم کو یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہم کَبھی اپنی مذہبی کتاب کے متعلق یہ نہ کہیں کہ اس میں تو اتنے سو یا ہزار سال پہلے ہی آج کی سائنسی تحقیقات کا حاصل پیش کر دیا گیا تھا. اس قسم کی باتوں سے ذہن بھٹک کر غلط راہ ہر لگ جاتا ہے اور ہم مذہبی کتابوں میں تزکیہ و تصفیہ قلب کے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ان سے جدید ترین سائنسی تحقیقات برامد کرنے لگ جاتے ہیں. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دین میں کچھ ترقی ہوتی ہے اور نہ دنیا حاصل ہوتی ہے.