نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تلاوت یعنی پڑھنا اور سمجھنا دونوں؟

عصرِ حاضر کے ایک بلند پایہ عالم دین مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو فیس بک پر’قرآن کو سمجھ کر پڑھنے‘‘ سے متعلق ایک اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا جو درجِ ذیل ہے:
’’قرآن کے الفاظ اللہ کے ہیں انہیں پڑھنا مطلوب۔ یہ الفاظ بامعنی ہیں، انہیں سمجھنا مطلوب۔ یہی پڑھنا اور سمجھنا تلاوت ہے۔‘‘
میں نے موصوف کے اس اسٹیٹس اپڈیٹ پر ایک مختصر گفتگو کی تھی جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں:

طارق احمد صدیقی: اس اعتبار سے تو صرف اردو یا صرف انگریزی جاننے والوں کی نماز بھی ناقص ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں بھی قرآن پڑھتے ہیں بغیر سمجھے بوجھے۔
اسی لیے یگانہ چنگیزی نے کہا ہے:
سمجھ میں کچھ نہیں آتا پڑھے جاؤ تو کیا حاصل
نمازوں کا ہے کچھ مطلب تو پردیسی زباں کیوں ہو!
کیا آپ پڑھنے میں سمجھ کے عنصر کو لازم کرنے کے ذریعے دراصل یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو عربی پڑھنی چاہیے؟ پھر جو لوگ عربی داں ہوں، وہی قرآن اور نماز صحیح طور پر پڑھ سکتے ہیں۔ اور جو لوگ عربی نہیں جانتے، ان کا نماز قرآن پڑھنا ناقص ہے۔۔۔
ویسے اصولا بات یہی صحیح ہے کہ سمجھتے ہوئے پڑھنا ہی تلاوت ہے۔ اگر صرف زبان سے پڑھنا تلاوت ہو تب تو طوطا بھی قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے۔
محی الدین غازی صاحب:
یہ بات میں اوپر بھی لکھ چکا ہوں کہ نماز میں اصل افعال ہیں. ان افعال کو بھی سمجھنا مطلوب ہے. اذکار کی حیثیت زیادہ تر ضمنی ہے. اور ان میں بھی اصل سورہ فاتحہ ہے. اگر سورہ فاتحہ کا مطلب معلوم ہوجائے تو بڑی حد تک کافی ہے. باقی بھی چند ہی مختصر اذکار ہیں جن کا مطلب ایک بار ذہن نشین کرلینا آسان ہے. ہم جب بچپن میں نماز یاد کراتے ہیں تو ضروری اذکار کا ترجمہ بھی آسانی سے ذہن نشین کراسکتے ہیں. صرف ٹرینڈ سیٹ کرنے کی دیر ہے اور اسی کے لئے میں سرگرم ہوں.
انتظام کریں
طارق احمد صدیقی: یعنی بچے اصل قرآن تو یاد کریں ہی، اس کا ترجمہ بھی یاد کریں۔ یہ دوہرا بوجھ ہوا۔ لیکن تلاوت کا مفہوم اب بھی پورا نہیں ہوا۔ اصل اور ترجمہ دونوں رٹ جانا اور ایک آیت پڑھتے وقت اس کے ترجمے کو ذہن میں لانا، اصولاً یہ تلاوت میں شمار نہیں۔ تلاوتِ قرآن کی اصل شرط تو جبھی پوری ہوگی کہ انسان عربی جانتا سمجھتا ہو۔
کوئی غیراردو داں مثلاً انگریز رومن رسم خط میں دیوانِ غالب کو ترجمہ کے پہلو بہ پہلو پڑھے، اور کوئی اردو داں براہِ راست اردو میں دیوانِ غالب پڑھے، تو کیا ان دونوں ُعملوں پر لفظ ’’پڑھنا‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں، توان میں سے زیادہ بہتر (ہر اعتبار سے) کون سا پڑھنا ہے؟ ظاہر ہے اردو داں شخص کا۔
اب میں یہاں اس مسئلے سے متعلق چند باتیں عرض کروں گا۔ پہلی تو یہ کہ کسی متن کو سمجھنا اور اس کے ترجمے کو سمجھنا، دو باتیں ہیں۔ اگر ہم اصل زبان نہ جانتے ہوں تو اس میں لکھے گئے کسی متن کی تلاوت بھی نہیں کر سکتے اگر تلاوت کے معنی پڑھنا ہوں۔
دوسری بات یہ کہ کسی اجنبی زبان کی کتاب کا ترجمہ پڑھنا اصل کتاب کو پڑھنا نہیں ہے بلکہ اس کے ترجمے کو پڑھنا ہے۔ اسی طرح قرآن کا ترجمہ پڑھنا، قرآن کی تلاوت نہیں بلکہ قرآن کے ترجمے کی تلاوت ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ کسی اجنبی زبان کی کتاب کو اس کے ترجمے کے پہلو بہ پہلو پڑھنا بھی دراصل ترجمہ ہی کو پڑھنا ہے نہ کہ اصل کتاب کو۔ کیونکہ ترجمے کی مدد سے پڑھنے والا درحقیقت اصل کتاب کی زبان سے نابلد ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ اصل کتاب کو پڑھ ہی نہیں سکتا (کیونکہ پڑھنا میں زبان کی واقفیت کے ساتھ پڑھنا شرط ہے)۔ دلیل اس پر یہ ہے کہ طوطے کو کسی کتاب کے مشتملات رٹا دینے سے طوطا اس کتاب کا قاری نہیں کہلا سکتا۔
چوتھی بات یہ کہ ہم ترجمے کی مدد سے کسی زبان کا علم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جب تک ایک شخص اس طریقے سے کسی اجنبی زبان کی بنیادی واقفیت حاصل نہ کر لے، وہ اس زبان میں لکھی گئی کسی کتاب کو سمجھتے ہوئے نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے ایک شخص ترجمہ کی مدد سے قرآن کا پڑھنے والا اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ وہ اس طریقے سے عربی داں نہ ہو جائے جو کہ بیحد مشکل ہے۔
پانچویں بات یہ کہ اجنبی زبان میں لکھی گئی کسی کتاب کے جملوں کو بغیر سمجھے بوجھے منہ سے ادا کرنا محض تلفیظ (بمعنی آرٹیکولیشن) کے درجے میں آتا ہے۔ غیرعربی داں کا قرآن پڑھنا بھی سوائے تلفیظ کے اور کچھ نہیں۔ یہ کچھ ایسی بات ہے جیسے جادو منتر کرنے والا کوئی شخص کسی قدیم اجنبی زبان کے منتر کا جاپ کرے جس کو منتروچّار کہا جاتا ہے۔
چھٹی اور آخری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ بعض بعض مسلمان بہت ہی قلیل مقدار میں عربی جانتے ہیں، مثلاً وہ سورہ فاتحہ کے دو چار الفاظ کے معنی جانتے ہوں لیکن پورے جملے کو اہلِ زبان کی طرح نہ سمجھ سکتے ہوں۔ یہ مسئلہ اختلافی کہا جا سکتا ہے کہ آیا ایسی تلفیظ کو بھی ’پڑھنا‘ میں شمار کریں یا نہ کریں۔ کیونکہ اس صورت میں عربی جملوں یا آیات کو زبان سے ادا کرنے والا شخص بعض بعض عربی الفاظ کا مطلب جانتا ہے۔ علمی حزم و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کو بھی پڑھنا میں شمار نہ کریں کیونکہ سمجھنے کے عمل کی تکمیل اس میں نہیں ہوتی۔ البتہ رواداری یہ ہے کہ اس کو بھی پڑھنا کہیں کیونکہ کچھ نہ کچھ تو مطلب وہ سمجھتا ہی ہے گو اس کا سمجھنا ناقص ہے۔
پس، علمی رواداری اس مسئلے میں یہ ہے کہ جو غیرعربی داں قرآن کی آیات کے الفاظ میں سے بعض کو سمجھتے ہوئے قرآن پڑھتے ہوں، انہیں قرآن کو پڑھنے والا تو کہا جائے لیکن ناقص۔ واللہ اعلم۔
محی الدین غازی صاحب: قرآن کا ترجمہ حفظ کرنے کی بات کہاں سے آگئی.؟
طارق احمد صدیقی: اگر ہم عربی داں نہ ہوں تو ترجمہ کی مدد سے ہی تو اس کے مطلب کو ذہن نشیں کریں گے نہ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عربی نہ جانتے ہوں اور سورہ فاتحہ کا مطلب ذہن نشیں کر لیں؟
محی الدین غازی صاحب: دراصل قرآن مجید کا معاملہ دوسری کتابوں سے قدرے مختلف ہے. دوسری کتابوں میں جب آپ اصل کی زبان نہیں جانتے تو ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں اصل نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں میں نے فلاں کی کتاب انگریزی میں تو نہیں مگر اردو میں پڑھ لی ہے.
قرآن مجید کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اصل متن بھی پڑھنا ہے اور اس اصل متن میں جو کہا گیا ہے وہ اپنی زبان میں سمجھنا بھی ہے. اور اسی کے لیے غیر عربی داں کو ترجمہ سے مدد لینی ہوتی ہے. اصل کی تلاوت کے ساتھ ساتھ. تاکہ تلاوت کا عمل مکمل ہوجائے.
طارق احمد صدیقی: میں عرض کر چکا ہوں کہ کسی دوسری زبان کی کتاب کی تلفیظ کے پہلو بہ پہلو اس کا ترجمہ پڑھنا، اس دوسری زبان کی کتاب کو پڑھنا نہیں۔ قرآن کی تلفیظ یعنی آرٹیکولیشن اور قرآن کا ترجمہ پڑھنا دو چیزیں ہیں۔ ان دونوں کو باہم ملانے سے بھی قرآن کی تلاوت نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی تلاوت کی شرط تو جبھی پوری ہوگی کہ ہم عربی سمجھتے ہوئے قرآن پڑھیں (اگر تلاوت کا مفہوم ’’پڑھنا‘‘ ہو، اور اگر تلاوت کا مفہوم محض تلفیظ یعنی آرٹیکولیش ہو تب مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔)
آپ نے صحیح اشارہ کیا کہ ذہن نشین کرنا اور یاد کرنا میں فرق ہے۔ میرے اوپر کے تبصرے میں جہاں ترجمہ کے سلسلے میں ’’یاد کرنا‘‘ آیا ہے، اس کو ذہن نشین کرنا سمجھا جائے۔
محی الدین غازی صاحب: تلاوت کا مفہوم تلفیظ کے ساتھ مفہوم بھی سمجھنا ہے. آپ عربی نہیں جانتے ہیں لیکن ایک بار اللہ اکبر کا مطلب سمجھ لیں گے تو جب بھی اللہ اکبر کی تلفیظ کریں گے اس کا مفہوم ذہن میں آجائے گا. نماز کے بنیادی اذکار میں یہ صلاحیت حاصل کرلینا آسانی سے ممکن ہے بنا عربی سیکھے
طارق احمد صدیقی: اللہ اکبر، یا الحمد لللہ، السلام علیکم تو اردو میں بھی رائج ہیں، اور عام طور پر لوگ اس کے معنی جانتے ہیں۔ معنی کا جاننا یہ ہے کہ فلاں جملے یا لفظ کے معنی ہم کو بتا دیے جائیں اور ہم اس کو ذہن نشیں کر لیں۔ معنی کا سمجھنا یہ ہے کہ ہم جملے میں الفاظ کی ترتیب سے معنی اخذ کریں۔ یہ کام تو اہل زبان ہی کر سکتا ہے جو اپنی زبان کی صرف و نحو اور اس کے دیگر قواعد کو استعمال کرتا ہے۔
دوسری زبان کے جملے کو لفظ بہ لفظ ادا کرنا اور اپنی یاد سے اس جملے کے معنی کو ذہن میں لانا، اس کو علمی طور پر تلاوت کی تعریف میں داخل کرنا اصولاً صحیح کیسے ہو سکتا ہے، اس پر مزید غور کرنا ہوگا۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...