پیر، 11 جولائی، 2016

امام رازی کی ’’گمراہی‘‘ کا ایک ثبوت

مولانا شبیر احمد خاں غوری امام رازی کے متعلق لکھتے ہیں:
امام رازی اپنی فلسفہ بیزاری کے باوجود شیخ بو علی سینا کی ”الاشارات و التنبیہات “ کے نمط تاسع سے جو علوم صوفیا کے باب میں ہے، حد درجہ متاثر تھے، چنانچہ انہوں نے اس ”نمط“ کی شرح شروع کرنے سے پہلے لکھا تھا: انہ ذا الباب اجل ما فیہ ذا الکتاب قانہ رتب فیہ علومالصوفیة ترتیبا ماسبقہ الیہ من قبلہ و لا لحقہ من بعدہ ترجمہ: یہ باب اس کتاب میں سب سے زیادہ جلیل القدر ہے، کیونکہ (اس کے اندر شیخ بو علی سینا نے) علوم صوفیہ کو ایک ایسے انداز سے مرتب کیا ہے جس کی نہ اس کے پیش روؤں کو ہوا لگی تھی اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکے۔
لیکن یہ نام نہاد ”علوم ِ صوفیا کی تبیین و توضیح “ نبوت کی فلسفیانہ توجیہ ہےکیونکہ اس نے نبوت کے ”وہبی“ ہونے کے عقیدہ کے خلاف اس کے ”کسبی“ و اکتسابی ہونے کے شوشہ کو ہوا دی۔ امام رازی ابن سینا کی اس فلسفیانہ توجیہ کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہوں نے اس کے رسالہ ”معراج نامہ “ کو جس میں اس نے ”الاشارات“ سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ اس توجیہ کو قلمبند کیا ہے، اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ اس معراج نامہ نے بعد کے تفلسف زدہ متصوفین کو بے حد متاثر کیا۔ ان میں نمایاں نام دسویں صدی ہجری کے شیخ غوث گوالیری کے “رسالہ معراجیہ“ کا ہے۔ اس کی خلاف شرع عبارتوں سے برہم ہو کر پہلے شمالی ہند کے علما نے اور پھر گجرات کے علما نے ان کی تکفیر کی اور قتل کا فتویٰ صادر کیا۔“ (غوری، شبیر احمد خاں، شیخ بو علی سینا کی شخصیت۔حقائق کی روشنی میں، مشمولہ اسلامی منطق و فلسفہ۔ ایک جائزہ، مرتب و ناشر: خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، صفحہ336)۔۔

اتوار، 10 جولائی، 2016

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد



علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’

اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا :

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضرت نے لگایا جن کو ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں۔آئیے ہم امامِ عالی مقام کی کتاب ‘‘المنقذ من الضلال ’’ سے وہ اقتباس پڑھیں جس میں ان کی علمی تکفیر کا ایک نمونہ پایا جاتا ہے:


‘‘پھر ارسطاطالیس نے افلاطون اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الٓہیہ کی جو اُس سے پہلے گذرے ہیں ایسی تردید کی ہے کہ کچھ کسر باقی نہیں رکھی۔ اور ان سب سے اپنی بیزاری ظاہر کی ہے۔ لیکن اُس نے بعض رذایل کفر و بدعت ایسے چھوڑ دیے جس کی تردید کی توفیق خدا تعالی نے اس کو نہیں بخشی تھی ۔ پس واجب ہے کہ اُن کو اور اُن کے اتباع مثلاً علمائے اسلام میں سے بوعلی ابن سینا اور فاریابی وغیرہ کو کافر کہا جائے۔ کیونکہ ان دو شخصوں کی مانند اور کسی شخص نے فلاسفہ اہل اسلام میں سے فلسفہ ارسطاطالیس کو اس قدر کوشش سے نقل نہیں کیا ۔’’

[حوالہ: ابی حامد محمد غزالی، خیرالمقال فی ترجمہ المنقذ من الضلال ، ترجمہ :مولوی سید ممتاز علی، مترجم چیف کورٹ پنجاب لاہور، مطبع :اسلامیہ پریس لاہو، 1890عیسوی، صفحہ نمبر 32-35]


برادرانِ اسلام، اب جتنا چاہے افسوس کیجیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ غزالی نے ابن سینا اور فارابی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا کہ وہ کافر تھے کیونکہ ان دونوں جید فلسفیوں کے عقائد و افکار بالتحقیق غیراسلامی اور خلافِ قرآن تھے۔ لیکن اگر آپ بھی علامہ غزالی کی طرح ابونصر فارابی اور ابن سینا کو کافر مانتے ہیں، تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو علم سکھایا؟ فارابی و ابن سینا تو مسلمان تھے ہی نہیں، پھر ہمارا یہ دعوی باطل ہوا یا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس کے فروغ میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا؟ اہلِ مغرب نے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا علم تو حاصل نہیں کیا ، انہوں نے تو فارابی و ابن سینا اور دوسرے کافر وملحد لوگوں سے فلسفہ ہی سیکھا، پھر سوال یہ ہے کہ عہدِ وسطی کے سائنسی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں کا کارنامہ کیوں کہا جائے؟ صرف اس لیے کہ فارابی اور ابن سینا مسلمانوں میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دور کے فلسفہ و سائنس میں اعلی ترین مقام حاصل کیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عقیدہ کی بنیاد پر تکفیر کا یہ باب بند کیا جائے اور ان سب لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، اور / یا خود کو مسلمان قرار دیا۔یہی امت کی بازیافت اور اس کی تعمیرِ نو کی دنیاوی بنیاد ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر یہ منظور نہیں توباطل تعمیمات پر مبنی ایسے گمراہ کن اور بوگس دعوے ختم کیے جائیں کہ مسلمانوں نے اہل ِ مغرب کو فلسفہ اور سائنس سکھایا، اور ٹھیک ٹھیک یہ پتا لگایا جائے کہ عہدِ وسطی کے کتنے فلاسفہ و سائنسداں اپنے عقائد کے اعتبار سے صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھے اور کتنے ان میں ملحد و زندیق اور دیگر اقسام ‘گمراہ’ اور ’گمراہ گر’ پیدائشی مسلمان تھے جنہیں امتِ مسلمہ سے خارج کرنا شرعاً ضروری ہے۔

جمعہ، 8 جولائی، 2016

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ)
ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان نامی اپنی تالیف میں جگہ دی ہے۔ میں یہاں ان کی مذکورہ تالیف سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا جس سے یہ صریحاً یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرات کا عمل تکثیری ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مولوی ذکاءاللہ کی رائے معنی کی تکثیریت پر بعینہ وہی ہو جو قاری اساس تنقید کے جدید نظریہ سازوں نے پیش کی۔ اب وہ اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘ہر شخص جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ اپنے تصور کی ایک علامتِ محسوسہ دکھاتا ہے۔ ان الفاظ کا استعمال دو مقصدوں کے لیے وہ کرتا ہے کہ کیا تو اپنے حافظہ کی اعانت کے لیے ان کو لکھتا ہے یا اپنے تصور کو دوسرے پر ظاہر کرنے کے لیے بولتا ہے۔ یہ الفاظ اپنے ابتدائی معانی ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں اور استعمال کرنے والے کے تصور کے قائم مقام ہونے کے سوأ وہ کچھ اور کام نہیں کرتے۔جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے اپنی بات سمجھانے کے لئے بولتا ہے تو اس بات چیت کا مآل یہی ہوتا ہے کہ بولنے والے کے تصورات بذریعہ اصوات جو اس کے تصورات کی علامات ہیں سننے والے کو معلوم ہو جائیں۔ بولنے والا اپنے تصورات کی نشانیاں بناتا ہے اپنے سے غیرتصورات کے لئے ان کو نہیں بنا سکتا۔ یہ ایک بے معنی بات ہے کہ وہی نشانیاں جو اپنے تصور کے لئے کام میں لائے وہی غیرتصور کے لئے کام میں لائے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تصور کے لئے نشانیاں بناتا بھی ہے اور نہیں بھی بناتا ہے۔ الفاظ تو ااختیاری علامات ہیں۔ بھلا جن چیزوں کو آدمی جانتا ہے نہیں ان کے واسطے کیسے اپنے اختیار سے علامات بنا سکتا ہے۔ ایسی چیزوں کے لئے جو ذہن میں موجود نہ ہوں الفاظ بنانے بے معنی آواز نکالنی ہے۔ جب تک آدمی خود ذہن میں خیالات موجود نہ ہوں وہ دوسرے آدمی کے خیالات سے ان کو مطابق نہیں کر سکتا۔ اور نہ ان کے لئے کوئی علامت وضع کر سکتا ہے۔ نامعلوم چیز کے لئے کوئی لفظ نہیں بنایا جاتا۔ جب آدمی اور آدمیوں کے تصورات کو اپنے تصورات سے تعبیر کرتا ہے اور ان کا اِن ناموں کا رکھنا منظور کر لیتا ہے جو اوروں نے رکھا ہے تو یہ تصورات بھی اس کے اپنے وہی تصورات ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں نہ وہ جو معدوم ہوتے ہیں۔غرض زبان بولنے کے لیے یہ امر لازمی ہے کہ ایک ہی الفاظ جاہل عالم۔بچے بڑے بولیں مگر معانی انکے جدا جدا اپنے تصوراتِ ذہن کے موافق ہوں۔ ایک بچے نے ایک دھات میں جسے سونا کہتے ہیں چمکتا ہوا سنہرا رنگ دیکھا سو وہ اپنے خیال کے موافق جس چیز کا چمکتا ہوا رنگ دیکھے گا اسے سوناکہہ دے گا، مور کی دم میں یہ رنگ دیکھ کر اسے بھی سونا کہدیگا دوسرا آدمی جو اس بچے سے زیادہ جانتا ہوگا کہ یہ دھات سوا چمکتے ہوئے سنہرہ رنگ کے بہت بھاری بھی ہوتا ہے تو جب وہ سونے کا لفظ بولتا ہے تو اوس کے ذہن میں اس کا مفہوم وہ دھات ہوتا ہے کہ سنہرا اور بھاری۔ تیسرا شخص اس سے زیادہ اگر واقف ہوگا کہ سونے میں گلنے پگھلنے کی بھی قابلیت ہوتی ہے سو وہ اپنے خیال کے موافق سونے کا لفظ بولے گا تو اوس کے ذہنمیں اس کا مفہوم وہ دھات ہوگا جو سنہرا چمکتا ہوا رنگ اور بھاری اور پگھلنے والا ہوگا۔ چوتھا شخص اسکے باریک ورق بننے کی قابلیت سے واقف ہوگا تو سونے کا مفہوم اسکے ذہن اور بڑھ جائیگا پس یہ چاروں شخص لفظ تو ایک سونے کا بولینگے مگر ہر ایک کے ذہن میں اسکا مفہوم یا مدلول جدا جدا ہوگا۔’’ (مولوی ذکاءاللہ، رسالہ تقویم اللسان، مطبوعہ 1893 ء، مطبع شمس المطابع, دہلی, صفحہ 6-7)
کیا مولوی ذکاءاللہ کے اس اقتباس سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اپنے ہی علم اور تجربے کی رو سے کسی متن کی تخلیق کرتا ہے اور قاری بھی اپنی استعداد کے اعتبار سے کسی متن کو سمجھ سکتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ مصنف اور قاری کے معنی میں جو اشتراک پایا جاتا ہے ، اس سے ایک متن بامعنی بنتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ قرات کا عمل تکثیری نہیں ہوتا۔