فکر و تحقیق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فکر و تحقیق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 17 نومبر، 2016

محمد حسن عسکری ــــ اردو ادب میں ساختیات کے بانی و خاتم؟

1

ہندوستان اور پاکستان میں ساختیات پراولین تنقیدی بحث کرنے والوں میں محمد حسن عسکری کو پہلے اردو ادیب کی حیثیت سے جانا جاتاہے۔عسکری نے فرانسیسی مصنف محمد آرکون کے نام 25 نومبر1975 کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے آرکون کو قرآن مجید کی ساختیاتی قرأت سے پرہیز کا مشورہ دیا تھا۔ عسکری کا یہ خط ان کے انتقال کے چودہ برس بعد 1992 میں اسٹڈیز ان ٹریڈیشن نامی جریدے میں ‘‘قرآن مجید کا ایک راسخ العقیدہ نقطہ نظر’’ کے عنوان سے مضمون کی شکل میں شائع ہوا اور وہاں سے اس کا ترجمہ ناصر بغدادی نے اردو میں کیا اور اس پر ایک تعارفی نوٹ بعنوان ‘‘ساختیات اور عسکری صاحب: ایک تعارف’’ لکھ کر شائع کرایا جسے میں نے سہ ماہی نیاورق کی جلد9، شمارہ23، (2006 عیسوی) میں پڑھا ۔

بغدادی نے مذکورہ خط پر اپنے نوٹ میں بعض ایسے دعوے کیے ہیں جو میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔ ان دعووں میں سے ایک تو یہ ہے کہ عسکری بنام آرکون خط میں ساختیات کے استرداد سے پہلے اردوادب میں ساختیات کا تعارف نہیں ہواتھا، دوسرا یہ کہ عسکری کو ساختیاتی مبادیات پر تحریری بحث کرنے والے پہلے اردو ادیب کی حیثیت حاصل ہے، تیسرا یہ کہ ساختیاتی مبادیات پر استردادی بحث کرنے کی بنا پر وہ اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار اور خاتم بھی ہیں اور چوتھا دعوی یہ ہے کہ عسکری کو1975 تک ساختیاتی مبادیات پر کامل عبور حاصل تھا۔

ان میں سے پہلے دو دعوے تحقیقی نوعیت کے ہیں، اس لیے معقول تو ہیں لیکن ان کی صحت کو تسلیم کرنے میں بعض تحقیقی دقتیں ہیں: پہلی تو یہ کہ ساختیاتی فلسفہ لسان کا تعارف اگرسوسیئر اور اس کے نام کے ساتھ زبان کے ایک ساخت ہونے کے خیال کو پیش کرنا کہا جائے تو چند پیراگرافوں میں حامد اللہ ندوی یہ کام 1971کر چکے ہیں، اور اگرسوسیئر کا نام لیے بغیر زبان کے ایک ساخت ہونے کے تصوراور اس کی تمام تر نہیں تو کئی فلسفیانہ بنیادوں کو پیش کرنے کو بھی ساختیاتی لسانیات کے بنیادی اصولوں کا تعارف کہا جائے تو عتیق احمد صدیقی انہیں1969 سے پہلے پیش کر چکے ہیں، اور اگر بذریعہ ترجمہ ساختیاتی لسانیات، ساختیاتی اور پس ساختیاتی ادبی نظریہ اور تنقید/ تنقیدی نظریہ میں ماخذ کا درجہ رکھنے والے مقالات یا کتابوں سے سے ترجمہ اور مواد اخذ کرنے کو بھی تعارف کے ذیل میں رکھا جائے کیونکہ اس میں بکثرت ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان اور ادبی تھیوری کے نظریات و شخصیات زیر بحث آئے ہیں تو ترقی پسند نقاد محمد حسن مارکسی نقاد لوسین گولڈمین کی ایک متعلقہ تحریرکا ترجمہ نیز رولاں بارت کی ایک تحریر کا خلاصہ اپنے رسالہ عصری ادب کے پہلے شمارے 1970 میں شائع کر چکے ہیں ، اس کے ساتھ ہی نیر اقبال فرڈیننڈ ڈی سوسیئر کی کتاب عام لسانیات کا درس کے پہلے باب کا ترجمہ پیش کر چکے ہیں، اسی طرح اگر گوپی چند نارنگ کے مطابق ساختیات و پس ساختیات کے ساتھ روسی ہیئت پسندی بھی نئی تھیوری میں شامل ہے تو اس کا تعارف وجیہ الدین احمد 1966-67میں کرا چکے ہیں۔ ان سب تحریروں میں زیادہ تر ایسی ہیں جنہیں اردو میں ساختیات کے ابتدائی تعارف /تعارفی حوالوں کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے ۔ دوسری دقت ان دو دعووں کو تسلیم کرنے میں یہ ہے کہ محمد علی صدیقی نے 1975 میں ہی ، اور عسکری کےآرکون کو خط لکھنے سے کم از کم ایک ماہ پہلے ، ساختیات پر تنقید کی ابتدا کی تھی جو رسالہ اوراق کےستمبر اکتوبر 1975کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ان دقتوں کے رہتے ہوئے یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ عسکری اردو کے پہلے ادیب ہیں جنہوں نے ساختیاتی مبادیات پر تحریری بحث کی تھی اور ان سے پہلے اردو ادب میں ساختیات کا تعارف نہیں ہوا تھا؟

بغدادی کے بقیہ دو دعوے چونکہ فکری عصبیت کی بنا پر کیے گئے ہیں اس لیے وہ بلند بانگ ہیں اور انہیں تسلیم کرنے میں بعض اصولی مسائل ہیں: پہلا یہ کہ عسکری کا خط اردو میں نہیں تھا، اس لیے وہ اردو میں ساختیات کے نہ بانی ہو سکتے ہیں ، نہ خاتم۔ دوسرے یہ کہ استرداد سے بنیاد نہیں پڑ سکتی ۔ تیسرےیہ کہ خط میں اس بات کا کوئی مضبوط تاثر نہیں ملتا کہ سن 1975 تک عسکری ساختیات کی لسانیاتی بنیادوں سے کامل عبور کے درجے تک واقف ہو چکے تھے۔

میں اپنے اس مضمون میں بفضلہ تعالی بغدادی کے ان ہی بلند بانگ دعووں کی مدلل تردید کے ساتھ ان دقتوں کی نشاندہی بھی کروں گا جن کے سبب عسکری کو ساختیات پر اولین گفتگو / بحث کرنے والے اردو ادیب کا درجہ دیا جانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس سے پہلے تحقیقی مثالوں کے ساتھ کچھ اصولی باتیں رکھنا چاہوں گا۔پہلی تو یہ کہ ہم ایک مصنف کی کسی تحریر کو کسی نظریے کے تعارف کرانے کا کریڈٹ کن بنیادوں پر دیتے ہیں؟ کیا اس سلسلے میں کسی متعلقہ متن/ عبارت کی علمی حیثیت،اس کے اندر آنے والے حوالوں کی نوعیت، اس کے الفاظ کی کم سے کم تعداد کی شرط بھی لگا سکتے ہیں؟ ان سوالوں پر فکر و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی نظریے / رجحان کے تعارف میں اس کے بنیادگزار کا نام لیناایک علمی تقاضا تو ہے لیکن لازمی شرط نہیں ہے اس لیے کہ تعارف نظریے کا ہونا ہے نہ کہ اس کے بنیادگزار کا۔ البتہ یہ ہمیشہ ضروری ہے کہ متن یا عبارت میں متعارف ہونے والے نظریے یا رجحان کےایک یا ایک سے زائد اصول یااس کے کچھ لازمی خصائص بھی بیان ہوں جن کا مکمل طور پر مستند ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایسا ہونے پر تعارف کی کم سے کم شرط پوری ہو جاتی ہے اور ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہاں میں نے فلاں نظریے یا رجحان یا فکر کے متعلق کچھ سنا ہے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی شخص کے اولین تعارف کے لیے بس اس کا نام اور اس کے کچھ کاموں کا حوالہ کافی ہوتا ہے ، بلکہ محض نام سے واقفیت کو بھی اس کا تعارف کہا جا سکتا ہے۔ غائبانہ تعارف میں تو یہ بھی ممکن ہے کہ تعارف کرانے والا دانستہ یا نادانستہ کوئی غلط بات بول جائے اور بعد میں لوگوں کو علم ہو کہ یہ تعارف اتنا صحیح نہیں تھا لیکن تعارف کرانے والے کی کچھ باتیں اگر صحیح ہوں تو اس سے اس کے تعارف کرانے کے عمل کی نفی نہیں ہوتی۔ افکار و نظریات کے سلسلے میں غائبانہ تعارف یا تو مستند ہوگا یا غیرمستند لیکن وہ بہرحال تعارف کے ذیل میں آئے گا، جبکہ بالمشافہ تعارف یا توماخذوں کے ترجمہ کے ذریعے ہوگا یا پھر قارئین ماخذوں کو براہِ راست پڑھیں گے۔ جہاں تک کسی نظریے کے تعارف میں تعداد الفاظ کی قید کا سوال ہے تواس میں پرچہ امتحان جیسی قید نہیں ہو سکتی کہ وہ کم سے کم اتنے الفاظ میں ہونا چاہیے۔تعارف ایک جملے بلکہ بعض اوقات ایک لفظ میں بھی ہو سکتا ہے۔ اورجس طرح ایک شخص دوسرے لوگوں سے کسی چیز کا نام سن کر اس سے کسی نہ کسی حد تک متعارف ہو جاتا ہے اسی طرح لسانی و ادبی نوعیت کی بحثوں کے سیاق میں کسی نظریے کا صرف نام پڑھ لینا اولین تعارف کے ذیل میں آتا ہے، خواہ یہ تعارف کتنا ہی تشنہ کیوں نہ ہو۔

افکار و نظریات کا تعارف پیش کرنے کے سلسلے میں مذکورہ بالا اصولی باتوں کو جب میں اپنے سامنے رکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں بعینہ یہی معاملہ ہے کہ ابتدائی حوالے کا کریڈٹ بھی لکھنے والے کو دیا جاتا ہے۔ جیسے مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی کتاب ‘‘تنقید اور اسلوبیاتی تنقید’’ میں ‘‘ادب اور نشانیات’’ کے عنوان سے آل احمد سرور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ‘‘غالباً پہلے بزرگ نقاد ہیں جنہوں نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں نشانیات کا ذکر کیا ہے۔’’ یہاں اس سلسلے میں وہاب اشرفی کا ایک گونہ منفی نقطہ نظر بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ گوپی چند نارنگ پراپنے مضمون ‘‘گوپی چند نارنگ کی ساختیات شناسی ’’میں اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘یہ بحث نہیں اٹھانی چاہیے کہ سب سے پہلے ساختیات کی طرف کون متوجہ ہوا۔ اگر خون لگا کر شہیدوں میں نام گنوانے کی آرزو ہو تو تاریخ نارنگ سے آگے بھی جائے گی۔’’حالانکہ اشرفی یہ بھی قبول کرتے ہیں کہ نارنگ سے پہلے ساختیات پر لکھنے والے بہ تمام و کمال اپنے موضوع سے آگاہ نہ تھے اور ان کی تحریریں ‘‘برسبیلِ تذکرہ کے زمرے میں آتی ہیں۔’’ (ماہِ نو، جنوری تا اپریل 1996، صفحہ157)۔ اس میں شک نہیں کہ وہاب اشرفی نے نارنگ پر اپنے مضمون میں ان کے کارنامے کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور میں بھی اس بات پر یقین رکھتاہوں کہ اردو میں ساختیات کی تفہیم میں نارنگ اپنے معاصرین سے بازی لے گئے ، یہ اور بات کہ انہوں نے ایسا زیادہ تر بذریعہ ترجمہ کیا ہو، لیکن نارنگ کے کارنامے کی عظمت کو تسلیم کرانے کے لیے ضروری نہیں کہ دوسروں کی سبقت کی نفی کی جائے خواہ وہ ایک حرف کی ہی سبقت کیوں نہ ہو، اور اس سلسلے میں‘‘ خون لگا کر شہیدوں میں نام گنوانے’’ کی بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس محاورے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والا اپنا خون بہاتا نہیں بلکہ محض کسی اور کا خون لگالیتا ہے، جو اس کے جھوٹے ہونے کا پتا دیتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ کارزارِ علمی میں سوئی کے نوک کے برابر بھی کسی کا لہونکلے، تو ا س کی نفی یا تحقیر نہیں کی جا سکتی۔ یہی وہ سخت علمی معیار ہے جس پر ہم اردو میں ہر مصنف کے کارنامے کی جانچ کرتے ہیں اور اس کا مقام و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔ اس معیار کو خطرے میں ڈالنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم دنیائے علم و فکر کو پروپگنڈے اور رجحان سازی کے حوالے کر دیں ۔ اس سیاق میں وہاب اشرفی کی ایک اور غلطی کی طرف توجہ دلانا بھی دلچسپ ہوگا کہ انہوں نے اپنے اسی مضمون میں نارنگ کو ایک اور کریڈٹ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ‘‘ گوپی چند نارنگ نے شاید پہلی بار مارکسی تنقید کے نئے آفاق کی طرف ہمارے ذہن کو موڑنا چاہا ہے۔’’ (صفحہ 160 )مارکسی تنقید کے نئے آفاق سے وہاب اشرفی کی مراد نارنگ کا لوئی آلتھیوسے، گولڈمان، ماشیرے اور رولاں بارت کو موضوعِ بحث بنانا اور بالخصوص گولڈمان کے متعلق یہ ‘ احساس دلانا ’ ہے کہ وہ پہلا نقاد ہے جس کے ‘‘فکری رویے میں مارکسیت اور ساختیات کا اشتراک نظر آتا ہے۔’’ (حوالہ سابق)لیکن اشرفی کا نارنگ کو لفظ شاید استعمال کرتے ہوئے ‘‘پہلی بار مارکسی تنقید کے آفاق کی طرف ہمارے ذہن کو موڑنا ’’چاہنےکی بات بھی صحیح نہیں ہے۔نارنگ سے پہلے مارکسی تنقید کے اس نئے آفاق کی طرف توجہ دلانے کا کام ایک ترقی پسند دانشور محمد حسن 1970 میں ہی عصری ادب کے پہلے شمارے میں لوسین گولڈمان کی چودہ صفحات پر مبنی ایک تحریر کا ترجمہ اور رولاں بارت کی ایک تحریر کا خلاصہ شامل کر چکے تھے، اس لیے یہ کریڈٹ نارنگ صاحب کو نہیں جاتا جسے شاید کے لفظ ساتھ وہاب اشرفی نے انہیں دینے کی کوشش کی۔ لفظ شاید کا استعمال اس کے سوا اور کیا بتا رہا ہے کہ لکھتے وقت ان کی طبعیت نارنگ کی طرف پوری طرح مائل ہے اور یہ تحقیقی گفتگو کا معیارِ مطلوب نہیں ہو سکتا۔ برسبیل تذکرہ، نارنگ کوکسی حد تک یہی کریڈٹ مناظر عاشق ہرگانوی نے بھی اپنی کتاب ‘‘گوپی چند نارنگ اور ادبی نظریہ سازی ’’ (1995)دیا ہے لیکن بڑے منفی طور پر:
‘‘پروفیسر نارنگ نے ‘‘مارکسیت، ساختیات اور پس ساختیات’’ پر بھی کھل کر لکھا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں ساختیاتی مارکسیت، اور نئی مارکسیت کا تنقیدی تعارف بھی باضابطہ طور پر تھیوری کی پوری آگہی کے ساتھ سب سے پہلے گوپی چند نارنگ نے کرایا۔ تعجب ہے کہ یہ توفیق نئے پرانے ترقی پسندوں میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوئی، اور اس راہ میں بھی پہلا قدم نارنگ کو ہی اٹھانا پڑا۔ ’’ )صفحہ (45
یہ صحیح ہے کہ نارنگ نے تھیوری کی پوری آگہی کے ساتھ ساختیاتی مارکسیت کا تنقیدی تعارف کرایا لیکن جب یہ کہا جائے کہ نئے پرانے کسی ترقی پسند کو‘‘ یہ توفیق نہ ہوئی’’ ، تو ان کے لہجے کے تکدر کا علم ہو جاتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں نارنگ سے پہلے ترقی پسند دانشور محمد حسن نے ہی ایک قدم اٹھایا اور ساختیاتی مارکسیت کے ایک نظریہ سازلوسین گولڈمان کی ایک تحریر عصری ادب کے 1970 کے پہلے شمارے میں شامل کیا ، اگراس کو پہلا قدم نہ مانا جائے کیونکہ وہ ترجمہ ہے تو خود نارنگ صاحب نے گولڈمان کے نظریات کو متعارف کراتے وقت کون سا طبع زاد کارنامہ انجام دیا تھا؟ انہوں نے بھی توعمران شاہد بھنڈرکی تحقیق کے مطابق رامن سیلڈن کی کتاب ہمعصر ادبی نظریہ سے گولڈمان کے افکار کا ترجمہ ہی کیا تھا۔ پھر یہ بات از خود واضح ہے کہ دو ترجموں میں سے کس کو سبقت حاصل ہے۔ لیکن بات اگر طبع زاد کی ہے تو نارنگ صاحب کے نئی تھیوری پر باقاعدہ لکھنے کی ابتدا سے چند سال پہلےمحمد حسن نے 1983میں عصری ادب کےجولائی تا اکتوبر( 1983)کے شمارے میں ‘‘ادبی سماجیات’’ کے عنوان سے لکھا تھا:
‘‘گولڈ مان نے لوکاچ کے نظریوں کو ایک نئی جہت بخشی۔ اپنے طریق کار کو گولڈ مان نے عمومی و خلقی تشکیلیت کا نام دیا ۔ اس کا لب لباب صرف یہ تھا کہ ہر ادبی فن پارے کو مکمل بالذات وحدت قرار دیا جائے اور اسے پہلے اس کے مختلف عناصر اور اجزا کی شناخت اور ان کے باہمی رشتوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر ان عناصر اور اجزا کی شناخت اور ان کے باہمی رشتوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر ان عناصر اور اجزا کی ٹھوس تاریخی اور سماجی جڑیں اور عوامل اور محرکات تلاش کیے جائیں اور ان سماجی طبقوں سے جوڑ کر انہیں دیکھا جائے جو مصنف کے عالمی وژن یا تصور حیات میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے گولڈمان کی تشکیلیت روسی ہیئت پرستوں (مثلا ثلاوسکی اور رومن جیکب سن وغیرہ) سے بالکل مختلف تھی بلکہ ہیئت پرستوں کی متن پرستی اور مارکسی تنقید کے سماجی تجزیے کے درمیان ایک موثر مفاہمہ تھی۔ ( صفحہ 22

اس اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ترقی پسند دانشور محمد حسن ساختیاتی مارکسیت سے ہرگز ناواقف نہیں تھے، اور انہوں نے محمد علی صدیقی اور محمد حسن عسکری کی طرح اسے مسترد نہیں کیا تھا۔

خیر، میرا موضوع یہ نہیں ہے کہ ساختیاتی مارکسیت کے باب میں نارنگ پر ترقی پسندوں کی سبقت کو ثابت کروں، میں دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف ادبی رجحانات اور سیاسی وابستگیاں رکھنے والے پوری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے محبوب مصنفوں کو کسی نہ کسی طرح وہ کریڈٹ بھی دے دیں جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ بعینہ یہی معاملہ ناصر بغدادی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ انہیں جیسے ہی یہ علم ہوا کہ عسکری نے1975میں ساختیات پر کوئی بات کی تھی تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ انہیں اردو میں ساختیات کے نہ صرف موسس و بانی کار اور خاتم کا درجہ دے دیں بلکہ ساختیات پر ان کے کامل عبور کو بھی دکھلا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عسکری آرکون کے نام اپنے خط میں ساختیات پر بالائی اور تردیدی گفتگو کے کوئی بہت خاص اصولی یا علمی گفتگو نہیں کرتے، اور اس سلسلے کی ان کی زیادہ تر باتیں عام علمی گپ شپ پر مبنی ہیں۔ یوں بھی ان کا یہ خط لکھے جانے کے تقریبا17 برسوں بعد 1992میں منظرعام پر آیا۔ اور اردو میں سوسیئر کے کارنامے ، ساختیاتی لسانیات اور تعبیرات نیز پس ساختیاتی صورتحال سے واقفیت عسکری کے1975 کے خط سے بہت پہلے کا واقعہ ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر کئی ترجمے اور طبع زاد تحریریں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن پہلے عسکری کے اس خط سے بحث کرنا مناسب ہے۔ میں یہاں بغدادی کے نوٹ سے کچھ اقتباسات نقل کروں گا جن میں خط کشیدہ جملے علمی اور فکری اعتبار سے قابل گرفت ہیں:
1. ڈاکٹر نارنگ کے بقول اردو ادب میں 1976 میں ساختیات کا ‘‘تعارف’’ ہو چکا تھا۔ اب جبکہ عسکری صاحب کا یہ مضمون چھپ چکا ہے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عسکری صاحب اردو کے وہ پہلے ادیب تھے جنہوں نے 1975میں ساختیاتی مبادیات پر نہ صرف یہ کہ جامع اور مدلل تحریری بحث کی بلکہ اسلام کے سیاق و سباق میں اس کے بالقوۃ امکانات سے خبردار بھی کیا ہے۔ چونکہ ساختیات بنیادی طور پر سیکولرتاویلات و تصورات سے مشتق ہے لہذا قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے وہ اس کے منفی مضمرات سے کماحقہ واقف تھے ۔ اس مضمون میں انہوں نے محمد آرکون جیسے اسلام کے مردآگاہ اور صاحب علم کو ان امکانی نقصانات سے باخبر کیا ہے جو قرآن مجید کی قرأت کو لسانیاتی ، ساختیاتی، ثقافتی بشریات اور دیگر علوم کے حوالے سے کی جانے سے پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے یہ بدیہی صداقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عسکری صاحب کو چھٹی دہائی میں ساختیاتی نظریات پر کامل عبور تھا۔ ’’ (صفحہ100-101)[1]

2. عسکری صاحب نے 1970 میں مشہور فرانسیسی مصنف اور مفکر لوئی گاردے سے اپنی ملاقات کا حوالہ بھی دیا ہے جس نے انہیں بتایا تھا کہ مغرب میں اب کلاڈ لیوی اسٹراس عضو معطل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور یہ کہ ساختیات کے تعلق سے اس نے جو نظریات و مفروضات وضع کیے تھے اب ان کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ممکن ہے یہ محض اتفاق ہو کہ عسکری صاحب کے ساتھ یہ سارے واقعات اس وقت پیش آئے تھے جب اردو ادب میں ساختیات کا ‘‘تعارف’’ بھی نہیں ہوا تھا۔ان بدیہی حقائق کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عسکری صاحب اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار تھے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب مغرب میں ساختیات کے استرداد کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا تو عسکری صاحب نے منضبط اور منطقی استدلال اور دلائل کے ساتھ بالصراحت اس کو مسترد کر دیا تھا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ساختیات کے ضمن میں خاتم کی بھی ہے۔ (صفحہ101)

3. یہ ساتویں دہائی کے اتبدائی برسوں کی بات ہے جب عسکری صاحب کو نہ صرف ساختیاتی افکار اور ان کے تمام و کمال جزئیات پر عبور حاصل تھا بلکہ انہوں نے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کے بعد انہیں یکسر مسترد بھی کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں اس عملی دنیا میں ساختیاتی افکار کی حیثیت خیالی اڑانوں سے زیادہ نہ تھی، یہ ان کا ساختیات کے باب میں حتمی محاکمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اردو ادب میں ساختیات کا ‘‘تعارف’’ بھی نہیں ہوا تھااور اردو ادب کے جن لکھنے والوں نے ازاں بعد ساختیات میں طبع آزمائی کی ، ان کی ایک بڑی اکثریت ساختیات کی مبادیات اور بنیادی لوازمات تو دور کی بات ہے، شاید اس کی اصطلاح سے بھی ناواقف تھی۔ (صفحہ102)
خط کشیدہ جملوں میں ناصر بغدادی نے جو دعوے کیے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اور ان کے علمی اثبات کے لیے عسکری کی مزید تحریریں درکار ہیں جو 1975 یا اس سے پہلے کی ہوں۔ یہ ان کی کوئی باضابطہ تحریر نہیں بلکہ صرف ایک خط ہے ، جو اردو زبان میں نہیں لکھا گیا۔ اردو بولنے والا ایک شخص کسی دوسری زبان میں کچھ لکھے تو اس کو اردو کا سرمایہ نہیں کہا جا سکتا۔البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو بولنے والوں میں ایک اردو ادیب نے سن عیسوی1975میں ایک شخص نے ساختیات پر کسی اور زبان میں ایک گفتگو کی تھی، لیکن یہ اس سلسلے میں ایک غیرمتعلق بات ہے۔ ناصر بغدادی کا یہ دعوی کہ ‘‘عسکری صاحب اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار تھے’’ اس لیے بھی بے اصل ہے کہ عسکری نے اردو ادب میں ساختیات کی بنیادڈالنے کے بجائے اپنے ایک غیراردو خط میں اسے مسترد کر دیا تھا۔

بغدادی کا اگلادعوی یہ ہے کہ عسکری ‘‘ساختیات کے خاتم تھے ’’ جس کی بنیاد یہی ہے کہ اردو میں سوائے عسکری کے کسی اور نے اس وقت تک ساختیات کی بنیاد نہیں ڈالی تھی، اس لیے جب انہوں نے اسے مسترد کر دیا تو انہیں خاتم کا درجہ بھی آپ سے آپ حاصل ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسکری کے اس طرح ایک خط میں ساختیات کو مسترد کرنے سے نہ وہ مسترد ہوئی ، نہ اس کا خاتمہ ہوا اور نہ دوسرے بہت سے ادیبوں نے اس کے خاتمے کو تسلیم کیا۔ اردو زبان و ادب میں تو آج تک نہ صرف یہ کہ ساختیات پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں بلکہ ساختیاتی اصولوں کا ادب پر اطلاق بھی کیا جاتا رہا ہے۔

ناصر بغدادی کا یہ دعوی بھی کہ عسکری کو چھٹی دہائی کے عرصے میں ساختیاتی مباحث پر کامل عبور حاصل تھا محتاجِ دلیل ہے۔ خط میں اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ عسکری چھٹی دہائی یعنی1951تا1960 کے عرصے میں ساختیات اور پس ساختیات کے تمام اہم ماخذوں کا نہ صرف مطالعہ فرماتے تھے بلکہ انہیں اس پر کامل عبور بھی حاصل ہو گیا تھا۔ خط کے مضمون سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1975 تک ساختیات کے انٹلیکچوئیل فیشن سے کچھ نہ کچھ واقف تھے اور ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریہ سازوں اور دانشوروں کے کارناموں کی کچھ بھنک انہیں لگ گئی تھی یا وہ موٹا موٹی اس کے متعلق کچھ جانتے تھے، اور اسی کی بنا پر اپنی مذہبی راسخ العقیدگی کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے آرکون کو وہ خط لکھا تھا جس میں قرآن کریم کے ساختیاتی مطالعہ سے پرہیز سے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

عسکری نے ساختیات پر جتنی باتیں آرکون سے کہیں وہ اِدھر اُدھر سے پڑھ کر، یا سرسری مطالعہ کے بعد بھی کہی جا سکتی ہیں۔ ان کے متعلق ساختیاتی مبادیات پر کامل عبور رکھنے کی بات تبھی تسلیم کی جا سکتی ہے جبکہ وہ لیوی اسٹراس ، رولاں بارت، مشیل فوکو وغیرہ کے ساتھ ساتھ سوسیئر کا بھی نہ صرف یہ کہ ذکر کرتے بلکہ ان کے قائم کردہ نظریات کی تمام اہم فکری بنیادوں سے بھی خط میں نبرد آزما ہوتے۔واضح رہے کہ عسکری کےخط میں فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر اور ژاک دریدا تک کا ذکر نہیں ہے ۔ بالفرض عسکری کے لیے خط میں سوسیئر کے ذکر کا موقع نہ تھا تو کیا1967 میں ژاک دریدا کی ایک ساتھ شائع ہونے والی تین کتابوں اوراس کے فلسفہ ردتشکیل کے ذکر کا موقع بھی انہیں نہ ملا تھا؟ دریدا اور ردتشکیل کا حوالہ تو خود عسکری کے موقف کو مضبوط کرتا کہ دیکھیے آرکون صاحب ، سوسیئر کے لسانیاتی تصورات اور لیوی اسٹراس کے افکار کا ژاک دریدا اور اس کی ردتشکیلی فکر نے کیا حال کر دیا ہے اور اس کے باوجود آپ قرآن کریم کی ساختیاتی قرات کا ارادہ رکھتے ہیں! پھر جس طرح کسی فن پارے کی ساختیاتی قرات کے بعد اس کی ردتشکیلی قرأت ہو سکتی ہے اسی طرح قرآن کریم کی ساختیاتی قرأت کے بعد معاذاللہ اس کی ردتشکیلی قرات کی راہ بھی یقیناً کھلے گی۔ جو شخص بھی ساختیات پر اس درجہ کامل عبور رکھے گا ، اس کے سامنے یہ نکتہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگا اور وہ آرکون ایسے مصنف کو متنبہ کرتے وقت ضرور اس کا ذکر کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عسکری اپنے خط میں ایسا نہ کر سکے۔ کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ عسکری ژاک دریدا کے کارنامے کی عظمت سے واقف نہ تھے؟پھر ساختیات پر 1975تک ان کے کامل عبور کا دعوی محض ایک دعوی ہے جو تاحال محتاج ثبوت ہے۔

اگر کامل عبور رکھنا اسی قسم کی اڑتی پڑتی ، بالائی گفتگو کو کہا جاتا ہے، جیسی عسکری نے ساختیات پر کی، تو میں مغربی فلسفہ کے کسی بھی موضوع پر کچھ فلسفیوں اور ان کے خیالات کا ذکراپنے نقطہ نظر سے کیے دیتا ہوں، تو کیا اس سے دنیا کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ طارق صدیقی کو مغربی فلسفہ کے فلاں موضوع پر کامل عبور حاصل ہے؟ یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ کہ جو شخص پانچ یا دس سال تک اتنے سارے مصنفوں کی کتابیں کسی موضوع پر بہ نظر غائراور تنقیدی نقطہ نظر سے پڑھتا رہے یہاں تک کہ اس پر کامل عبور کے درجے تک پہنچ جائے لیکن اس اثنا میں اس کی بھاپ بھی اپنے منہ سے نہ نکالے اور سوائے ایک ذاتی خط کے کوئی دوسری چیز نہ لکھے، یہ بات یا تو علمی معجزہ ہے یا مغرب کی فکری جاسوسی۔ہم عسکری ایسے عظیم ‘غیرملّانقاد ’سے اس کی توقع نہیں کر سکتے۔

عسکری کا آرکون کے نام اپنے خط میں لوئی گاردے سے ملاقات اور لیوی اسٹراس کے متعلق گاردے سے ازراہِ شائستگی استفسارکرنا، اس کے جواب میں لوئی گاردے کا مجسم سوال ہو کر یہ کہنا کہ ‘‘آج کل کون لیوی اسٹراس کا مطالعہ کرتا ہے؟’’، پھر عسکری کا گاردے کی نظر میں خود کو حماقتوں کا پلندہ بننے سے بچانے کے لیے آلتھیوسے اور فوکو کا نام لینا ، ساختیات کو انٹلیکچوئیل فیشن قرار دینا ، رولاں بارت اور کلاڈ لیوی اسٹراس کے علمی نظریات پر سرسری گفتگو کرنا، لیوی اسٹراس کی تضحیک کی غرض سے آکسفرڈ میں اس کے متعلق زبان زد ایک فقرے کہ ‘‘لیوی اسٹراس دقت پسند ہے اور اس کے خیالات کو سمجھنا بے حد مشکل ہے لہذا وہ ایک عظیم مفکر ہے’’ جیسی باتوں کا ذکر کرنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عسکری ساختیاتی فلسفہ لسان کے بنیادی اصولوں سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے۔ ساختیاتی مباحث پر جو آدھی ادھوری اور موٹا موٹی گفتگو اس خط میں ملتی ہے اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی کہ عسکری اس وقت تک سوسیئر کے اصل کارنامے اور زبان پر اس کے بصیرت افروز نکات سے واقفیت رکھتے تھے نیز سوسیئر ی تصورات کی بنیادی کمزوریوں سے واقف تھے، جو اس کے نظام فکر کو مسترد کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سوسیئر نے جن معروضی بنیاد وں پر اور جس طریقہ کار سے کام لے کر زبان کے ایک ساخت ہونے کا نظریہ پیش کیا تھا، اور لیوی اسٹراس اور دیگر نظریہ سازوں نے جس طریقے سے سوسیئری تصورات کا اطلاق ادب و اساطیر پر کیا تھا، اس سے کماحقہ واقفیت کا ثبوت بھی عسکری کے یہاں نہیں ملتا۔ غرض ان کا یہ پورا خط پڑھے لکھوں کی گپ شپ پر مبنی ایک نیم علمی دستاویز ہے جس کی ساختیات کے تنقیدی جائزہ کے باب میں کوئی باضابطہ حیثیت نہیں ہے۔

محمد حسن عسکری کو چھٹی دہائی میں ‘‘ساختیاتی نظریات پر کامل عبور’’ تھا یا نہیں، اس سلسلے میں کچھ کہنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس موضوع پر تحقیق نہ کی جائے کہ انہوں نے1975یا اس سے پہلے کی اپنی کسی تحریر میں ساختیات یا پس ساختیات کی فکری بنیادوں سے واقفیت کا ثبوت دیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی انہیں ساختیاتی مبادیات پر ‘‘جامع اور مدلل تحریری بحث ’’ کے بعد ساختیات کو مسترد کرنے والی علمی شخصیت کے طور پر تبھی تسلیم کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کی کوئی ایسی تحریرہو جس میں ساختیات کے بنیادی نکات پر موٹا موٹی گفتگو کرنے کے بجائے علمی تردید کی گئی ہو۔ آرکون کے نام عسکری کا خط ان شرطوں پر پورا نہیں اترتا۔ البتہ عسکری کو یہ کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ساختیات کو مسترد کیا تھا لیکن ناکافی دلائل کی بنیاد پر۔

عسکری کا خط اردو میں نہیں لکھا گیا اس لیے اس کی بنا پر انہیں ‘‘اردو ادب میں ساختیات کا موسس و بانی کار ’’ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان کی طرح اردو میں بھی کسی نظام ِفکر کا موسس و بانی کار وہی ہو سکتا ہے جو کچھ عرصہ ہی سہی ، اس کو درآمد کرے اور اپنائے نہ کہ پہلی ہی سانس میں اس کا رد لکھ ڈالے۔ ساختیات پر تغلیطی یا ابطالی نوعیت کی ایک تحریر لکھ دینے سے ، اس کی تاسیس اور بنا نہیں پڑسکتی۔ بغدادی نے عسکری کے زیرِ بحث خط کے سوا ان کی 1975یا اس سے پہلے کی کوئی اردو تحریر پیش نہیں کی کہ انہوں نے ساختیات یا اس کے کسی نکتے کو اپنایا۔

اسی طرح کسی زبان میں کسی فکری سلسلے کے خاتم کا درجہ اس دانشور یا مفکر کو دیا جا سکتا ہے جس کا کارنامہ اس درجہ تابناک اور روشن ہو کہ اس کے بعد آنے والے دانشور اور مفکر اس سے کسب فیض کریں اور متعلقہ نظام فکر کی بنیادوں میں کوئی اضافہ نہ کر سکیں، اور ان کا کارنامہ محض یا زیادہ تر تشریحی اور تعبیری نوعیت کا ہو۔کسی نظام فکر کا خاتم ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اس نظام فکر سے متفق ہوں اور اس میں اپنی عبقریت کوروزِ روشن کی طرح عیاں کر دیں اور اس کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کا کارنامہ آفتاب کو چراغ دکھانے جیسا ہو، چنانچہ مذہب میں بھی پیغمبری کے سلسلے کا خاتم وہی ہو سکتا ہے جو خود بھی ایک پیغمبر ہو۔ ایک غیرپیغمبر کو پیغمبری کے سلسلے کا خاتم نہیں کہا جا سکتا ، خواہ وہ پیغمبروں کی پیش کردہ تعلیمات پر کیسی ہی تنقید کیوں نہ لکھے۔ اس لحاظ سے ساختیات کے باب میں عسکری ایسے لیوی اسٹراس سے فکری بغض رکھنے والے کسی شخص کو خاتم کی حیثیت نہیں مل سکتی۔ اگر عسکری لیوی اسٹراس کے معتقد ہوتے، پہلے اس کی باتوں پر ایمان لاتے، اور اس کے بعد اس کے نظامِ فکر کی اتنی زبردست اصلاح کرتے کہ کم از کم اردو اور زیادہ سے زیادہ مغربی دنیا میں کوئی شخصیت عسکری کی ہم پلہ نہ ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ فلسفہ ساختیات کا خاتمہ ان پر ہوگیا اور ان کے بعد اب اس شعبے میں کوئی دیوقامت شخصیت پیدا نہ ہوگی۔

اگر بغدادی ‘‘خاتم’’ لفظ کو اس معنی میں استعمال کر رہے ہیں کہ عسکری نے اردو میں ساختیاتی فلسفہ لسان کا خاتمہ کر دیا، تو اس صورت میں بھی یہ کوئی صحیح بات نہیں کیونکہ عسکری سے پہلے اور ان کے بعدبھی محمد علی صدیقی نے ساختیات کے خاتمے کا کارنامہ زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ محمد علی صدیقی نے عسکری کے خط مورخہ 25 نومبر1975سے کم از کم ایک ماہ پہلے اوراق کے ستمبر اکتوبر1975 کے شمارے سے ہی ساختیاتی لسانیات پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جو 1976 میں دو مضامین پر ختم ہوا۔ یہ اور بات کہ محمد علی صدیقی اردو میں ساختیات کے خاتمے کی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ہوں کیونکہ ، جیسا کہ پہلے میں نے عرض کیا، آگے چل کریہ نظریہ اپنے متعلقات کے ساتھ اردو میں بہت مقبول ہوا۔

میں ذیل میں اوراق کے مذکورہ شمارہ (ستمبر اکتوبر 1975 )میں محمد علی صدیقی کے مذکورہ مضمون سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں تا کہ قارئین پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے کہ ساختیات پر گفتگو کی ابتدا محمد علی صدیقی نے اپنے اسی مضمون سے کی، اور تمہیدی گفتگو ہی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے قلم کیوں اٹھایا ہے:
‘‘آج کل لسانیات نے جس قدر اہمیت حاصل کر لی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ فلسفہ، ادب اور سائنس کی ہر بحث میں کلیدی رول ادا کرتے کرتے کہیں یہ علم بذاتِ خود علمِ کل تو نہیں ہو جائے گا۔ ہمارے علم میں ہے کہ مغرب کا بیشتر فلسفیانہ ادب لسانی تجزیہ کے گرد گھوم رہا ہے۔ خیال و فکر سے زیادہ طرزِ ادا اور طرزِ ادا میں بھی منطقی طو رپر درست اظہار نے فکر و نظر کی ہر بحث کو لایعنی اور بیکار بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہم جدید اردو ادب میں بھی انتشار، عبثیت، تھکن اور شکستِ ذات پر مشتمل خیالات کا اس درجہ زور و شور دیکھ رہے ہیں کہ جیسے لایعنیت ہی اس کا سب سے بڑا مقصد اور انسانی زندگی کو خوابوں اور رومانس سے نجات دلانا ہی سب سے بڑا وظیفہ ہو۔ ’’ (صفحہ 180)
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تمہید ہی ساختیات کو موضوع بنانے کی غرض سے شروع کی گئی ہے ۔ اور آگے پڑھیں:
مقصدیت کو ژولیدگی سے تعبیر کرنے والے ۔۔۔ بقراطوں نے سماجی و معاشرتی تجزیہ کو قلمرو ادب سے باہر نکالنے کی جدوجہد بہت خلوص نیت سے شروع کی تھی لیکن ان کی تمامتر کاوشوں میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو زیادہ جاذب توجہ نہ ہوسکا۔ وہ ہے لسانیات کا شعبہ ۔ ہم سے اکثر اپنی سادہ دلی میں لسانیات کو زبانوں کا سائنسی مطالعہ گردانتے رہے اور بے شک یہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں تھا اور ہے لیکن شعبہ لسانیات نے ‘‘پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو’’ کو جس طرح انتشارِ ذہنی پیدا کرو اور حکومت کرو’’ میں متبدل کیا ہے وہ ایسا ہے جیسے سامراجی دور نوآبادیاتی دور کی شکل میں ہمارے سامنے آ گیا ہو۔ موجودہ لسانیات عظیم طاقتوں کی سیاسی حکمتِ عملی میں اس قدر اہم رول ادا کر رہی ہے کہ ہم جب تک زبان کے متعلق یونانی فلاسفہ کے زمانہ سے انیسویں صدی کے دور تک مختلف تعریفوں کو اپنے ذہن میں نہ رکھیں، ہمیں اس نقطہ تک پہنچنے میں کچھ مشکل پیش آ سکتی ہےجسے مضبوطی سے پکڑ کر اورسائنسی طور پر آگے بڑھا کر بڑی طاقتوں نے لسانیات سے سابئرنیٹکس ، کمپیوٹر اور ابلاغ کے عمومی نظریات میں بڑے بڑے انقلابات کے لیے راستے ہموار کر دیے ہیں کہ ایک امریکی ماہر سماجیات وینس پیکارڈ کے نظریہ کے مطابق کسی ملک کی ثقافت ابلاغی انجینیرنگ کے ذریعے چند سالوں میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح کسی زبان کے لسانی ڈھانچہ سے اس زبان کے بولنے والوں کی ثقافتی گرامر اخذ کی جا سکتی ہے۔

اس صورتحال کا نتیجہ نکلا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں کے لیے کسی بھی زبان میں بھیجے جانے والے پیغام تک رسائی اس طرح آسان ہو گئی ہے جیسے کہ کسی ٹیپ سے براہ راست نقل ، ہر زبان کی لغت، نحوی ڈھانچہ، روزمرہ اور محاورہ برقی آلات میں ریاضیاتی مساواتوں کے ذریعے داخل کر دیا جاتا ہے اور اس طرح کسی بھی پیغام کو پڑھنا (ڈیکوڈ) کرنا مشکل امر نہیں رہتا۔ یہ تو ٹکنالوجی ہے لیکن ٹکنالوجی کے پسِ پشت ایک خاص تھیوری ہوتی ہے اور میں اس سلسلہ ہائے مضامین میں زبان کی اولین تعریف سے لے کر اہم اور چیدہ چیدہ تعریفوں سے گزرتا ہوا موجود لسانیات کے اس بظاہر غیر سیاسی، عرفِ عام میں تکنیکی رخ کی طرف آوں گا جس نے موجودہ اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جب ہم کسی نقاد کو قابلِ فہم، قابلِ ادراک اور باہم مربوط نحوی ڈھانچے کے ادبی شہ پارے کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھیں تو وینس پیکارڈ کے اس دعوی پر زیادہ مشوش نہ ہوں کہ تبدیلی ثقافت کا ٹھیکہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں تو بات صرف قابل فہم کو ناقابل فہم میں متبدل کر کے خط معکوس کو خط محض بنانے ہی کی ہے لیکن جو لوگ خود کو اس گورکھ دھندے میں اپنی خوشی و رغبت سے ملوث کرتے ہیں وہ غالباً اپنی اس ضد کے شکار ہوتے ہیں کہ وہ سیاست سے بچتے بچتے دوسروں کی سیاست کو بھی سیاست سے زیادہ ادبی فیشن سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں جس طرح فعلی۔جذباتی۔صفتی (VERBAL/EMOTIVE/ QUALITATIVE) اظہار کو ہدف ملامت بنا کر مصدقہ جذبات کی اضافیت کو جنم دیا گیا ہے۔ اس سے خود ‘زندگی’ اور اس کی جدلیت بھی پہلے واہمہ اور پھر عبث و لایعنی ثابت کی جا رہی ہے اور ایک طرح سے حرکت اور امتزاج ِ اضداد کے مقابلہ میں سکونی اور متعین ثقافت اور اقدار کی وکالت کی جا رہی ہے ۔ اگر عینیت پسندی مقصدیت کا مقابلہ کرنے کے لیے نراجیت اور بے راہ روی کا سہارا لینے لگے تو پھر وہ کیسا سکونی اور متعین معاشرہ جس کے لیے اس قدر حرکی ہونے کی ضرورت پیش آتی ہو کہ زندگی تمامتر حرکت کے باوجود نقطہ ٔسکوت (STILL POINT) سے مشتبہ ہو کر رہ جائے۔ ایلیٹ جیسے متعصب ماضی پرست شاعرو نقاد نے ایک خوبصورت تضاد کے ذریعہ اپنی اصل نیت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے نقطہ ٔ سکوت کو ادبی اصطلاح کے طور پر پیش کیا تھا اور کاش اسے جدیدیت کا علمبردار ماننے والے ساتھ ہی ساتھ ماضی پرست اور رجعت پسند بھی تسلیم کر لیں تو جدت قدامت کے انمٹ رشتے آسانی سے سمجھ میں آ سکیں۔

آئیے پہلے ہم سرسری طور پر زبان کے بارے میں مختلف نظریات کا طائرانہ جائزہ لیں تا کہ ہم جدید لسانیات کے ‘‘سیاسی ’’ رول کا بخوبی اندازہ لگا سکیں جو ٹکنالوجی کی ترقی اور ابلاغ کے میدان میں محیرالعقول ترقی کے عمومی اعتراف کی وجہ سے غیرسیاسی نظرآتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ ایک انتہائی سیاسی میدان کو غیر سیاسی ثابت کرنے میں جس قدر محنت اور وسائل کی ضرورت ہے وہ اگر میسر ہوں تو پھر فیشن ایبل غیرسیاسی ادبا کی کھیپ تیار ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔ ’’

محمد علی صدیقی نے یہاں واضح اشارہ دے دیا ہے کہ وہ جدید لسانیات اور معاصر مغربی دنیا میں اس کی کلیدی اہمیت پرسلسلہ وار مضامین لکھ کر تنقیدی گفتگو کرنے والے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں:
زبان کے مسئلہ پر غور کرنے سے پہلے غور کرنا ہوگا کہ سوچنے والا خود کیا ہے؟ اگر وہ عینیت پسند ہے تو پھر قبل تجربی تصورات کو زیادہ اہمیت مل جاتی ہے۔ اگر وہ کانٹ کا ہم خیال عینیت پسند ہے تو پھر مظہری اور بالذات (NOUMENAL) نظریات کی بحث شروع ہو جاتی ہے، اگر وہ مادیت پسند ہے تو پھر عینیت پسندانہ دم چھلے تقریباً ختم ہو جاتے ہیں ، اور اگر ہم عینیت پسندی اور مابعدالطبیعات کے ساتھ ساتھ نتائجیت کے عمل داری کے خلاف ہیں تو پھر فلسفہ زبان مختلف ہوتا چلا جائے گا۔ دراصل ہر فلسفۂ زبان کے پس پشت ایک مخصوص نظریہ حیات کی عمل داری ہوتی ہے۔ اگر ہم اجزا کی قیمت پر ‘نشانیۂ زبان ’ (SIGN-LANGUAGE) استعمال کرنا چاہتے ہیں تو وہ روایت اور تہذیب کے خلاف یکسر بغاوت ہوگی۔ آجکل ہم ‘‘لا’’ کا ذکر بہت سنتے ہیںَ کچھ نئے ادیبوں کے لیے ‘‘لا’’ ایک ادبی منشور کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اپنی تمام تر ‘‘بزعم خود ترقی پسندی کے باوجود ایک نراجی اوررجعت پسند نقطہ نظر ہی کی وکالت کرتے ہیں۔ ’’

‘‘حقیقت یہ ہے کہ زبان ہر دور اور ہر زمانہ میں خیالات اور محسوسات کے اظہار کا وسیلہ رہی ہے۔ اسے SIGNSکا ایک سسٹم تسلیم کیا جائے یا اسما اور افعال کے ساتھ نحوی رشتہ کو ارتباط بخشنے کی سائنس، ہر حالت میں زبان انسانی رویہ کی ایک جھلک ہے، یا سوچ کا ایک انداز اور اس کی پیچیدگیاں سراسر انسانی ذہن کی پیچیدگیاں ہیں اور اس کی حدود بھی انسانی ذہن کی حدود ہیں لیکن ہر صورت میں زبان۔ خیال اور مواد کے ابلاغ کی پہلی سیڑھی ہے۔

زبان حقائق کا آئینہ ہے اور اس کے باوجود کہ حقائق منجمد لسانی سانچوں سے مجروح ہو سکتے ہیں لیکن حقیقی تخلیق کار کے لیے یہ مسلہ اس لیے اہم نہیں کہ وہ غریب الفاظ کو امیر اور مردہ الفاظ کو زندہ کرنا جانتا ہے۔ وہ بدلتے ہوئے حقائق کی اس طرح مرقع نگاری کرتا ہے کہ بین السطور کی خالی جگہ ‘پر ’نظر آتی ہے۔ زبان میں تبدیلی کا بڑا سبب زود حس لغت ہوتی ہے جو پیداواری رشتوں اور ثقافتی پھیلاو کی وجہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن صرف و نحو میں تبدیلی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو پھر ایک نئی زبان وجودمیں آنے کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ لیکن اب ہم کسی زبان کی پیدائش، ترقی اور پھیلاو کے متعلق صرف کلاسیکی طرز کے علما سے کبھی کبھار سن لیتے ہیں۔ اب اصلی معاملہ علمیات SEMANTICSبلکہ معنویات SEMIOLOGYکا رہ گیا ہے اور علم لسان کے سلسلہ میں سارے معرکے اس میدان میں سر کیے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ابلاغ کے سلسلہ میں اس قدر سائنسی و تکنیکی نظریات کارفرما نظر آتے ہیں کہ نفس مضمون سے زیادہ ادائیگی یا اظہار کا معاملہ تمام تر اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گسٹالٹ اور نسیجیت (STRUCTURALISM) کے نظریات کو کچھ حضرات سائنسی بلکہ ترقی پسندانہ تک خیال کر بیٹھتے ہیں جب کہ ونڈت WANDT ، DE SAUSSURE، اور CLAUDE LEVI-STRAUSSکے غیرترقی پسندانہ نقطہ ہائے نظر خود ان کی ان تحریروں سے عیاں ہیں جو ادب کی کتابوں سے زیادہ ابلاغ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، آج کل ان تمام نظریات کی محافظ ہے۔

خیر ابھی ہماری گفتگو میں وہ موڑ نہیں آیا جہاں یہ بحث پوری طرح چھیڑی جا سکے۔’’ (محمد علی صدیقی، لسانی مباحث، اونیسویں صدی تک مشمولہ اوراق ، ستمبر اکتوبر، 1975)

پس، محمد علی صدیقی کے اس مضمون میں ساختیات، سوسیئر، کلاڈ لیوی اسٹراس اردو قارئین کے لیے نہ صرف یہ کہ متعارف ہوئے بلکہ ساختیات پر ایک طویل بحث کی ابتدا کے سیاق میں زیرِ بحث بھی آگئے اور انہیں مسترد کرنے کا بھی آغاز اسی مضمون سے ہوا۔اس لیے، مذکورہ بالا اقتباسات سے قطعی واضح طور پر یہ معلوم ہوا کہ محمد علی صدیقی نے 1975 میں ہی محمد حسن عسکری سے کم از کم ایک ماہ پہلے ستمبر اکتوبر میں جدید لسانیات اور ساختیات پر تحریری بحث کی ابتدا کی جو1976میں اوراق کے دو مضامین میں اپنے انجام تک پہنچی۔ اس لحاظ سے سب سے پہلے خاتمہ کی کوشش کرنے والے کے معنوں میں کسی کو اگر خاتم کہا جانا چاہیے تو وہ عسکری کے بجائے ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی ہی ہیں۔ لیکن چونکہ محمد علی صدیقی سے پہلے اردو میں باقاعدہ کوئی ساختیاتی دبستان تھا ہی نہیں تو انہیں ساختیات کا خاتمہ کرنے والے کے معنوں میں خاتم کیسے کہا جا سکتا ہے؟ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ محمد علی صدیقی کو ساختیات کا بانی بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے بنا ڈالنے کے بجائے اس کو رد کر دیا ۔

غرض، اب تک یہ واضح ہو چکا کہ عسکری ساختیات یا اس کے نظامِ فکر یاساختیاتی ادبی تھیوری کے نہ بانی ہیں ، نہ خاتم۔ان کی حیثیت بس اسے مسترد کرنے والی ادبی شخصیت کی ٹھہرتی ہے جس کو اپنے استرداد میں اولیت و سبقت کا درجہ ہرگز حاصل نہیں الا یہ کہ ہمیں اس سلسلے میں عسکری کی کوئی دوسری تحریر دستیاب ہو جائے۔


2

اب دیکھا جائے کہ محمد علی صدیقی سے پہلے اردوکے علمی حلقوں میں سوسیئر ، لیوی اسٹراس، اور یا ساخت/ ساختیات نیز گوپی چند نارنگ سے پہلے وہ موضوعات جنہیں گوپی چند نارنگ نے نئی تھیوری اور اس کے متعلقات میں شامل کیا ہے ، کس حد تک زیربحث آئے تھے یا نہیں ،اور کن لکھنے والوں کے ہاں ان کے یا ان میں سے کسی ایک کے حوالے پائے جاتے ہیں؟ میں اپنی تحقیق کی حد تک سن وار پیچھے جاتے ہوئے ایسی تمام تحریروں اور ان کے مصنفوں کو لکھ کر ان میں سے ہر ایک تحریر سے اقتباسات پیش کروں گا۔(واضح رہے کہ میرا مقصد ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس قسم کے تمام مضامین کی فہرست سازی نہیں ہے )

1974: مضمون ‘‘زبان، خیال اور حقیقت ’’از محمد ذاکر

محمد ذاکر کا ایک مضمون بعنوان ‘‘زبان، خیال اور حقیقت ’’ ۱۹۷۴ میں رسالہ جامعہ دہلی کے ماہ اکتوبر میں شائع ہوا تھا۔ مصنف نے مضمون پر ایک نوٹ لگایا ہے جس کے مطابق ان کا یہ مضمون امریکی ماہر لسانیات بنجامن لی وورف کے تتبع میں لکھا گیا۔ وورف کے متعلق یہ بات معروف ہے کہ وہ ساختیاتی سلسلے کا ماہرِ لسانیات ہے۔ اس مضمون کی اہمیت اسی بات سے معلوم ہو سکتی ہے کہ ساختیاتی لسانیات کے جو نکات مبہم اور عسیرالفہم رہ جاتے ہیں ، وہ اس کے مطالعے سے بخوبی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔
‘‘۔۔۔ یہ خیال عام ہے کہ بات کر لینا ایک آزاد اور بے باک، نہایت سادہ سا عمل ہے۔ عالِم یہ بھی سمجھتا ہے کہ جیسے جیسے اس کے‘دل’ میں کچھ خیال ‘آتے’ ہیں وہ انہیں ظاہر کرنے کے لیے انہیں مناسب الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ گویا خیال فطری یا وہبی ہیں۔ بولنے سے پہلے اس کے دل میں وہی مخصوص خیال کیوں آتے ہیں؟ اس کا جواب اس کے پاس شاید صرف یہ ہوگا کہ اس وقت سماجی زندگی کا تقاضا ہی اس کا محرک ہوتا ہے حالانکہ اس سے اس سوال پر ۔۔۔ کہ مخصوص خیالات ہی کیوں آتے ہیں اور ان کے اظہار کے لیے وہ زبان کے مخصوص سانچے ہی کیوں استعمال کرتا ہے، کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ یہی نہیں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اس کے‘خیال میں ’ اس کی سماجی ضرورتیں یہ جانے بغیر بھی اچھی طرح پوری ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گویا خیال کا ‘دل میں آنا’ ایک بدیہی اور سیدھا سادہ عمل ہے اور ‘زبان’ اس کا سیدھا سادہ اظہار ہے ۔ حالانکہ ‘فکر یا خیال کرنا’ انتہائی پراسرار بات ہے اور شاید اس پر مطالعہ زبان ہی کے ذریعے روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس مطالعہ کے ذریعے ہی ہم پر یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کے خیالات کچھ ایسے سخت اصول و قوانین کے سانچوں کے تابع ہوتے ہیں جن سے وہ خود بے خبر ہوتا ہے۔
یہ سانچے کیا ہیں؟ درحقیقت یہ اس کی اپنی زبان کے پیچیدہ اور اٹل نظام ہیں جو تمدنی زندگی کے باعث ‘وجود’ میں آتے ہیں۔ ہر شخص بہرحال کسی نہ کسی زبان ہی میں سوچتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبان کے مخصوص سانچے ہی کسی شخص کی شعوری کارکردگی (فکر و خیال) کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مثلاًاردو میں آوازوں کی مخصوص ترترتیب کا کوئی بامعنی (!)مجموعہ جسے عرف عام میں لفظ کہا جاتا ہے، ان آوازوں سے شروع نہیں ہوتا جنہیں اردو والے ’ڑ‘ اور نون غنہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے محض اردو جاننے والا کوئی شخص ایسی بات نہ کہے گا ، نہ سوچے گا جس میں اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے اسے شروع میں ‘ڑ’ یا نون غنہ کی آواز برآمد کرنی پڑے۔ اسی طرح اردو میں کوئی لفظ تین ساکن حروف (یا ایک ساتھ تین مصمت آوازوں) سے شروع نہیں ہوتا۔ یہی وہ سانچے ہیں جو اس کے فکر و خیال کو محصور کیے رہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح اور اصول اور ضابطے فارمولوں کی شکل میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ کوئی جدت پسند سے جدت پسند اردو ادیب یا شاعر اپنے مافی الضمیر یا فکر و خیال کے اظہار کے لیے ان سانچوں سے باہر جا کر نہیں سوچ سکتا۔ گویا یہ زبان کے سانچے ہی ہیں جو فکر و خیال کی ظاہری شکل و صورت متعین کرتے ہیں۔ صفحہ 183-87

1971: طبع زاد مضمون: ‘‘تجوید اور صوتیات ’’ از حامد اللہ ندوی

یہ ایک مفصل عالمانہ مضمون ہے جو ترقی پسند نقاد آل احمد سرور کی ادارت میں نکلنے والے رسالے اردو ادب میں حامداللہ ندوی نے تجوید اور صوتیات کے عنوان سے لکھا تھا اور اس میں سوسیئر اور زبان کی ساخت (اسٹرکچر)اپنے نام کے ساتھ متعارف ہوئے تھے:
تقابلی لسانیات سے ان کی (اہل مغرب کی) مایوسی نے انہیں زبان (LANGUAGE) کی بجائے بولی (DIALECT) کو بنیاد بنا کر اک نیا تجربہ کرنے پر مجبور کر دیا اور ان کے مسلسل تجربات کے نتیجے میں توضیحی لسانیات (DISCRIPTIVE LINGUISTICS) وجود میں آئی، اس صنف لسانیات کی بنیاد تحریر (WRITING) اور معنی (MEANING) کے بجائے بول چال(SPEECH) اور ساخت (STRUCTURE) پر ہے اور اس میں ہر زبان کو اس کے معنی مطلب کا سہارا لئے بغیر محض اس کے اصوات، اس کے اجزا اور اس کے حصص کی مدد سے اس کے پورے نظام کا تعین کیا جاتا ہے، یورپ اور امریکہ میں اس توضیحی لسانیات کے پیشرو دی ساسور (DE SAUSSURE) دی کرتنے (DE COURTENAY) فرنز بواس (FRANZ BOAS) ولیم ڈوائٹ وھٹنے (WILLIAM DWIGHT WHITNY) ایڈورڈ ساپر (EDWARD SAPIR) لیونارڈ بلوم فیلڈ (LEVNARD BLOOMFIELD) اور ہیرس (HARRIS) وغیرہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کی تحریروں کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
توضیحی اور تقابلی دونوں قسم کی لسانیات کی تعبیر و تشریح کا سلسلہ یوروپ میں عموماً اور امریکہ میں خصوصاً آج بھی بڑے زور و شور سے جاری ہے اور ان کی نت نئی تفسیریں صبح شام سامنے آ رہی ہیں۔ کثرت تعبیر بعض اوقات خواب ہی کو پریشان کر دیتی ہے اس لئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کی آخری صورت کیا ہوگی۔۔۔ (حامداللہ ندوی، تجوید اور صوتیات: ایک موازنہ، مشمولہ سہ ماہی اردو ادب،اڈیٹر آل احمد سرور، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۷۱ عیسوی، صفحہ ۸۳)

1970: ترجمہ بعنوان ‘‘نظریہ اور تحریر ’’، اصل مصنف: لوسین گولڈ مان ، مترجم: نامعلوم
ترقی پسند نقاد محمد حسن کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ عصری ادب کے پہلے شمارے میں بائیں بازو کے ردّتشکیلی نقاد لوسین گولڈ مین کی چودہ صفحات پر مشتمل ایک تحریر کا ترجمہ ‘‘نظریہ اور تحریر’’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں ساختیات کا ترجمہ تشکیلیت کیا گیا ہے اور لاکاں، فوکو، التھیوسے وغیرہ زیرِ بحث آئے ہیں۔ محمد حسن کا اپنے مذکورہ بالا رسالے میں لوسین گولڈمین کا ترجمہ شامل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ مارکسی تنقید کے نئے آفاق سے واقف تھے، اور یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچی کہ گوپی چند نارنگ نے اس معاملے میں سبقت نہیں کی تھی۔ یہاں اس ترجمے سے کچھ حصہ نقل کرنا دلچسپ ہوگا:
"ادبی تخلیق کا تصور تاریخ اور سماجیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سطح پر تشکیلیت کی دو اہم دریافتیں ہیں۔ ایک ماورائے انفرادیت (یااجتماعی) موضوع کا تصور، اور دوسرے تمام فکری عملی اور اہم حرکات کے تشکیلی کردار کا تصور۔

تشکیلیت نے آگے چل کر اس پر بھی زور دیا ہے کہ تمام انسانی اور غالباً حیوانی حرکات بھی اہم سماجی معنویت رکھتی ہیں۔ یعنی وہ کسی عملی مسئلہ کو حل کر نے کے لیے فلسفیانہ تصورات کی زبان میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ صفحہ ۹۵

تحلیل نفسی کے سلسلے میں نسلی تشکیلیت کی سماجیات نے فرائڈ سے بہت پہلے تین بنیادی تصورات کو قبول کیا اور ان کی توسیع کی:۔

(الف) ہر انسانی حقیقت معنویت رکھتی ہے۔

(ب) یہ معنویت اپنے کردار کی اضافی وحدتtotalityسے یا اجتماعی سانچے سے حاصل ہوتی ہے جو فرد اور ماورائے فرد کے امتیازات پر قائم ہیں اور (یہ بھی کہنا پڑتا ہے) کہ جزوی طور پر بھی تہذیبی عناصر کو محض فرد یا تاریخ کو محض سوانح اور خاص طور پرlibidoکے مطالعہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔

آخر میں اس غیرحیاتیاتی پیکریت non-geneticکے خلاف جو فرانسیسی فکر میں اب جگہ پاتا جا رہا ہے اور لیوی اسٹراس، بارتھس، گریماس، فوکولٹ، التھوزر، لاکان وغیرہ کے برخلاف حیاتیاتی تشکیلیت جو ایک مدت سے تاریخ کے سمجھنے کے لیے سلسلے میں سانچوں کی بنیادی اہمیت پر زور دیتی رہی ہے، اب ماورائے انفرادیت موضوع کی مدافعت کرتی ہے اور اس حقیقت پر اصرار کرتی ہے کہ ہر سانچہ ایک مستقل بالذات اور باعمل وحدت نہیں ہے جو انسان کو مقید کر لیتی ہو بلکہ ایک موضوع کے عمل کے بنیادی کردار ہوتا ہے(انفرادی لی بی ڈو یا ماورائے انفرادیت کردار) اور صرف یہی تخلیقی اور باعمل ہوتا ہے اور کچھ ہی کم زور اس بات پر دیتی ہے کہ کوئی انسانی عمل ان سانچوں کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا جو ان اعمال پر پوری طرح جاری و ز ہیں (زبان ، پیداوار کے باہمی رشتے، سماجی گروہ، تصور حیات وغیرہ) مگر یہ سانچے انسان کے ابتدائی praxisکا نتیجہ ہیں یعنی ایک موضوع کے praxisہیں اور اپنی باری آنے پر موجودہ praxisسے متاثر اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں جن کی یہ ایک ضروری خصوصیت اور جزو بن جاتے ہیں اور محض خارجی مواد نہیں رہتے۔حوالہ سابق ،99 تا100

اس ترجمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ترقی پسند دانشور محمد حسن اسلام پسند نقاد محمد حسن عسکری اور محمد آرکون کی خط و کتابت سے تقریباً پانچ سال پہلے 1970میں ساختیات اور پس ساختیات کے مباحث اور ان کے ہنگاموں سے واقف ہو چکے تھے اوراسی کے پیش نظر مارکسیت اور ساختیات میں خلط کرنے والے نقاد لوسین گولڈمان کا ترجمہ اپنے رسالے میں شائع کیا۔

1970: رولاں بارت کی ایک تحریرکی تلخیص مشمولہ آڑے ترچھے آئینے(عصری ادب کا مستقل کالم ) از محمد حسن (ترقی پسند نقاد)
محمد حسن نے رولاں بارت کی ایک تحریر کی تلخیص بھی عصری ادب کے پہلے شمارے میں پیش کی تھی جو محمد حسن نے اپنے رسالے کے کالم آڑے ترچھے آئینے میں شامل کی گئی تھی:
"سائنس بنام ادب کے عنوان پر لکھتے ہوئے رولینڈ بارتھیس نے دونوں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے جس میں خاص طور پر زبان کی طرف دونوں کے رویے پر زور دیا ہے۔ سائنس کے لیے زبان محض ایک ذریعہ ہے جسے وہ زیادہ سے زیادہ شفاف اور غیرجانبدار (یا بے رنگ) بنانا چاہتا ہے تا کہ مافی الضمیر قطعی طور پر اور جذباتیت کی غیرضروری آلودگی یا آرایش کے بغیر ادا ہو جائے جب کہ ادب کے لیے زبان اس کی ہستی اس کی کائنات ہے یعنی ادب کے نفس مضمون کا تصور ہیئت سے الگ کر کے نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس زبان کی حکمرانی اورsovereigntyمطلقیت کا قائل نہیں بلکہ وہ اسے محض نفس مضمون سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کا سارا حسن اور جادوگری انداز ِ بیان یعنی زبان ہی پر قائم ہے اور زبان میں بھی وہ جن الفاظ کو استعمال کرتا ہے ان کے محض لغوی معنوں پر قناعت نہیں کرتے بلکہ معنوں کی مختلف سطحیں ، جہتیں اور پرت پیدا کرتا ہے ، اس لیے ہیئت یا فارم کو الگ کر کے شاعری یا ادب کا کوئی وجود نہین رہ جاتا۔ بارتھیس کا یہ کہنا ہے کہ سائنس کے مختلف شعبے سماجیات، نفسیات، تحلیل نفسی، لسانیات وغیرہ آج جو کچھ دریافتیں کر ر ہے ہیں ادب میں وہ سب موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ادب نے ان کو بیان نہیں کیا ہے بلکہ اپنے میں سمو لیا ہے یعنی ادب بنا کر لکھا ہے اور اس لحاظ سے وہ ’’بیان‘‘ نہیں رہتا تجربہ بن جاتا ہے۔ وہ ادبی انداز بیان کے انبساط پر بھی بہت زور دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ ’’انبساط تسکین ذوق سے کہیں زیادہ وسیع اور معنویت سے معمور تجربہ ہےجس کی گہرائیوں کو ہنوز ناپا نہیں گیا ہے صرف بروک آرگ نے اس ادبی تجربے کی گہرائیوں تک پہنچنے کی تھوڑی بہت کوشش کیھ مگر اس کی رسائی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب انسان خالص ’’ادبی‘‘ زندگی گزارنے پر رضامند ہو۔ اس خالص ’’ادبی ‘‘ زندگی کا اشارہ بودلیر کے اس جملے کی طرف ہے جو اس نے اڈگر ایلن پو کی زندگی کے بارے میں کہا تھا۔ (عصری ادب، پہلا شمارہ، جنوری ۱۹۷۰)

1969 سے پہلے1، مضمون زبان کیا ہے؟ از عتیق احمد صدیقی ، ششماہی اردوئے معلی ، قدیم اردو نمبر
دہلی یونیورسیٹی کے شعبہ تحقیق کے رسالے اردوئے معلی کے قدیم اردو نمبر میں عتیق احمد صدیقی کے مضمون ‘‘بعنوان زبان کیا ہے ؟’’ میں زبان کے جدید تصور کی رو سے اس کی ساخت پر روشنی ڈالی گئی تھی اور ان میں کئی ایسے نکات زیربحث آئے تھے جنہیں آج اردو ادب کے ساختیاتی نقاد بڑے لطف کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ اس سے یہ غلط تاثر پڑتا ہے کہ اردو میں فلسفہ ٔ لسان کی جدید پیش رفتوں سے واقفیت کا نہ صرف یہ کہ فقدان ہے بلکہ اردو میں معنی کو لفظ میں منحصر سمجھا جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ ساختیات کے تعارف کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ‘‘جدید لسانیات دراصل ساختیاتی لسانیات ہے۔’’ اس لیے جدید لسانیات کے بنیادی اصولوں کو زیربحث لانے کے معنی ساختیات کے بالواسطہ تعارف کے ہوں گے۔گوپی چند نارنگ نے یہ فقرہ مناظر عاشق ہرگانوی سے اپنی گفتگو میں اس سیاق میں کہا کہ انہوں نے (یعنی نارنگ )لسانیات سے اسلوبیات اور ساختیات تک ایک طویل ذہنی سفر طے کیا ہے اور 1976میں محمد علی صدیقی کے ذریعے ساختیات کے تعارف سے بہت پہلے یعنی بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں انہوں نے ساختیاتی ادبی تنقید سے متعلق انگریزی اور اردو رسائل میں تحریریں شائع کرائی ہیں اور وہ ساختیات اور متعلقہ افکار و نظریات کو اپنے ذہن و شعور کا حصہ بناتے آرہے تھے۔

عتیق احمد صدیقی نے جن کتابوں کے مطالعے کے بعد انہوں نے ایسا جامع مضمون لکھا، ان میں یقیناً سوسیئر کا ذکر ہوگا نیزسوسیئر کا ذکر ان کتابوں میں بھی ہے جن کا ذکر انہوں نے کتابیات کی فہرست میں کیا ہے:

1. JOHN P. HUGHES: THE SCIENCE OF LANGUAGE

2. A. A. HILL: INTRODUCTION TO LINGUISTIC STRUCTURE

3. LOUIS GRAY: FOUNDATIONS OF LANGUAGE

4. W. M. URBAN: LANGUAGE AND REALITY

5. BLOCH & TRAGGER: OUTLINE OF LINGUISTIC ANALYSIS

6. C. F. HOCKETT: A COURSE IN MODERN LINGUISTICS

7. SAPIR: LANGUAGE

فہرست سے ظاہر ہے کہ عتیق احمد صدیقی ساختیاتی فلسفہ لسان سے نابلد نہ تھے۔ مضمون میں ساختیات کی کئی لسانیاتی بنیادوں کا ذکر ہے اور کئی رہ گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ زبان کیا ہے نہ کہ ساختیاتی فلسفہ لسان سے متعارف کرانا ہے۔ زبان کے سلسلے میں انہوں نے اپنے مقالے کی بحث کو چند نکات میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو درج ذیل ہے:
زبان (1) ترسیل خیالات کا ذریعہ ہے جسے (2) ایک سماج کے افراد استعمال کرتے ہیں؛ (3) یہ استعمال علامتوں کے ذریعے ہوتا ہے جو (4) صوتی ہوتی ہیں اور (5) خود اختیاری ہوتی ہیں نیز (6) یہ علامتیں ایک ضابطے میں مربوط ہوتی ہیں۔ ان نتائج کو یکجا کیا جائے تو زبان کی تعریف کا تعین یوں کیا جا سکتا ہے کہ زبان صوتی خوداختیاری علامتوں کا منظم مجموعہ ہوتی ہے جس سے کسی سماجی گروہ میں ترسیل خیال کا کام لیا جاتا ہے۔ (صفحہ 30) اوپر نکتہ نمبر 5 میں تلخیص کرتے ہوئے مصنف نے زبان کی علامتوں کے لیے 'خود اختیاری' کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن پہلے وہ اس کے لیے من مانا کا لفظ استعمال کر چکے ہیں: چونکہ علامتیں خود جزو شئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کا صرف صوتی اظہار ہوتی ہیں، اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان علامتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ یہ تعین کون کرتا ہے؟ اور کیا ان علامتوں اور اشیا میں کوئی باہمی ربط ہوتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شے اور علامت کا کوئی منطقی یا معنوی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ نہ علامت میں اپنے معنی سے متعلق کوئی علامت پوشیدہ ہوتی ہے بلکہ استعمال عام سے علامت اور شئے میں خارجی تطبیق پیدا ہوتی ہے۔ ان علامتوں اور خارجی مظاہر سے ان کے تعلق کا احساس نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اور اہل زبان ان علامات اور ان کی خارجی تبطیق سے اس درجہ مانوس ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کو بالکل منطقی اور عقلی سمجھنے لگتے ہیں۔ مثلاً گحوڑا، سورج، کمرہ، میز وغیرہ علامات سے جو تصور ہمارے ذہن میں آیا ہے، وہ محض عرصہ دراز کے استعمال کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے ورنہ اس کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی کہ کمرے کو گھوڑا میز کو کمرہ کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ اگر علامت اور اس کے خارجی مظہر میں کوئی داخلی ربط ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایک خاص چوپائے کو ہندوستان میں (اور ہندوستان کے بھی ایک خاص علاقے میں) کتا، ایران میں سگ، عرب میں کلب، انگلستان میں Dog، فرانس میں Chien اور زیکوسلوواکیہ میں Pes کہا جاتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اس وقت علامت اور معنی کا کوئی داخلی باہمی تعلق نہیں ہے لیکن ابتدا میں ضرور تعلق رہا ہوگا اور اشیا کی خصوصیات کے اعتبار سے یا ان کی کسی ھرکت مثلاً آواز وغیرہ کی نقل میں ہی ان کے لیے اشاراتی علامات مقرر کی گئی ہوں گی۔ لیکن اس خیال کا اطلاق معدودے چند علامات پر ہی ہو سکتا ہے اور ان میں بھی بعض مشابہتیں ہونے کے باوجود مکمل ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ بالآخر اسی نتیجے پر پہنچنا ہوگا کہ آوازوں کی مخصوص ترتیب سے پیدا شدہ اکائیوں کے معنی کسی ایک جماعت یعنی سماجی گروہ کے اتفاق رائے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس میں کسی منطقی استدلال کو دخل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیچھے انسان کی خودمختاری اور من مانا انداز کارفرما ہوتا ہے۔ چونکہ یہ علامتیں خود اختیاری ہوتی ہیں، یعنی ان کے اندر خود کوئی معنی پوشیدہ نہیں ہوتے اور ان کی سماجی حیثیت بھی ہوتی ہے، اس لیے معاشرے کی نفسیاتی اور ذہنی تبدیلیاں ان پر اثرانداز ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے زبان کے ارتقائی عمل میں یہ بات عام ہے کہ امتداد زمانہ کے ساتھ علامت کا مفہوم بدل کر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ مثلاً لفظ رنڈی جو اٹھارویں صدی تک مطلقاً عورت کے لیے استعمال ہوتا تھا، اب بازاری عورت (طوائف) کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔صفحہ 27 تا 28

اب تک ہم علامات کو خود اختیاری اور من مانے طور پر استعمال کرنے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن یہ من مانا انداز ضابطے اور قاعدے سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر زبان کا نظام بڑے ضابطوں کا پابند ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ نظام کسی ایک شخص کا ترتیب دیا ہوا نہیں ہوتا اور نہ کسی خاص وقت میں یک بہ یک وجود میں آ جاتا ہے، بلکہ سالہاسال کا استعمال اور رواج اس ضابطے کے وجود کا باعث ہوتا ہے اور اسی کے تحت زبان کے تمام اجزا کی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ ہر زبان میں یہ نظام تہہ در تہہ ہوتا ہے۔ بالعموم پہلی سطح آوازوں کی ترکیب و ترتیب ہوتی ہے یعنی چند آوازوں کو ملا کر بامعنی اکائیاں یا علامتیں بنائی جاتی ہیں اور زیادہ صحیح یہ کہ بن جاتی ہیں اور پھر ان اکائیوں کی ترتیب سے کسی پورے خیال کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ عرف عام پہلی ترتیب کو لفظ اور دوسری کو جملے سے تعبیر کرتے ہیں۔ لفظوں کی ساخت اور جملوں ان کی ترتیب مختلف زبانوں میں مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ہر زبان میں ترتیب کا یہ ڈھانچا متعین بھی ہوتا ہے۔ تعین کی صورت کسی خاص ترتیب کے بار بار دہرائے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ایک نمونے کو دیکھ کر دوسرے مجموعے (جملے) تیار کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح جو سانچے تیار ہوتے ہیں ان میں متبادل اجزا کے استعمال سے زبان کا نظام بنتا ہے، اگر اردو میں یہ نامکمل جملہ کہا جائے:

لڑکا ۔۔۔۔ کتاب۔۔۔۔۔ ہے

تو خالی جگہوں کو متعدد اکائیوں (لفظوں) سے پر کیا جا سکتا ہے، مثلا:

لڑکا “اپنی” کتاب پڑھتا ہے

“ا مجھے “ دیتا “

“ نئی “ پسند کرتا “ وغیرہ۔

1968: ترجمہ بعنوان ‘‘لسانیات کی تاریخ پر ایک نظر ’’ مترجم: نیر اقبال ، اصل مصنف: فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر
قومی زبان کراچی کے فروری ۱۹۶۸ کے شمارے میں نیر اقبال نے فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی کتاب ‘‘عام لسانیات کا درس’’ کے تعارفی باب کا ترجمہ ایک مقالہ کی شکل میں شائع کرایا۔ ۱۹۶۸ وہ زمانہ تھا جبکہ مغرب میں ساختیاتی و پس ساختیاتی بحثوں کی گرم بازاری تھی۔ اس سے پہلے والے سال یعنی ۱۹۶۷ میں ہی ژاک دریدا کی تین کتابیں، آف گرمیٹولوجی، رائیٹنگ اینڈ ڈیفرینس اور اسپیچ اینڈ فینومینا شائع ہوئی تھیں ۔ اس پس منظر میں نیر اقبال کا قومی زبان میں ساختیاتی فلسفہ لسان کے اولین ماخذ کا ترجمہ کیا جانا اردو میں غیرمعمولی واقعہ ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نیر اقبال کی نظر ساختیاتی و پس ساختیاتی مباحث پر رہی ہوگی۔

1966-67، ہیئت اور مواد، مضمون از وجیہ الدین احمد ، مجلہ عثمانیہ، خصوصی اشاعت: مقالہ نمبر
وجیہ الدین احمد کا مضمون ‘‘ہیئت اور مواد’’ مجلہ عثمانیہ حیدرآباد کے مقالہ نمبر میں 1966-67 میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں ہیئت اور مواد سے متعلق بعض مشرقی اور مغربی تصورات زیربحث آئے ہیں اور ان میں روسی ہیئت پسندی پر بھی کسی قدر تفصیلی گفتگو پائی جاتی ہے۔ یہاں یہ بتانا غیرموزوں نہ ہوگا کہ گوپی چند نارنگ روسی ہیئت پرستی کو نئی تھیوری میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ساختیات سے متاثر ادبی تنقید کے اولین نقوش روسی ہیئت پسندوں کے یہاں ملتے ہیں اور ۱۹۱۵ سے ۱۹۳۳ تک ہیئت پسندی کی تحریک کو دبا دیا گیا، لیکن اس سے وابستہ بعض مصنفین ماسکو سے پراگ آئے اور پراگ اسکول آف لنگوئسٹکس کی بنیاد ڈالی ۔ ان میں رومن جیکب سن اور رینے ویلک خاص تھے جنہوں نے بعد میں بہت شہرت پائی۔ (مناظر عاشق ہرگانوی، گوپی چند نارنگ اور ادبی نظریہ سازی ،صفحہ ۱۹) نارنگ کے ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب وجیہ الدین احمد کے مذکورہ مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘۔۔۔ روسی ہیئت پرستی پر ایک نظر ڈالیں تو اس خیال کو مزید تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ روس کی تحریک Formalism مغرب میں شاید ہی معروف ہو کیونکہ روس ہی میں وہ کافی دبا دی گئی اور اس تحریک کا بنیادی متن مشکل ہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ انگریزی ادب میں VICTOR ELRICH کی تصنیف RUSSIAN FORMALISM سے اس تصور کے بنیادی نظریات کو ٹھیک طور سے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ روسیوں کے نزدیک ہیئت ایک نعرہ بن گیا ہے جس میں وہ سارے اجزا شامل ہیں جو کسی ادب پارہ کی تخلیق کے لیے لازمی ہیںَ روس کے ہیئت پرستوں نے ان پر کی گئی تصوراتی تنقید کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس تصور کی تردید کی کہ ہیئتیں ایسے پیمانے ہیں جن میں کوئی تیار شدہ مواد انڈیل دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے پیش رو اور بعد کے آنے والے کئی نقادوں کی طرح اس بات پر اصرار کیا ہے کہ ہیئت اور مواد کی وحدت ان کو ایک دوسرے سے ناقابل تقسیم کر دیتی ہے اور کسی ادبی تخلیق کے لسانی عناصر اور اس کے تصورات کے درمیان کوئی خط فاصل کھینچنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جب مواد کا لفظ کہا جاتا ہے تو اس میں ہیئت کا تصور خود بخود شامل ہے ۔ مثال کے طور پر کسی ناول میں جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں وہ اس کے مواد کے اجزا ہیں لیکن ان واقعات کو پلاٹ کی تشکیل کے لیے جس طرح ترتیب دیا جاتا ہے وہ اس ناول کی ہیئت کا پہلو ہوتا ہے۔ اگر واقعات کی یہ ترتیب بگاڑ دی جائے تو پھر ناول کوئی جمالیاتی تصور پیدا نہیں کر سکے گا۔ خود زبان کی ایک جمالیاتی سطح ہوتی ہے جو ادبی تخلیق کی ہیئت کی ایک پرت ہوتی ہے ۔ جمالیاتی نقطہ نظر سے خود الفاظ کی انفرادیت متنوع ہوتی ہے جن میں خود ایک جمالیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ روس کے ہیئت پرستوں نے اس مسئلہ کے جو حل نکالے ہیں وہ کسی حد تک ناقص ہیں۔ ایک تو یہ انہوں نے ہیئت کی اصطلاح کو کچھ توسیع دے دی ہے اور بس۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیئت وہ ہے جو لسانی اظہار کو ادبی تخلیق کی شکل دے دے۔ چنانچہ وکٹر کہتا ہے ‘‘ہیئت پرستوں کا طریقہ تصورات کی تردید نہیں کرتانہ ہی آرٹ کے مواد کی تردید کرتا ہے بلکہ اس طریقہ میں نام نہاد مواد خود ہیئت کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے۔’’ وکٹر یہ تسلیم کرتا ہے کہ اگر ہم ہیئت سے جمالیات مراد لیں تو مواد کے سارے حقائق ہیئتی مظاہر کے طور پر ظاہر ہوں گے۔ اس بنیاد پر وہ کہتا ہے کہ محبت، غم، باطنی کشاکش، فلسفیانہ تصور وغیرہ شاعری میں یوں ہی نہیں ملتے، بلکہ وہ کسی ہیئت کے قالب میں ملتے ہیں۔ اس کی بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ آرٹسٹ کی لاپرواہی سے برآمد ہونے والے نتائج بتاتا ہے اور کہتاہے کہ :

‘‘کسی شاعر سے اس کے تصورات اور احساست کو وابستہ کرنا اتنا ہی بے معنی ہے جتنا کہ قرون وسطیٰ کے تماشائی کے نزدیک کسی اداکار کو اس بات پر سزا دینا واجبی ہو سکتا تھا کہ اس نے جیوڈا کا رول ادا کیا تھا۔ کسی شاعر کو نظریاتی اختلاف کے مقابلے میں اس سے زیادہ اہمیت کیوں دی جائے کہ ایک کے ہاتھ میں تلوار ہو اور دوسرے کے ہاتھ میں پستول’’۔

تصورات کی حیثیت کیانویس پر لگائے جانے والے رنگوں کی ہے جو بجائے خود مقصود نہیں ہوتے وہ ایک فنی کلیت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسے ہم ہیئت کہتے ہیں۔

عام طور پر روسی ہیئت نگاروں نے یہ دیکھا کہ محض اس حقیقت کا ادراک حاصل کر لینا کہ ہیئت ایک ایسی کیفیت ہے جو مواد کو پیے جاتی ہے کافی نہیں ہے انہوں نے اس کو ایک نئے اصول سے بدل دیا اس اصول کے تحت انہوں نے ایک طرف تو غیرفنکارانہ اور غیرجمالیاتی مواد کا فنکارانہ اصول سے مجموعی طور پر مقابلہ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس اصول کے تحت ‘‘طریقہ’’ ان کے یہاں کسی ادبی مطالعہ کا واحد حقیقی موضوع ہو سکتاہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہیئت کا تصور ادبی بیزاری یا تخلیقی مسائل کے میکانکی تصورات میں تحویل ہو کر رہ گیا۔ جس کا مطالعہ کسی تخلیق سے جدا طور پر بھی کیا جا سکتا تھا یا مربوط طور پر بھی روسی ہیئت پرست بالخصوص ابتدائی دور کے ہیئت پرستوں نے شاعری کی زبان کو ایک جدا اور خصوصی زبان قرار دیا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عام بول چال کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جسے وہ منظم انحراف کہتے تھے ان کے یہاں ہیئت کا تصور عناصر کے رابطوں کے مجموعہ اثرات سے بہت کچھ مشابہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا طریقہ کار اور ان کے اصول حد درجہ نازک و لطیف تھے لیکن یہ ہیئت کے قدیم روایتی تصورات کی طرف لوٹ آئے۔

جب روسی ہیئت پرستی پولینڈ اور چیکوسلوواکیہ پہنچی تو دو جنگوں کے درمیان کی مدت میں اس کا رابطہ جرمنی کی کلیت پسند روایت اور موضوعِ فکر میں فلسفیانہ بصیرت سے قائم ہوا۔ یہ کیفیت HUSSERL کی PHENOMENOLOGY یا پھر CASSIRMR کے علامتی ہیئتوں کے فلسفہ میں ملتی ہے۔ چیکوسلواکی FORMALISM کے بجائے STRUCTURALISM کی اصطلاح برتتے تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں ہیئت کی جگہ ساخت کا لفظ کسی ادبی تخلیق کی من حیث المجموع زیادہ ترجمانی کر سکتا تھا اور اس میں لفظ ہیئت کی نسبت خارجی تخئیل انگیزی کا عنصر نہایت کم ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہیئت کا مطالعہ محض ادبی اصولوں کی روشنی میں نہیں کیا جا سکتا ۔ ہیئت نہ تو نری حسیاتی کیفیت ہے نہ ہی نری لسانیاتی۔ کیونکہ یہ محرکات ‘‘موضوعات’’ کردار اور پلاٹ کی ایک دنیا سے عبارت ہوتی ہے۔ پولینڈ کے مظاہر پرست نے 1941 میں ایک زیادہ مربوط نظریہ پیش کیا جس کی رو سے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی ادبی تخلیق اگرچہ ایک کلیت ہوتی ہے لیکن یہ کلیت باہم مختلف طبقات سے ترکیب پاتی ہے۔ ادبی تخلیق کا یہ تصور دو خدشات کو دور کر دیتا ہے ایک تو کلیت کا وہ رجحان جو نامیاتی ہے اور جس میں ہیئت اور مواد کو جدا طور پر دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ دوسرا وہ رجحان جو اس کے عین برعکس ہے جس میں ادبی تخلیق کا سالماتی ٹکڑوں میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ادبی تخلیق میں طبقات کا یہ تصور رینے ویلک کے پاس بھی ملتا ہے جس میں ٹھیٹ تجزیہ کاری کو ترجیح دی گئی ہے اور کسی ادبی تخلیق کی کلیت سالمیت اور اس کی ہیئت و مواد کی وحدت میں بصیرت کے آگے ہتھیار ڈالنے سے روکا گیا ہے۔

ان مباحث کے بعد ایک بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ مغربی تنقید نگاروں نے ہیئت اور مواد پر بحث کرتے ہوئے ادب کی مقصدیت کو فراموش کیا ہے۔ کوئی مادی یا غیرمادی حقیقت کیوں نہ ہو اس کی کوئی شکل اور کوئی مواد کیوں نہ ہو جب تک اس کے مقصد اور اس کی قدر کا تعین نہ ہو اس کی ہیئت اور اس کا مواد دونوں غیراہم ہیں۔ کوئی ایسی شئے جو قدر ، مقصد یا افادیت سے عاری ہو ایک باعمل معاشرہ میں اس کا مقام مشکل سے عجائب خانہ میں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ رینے ویلک نے تنقیدی تصورات سے متعلق اپنی تصنیف CONCEPT OF CRITICISM میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۴۹ میں آسٹیس ویرن کے ساتھ اپنی مشترکہ تصنیف THEORY OF LITERATURE شائع کرتے وقت اس نے صرف متن کے تجزیہ پر زور دیا تھالیکن ہیئت اور مواد کے موضوع پر معاصرین کے خیالات کی چھان بین کے بعد ۱۹۶۴ تک وہ اقدار کی اہمیت کو محسوس کرنے لگا تھا۔ چنانچہ جدید ناقدین میں رینے ویلک وہ پہلا شخص ہے جس نے ہیئت اور مواد کے مسئلہ کو اقدار کی روشنی میں دیکھنا ضروری سمجھا۔ وہ کہتا ہے :

‘‘اب پھر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ادبی مطالعہ کا حق کسی ادبی تخلیق کی ساخت کے مکمل تجزیہ سے ادا نہیں ہوتا۔۔۔ ادبی تخلیق اقدار کی ایک ایسی کلیت ہوتی ہے جو محض اس کے ڈھانچے سے وابستہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے اہم عناصر اور اس کی معنویت کو تشکیل دیتی ہے۔ کسی ادبی تخلیق سے نظرانداز کرتے ہوئے اس کا مطالعہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور یہ کوششیں ہمیشہ ناکام ہوں گی کیونکہ ادب کی روح وہ قدر ہے جو اس میں مضمر ہوتی ہے۔ ادبی مطالعہ کو اصول نقد سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اصول نقد اقدار کا محاسبہ کرتے ہیں۔’’

ادبی تنقید میں ہیئت اور مواد کے ساتھ قدر کا تعلق وہ حقیقی مسئلہ ہے جو ادب میں نظریات کی پذیرائی کے امکان اور طریقوں کو واضح کر سکتا ہے ۔’’ (صفحہ70 تا 73)۔
خاتمہ:

غرض اتنے سارے مواد کی موجودگی میں محمد حسن عسکری کے متعلق ناصربغدادی کا یہ دعوی کہ وہ ‘‘اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار ’’ تھے اور انہیں ساختیات کے ‘‘خاتم’’ کا درجہ بھی حاصل ہے، صحیح نہیں ہے، خاص طور سے اس بنا پر کہ محمد علی صدیقی ساختیات پر اصولی، تنقیدی اور استردادی بحث کی ابتدا کرنے میں سبقت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بغدادی کا یہ دعوی بھی تحقیق کے بعد غلط ثابت ہوا کہ عسکری نے اپنے خط میں ساختیات پر جس وقت تنقید کی، اس وقت ‘‘اردو ادب میں ساختیات کا تعارف بھی نہیں ہوا تھا’’۔ واقعہ یہ ہے کہ عسکری اور صدیقی سے بھی پہلے اردو میں ساختیات، پس ساختیات اور دیگر متعلقہ افکار و نظریات سے واقفیت رکھنے والے موجود تھے، وہ کسی نہ کسی حد تک ان پرنظر رکھتے تھے، اپنی استطاعت بھر ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب سے اخذ واستفادہ اور ترجمہ کرتے یا مضامین لکھتے تھے، اور بعض کے ہاں ان پر ایک گونہ تنقید بھی پائی جاتی تھی گو اس میں استرداد کا رنگ نمایاں نہ ہواور وہ‘‘ برسبیل تذکرہ ’’قسم کی چیز ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساختیات کا ایک گونہ تعارف محمد علی صدیقی سے بھی پہلے1970 میں لوسین گولڈمان کی ایک تحریر کا ترجمہ بعنوان ‘‘نظریہ اور تحریر’’ میں ہو چکا تھاجسے محمد حسن نے اپنی ادارت میں نکلنے والے سہ ماہی عصری ادب میں شامل کیا تھا۔

آخر میں یہ وضاحت کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں جن مصنفوں کا ذکر میں نے کیا ہے، ان میں سے کسی کے متعلق میرا یہ دعوی نہیں ہے کہ اردو میں اسی نے سب سے پہلے ساختیات کی بنیاد رکھی یا اسے کسی بھی درجے میں سب سے پہلے متعارف کرایا۔ یہ ایک منصفانہ تحقیق کا موضوع ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ گزشتہ صدی میں شائع ہونے والے تمام رسائل و جرائد اور کتابوں میں ساختیات اور اس سے متعلق افکار پر شائع ہونے والے مواد کی ایک مکمل فہرست تیار کی جائے اور اس کے بعد ہی اس کا فیصلہ کیا جائے۔


1 اردوئے معلی کےقدیم اردو نمبر میں سن اشاعت درج نہیں ہے لیکن اس کے آخر میں غالب نمبر حصہ سوم کو زیرطبع بتایا گیاہے۔ غالب نمبر کی اشاعت فروری 1969 ہے۔

اتوار، 10 جولائی، 2016

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد



علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’

اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا :

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضرت نے لگایا جن کو ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں۔آئیے ہم امامِ عالی مقام کی کتاب ‘‘المنقذ من الضلال ’’ سے وہ اقتباس پڑھیں جس میں ان کی علمی تکفیر کا ایک نمونہ پایا جاتا ہے:


‘‘پھر ارسطاطالیس نے افلاطون اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الٓہیہ کی جو اُس سے پہلے گذرے ہیں ایسی تردید کی ہے کہ کچھ کسر باقی نہیں رکھی۔ اور ان سب سے اپنی بیزاری ظاہر کی ہے۔ لیکن اُس نے بعض رذایل کفر و بدعت ایسے چھوڑ دیے جس کی تردید کی توفیق خدا تعالی نے اس کو نہیں بخشی تھی ۔ پس واجب ہے کہ اُن کو اور اُن کے اتباع مثلاً علمائے اسلام میں سے بوعلی ابن سینا اور فاریابی وغیرہ کو کافر کہا جائے۔ کیونکہ ان دو شخصوں کی مانند اور کسی شخص نے فلاسفہ اہل اسلام میں سے فلسفہ ارسطاطالیس کو اس قدر کوشش سے نقل نہیں کیا ۔’’

[حوالہ: ابی حامد محمد غزالی، خیرالمقال فی ترجمہ المنقذ من الضلال ، ترجمہ :مولوی سید ممتاز علی، مترجم چیف کورٹ پنجاب لاہور، مطبع :اسلامیہ پریس لاہو، 1890عیسوی، صفحہ نمبر 32-35]


برادرانِ اسلام، اب جتنا چاہے افسوس کیجیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ غزالی نے ابن سینا اور فارابی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا کہ وہ کافر تھے کیونکہ ان دونوں جید فلسفیوں کے عقائد و افکار بالتحقیق غیراسلامی اور خلافِ قرآن تھے۔ لیکن اگر آپ بھی علامہ غزالی کی طرح ابونصر فارابی اور ابن سینا کو کافر مانتے ہیں، تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو علم سکھایا؟ فارابی و ابن سینا تو مسلمان تھے ہی نہیں، پھر ہمارا یہ دعوی باطل ہوا یا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس کے فروغ میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا؟ اہلِ مغرب نے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا علم تو حاصل نہیں کیا ، انہوں نے تو فارابی و ابن سینا اور دوسرے کافر وملحد لوگوں سے فلسفہ ہی سیکھا، پھر سوال یہ ہے کہ عہدِ وسطی کے سائنسی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں کا کارنامہ کیوں کہا جائے؟ صرف اس لیے کہ فارابی اور ابن سینا مسلمانوں میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دور کے فلسفہ و سائنس میں اعلی ترین مقام حاصل کیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عقیدہ کی بنیاد پر تکفیر کا یہ باب بند کیا جائے اور ان سب لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، اور / یا خود کو مسلمان قرار دیا۔یہی امت کی بازیافت اور اس کی تعمیرِ نو کی دنیاوی بنیاد ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر یہ منظور نہیں توباطل تعمیمات پر مبنی ایسے گمراہ کن اور بوگس دعوے ختم کیے جائیں کہ مسلمانوں نے اہل ِ مغرب کو فلسفہ اور سائنس سکھایا، اور ٹھیک ٹھیک یہ پتا لگایا جائے کہ عہدِ وسطی کے کتنے فلاسفہ و سائنسداں اپنے عقائد کے اعتبار سے صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھے اور کتنے ان میں ملحد و زندیق اور دیگر اقسام ‘گمراہ’ اور ’گمراہ گر’ پیدائشی مسلمان تھے جنہیں امتِ مسلمہ سے خارج کرنا شرعاً ضروری ہے۔

جمعہ، 8 جولائی، 2016

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ)
ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان نامی اپنی تالیف میں جگہ دی ہے۔ میں یہاں ان کی مذکورہ تالیف سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا جس سے یہ صریحاً یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرات کا عمل تکثیری ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مولوی ذکاءاللہ کی رائے معنی کی تکثیریت پر بعینہ وہی ہو جو قاری اساس تنقید کے جدید نظریہ سازوں نے پیش کی۔ اب وہ اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘ہر شخص جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ اپنے تصور کی ایک علامتِ محسوسہ دکھاتا ہے۔ ان الفاظ کا استعمال دو مقصدوں کے لیے وہ کرتا ہے کہ کیا تو اپنے حافظہ کی اعانت کے لیے ان کو لکھتا ہے یا اپنے تصور کو دوسرے پر ظاہر کرنے کے لیے بولتا ہے۔ یہ الفاظ اپنے ابتدائی معانی ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں اور استعمال کرنے والے کے تصور کے قائم مقام ہونے کے سوأ وہ کچھ اور کام نہیں کرتے۔جب ایک آدمی دوسرے آدمی سے اپنی بات سمجھانے کے لئے بولتا ہے تو اس بات چیت کا مآل یہی ہوتا ہے کہ بولنے والے کے تصورات بذریعہ اصوات جو اس کے تصورات کی علامات ہیں سننے والے کو معلوم ہو جائیں۔ بولنے والا اپنے تصورات کی نشانیاں بناتا ہے اپنے سے غیرتصورات کے لئے ان کو نہیں بنا سکتا۔ یہ ایک بے معنی بات ہے کہ وہی نشانیاں جو اپنے تصور کے لئے کام میں لائے وہی غیرتصور کے لئے کام میں لائے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تصور کے لئے نشانیاں بناتا بھی ہے اور نہیں بھی بناتا ہے۔ الفاظ تو ااختیاری علامات ہیں۔ بھلا جن چیزوں کو آدمی جانتا ہے نہیں ان کے واسطے کیسے اپنے اختیار سے علامات بنا سکتا ہے۔ ایسی چیزوں کے لئے جو ذہن میں موجود نہ ہوں الفاظ بنانے بے معنی آواز نکالنی ہے۔ جب تک آدمی خود ذہن میں خیالات موجود نہ ہوں وہ دوسرے آدمی کے خیالات سے ان کو مطابق نہیں کر سکتا۔ اور نہ ان کے لئے کوئی علامت وضع کر سکتا ہے۔ نامعلوم چیز کے لئے کوئی لفظ نہیں بنایا جاتا۔ جب آدمی اور آدمیوں کے تصورات کو اپنے تصورات سے تعبیر کرتا ہے اور ان کا اِن ناموں کا رکھنا منظور کر لیتا ہے جو اوروں نے رکھا ہے تو یہ تصورات بھی اس کے اپنے وہی تصورات ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں نہ وہ جو معدوم ہوتے ہیں۔غرض زبان بولنے کے لیے یہ امر لازمی ہے کہ ایک ہی الفاظ جاہل عالم۔بچے بڑے بولیں مگر معانی انکے جدا جدا اپنے تصوراتِ ذہن کے موافق ہوں۔ ایک بچے نے ایک دھات میں جسے سونا کہتے ہیں چمکتا ہوا سنہرا رنگ دیکھا سو وہ اپنے خیال کے موافق جس چیز کا چمکتا ہوا رنگ دیکھے گا اسے سوناکہہ دے گا، مور کی دم میں یہ رنگ دیکھ کر اسے بھی سونا کہدیگا دوسرا آدمی جو اس بچے سے زیادہ جانتا ہوگا کہ یہ دھات سوا چمکتے ہوئے سنہرہ رنگ کے بہت بھاری بھی ہوتا ہے تو جب وہ سونے کا لفظ بولتا ہے تو اوس کے ذہن میں اس کا مفہوم وہ دھات ہوتا ہے کہ سنہرا اور بھاری۔ تیسرا شخص اس سے زیادہ اگر واقف ہوگا کہ سونے میں گلنے پگھلنے کی بھی قابلیت ہوتی ہے سو وہ اپنے خیال کے موافق سونے کا لفظ بولے گا تو اوس کے ذہنمیں اس کا مفہوم وہ دھات ہوگا جو سنہرا چمکتا ہوا رنگ اور بھاری اور پگھلنے والا ہوگا۔ چوتھا شخص اسکے باریک ورق بننے کی قابلیت سے واقف ہوگا تو سونے کا مفہوم اسکے ذہن اور بڑھ جائیگا پس یہ چاروں شخص لفظ تو ایک سونے کا بولینگے مگر ہر ایک کے ذہن میں اسکا مفہوم یا مدلول جدا جدا ہوگا۔’’ (مولوی ذکاءاللہ، رسالہ تقویم اللسان، مطبوعہ 1893 ء، مطبع شمس المطابع, دہلی, صفحہ 6-7)
کیا مولوی ذکاءاللہ کے اس اقتباس سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اپنے ہی علم اور تجربے کی رو سے کسی متن کی تخلیق کرتا ہے اور قاری بھی اپنی استعداد کے اعتبار سے کسی متن کو سمجھ سکتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ مصنف اور قاری کے معنی میں جو اشتراک پایا جاتا ہے ، اس سے ایک متن بامعنی بنتا ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ قرات کا عمل تکثیری نہیں ہوتا۔

جمعہ، 3 جون، 2016

مولوی ذکاءاللہ کا تصورِلفظ و معنی

1

لفظ و معنی میں تعلق کی بحث بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں قدیم یونانی و ہندوستانی اورعربی فلسفہ کی لسانی بحثوں میں پیوست ہیں۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان میں اس مسئلے پر اب تک کی تمام بحثوں کے نتیجے میں جو اہم ترین نکتہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کسی نہ کسی طور یہ ہے کہ لفظ، یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں ’’فطری رشتہ ‘‘ نہیں بلکہ یہ دونوں ’’آربٹریری ‘‘ یعنی ’’من مانے‘‘ طور پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب یہ نکتہ اپنے متعلقات کے ساتھ ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے ساتھ متعلق ہو کر اردو میں زیربحث آیا تو ابتداءً لوگوں نے سمجھا کہ یہ دور جدید میں ساختیات کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔

سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں کسی فطری رشتے کے نہ ہونے کے مضمرات اتنے پریشان کن تھے کہ سوسیئر نے ان دونوں میں ’’وحدت کا ٹانکا ‘‘لگانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ دونوں کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل ہیں۔[1] لیکن اگر ان میں کوئی فطری رشتہ پایا ہی نہیں جاتا تو سوسیئر کی اس مثال کی حیثیت سخن سازی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ ژاک دریدا نے سوسیئر سے بیک وقت بنیادی استفادہ اور انحراف کرتے ہوئے سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے سوسیئری ٹانکے کو کھول دیا، [2] اور اس طرح ایک مبینہ ’’ تباہ کن‘‘ ردتشکیلی فکر کو جنم دیا جس سے دنیائے فکرونظر کی دَسوں دِشاوں میں ایک عظیم زلزلہ برپا ہو گیا حالانکہ متعدد مغربی علمائے لسانیات کے نزدیک یہ ہمیشہ سے ایک معروف بات تھی اور ساختیاتی و پس ساختیاتی مباحث کے ہنگاموں میں بھی انہوں نے اس کا اعادہ کیا کہ لفظ اور اس سے مراد ذہنی شبیہ کے مابین رشتہ /اشارہ کے غیرفطری/ آربٹریری ہونے کا تصور سوسیئر سے پہلے کسی نہ کسی شکل میں افلاطون ، ہابز، لاک، لیبنیز، برکلے، فشٹے اور ہیگل ‘‘کے یہاں پایا جاتا ہے۔[3]

اردو میں ساختیات و پس ساختیات کا تفصیلی تعارف و تجزیہ پیش کرنے والوں میں ایک نمایاں ترین نام گوپی چند نارنگ کا ہے اور اس موضوع پر ان کی کتاب "ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات" میں مغربی حکمائے لسانیات اور مصنفوں کی عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔ ان کی اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ یا سگنی فائر اور اس سے مراد ذہنی شبیہ یا سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونا سوسیئری ساختیات کے بنیادی دلائل ،بحثوں اور نکتوں میں سے ہے۔ واضح رہے کہ زبان کے سوسیئری ماڈل میں شے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔سوسیئر ی فلسفہ لسان کے اس ایک بنیادی نکتے اور اس کے متعلقات سے بعینہ نہیں تو حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھنے والی ایک بحث برصغیر کے ایک اردو دانشور مولوی محمد ذکاءاللہ دہلوی کے رسالہ تقویم اللسان میں پائی جاتی ہے۔ موصوف کے اس رسالہ کا جو اڈیشن میرے پیش نظر ہے وہ 1893 میں مطبع شمس المطابع دہلی میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا.[4] رسالہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ ایک ابتدائیہ ہے جس کے آخر میں مولوی ذکاءاللہ کا نام اور تاریخ 24 اپریل 1893 عیسوی درج ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تقویم کا پہلا اڈیشن ہے۔ سوسیئر نے جنیوا یونیورسٹی میں جنرل لنگوئسٹکس پر اپنے تاریخی خطبات 1906سے 1911 تک دیے تھے جو آگے چل کر ساختیاتی فلسفہ لسان کی بنیاد بنے۔ پس، مولوی ذکاءاللہ نے لفظ اور معنی کے متعلق موٹا موٹی وہی خیالات جو عام طور پر سوسیئر سے منسوب کیے جاتے ہیں ،سوسیئر سے کم از کم 12 سال پہلے پیش کیے ۔ حالانکہ علما لسانیات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ لفظ و معنی کے رشتے کے فطری نہ ہونے کی بات سوسیئر سےپہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں متعدد فلاسفہ (مثلاً جان لاک) کہہ چکے ہیں.

سوسیئر کی طرح اس خاص معاملے میں اس کے پیش رو [5]مولوی ذکاءاللہ کے ہاں بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بالکل واضح ہے جس کا اردو ترجمہ نارنگ صاحب نے بالترتیب ’’معنی نما ‘‘اور ’’تصور معنی‘‘ کیا ہے جس کے لیے بالترتیب اردو میں "دال" اور "مدلول" کی اصطلاح بھی مستعمل ہے، حالانکہ مولوی ذکاءاللہ نے ایک ممکنہ حکمت کے پیش نظر دال اور مدلول کی ڈائیکاٹومی پیش نہیں کی اور اس کی جگہ انہوں نے ’’لفظ اور مدلول‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اتنا ہی نہیں ، ان کے ہاں لفظ و معنی کی جو بحث پائی جاتی ہے اس میں مستعمل لفظیات و اصطلاحات کی اگر صحیح تعبیر نہ کی جائے تو بادی النظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ بھی لفظ اور مدلول میں کسی "فطری رشتے" کے نہ پائے جانے کے قائل ہیں۔ لیکن یہ محض تعبیر کی غلطی ہوگی. مولوی ذکاءاللہ نے اپنے رسالہ تقویم اللسان میں لفظ اور معنی میں ’’طبعی مناسبت‘‘ نہ ہونے کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو میرے نزدیک ساختیاتی موقف ’’ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونے ‘‘ سے مماثلت رکھتے ہوئے بھی ایک زاویہ کا فرق اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اور یہی زاویاتی فرق مولوی ذکاءاللہ کے موقف کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات سے ممتاز کرتا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں شمس العلما ء مولوی ذکاءاللہ کے رسالہ تقویم اللسان سے اپنے ان دعووں کا ثبوت پیش کروں، میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لفظ اور اس کی ذہنی شبیہ میں ’’فطری رشتہ‘‘ نہ ہونے کا یہ موقف کس تاریخی سیاق میں، کیوں اور کیسے وجود میں آیا ، اور یہ ساختیات کی ایک فکری بنیاد کیونکر ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع آخر میں اردو حلقوں میں ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان کے حوالے سے لفظ و معنی کے باہمی رشتے پر بحثوں کی اس گرم بازاری پر بھی کچھ روشنی ڈالوں گا جو حالی کی مقدمہ شعرو شاعری کی اشاعت کے ٹھیک ایک صدی بعد 1993میں گوپی چند نارنگ کی ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات کے کتابی شکل میں یکجا ہوکر شائع ہونے کے بعد اپنے عروج پر پہنچی ۔ مقدمہ کے ٹھیک ایک صدی بعد ، اور نئی صدی کے آغاز سے پہلے پہلے نارنگ صاحب کی کتاب کا تہذیب کے ماضی بعید کی گم گشتہ بصیرتوں سے آراستہ ہو کر شائع ہونا میدانِ ادب میں کارِتجدیدکے مترادف تھا، چنانچہ خود فرماتے ہیں:
اردو میں تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی کی پہلی باضابطہ کتاب حالی کا مقدمہ شعر و شاعری ہے۔ یوں تو شعریات کا احساس پہلے سے موجود چلا آتا تھا، لیکن اسے منضبط کرنے کی اولین کوشش حالی نے ہی کی۔ مقدمہ ٹھیک ایک صدی پہلے 1893 میں شائع ہوا ۔ اس دوران اردو میں بہت کچھ لکھا گیا۔ [6]
لیکن گوپی چند نارنگ کی اس کتاب کی اشاعت سے ٹھیک ایک صدی پہلے 1893 میں مقدمہ حالی کے ساتھ ساتھ مولوی ذکاءاللہ کا رسالہ تقویم اللسان بھی شائع ہوا تھا اور اس میں لفظ و معنی کی حقیقت پر علمی بحث کے بہت کچھ سامان تھے ، لیکن معلوم ہوتا ہے اس وقت برصغیر میں اس پر اتنی بڑی بحث قائم نہ ہوسکی جتنی ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے اردو میں داخل ہونے کے بعد بڑی شد و مد سے برپا کی گئی جس کے خلاف ایک ردعمل یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بعض اردو حلقوں میں سوسیئر ودریدا سے پہلے کے فلسفیوں اور مصنفوں کے کارناموں سے وہ فلسفیانہ نکتے پیش کیے جانے لگے جو ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان بشمول ردتشکیل میں بھی پائے جاتے تھے تاکہ ان جدید ترین افکار و نظریات کو ازکار رفتہ قرار دے کر تاریخ کے ڈسٹ بن کی نذر کر دیا جائے۔


2

یہ مسئلہ کہ لفظ (سگنی فائر) اور اس کی ذہنی شبیہ (سگنی فائیڈ) میں کوئی فطری رشتہ نہیں، لسانیاتی تحقیق سے زیادہ فلسفیانہ تعبیر کا موضوع ہے۔لیکن گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریا ت کے دیباچےمیں ساختیات و پس ساختیات کو نئی تھیوری اور نئی فکر کے طور پر متعارف کراتے ہوئے انتہائی جزم کے ساتھ سوال اٹھایا تھا کہ کیا اس کی ’’بعض بصیرتوں کا درجہ سائنسی دریافتوں کا نہیں؟‘‘[7] لفظ و معنی میں کسی’’ فطری رشتہ ‘‘ کا نہ ہونا ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان کی ایک بنیادی بحث ہے اور ممکن ہے یہ ان بصیرتوں میں بھی شامل ہو جن کا درجہ نارنگ کے مطابق سائنسی دریافتوں کا ہونا چاہیے۔

نارنگ صاحب کے مطابق سوسیئر کے زمانے تک زبان کی نسبت یہ نظریہ عام تھا کہ زبان ’جوہری‘ یا ’قائم بالذات‘ شئے ہے۔ سوسیئر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیوں سے چلے آتے زبان کے اس نظریے کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور زبان کے ’نسبتی ‘ تصور کو پیش کیا جس کی رو سے زبان کی آوازوں کی شناخت بالذات ہونے کے بجائے ان میں پائے جانے والے فرق کی بنا پر ہوتی ہے اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ زبان تسمیہ یعنی اشیا کو نام دینے والا نظام نہ ہو کر ’’افتراقات کا نظام ہے جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں ہے۔‘‘ [8]

زبان کے نسبتی تصور کو پیش کرنے، اس کو نظام افتراقات کے بطور قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ لفظ اور اس سے مراد شئے میں فطری رشتہ پائے جانے کا عام خیال تھا۔ اسی خیال کی بنا پر زبان کو جوہری یا قائم بالذات چیز سمجھا جاتا تھا جسے رفع کیے بغیر زبان کو ایک نظام کے طور پر دیکھنے کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک شخص کہہ سکتا تھا کہ زبان اپنی جگہ افتراقات کا نظام ہو تو ہو، لیکن معنی تو الفاظ میں بالذات موجود ہیں، لفظ اور اس سے مراد شئے میں ایک اور ایک کا فطری رشتہ بہرحال پایا جاتا ہے، لہذا زبان کی آوازوں میں پائے جانے والے فرق اور ا س کی بنا پر مفروضہ ’’تفریقی رشتوں‘‘ کے فلسفے کی چنداں اہمیت نہیں۔چنانچہ لفظ و معنی کے اس موہوم ’’فطری رشتے ‘‘کو منقطع دکھانا ضروری تھا:
۔۔۔ لفظ ’شجر‘ کی اصوات اور اس کے تصور میں اور اس شئے میں جو زمین سے اگتی ہے اور جس میں ٹہنیاں اور پتے ہوتے ہیں، کوئی ’فطری‘ رشتہ نہیں۔ لفظ ’شجر‘ میں یا اس کی کسی صوت میں درخت کی کوئی خصوصیت نہیں،[9]
اس کے بعد لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ’ شجر‘ کو اس کے معنی آخر کہا ں سے حاصل ہو گئے اگر لفظ میں شئے کی خصوصیت نہیں پاتی جاتی ؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا:
اور نہ ہی اس لفظ کا یہ تصور کسی خارجی قوت کی رو سے طے ہوا ہے۔’شجر‘ کو یہ معنی زبان کی ساخت نے دیے ہیں۔[10]
اس کے علاوہ، ساختیاتی فلسفہ لسان کو مزید مدلل بنانے کی غرض سے بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے رشتے کے فطری ہونے کے بجائے ان کے باہم آربٹریری متعلق ہونے پر مہرتصدیق ثبت کرنے کے ذریعے زبان کے مروجہ عامیانہ خیال کی تردید کر دی گئی کہ لفظ میں شئے کی حقیقت پائی جاتی ہے۔ زبان کو غیرشفاف قرار دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے:
سوسیئر مزید کہتا ہے کہ زبان میں ’معنی نما‘ اور تصور معنی کا ناقابل تقسیم رشتہ یعنی شیر کے صوتی امیج سے مراد شیر ہی کا تصور ہے، گائے، بھینس، بکری، یا کوئی اور جانورنہیں، یہ واہمہ پیدا کرتا ہے کہ زبان شفاف چیز ہے، یعنی اس کے آرپار دیکھا جا سکتاہے، یا لفظوں اور اشیا میں ایک اور ایک کی نسبت ہے۔ زبان چونکہ ہماری عادت کا حصہ ہے اس لیے زبان کے بارے میں ایسا سوچنا عین فطری ہے، لیکن فکری اعتبار سے بھی اس کو صحیح سمجھ لینا خود کو دھوکا دینا ہے، اس لیے کہ زبان کی اصل نوعیت اس کے برعکس ہے۔ زبان شفاف نہیں ہے ۔ [11]
پس، اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ ساختیاتی فلسفہ لسان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے درمیان ’’ فطری رشتے ‘‘کا نہ ہونا، ایک ناگزیر فکری بنیاد ہے ۔ اگر علمائے لسانیات کو شئے کی حقیقت لفظ میں مل جاتی تو لسانیات کی سائنس میں زبان کی ساخت کا مسئلہ محض زبان کی آوازوں کے میکانیکی پہلووں تک محدود رہ جاتا اور اس صورت میں ساختیات کا تعلق فلسفہ معنی سے نہ رہ سکتا اور نہ کسی لفظ کے متعلق یہ دعوی وجود میں آ سکتا کہ اس کے معنی ’’زبان کی ساخت نے دیے ہیں۔‘‘

ساختیات کی یہ ناگزیر فکری بنیاد نہ صرف ساختیات کو اس کے پیروں پر کھڑا کرتی ہے بلکہ تاریخ میں اس کے ارتقا کو بھی ممکن بناتی ہے۔ انسانی ذہن زبان کے اسرار معلوم کرنے کی سمت میں پہلے لفظ پر توجہ کرتا ہے نہ کہ زبان کی آوازوں کے فرق پر۔زمانہ حال میں بھی وہ لفظ اور معنی کے باہمی رشتے پر غور کیے بغیر ایک ہی جست میں زبان کے نظام افتراقات تک نہیں پہنچ سکتا ۔ انسان نے ایک طویل زمانے تک لفظ و معنی کے مسئلے پر غور کیا اور اس کے بعد جب زبان کی اصل سرشت اور جبلت کا سرا نہ ملا تو اس نے معاملے کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا اور ایک دن فلسفہ ساختیات تک پہنچا۔

فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر نے جس تاریخی سیاق میں آنکھ کھولی، اس میں لفظ و معنی کے رشتے پر جتنی کچھ بحثیں ماضی قریب و بعید میں ہو چکی تھیں، اورلسانیات میں تاریخی تحقیقات کا جو سلسلہ جاری تھا، اس سے زبان کی فطرت کا علم نہیں ہوتا تھا ۔کہہ سکتے ہیں کہ زبان کے نظام افتراقات کے انکشاف کا سیاق یہ ہے کہ پہلے مغربی علمائے لسانیات نے لفظ میں شئے کی خصوصیت تلاش کی ،اِسی کوانہوں نے لفظ و معنی میں فطری رشتہ ہونے یا نہ ہونے کی شرط قرار دی ، اور جب لفظ میں شئے کی خصوصیت نہ ملی تو لفظ و معنی کے رشتے کو فطری کی تعریف سے خارج کیا ، لفظ کا اپنے معنی پر اشارہ کے آربٹریری ہونے کا حکم لگایا، اور اس کے بعد زبان کی میکانیکیت کی تحقیق کے ذریعے معنی آفرینی کو زبان کی ساخت کے تابع کر دیا، پہلے جس کا سرچشمہ لفظ کو سمجھا جاتا تھا۔


3

اوپر میں کہہ چکا ہوں کہ علمی حلقوں میں یہ بات معروف ہے کہ لفظ و معنی کے مابین تعلق پر ساختیات کے بنیاد گزار سوسیئر نے جو کچھ کہا، وہ اس سے پہلے کئی فلاسفہ اور علمائے زبان و ادب اپنے طور پر کہہ چکے تھے اور اس خاص معاملے میں سوسیئر کی تخصیص نہیں ہے الا یہ کہ اس نے اپنے متقدمین سے کسی قدر مختلف شکل میں مسئلے کی تعبیر کی ہو۔ گوپی چند نارنگ نے بھی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا اور افلاطون کے مکالمہ کریٹیلس [12]کے حوالے سے بتایا کہ یہ مسئلہ وہاں بھی زیر بحث آیا لیکن لاینحل رہ گیا. اس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب میں ہندوستانی روایت میں سوسیئر کے خیالات سے مماثلت رکھنے والے خیالات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، مثلاً
زیرنظرباب (سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر) کا مقصد یہی ہے کہ سوسیئر کے فلسفہ لسان ، پس ساختیات اور ردتشکیل کے فلسفہ معنی کے تناظر میں یہ دیکھا جائے کہ اس بارے میں ہندوستانی روایت میں کیا کیا بحثیں اٹھائی گئی ہیں اور ہندوستانی ذہن کا موقف کیا رہا ہے۔ اس نظر سے جب ہم نے ہندوستانی فکری روایت اور شعریات کا جائزہ لیا تو بعض حیران کن نتائج سامنے آئے۔ یعنی مغرب میں جو نکات اب ساختیاتی اور ردتشکیلی فکر کے ذریعے سامنے آ رہے ہیں، ان سے ملتے جلتے نکات ہندوستانی فکر و فلسفے بالخصوص بودھ فلسفے میں صدیوں پہلے زیر غور رہے ہیں۔ [13]
(نیائے اور ویشیشک مفکرین ) کا کہنا ہے کہ نہ شبد مقتدر ہے نہ معنی مستحکم، یعنی شبد اور ارتھ کا رشتہ فطری نہیں ہے، نیز یہ رشتہ مستقل بھی نہیں ہے، بلکہ یہ رسمی اور روایتی نوعیت کا ہے۔ یعنی لفظ کے معنی فی نفسہ طے نہیں ہیں، یہ رواج اور چلن سے طے ہوتے ہیں۔ گوتم رشی کا کہنا ہے کہ شبد اور ارتھ میں کوئی براہ راست رشتہ نہیں ہے ۔ اگر ہم شبد ’اگنی‘ کہہ کر جلانے والی چیز اور شبد گئو کہہ کر خاص قسم کا جانور مراد لیتے ہیں، تو ایسا اس لیے نہیں ہے کہ شبد ’اگنی‘ میں جلانے کے یا شبد ’گئو‘ میں جانور کے خواص موجود ہیں، بلکہ ایسا صرف اس لیے ہے کہ روایت اور چلن سے ان لفظوں کے یہ معنی طے پا گئے ہیں… [14]
بودھی مفکرین کہتے ہیں کہ شبد میں ہرگز کوئی شئیت براہ راست نہیں ہے ، اس لیے کہ ارتھ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفی ہے ۔ ان کے بقول شبد چونکہ تصوراتی امیج ہیں جو خالصتاً ذہنی تشکیل یعنی ’وکلپ‘ ہیں، اس لیے شبد اور شے میں کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہو سکتا۔بودھی مفکر دن ناگا کا کہنا ہے کیہ شبد ایسا وکلپ ہے جس کی خصوصیت خاصہ اس کی منفیت ہے، اور اپنے زمرے کے دوسرے تمام عناصر سے اس کا رشتہ تفریقی نوعیت کا ہے۔ شبد ’گئو‘ سے گائے براہ راست مراد نہیں ہے، بلکہ الا ان تمام اشیا کے جو گائے نہیں ہیں، یعنی ایسی تمام اشیا کی نفی جو گائے نہیں ہیں۔ ۔۔۔۔ظاہر ہے کہ بودھی فکر کے ان نکات اور سوسیئر کے خیالات اور دریدا کے نظریہ افتراق میں حیرت انگیز مطابقت اور مشابہت ہے۔ بودھوں کے یہاں یہ نکتہ بالکل سوسیئر سے ملتا جلتا ہے کہ زبان کے تصوراتی امیج میں (جس کا حامل شبد ہے) اور اشیا میں کوئی لازمی یا فطری رشتہ نہیں ہے اور ارتھ کا انفراد فقط اس کی تفریقی حوالگی میں ہے۔[15]
حیرت ہوتی ہے کہ جن نتائج تک جدید لسانیات و پس ساختیات و ردتشکیل بیسویں صدی میں پہنچیں ان تک بودھی ذہن صدیوں پہلے پہنچ چکا تھا۔[16]

نارنگ نے عربی و فارسی روایت اور ساختیاتی فکر والے باب میں اس سلسلے میں ایک انتہائی دلچسپ اقتباس پیش کیا ہے:
محمد رضوان الدایہ مقدمہ دلائل الاعجاز میں لکھتا ہے کہ جرجانی کا تصور لسان بہت کچھ سوسیئر کے خیالات سے مماثل ہے۔ اس کا کہنا ہے:
عبدالقاہر جرجانی نے دلائل الاعجاز میں زبان سے متعلق خالص علمی اور بے مثل موقف اختیار کیا ہے۔ اس نے دلالت کا ایک اصول مقرر کیا ہے جسے ایک باضابطہ قانون کی حیثیت سے اختیار کرنے کے لیے جدید مطالعات کو تقریباً ایک ہزار برس انتظار کرنا پڑا تب کہیں چمنستان بلاغت کے سوئس دیدہ ور سوسیئر کے ہاتھوں بیسویں صدی کے شروع میں لسانیات کا ایک تسلیم شدہ ضابطہ تشکیل پایا کہ الفاظ بذات خود کوئی معانی نہیں رکھتے۔ یعنی لفظ اور معنی میں کوئی فطری ربط نہیں، بلکہ لسانی اشکال اور ان کے مفاہیم سماجی اور اجتماعی طور پر طے پاتے ہیں اور لسانی ساخت ہی لفظ و معنی کا ربط طے کرتی ہے ۔‘‘ (ترجمہ بشکریہ ڈاکٹر ضیاء الحسن ندوی) [17]
لیکن نارنگ کی اس کتاب میں اس سلسلے میں ماضی بعید کی ہندوستانی و عربی روایت میں ہونے والی متعلقہ بحثوں کے علاوہ ماضی قریب کے مغربی تاریخی دستاویزات کے حوالے سے کچھ نہیں ملتا. مثلاً برطانوی فلسفی جان لاک نے 1690 عیسوی میں بھی اپنی کتاب این ایسے آن ہیومن انڈراسٹینڈنگ میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے دوران کہا تھا کہ لفظ کا اشارہ (اپنے خیال کی طرف ) مطلقاً آربٹریری ہے اور ان کے درمیان کوئی فطری تعلق (نیچرل کنکشن ) نہیں پایا جاتا۔[18] حالانکہ اس کا حوالہ ناصر عباس نیر کی مرتب کردہ کتاب ’’ساختیات: ایک تعارف ‘‘ میں پایا جاتا ہے لیکن چونکہ میں نے ساختیات و پس ساختیات پر اردو زبان میں اول اول نارنگ کی ہی کتاب سے استفادہ کیا جس میں جان لاک وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا ، اس لیے مجھ ہیچمداں پر ایک تاثر تو یہ قائم ہوا کہ افلاطون کے کریٹیلس کے بعد سوسیئر وہ پہلا شخص ہے جس کے لیکچرز سے یہ لاینحل مسئلہ کسی قدر حل ہو گیا اور دوسرا یہ کہ اردو میں بھی دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح لفظ و معنی میں فطری رشتہ کی بحث پہلی بار ہو رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی تاثر اس وقت بھی پڑا ہوگا جب اردو دنیا ساختیاتی و پس ساختیاتی افکار سے واقف ہوئی ہوگی۔ چنانچہ اس پورے دور میں ماہنامہ شبخون کے متعدد شماروں میں ساختیاتی و پس ساختیاتی افکار کی منجملہ دیگر بحثوں کے ساتھ یہ بحث بھی سوسیئر سے پہلے کی تفکیر میں پائے جانے کی نشاندہی مغربی مصنفین کے اقتباسات کی پیش کش کے ذریعے کر دی گئی جن سے مجموعی طور پر یہ ثابت ہوا کہ سوسیئر اور دریدا سے پہلے بھی دنیا اس نکتے سے نابلد نہ تھی، مثال کے طور پرشبخون ، جولائی اگست ستمبر1985میں ژرار ژینت کا ایک اقتباس پیش کیا گیا:  
سوسیور کی کتاب ’’عمومی لسانیات کا درس‘ میں جن باتوں پر خاص زور دیا گیا ہے، ان میں ایک یہ بھی ہے اور سوسیور کے بھی پہلے ڈبیلیو۔ ڈی ۔ وہٹنی اور ولیم جیمس کا بھی یہی خیال تھا۔ انہوں نے بڑے محاکاتی انداز میں لکھا تھا کہ ’’لفظ کتا‘‘ کسی کو نہیں کاٹتا۔ بلکہ اور بھی پہلے جائیں تو انسائیکلو پیڈیا میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ ’الفاظ جس چیز کو ظاہر کرتے ہیں اس سے ان کا کوئی لازمی رشتہ نہیں ہوتا۔ [19]
اسی طرح مئی جون 1999 کے شبخون میں ’’زبان ، معنی اور رسومیات ‘‘ کے عنوان سے صفحہ اول پر ونفرائیڈ ناتھ [20]کی 1995 کی کسی تحریرسے ایک اقتباس درج ذیل ادارتی نوٹ لگاکر پیش کیا گیا :
[آج کل بعض حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ لفظ اور معنی کی دوئی کا مسئلہ بعض جدید فرانسیسی فلاسفہ، مثلاً دریدا نے دریافت کیا ہے۔ درج ذیل اقتباس سے معلوم ہوگا کہ یہ مسئلہ سقراط کے بھی قبل سے یونانی فلسفے میں موجود ہے]۔[21]
یہاں تک کہ خود شمس الرحمان فاروقی نے رچرڈ اور اوگڈن کی کتاب د میننگ آف میننگ کے حوالے سے اس خیال کے ازکار رفتہ ہونے کے سلسلے میں کہا:
دریدا کا یہ خیال اس کے عام فلسفیانہ تصور سے ہم آہنگ ہے کہ الفاظ میں کوئی وجود نہیں، اور الفاظ نہ اشیا ہیں اور نہ اشیا کے قائم مقام ہیں۔ یہ تصور دریدا کا اپنا نہیں۔ اور جس چیز کو وہ لفظ مرکزیت (لوگوسنٹرزم) کہہ کر مطعون کرتا ہے، مغرب و مشرق کے فلسفہ لسان اور فلسفہ وجود میں بہت پہلے مسترد ہو چکی تھی۔ آگڈن او ر رچرڈس نے اپنی کتاب THE MEANING OF MEANING (اول اشاعت ۱۹۲۳، تیسری اشاعت ۱۹۳۰) میں اس تصور کو کہ الفاظ اور اشیا میں مکمل ہم آہنگی ہے VERBOMANIA ( مراق اللفظ) اور GRAPHOMANIA (مراق التحریر) کہہ کر اس کا خوب مذاق اڑایا ہے۔
(فاروقی کا رچرڈ اور اوگڈن کی مذکورہ کتاب سے اقتباس حذف کر دیا گیا ہے)
آگڈن اور رچرڈس کا یہ اقتباس میں نے دریدا کی وقعت کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ تعبیر کے مسائل میں ایک اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کی غرض سے پیش کیا ہے ۔ آگڈن اور رچرڈس کی پوری کتاب ہی اس مسئلے کی چھان بین پر ہے کہ ہم معنی کو کس طرح گرفت میں لا سکتے ہیں ؟[22]
لفظ و معنی کے درمیان کسی فطری رشتہ کا نہ ہونا ایک ایسی فلسفیانہ تعبیر ہے جس کی فراہم کردہ عقبی زمین کے بغیر ساختیاتی فلسفہ لسان میں زبان کو ایک بامعنی نظام کے طور پر قائم کرنا ہی نہیں بلکہ پس ساختیات اور ردتشکیل تک کا وجود میں آنا دشوار تھا۔ ردتشکیل پر گوپی چند نارنگ کی تحریروں سے میرے ذہن میں جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ دریدا نے ساختیات پر ہتھوڑے کی آخری ضرب لگاتے ہوئے زبان کے سوسیئری نشان کی وحدت کا خاتمہ کر ڈالا۔ نارنگ صاحب نے دریدا کی ردتشکیل پر کیا خوب اس کی تاریخی معنویت کے ساتھ لکھا ہے:
لاکاں نے فرائیڈ کے نظریۂ لاشعور کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اتنی بڑی سائنسی دریافت تھی کہ خود فرائیڈ اس کی تاب نہ لا سکا اور اس کو فکری اعتبار سے زیرِ دام لانے کی سعی میں لگ گیا۔ اسی طرح سوسیئر کا یہ معلوم کر لینا کہ زبان محض افتراقات پر قائم ہے ، بھی معمولی دریافت نہ تھی، کیونکہ جیسا کہ سوسیئر نے کہا ہے کہ افتراق تضاد سے ہوتا ہے ، اور تضاد بہرحال کچھ نہ کچھ تو اثبات رکھتا ہے ، لیکن زبان میں مطلق کسی مثبت عنصر کا نہ ہونا اتنی تحیر زا بات تھی کہ سوسیئر نے اگرچہ اپنی بصیرت سے اس راز کو پا تو لیا لیکن جلد ہی وہ اس پر پردہ ڈالنے لگ گیا۔ کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ زبان جب ‘افتراقِ محض’ سے عبارت ہے اور اس میں کوئی مثبت عنصر نہیں تو پھر یہ مثبت طور پر عمل آرا کیونکر ہوتی ہے؟ سوسیئر نے اپنی سوچ سے اس کا یہ حل نکالا کہ Signifier/Signified کے تفریقی تصورات کو کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل قرار دے کر ان میں ارتباط (وحدت) پیدا کی، اور اس کو Sign (نشان) کا نام دیا۔ غرض یوں سوسیئر نے اپنے پہلے بیان کی توسیع کر دی ، اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بے شک Signifier/Signified الگ الگ تو افتراقی نوعیت رکھتے ہیں، لیکن جب یہ زبان میں مل کر عمل آرا ہوتے ہیں بطورِ نشان یعنی بطور ایک واحدے کے تو یہ ‘‘مثبت’’ کردار ادا کرتے ہیں۔
… … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … …
سوسیئر نے Signifier/Signified کے افتراقی تصورات میں ٹانکا لگا کر ان میں وحدت پیدا کر دی اور یوں اپنی اصل دریافت کے انتشار انگیز مضمرات پر قابو پا لیا۔ دریدا اور سوسیئر کی فکر میں فرق بس یہی ہے کہ کہ سوسیئر نے زبان کے جس افتراق پر قابو پانے کے لیے نشانِ وحدت کو قائم کیا، دریدا نے اپنی منطقی قوت سے اسے پاش پاش کر دیا اور دلیل افتراق کو استقلال عطا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں Sinifier/Signified کے درمیان وحدت کا جو ٹانکا سوسیئر نے لگا دیا تھا، دریدا نے اسے کھول دیا، اور دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں ۔۔۔۔Signifier اور Signified اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے۔[23]
لفظ اور معنی کے باہمی رشتہ کے فطری نہ ہو کر آربٹریری ہونے کی فلسفیانہ تعبیر کی کلیدی اہمیت پر ناصر عباس نیر کی ایک تحریر سے بھی پرروشنی پڑتی ہے :
…سوسیئر نے لسانی نشان کے باب میں جو خیالات ظاہر کیے ہیں، وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں، بلکہ یہی وہ خیالات ہیں جن پر لیوی اسٹراس (ماہر بشریات) رولاں بارت (نقاد) میثل فوکو (تاریخی فلسفی) ژاک لاکان (ماہر تحلیل نفسی) اور ژاک دریدا (فلسفی اور نقاد) نے اپنے اپنے فکری نظاموں کی بنیادیں کھڑی کیں۔ سوسیئر نے واضح کیا کہ دال اور مدلول لازم و ملزوم تو ہیں مگر دونوں میں جو رشتہ ہے وہ من مانا (Arbitrary) ہے۔ آسان لفظوں میں: کسی شئے کی نمائندگی کے لیے جو لفظ وضع کیا جاتا ہے وہ اس شے کی حقیقی فطرت اور داخلی خاصیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ لفظ اور شے میں کوئی حقیقی، فطری اور منطقی رشتہ نہیں۔ الفاظ اور اسما اشیا کی اصل کو منعکس نہیں کرتے…[24]
اقتباس طویل تو ہے لیکن یہ اس لیے پیش کیا گیا تا کہ معلوم ہو کہ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونے، سوسیئر کے ذریعے لسانی نشان کی وحدت کی تشکیل اور پھر ژاک دریدا کے ذریعے اس کی ردتشکیل کا یہ پورا معاملہ کس درجہ حساس ہے اور مغرب میں واقع ہونے والے اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی کی کس درجہ اہمیت ہو سکتی ہے اگر تحقیق سے ثابت ہو کہ ان کے ہاں بھی اس موضوع پر ایک نہیں کئی مماثل نکات کا پائے جاتے ہیں.


4
اب میں مولوی ذکاءاللہ کے رسالہ تقویم اللسان سے نمبر وار کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے لفظ و معنی اور زبان کی نوعیت و ماہیت پر ان کے خیالات سے کسی قدر واقفیت حاصل ہوتی ہے. کئی اقتباسات کے نیچے میں نے اپنے مختصر تبصرے کیے ہیں اور ان میں سے بعض تبصروں میں گوپی چند نارنگ کی متعلقہ کتاب سے کارآمد اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی ذکاء اللہ کا تصور لفظ و معنی سوسیئری تصورات کے مشابہ ہے اور زمانی طور پر مقدم بھی۔ اقتباس میں جو جملہ یا اس کا کوئی حصہ خصوصی توجہ کا طالب ہے وہ خط کشیدہ ہیں۔

رسالہ تقویم اللسان از شمس العلماء مولوی محمد ذکااللہ ، مطبع شمس المطابع دہلی میں باہتمام منشی محمد عطاءاللہ ،مطبوعہ ۱۸۹۳ عیسوی

تصور کے لئے الفاظ کا یا کلمات کا علامات عامہ بننا
چیزوں کی صورتیں جو ذہن میں پیدا ہوتی ہیں ان صورتوں کو تصور کہتے ہیں یعنی ہر ایک چیز کے لیے جو ایک خیال ذہن میں ہے وہی خیال اس چیز کا تصور ہے۔ جب ہم کسی چیز کا خیال کریں اس سے جو کچھ ہمارے ذہن میں آئے وہ تصور ہے۔ … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … …. … … … … … … … … … … … … … ... … … …تصور کے لیے جو آواز علامت یا نشانی مقرر کی جاتی ہے اسکو لفظ کہتے ہیں۔ علامت یا نشانی کے معنی تم جانتے ہو کہ یہ ہیں کہ اس سے وہی تصور پیدا ہو جو اصل اس شئے سے پیدا ہوتا ہے جسکی وہ نشانی ہے۔ [25]

یہاں کسی تشریح مزید کی حاجت نہیں۔ خط کشیدہ جملوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے صرف گوپی چند نارنگ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرنا کافی ہوگا:’’ نشان (سائن) کو اس دوہرے رشتے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے ، جو اس کے ’صوتی امیج ‘ اور ’تصور‘ کے بیچ میں ہے ۔ نشان ان دونوں کا مجموعہ ہے ۔ … … … یعنی صوتی امیج ’ معنی نما‘ ہے اور تصور ’معنی ‘ ہے۔… … ‘‘ [26]

مادی اشیائے خارجی کے تصورِ محسوسہ کے لیے جو الفاظ وضع ہوئے تھے انہیں کے معانی ایسے وضع ہو گئے کہ وہ اشیا ٔ باطنی غیر مادی پر دلالت کرنے لگے مثلاً عقل کے اصل معنی لغت میں پانؤں میں بند باندھنے کے تھے۔ مگر اب وہ اس قوت پر دلالت کرتی ہے جو حقائق و امور کو ادراک کرتی ہے اور علوم کی مدرک ہے اور وہ بھلائی اور نفع خیز چیز ہےکی طرف خواہش دلاتی ہے اور شر و مضرت سے بچاتی ہے۔ یعنی جیسے پیروں کی بندش جانور کو چلنے نہیں دیتی تھی اسی طرح جو قوت طبیعت کو افعال ذمیمہ کی طرف نہیں جانے دیتی۔ اسکا نام عقل رکھا گیا۔ غرض وہی الفاظ کہ جو اشیأ باعیان خارجی پر دلالت کرتے تھے، اشیا ذہنی پر دلالت کرنے لگے۔ [27]

… … … ضرورت پڑی کہ وہ (انسان) اپنے تصورات و خیالات کے اظہار کے لیے علامات جو محسوس ہوں وضع کرے۔ اس مطلب برآری کے لیے آواز سے بہتر کوئی شئے اور انسان کو ہاتھ نہ لگی۔ آواز ہی ایسی شئے ہے کہ جلدی سے ایک کے پاس سے دوسرے پاس پہنچ جائے اور طرح طرح کی صورتیں بہ آسانی و بکثرت بنا لے۔ پس یہ آوازیں جنکو الفاظ یا کلمات کہتے ہیں گویا قدرت ہی سے اس کام کے لیے موضوع و موزوں ہوئی تھیں۔ مگر یہ یاد رکھو کہ الفاظ و معانی میں کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے۔ اگر دلالتِ لفظ باقتضا ٔ ذات لفظ ہوتی تو قریوں و شہروں و ملکوں میں زبانوں کا اختلاف نہ ہوتا۔ ہر شخص ہر لفظ کے ایک ہی معنی سمجھتا اور لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معانی کی طرف محال ہوتی اس واسطے کہ جب لفظ کے معنی بالذات ہوتے تو اسکا انفکاک محال تھا۔ ساری دنیا کی ایک زبان ہوتی۔ غرض یہ امر کہ انسان کے اختیار میں تھا کہ اپنے ہر تصور کی ظاہری نشانی اسنے کسی لفظ کو مقرر کر لیا۔ پس الفاظ کا بولنا اپنے تصور کی محسوس نشانیاں دکھانا ہے اور ان الفاظ کے معانی وہی ہمارے تصور کہلاتے ہیں یعنی جو انکا مدلول ہمارے ذہن میں ہے۔[28]
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مولوی ذکاءاللہ نے فطری رشتہ کے بجائے طبعی مناسبت کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو’’ فطری رشتہ ‘‘ سے مختلف ہیں اور یہ محض ایک لفظی فرق نہیں ہے۔سابقہ اقتباسات میں یہ نکتہ گز ر چکا ہے کہ ان کے نزدیک الفاظ علامات عامہ ہیں اور ’’ مادی اشیائے خارجی کے تصور محسوسہ کے لیے جو الفاظ یا علامات وضع ہوئے وہ بعد میں اشیائے باطنی غیرمادی پر دلالت کرنے لگے۔‘‘ پیش نظر اقتباس میں مزید آگے انہوں نے فرمایا کہ ’’ الفاظ کا بولنا اپنے تصور کی محسوس نشانیاں دکھانا ہے اور ان الفاظ کے معانی وہی ہمارے تصور کہلاتے ہیں یعنی جو انکا مدلول ہمارے ذہن میں ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ذکا اللہ کے نزدیک ’معنی ‘ سے مراد ہر وہ ذہنی خیال یا تصور ہے جس پر کوئی علامت یا نشانی دلالت کرتی ہے۔ اس طرح لفظ و معنی میں طبعی مناسبت نہ ہونے کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ لفظ یا علامت اور اس کے ذہنی تصور یا مدلول میں کوئی ایسی مناسبت نہیں جس کو طبعی کہا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان سے زاویاتی طور پر مختلف ہے اور ان کے موقف کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات کے موقف سے ممتاز کرتا ہے ۔ممکن ہے مزید دیگر نقطہ ہائے نظر سے تحقیق کرنے پر زاویے کا یہ اختلاف اور بھی بڑھ جائے یا تقریباً وہی رہے جو سوسیئر کا ہے لیکن اتنا قطعی ہے کہ یہ بعینہ وہی بات ہرگز نہیں ہے جس کی رو سے لفظ و معنی کا رشتہ فطری نہ ہو کر آربٹریری ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ وہ کہہ چکے ہوں کہ زبان کی بامعنی "آوازیں جن کو الفاظ یا کلمات کہتے ہیں گویا قدرت ہی سے اس کام کے لیے موضوع و موزوں ہوئی تھیں۔" پس، مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی زبان کے الفاظ کو فطری کی تعریف سے خارج کرتا ہوا نہیں معلوم ہوتا.

انہوں نے اس اقتباس میں مدلول کا ذکر جس سیاق میں کیا ہے اس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بھی بالکل واضح ہے۔ اردو میں ان اصطلاحات کا متبادل معنی نما اور تصور معنی مستعمل ہے حالانکہ دال اور مدلول کی اصطلاح بھی رائج ہے ۔کیس فرستیخ [29] کے بقول دال اور مدلول کو سوسیئر کے سگنی فائیڈ اور سگنی فائر کے مساوی سمجھنا غلط ہے کیونکہ اول الذکر ایک فکری اصطلاح ہے جو لسانیاتی نشان کا لسانیاتی معنی قطعی نہیں ہو سکتا۔ [30] لیکن مولوی ذکاءاللہ نے تقویم میں دال اور مدلول کی اصطلاح کے بجائے’لفظ اور مدلول‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہاں پر کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مولوی ذکاءاللہ نے بعینہ سوسیئر کے معنوں میں لسانی نشان کی وحدت کی تشکیل کی تھی اور وہ بھی لفظ اور مدلول کو کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل قراردیتے تھے حالانکہ وہ لفظ اور مدلول میں "ایک تعلق" ہونے کی بات تسلیم کرتے ہیں جس کا ذکر اگلے اقتباس میں آ رہا ہے۔
جب آدمی مشق سے اپنے مفہومات ذہنی اور مافی الضمیر کے بیان کرنے پر قادر ہو جاتا ہے تو اس کے ذہن میں الفاظ فوراً تصورات کی ایسی تحریک کرتے ہیں جیسے کہ اصل اشیا جن سے وہ تصورات ہوئے تھے۔ ابھی منہ سے لفظ نکلا نہیں کہ اس کا اصل مدلول ذہن میں آ موجود ہوتا ہے۔
… … … جب ہم بولتے ہیں تو الفاظ کے معانی قریبہ وہی تصورات ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم کو بچپنے سے بہت سے الفاظ بولنے کی مشق ایسی چڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ بے اختیار ہمارے زبان کی نوک پر آتے ہیں … … … الفاظ کا استعمال جب تک بامعانی ہوتا ہے تو آواز اور تصور میں ایک تعلق ہوتا ہے اور جب یہ نہ ہو تو الفاظ ایک آواز بے معنی ہوتے ہیں۔ [31]
مولوی ذکاءاللہ لفظ اور معنی میں ایک تعلق تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی نوعیت کے بارے میں نہیں کہتے کہ وہ غیرفطری یا آربٹریری ہے بلکہ اس کے برعکس وہ الفاظ کو گویا قدرت ہی کی جانب سے موضوع اور موزوں بتاتے ہیں ۔ پھر وہ اس رشتے کو فطری کی تعریف سے کیسے خارج کر سکتے تھے؟


5

جو اقتباسات اوپر پیش کیے گئے ہیں ان سے صریحاً یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ لفظ و معنی میں طبعی مناسبت کے نہ ہونے کی حکمت ان کے نزدیک کیا ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک بار پھر اس کا اعادہ سوسیئری نشان کی دریدائی ردتشکیل کے حوالے سے کرنا ضروری ہے. جب بقول نارنگ ژاک دریدا ’’دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر تا ہے کہ زبان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے‘‘ تو کیا وہ ، غالباً، وہی بات تو نہیں کہہ رہا ہے کہ جو مولوی ذکاءاللہ ایک صدی قبل سے زیادہ عرصہ ہوا کہہ گئے ہیں؟ (یہ میں نے مجرد ایک سوال اٹھایا ہے، سوال کے پردے میں یہ میرا دعوی نہیں ہے). یعنی اگر معنی نما اور تصور معنی (سگنی فائر و سگنی فائیڈ ) میں افتراق نہ ہو کر ان میں طبعی مناسبت ہوتی تو لفظ اور اس کے معنی ایک دوسرے سے جدا نہ کیے جا سکتے، ان کے درمیان ایک اور ایک کا ناقابل انفکاک رشتہ قائم ہو جاتا ، اور ہر ایک معنی کے لیے جد ا جدا الفاظ وضع ہوتے، یہاں تک کہ انہیں یاد رکھنا اور استعمال کرنا رفتہ رفتہ قطعی ناممکن ہوجاتا۔ اوپر ردتشکیل کے سلسلے میں جو عبارت میں نے نارنگ کی ساختیات سے نقل کی ہے، اس کے ایک حصے کو ایک بار پھر دیکھنے کی زحمت دینا چاہتا ہوں:
دریدا اور سوسیئر کی فکر میں فرق بس یہی ہے کہ کہ سوسیئر نے زبان کے جس افتراق پر قابو پانے کے لیے نشانِ وحدت کو قائم کیا، دریدا نے اپنی منطقی قوت سے اسے پاش پاش کر دیا اور دلیل افتراق کو استقلال عطا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں سگنی فائر/ سگنی فائیڈ کے درمیان وحدت کا جو ٹانکا سوسیئر نے لگا دیا تھا، دریدا نے اسے کھول دیا، اور دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں ۔۔۔۔ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے۔
یہ نکتہ کہ "زبان میں سگنی فائر و سگنی فائیڈ اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں " فی الاصل وہی بات ہو سکتی ہے جو مولوی ذکا اللہ کی درج ذیل عبار ت میں کہی گئی ہے:
مگر یہ یاد رکھو کہ الفاظ و معانی میں کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے۔ اگر دلالتِ لفظ باقتضا ٔ ذات لفظ ہوتی تو قریوں و شہروں و ملکوں میں زبانوں کا اختلاف نہ ہوتا۔ ہر شخص ہر لفظ کے ایک ہی معنی سمجھتا اور لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معانی کی طرف محال ہوتی اسواسطے کہ جب لفظ کے معنی بالذات ہوتے تو اسکا انفکاک محال تھا۔
اور لفظ سے اگر اس کے معنی کو جدا کر کے اسے دوسرے معنوں میں استعمال نہ کیا جا سکے تو کیا مسئلہ پیدا ہوگا، اس کے متعلق وہ کہتے ہیں:
اگر ہر تصور جزئی کے لیے لفظ وضع کیا جاتا تو الفاظ نہایت کثیرالتعداد ہوتے کہ اونکا انحصار و انضباط متعذر ہوتا۔ اسلیے یہی زبان کے لیے مفید سمجھا گیا کہ کلی تصور کے ناموں کے لئے زیادہ تر الفاظ وضع کئے جائیں اور جزئی تصور کے لئے خاص الفاظ مقرر ہوں۔ ایسی صورت میں آدمیوں کا باہم ہم ہمکلام ہونا سہل ہوگا۔ اسلئے کلی تصور کے لئے عام نام رکھے گئے۔[32]
مجھے قطعی واضح طور پر نہیں معلوم کہ ژاک دریدا کے نزدیک زبان میں سگنی فائر و سگنی فائیڈ اپنے افتراقات سے کیونکر کارگر ہوتے ہیں ، مجھے اس سلسلے میں مزید مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت ہے اور ممکن ہے میرا یہ قیاس غلط ہو، لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مولوی ذکاءاللہ کے نزدیک لفظ و معنی میں طبعی مناسبت کا نہ ہونا کتنا ضروری اور مفید ہے کہ زبان اس کے بغیر ہرگز کارگر نہیں ہو سکتی. انفکاک کا جو تصور مولوی ذکاءاللہ کے ہاں موجود ہے ، تقریباً وہی دریدا کے ہاں افتراق کا ہے۔ مولوی ذکاءاللہ ’’انفکاک‘‘ کو مثبت طور پر بیان کرتے ہیں جبکہ گوپی چند نارنگ کی ترجمانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دریدا ’’ افتراق ‘‘کو منفی طور پر بیان کرتا ہے۔مولوی ذکاءاللہ اپنے تصور’’ انفکاک‘‘ کو لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معنی کی طرف ہونے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ ژاک دریدا سوسیئر سے ماخوذ اپنے نظریے ’’افتراق‘‘ کو معنی خیزی کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ دریدا کی ترجمانی میں نارنگ نے لکھا ہے کہ وہ اپنے تصور افتراق کو ایک ساخت اور ایک تحریک قرار دیتا ہے جس کے تین خصائص ہیں جن میں پہلی خصوصیت یہ ہے:
… … …اس کی رو سے زبان کے عناصر میں افتراق اور اس کی وجہ سے معنی خیزی کا کھیل جاری رہتا ہے ۔[33]
پس، غالباً یہی وہ نکتہ ہے جس کے متعلق نارنگ صاحب نے فرمایا ہے کہ’’ دریدا نے دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں۔ ‘‘اگر الفاظ و معنی باہم ناقابل انفکاک ہوں یا ان میں افتراق نہ پایا جائے تو ظاہر ہے ذکاءاللہ کے نزدیک ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی نہیں ہو سکتے ، اور کثرت الفاظ کے سبب زبان کا استعمال ناممکن ہو جائے اور دریدا کے نزدیک بھی افتراق وہ سبب ہے جو معنی خیزی کے کھیل کو ممکن بناتا ہے۔ یعنی ذکاءاللہ اور دریدا دونوں اصل بات پر متفق ہیں لیکن کہنے کا انداز جدا ہے۔ ایک معنی خیزی کو کھیل بتاتا ہے اور دوسرا اس کی حکمت بیان کرتا ہے اور باتیں دونوں کی دلچسپ ہیں البتہ مولوی ذکاءاللہ کے تصورِ انفکاک کو دریدا کے نظریہ افتراق پر زمانی تقدم حاصل ہے حالانکہ ’’انفکاک ‘‘کا تصور مولوی ذکاءاللہ کے ہاں کسی باضابطہ نظریہ کی صورت میں نہیں ڈھلتا ہے۔

6

گوپی چند نارنگ اردو کے جن الفاظ کی مدد سے سوسیئر کی تفہیم کراتے ہیں ان سے میری سمجھ میں فی الحال یہی باتیں آتی ہیں کہ سوسیئر کے زمانے تک دنیا آزادانہ وجود رکھنے والی اشیا سے عبارت تھی، لوگ صدیوں سے مانتے چلے آ رہے تھے کہ زبان ایک "جوہری" اور "قائم بالذات" چیز ہے، یہ تسمیہ یا اشیا کو نام دینے والا نظام ہے جس سے بالعموم مراد یہ تھی کہ لفظ کا معنی اور شئے سے فطری رشتہ ہے، لفظ میں معنی کسی نہ کسی طور موجود ہے، اسی لیے زبان اظہار خیال کا ایک شفاف میڈیم ہے۔ لوگوں کے ذہن میں زبان کے فطری ہونے کی شرط یہ تھی کہ لفظ میں شئے کی خصوصیت ہونی چاہیے ۔ یہی وہ عقبی تصور تھا جس کی بنا پر یہ خیال اپنی جڑیں جمائے ہوئے تھا کہ لفظ میں شئے کی حقیقت پائی جاتی ہے، چنانچہ سوسیئر نے لفظ اور معنی میں فطری رشتہ ڈھونڈا ، یعنی لفظ میں شئے کی خصوصیت جس کو نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ پس جو رشتہ پہلے فطری ہوا کرتا تھا وہ اب غیرفطری ٹھہرا، اور جو زبان پہلے شفاف سمجھی جاتی تھی اب وہ غیرشفاف قرار پائی۔ تعبیر کی یہ غلطی اور شدید ہو گئی جب لفظ و معنی کے رشتے کو آربٹریری بھی کہہ دیا گیا۔ اس سے یہ بات نکلتی تھی کہ جس لفظ کو جیسے چاہو استعمال کرو، وہ نقلِ معنی میں مزاحم نہیں ہو سکتا ۔ یہ مسئلہ یوں دور ہوا کہ معنی کسی خارجی قوت کی رو سے طے نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ زبان کی ساخت کے عطاکردہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مفروضے کا ایک اثر ساختیاتی فلسفہ لسان میں یہ ظاہر ہوا کہ معنی آفرینی زبان کے نظام کے تابع ہو گئی جس کے بعد اس میں سے زبان کی یہ حقیقت خارج ہو گئی کہ یہ انسان کے ارادہ پر مبنی ایک فنکارانہ شئے بھی ہے جسے سائنسی طور پر گرفت میں لانا ممکن نہیں ہے۔ نارنگ صاحب نے اپنی کتاب میں سوسیئر کی جس قدر ترجمانی کی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کی دنیا میں منفرد لفظ اپنے معنی کی تشکیل میں بالذات اپنا کوئی دخل نہیں رکھتا اور زبان کی ساخت کے سوا کوئی خارجی قوت ایسی نہیں ہے جو اس کو معنی عطاکرتی ہو۔ ان کی ترجمانی کے مطابق فلسفہ ساختیات میں لفظ و معنی کا وہ نقطہ نظر جگہ نہ پا سکا کہ زبان کے الفاظ اور معانی قدرت ہی کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے باہم ’’موضوع ہونے‘‘ کے ساتھ ’’موزوں‘‘ بھی ہوتے ہیں حالانکہ اس موزونیت کو گرفت میں لانا اکثر اوقات ممکن نہیں رہتا۔ لیکن محض اس سبب سے کہ ہم لفظ و معنی کی موزونیت و تناسب باہمی کو گرفت میں نہیں لا سکتے، لفظ و معنی کے رشتہ کے فطری ہونے کی نہ صرف یہ کہ نفی کریں بلکہ اس کو آربٹریری بھی باور کرائیں، یہ بھی یقیناً کوئی سائنسی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض الفاظ و معانی میں ایک مناسبت پائی جاتی ہے اگرچہ ان میں طبعی یا فطری رشتہ نہ ہو ۔ پس، ایسی تعبیرکو نہ سائنس کہا جا سکتا ہے اور نہ سائنس کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

لفظ و معنی کے باہمی رشتے کے فطری و آربٹریری ہونے کا یہ پورا معاملہ مروجہ عقائد کی ایک غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے دوسری غلطی میں مبتلا ہو جانے پر مبنی تھا۔ اگر ہم بالذات زبان کے قوانین کو قوانین فطرت کا حصہ ہونا تسلیم کریں تو کچھ وجہ نہیں کہ لفظ اور معنی کے تعلق کو بھی ہم فطری نہ کہیں۔انسان کے آلات نطق سے کلمات کا نکلنا کسی نہ کسی فطری قانون کے تحت ہی تو واقع ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کے ذہن میں جو تصورات و خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی فطری قانون کی رو سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح لفظ کا اپنے ذہنی تصور اور خیال کی طرف اشارہ بھی کسی فطری قانون کے تحت ہی واقع ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی کوئی بھی شئے اور مظہر ایسا نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ غیرفطری ہے۔جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہوگا وہ سب کچھ فطری کی تعریف میں داخل سمجھا جائے گا۔لیکن انسان کائنات میں ارادتاً تصرف کرتا ہے جس کے بعد اس کے گرد و پیش کی اشیا سابقہ حالت پر باقی نہیں رہتیں، اور چونکہ انسان کے ارادی اعمال کے نتیجے میں اشیا میں جو تغیر ات دیکھے جاتے ہیں انہیں سابقہ فطری حالت سے جدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، اور محض اسی لیے انسانی ارادہ کی کارفرمائی پر مبنی تغیرات کو تمدنی حالت بتاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں سابقہ حالت کو فطری حالت کہتے ہیں،اسی کے نتیجے میں تمدنی اور فطری حالت میں اختلاف معنی ہوتا ہے اور تہذیبی و فطری کی ڈائیکاٹومی وجود میں آتی ہے ورنہ پہاڑوں اور درختوں کی طرح تہذیب و تمدن بھی قوانین فطرت کے تحت ہی ظہور میں آتے ہیں۔ اس سیاق میں کہہ سکتے ہیں کہ زبان بھی ایک فطری شئے ہے لیکن چونکہ زبان ایک ایسا انسانی کارنامہ ہے جو بیک وقت ارادی بھی ہے اور غیرارادی بھی اس لیے اس کو سابقہ ان چھوئی حالت کے معنوں میں فطری نہیں کہہ سکتے ہیں ورنہ پھر انسان کے ارادی اعمال کو قدرتی واقعات و حوادث سے ممتاز نہ کیا جا سکے گا۔ پس، فطرت کے وسیع تر معنوں میں انسانی زبان کا فطری ہونا ضروری ہے لیکن سابقہ ان چھوئی حالت پر مبنی معنوں میں زبان کو فطری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں انسانی ارادہ شامل ہو چکا ۔یہی معاملہ لفظ و معنی اور ان کے باہمی رشتے کا بھی ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں انسانی ارادہ اور شعور کی کارفرمائی ہے ، اس لیے یہ دونوں چیزیں بھی اس خاص معنی میں فطری نہیں ہو سکتیں۔ لیکن وسیع تر معنوں میں یقیناً وہ فطری حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وہ ممکنہ سبب نظر آتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ نے تقویم میں لفظ و معنی میں تعلق پر فطری و آربٹریری والی بحث نہیں اٹھائی اور فرمایا کہ لفظ و معنی گویا قدرت ہی کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے موضوع اور موزوں ہوئے تھے. اس نقطہ نظر کے مقابلے میں یہ نقطہ نظر کہ لفظ میں شئے کی خصوصیت ہو تبھی ہم زبان کو فطری مانیں گے کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتا۔ یہ نقطہ نظر دراصل اور چیزوں کے طبیعی خواص کو تو تسلیم کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے لیکن زبان ہی کے سلسلے میں اس کو اعتراض ہے کہ دیگر اشیا کی خصوصیات اس کے اندرکیوں نہیں پائی جاتیں؟ زبان اگر مثل دیگر متنوع اشیا کے ایک نوع کی شئے ہے تو اس کا اپنا امتیازی وجود بھی ضرور ہوگا جس کو دیگر اشیا کی طرح فطری ہی کہنا چاہیے اور اسی نسبت سے زبان کے الفاظ کو بھی اپنے معنی کی طرف فطری اشارہ کرنے والا سمجھنا چاہیے۔

7

مجھے علم نہیں کہ شبخون یا کسی اور اردو جریدے میں مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی ساختیاتی و پس ساختیاتی تھیوری کے اردو میں داخلے کے بعد زیربحث آیا یا نہیں۔ اس کے لیے ظاہر ہے کم و بیش چالیس سال پہلے سے اب تک کے علمی و ادبی لٹریچر کو کھنگالنا ہوگا جو بہت مشکل کام ہے۔ لیکن اپنی حدتک مجھے یقین ہے کہ میں نے اس سے پہلے نہ کہیں مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی پر کوئی مضمون پڑھا نہ کسی اور سے اس کا ذکر سنا۔ یہ تو میری تحقیقی جستجو تھی جس نے مجھے ان تک پہنچایا ۔ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ لفظ و معنی پر مولوی ذکاءاللہ کے تصورات کو اس تناظر میں بیان کرنے کی کیا ضرورت ؟ پہلےبھی تو یہ بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ لفظ و معنی میں کوئی فطری رشتہ نہیں ۔مشرقی ہو یا مغربی کسی بھی علمی روایت میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں رہ گئی، اس لیے ضرورت سے زیادہ اس مسئلے کو طول دینا آخر کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ نارنگ صاحب کی اس پوری کتاب کو دیکھ جائیے، ماضی بعید کے مشرقی فلسفوں میں جہاں کہیں بھی انہیں سوسیئر کے اس نکتے سے جس قدر مشابہت کا امکان تھا،، انہوں نے بصد اہتمام اس کو درج کیا ہے۔ پس، اگر ہمارا علمی ماضی بعید واقعی اتنا شاندار اور تابناک ہے تو اس کو سامنے لانا ہماری ہی ذمہ داری ہے جسے اہل مغرب ادا کر رہے ہیں اپنے علمی کارناموں کے ذریعے . چنانچہ نارنگ صاحب ساختیات کے دیباچے میں ہی فرماتے ہیں کہ:
اس مطالعے سے یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ سوسیئر سنسکرت میں استعداد علمی رکھتا تھا اور قرینہ غالب ہے کہ اس نے سنسکرت فلسفہ لسان اور بودھی فکر سے استفادہ کیا ہو۔ سوسیئر اور دریدا کی فکر اور نیایے اور بودھی نظریہ اپوہ اور شونیہ میں حیرت انگیز مماثلت اور مطابقت ملتی ہے، اس مطالعہ سے یہ توقع بھی پیدا ہوتی ہے کہ مشرقی شعریات کے وہ تصورات و نکات جو اپنی سرزمین میں بھولی بسری یاد بن گئے، ممکن ہے کہ نئی تھیوری سے فکری مشابہتوں کے باعث از سر نو دلچسپی کا مرکز بن جائیں اور نئی ادبی توقعات کے افق پر نئی معنویت کے حامل نظر آنے لگیں۔ یہی کیفیت عربی فارسی روایت میں بھی ملتی ہے۔ کتنے نکات ایسے ہیں جو جدید فلسفہ لسان یا ساختیات کے پیشرو معلوم ہوتے ہیں بھلے ہی ان کی منطقی تحلیل اس درجہ نہ کی گئی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم ان سے غافل رہے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ عبدالقاہر جرجانی یا ابن حزم تک بھی ہم نئے فلسفیوں کی وساطت سے پہنچے ہیں ورنہ مشرقی کتابیں تو بالعموم ان کے ذکر سے خالی ہیں۔ بہرحال روایت کو چوں کہ ہم نئی معنویت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ہمیں از سر نو پرانی بصیرتوں کا سراغ مل رہا ہے ۔ [34]
پس، اگر ہمارے تابناک لیکن بعید ماضیوں میں کتنے ہی نکات ایسے ہیں جو جدید فلسفہ لسان یا ساختیات کے پیش رو معلوم ہوتے ہیں تو ماضی قریب کے مولوی ذکاءاللہ تو لسانی نشان کے باب میں بدرجہ اولی سوسیئر کے پیشروں میں سے ایک کہلانے کے مستحق ہیں. لفظ و معنی کے باب میں ساختیاتی فلسفہ لسان سے اس درجہ مشابہت کے ساتھ سوسیئر بلکہ اپنے تصور’’ انفکاک ‘‘کی بنا پر ژاک دریدا پر معنوی تقدم حاصل ہوجانا کوئی معمولی بات تو نہیں اور وہ بھی اس دور میں جبکہ ہم اپنی ان پرانی بصیرتوں کا سراغ فرزندان مغرب کے کارناموں میں لگانے پر مجبور ہوں جنہیں لوگ بھول بسر گئے ہوں.

لیکن ، ٹھہریے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم گرفتارماضی اور مبتلائے تاریخ لوگ ہیں۔ ہم کسی نئے فلسفے پر ایمان نہیں لاتے جس کی اجازت ہمارا تہذیبی ماضی نہ دیتا ہو۔ ہم ہر اس چیز پر بحث اور گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو ہماری روایت سے لگا نہ کھاتا ہو۔ اس چیز کو عالم مغرب میں بنیادپرستی کہا جاتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارا ماضی واقعی تابناک تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کی یہ بصیرتیں ماضی میں ہی کیوں رہ گئیں؟ ہم انہیں اپنے ساتھ زمانہ حال تک کیوں نہ لا سکے ؟ صرف اس لیے کہ جن بنیادوں پر ہم نئی چیزوں کی تصدیق اپنے ماضی سے آج کرنا چاہتے ہیں اسی طرح ماضی میں بھی ہر نئی چیز کی تصدیق لوگ ماضی سے ہی چاہتے تھے جو ہر معاملے میں نہیں ہو سکتی تھی ، پس بہت سی نئی چیزوں کو بھُلا اور مٹا دینا ہی انسب خیال کیا جاتا تھا تا کہ روایت ایک انچ بھی اِدھر سے اُدھر نہ ہو۔اور وہی غلطی ہم ایک بار پھر کر رہے ہیں کہ ماضی کی عظمت رفتہ کی بنا پر زمانہ آئندہ کا قصر تعمیر کرنا چاہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمان و مکاں کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتے ہی نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی تثلیث میں زمانہ کے دو مفروضہ حصوں، حال اور مستقبل پر تیسرے مفروضہ حصے ماضی کو فوقیت دیتے ہیں ۔ لیکن چونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تہذیبوں کے قوائے فکر و عمل سرود رفتہ اور ایام گم گشتہ کی ترغیب سے حرکت میں آتے ہیں اس لیے تابناک ماضی کو ان کا محرک بنایا جاتا ہے اور گردش ایام سے کہا جاتا ہے کہ لوٹ کر آئے اور پھر وہی صبح و شام دکھائے جو تہذیبوں کے طاق نسیاں کی نذر ہو گئیں.لیکن نہ ہر نئی فکر کے لیے ماضی سے ایک دلیل فراہم کی جا سکتی ہے اور نہ ماضی کی ہر بنیاد پر مستقبل کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے ۔اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ماضی کی فلاں بنیاد ابدی و دائمی ہے اور فلاں عارضی، اس لیے ایک میں تغیر جائز ہے اور دوسرے میں ناجائز۔ کارتجدید کے لیے تہذیبی روایتِ نقلی میں حریت فکر و ضمیر سے مالامال درایتِ عقلی کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی وہ نعمت عظمی ہے جس کے حاصل ہونے سے انسان عمل و خیال کی نئی طرحیں بھی ڈال سکتا ہے اور تعبیر و تحقیق معانی میں نئی طرفوں کو بھی سامنے لا سکتا ہے.

[زمانہ ٔ فکر و تحقیق اور تحریر: دسمبر 2013 سے 11 جنوری 2016، تاریخ اشاعت: 11 جنوری 2016 ، ادبی دنیا ڈوٹ کوم، مشمولہ جدید ترین ، پہلا شمارہ ، اڈیٹر: تصنیف حیدر، نئی دہلی ] 

حواشی:
[1] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، بار سوم (دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2004)، 46.
[2] حوالہ سابق، 225–26.
[3] ناصر عباس نیر، ساختیات: ایک تعارف، دوم (اسلام آباد: پورب اکادمی، ۲۰۱۱)، ۱۲۲.
[4] اس پر اڈیشن درج نہیں ہے۔
[5] یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ سوسیئر مولوی ذکاءاللہ سے متاثر تھا۔
[6] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 9.
[7] حوالہ سابق، 10.
[8] حوالہ سابق، 60.
[9] حوالہ سابق، 67.
[10] حوالہ سابق.
[11] حوالہ سابق، 68.
[12] CRATYLUS
[13] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 338.
[14] حوالہ سابق، 343.
[15] حوالہ سابق، 349.
[16] حوالہ سابق، 348.
[17] حوالہ سابق، 399–400.
[18] Their signification perfectly arbitrary، not the consequence of a natural connexion. John Locke، AN ESSAY CONCERNING HUMAN UNDERSTANDING (1690)، 27th Ed. (London: Printed For T. Tegg and Son، 1836)، 293–94، http://books.google.com/books/about/An_Essay_Concerning_Human_Understanding.html?id=vjYIAAAAQAAJ.
[19] ژرار ژینت، “زبان کے بارے میں وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تصورات،” شبخون، 1985، 1.
[20] Winfried Noth
[21] ونفرائیڈ ناتھ، “زبان، معنی، اور رسومیات،” شبخون، 1999، 1.
[22] شمس الرحمان فاروقی، “تعبیر کی شرح،” شبخون، 1994، 62–63.
[23] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 225–26.
[24] ناصر عباس نیر، ’’ساختیات اور ساختیاتی تنقید‘‘ ، مشمولہ ساختیات: ایک تعارف، 2011t (اسلام آباد: پورب اکادمی)، 116.
[25] مولوی محمد ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، اڈیشن درج نہیں (مطبع شمس المطابع بااہتمام منشی محمد عطااللہ، 1893)، 4.
[26] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 66.
[27] ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، 4–5.
[28] حوالہ سابق، 5–6.
[29] Kees Versteegh
[30] “One might be tempted to equate d¯all and madl¯ul with the Saussurean dichotomy of ‘signifiant’ and ‘signifié’. But such an equation would be wrong: the madl¯ul or the ma_n¯a is a thought concept، or perhaps the intended meaning of the speaker، but certainly not the linguistic meaning of a linguistic sign.” Kees Versteegh، “The Arabic Tradition،” in The Emergence of Semantics in Four Linguistic Traditions : Hebrew، Sanskrit، Greek، Arabic، Editor: E. F. Konrad Koerner (Amsterdam/ Philadelphia: John Benjamins Publishing Co.، 1997)، 256.
[31] ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، 7–8.
[32] حوالہ سابق، 4.
[33] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 227.
[34] حوالہ سابق 16.
ماخذ
اردو

ذکاءاللہ، مولوی محمد. رسالہ تقویم اللسان. اڈیشن درج نہیں. مطبع شمس المطابع بااہتمام منشی محمد عطااللہ، 1893.
ژرار ژینت.’’زبان کے بارے میں وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تصورات‘‘ شبخون، جولائی تا ستمبر 1985.
شمس الرحمان فاروقی.’’تعبیر کی شرح.‘‘ شبخون،جون جولائی 1994.
گوپی چند نارنگ. ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات. بار سوم. دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2004.
ناتھ، ونفرائیڈ. ’’زبان، معنی، اور رسومیات.‘‘ شبخون،مئی جون 1999.
نیر، ناصر عباس. ’’ساختیات اور ساختیاتی تنقید.‘‘ مشمولہ ساختیات: ایک تعارف، 2011. اسلام آباد: پورب اکادمی.
———. ساختیات: ایک تعارف. دوم. اسلام آباد: پورب اکادمی،2011.

انگریزی

Locke, John. AN ESSAY CONCERNING HUMAN UNDERSTANDING (1690). 27th Ed. London: Printed For T. Tegg and Son, 1836. http://books.google.com/books/about/An_Essay_Concerning_Human_Understanding.html?id=vjYIAAAAQAAJ.

Versteegh، Kees. “The Arabic Tradition.” in The Emergence of Semantics in Four Linguistic Traditions : Hebrew, Sanskrit, Greek, Arabic edited by E. F. Konrad Koerner. Amsterdam/ Philadelphia: John Benjamins Publishing Co., 1997.