نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

فکر و تحقیق لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

محمد حسن عسکری ــــ اردو ادب میں ساختیات کے بانی و خاتم؟

1 ہندوستان اور پاکستان میں ساختیات پراولین تنقیدی بحث کرنے والوں میں محمد حسن عسکری کو پہلے اردو ادیب کی حیثیت سے جانا جاتاہے۔عسکری نے فرانسیسی مصنف محمد آرکون کے نام 25 نومبر1975 کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے آرکون کو قرآن مجید کی ساختیاتی قرأت سے پرہیز کا مشورہ دیا تھا۔ عسکری کا یہ خط ان کے انتقال کے چودہ برس بعد 1992 میں اسٹڈیز ان ٹریڈیشن نامی جریدے میں ‘‘قرآن مجید کا ایک راسخ العقیدہ نقطہ نظر’’ کے عنوان سے مضمون کی شکل میں شائع ہوا اور وہاں سے اس کا ترجمہ ناصر بغدادی نے اردو میں کیا اور اس پر ایک تعارفی نوٹ بعنوان ‘‘ساختیات اور عسکری صاحب: ایک تعارف’’ لکھ کر شائع کرایا جسے میں نے سہ ماہی نیاورق کی جلد9، شمارہ23، (2006 عیسوی) میں پڑھا ۔ بغدادی نے مذکورہ خط پر اپنے نوٹ میں بعض ایسے دعوے کیے ہیں جو میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔ ان دعووں میں سے ایک تو یہ ہے کہ عسکری بنام آرکون خط میں ساختیات کے استرداد سے پہلے اردوادب میں ساختیات کا تعارف نہیں ہواتھا، دوسرا یہ کہ عسکری کو ساختیاتی مبادیات پر تحریری بحث کرنے والے پہلے اردو ادیب کی حیثیت حاصل ہے، تیسرا یہ کہ ساختیاتی...

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد

علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’ اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا : مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضر...

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ) ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان ...

مولوی ذکاءاللہ کا تصورِلفظ و معنی

1 لفظ و معنی میں تعلق کی بحث بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں قدیم یونانی و ہندوستانی اورعربی فلسفہ کی لسانی بحثوں میں پیوست ہیں۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان میں اس مسئلے پر اب تک کی تمام بحثوں کے نتیجے میں جو اہم ترین نکتہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کسی نہ کسی طور یہ ہے کہ لفظ، یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں ’’فطری رشتہ ‘‘ نہیں بلکہ یہ دونوں ’’آربٹریری ‘‘ یعنی ’’من مانے‘‘ طور پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب یہ نکتہ اپنے متعلقات کے ساتھ ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے ساتھ متعلق ہو کر اردو میں زیربحث آیا تو ابتداءً لوگوں نے سمجھا کہ یہ دور جدید میں ساختیات کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں کسی فطری رشتے کے نہ ہونے کے مضمرات اتنے پریشان کن تھے کہ سوسیئر نے ان دونوں میں ’’وحدت کا ٹانکا ‘‘لگانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ دونوں کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل ہیں۔[1] لیکن اگر ان میں کوئی فطری رشتہ پایا ہی نہیں جاتا تو سوسیئر کی اس مثال کی حیثیت سخن سازی کے سوا کچھ نہیں رہ ...