ہفتہ، 18 مئی، 2013

اسلامی ہند میں فلسفہ کی روایت

فلسفہ و سائنس  کے فروغ میں مادری و تہذیبی زبان کے لزوم پر میں نے  ۳ مارچ ۲۰۱۲ عیسوی کو فیس بک پر ایک نوٹ لکھا تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ  عظیم فلسفے مادری یا تہذیبی زبان میں ہی  وجود میں آ سکتے ہیں۔ چونکہ ہم نے آزادی کے بعد بھی برصغیر میں انگریزی زبان کے تسلط کو برقرار رکھا، اس لیے ہمارے ہاں مغربی ممالک جیسے عظیم خلاق فلاسفہ کے ظہور کا امکان ہی سرے سے ختم ہو کر رہ گیا۔ اس پر کئی احباب نے مثبت و منفی تبصرے کیے۔ انہیں میں سے ایک صاحب نے درجِ ذیل تبصرہ کیا تھا:   
جناب طارق صاحب، آپ نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا‘‘ مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ برطانوی استعمار اور اس کے ساتھ انگریزی زبان کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں میں برصغیر میں کون سا عظیم فلسفی پیدا ہوا۔ بلکہ ہماری پوری تاریخ میں عظیم فلسفیوں کی مجموعی تعداد کیا ہے؟
میں  کوئی محقق تو ہوں نہیں اور نہ میں نے تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے، اس لیے ان کے سوالات کا بروقت کوئی جواب میں نہ دے سکا۔ لیکن ان کے ایک سوال کا جواب مجھے اتفاقاً مولانا شبیر احمد خاں غوری کے ایک مقالے ‘‘قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں فلسفۂ و حکمت کا ارتقا’’ میں مل گیا۔  پھر میں نے انہیں فیس بک پر درجِ ذیل جواب دیا:  
برطانوی استعمار اور انگریزی کے تسلط سے قبل کم از کم پانچ سو سالوں کے اندر اسلامی ہند میں فلسفہ کی کیا صورت حال تھی میں نے اس پر کوئی باضابطہ تحقیق تو اب تک نہیں کی (اور نہ فی الحال میں اس تحقیق کی کوئی خاص ضرورت سمجھتا ہوں کیونکہ مسلمانوں کو ابھی تحقیقِ ماضی کے بجائے ترجمہ ٔ مغرب کی ضرورت ہے) لیکن اتفاقاً مجھے مولانا شبیر احمد خاں غوری کی ایک تحریر اس سلسلے میں ہاتھ آ گئی ہے۔ وہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:۔’’قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں مدارسِ کے اندر شروع ہی سے علوم دینیہ اور عربی ادب کے ساتھ ساتھ منطق و حکمت کی تعلیم بھی ہوتی تھی اور اس طرح ابتدا ہی سے منقول کے ساتھ معقول کی تعلیم کابھی رواج تھا۔ مگر دسویں صدی کے آغاز سے یہاں معقولات کا رواج بہت زیادہ بڑھنے لگا [1]  اور اس صدی کے آخر سے تو اس نے غیر معمولی اعتنا کی و اہتمام کی شکل اختیار کر لی۔ [2]فلسفہ و معقولات کی اس گرم بازاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ بارہویں صدی کے ہجری (اٹھارہویں صدی مسیحی) میں جب کہ عالم اسلام کے دوسرے ممالک سیاسی و معاشرتی انقلابات کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے اور علم و حکمت بالخصوص منطق و فلسفہ کا چرچا برائے نام رہ گیا تھا، علمائے ہند نے اپنی مساعی ٔ جمیلہ سے اس شاندار علمی ورثے کو اپنے نقطہ ٔ عروج پر پہنچا دیا۔ بالخصوص ملا عبد الحکیم سیالکوٹی، ملا محمود جونپوری، میر زاہد، ملا محب اللہ بہاری وغیرہم کی کوششوں سے منطق و فلسفہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس کی روایات کو ان کے جانشینوں ، بالخصوص علمائے فرنگی محل و خیر آباد اور دیگر شراح ’’مسلم العلوم‘‘  و محشیان ’’صدرا‘‘ و ’’شمس بازغہ‘‘ نے اگلی صدی میں بھی جاری رکھا۔ بعد میں ان علوم کے اندر اس درجہ توغل و انہماک کیا گیا کہ مدارس ِ عربیہ کے نصاب پر معقولات ہی معقولات چھا کر رہ گئی۔
اس کا ردعمل بھی ناگزیر تھا۔ اور مختلف تعلیمی اداروں نے اصلاح نصاب کے نام سے معقولات کو انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنے یہاں سے خارج کرنا شروع کیا  مگر بعد میں اکابر ملت کو اس بے اعتنائی کے مضر اثرات کا احساس ہوا۔ ان میں نمایاں شخصیت حکیم مشرق علامہ اقبال کی تھی۔ ‘‘الٰہیات اسلامی کی تشکیل جدید ‘‘ کی ترتیب کے دوران میں ’’مسئلہ زمان‘‘ کی توضیح کے سلسلے میں انہوں نے علامہ سید سلیمان ندوی کے مشورے سے اس موضوع پر علمائے ہند کی تصانیف کا بھی مطالعہ کیا۔ اس سے انہیں معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں بھی جس نے حکمائے یورپ کو مبتلائے حیرت بنا رکھا ہے ہندوستانی فضلا کی کوششیں کسی طرح فلاسفہ ٔ یورپ کی فکری کاوشوں سے کم نہیں ہیں۔ اس طرح انہیں اسلامی ہند کی فلسفیانہ عبقریت کا احساس ہوا اور انہوں نے سید سلیمان ندوی کو اپنے مکتوب  (۴ ستمبر ۱۹۳۳) میں تحریر فرمایا: ’’ درالمصنفین کی طرف سے ہندوستان کے حکمائے اسلام پر ایک کتاب نکلنی چاہیے ۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ عام طور پر یورپ میں سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی فلسفیانہ روایات نہیں ہیں۔‘‘مگر بعد میں کاتب و مکتوب الیہ دونوں کی گوں ناگوں مصروفیتں اس مقدس خواہش کی تکمیل کرنے اور کرانے میں مانع رہیں، لیکن اقبال کا مذکورۃالصدر ارشاد ہنوز قوم پر ایک واجب الادا فرض ہے اور جس قدر جلد یہ فرض ادا ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ ‘‘ (غوری، شبیر احمد خاں، قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں فلسفہ و حکمت کا آغا ز و ارتقا، مشمولہ اسلامی ہند میں کلا م و فلسفہ، ناشر  خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، صفحہ ۲۴۹ تا ۲۵۰)
ہندوستانی مسلمانوں میں فلسفہ کے زوال کے اسباب دو ہیں۔ ایک ہے علمائے منقولات کی فلسفہ دشمنی۔ وہ عوام کو فلسفہ کے خلاف یہ کہہ کر  بھڑکاتے ہیں کہ اس سے تمہاری آخرت برباد ہو جائے گی۔ اور دوسری ہے مسلمانوں پر غیر زبان کا تسلط ۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ مل کر انتہائی طاقتور ہو جاتی ہیں اور قوم میں فلسفیانہ عمل کی ترقی نہیں  ہوتی۔ پھر جب  ہمارے ہاں فلسفہ نہ رہا تو سائنس بھی نہ رہی۔ اور سائنس کا فقدان تکنالوجی کے فقدان کو مستلزم ہوا۔ پھر فلسفہ کے زوال کے ساتھ ہی  قومی قیادت کا زوال بھی یقینی تھا کیونکہ فلسفہ انسان کو  ذہنی و فکری  طور پر بلند کرتا ہےجو کسی جامد عقیدے کے ساتھ ممکن نہیں۔ وہ تو شکر منائیے کہ ہندوستان میں شعر و ادب سلامت رہا جس کی بدولت قوم میں کچھ شعور باقی ہے ورنہ سب غارت ہو جاتا۔
آپ کے سوال کا جواب یہی ہے کہ انگریزی زبان کے تسلط سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں میں فلسفہ کی ایک عظیم روایت ضرور  پائی جاتی تھی جس کو علمائے منقولات نے فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ میں تو بس فکری مقدمات قائم کرتا ہوں، اور دیکھ لیجیے کہ وہ تحقیق سے کس قدر صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ 
[1] مولانا عبداللہ تلبنی۔۔۔ و شیخ عزیزاللہ تلبنی رخت رحلت بدارالخلافہ دہلی کشیدند و علم معقول را دریں دیار مروج ساختند‘‘ (ماثرالکرام، صفحہ ۱۹۱) یہ دونوں بزرک سلطان سکندر لودی (۸۹۴۔۹۲۴ ہجری) کے زمانہ میں تھے۔)
[2] ’’تصانیف علمائے متاخرین  ولایت مثل محقق دوانی و میر صدرالدین و میر غیاث الدین منصور و میرزا جان میر (امیر فتح اللہ شیرازی) ہندوستان آورد و در حلقہ درس انداخت۔۔۔ و ازاں عہد معقولات را رواجے دیگر پیدا شد‘‘ (ایضاً، صفحہ ۲۳۸) امیر فتح اللہ شیرازی دکن سے شمالی ہندوستان میں ۹۹۰ ہجری میں تشریف لائے تھے۔ 

اتوار، 12 مئی، 2013

ترجمہ میں تقلیب ، انتقال اور ارتقا کے تصورات

(۱)
کیا ترجمہ ایک زبان  کے اصل متن کے مفہوم کو دوسری زبان میں بدلنے کا نام ہے جس میں معانی آلودہ ہو جاتے ہیں؟ ہدفی زبان میں اصل متن  کی زبان کے عین مساوی لفظ نہیں مل  سکتا کیونکہ ایک زبان کے  حقیقی متبادل الفاظ  دوسری زبان میں اگر ملتے بھی ہیں تو ان کے خواص اور تاثرات سے ہاتھ دھو لینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ناموں کے بھی اپنے صوتی خواص ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک زبان سے دوسری زبان میں داخل ہو کر اپنا تاثر بدل دیتے ہیں۔ انگریزی کا لنڈن اردو میں لندن ہوجاتا ہے اور ان دونوں الفاظ سے ذہن میں دو مختلف تاثر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح کرشن چندر اردو میں کرشن چندَر ہوجاتا ہے اور پریم چندر پریم چند۔ اس لیے ایک زبان کےایسے الفاظ بھی دوسری زبان میں آکر بہ اعتبارِ معنی اگر نہیں بدلتے تو بہ اعتبار تاثر منقلب ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ژاک دریدا اپنے انٹرویو کے مجموعے پوزیشنس میں کہتا ہے:
… for the notion of translation we would have to substitute a notion of transformation: a regulated transformation of one language by another, of one text by another. we will never have, and in fact have never had, to do with some “transport” of pure signifieds from one language to another, or within one and the same language, that the signifying instrument would leave virgin and untouched. .[1]
یہ واضح ہے کہ ژاک دریدا کی نظر میں  ترجمہ  میں تقلیبِ متن  ہی ہو سکتا ہے کیونکہ  ایک زبان کے تصورِ معنی کے دوسری زبان میں، یا ایک ہی زبان سے اسی زبان میں  منتقل ہوتے وقت معنی نمائی کرنے والا آلہ تصورِ معنی کو کورا اور ان چھوا نہیں رہنے دیتا۔ بن وان وائیکےکی نظر میں دریدا ترجمہ  کے  تقلیبی نوعیت ہونے کا حامی اس لیے ہے  کہ اوریجنل متن غیرمستحکم شئے ہے اور اس کی تعبیر مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے ، اور کیونکہ کہ زبانیں  اساسی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بھی  ہیں ، اس لیے ترجمہ معنی کی منتقلی نہ ہو کر ہمیشہ تقلیب کو مستلزم ہوگا۔ اصل الفاظ درج ذیل ہیں: 
Whereas the most translation discourse has historically been dominated by the idea that translation should transport the meaning of the original to another language, according to Derrida because an original is an unstable object that can be interpreted in various ways, and because languages are fundamentally different from one another, translation can never be a ‘transferral’ of meaing but will always entail its ‘transformation’ . [2]
اس میں شک نہیں کہ انتقالِ معنی  کے عمل میں معانی  وہی نہیں رہتے جو پہلے تھے، خواہ وہ ایک زبان کے کسی متن کی اسی زبان میں ترجمانی ہو، یا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ہو۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس معنی کو ہم نے ترجمہ میں منتقل کیا وہ واقعی غیر آلودہ تھا؟  جب دریدا یہ کہتا ہے کہ  ایک ہی زبان میں ترجمہ یا ترجمانی کا عمل بھی خالص نہیں ہوتا اور معنی نما ئی کا آلہ اس کو Virgin یا Untouched نہیں رہنے دیتا تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اصل متن خود Virgin  یا Untouched نہیں ہے کیونکہ ترجمانی کا زبان میں ہر کہیں عمل دخل پایا ہی جاتاہے۔ کیا ہم ترجمہ کو Transferral of meaning سے زیادہ Transformation  کا عمل صرف اس لیے مان لیں کہ معنی نمائی کا آلہ معنی کو آلودہ کر دیتا ہے؟ یا اس کا کوئی اور معقول سبب تلاش کیا جا سکتا ہے؟  ژاک دریدا کے نتائج اگرچہ بالکل صحیح ہیں لیکن  چونکہ اس کا یہ نتیجہ فرانس کے ایک  خاص عہد کی  پیدا وار ہے اور اس کے ردّ تشکیلی طریقِ کار اور رجحان  کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اس لیے ہر ایک  سیاق میں اس نتیجے کو من و عن  اور لفظ بہ لفظ قبول نہیں کیا جاسکتا۔

(۲)
ترجمہ اگر اصل متن  کے مفہوم کی منتقلی ہے تو اصل متن خود اپنے مفہوم کی منتقلی جو اصل مصنف کے ذہن میں پہلے سے نقش ہوتا ہے، لسانی مفہوم کی منتقلی کے اس زاویے سے دیکھا جائے تو اصل متن خود اپنے اس مفہوم کا ترجمہ  ہے جو اس کے تجربات و خیالات پر مبنی ہوتا ہے۔ اصل  متن تو دراصل محض ایک واسطہ اور وسیلہ ہے اس کے مفہوم تک پہنچنے اور اس کو ہدفی متن میں کسی نہ کسی طرح درآمد کرلینے کا۔پس ترجمہ کا تصور اگر مفہوم کی منتقلی سے عبارت ہےتو اصل متن محض ایک آلہ کار ہے نہ کہ مقصود بالذات۔ اگر اصل متن  ہی مترجم کا مقصود ہوتا تو وہ ہدفی  زبان  میں اصل متن کو ہی منتقل  کرتا، نہ کہ اس کے مفہوم اور تاثر وغیرہ کو۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اصل متن کوہدفی زبان میں  منتقل کرنا ترجمہ یا ٹرانسلیشن نہیں بلکہ  ٹرانسلٹریشن یا نقلِ حرفی ہے۔ اس   دلیل سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہو سکتا کہ  مترجم کی غرض  و غایت بجائے خود اصل متن  کی تقلیب نہیں بلکہ اصل متن کے معنی کی  ہدفی متن میں تقلیب ہے۔ ایک مترجم اصل متن کے الفاظ کے ذریعے ان کے رائج معنی تک پہنچتا ہے  اور پھر وہاں سے ہدفی زبان میں اس معنی  کی طرف نشاندہی کرنے والےرائج الفاظ کی مدد سے ترجمہ کرتا ہے۔اور مصنف و متکلم بھی بعینہِ یہی عمل  انجام دیتا ہے یعنی  مترجم کی طرح ہی اصل کے مفہوم کی منتقلی۔ لیکن ہم اس نتیجے پر تبھی پہنچ سکتے ہیں جب ہم اِس  معروف  مگر محتاجِ ثبوت نقطۂ نظر کو  کسی حد تک تسلیم کر لیں کہ زبان  سوائے اظہار کے وسیلے کے اور کچھ نہیں۔ لیکن چونکہ دریدا کے  تحقیقی موقف  کے  مطابق  معنی نمائی کا آلہ (Signifying Instrument)  اصل مفہوم کو کورا اور ان چھوا Virgin  یا ٗ Untouched نہیں رہنے دیتا  اور اس نقطۂ نظر کو اپنانے کے بعد  کہہ سکتے ہیں کہ اصل معنی اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ منتقل نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں نئے معانی کی آمیزش عملاً  ہو جاتی ہے، خواہ یہ ہم کو محسوس ہو یا نہ ہو۔ اور میرے سامنے  مسئلہ یہ ہے کہ نئے معنی کی آمیزش کیا اصولاً غلط ہے؟ کیا اصل متن کے معنی میں نئے معانی کا داخل ہونا فی نفسہ غیر مطلوب  اور مضر ت رساں ہے، یا نفع بخش ہے؟  اگر ہم اس کو مضرت رساں کہیں تو پھر اس فطری مشاہدے کی تکذیب ہوتی ہے جس کا علم ہم کو ژاک دریدا کے موقف میں پنہاں بصیرت سے ہوتا ہے۔ اس  مسئلے کے  حل کے لیے ہم زبان کے سلسلے میں زبان  کے سلسلے میں کلیم الدین احمد کے نقطہ ٔ نظر سے رجوع کرتے ہیں تو مسئلہ  کسی قدر  حل ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کے بقول ’’ زبان کوئی اچھوتی، حسین دیوی نہیں جس کی پوجا کی جائے۔ یہ تو صرف ایک ذریعہ ، ایک آلہ ہےجس سے جذبات و خیالات کی ترجمانی ممکن ہے۔ جذبات و خیالات سے الگ اس کی کوئی خاص وقعت اور اہمیت نہیں۔‘‘ [3] ڈاکٹر قمر رئیس نے بھی ترجمہ کا فن اور روایت میں  اس خیال کو ’’صحیح‘‘ کہہ کر پیش کیا ہے کہ ’’زبان اور الفاظ اساسی طور پر خیال کے ابلاغ کا ذریعہ ہیں ‘‘۔ [4]
کلیم الدین احمد اور قمر رئیس دونوں کے زبان سے  متعلق مذکورہ  خیالات   سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  زبان  اساسی طور پر معنی کے  اظہاریا ابلاغ کا ذریعہ یا  آلہ  ہے۔ اس کے ساتھ ہی کلیم الدین احمد کے درجِ ذیل قول سے لسانی تجربات اور ماورائے لسان تجربات کے درمیان فرق کیا جا سکتا ہے:
‘‘الفاظ اور تجربات میں جو ناگزیر تعلق ہے اس سے لوگ عموماً واقف نہیں ہیں۔ ہمارے جو تجربے ہوتے رہتے ہیں، جن خیالات کی لہریں ہمارے دماغ میں اٹھتی رہتی ہیں، جو اثرات ہماری قوتِ حاسہ قبول کرتی رہتی ہے، ان سب چیزوں کو ہم اپنے حافظہ میں الفاظ کی مدد سے محفوظ رکھتے ہیں، اور فطری طور پرہم انہیں لفظوں کا غیر شعوری استعمال کرتے ہیں جنہیں ہم اپنی بول چال میں کام میں لاتے ہیں، جب ہم کسی خاص جذبہ سے مجبور ہو کر اپنے تجربوں کو شعری سانچہ میں ڈھالنے لگتے ہیں تو ہمارے تجربے ، ہمارے خیالات ، ہمارے احساسات انہیں الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آتے ہیں۔’’[5]
یعنی اپنے  تجربات و خیالات اور قوت حاسہ پر مرتسم ہونے والے اثرات  کو ہم ایک دوسری قسم کی چیز الفاظ یا زبان کے ذریعے اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتے ہیں۔ اور لسانی اظہار ، خواہ وہ شاعرانہ ہو یا غیر شاعرانہ ، انہیں الفاظ کا جامہ پہن کر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح انسان کے دو تجربات ہوئے، ایک وہ جو ماورائے لسان ہیں، اور دوسرے  وہ جو مبنی بر لسان ہیں۔ ہمارے ماورائے لسان تجربات خود ہمارے ہوتے ہیں، دوسروں سے مستعار نہیں۔ لسانی اظہار میں ہمارے الفاظ اور جملوں کی نشست و برخاست دوسروں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اورایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے  جذبات و احساسات یا ماورائے لسان تجربات دوسروں سے  مختلف ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا  کہ زبان  فرد کے دنیا میں آنے سے پہلے  معاشرہ میں موجود ہوتی ہے، اوراگر زبان  میں منفرد انسانی تجربوں کے اعتبار سے منقلب ہونے کی صلاحیت نہیں ہوتی تو انسان مجبور ہوتا کہ وہ  بالکل مشین  یا طوطے کی طرح  اپنے ذہن میں موجود معنی کو منتقل کرتا رہے۔ اس صورت میں زبان  خیالات کو منتقل کرنے والی ایک غیر متغیر اور صاف و شفاف شئے ہو جاتی  لیکن یہ ایک ناممکن بات ہے۔کلیم الدین احمد کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے  تحت الشعور سے ابھرنے والےمبینہ طور پر غیر فصیح  الفاظ کو فصیح و پاکیزہ الفاظ سے بدل دیں ‘‘تو شاید فصاحت تو ہاتھ آجائے لیکن اثر زائل ہوجائے گا۔‘‘ [6] اسی  سے متصل پیراگراف میں آگے لکھتے ہیں:
’’ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی شاعر میں اصلیت ہے، اگر اس کی خاصی شخصیت ہے، اگر اس کے تجربے کسی خاص رنگ میں رنگے ہوئے ہیں تو وہ اپنی زبان آپ بنا سکتا ہے،شاعر زبان کا بندہ نہیں، زبان اس کی محکوم ہے۔ اگر اس میں ایجاد کا مادہ ہے تو وہ اپنے نایاب تجربوں کے لیے زبان کے نئے نئے سانچے بنا سکتا ہے ‘‘[7]
کلیم الدین احمد زبان کو حاکم نہیں بلکہ محکوم کی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور تجربے کی لطافت کودھلی دھلائی زبان پر قربان نہیں کرنا چاہتے۔ اوپر نقل شدہ الفاظ کو اپنے الفاظ میں کہوں تو شاعر اپنے تجربات  کے لحاظ سے زبان کے نت  نئے سانچے بناتا  اور اس طرح زبان کی ‘‘ تقلیب ’’کرتا  رہتا ہے۔ اس عمل میں ظاہر ہے معنی کی ترسیل بھی ہوتی ہی ہے، لیکن اس کی نوعیت نقلِ  محض  یا انتقالِ محض کی نہیں ہوسکتی۔ زبان کوئی ڈھلی ڈھلائی عمارت نہیں بلکہ  یہ ایک سیال نوعیت کی شئے ہے جو تجربوں کے سانچے میں ڈھل جانے کے بعد ایک ڈھلی ڈھلائی عمارت جیسی ایک  تاریخی نوعیت کی چیز ہو جاتی ہے۔ پھر اس  میں کوئی حذف و اضافہ ممکن نہیں ہوتا۔یہ فن پارہ کا اتمام ہے کیونکہ اس  کے بعد بالذات اس میں کوئی ارتقا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے فن پارے کی  موت بھی ہے ، جس کے بعد اس کی وراثت کی تقسیم عمل میں آتی ہے اور حسب استعداد اور بقدرِ ظرف  نئے فن پاروں کا  ظہور ہوتا ہے۔ بقول کلیم الدین احمد  ’’ اگر شاعر میں ایجاد کا مادہ ہے، تو وہ اپنے نایاب تجربوں کے لیے زبان کے نئے نئے سانچے بنا سکتا ہے ، اور یہ سانچے عام قواعدو معیارِ فصاحت کے نہیں خود زائیدہ فصاحت کے پابند ہو سکتے ہیں۔ ‘‘یادگار اور مونومنٹل قسم کے فن پاروں کے بعد ان سے اکتساب ِ معنی کے ذریعے  مصنف اپنے تجربوں کی آنچ سے نئی عمارت کھڑی کرتا ہے۔

(۳)
 موت کا تصور ایک شئے کے ضائع ہو جانے سے نہیں بلکہ تقلیب اور انتقال سے  وابستہ ہے۔درحقیقت دنیا میں کوئی شئے ضائع نہیں ہوتی بلکہ صرف اس کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ایک  صورت  اپنی تکمیل و اتمام کے بعد دوسری  صورت  میں لازماً  بدلتی ہے جو اپنے سے پہلے والی صورت  پر دلالت کرتی ہے ۔ اپنے سے پہلے والی  صورت  پر بعد والی صورت کا دلالت کرنا گویا   ایک معنی کو منتقل کرنا ہے۔ اور پہلے والی صورت کا بعد والی صورت میں بدل جاناایک  تقلیب ہے۔ ہرموت  کے بعد ایک زندگی ہے۔ یعنی ہر انتقال کے ساتھ ایک تقلیب وابستہ ہے۔ مثنوی معنوی میں ہے:
از جمادی مُردم و نامی شدم                                میں جمادیت سے مرا اور نباتی بن گیا
وز نَما مُردم بحیواں سرزدم            اور نباتیت سے مرا ، حیوان بن گیا
مُردم از حیوانی و آدم شُدم             میں حیوانیت سے مرا اور آدمی بن گیا
پس چہ ترسم کے زمُردم کم شُدم      تو میں کیا ڈروں، میں مرنے سے کب گھٹا؟
حملہ ٔ دیگر بمیرم ازبَشر             دوسری مرتبہ میں بشریت سے فنا ہوجاؤں گا

تابرآرم از ملائک بال و پر            تاکہ فرشتوں میں ہو کر، بال و پر نکالوں[8]
حکمت ان اشعار میں یہ ہے کہ مرنے سے کچھ کم نہیں ہوتا، بڑھ البتہ ضرور جاتا ہے۔انسان کے جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات، اور حیوانات سے انسان کی شکل میں ارتقا کے ہر مرحلے پر  ایک صورت مر جاتی ہے اوراس کی جگہ دوسری صورت نمودار ہو تی ہے۔گویا پچھلی صورت کی ایک زیادہ بہتر شکل میں تقلیب  ہوتی ہے۔ مثنوی میں ایک اور مقام پر اسی بات کو یوں کہا گیا ہے:
آمدہ اول بہ اقلیم جماد                             پہلے وہ (روح) جماد کی اقلیم میں آئی
وزجمادی در نباتی اوفتاد         ۱ور جمادی (اقلیم) سے نباتی (اقلیم )میں آئی
سالہا اندر نباتی عمر کرد         سالوں نباتی (اقلیم) میں عمر بسر کی
وز جمادی یاد ناورد از نبَر د     ۱ور سرکشی کی وجہ سے اپنی جمادی (زندگی) کو بھلا دیا
وز نباتی چوں بحیوانی فتاد       اور نباتی (اقلیم ) جب حیوانی (اقلیم) میں آئی

نامدش حال نباتی ہیچ یاد          اس کو حیوانی (اقلیم) کا حال کبھی یاد نہ آیا[9]
خلیفہ عبدالحکیم مولانا جلال  الدین رومی کی   ایسے ارتقائی اشعار کی توضیح میں  لکھتے ہیں:
مولانا ارتقائی ہیں اور فرماتے ہیں کہ پکا ہوا انگور پلٹ کر پھر کچا انگور نہیں بن سکتا، یہ سنتِ فطرت کے خلاف ہے:

ہیچ انگورے دگر غورہ نہ شد

ارتقائے حیات نورِ شعور کی ترقی کا نام ہے۔ یہ شعور جن اجسام سے کام لے کر ان کو غیر ضروری آلات یا کہنہ لباس کی طرح اتار پھینکتا اور اتارتا چلا گیا ہے پھر انہیں اجسام کا اعادہ نہیں ہو سکتا  … … یہ درست ہے کہ جسم ہو یا روح اس کے لیے ہر وقت تجدید جاری ہے۔ روح کے لیے فنائے مطلق کی کوئی حقیقت نہیں، اس کے لیے فنا کا ہر قدم ترقی کا زینہ ہے:

مُردم از حیوانی و آدم شدم            پس چہ ترسم کے زمردن کم شدم[10]
موت کا تصور ہمیشہ کے لیے  عدم میں چلے جانا نہیں بلکہ وہ  معنی کے انتقال اور صورت کی تقلیب  سے وابستہ ہے۔ اور اس کی غرض و غات یہی ہے کہ  عملِ ارتقا کی صورت میں کاروبارِ ہستی آگے بڑھے۔ ہر صورت کا ایک نئی صورت میں منقلب ہونا دراصل معنی کے انتقال کے لیے ہی ہے۔خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں:
جس طرح ہر صورت کسی معنی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اسی طرح ہر شئے کا وجود اور اس کی طلب کسی مقصد کے ماتحت ہے۔ جس چیز کے متعلق بھی انسان سے پوچھو کہ اس کو کیوں مطلوب ہے تو وہ اس کی کوئی غرض یا مقصد بتائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز فی نفسہ مقصود نہیں ہوتی ۔ تمام مطلوبات اقدار و مقاصد کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مثلاً کسی سے پوچھو کہ بازار میں کیوں جانا چاہتا ہے؟ وہ کہے گا کہ کھانے پینے کے لیے سودا سلف خریدنا ہے۔ پھر پوچھو کہ آٹا روٹی اور گوشت سبزی کی کیا ضرورت ہے؟ وہ جواب دے گا کہ جسمانی زندگی کو قائم رکھنا ہے۔ پھر پوچھو کہ جسمانی زندگی کے بقا کی کیا ضرورت ہے اور اس سے کیا مقصود ہے؟ تو وہ کوئی مقصدِ حیات بتائے گا جو مختلف انسانوں میں مختلف ہوگا۔ اسی طرح ہر فعل کے متعلق چون و چرا ہو سکتاہے، اس لیے کہ انسان کسی فعل کو مقصود بالذات نہیں سمجھتا بلکہ اس کو اس سے خارج اور بالا تر کسی مقصد اور معنی کا ذریعہ یا وسیلہ خیال کرتا ہے: ’’ہمہ چیز ہائے عالم ازمال، زن و جامہ و املاک و اسباب مطلوب لغیرہ است؛ مطلوب لذاتہ نیست۔‘‘ [11]
  صورت میں جو بھی تقلیب دیکھنے میں آتی ہے وہ کسی نہ کسی مقصد کے لیے ہوتی ہے ۔ کوئی بھی صورت مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ اس سے کسی معنی کی ترسیل وابستہ ہوتی ہے۔اور جیسے ہی معنی کی ترسیل ہوتی ہے، ایک نیا قالب وجود میں  آجا تا ہے۔ ایک قالب فنا ہوکر اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوئی دوسرا قالب پیدا کرتا ہے ۔ اور تقلیب و انتقال کے اس سلسلے کی  نوعیت ارتقائی ہوتی ہے۔

ارتقا کا جو قانون حیات و کائنات میں جاری دکھائی دیتا ہے وہی انسان کی  زبان میں بھی جاری ہے۔  لفظ کی ایک صورت مرتی ہے تو اسی سے دوسری پیدا ہو ہے، تقلیب کے اس عمل میں معنی کا انتقال بھی  لازم ہے ۔اورہر انتقال کے ساتھ ارتقا کا  ایک خفیف سا  جز شامل رہتا ہے۔ چنانچہ  یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر زبان کا ارتقا اپنے سے پہلے والی ایک یا چند  زبانوں کے مر جانے کے بعد ہی ممکن ہو سکا۔ یہ نہیں ہوا کہ ایک زبان یکایک خلا سے وجود میں آ گئی ۔ بلکہ جیسے جیسے ایک زبان کے افراد کے تجربات و مشاہدات بڑھتے چلے گئے اور اس طرح ان کے علم میں اضافہ ہوتا چلا گیا ویسے ویسے ان زبانوں کی ترقی ہوئی۔ زبان کے پرانے الفاظ،  اسالیب  اور  اصناف وغیرہ  ختم ہوئے  اور ان کی جگہ نئے  وجود میں آئے، جو اپنے اصل کی تغلیط نہیں بلکہ اس پر اضافہ تھے ۔ اسی طرح زبان کی موجودہ مادی  شکل و صورت  کو بھی انسان کے روز افزوں تجربات و مشاہدات کے اعتبار سے ڈھلتے  چلے جانا ہے۔ لسانی اظہار  کا موجودہ معیارِ فصاحت بھی انسان کے تجربوں کی آنچ سے پگھل کر نت نئے اسالیب کو پیدا کرے گا۔ لیکن ایسا آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار  اور غیر شعوری طور پر ہی ممکن ہوگا۔ یک بہ یک ایک مرحلہ سے کسی دوسرے مرحلے میں پہنچ جانا ارتقا ئی مصالح کے خلاف ہے۔
جو قاعدہ زبان کے سلسلے میں ہے صحیح ہے وہی ترجمہ کے سلسلے میں بھی صحیح ہے۔ کوئی بھی اصل متن دراصل  مرتا نہیں بلکہ دنیا میں حسبِ استعدادا ور بقدرِ ظرف اس کی  تکمیل ہوتی ہے  جس کے بعد اس کی تفسیر اور ترجمانی اور اس کی بنیادوں پر تعمیر نو   کا کام ہی رہ جاتا ہے تاکہ اصل صورت یا پہلے والی صورت میں  جو معانی پوشیدہ تھے  وہ تفسیر اور ترجمانی کی  بعد والی  منقلب صورت میں منتقل ہو سکیں۔
اس لیے لسانی یا ترجماتی اظہارکے عمل میں اگر معنی کی منتقلی میں   معانی  کورے کنوارے، اور ان چھوئے نہیں رہتے، اور اس میں کسی قدر نئے معانی داخل ہو جاتے ہیں تو اس سے متوحش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تقاضائے فطرت اور حکمتِ ارتقا  کے  عین مطابق ہے۔ دوشیزگی ہمیشہ برقرار رہے یہ  خود فطرت کو مطلوب نہیں ہے۔ البتہ معنی پر جبر اور معنی کی رضا حاصل کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک  معنی کس قدر تصرف کی  اجازت دیتا ہے یہ معنی کے سیاق و سباق ہی سے طے ہو سکتا ہے۔
مصادر
Ben, Van Vyke. "Translation and Ethics." Edited by Francesca Bartrina Carmen Millán. Routledge Handbook of Translation Studies, 2013.
Derrida, Jaques. Positions. Chicago: University of Chicago Press, 1982.
Habermas. "A review of Gadamer’s Truth and Method." In Hermeneutics and modern philosophy, edited by Brice R Wachterhauser, 246-247. State University of New York Press, 1986.
Levy, Lital. "Exchanging words: Thematization of Translation in Arabic writing from Israel." Comparative Studies of South Asia, Africa and the Middle East 23(1-2), 2003.
Octavio, Paz. "Translation: Literature and Letters." In Theories of Translation: An Anthology of Essays from Dryden to Derrida, edited by Rainer Schulte and Biguenet John. Chicago: University of Chicago Press, 1992.
Schulte, Rainer, and John Biguenet, . Theories of Translation: An Anthology of Essays from Dryden to Derrida. Chicago: University of Chicago Press, 1992.
Yuen, Wong Kin. "Hermeneutics and Translation ." In An Encyclopaedia of Translation, edited by Chan Sin-wai and David E Pollard. The Chinese Unhersity or Hong Kong, 1995, 2001 .
احمد, کلیم الدین. اردو شاعری پر ایک نظر. پٹنہ: بک امپوریم, 2011.
رئیس, قمر. ترجمہ کا فن اور روایت. علی گڑھ: ایجوکشنل بک ہاوس, 2004.
سہیل, احمد. ساختیات: تاریخ، نظریہ اور تنقید. دہلی: تخلیق کار پبلیکیشنز, 1999.
ظہورالدین. فن ترجمہ نگاری. نئی دہلی: سیمانت پرکاشن.
عبدالحکیم, خلیفہ. حکمتِ رومی. دہلی: اریب پبلیکیشنز, ۲۰۱۰.
نارنگ, گوپی چند. ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات. دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان, 2004.





[1]  Jaques Derrida: Positions, The University of Chicago Press, London, 1982, Page No 20
[2] Ben Van Vyke, Translation and Ethics, The Routledge Handbook of Translation Studies (edited by Carmen Millán, Francesca Bartrina), Routledge London , Page No  551
[3] احمد کلیم الدین۔  اردو شاعری پر ایک نظر ، جلد اول، بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ ، 2011 ، صفحہ 348
[4] قمر رئیس۔ ترجمہ کا فن اور روایت، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، دوسرا اڈیشن 2004، صفحہ نمبر19
[5] احمد، کلیم الدین۔ اردو شاعری پر ایک نظر، جلد اول، بک امپوریم، سبزی باغ پٹنہ، پٹنہ، 2011 صفحہ 348
[6] حوالہ سابق، صفحہ 349
[7] حوالہ سابق، صفحہ 349
[8]  مثنوی مولانا روم،(دفتر سوم) اصل متن   اور مع ترجمہ و مختصر حواشی از مولانا قاضی سجاد حسین صاحب، ناشر حامد اینڈ کمپنی، لاہور، صفحہ 372
[9] رومی، جلال الدین۔ مثنویِ مولوی معنوی ،(دفتر چہارم) اصل متن   اور مع ترجمہ و مختصر حواشی از مولانا قاضی سجاد حسین صاحب، ناشر حامد اینڈ کمپنی، لاہور، صفحہ 344
[10] عبد الحکیم ، خلیفہ۔ حکمت رومی، اریب پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2010 ، صفحہ 177-178 
[11] حوالہ سابق، صفحہ 202

ہفتہ، 11 مئی، 2013

معاصر اسلامی نظریہ کے بعض اہم مسائل

اس میں کوئی شک نہیں کہ روایتی اصولِ شریعت کی رو سے ذی روح کی تصویر کشی مطلقاً حرام ہے اور مستثنیات کو چھوڑ کر تمام روایتی علما و فقہا عہد رسالت سے آج تک اس کی حرمت کے قائل رہے ہیں۔ مولانا مودودی بھی ذی روح کی تصویرکشی  اور مجسمہ سازی کی حرمت کے قائل ہیں اور ان کے مطابق جو لوگ ان چیزوں کوحلال سمجھتے ہیں وہ ’’مقلدین مغرب‘‘ ہیں۔ مولانا کے بقول ’’اسلامی شریعت حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کر سکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ حد بندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بے جان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے  جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اس سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے میں نے فیس بک پر ایک بحث شروع کی تھی اور درج ذیل اسٹیٹس دیا تھا:
مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ انسانی اور حیوانی تصویر کو جو لوگ حلال سمجھتے ہیں وہ ’’مقلدین مغرب‘‘ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘‘نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر ا لمعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔‘‘
اس لیے فیس بک کے وہ تمام اسلام پسند حضرات اپنی تصویریں ہٹا لیں ورنہ وہ ’’مقلدین مغرب‘‘ کی تعریف میں آ جائیں گے۔ اور جو شخص مقلدین مغرب میں سے ہو اس کا تعلق دراصل مغرب سے ہے۔ ایسا شخص تصاویر، فوٹو اور ویڈیو شیئر کر کے مسلمانوں کو جہنم کی طرف لے جا رہا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی میں نے تفہیم القرآن کی ویب سائٹ سے مولانا کی اس تحریر کا لنک بھی پیش کر دیا تھا جس میں انہوں نے تصویر کشی و مجسمہ سازی کو حلال سمجھنے والوں کو ’’مقلدین مغرب‘‘ قرار دیا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے میرے اسٹیٹس کے نیچے درجِ ذیل تبصرہ کیا:۔
کسی بھی عالم کا اجتہاد غلط ہو سکتا ہے۔ کسی کے ایک نظریہ کو قبول کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ہر بات آنکھ بند کر کے مان لی جائے اور دیگر علماء نے جو اس سے قوی تر دلیلیں اپنے اجتہاد کے حق میں دیں ہیں ان سے منہ پھیر لیا جائے۔ اسلام پسند طبقہ کو آپ جتنا کوتاہ نظر سمجھتے ہیں وہ اتنا ہے نہیں۔ آپ اپنے علاوہ دوسروں کو خواہ مخواہ تنگ نظر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ آپ کو تنگ-نظر نظر آتے ہیں۔ مولانا مودودی موسیقی کے بھی خلاف تھے، لیکن اسلام پسند طبقہ نے ان کی دلیل کو مسترد کر دیا اور دیگر علماء کے اجتہاد کو قبول کرلیا جنہوں نے موسیقی کو جائز سمجھا۔ چنانچہ 'اسلام پسند طبقہ' کے ترانوں اور نغموں میں آپ کو جا بجا موسیقی ملے گی۔
چونکہ اب ان کے ساتھ اس بحث کو تازہ کرنا میرا مقصد نہیں ہے اس لیے ان کا نام حذف کر دیا ہے۔ فیس بک پر بھی میں نے ان کے اس تبصرے کا براہ راست جواب نہ دے کر اپنے درجِ ذیل تبصرے کے ذریعے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ علمائے ظواہر کی روایتی شریعت کی رو سے ذی روح کی تصویر اصلاً و دائماً حرام ہے: 
ڈیجیٹل کیمرے کی تصویرکی حرمت پر مفصل و مدلل فتویٰ‘‘ نامی کتاب میں اس کے مولف شیخ الحدیث مولانا مفتی سید نجم الحسن امروہوی نے ثابت کیا ہے کہ ہر قسم کی تصویر خواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرے سے ’’اصلاً‘‘حرام ہی ہے ۔اس کتاب میں مولف کے حق میں دارالعلوم دیوبند اور ندوہ سمیت ہندوستان و پاکستان کے سولہ اہم روایتی دینی اداروں کے دارالافتا اور مفتیان کرام کے تصدیق نامے (ان کے اصل خطوط کی اسکین شدہ نقول) بھی موجود ہیں
دارالعلوم دیوبند کا اوریجنل فتویٰ کی اسکین شدہ نقل اس کتاب میں موجود ہے۔ کوئی بھی اس کو پڑھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ گزشتہ چودہ سو سالوں سے علمائے امت نے بالاتفاق ہر قسم کی تصویر کو حرام ہی سمجھا اور کہا ہے:

’’دارالافتا دارالعلوم دیوبند (الہند) کا فتویٰ
بسم اللہ الرحمان الرحیم
مخدوم و مکرم گرامی مرتبت حضرت مہتمم صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے فتاوے ارسال کر کے دارالعلوم کا موقف معلوم کیا ہے اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت اسکرین پر جو مناظر یعنی تصویر وغیرہ آتی ہے وہ سب شرعاً تصویر کے حکم میں ہیں۔ یہ سنیما کی تصویروں کے مثل ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ سنیما سے ریز سامنے سے ڈالی جاتی ہیں اور ٹی وی میں پیچھے سے، جو مفاسد سنیما کی تصویروں سے پیدا ہوتے ہیں وہی سارے مفاسد ٹی وی کی تصویروں سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ان تصاویر کا دیکھنا شرعاً ناجائز قرار دیا جائے گا۔ دارالعلوم دیوبند کے ارباب افتا کا فتویٰ اور موقف یہی ہے البتہ شرعی ضرورت اور اضطرار کی حالت کے احکام اور ہوں گے۔ فقط والسلام علیم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حبیب الرحمٰن عفا اللہ عنہ
مفتی دارالعلوم دیوبند
۲۸/۴/۱۴۳۰ ہجری
صحیح محمود حسن غفرلہ بلند شہری
الجواب صحیح فخرالاسلام عفی عنہ
الجواب صحیح وقار علی غفر لہ
زین الاسلام قاسمی نائب مفتی دارالعلوم دیوبند‘‘

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ علمائے ظواہر نے تصویر کشی و مجسمہ سازی کو ہر دور میں حرام قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایک مسلمان سائنسداں ابن الہیثم نے ہی سب سے پہلے کیمرہ ایجاد کیا تھا۔ اگر مسلمان علما اور عوام وقت کے ساتھ شریعت میں تبدیلی کے قائل ہوتے تو ابن الہیثم جیسے سائنسدانوں کے علم سے فائدہ اٹھانے والا ان کے سوا کوئی دوسرا نہ ہوتا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ ابن الہیثم کے کیمرے کو ترقی دے کر جدید کیمرہ بنا لیتے اور آج میڈیا پر انہیں کا غلبہ ہوتا۔ لیکن بجائے اس کے کہ علمائے ظواہر ابن الہیثم کے سائنسی علم سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے اس کی کتابوں کو کفر و الحاد کا پلندہ قرار دے کر جلا دیا۔
(Edited Content)
دارالعلوم دیوبند کا مذکورہ بالا فتوی درجِ ذیل لنک پر موجود کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے (آپ یہاں سے وہ کتاب ڈاونلوڈ بھی کر سکتے ہیں):۔
  میرے اس تبصرے کا ایک دوسرے صاحب نے درجِ ذیل جواب دیا:۔
مسئلہ شریعت میں تبدیلی کا نہیں بلکہ فقہ اسلامی کی تجدید کا ہے .فقہ اسلامی شریعت کو سمجھنے کی انسانی کاوشوں کا نام ہے۔ خدا کی اتاری ہوئی شریعت اور انسانوں کے فہم دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔
میں نے اس تبصرے کے جواب میں لکھا:۔
ایک حکم جو حدیث میں منقول ہو اس حکم کے مساوی ہے جو قرآن میں منقول ہے۔ پھر ایک میں تغیر کو اقتضائے زمانہ کے سبب جائز کر لینے (مثلاً تصویر) اور دوسرے (مثلاً عورتوں کو مارنے کے اختیار) میں اقتضائے زمانہ کے سبب کسی تغیر کو قبول نہ کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ اللہ کے رسول سے ثابت شدہ حکم خود اللہ کا حکم ہے۔ قرآن میں بھی اللہ کے رسول ﷺ کی تشریعی حیثیت پر زور دیا گیا ہے۔ جب رسول نے بحیثیتِ شارع تصویر کو حرام قرار دے دیا پھر قدیم فقہی اصولوں کی رو سے اس کو تاقیامت حرام ہی سمجھا جائے گا۔ انسان اپنی محدود عقل کے ساتھ الٰہی شریعت کے مصالح کونہیں سمجھ سکتا۔ ہو سکتا ہے ایک چیز اس کو اچھی معلوم ہو اور وہ اس کے لیے مضر ہو، اور ہو سکتا ہے ایک چیز اس کو بری معلوم ہو ، وہ اس کے لیے اچھی ہو۔ مسئلہ ٔ تصویر میں بھی یہی بات ہے۔ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار تصویر کو حرام فرما دیا تو اب اسے تاقیامت حرام ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اللہ کے ساتھ ساتھ رسول کی حرام کی ہوئی چیزیں بھی ابدیت کا حکم رکھتی ہیں اور قرآن کے ساتھ ساتھ سنت بھی تاقیامت ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اس حقیقت کبریٰ کو نظر انداز کر کے اگر رسول کے کسی حکم کو سیاقی نوعیت کا قرار دیا جا سکتا ہے تو یہی اصول اللہ کے حکم کے سلسلے میں بھی نافذ کرنا ہوگا کیونکہ قرآن ہو یا سنت، کسی ایک کے احکام کو ابدی اور دوسرے کو عارضی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حرمتِ تصویر و مجسمہ تو صرف ایک مسئلہ ہے۔ حرمت رقص و موسیقی دوسرا مسئلہ ہے، قتل مرتد تیسرا مسئلہ ہے، رجم چوتھا مسئلہ ہے، داڑھی کی فرضیت پانچواں مسئلہ ہے۔ اور ان کے علاوہ بھی متعدد ناقابلِ حل مسائل ہیں۔سنت ان تمام مسائل میں اگر عارضی یا سیاقی نوعیت کے احکام دیتی ہے تو قرآن کے سلسلے میں بھی یہی اصول اختیار کرنے میں کیا فکری غلطی ہے؟ اگر قتلِ مرتد کوئی سیاقی نوعیت کا حکم تھا تو قطعِ ید بھی ایک سیاقی نوعیت کا حکم ہے۔ اگر تصویر کا حرام ہونا کوئی سیاقی نوعیت کا حکم تھا تو ‘‘مرد کا عورت کو مارنے کا اختیار’’ بھی ایک سیاقی نوعیت کی رخصت تھی۔ عقل سلیم یہ کہتی ہے کہ اصولاً تبدیلی اگر ہونی چاہیے تو دونوں میں ہونی چاہیے، ورنہ کسی میں نہیں۔ یہی سبب ہے کہ علمائے اہل سنت و الجماعت متفق علیہ طور پر ابھی تک تصویر کو حرام قرار دے رہے ہیں کیونکہ اگر ایک مرتبہ انہوں نے حالات کے زیر اثر سنت سے ثابت شدہ احکام کو منسوخ کیا تو پھر قرآن سے ثابت شدہ احکام میں بھی حالات کے ہی زیر اثر تغیر و تبدل کی پوری گنجائش نکل آئے گی۔ مولانا مودودی بھی اس نکتے کو خوب اچھی طرح سمجھتے رہے ہوں گے۔ وہ نادان نہیں تھے کہ فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی جیسے سائنسی معجزے کو نظرانداز کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے منع کر دیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ حکم خواہ وہ اللہ کا ہو یا محمد ﷺ کا، وہ دائمی اور ناقابل تغیر ہے۔ اگر ایک میں ’’دوام‘‘ اس اصول کو توڑا جائے گا تو دوسرے میں بھی ایسا ہی کرنے کا دروازہ کھل کر رہے گا۔

یہی وہ مصلحت ہے جس کے سبب دنیا کے تمام علمائے اہل سنت و الجماعت (چند ایک کو چھوڑ کر) اضطرار کی ایک دائمی حالت میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔ علمائے اہل سنت و الجماعت کے اسلام کو میں اضطراری اسلام کہتا ہوں جس سے نکلنا ان کے لیے تبھی ممکن ہے جب وہ دین و شریعت کے موجودہ منقولاتی تصور کے بجائے اس معقولاتی تصور کو اختیار کر لیں جس کو ائمہ اور فقہا نے نہیں بلکہ ابن سینا و ابن رشد جیسے فلاسفہ اور جلال الدین رومی جیسے صوفیا نے پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ شریعت میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو شریعت تھی وہ آج مسلمانوں میں رائج نہیں ہے۔  میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد دوسرے صاحب نے دین و شریعت کے اپنے منقولاتی تصور کی مدافعت میں یہ متجددانہ تاویل پیش فرمائی:
اس میں شک نہیں کہ اللہ کے رسول کا ہر دینی حکم قرآن کے حکم کے مساوی ہے مثلأ نماز کی ہیئت و رکعات، زکوِۃ کی مقدار، مناسک حج کی تفصیل وغیرہ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ مذکورہ بالا امور کا تعلق در حقیقت سنت سے ہے جو امت کے عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح قرآن امت کے قولی تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ ان دونوں میں ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں قطعی الثبوت ہیں۔ البتہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ احادیث کا ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے جو ظنی الثبوت ہیں۔ اس میں سے کسی چیز کو اسی وقت قبول کیا جائے گاجب وہ قرآن، سنت، عقل وفطرت اور دیگر احادیث سے نہ ٹکراتی ہو۔

قرآن ایک منظم کلام ہے۔ اس کے الفاظ من جانب اللہ ہیں۔ لیکن حدیث کا بیشتر حصہ بالمعنی روایت ہوا ہے۔ اس کے نقل ہونے میں غلطی کا امکان ہے۔ راویوں کا فہم بھی اسے کچھ سے کچھ بنادے سکتا ہے۔ مزید یہ کہ حدیث میں پوری بات، سیاق و سباق کے ساتھ نقل نہیں ہوتی۔ حدیث کا فہم ایک مشکل کام ہے۔ مثلاْ ایک حدیث میں ہے کہ " جو اپنا مذہب تبدیل کرے اسے قتل کردو"۔ کیا اس حدیث سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کوئی غیرمسلم اگر اپنا مذہب تبدیل کرلے اور اسلام لے آئے تو اسے قتل کردو۔ ہرگز نہیں۔ میں تصویر کے بارے میں احادیث کا انکار نہیں کرتا۔ میرا کنسرن صرف یہ ہے کہ ان احادیث کو ان کے ظاہری مفہوم پر محمول کر نے کے بجائے قرآن کو روشنی میں سمجھا جائے۔
رہی بات صوفیا اور فلاسفہ کے تصور کو قبول کرنے کی تو آپ شوق کے ان تصورات کے قبول کرسکتے ہیں مگر مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ مذہب سے اگر رہنمائی حاصل کرنی ہے تو معقولات اور منقولات یا مشرق و مغرب کی ہر بحث سے اوپر اٹھ کر یہ دیکھئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارا پرودرگار کیا کہتا ہے۔
میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تاکہ دین و شریعت کے منقولاتی تصور کی غلطی واضح ہو سکے۔ میرا وہ تبصرہ درجِ ذیل ہے:۔

1

اہل سنت والجماعت کا متفق علیہ تصورِ شریعت یہ ہے کہ’’ رسول چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قانون سازی کا مجاز ہوتا ہے اس لیے اس کے ذریعے حرام یا حلا ل کی گئی چیزیں یا اس کے ذریعے دیے جانے والے احکام دراصل خدا ہی کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہوتی ہے۔ اور اس اعتبار سے آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث کے متن میں فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن تما م تر متفق علیہ ہے اور احادیث متفق علیہ نہیں ہیں۔لیکن جن احادیث کی صحت پر اتفاق ہو چکا ہے وہ حجت کا درجہ رکھتی ہیں خواہ وہ خبرِ واحد ہوں یا متواتر اور ان سے جو حکم نکالا جائے گا وہ دائمی ہی ہوگا، عارضی نہیں۔ تاویلات میں البتہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے جس سے باہر جانے پر ایک شخص اہل سنت و ولجماعت سے خارج ہو جاتا ہے۔’’ ۔۔۔

روایت میں سہو اگر ایک شخص سے ہو سکتا ہے تو ایک سے زیادہ اشخاص سے کیوں نہیں ہو سکتا؟ کسی حکم منقول کے اثبات کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے نقل کرنے والے افراد کی ایمانی، اخلاقی اور ذہنی و فکری حالت ہمارے نزدیک قابل اعتبار ہے یا نہیں۔ کوئی حکم منقول ہمارے لیے تبھی قابل یقین ہو سکتا ہے جب اس کو بیان کرنے والا ہمارے نزدیک ان تینوں اعتباروں سے درست ہو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بڑی آسانی سے کسی راوی کےایمانی ، اخلاقی یا ذہنی کیفیت کے خلاف کوئی نہ کوئی متن پیش کر کے اس کی روایت کردہ حدیث کی صحت کو مشکوک قرار دے دیتے ہیں۔ اور یہی رویہ کسی حدیث کے ایک سے زیادہ راویوں کے متعلق بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ سبب ہے کہ شیعہ اور سنی کتب احادیث الگ الگ ہیں۔ یہی نہیں جس چیز کو آپ‘‘ تواتر عملی ’’ کہتے ہیں وہ کیا کوئی متفق علیہ چیز ہے؟ عبادات کے متواترالعمل ہونے کے باوجود اس میں صدہا سال سے اختلافی سرپھٹول ہوتارہا ہےیا نہیں؟ عجیب حماقت ہے کہ عمل میں اختلاف کو تو اتحادِ امت کے جذبے سے سرشار لوگ برداشت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن عقیدے میں اختلاف واقع ہوتے ہی وہ پھر اپنی تنگ نظری کا ثبوت دینے لگتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ خود اہل سنت و الجماعت کے مختلف فرقوں کی نمازیں مختلف ہیں۔ اصولاً تو یہی ہونا چاہیے تھا کہ جس طرح عملی عبادات میں اختلاف برداشت کیا جاتا ہے اسی طرح عقائد میں بھی برداشت کیا جاتا ۔ ہر فرقہ عمل اور عبادت میں دوسرے فرقہ سے مختلف ہے۔ اور جس طرح عقائد میں اختلاف کرنے سے الگ فرقہ بن جاتا ہے اسی طرح عبادات میں بھی اختلاف کرنے سے الگ فرقہ بن سکتا ہے، اور ماضی میں ایسا ضرور ہوا ہوگا۔ برداشت کرنا ہے تو عقائد اور عبادات دونوں میں اختلاف برداشت کیجیے ورنہ الگ فرقہ بن کر رہیے۔ اس صورت میں کسی دوسرے فرقہ کی تکفیر کا اختیار آپ کو نہیں مل جاتا۔ ورنہ امام احمد بن حنبل کو معتزلہ نے سرِ دربار جو کوڑے لگوائے تھے اسے غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ معتزلہ ہی اس وقت ‘‘اسلام کیا ہے’’ اس کی تشریح کے مجاز تھے ۔ایک شخص اپنی ذاتی فکر کو مذہب کے حوالے سے پیش کرے یا لامذہبیت کے حوالے سے، کسی دوسرے شخص کو اسے روکنے کا حق نہیں پہنچتا۔

میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں فلاسفہ و صوفیا کے تصور کو قبول کرنے کی بات کی تھی۔ جس کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ‘‘ آپ شوق سے ان کا تصور قبول کیجیے لیکن مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘۔۔گویا آپ کی نظر میں فلاسفہ و صوفیا کے تصورات مذہب کے دائرے سے خارج ہیں۔ آپ ایک اسلام پسند ہیں۔ اور آپ کے ایسے بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ اگر اسلام پسندوں کو اس خطہ ارضی پر کہیں اقتدار نصیب ہوا تو وہ فلاسفہ و صوفیا کا تصورِ دین قبول کرنے والوں کو مذہب (یعنی اسلام) کا نام استعمال کرنے سے روک دیں گے۔ موجودہ سیکولر جمہوری دور میں تو اسلام پسندوں کی فکری جارحیت کا یہ حال ہے کہ وہ صوفیا و فلاسفہ کے تصورات کو مذہب کے دائرے سے خارج سمجھتے ہیں، لیکن جب ان کے خوابوں کی اسلامی ریاست قائم ہوگی تو وہ ضرور بالضرور صوفیا و فلاسفہ کے تصورات کو مذہبی (یا اسلامی) تصورات سے موسوم کرنے پر قانونی پابندی لگا دیں گے ۔ اور جو اس کی خلاف ورزی کرتا نظر آئے گا اس کو مجرم قرار دے کر کوڑے لگوائیں گے۔ اگر اسلام پسندوں کا یہ جارحانہ اصول صحیح تسلیم کیا جائے تو پھر اسی بنا پر اعتزال پسند خلفائے عباسیہ کا اپنے عقیدہ ٔ خلق قرآن کو حق و باطل کا معیار بنا کر علما و صلحا کو قتل کرنا بھی درست قرار پائے گا۔

آپ ایسے اسلام پسندوں کا موجودہ نظریۂ دین و شریعت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اسلام کیا ہےاور کیا نہیں ہے اس کو بھی طے کرنے کی مجاز ہوگی۔ گویا اسلام پسندوں کے نظریے کی رو سے حق وہ ہے جو مقتدر طبقے کے دل و دماغ سے پیدا ہو۔ اگر آپ کے اس اصول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر جب میں اقتدار میں ہوں گا تو ‘‘اسلام کیا ہے’’ اس کی تشریح کا اختیار بھی صرف مجھے ہی ہوگا، آپ کو نہیں۔ پھر اسی اصول کی رو سے میرے اس اسٹیٹس کے نیچے اسلام کی ایک تعریف متعین کرنے کا اختیار صرف مجھے ہی حاصل ہے۔ پس، میں کسی بھی وقت آپ کے غیر اسلامی تبصروں کو کفر و الحاد کا پلندہ قرار دے کر حذف کر سکتا ہوں۔ (یہ اور بات ہے کہ میری نظر میں ہر وہ شخص مسلمان ہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو )۔

قانون کے زور پر اسلام کی ایک محدود تعریف متعین کرنے کی یہی وہ بنیادی خرابی ہے جو صدہا سال سے مسلمانوں کے علمی و فکری زوال کا سبب ہے۔ اس خرابی کو جب تک دور نہ کیا جائے تب تک کسی بھی قسم کی فکری گفتگو بار آور نہیں ہو سکتی، بلکہ ایسی صورت میں سرے سے کوئی فکری بحث منعقد نہیں ہو سکتی۔آخر اس شخص سے کیا بحث ہو سکتی ہے جو مجھے اسلام کا نام استعمال کرنے سے منع کر رہا ہو اور اپنی صحیح العقیدگی کے زعم میں مجھے کافر و ملحد خیال کرتا ہو؟ البتہ وہ مجھے راہِ راست پر لانے کے لیے مناظرہ کر سکتا ہے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی فرقے صدہا سال سے اپنی علمی و فکری صلاحیتیں اسی مناظرانہ کٹ حجتی میں ضائع کرتے رہے ہیں۔

آپ کا یہ کہنا کہ ‘‘رہی بات صوفیا اور فلاسفہ کے تصور کو قبول کرنے کی تو آپ شوق کے ان تصورات کے قبول کرسکتے ہیں مگر مذہب کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟’’ ایک حدرجہ تحکمانہ رائے ہے جس سے تکفیر کی بو آتی ہے اور تفکیر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس پر مزید یہ تبلیغی و دعوتی ردا چڑھانا کہ ‘‘مذہب سے اگر رہنمائی حاصل کرنی ہے تو معقولات اور منقولات یا مشرق و مغرب کی ہر بحث سے اوپر اٹھ کر یہ دیکھئے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارا پرودرگار کیا کہتا ہے’’ یہ دراصل پہلے ہی یہ باور کر لینا ہے کہ ‘‘پروردگار کیا کہتا ہے’’ اس سے صرف آپ باخبر ہیں۔ یہ گویا دورانِ بحث چھلانگ لگا کر ایک بلند تر فکری مقام پر جا بیٹھنا اور وہاں سے نصیحت کرنے لگنا ہے کہ آپ اپنے ‘‘پالنےوالے’’ سے رجوع کیجیے جو آپ نہیں کر رہے! یہ گویا خود کو خدا کا مشکور و ممنون سمجھنا اور مخالف کے کفرانِ نعمت کے مرتکب ہونے کا جھانسادینا ہے۔

2

مذہبی احکام و قوانین میں سے کس کو بہ اعتبار زمانہ برقرار رکھنا ہے اور کس کو نہیں، اس کا فیصلہ ماضی کے علم منقول سے نہیں بلکہ حال کے علمِ معقول سے کیا جائے گا۔ اور علم منقول کا حقیقی استعمال عہدِ رسالت میں ظاہری قوانین میں پوشیدہ مقاصدِ شرع کو معلوم کرنے سلسلے میں کیا جائے گا نہ کہ بذات خود ظاہری قوانین کو مسلط کیا جائے گا۔ شریعت کا ایک باطن ہوتا ہے اور ایک ظاہر۔ پیروی اس کے باطن کی ہوگی نہ کہ ظاہرکی۔ ترتیب یوں ہو گی کہ ظاہر ی احکام کو دیکھ کر اس کے باطنی مقاصد پر قیاس کیا جائے گا اور زمانہ ٔ موجودہ و آئندہ کے لیے نئے احکامِ ظواہر کی تخلیق کی جائے گی۔ اس اعتبار سے ہر دور میں رائج شریعت اپنے باطن میں شریعت اسلامی ہی ہوگی۔ اس بات کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہوگا کہ تکمیل دین کی ہوئی ہے شریعت کی نہیں۔
آخر دلائل نقلیہ سے کیونکر یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ تصویر حرام نہیں ہے جب تک کہ عقل کو حجتِ قطعی جان کر اس سے یہ فتویٰ نہ لیا جائے کہ زمانہ ٔ موجودہ و آئندہ میں نقل کے بظاہر خلاف عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر جب ایک قسم کی نصِ شرعی یعنی حدیث کے بظاہر خلاف عمل کرنے کے لیے آپ تیار ہیں تو پھر دوسری قسم کے نصِ شرعی یعنی قرآن کے بظاہر خلاف عمل کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ حرمت تصویر کے سلسلے میں جب عمل حدیث کے ظاہری الفاظ پر نہ ہو کر اس کے مقصد پر ہوگا تو یہی رویہ قرآن کے ظاہری الفاظ کے ساتھ کیوں نہیں اپنایا جا سکتا؟ تصویر کے سلسلے میں احادیث کے ظاہری الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ مصور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی طرح ایک تخلیق کی کوشش کرتا ہے۔لیکن موجودہ زمانہ میں تصویر کو جائز قرار دے کر ایک حکم منقول کے ظاہری پہلو کا انکار تو آپ ایسے متجددین بھی کرنے پر مجبور ہیں لیکن آپ کے ہاں یہ اصول کا درجہ نہیں رکھتا۔
نقل کی دو قسمیں ہیں، ایک بہ شکل تحریر، دوسری بہ شکل تعمیل (جس کو عملی تواتر کہا جاتا ہے)۔ امتدادِ زمانہ کے مدِ نظر تحریری و تعمیلی دونوں قسموں کی نقول سے ظاہری انحراف تبھی کیا جا سکتا ہے جب عقل اس کا فتویٰ دے دے۔ اس لیے میری نظر میں نقل کے بجائے عقل حجتِ قطعی ہے ۔ فلاسفہ ٔ اسلام کا مذہب بھی یہی ہے کہ نقل کےبجائے عقل حجت ہے۔ رہی بات فقہا کے مذہب کی تو وہاں عقل کے بجائے نقل کو حجت مانا جاتا ہے۔ جب خود مذہب کی دو راہیں عقلی و نقلی معلوم و معروف ہیں تو بالذات ‘‘مذہب ’’ کو بیچ میں نہ لانے کاآپ کا فتویٰ معتبرنہیں ہے ۔
آپ تو مذہب کو‘‘ بیچ میں نہ لانے ’’کی بات کچھ اس طرح کہہ رہے ہیں کہ فلاسفہ و صوفیا مذہبِ اسلام کے دائرے سے خارج ہوں! اگر آپ کی نظر میں اسلامی فلاسفہ کافر ہیں تو ان کو نہ اسلامی فلاسفہ کہنا چاہیے اور ان کےعلمی و سائنسی کارنامے کو اسلام اور مسلمانوں کا کا رنامہ سمجھنا چاہیے۔ کیا آپ قادیانی سائنسداں ڈاکٹر عبدالسلام کے کارنامے کو اسلام یا مسلمان کا کارنامہ قرار دے سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہی اصول فارابی ، ابن سینا اور رازی کے سلسلے میں بھی کیوں نہیں اپناتے؟ لیکن جب آپ ایسے اسلام پسند یہ اصول اپنائیں گے تو ‘‘عالم اسلام میں فلسفہ و سائنس کی ترقی ’’کا دعویٰ یکسر غلط ہو کر رہ جائے گا۔

 3

کسی موقع پر بارگاہ رسالت میں حاضر ایک سے زیادہ راوی بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا عمل اور اس کے سیاق و سباق کو مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتے۔کوئی حدیث خواہ کتنی ہی متواتر ہو ہمیشہ ظنی و قیاسی نوعیت ہی کی ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جو ہم تک پہنچی ہے وہ بالذات کوئی قطعی اور یقینی چیز نہیں ہے خواہ اس کو پہنچانے والا ایک شخص ہو یا ایک سے زائد۔
قرآن کا متن قطعیت رکھتا ہے اور احادیث کے متون ویسی قطعیت نہیں رکھتے۔ اقوال و اعمالِ رسول یا سنت کی ترسیل راویوں کی ذہنی و فکری استعداد پر منحصر کرتی ہے اور ہم تک پہنچتے پہنچے ان کے الفاظ و معانی ظنی و قیاسی نوعیت کے ہو جاتے ہیں کیونکہ روایتِ حدیث میں انسانی ذہن کا عام طور پر خطا کرنا ایک قطعی اور ناگزیر بات ہے۔
روایتِ حدیث میں انسانی ذہن کا خطا کرنا خبر واحد اور متواتر ہی سے نہیں بلکہ تواترِ عملی سے بھی ثابت ہے۔ نماز جیسی متواترالعمل عبادت کا مختلف فیہ ہو جانا ہی اس حقیقت کو کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اور نمازکی ظاہری شکلوں میں اختلاف کی رخصت کسی نصِ صریح سے ثابت نہیں۔ یعنی کوئی نص ایسی نہیں پائی جاتی جو اس معنی میں صریح ہو کہ نمازوں کی موجودہ تمام شکلیں جائز ہیں۔(نماز کی ایک شکل رفع یدین والی ہوئی اور دوسری بغیر رفع یدین والی) ۔ پس یہ ثابت ہوا کہ احکام سنت خواہ اخبارِ آحاد سے معلوم ہوں یا اخبارِ متواترہ سے یا تواترِ عملی سے ان میں کامل قطعیت کبھی پائی ہی نہیں جا سکتی الا یہ ہم حسنِ ظن سے کام لینے پر خود کو مجبور پائیں۔
لیکن جیسا کہ معلوم ہے کہ تمام تر آیاتِ قرآنی کی صحت متفق علیہ ہے (باوجود اس حقیقت کے کہ عبد اللہ بن عباس معوذتین کو قرآن کا حصہ نہیں مانتے تھے،تفہیم القرآن) اور اس اعتبار سے کتاب اللہ قطعیت کی حامل ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاو۔ اوپر ثابت ہوا کہ تمام تر احادیث مع سنت متواترہ اور تواتر عملی کی نوعیت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قطعی متن (قرآن ) اپنے قاری کو ظنی نوعیت کے دوسرے متن (حدیث) کی طرف کیوں پھیر دیتا ہے؟
کیا اللہ تعالیٰ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک قطعی الثبوت متن میں ایک ظنی الثبوت متن سے استفادہ کا حکم دے، جس سے احکام کی تخریج میں صدہا سال تک باہمی سرپھٹول اور مار دھاڑ ہوتی رہے اور اسلامی فرقے ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں؟ ظاہر ہے عقل کا جواب ہو گا نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کا یہ فرمانا کہ اللہ کا رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاو، ایک ایسا حکم تھا جو عہد رسالت اور بڑی حد تک عہدِ صحابہ کے لیے ہی مخصوص ہو سکتا تھا۔ عہد رسالت میں ‘‘سنت رسول ’’ کتاب اللہ ہی کی طرح ایک قطعی اور یقینی چیز تھی ۔ اور اس صورت میں اگر ایک قطعی متن (قرآن) دوسرے قطعی متن (اقوال و اعمالِ رسول یا سنت ) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دے رہا تھا تو یہ بالکل ایک قابل عمل صورت حال تھی۔ اس دور میں ہر شخص چاہتا تو اللہ کے رسول ﷺ سے کسی امر کی دریافت کر سکتا تھا۔ لیکن آنحضورﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد چونکہ حدیث ظنی و قیاسی نوعیت کی چیز ہو گئی، اس لیے عہدِ رسالت کے بعد بھی یہ سمجھتے رہنا کہ قرآن کا ‘‘قطعی الثبوت’’ متن احادیث کے ‘‘ظنی الثبوت ’’ متن سے رجوع کرنے کو کہہ رہا ہے، ایک فلسفیانہ غلطی ہے اور عہد رسالت کے بعد سے جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا رہا ویسے ویسے یہ غلطی شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔

بہ الفاظ دیگر، قرآن کی صحت اگر شک سے بالا تر ہے تو اسے کسی ایسے متن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا چاہیے جس کی صحت ٹھیک قرآن ہی کی طرح شک سے بالا تر ہو۔ عہد رسالت بلکہ صدر اول تک یہ ممکن تھا لیکن اس کے بعد یہ قطعی ممکن نہیں رہا ہوگا کہ سنت کو شک سے بالا تر سمجھا جا سکے۔ اس لیے قرآن کے اس حکم کو عہدِ رسالت تک کے لیے خاص سمجھا جائے گا نہ کہ تمام زمانوں کے لیے۔

4

پس ایک اصول معقول یہ ہوا کہ شریعت کو بالکل واضح ہونا چاہیے اور اس میں احادیث و استناد کا ایسا جھگڑا نہیں ہونا چاہیے جس سے وہ ہمیشہ کے لیے مشتبہ ہو کر رہ جائے ۔ اس اصولِ معقول کو درجِ ذیل مثال سےمزید سمجھا جا سکتا ہے:
اگر موجودہ دور میں ایک شخص ایک تقریر کرے اور اس کے سامنے دس آدمی ہوں اور وہ اس کی تقریر کے مختصر نوٹس بھی لیتے جائیں تب بھی وہ سب مل کر پوری تقریر کو صرف ایک گھنٹے بعد من و عن نقل نہیں کر سکتے۔ یہی نہیں وہ اس شخص کے احوال و کیفیات اور سیاق و سباق سے متعلق معلومات پر بھی عبور حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر وہ شخص ان کے درمیان موجود رہے تو بار بار اپنی تقریرکی تشریح کرے گا جو حجتِ قطعی اس بات پر ہوگی کہ اس کا اصل منشا کیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد چونکہ تشریح و تفسیر کا مستند ذریعہ بالذات موجود نہیں رہا، اس لیے اس کے متبعین میں سے کسی ایک یا چند اشخاص کو یہ حق نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کی تشریح کا ٹھیکہ صرف اپنے سر لے لیں اور بقیہ لوگوں کو اس سے محروم کر دیں۔ ہر فرد کو اس کی تقریروں کی تشریح کی مکمل آزادی اور اس کی تبلیغ کا مکمل حق ہوگا۔ جو لو گ اس کو ماننا چاہیں گے مانیں گے، نہ ماننا چاہیں گے نہ مانیں گے۔ اور یکساں تشریح کرنے والے افراد ایک ایک فرقہ کی شکل میں باہم متحد ہوں گے۔ تمام فرقوں کے درمیان اگر باہمی رواداری ہو گی تو وہ ایک دوسرے کی ناقدانہ تکفیر کے بجائے ایک دوسرے پر محققانہ تبلیغ کریں گے۔
اس مثال سے ایک سلیم الفطرت شخص سمجھ سکتا ہے کہ حق تک پہنچنے کے لیے تکفیر کے بجائے تبلیغ کا رویہ اپنانا مستحسن ہے۔ لیکن چونکہ ملت اسلامیہ کے جمہور علما تبلیغ کی ناکامی کے بعد تکفیرکرنے لگتے ہیں، اس لیے ‘‘امتِ واحدہ’’ کے جمہور فرقوں کی گمراہیاں درحققیت ناقابلِ اصلاح ہیں۔ ملت اسلامیہ میں معتزلہ جیسے ‘‘باطل فرقے’’ قیامت تک موجود رہیں گے اور ملت اسلامیہ کو حق و باطل کی باہمی کش مکش اور خون خرابہ سے اگر محفوظ رکھنا ہے تو سب سے پہلے فتاوائے کفریہ کی لہلہاتی ہوئی فصل کو جلا کر راکھ کر دینا ہوگا تاکہ اس کی جگہ پر ایمان و یقین کی مطلوبہ فصل اگائی جا سکے۔

5

آپ نے لکھا ہے:
‘‘احادیث کا ذخیرہ اخبار آحاد پر مشتمل ہے جو ظنی الثبوت ہیں۔ اس میں سے کسی چیز کو اسی وقت قبول کیا جائے گاجب وہ قرآن، سنت، عقل وفطرت اور دیگر احادیث سے نہ ٹکراتی ہو۔’’

گویا آپ کے نزدیک صرف ‘‘خبر واحد پر مبنی احادیث’’ سے کام لے کر حکم شرعی ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ظنی الثبوت ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ قرآن ، سنت اور عقل و فطرت سے کام لینا بھی لازمی ہے۔
احادیث سنت سے الگ نہیں ہیں۔ احادیث قرآن کی تشریح مزید بھی ہیں اور ان باتوں کا حکم بھی دیتی ہیں جو قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ ‘‘ عقل’’ قرآن یا سنت کے مستند احکام ِ منقول کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کیونکہ انسانی عقل محدود ہے جو احکامِ الٰہی یا فرمانِ نبوی کے وسیع تر مصالح کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی۔البتہ عقل کو صرف اس حد تک اجازت ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ موجودہ سچویشن کیا ہے اور ایسی سچویشن میں اللہ کے رسول کی سنت سے کیا حکم نکلتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اسلام ترک کردیتا ہے تو اس کو پہلے توبہ کی مہلت دی جائے گی اور رجوع نہ کرنے پر قتل کر دیا جائے گا۔ ‘‘فطرت’’ بالکل ایک غیر واضح اور مبہم لفظ ہے۔ فطرت کا حوالہ دے کر کسی حدیث سے برامد ہونے والے حکم کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
الغرض عقل اور فطرت کو کسی احکام منقول کو رد یا اس کو اسلامی قانون کی ایک دفعہ ماننے سے انکار کا حیلہ نہیں بنایا جا سکتا۔اہل سنت و الجماعت کے تصورِ شریعت کی رو سے عقل کی اپنی محدود اہمیت ہے،اور جو کچھ کہ منقول ہے، عقل یا فطرت اس کی حجیت سے انکار نہیں کر سکتی۔ موزوں سچویشن میں اس پر لازماً عمل درآمد کرنا ہوگا کیونکہ سنت دائمی اور ابدی ہدایت ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کو دائمی تشریعی اختیارات عطاکرتے ہوئے مومنوں سے یہ کہتا ہے کہ رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاو، تو پھر آنحضور ﷺ کے احکامات آخر کہاں پائے جائیں گے؟ احادیث میں ہی نہ؟ پھر اس صورت میں داڑھی جیسے ایک مسئلے میں احادیثِ صحیحہ و مصدقہ سے برامد ہونے والے ظاہری احکام سے اگر آپ انکار کریں گے (جو آپ انکار کرتے معلوم ہوتے ہیں) تو پھر ا س سلسلے میں احادیث سے برامد ہونے والے احکام دائمی نوعیت کے کہاں رہے؟ وہ تو عارضی نوعیت کے ہو گئے! (واضح رہے کہ یہ بات میں اس مفروضے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ حرمت تصویر اور قتل مرتد سے منکر آپ ایسے حضرات کے نزدیک داڑھی رکھنا بھی دینی یا شرعی اعتبار سے ضروری نہیں ہو سکتا)۔
پس آپ کے متجددانہ فقہی اصولوں کی رو سے حدیث کوئی ابدی ہدایت ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ احادیث سے معروضی طور پر برامد ہونے والے احکامات (مثلاً داڑھی)سے پیچھا چھڑانے کے لیے آج آپ احادیث کے ظنی الثبوت ہونے پر زور دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔ان کو قبول کرنے کے لیے عقل و فطرت کی لازمی شرط لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس لیے ایسے احکامات سے متعلق احادیث اب غیر دائمی ہو گئیں!جبکہ قرآن سے ان کا ابدی ہونا ثابت ہے!

6

ااخبار آحاد کی اہمیت کو ظنی الثبوت کہہ ان کے حجت نہ ہونے کا تاثر دینا ایک گمراہی ہے۔ علمائے ظواہر کے تصورِشریعت کے مطابق اس سے اسلامی نظامِ قانون چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے۔ اخبار آحاد کی حجیت کو چند گمراہ فرقوں کےسوا تمام فقہائے امت نے ماضی و حال میں تسلیم کیا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا عملی تواتر ہی ہے۔اما مِ اعظم اپنے قیاس کے مقابلے میں ضعیف احادیث تک کوترجیح دیتے تھے۔ 
درج ذیل لنک پر جائیں: 
http://www.mohaddis.com/nov2012/1348-khabar-e-wahid-hadees-e-nabvi-ki-hujiyat-ko-tamul-e-ummat-hasal-he.html 

آپ نے لکھا ہے: 
‘‘اس میں شک نہیں کہ اللہ کے رسول کا ہر دینی حکم قرآن کے حکم کے مساوی ہے مثلأ نماز کی ہیئت و رکعات، زکوِۃ کی مقدار، مناسک حج کی تفصیل وغیرہ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ مذکورہ بالا امور کا تعلق در حقیقت سنت سے ہے جو امت کے عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، بالکل  اسی طرح جس طرح قرآن امت کے قولی تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ ان دونوں میں ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔’’

قرآن اور امت کے تواتر عملی میں ثبوت کے اعتبار سے بہت فرق ہے جس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ امت کا تواتر عملی کوئی قطعی الثبوت چیز نہیں ہے ورنہ نماز جیسی اہم ترین عبادت میں اس قدر شدید اختلافات نہ ہوتے۔ امت کا تواترِ عملی اس کے تواتر قولی (جس میں تقریرو تحریر دونوں شامل ہیں) کے مساوی نہیں ہے۔ کیونکہ عبادات وغیرہ کے عملی تواتر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کتاب اللہ کے قولی تواتر میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔پھر آپ کا یہ فرمانا کہ کتاب اللہ اور امت کے تواتر عملی میں ‘‘۔ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے’’ بالکل غلط ہے۔ 

دراصل ’’عملی تواتر‘‘ کا یہ فلسفہ گھڑ کر اخبارِ آحاد سے معلوم ہونے والے احکام ِ شرعیہ سے نجات حاصل کرنا مقصود ہے۔لیکن عملی تواتر کے اس فلسفے کی کمزوری ذرا سے غور و فکر کے بعد سمجھ میں آ جاتی ہے۔ کیا امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ قانونی مشقوں سے قتلِ مرتد اور رجم جیسے قوانین کا ‘‘عملی تواتر’’ معلوم و ثابت نہیں ہوتا؟ اور کیا عملی تواتر کی رو سے ہی داڑھی کی فرضیت، مصوری و مجسمہ سازی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ پھر امت کے ایسے ‘‘تواتر عملی’’ کے خلاف کوئی ایسی نص آپ کیونکر لا سکتے ہیں جس کے سیاق و سباق کو ہی آپ نے غلط سمجھ لیا ہو؟ مثلاً قتل مرتد کے تواتر عملی کے خلاف ‘‘لا اکراہ فی الدین ’’ کی قرآنی آیت کو ہر گز نہیں لایا جا سکتا کیونکہ اس آیتِ مبارکہ کا منشا وہ نہیں ہے جو آپ اس کو پہنانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، قتل مرتد کی متواتر قانونی مشقوں کے خلاف چند استثنائی صورتوں کا حوالہ دے کر انہیں معمول بہ نہیں بنایا جا سکتا۔

 7

قتل مرتد،سزائے رجم اور دیگر متواتر قانونی مشقوں (مثلاً حرمت تصویر) سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے فقہ کی تشکیل ِ جدید کی بات کرتے ہی ذہن میں خود بخود ایسے سوالات پیدا ہونے لگتے ہیں کہ ‘‘ڈیڑھ ہزار سال تک چند باطل فرقوں کو چھوڑ کر تمام علما و فقہا کا جو متفقہ تصورِ دین و شریعت تھا کیا وہ بالکل غلط تھا؟ اور اپنے اسی غلط تصور کے نتیجے میں تمام علما و فقہا بشمول اسلامی عدالتیں مرتدوں کو قتل، شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیتی رہیں؟ یہی نہیں، رقص و موسیقی اور تصویر و مجسمہ اور داڑھی منڈانے تک کو حرام کر دیا گیا؟ گویا اہل سنت و الجماعت کے ائمہ و مجتہدین شریعت کے نام پر چودہ سو سالوں تک جو کچھ کرتے رہے وہ سب اسلام اور قرآن و سنت کے خلاف تھا؟ اور آپ ایسے حضرات جو فقہِ اسلامی کی تشکیل جدید کا نعرہ بلند کررہے ہیں، ان کے افکار عین مطابقِ سنت ہیں؟

جمہور ائمہ و فقہا کی یہ کیسی ‘‘متواتر ’’ شریعت تھی جو چودہ سو سالوں تک اس قدر غلط سمجھی گئی کہ جن لوگوں کو قتل یا سنگسار کرنے کی اجازت نہیں تھی ان کو اس قدر طویل زمانے تک اسلامی عدالتوں کے ذریعے اللہ کے قانون کے نام پر قتل اور سنگسار کیا جاتا رہا اور آج تک کیا جا رہا ہے؟ ایک طرف اسلام اللہ کی طرف سے بھیجا گیا دین مبین ہو اور اس کے شرعی قوانین کو تمام علما یا کم از کم جمہور علما اس قدر غلط سمجھ لیں کہ قتل مرتد ،سزائے رجم، حرمت تصویرو مجسمہ، حرمت رقص و موسیقی جیسے اتنے بڑے بڑے قوانین سو دو سو سالوں تک نہیں بلکہ ڈیڑھ ہزار سالوں تک غلط سمجھے جاتے رہیں؟ آپ کس تواتر عملی کی بات کر رہے ہیں؟ قوانین شرعیہ کے باب میں تواتر عملی تو یہی ہے نہ جو ماضی و حال کی تاریخ سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ پھر اس تواتر عملی کو آپ کیوں نہیں ماننا چاہتے؟ اپنے من سے تواتر عملی کی ایک قسم کو تسلیم کرنے اور دوسری قسم کو رد کر دینے کی شرعی دلیل آخر کیا ہو سکتی ہے؟ اہل سنت و الجماعت کے نقطہ ٔ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ خدارا دین کی جو بنیادیں ہیں ان کو منہدم نہ کریں۔

پھر اس طرح کے سوالات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جدید مغربی ذہن و تہذیب کے غلبہ و استیلا کے موجودہ دور میں ہی مذکورہ تمام احکامات کو بدلنے کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو ان احکام میں تبدیلی چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے یہ اہل سنت و الجماعت کے جمہور علما و فقہا نہیں ہیں بلکہ صرف مٹھی بھر لوگ ہیں جو مغربی ذہن و تہذیب سے حد درجہ متاثر و مرعوب ہو گئے ہیں۔مغربی دور کے پیدا کردہ موجودہ عقلی و علمی ماحول کے سبب ہی تو انہیں سزائے رجم اور قتل مرتد جیسے قوانین ناقابل برداشت معلوم ہوتے ہیں۔ اور محض اسی لیے وہ چودہ سو سالوں سے چلی آرہی اہل سنت و الجماعت کی متواتر فقہ کو بدل ڈالنے کے درپے ہیں تا کہ ایسے تکلیف دہ قوانین سے نجات حاصل کرسکیں۔

اور آج بھی چند متجددین کو چھوڑ کر تمام علمائے اہل سنت و الجماعت قتل مرتد، حرمت تصویر، رجم، داڑھی کی فرضیت جیسے احکام و قوانین پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ علمائے اہل سنت کے ایسے اجماع سے مختلف رائے رکھتے ہیں تو آپ کو اپنے نقطہ ٔ نظر کو اسلام کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ شوق سے اسلام کے دائرے سے باہر نکل جائیے اور پھر اجتہاد فرمائیے۔ چودہ سو سالوں سے چلی آتی قتل مرتد کی اسلامی روایت کی تغلیط اور تصویر کی حرمت کے خلاف لب کشائی صریح مغرب زدگی ہے۔ اگر آپ کو ایسا اجتہاد کرنا ہی ہے تو ایک نیا مذہب ایجاد فرمائیے۔ اسلام کے نام سے دنیا کو دھوکا دینے کی کیا ضرورت ہے؟
 اس کے بعد پھر کسی نے تبصرہ نہیں کیا۔ دین و شریعت کے روایتی تصور کی اصلاح کا کام تبھی ہو سکتا ہے جب کھلے ذہن کے ساتھ دنیا اور اس اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

(اس پوسٹ میں نقل اقتباسات کو زبان و بیان کے اعتبار سے اڈٹ کیا گیا ہے۔ فرصت ملی تو ادارتی نقطہ نظر سے مزید حذف و اضافہ کروں گا تا کہ دلائل انتہائی وضاحت کے ساتھ سامنے آ سکیں۔ طارق صدیقی)