ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیا, آیت نمبر 30)
آج میں اسی موضوع پر چند حقائق تاریخی ثبوتوں کے ساتھ پیش کروں گا. لیکن پہلے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمت اللہ علیہ کی کتاب انتباہات سے ایک اقتباس پڑھ لیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ جدید ترین سائنسی نظریات کی بنا پر قرآن کی صداقت کی دلیل پیش کرنا ہرگز کوئی مستحسن رویہ نہیں ہے. حضرت مولانا تھانوی اپنی کتاب انتباہات میں فرماتے ہیں:
"... دوسری غلطی یعنی قرآن میں اس کے مسائل کو سائنس پر مشتمل ہونے کی کوشش کرنا۔ جیسا آج کل اکثر اخباروں اور پرچوں میں اس قسم کے مضامین دیکھنے میں آتے ہیں کہ جب اہل یورپ کی کوئی تحقیق متعلق سائنس کے دیکھی سنی, جس طرح بن پڑا اس کو کسی آیت کا مدلول بنا دیا اور اس کو اسلام کی بڑی خیرخواہی اور قرآن کے لیے بڑی فخر کی بات اور اپنی بڑی ذکاوت سمجھتے ہیں اور اس غلطی میں بہت سے اہل علم کو مبتلا دیکھا جاتا ہے۔ اور اس میں ایک غلطی تو یہی ہے کہ مسائل سائنس پر مشتمل ہونے کو قرآن کا کمال سمجھا اور وجہ اس کی یہ ہوئی کہ قرآن کے اصلی موضوع پر نظر نہیں کی گئی۔
قرآن اصل میں نہ سائنس کی کتاب ہے نہ تاریخ کی نہ جغرافیہ کی۔ وہ ایک کتاب ہے اصلاح ارواح کی جس طرح کتب طبیہ میں مسائل ہیں اصلاحِ اجسام کے۔ پس جس طرح کسی کتاب طبی کا پارچہ بافی و کفش دوزی کی صنعت و حرفت کی تحقیق سے خالی ہونا اس کے لیے موجب نقصان نہیں بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس تحقیق پر بلاضرورت مشتمل ہونا خود بوجہ خلط مبحث کے ایک درجہ میں موجب نقصان ہے اور خالی ہونا کمال ہے۔" (انتباہات از مولانا اشرف علیتھانوی)
اب آئیے, قرآن اور بگ بینگ کے موضوع پر بات کریں.
پہلے یہ سمجھ لیں کہ بگ بینگ کا نظریہ جس کو سائنس کا ایک بڑا عظیم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے, کوئی جدید تصور نہیں ہے. اس کی جڑیں یونانی اساطیر اور یونانی فلسفہ میں پیوست ہیں. اس نظریے کا مرکزی خیال متعدد یونانی ماخذوں میں ملتا ہے. مثلا یوریپیڈس کے ڈرامے میلانپے میں یہ الفاظ آئے ہیں:
حوالہ:
پہلی صدی قبل مسیح کے یونانی مورخ دیودور الصقلی (Diodorus Siculus) نے اس تصور کو انیکساغورس سے منسوب کیا ہے اور بازنطین زیزیس نے اس تصور کو انیکساغورس کے ساتھ ساتھ امپیڈوکلس, ہیسیوڈس اور اورفیوس سے بھی منسوب کیا ہے..... The heaven and earth were once a single form.
حوالہ:
ہندوستان کے معروف مفکر رادھاکرشنن نے اپنی کتابEdmonds, Radcliffe G., III. 2013. Redefining ancient Orphism: A study in Greek religion. Cambridge, UK: Cambridge Univ. Press. Page No 85
The Principal Upnishadsکے صفحہ 38 پر اس نقطہ نظر کو یوریپیدس کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی فلسفی انیکسامنڈر سے بھی منسوب کیا ہے:
Anaximander develops a scheme similar to the Orphic cosmology: (1) There is a primal undifferentiated unity. (2) A separation of opposites in pairs to form the world order. (3) A reunion of these sundered opposites to generate life. This formula is stated by Euripides (Melanippe, Fragment 484): "The tale is not mine; I had it from my mother: that Heaven and Earth were once one form, and when they had been sundered from one another, they gave birth to all things and brought them up into the light.'
یعنی انیکسامنڈر نے اورفیائی تصور کائنات سے ملتا جلتا منصوبہ پیش کیا ہے جو یہ ہے کہ (1) ایک ابتدائی غیرمنفک وحدت تھی (2) یہ وحدت اضدادی جوڑوں میں منقسم ہو گئی جس سے نظام عالم نے اپنی ہستی پکڑی (3) ان اضدادی جوڑوں کے ایک بار پھر ملنے سے زندگی وجود پذیر ہوئی.
یہ فارمولا یوریپیڈس (ملانپے, فریگمنٹس 484) میں بھی مذکور ہوا ہے. ... آسمان اور زمین کبھی ایک ہیئت تھے, اور جب وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے تو ان کے سبب تمام چیزیں پیدا ہوئیں اور روشنی میں آئیں.
حوالہ:
Radhakrishnan, Sarvepalli. 1913. The principal Upanishads. London: George Allen & Unwin. Page No 38
میں نے مزید تحقیق کی تو دیودور الصقلی, جس کا ذکر اوپر آیا, اس کے تاریخی متن میں اس تصور کا درج ذیل الفاظ میں تذکرہ ملا:
For whereas all things at the first were jumbled together, Heaven and Earth were in one Mass, and had the one and the same Form: But afterwards (they say) when Corporeal Beings appeared one after another, the World at length presented itself in the order we now see ...
حوالہ:
https://books.google.co.in/books?id=18NuQDkB0dMC&pg=PA1&dq=%22For+whereas+all+things+at+the+first+were+jumbled+together%22+diodorus&hl=ur&sa=X&ved=0ahUKEwjJ3v_1kpLpAhV6zzgGHevhDTgQ6AEICDAA#v=onepage&q=%22For%20whereas%20all%20things%20at%20the%20first%20were%20jumbled%20together%22%20diodorus&f=false
غرض ہم نے دیکھا کہ یہ نکتہ کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے, بعد ازاں جدا ہوئے, یہ سائنس کی کوئی ایسی معجزاتی تحقیق نہیں کہ بگ بینگ تھیوری سے پہلے لوگ اس کو نہ جانتے ہوں۔ یہ عقیدہ ہزاروں سالوں سے چلا آ رہا ہے, بیسویں صدی میں سائنسدانوں کو صرف یہ کامیابی ملی ہے کہ انہوں نے جدید ترین فلکیاتی آلات سے اس سمت میں مزید یقین بہم پہنچایا ہے تاہم اس کے باوجود یہ ابھی تک صرف ایک نظریہ ہی ہے. اور کبھی بھی اس کا خاتمہ ہو سکتا ہے. سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں, اس لیے یہ خواہش کہ کاش ہماری مذہبی کتاب میں بھی جدید ترین سائنسی نظریات کی گنجائش نکل آتی, ایک غیر موزوں ہی نہیں غیر محتاط خیال بھی ہے. کیونکہ اگر ہم نے یقین کر لیا کہ ہمارے بعض مذہبی عقائد سائنس سے ثابت ہیں اور آگے چل کر اگر خود سائنس بدل گئی تو کیا ہوگا؟ البتہ ہم کو اگر سائنسی تحقیقات سے ایسی ہی گہری دلچسپی ہے تو ہم خود آزادانہ ایک سائنسی نظریہ اور تحقیق پیش کر کے اس ہر بجا طور ہر فخر محسوس کر سکتے ہیں.
مذکورہ بالا ماخذوں سے جو اقتباسات میں نے پیش کیے ہیں, ان میں ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس طرح "آسمان اور زمین" کی لفظیات میں اولین تخلیق کا ذکر ان میں کیا گیا ہے بعینہ اسی طرح قرآن میں بھی "آسمان اور زمین" کے ساتھ کہا گیا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیا, آیت نمبر 30)
قدیم اساطیری و فلسفیانہ تصورات اور قرآن کریم دونوں "آسمان اور زمین" کی لفظیات میں اس لیے بات کرتے ہیں کہ ازمنہ قدیم اور قرون وسطی میں یہی لفظیات رائج تھیں. لوگ اسی طرح کائنات کو سوچتے تھے اس لیے اسی طرح کلام کیا گیا.
اب رہا یہ سوال کہ سابقہ اساطیری و فلسفیانہ کتابوں کی طرح قرآن کریم میں بھی یہ تصور کیوں پایا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانے میں اہل علم کا جو اعتقاد ہوتا ہے اسی کے اعتبار سے مذہبی کتابیں بھی نازل ہوتی ہیں اور وہ بنیادی طور پر یہ بتاتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ تم یہ جو سمجھ رہے ہو کہ کائنات کی ابتدا یوں نہیں یوں ہوئی ہوگی تو اس ابتدا کی تہہ میں کارفرما سبب دراصل رب العالمین کا ہے, اور رب وہ ہے جو کائنات کے نظام کو, خواہ تم کو وہ جیسا بھی نظر آئے, چلا رہا ہے. اس رب اور پاک پروردگار کو تم اصطلاحی طور پر خدا کہو, گاڈ کہو یا اللہ, بات ایک ہی ہے. یعنی مذہبی کتاب یہ نہیں بتاتی کہ کائنات کا راز کیا ہے, اور یہ کیونکر وجود میں آئی, اگر خدا تعالی ہم کو یہ بتا دے تب تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے. پس, مذہبی کتابیں ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ تم اگر اپنی عقل سے کائنات کی ابتدا اس طرح سے ہونا سمجھ رہے ہو تو یہ مت سمجھنا کہ یہ کوئی کھیل تماشہ ہے اور بلاارادہ و الل ٹپ یہ سب کچھ واقع ہو رہا ہے بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک صاحب ارادہ اور فعال ہستی کے اثر سے واقع ہو رہا ہے. اس کا ایک عظیم مقصد ہے جس کو سمجھنے کی کوشش تم کر سکتے ہو لیکن ہر حال میں یاد رکھنا کہ زندگی عشق و محبت اور امن و شانتی, صلح و آشتی, باہمی ہمدردی اور وسیع المشربی سے عبارت ہے. ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے. سب کی آزمائش اسی میں ہے کہ کارخانہ کائنات کو کارعبث نہ سمجھیں بلکہ اس کی حکمتوں میں فکر و تحقیق کریں.
اس تحقیق سے ہم کو یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہم کَبھی اپنی مذہبی کتاب کے متعلق یہ نہ کہیں کہ اس میں تو اتنے سو یا ہزار سال پہلے ہی آج کی سائنسی تحقیقات کا حاصل پیش کر دیا گیا تھا. اس قسم کی باتوں سے ذہن بھٹک کر غلط راہ ہر لگ جاتا ہے اور ہم مذہبی کتابوں میں تزکیہ و تصفیہ قلب کے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ان سے جدید ترین سائنسی تحقیقات برامد کرنے لگ جاتے ہیں. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دین میں کچھ ترقی ہوتی ہے اور نہ دنیا حاصل ہوتی ہے.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں