جمعرات، 30 جون، 2011

سماجی علوم کا نصب العین اور طریقہ کار

یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔


ایک

موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (Disciplines) کے مطالعے کا موضوع ‘‘انسان اور اس کے متعدد انفرادی و سماجی معاملات و مسائل’’ ہے اسے انسانی و سماجی علوم کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ انسانی و سماجی علوم کے دائرے میں سماجیات، نفسیات، معاشیات، جغرافیہ، لسانیات اور ان بنیادی سماجی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں۔ مثلاً سماجی نفسیات (سوشل سائیکالوجی)، سیاسی جغرافیہ (جیوپالیٹکس)، سماجی لسانیات (سوشیو لنگوسٹکس) وغیرہ۔
یہ ایک مختصر ترین خاکہ ہے جس کی مدد سے علم و فن کی درس و تدریس کے موجودہ ڈھانچے کا ایک مجمل سا تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت علوم و فنون کی موجودہ ترتیب و تقسیم سے کسی قسم کا تعرض کیے بغیر میں سب سے پہلے سماجی و سائنسی علوم میں ‘‘علم’’ کا کیا مفہوم متعین ہونا چاہیے اس سے بحث کروں گا پھر اس بات کی وضاحت کی کوشش کروں گا کہ انسانی و سماجی علوم(Humanities and Social Sciences) میں ‘‘علم’’ کی کیا کیفیت ہے اور جن امور کو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے علم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے وہ دراصل علم کے نہیں بلکہ ظنون و قیاسات کے مرتبے پر ہیں۔
سائنسی علم کی صحت کے سلسلے میں ہمیں یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ قطعی طور پر حقیقت ہے یعنی اس میں کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں نہ پہلے کبھی تھی اور نہ بعد میں کبھی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر زہر کھانے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی سے سوکھے کا مرض ہو جاتا ہے۔ زمین سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے۔ پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھاپ بن جاتا ہے۔ ان معاملات کا علم قطعی اور یقینی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ کبھی واقع ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ سن 2001میں اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے وزیر اعظم تھے تو اب سے ایک ہزار سال پہلے بھی یہ سچ تھا اور اب سے ایک ہزار سال بعد بھی یہی سچ ہوگا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور من موہن سنگھ وزیر اعظم ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب علم بدل گیا۔ علم حالات سے متعلق ہوتا ہے۔ جب حالات میں تبدیلی واقع ہو گی تو ان حالات کو ظاہر کرنے کے لیے نیا علم بھی وجود میں آئے گا۔ لیکن کوئی تبدیل شدہ حالت اپنے سے پہلے والی حالت کے وجود کی نفی نہیں کر سکتی۔ جب پچھلی حالت کے وجود کی نفی نہ ہوئی تو پچھلی حالت کے علم کی نفی بھی نہیں ہو سکتی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علم وہی ہے جس میں کوئی تغیر واقع نہ ہو۔
اس سلسلے میں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے۔ عہد وسطی میں سائنسی علم یہ تھا کہ سورج زمین کے چاروں طرف گردش کرتا ہے۔ دور جدید میں معلوم ہوا کہ خود زمین سورج کے چاوں طرف گردش کرتی ہے۔ مذہبی حلقوں میں اکثر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس طرح تو سائنسی علم بھی اعتقاد ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر عہد وسطیٰ میں سورج کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ زمین کے چاروں طرف گھومتا ہے اور موجودہ دور میں اس کے برعکس سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ اب سے ہزار پانچ سو سال بعد موجودہ دور کا یہ سائنسی اعتقاد بھی غلط ثابت ہو جائے؟ جس طرح عہد وسطیٰ کے لوگ اپنے سائنسی علم کے خلاف سوچ بھی نہین سکتے تھے اسی طرح دور جدید کے لوگ بھی موجودہ سائنسی علم کے خلاف نہیں سوچ سکتے۔ عہد وسطی میں دوربین اور دیگر سائنسی آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ لوگ علم کے لیے غور و فکر اور حواس خمسہ کے راست استعمال پر منحصر تھے اسی لیے وہ جو کچھ دیکھتے تھے اس پر ایمان لے آتے تھے، حالانکہ وہ صحیح نہیں تھا۔ دور جدید میں سائنسی آلات کی ایجاد کے بعد ہی زمین کی سورج کے گرد گردش کرنے والی بات سمجھ میں آ سکی۔ اسی طرح عین ممکن ہے کہ اب سے ہزار پانچ سو سال بعد کی سائنسی تحقیقات کی رو سے موجودہ علم کی نفی بھی ہو جائے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنسی حقائق بھی زمانے کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ زمین کا سورج کے گرد گھومنا اگر واقعی ناقابل اعتبار ہے تو پھر اسے سائنسی علم کی فہرست سے خارج کر دینا چاہیے اور اسے علم کے بجائے گمان غالب یا ایک قسم کا فلسفہ ہی سمجھنا چاہیے۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں زمین کی سورج کے گرد گردش کو ہر مکنی زاویے سے دیکھ لیا گیا ہے تب ہی جا کر اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم گیا ہے۔ اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسے امور میں بھی شک و شبہ کی گنجائش ہے تو پھر انہیں بھی احتیاطاً سائنسی علم کے زمرے سے نکال کر ظن و قیاس کے زمرے میں رکھنا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ قیاسات کو تیقنات کے نام سے موسوم کریں اس حال میں کہ ہم جانتے ہوں کہ یہ دراصل قیاسات ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ آخر ہمیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ موجودہ دور کا کون سا علم مستقبل میں غلط ہو جانے والا ہے؟ یہ سوال پریشان کن تو ہے لیکن سائنسی علم اپنی پشت پر چند دلائل اورشہادتیں رکھتا ہے جن کی مدد سے ان کی بار بار تصدیق ہو سکتی ہے اور اسی لیے انہیں سائنسی علم کہا گیا ہے۔ ورنہ انہیں بھی فلسفیانہ قیاس کے زمرے میں ہی رکھا جاتا۔ ایٹم میں الیکٹران پروٹون اور نیوٹران کے وجود اور ان کی کارکردگی کے سلسلے میں سائنس کے دعووں کو ہم اس لیے نہیں مان لیتے کہ مٹھی بھر سائنسداں اس کا دعویٰ کر رہے ہیں اورہمیں ان کی بات پر ایمان بالغیب لانا ہی ہوگا ورنہ تحصیل علم کی گاڑی ایک منٹ کے لیے بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ سائنس میں ایمان بالغیب لانے جیسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ہر ایک امر کی تصدیق کے لیے سیدھا راستہ کھلا ہوا ہے کہ جو چاہے آئے اور سائنسی آلات و ظروف کی مدد سے سائنس کے دعووں کی سچائی معلوم کر لے۔ سائنسی علم ہمیں اپنی بازتصدیق کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سائنس مذہب کی طرح ‘‘لن ترانی’’ نہیں کہتی اور نہ اپنے پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتی ہے۔ سائنسی علم میں اس قدر قطعیت اور وضاحت اسی لیے ہے کہ اس میں معقولات کے ساتھ ساتھ محسوسات کو بھی حجت قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی امر معقول کی تصدیق محسوسات سے نہیں ہوتی تو سائنس کے مطابق وہ سرے سے سائنسی علم ہی نہیں ہے۔
اگر ہم عقل کے ساتھ ساتھ حواس کو بھی حجت قرار دیں تو علم اور قیاس میں فرق بالکل واضح ہو جائے گا۔ ہمیں یہ صاف صاف معلوم ہو جائے گا کہ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں قیاس یا فلسفہ۔ دنیا ہمیشہ سےناقابل انکار محسوس حقائق اور ظنون و قیاسات کے درمیان فرق کرتی آئی ہے۔ معقولات و محسوسات کے میل سے ناقابل انکار حقائق پیدا ہوتے ہیں۔ اور ‘‘علم’’ کو بھی ناقابل انکار اور ازقسم محسوسات ہی ہونا چاہیے۔ دو فلسفی اپنے اپنے غوروفکر یا قیاس کی مدد سے ایک ہی معاملے میں دو متضاد حکم لگا سکتے ہیں۔ جبکہ دو سائنسداں کسی ایک معاملے میں دو متضاد حکم نہیں لگا سکتے۔ مثال کے طور پر ایک سائنسداں اگر یہ کہتا ہے کہ سائینامائیڈ کھانے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو دوسرا اس کی نفی نہیں کر سکتا۔ دونوں کو ایسے امور پر لازماً متفق ہونا ہوگا کیونکہ سائنس کے لیے معیار حواس ہوتے ہیں نہ کہ ذہنی تخیل آرائی۔ فلسفی کے لیے حواس معیار تحقیق نہیں ہے۔ اس کے معیارات سائنسی معیارات سے کم بھی ہو سکتے ہیں اور زائد بھی۔ایک فلسفی چاہے تو محسوسات کا انکار بھی کر سکتا ہے اور چاہے تو معقولات کے ساتھ ساتھ منقولات کو بھی اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا سکتا ہے۔

دو

سماجی علوم کا موضوع مطالعہ ‘‘انسانی معاملات و مسائل’’ ہے اور اس کا طریقہ کار سائنسی ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں معقولات کی تصدیق محسوسات کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گویا محسوسات کی حیثیت براہین قاطعہ کی ہے۔ مولانا مودودی نے سائنس کے متعلق کہیں لکھا ہے کہ یہ محسوسات کی غلام ہے۔ یہ سائنس کا خاصہ اور اس کی فطرت ہے ۔ اگر محسوسات کی شرط کو ہٹا دیا جائے تو سائنس میں معقولات کے سوا کچھ نہ رہ جائے گا اور سائنس اور فلسفہ ایکم ایک ہوجائیں گے۔ انسانی سماج میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کی حقیقی وجہ تک محسوسات تو دور بعض اوقات معقولات کی رسائی بھی نہیں ہو پاتی۔ مثلاً خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے۔خود کشی کے مرتکب افراد خوب سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم کیسے یہ حکم لگا سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے نے جلدبازی میں ایسا کیا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ آگیا ہو یا اسے کینسر جیسا مہلک مرض ہو گیا ہو جس میں تکلیف ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہو۔ ایسے معاملات میں کچھ لوگوں کی عقل بھی یہی حکم لگاتی ہے کہ تکلیف دہ زندگی جھیلنے سے اچھا موت کی نیند سو جانا ہے۔ یاایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض اذیت پسند لوگ حصول لذت کے لیے خودکشی کر گزریں۔ بعض صوفیوں اور مجاہدوں کو بھی قتل ہونے میں خاص قسم کی لذت محسوس ہوتی ہے۔ جنگ کرنا اور جنگ میں اپنی جان دے دینا ایک سراسر غیرمعقول طرز عمل ہے۔
انسانی سماج میں قدم قدم پر ایسے ہی سوالوں سے سابقہ پڑتا ہے جس کی کوئی سائنسی توجیہہ پیش کرنا ناممکن ہے۔ عقلی و سائنسی طور پر بہت سی نصیحتیں حق بہ جانب نظر آتی ہیں لیکن کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک سماج کے افراد ان پر عمل کرنے لگیں۔ انسانی سماج یا اس کے افراد عقل و سائنس کی بنیادوں پر بہت کم اور اعتقادات و توہمات کی بنیاد پربہت زیادہ چلتے ہیں۔ ہر دور میں ‘‘آستھا’’ سائنس سے زیادہ قوی رہی ہے۔ جو چیزیں سائنسی بنیادوں پر کام ہی نہیں کر رہی ہوں ان کےسائنسی مطالعہ کا آخر کتنا فائدہ ہے؟
اوپر کی معروضات کے خلاف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘بے شمار فطری مظاہر بھی ایسے ہیں جن کی کوئی سائنسی توجیہہ ابھی تک پیش نہیں کی جا سکی تو کیا صرف اس بنا پر ہم فطرت کے مطالعے میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا ترک کر دیں گے؟ اگر فطرت کا مطالعہ ہم سائنسی طریقہ کار سے کر رہے ہیں اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تمام تر فطری مظاہر کی توجیہہ پیش کی جا سکے اور صرف اسی وجہہ سے ہم مطالعہ فطرت میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا ترک نہیں کرتے تو پھر انسانی سماج کے مطالعے کے سلسلے میں ہی ہم سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا کیوں ترک کر دیں؟ فطرت ہی کی طرح سماج کے مطالعے میں بھی تو بہت سے مظاہر ایسے ہیں جن کی کوئی سائنسی توجہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے جس طرح فطرت کے مطالعے میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینے کا انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح انسان اور سماج کے مطالعے میں بھی سائنسی طریقہ کار سے مدد لینے کا انکارنہیں کیا جا سکتا۔’’
یہ طرز استدلال بظاہر بہت جاندار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ انسان یا اس کا سماج فطرت کی طرح کوئی اندھا گونگا، بہرا اور بے شعور موضوع نہیں ہے۔ فطرت کسی پیچیدہ مشین کی طرح خودکار اور خود منضبط ہے۔ جبکہ انسانی سماج میں ایسی مشینی خودکاری اور خود انضباطی نہیں پائی جاتی۔ انسان اور اس کے سماج کا مطالعہ موسمیات کے مطالعے جیسی کوئی چیز نہیں ہے کہ ہم انسان اور اس کی تقدیر کے سلسلے میں کسی قسم کی پیشینگوئی (پریڈکشن) کر سکیں۔ اس تحریر کو پڑھتے وقت ایک اور غلط فہمی یہ ہو سکتی ہے کہ میں شاید انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کے استعمال کے خلاف کچھ کہہ رہا ہوں۔ میرا مدعا یہ نہیں ہے۔سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کا استعمال بدرجہ اتم ہونا چاہیے ۔ یہاں میرا اصل مدعا صرف یہ ہے کہ سائنسی طریقہ کار کے استعمال کی ناگزیریت کے باوجود انسانی و سماجی علوم ‘‘سائنس’’ نہیں بن سکے ہیں اور نہ کبھی بن سکتے ہیں کیونکہ موضوعِ انسانی میں فطرت کی طرح مشینی خودکاری اور خود انضباطی کا عمل نہیں پایا جاتا۔ (واضح رہے کہ مشینی خودکاری محض ایک استعارہ ہے)۔
انسان ایک خود مختار وجود ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ انسان کی خود مختاری کی اصل وجہہ اور اس کے تمام تر خودمختارانہ افعال کا مرکزو محور اُس کی نیت ہے اور نیت کی حتمیت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی اعمال کے پس پشت موجود نیت ہمہ وقت غیرمعقول اور غیر محسوس طور پر مختلف النوع تغیرات کی زد میں رہتی ہے۔ نیت کا دائرہ کار صرف گناہ اور ثواب سے ہی متعلق نہیں۔ نیت انسانی افراد، اداروں اور انجمنوں کے تمام تر اعمال و وظائف کے پس پشت موجود ناگفتہ بہہ/ ناقابل اظہار/ناقابل فہم اغراض و مقاصد کا نام ہے۔ کسی سماج میں ایک شخص یا جماعت کسی مخصوص عمل یا روایت پر کیوں عمل پیرا ہے اس کی کوئی ٹھیک ٹھیک سائنسی توجیہہ اس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح سائنسی علوم میں مظاہر فطرت کا مطالعہ کرتے وقت ہو جاتی ہے۔ انسانی نیت کے سلسلے میں کوئی کامیاب پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔ پس جب نیت ہی ناقابل مطالعہ اور ناقابل تحقیق ہوگئی جس پر انسانی سماج کے افراد، اداروں اور انجمنوں کے تمام تر اعمال و ظائف کا دار و مدار ہے تو ظاہر ہے سائنسی طریقہ کار کے ذریعے انسانی و سماجی علوم میں حاصل کیے جانے والے علم کی قطعیت وحتمیت کی ضمانت بھی نہ رہی اور اس طرح تمام تر انسانی و سماجی علوم ان معنوں میں ناکام قرار پائے جن معنوں میں فطری سائنس ہمیشہ سے کامیاب قرار پاتی رہی ہے۔ پس سماجی علوم میں دراصل علم یا سائنس نہیں بلکہ سائنس کی دھجیاں اور پرزے ہیں۔ وہاں محسوسات پر مبنی چند سائنسی حقائق کو معقولات سے جبراً منسلک کر دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے اپنے مزعومہ ‘‘ سوشل سائنس’’ کی تشکیل کی گئی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب نیت کی عدم قطعیت کی وجہہ کر انسان کے انفرادی یا اجتماعی عمل کی کوئی قطعی سائنسی توجیہہ ممکن نہیں تو سائنسی طریقہ کار کی حیثیت کتنی رہ جاتی ہے؟ نربلی، مذہبی ماتم، جنسی اذیت رسانی، لذت کوشی، محرمات سے نکاح کا ممنوع ہونا، جرم و سزا، جنگ و خونریزی، پسند و ناپسند، ذوق اور بدذوقی، تہذیب اور بربریت، سماجوں میں پائی جانے والی مختلف الاقسام حلتیں اور حرمتیں، ان میں سے کون سی چیز خالص عقلی و سائنسی طور پر قابلِ مطالعہ ہے؟ ہاں البتہ ایسے معاملات و رسومات کا کوئی مفصل ریکارڈ رکھنا ہو تو اس میں سائنسی طریقہ کار ضرور کارآمد ہو سکتا ہے۔ پھر سماجی علوم میں میں علما و مفکرین سے زیادہ منشیوں اور محرروں کی خدمات حاصل کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ایک منشی یا محرر زیادہ صحت کے ساتھ سماجی امور و مسائل کو نقل کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے سماج اور اس کے افراد کے اعمال و وظائف وغیرہ کا کوئی مفصل ریکارڈ رکھنا سماجی علوم کے پیش نظر نہیں ہے۔ وہ تو سائنس کی طرح سماجی مظاہر اور انسانی معاملات کی توضیح و تعبیر کرتے ہیں۔ اور کسی بھی سماجی عمل کی توضیح و تعبیر اور نظام فطرت کی سائنسی توضیح تعبیر میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
سائنسی طریقہ کار کے استعمال کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح فطری سائنسوں میں ہم جس غیر جانب داری کے ساتھ فطرت پر کوئی اخلاقی تبصرہ کیے بغیر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح سماجی سائنسوں میں بھی غیرجانب داری کے ساتھ افراد یا سماج کی اخلاقیات سے کوئی چھیڑچھاڑ کیے بغیر سماج کا مطالعہ کریں تاکہ طلبا کا ذہن کسی فرد یا سماج کے سلسلے میں مثبت یا منفی طرز فکر کا شکار نہ ہو۔ لیکن سماجی امور کا مطالعہ کرتے وقت ہم متعدد تعصبات اورتوہمات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غیر جانب دار رہنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم سماج کو صرف سمجھ کر رہ جائیں۔ اس کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ جوں ہی کہ ہم نے بدلنے کی کوشش کی، ہم غیر جانب دار نہ رہ سکے۔ سماجی امور و مسائل پر سائنسی طریقے سے تحقیق و تفتیش کرتے ہی ہمارے سامنے حق اور ناحق کا سوال اٹھنے لگتا ہے۔ سماجی علوم کے علما چونکہ سماجی علوم کو ‘‘سائنس’’ بنانا چاہتے ہیں اس لیے وہ سماج کا مطالعہ کرتے وقت اپنے اخلاقی ردعمل سے پیچھا چھڑانے کی عمداً کوششش کرتے ہیں لیکن اس میں وہ کماحقہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔وہ انسانی سماج ، اس کی فطرت اور اس کی ساخت کے ایسے قاری ہوتے ہیں جن کی قرات میں اپنے ردعمل کو پوشیدہ رکھنے کی مشق کے سبب ایک مخصوص قسم کی ریاکاری اور منافقت پیدا ہوجاتی ہے۔ شعوری طور پر اس منافقانہ قرات کے نتیجے میں تمام تر انسانی و سماجی علوم کا لاشعور (جو تحریر ی طور پر وجود میں نہیں رکھتا، آف دی ریکارڈا) غیر اخلاقی کثافت اور مختلف النوع تعصبات سے لبالب بھر جاتا ہے۔

تین

سائنسی تحقیقات کی بنیاد جذبہ تجسس پر ہے اس لیے سائنس داں مظاہر فطرت کا علم حاصل کر کے رک جاتا ہے۔ یہاں اس کے جذبہ تجسس کی تشفی ہو جاتی ہے۔ جذبہ تجسس کی تشفی کی بنیاد پر سوچا جائے تو مجرد سائنس کا نصب العین صرف اور صرف جاننے کے سوا اور کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ سائنس صرف اشیا کے جاننے کا عمل ہے خواہ اس عمل سے نوع انسانی کو فائدہ ہو یا نقصان۔ سیاروں اور ستاروں کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔ پانی کیسے برستا ہے، انسان کے جسمانی اعضا کے اعمال وظائف کیا ہیں۔ دن کیسے ہوتا ہے، رات کیسے آتی ہے۔ یہ سوالات عملاً معصوم ہیں۔ ان سے حیات و کائنات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ صرف جاننا یا مجرد علم دنیا کو نہیں بدل سکتا۔ علم کے ساتھ جب عمل کی قوت جڑتی ہے تو فلسفہ پیدا ہوتا ہے۔ فلسفہ زندگی کو ویسے کا ویسا قبول نہیں کرتا جیسی کہ وہ عملاً ہوتی ہے۔ وہ ‘‘ہونا چاہیے’’ پر عمل کرتا ہے۔ سائنس کی مدد سے وہ پہلے چیزوں کی کارکردگی کا علم حاصل کرتا ہے پھر ان چیزوں کو اپنے آرام و آسائش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بدلتا ہے۔ سائنس کے تمام تر سوالات چونکہ معصومیت کی انتہا پر ہوتے ہیں اس لیے وہ ہر معاملے کو جاننا چاہتی ہے۔ اور جاننے کے لیے تجربہ و مشاہدہ کا استعمال کرتی ہے۔ تجربہ و مشاہدہ یعنی مجرد فکر سے اوپر اٹھ کر اشیا کو دیکھنے، سونگھنے، چکھنے وغیرہ کی شرط لگاتی ہے۔ جبکہ فلسفہ ایسی کسی شرط سے بندھا ہوا نہیں ہے۔ وہ بے شرط ہے۔ اور فلسفہ کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی شرط سے بندھا ہوا نہ رہے۔ اگر وہ ہر معاملے میں دیکھنے سونگھنے اور چکھنے کی شرط لگائے تو پھر وہ فلسفہ نہ ہوگا بلکہ سائنس ہو گی جو اپنی کاوشوں کی بدولت عالم غیب کی چیزوں کو عالم شہادت میں لا دیتی ہے۔
سائنس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ چیزیں کیا ہیں، کیوں ہیں اور وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ وہ معروضی ہوتی ہے۔ جیسا کہ سائنسدانوں کا دعویٰ ہے۔ اگر سائنسدانوں کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر کہنا پڑے گا سائنس ازخود فطرت کو نہیں بدلتی، اس پر فتح نہیں پانا چاہتی۔ اس کو انسانوں کے حق میں استعمال (ایکسپلائٹ) نہیں کرتی۔ بلکہ یہ فلسفہ ہے جو سائنس کی مدد سے فطرت کو بدلتا ہے۔ سائنس ایک تحقیق کرتی ہے اور فلسفہ اس تحقیق کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً سائنس بتاتی ہے کہ پانی بھاپ کیسے بنتا ہے اور بھاپ میں کیا کیا قوتیں پنہاں ہیں۔ اورپھر انسان کی قوت فکر یعنی فلسفہ آگے آتا ہے اور سائنسی علم کا عملی انطباق کرتے ہوئے اس کا اچھا یا برا استعمال کرتا ہے۔ یہ انسان کی قوت اختراع ہے جو بھاپ کی قوت سے ریل کا انجن بناتی ہے۔ اور قوت اختراع کو ہم سائنس نہیں کہہ سکتے۔ سائنسی ایجادات و اختراعات میں کوئی نہ کوئی آئیڈیولوجی یا فلسفہ بالقوہ موجود رہتا ہے۔ سائنس تو وہ تھی جس نے انتہائی معصوم طریقے سے بھاپ کی نوعیت و ماہیت کا انکشاف کیا۔ گویا سائنسداں کے ذہن میں ایک معصوم سوال پیدا ہوا اور اس نے اس کے معصوم جواب کی تحقیق کی۔ یہ درحقیقت کسی نظام اخلاق سے متعلق آئیڈیولوجی یا فلسفہ ہی تھا جس نے سائنس کی معصومت کا استعمال یا استحصال کیا اور بھاپ سے وہ کام لیا جو وہ چاہتا تھا۔ یورینیم کے ایٹم میں پنہاں قوت کو کس نے آشکار کیا؟ سائنس نے۔ اور اس سے ایٹم بم کس نے بنایا؟ ٹکنالوجی نے۔ اور ٹکنالوجی کیا ہے؟ سائنس کا عملی انطباق یعنی قوت ایجاد و اختراع جس میں کوئی نہ کوئی آئیڈیولوجی یا فلسفہ موجود رہتا ہے۔پس ایک ہے غیر جانب دار سائنسی تحقیق اور دوسرا ہے جانب دار فلسفہ جو سائنسی تحقیقات کا استعمال کرتا ہے۔
سائنس چونکہ ازقسم محسوسات ہے اس لیے وہ آگے چلتی ہے اور فلسفہ اس کے پیچھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس فلسفہ کی رہنمائی کا کام انجام دے رہی ہے۔ سائنس کی حیثیت تو ایک روشن چراغ کی ہے فلسفہ جس کی روشنی میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اپنے ہاتھ میں سائنس کے اس چراغ کو پکڑے ہوئے فلسفہ جس طرف بھی رخ کرتا ہے چراغ کی روشنی بھی ادھر ہی پھیلیتی ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رہنمائی دراصل چراغ کی ہے۔ لیکن کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ امامت تو ابھی بھی اسی کے ذمے ہے جو سائنس کے چراغ کو تھامے ہوئے ہے۔ یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ سائنس دراصل فلسفہ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے۔ اور وہ جس طرح چاہے سائنس سے اپنا کام نکالتا ہے۔سائنس اور سائنسی طریقہ کار کے نام سے اس دھوکہ دہی سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یا تو فلسفہ خود گمراہ ہے یا عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ سماجی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا بھی یہی حال ہے۔ حالانکہ غالب اور برسراقتدار فلسفے سائنس کے ذریعے ذہنی و فکری طور پر وہ تباہی نہیں پھیلا سکے ہیں جو سماجی علوم کے ذریعے سے انہوں نے پھیلا دی ہے۔

چار

تمام فلسفہ عالم غیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اور تمام سائنس عالم شہادت سے۔ اور دنیا کے تمام معقولات و قیاسات عالم غیب سے متعلق ہوتے ہیں نہ کہ عالم شہادت سے۔ اور علم کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب سے۔ اور تمام تر انسانی و سماجی علوم زیادہ تر عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس ان کو علوم کہنا ایک غیر معقول امر ہے جس کی غیر معقولیت کوتسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔
محسوسات عالم شہادت کی بنیاد ہیں اور معقولات عالم غیب کی۔ محسوسات اور معقولات کے درمیان جس قدر فاصلہ ہوگا ہم حقیقی علم سے اسی قدر دور ہوں گے۔ حقیقی علم وہی ہے جس میں محسوسات اور معقولات کے درمیان فصل نہ ہو کر وصل ہو۔ جوں ہی کہ ان دونوں کے درمیان وصل ہوا علم وجود میں آ گیا۔ اس سے پہلے جو کچھ ہے وہ بس اٹکلوں اور قیاسات کے مرتبے پر ہے۔ دنیا میں تنازعات کی اصل وجہہ تجربات و محسوسات سے نہیں بلکہ قیاسات و معقولات ہیں۔ جو چیزیں محسوسات کی بنیاد پر اظہر من الشمس ہیں ان میں نہ کبھی کوئی اختلاف ہو سکتا ہے اور نہ ہوا ہے۔ تجربات و محسوسات کا انکار کون کر سکا ہے؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، تجربہ کیجے اور خود محسوس کر لیجیے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ سوشل سائیسیز یا سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے؟ تاکہ دنیا یہ یقین کر لے کہ ہمارے معقولات برحق ہیں۔ برحق ہیں کیونکہ محسوسات نے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔سائنسی طریقہ کار کا مطلب ہی یہ ہے کہ شک کی کوئی بات نہیں۔ ہم جا کر دیکھ آئے ہیں، محسوس کرآئے ہیں، یہی صحیح ہے جو ہمارے نظریے کی رو سے ثابت ہو رہا ہے۔ پس انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کی اہمیت محض اتنی ہے کہ وہ فلسفیانہ نظریات کو تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر پرکھنے کا بھرم قائم رکھے۔ لیکن یہ بھرم لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اوپر اور دور ہی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں اولیت محسوسات کو نہیں بلکہ معقولات و قیاسات کو حاصل ہے۔ انسانی معاملات و مسائل پر غور و فکر کے ذریعے ہر دور میں نظریات قائم کیے جاتے رہے ہیں اور بعد میں محسوسات یعنی سائنسی تحقیقات کی مدد سے انہیں پایہ ثبوت تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ کار ہے بھی نہیں۔
سماجی علوم میں ہی نہیں بلکہ سائنسی علوم میں بھی محسوسات کو اولیت حاصل نہیں رہی۔ نظریہ ہر حال میں مقدم ہے۔ کسی بھی امر کے اثبات کے لیے یہ ایک فطری طریقہ کار ہے۔ لیکن جب تک سائنسی طریقہ کار کی مدد سے کسی امر کا اثبات نہ ہو جائے تب تک اس کو سائنس کیوں سمجھا اور کہا جائے؟ جب ایک بار یہ معلوم ہو گیا کہ انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کی حیثیت کیا ہے اور قیاسات و معقولات کی کیا تو پھر انہیں ‘‘علوم’’ میں کیوں شمار کیا جائے؟ علم یعنی سائنس، علم یعنی محسوسات، یعنی ہر قسم کے شک و شبہ سے پرے۔ علم یعنی وہ چیز جس کو ہم آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور کانوں سے سن چکے ہیں۔ اور دیکھی اور سنی ہوئی باتوں سے انکار ممکن نہیں۔ کیا جملہ سماجی علوم کی یہی کیفیت ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ وہاں تو زیادہ تر معاملات و مسائل کے سلسلے میں ایک سے زیادہ نظریے موجود ہیں جن کی رہنمائی میں ہی سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تحقیقات انجام دی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سماجی علوم میں ہم قدم قدم پر اختلافی آرا سے دو چار ہوتے ہیں۔ سائنسی علوم میں ہم چند ایک چیزوں کو چھوڑ کر مشکل ہی سے مختلف فیہہ چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ سائنسی علوم میں متفق علیہ کا غلبہ ہے اور سماجی علوم میں مختلف فیہہ کا۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم سماجی علوم کو سماجی فلسفہ کے نام سے موسوم کرتے؟ لیکن ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ موجودہ انسانی و سماجی علوم کے نصب العین کے خلاف ہے۔
سماجی علوم کی ہر شاخ اپنی جگہ سائنس بننا چاہتی ہے۔ حتی کہ فلسفہ میں بھی بعض ایسے فکری دھارے (مثلاً ہوسرل کی فینومینولاجی) پائے جاتے ہیں جو اپنی فلسفیانہ کاوشوں کو بھی باضابطہ سائنس بنانا چاہتے ہیں۔ جب فلسفہ اس حماقت میں مبتلا تو تو پھر سماجی علوم کے متعلق کیا کہنا! بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ! بہر حال کہنا صرف اس قدر ہے کہ فلسفہ ہو یا سماجی علوم، سائنس بننا دونوں میں سے کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک ناممکن الحصول نصب العین ہے جس کی تکمیل تبھی ہو سکتی ہے جب علمائے سماجی سائنس کو مافوق الفطری قوتیں حاصل ہو جائیں۔

پانچ

سائنسی اور سماجی علوم کے نام سے جو کچھ طلبا و طالبات کو اسکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے اس میں علم کم اور قیاسات زیادہ ہیں خواہ وہ قیاسات کتنے ہی قوی یا حقیقت سے قریب ترین معلوم ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر پانچویں چھٹی کلاس سے ہی بچوں کو اسکولوں میں نظریہ ارتقا پڑھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اسکولوں اور کالجوں میں نظریہ ارتقا نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ خود اب میرا بھی یہی خیال ہے کہ نظریہ ارتقا کائنات میں زندگی کے حقائق کو سمجھنےکی طرف ایک اہم قدم ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک یہ قطعی طور ثابت نہیں ہو سکا اس لیے اسے باضابطہ طور پر فلسفہ ہی کہہ کر پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے نہ کہ سائنس قرار دے کر۔ جو چیز سائنسی معیارات پر پوری نہیں اترتی اس کو سائنس کہہ کر پڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
اونچے درجوں کی سائنس کی کتابوں میں خود اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقا ابھی تک مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔ لیکن نچلے درجوں تک یعنی دسویں تک تو اس کو سائنس کہہ کر ہی پڑھایا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کا پورا ماحول اور طرز استدلال نظریہ ارتقا کے برحق ہونے کا پروپیگنڈا کرتا ہے۔ سائنسی طور پر کسی امر کو اس وقت تک حقیقت نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کا اثبات محسوسات کی بنیاد پر نہ کر لیا جائے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا، سائنس کے اونچے درجوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور فلفسیانہ نظریات و قیاسات اور سائنسی حقیقت کے مابین فرق کیا جاتا ہے۔ لیکن تب تک بہت سارا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ طلبا کو یونیورسٹی تک آتے آتے دس بارہ سال گزر جاتے ہیں اور ان کا ذہن اس قدر پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اس سے اختلاف کرتے ہوئے کسی اور رخ پر نہیں سوچ سکتے۔ بہت کم طلبا ہوتے ہیں جو غیر جانب دار رہتے ہوئے نظریہ ارتقا کے سلسلے میں منطقی ریب و تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں۔
مناسب یہ ہوگا کہ جو چیزیں سائنسی طور پر ثابت شدہ اور مصدقہ ہیں، بار بار آزمائے جا چکے ہیں اسکولوں میں صرف انہیں ہی سائنس کہہ کر پڑھایا جائے اور بقیہ کو محض نظریات و قیاسات کے طور پر۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سائنسی علوم کی اسکولی تدریس میں بھی غیر سائنسی عناصر پائے جاتے ہیں جن کی بیخ کنی آزادی فکر کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔
یہ تو تھی سائنسی علوم میں علم کی کیفیت کے سلسلے میں ایک اصولی بات۔ اب آئیں انسانی و سماجی علوم کی طرف۔ علم کے نام پر محض قیاسات و نظریات پڑھانے کی نامعقول روایت کا تماشا اگر دیکھنا ہو تو بنیادی سماجی علوم میں سے کسی ایک کو اٹھا کر دیکھیے۔ اس میں قدم قدم پر نظریہ ارتقا کی گونج سنائی دے گی۔ ایک غیر ثابت شدہ نظریہ اس قدر اہمیت اخیتار کر گیا ہے کہ یہ تقریباً ہر سماجی علم کی بنیاد ہے۔ تاریخ کو بھی سماجی علوم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیاد بھی یہی غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ ماقبل تاریخ کے ابتدائی اسباق پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہو گا کہ آپ تاریخ کم اور حیاتیات زیادہ پڑھ رہے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نظریہ ارتقا غلط اور بے بنیاد ہے۔ میرا خیال ہے کہ زمین پر زندگی کو سمجھنے کے لیے اب تک کے تمام نظریات میں یہی سب سے زیادہ معقول اور حق سے قریب ترین نظریہ ہے۔ لیکن با ایں ہمہ یہ مکمل طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔ اس لیے علمی حزم و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو سماجی علوم کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ کیا اور کتنا فرق پڑے گا اگر تاریخ کی کتابوں میں انسانی زندگی کی ابتدا کو غیر جانب دار طور پر شروع کیا جائے؟ یا کم از کم نظریہ ارتقا کے خلاف جو دلائل دیے جاتے ہیں انہیں بھی اسی جوش و خروش اور تفصیل کے ساتھ درج کیا جائے؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ نصابی کتابوں میں حیات انسانی کی ابتدا سے متعلق مختلف اور متضاد نظریات کے تمام حامیوں کے دلائل کو بے کم و کاست بیان کر دیا جائے۔ اس سے خطرہ یہ ہے کہ کم عمر اسکولی طلبا کا ذہن گمراہ ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن یہ گمراہی کسی غیر ثابت شدہ صراط مستقیم سے زیادہ بہتر ہے۔ نصابی کتابوں میں مختلف و متنوع نظریات کو زیر بحث لانے سے بلاشبہ طلبا کنفیوز تو ہوں گے لیکن اسی کنفیوزن کی بدولت وہ مزید غور و فکر کی طرف مائل ہوں گے اور اپنے لیے زیادہ شعور کے ساتھ حیات انسانی کی ابتدا کے سلسلے میں کسی بھی نقطہ نظر کو اپنا سکیں گے۔ لیکن چونکہ موجودہ علمی و فکری روایت میں کلیت پسندانہ رجحانات کا غلبہ ہے اس لیے اس کے اندر کسی ایسے نصاب کو برداشت نہیں کیا جا سکتا جو مختلف و متضاد نظریات کی تعلیم کے ذریعے طلبا کے سامنے ایک سے زیادہ نظریہ یا فلسفیانہ متبادل پیش کر سکے۔ دنیا کے ہر اجتماعی نظام تعلیم و تربیت کا مقصد اپنے مقلدوں کو پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ان اغراض و مقاصد کو پورا کرتے رہیں جن کے پورا کرانے کے لیے اس اجتماعی نظام تعلیم و تربیت کو وجود میں لایا گیا ہے۔

25.06.2011