نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

فکر و نظر لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

احقاق حق کا صراط مستقیم

دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کی بقا و ترقی کا دارومدار بہت سی باتوں پر ہے۔ ان میں سے ایک ہے " اپنے عقیدے یا نظریے سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا اور اس کی خامیوں کی پردہ پوشی ہرگز نہ کرنا۔" لیکن یہ صرف ایک معقول طریقہ ہے اعلی درجے کی روش نہیں۔ اعلی درجے کی روش جس سے بڑھ کر کوئی اور راہ ہو ہی نہیں سکتی وہ کچھ یوں ہے۔ "اپنے عقیدے یا نظریے کے خلاف خود ہی غور و فکر کرتے رہنا اور جیسے ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خرابی یا غلطی معلوم ہو، اس کو فوری مشتہر کر دینا۔ اس طریقے کے مقابلے میں جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب ادنی اور پست درجے کے ہیں۔ ایک عالی دماغ شخص کے عقائد و نظریات کا یہی حال ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہی انہیں سخت تنقید و تنقیص کا ہدف بناتا ہے اور اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ہر لمحہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کب اس کو اپنے عقائد و نظریات کی کوئی کمی معلوم ہو اور کب وہ خود اسے سب سے پہلے سامنے لائے۔ اور اگر کوئی دوسرا اسے سامنے لائے تو وہ خود سب سے پہلے لپک کر اس کو قبول کرے۔ اگر ہم دنیا میں معرو...

عقیدہ کی تبلیغ یا صداقت کی جستجو؟

ادھر کچھ عرصے سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے ذہین افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتیں ادنی درجے کی جاہلانہ یا منتقمانہ بحثوں کی نذر ہوئی جا رہی ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں کہ وہ سوائے مزید لغویت پھیلانے کے کوئی فلسفیانہ کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو زندگی اور کائنات سے متعلق اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں اہم سنگ میل نصب کر سکتے تھے۔ میں یہاں کسی شخص کا خصوصیت سے نام نہیں لوں گا بلکہ چند باتیں عمومی طور پر احباب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

بے ‏سمتی

جو لوگ یہ دعوی کریں کہ ان کے پاس ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ماضی و حال کی تاریخوں میں اپنوں اور غیروں سے وہ دست و گریبان ہوں، ہر قسم کے علمی، تہذیبی,معاشرتی اور دیگر قسم کے مسائل میں وہ گرفتار ہوں، بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہونے کے بعد بھی وہ ٹیکنالوجی میں اس قدر پسماندہ ہوں کہ ابھی تک اپنی زبانوں میں کمپیوٹر سائنس کے لیے انسٹرکشن سیٹ آرکیٹکچر تک نہ لکھ سکے ہوں اور زندگی کے ہر شعبے میں سوائے خدا کی دی ہوئی فطری نعمتوں کو چھوڑ کر سخت تہی دامنی، محتاجی اور بیچارگی میں مبتلا ہوں، ایسے لوگوں سے کیا یہ نہیں پوچھنا چاہیے