نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آزادی فکر و عمل کا مقصود

ہماری معاشرتی اور تہذیبی بیماریاں کیا ٹھیک وہی ہیں جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں؟ یا بیماریوں کا سبب وہ ہے جو اکثر ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا؟ معاشرے میں چور، غنڈے، بدمعاش، دہشت گرد، جارحیت پسند جس صورتحال میں وجود میں آتے ہیں اس میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانی شخصیت کو گوں ناگوں طریقوں سے مسخ کرتی ہے؟ انسانی معاشرہ گروہوں کی شکل میں ہوتا ہے اور ہر گروہ کا اپنا ایک علیحدہ طریقہ زندگی ہے۔ زندگی کے بہت سے طریقے بہ یک وقت درست ہو سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سب میں انسانی مساوات اور آزادی اظہار و عمل کو اس حد تک ملحوظ رکھا گیا ہو کسی کو کسی کے قول سے دشنام اور فعل سے جسمانی گزند نہ پہنچے۔ لیکن یہ محض ایک قانونی قسم کی بات ہوئی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ خود انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کو کس سمت میں اپنی صلاحیتوں کا ارتقا کرنا چاہیے۔
انسانی زندگی کے مقاصد مختلف ہو سکتے اور ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ محض انسانی مساوات اور آزادی اظہار و عمل کی  اصولی رٹ سے کبھی کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ آزادی اظہار و عمل کا مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو مختلف غیر متشدد مقاصد کی سمت میں بسر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ پائے۔ اب اگر ایک شخص کے پاس زندگی سے متعلق کوئی اپنا مخصوص نقط نظر ہی نہ ہو اور محض اوروں کی دیکھا دیکھی کسی مقصد پر ایمان لا کر اس کی سمت میں چل رہا ہو، اس کو آزادی اظہار و عمل کی قدر و قیمت کیونکر معلوم ہو سکتی ہے۔
آزادی اظہار و عمل کا فروغ اسی وقت ممکن ہے جب انسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی انفرادی حیثیت میں غور و فکر اور مشاہدہ و مطالعہ کرے اور اپنی منفرد رائیں ہی قائم نہ کرے بلکہ آپس میں تبادلہ خیال بھی کرے۔ اسی وقت صحیح معنوں میں یہ احساس ہو سکے گا کہ آزادی اظہار و عمل کی کیا اہمیت ہے؟
جب تک کسی معاشرے میں یہ عمل نہ چلے، یعنی بڑی تعداد میں افراد کے اندر زندگی سے متعلق ذاتی اور خودساختہ نوعیت کا نقطہ نظر نہ پروان چڑھے، آزادی اظہار کا ہر نعرہ کھوکھلا اور سطحی اور مغرب کی جاہلانہ نقالی ہے۔
میں نے مغرب میں آزادی اظہار و عمل کی تاریخ کا کوئی گہرا مطالعہ نہیں کیا لیکن محض اپنے غور و فکر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ضرورت اسی وقت محسوس ہو سکتی ہے جب معاشرے میں ان
فرادی سطح پر غور و فکر کا گہرا عمل ایک طویل عرصے سے چل رہا ہو، یکے بعد دیگرے لوگ اٹھ اٹھ کر اپنی منفرد باتیں کہہ رہے ہوں اور اس کے لیے ان کا غور و فکر انہیں مجبور کرتا ہو نہ کہ گروہی عصبیت یا مذہبی و قومی غیرت اور حمیت۔ اور جو کچھ لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں کہہ رہے ہوں اس کے بدلے میں انہیں کچھ یا بہت دقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہو۔ اور اسی سبب سے فطری طور پر ان سب کے اندر یہ خیال پیدا ہوتا ہو کہ سب کو زندگی اور کائنات کے متعلق اپنی سی کہنے اور کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
تو جو لوگ ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں آزادی اظہار و عمل کی باتیں کرتے ہیں، ذرا ان کے شب و روز پر ایک نظر ڈالیے۔ کیا آپ پاتے ہیں کہ ان کے اندر زندگی اور کائنات سے متعلق کوئی منفرد فکر پائی جاتی ہے؟ یہ زندگی کیا ہے، کیوں ہے، کہاں سے آئی ہے، کہاں جائے گی، اور آخرکار اس کا انجام کیا ہوگا، ان سوالوں پر ان کی اپنی کوئی ذاتی نوعیت کی سمجھ ہے؟ یہ زیادہ تر ڈھول پیٹنے والے، اور مغرب کی نقالی کرنے والے ہیں جنہیں کسی نہ کسی گروہی عصبیت نے جکڑ رکھا ہے۔
ن ع خ:
Mai apke mazmoon k bahot bade hisse se ittefaq rakhta hun magar mujhe sirf itna kahna hai k agar koi azadana taor par fikar aur mutale k raoshni men zindagi aur kayenat k bare men apni 1 raaye khayem karta ho toh kya uska Munfarid hi hona lazmi hai ??? Kya azadana mutale aur gaor k baad koi aysi raaye nahi ban sakti hai jo insanoo k kisi aur bade groh se match karti ho ??? Aur agar azadana gaaor aur fikar k baad kisiki raaye kisi b bade groh ki raaye se match karti ho toh usko azadi e izhar ki utni ahmiyaat nahi rahegi ??
طارق صدیقی: دنیا میں جس طرح ہمشکل افراد ہوتے ہیں، اسی طرح یہاں ہمخیال افراد بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مطلوب نہیں کہ دنیا کا ہر شخص ہمشکل اور ہمخیال ہو۔
دو افراد اگر آزادانہ غور و فکر کریں تو کسی مسئلے میں وہ ایک رائے پر یقینا پہنچ سکتے ہیں۔ ایسے ہمخیال افراد کی تعداد اگر بڑھ جائے تو وہ ایک جماعت یا امت کی شکل لے لیتے ہیں۔ اور یہ بھی ہمیشہ ممکن ہے کہ بہت سے افراد اپنی جگہ آزادانہ غور و فکر کے ذریعے اس جماعت سے جڑتے رہیں۔ لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ اس جماعت یا امت میں کبھی کوئی اصولی یا فروعی اختلاف نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے کسی مذہب میں کوئی فرقہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ کسی بھی مذہب یا نظریے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ جائیے، اس میں درجنوں اختلافات آپ کو مل جائیں گے۔ خود اسلام میں سیکڑوں فرقے اب تک گزرے ہیں اور کوئی بڑی اور بنیادی اصطلاح اسلام کی ایسی نہیں ہے جس میں اختلاف نہ ہوا ہو۔  جب ایک شخص تعبیری نوعیت کے کسی ایک مسئلے پر غور و فکر کرے گا تو اس میں جتنی ممکن تعبیریں ہوں گی، ان میں سے کسی ایک کو وہ اختیار کر سکتا ہے۔ پھر زندگی کوئی ایک مسئلہ تو ہے نہیں، اس میں بیشمار مسائل ہیں، اور اس طرح بہت سے بنیادی تعبیری مسائل میں سے ہر ایک مسئلے میں اس کی رائے کسی بڑے گروہ کی رائے سے میل کھائے، اس کا امکان بہت ہی کم ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اصولاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص اپنے آزادانہ غور و فکر کی بنا پر فلاں مقدس کتاب یا فلاں بڑے گروہ کی باتوں سے صد فیصد اتفاق کرتا ہے لیکن عملا ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ آزادانہ غور و فکر بھی کریں اور کسی بڑے گروہ، قوم یا مذہب کی ہر بات سے آپ کو اتفاق بھی ہو۔
اگر کسی خاندان میں میں ہمشکلوں یا ملتے جلتے چہروں  کی تعداد بڑھ جائے تو یہ اخلاقاً کوئی مطلوب یا غیرمطلوب بات نہیں۔ لیکن عملاً ایسا بہت کم ہوتا ہے  کہ ماں، بہن، بیٹی یا باپ، بھائی چچا سب ایک ہی جیسے چہرے والے یا ہمشکل ہوں۔ فطرت کا نظام ایسا ہے کہ سب کے چہرے اور انگلیوں کے نشنات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح افکار و خیالات کا معاملہ ہے کہ ان کا ایک جیسا ہونا یا نہ ہونا، اخلاقاً کوئی مطلوب یا غیرمطلوب بات نہیں۔ البتہ حسن اور خوبی اس میں ہے کہ دنیا میں جس طرح بیشمار ملتے جلتے اور مختلف چہرے ہیں اسی طرح بیشمار ملتے جلتے اور مختلف افکار بھی ہوں۔ یہاں یہ بات خیال میں رکھنے کی ہے کہ کثرت کے ساتھ ساتھ وحدت کا دائرہ بھی خود بخود بڑھتا چلا جاتا ہے۔ آپ جتنے منفرد ہوتے جائیں گے، دوسروں سے انفرادی سطح پر اتنے ہی میل بھی کھائیں گے۔ اس کے بعد یکساں خیالات و رجحانات کی بنا پر انسانوں کے نئے نئے گروہوں اور شناختوں کا قیام عمل میں آئے گا یہاں تک کہ آگے چل کر ان میں بھی شکست و ریخت ہوگی اور ایک بار پھر نئی شناختیں قائم ہوں گی۔
بعض نادان دنیا میں عقائد، افکار اور خیالات کی کثرت کو مٹا کر وحدت میں بدلنا چاہتے ہیں، لیکن اس کا نتیجہ ٹھیک الٹا نکلتا ہے۔ اپنی بیوقوفانہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے جتنی وحدت وہ قائم کرنا چاہتے ہیں، اتنی کثرت ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ان کی دعوت و تبلیغ جارحیت و دہشت گردی کا روپ لے لیتی ہے اور اس کے سبب ایسا لگتا ہے کہ کسی معاشرے میں بڑی فکری وحدت ہے، حالانکہ وہ محض خوف و دہشت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آزادی فکر سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں ہوتا۔
میں اپنے اسٹیٹس میں جو بات کہہ رہا تھا اس کا تعلق اس سے تھا کہ کسی معاشرے میں آزادی اظہار و عمل کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ جب تک افراد کا اپنا نجی نقطہ نظر نہیں ہوگا، نجی سمجھ نہیں ہوگی، تب تک آزادی اظہار و عمل کی ضرورت کیا ہے؟ پھر تو یہ ایک فضول شئے ہے۔ صرف مغربی طرز کے کپڑے پہننے اور گانے بجانے کے لیے اس کی ضرورت ہے، یا صرف کسی مذہب پر آزادی سے چل  سکنے کے لیے اس کی ضرورت ہے، یا زندگی اور کائنات کے متعلق اپنے فکر ، مشاہدے اور مطالعے پر مبنی نجی نظریہ قائم کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی آزادی کے لیے اس کی ضرورت ہے؟ آزادی اظہار و عمل کا فلسفہ مغربی تہذیب میں فطری طور پر پیدا ہوا، وہاں ایک طویل عرصے تک حکما و فلاسفہ نے اپنے ذاتی و خود ساختہ نظریات کے تحفظ کے لیے اس کی تحریک چلائی۔ انہوں نے اپنے آبائی مذہب سے متاثر ہو کر اس کی تحریک نہیں چلائی، اور نہ انہوں نے اپنی مذہبی کتاب میں آزادی فکر و عمل کا یہ زریں اصول پڑھا۔ اس کے برعکس، مذہبی کتابوں میں آزادانہ رائے قائم کرنے والوں کو کافر و مرتد کہا گیا اور اہل مذہب نے ایسے لوگوں کی تکفیر کی۔ تو اس سیاق میں میرا سوال یہ تھا کہ جو لوگ آزادی اظہار کی رٹ لگا رہے ہیں وہ پہلے یہ بتائیں کہ خود انہوں نے زندگی اور کائنات کے متعلق کیا نظریہ اپنی نجی حیثیت میں اختیار کیا؟ کیا انہوں نے اپنے مذہبی یا نظریاتی گروہ سے کوئی انحراف کیا جس کو انگریزی میں ڈیسنٹ کہتے ہیں؟
آپ کا کہنا یہ ہے کہ ایک شخص آزادانہ کسی بڑے گروہ کے نتائج کو اپنے غور و فکر کی بنا پر قبول کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ ایسا کرتے ہیں۔ اور سب ایسا کرنے لگیں تب تو آزادی اظہار و عمل کی کوئی ضرورت ہی نہ رہ جائے۔ اس کی ضرورت تبھی پڑتی ہے جب بات وحدت فکر سے کثرت فکر کی طرف جانے کی ہو۔ اسی لیے کسی معاشرے میں فکری ترقی کو ماپنے کے لیے یہ پتا لگایا جانا چاہیے کہ اس کے اہل فکر افراد میں زندگی اور کائنات سے متعلق کوئی نجی فکر پرورش پا رہی ہے یا نہیں؟ یا وہ اپنے آبائی مذہب یا کسی بڑی جماعت یا گروہ کے تبلیغی اثر میں آ کر لکھی لکھائی باتوں کی پیروی کرنے کو آزادی اظہار و عمل سمجھتے ہیں؟
ن ع خ:
In last paragraph ypu have use of word " munfarid" two times . And in 1st reply to my question you have clarified the thing in a good way . So after that i am 10p% in agreement specially ur thoughts on " kasarat " and "wahdat" . I like that part the most in ur answer
طارق صدیقی:منفرد کے معنی مطلقاً یونیک یعنی یکتائے روزگار یا عدیم المثال کے نہیں ہوتے۔ منفرد اس شخص یا شے کو کہتے ہیں جو اپنی بعض خصوصیات کے سبب اپنے زمرے میں دوسروں سے ممتاز ہو، اور جس سے اس کی پہچان قائم ہوتی ہو۔
ایسی کسی خصوصیت کا یونیک یعنی عدیم المثال ہونا لازمی نہیں۔
و خ: کسی بھی معاملے میں غیر جانبدارانہ فکر کو ھم معاشرے میں قائم ھر دو یا دیگر افکار کا ھی تسلسل نہیں کہہ سکتے جبکہ گروھی فکر بہر حال نئی فکری پرواز کیلئے بنیاد فراھم کرتی ھے؟
طارق صدیقی: و خ صاحب، آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ کوئی بھی منفرد فکر خلا میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے سابقہ افکار و خیالات کا یا تو تسلسل ہوتی ہے یا اس کی ضد کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔
طارق صدیقی: فرد اپنی خصوصیات کے اعتبار سے کوئی یک و تنہا چیز نہیں ہے بلکہ وہ خود ایک مجموعہ ہے۔ جس چیز کو فرد کہتے ہیں وہ دراصل ایک جماعت ہے۔ بغیر اجتماع کے کوئی فرد وجود میں نہیں آ سکتا۔ اسی طرح جماعت بھی ہے کہ جب وہ وجود میں آ جاتی ہے تو وہ بھی اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر منفرد اور یکتا ہوتی ہے، اور فرد کی طرح ہی عمل کرتی ہے۔
فرد کا تصور جماعت کے تصور سے قائم ہے۔ جماعت، یعنی ایک سے زیادہ۔ اور جب تک ایک سے زیادہ چیزیں وجود میں نہ آئیں، تو ابتدائی "ایک" کو فرد بھی نہیں کہہ سکتے۔ مثلآ اگر کچھ نہ تھا تو خدا تھا، تو اگر کسی دور میں بس خدا ہی خدا تھا تو وہ کوئی فرد نہ ہوا کیونکہ موجود اشیا کی جماعت موجود نہیں۔ لیکن جب خدا نے لفظ کن کہہ کر اوروں کو پیدا کیا تو اب وجود کے اعتبار سے خدا موجود اشیا کی جماعت کا ایک فرد قرار پایا اور اس طرح اس کی ایک انفرادیت قائم ہو گئی یا وہ اور چیزوں سے منفرد قرار پایا۔ مثلآ جب خدا زمان، مکان اور مادہ کو عدم سے وجود میں لایا تو اب خدا چار موجودات کی جماعت کا ایک رکن ہوا اور اس اعتبار سے وہ منفرد ہوا۔ بقیہ تین موجودات کو پیدا کرنے سے پہلے خدا فرد نہیں تھا، اب اپنے سوا بقیہ تین کو پیدا کرنے کے بعد وہ موجودات کا ایک فرد ہو گیا۔ پس، خدا کی انفرادیت یہ ہوئی کہ اس نے سب موجودات کو پیدا کیا، یعنی بحیثیت خالق حقیقی وہ اوروں سے ممتاز ہوا لیکن موجودیت کی صفت کے اعتبار سے وہ اوروں کے مثل بھی قرار پایا لیکن موجودیت کی اس صفت میں بھی وہ اوروں سے ممتاز ہے کیونکہ وہ ہمیشہ موجود رہے گا اور دوسرے ہمیشہ موجود نہیں رہیں گے۔ تو خدا اس معنی میں قطعی یکتا ہے، اس طرح منفرد ہونے کو یونیک کہتے ہیں۔ لیکن منفرد ہونے کی اور بھی طرحیں ہیں۔ مثلا مادی ذرات کے اندر جو ظہور ترتیب ہے، اس میں کمی بیشی کے ذریعے نئے نئے عناصر اور مرکبات ظہور میں آتے ہیں. پانی ایک کمپاونڈ ہے لیکن وہ ہائیڈروجن  اور آکسیجن  سے مل کر بنا ہے جو دو گیسیں ہیں۔ ان دو چیزوں سے مل کر جو تیسری چیز بنی وہ رقیق ہونے کے اعتبار سے ہائڈروجن و آکسیجن سے مختلف ہو گئی۔ لیکن رقیق ہونے کے اعتبار سے وہ یکتا یا یونیک نہ ہو سکی کیونکہ پٹرول بھی رقیق ہوتا ہے۔ پس رقیقیت کی صفت کوئی ایسی صفت نہیں جو عدیم المثال ہو، البتہ پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن اور بقیہ سب گیسوں کے مقابلے میں منفرد کہہ سکتے ہیں کیونکہ گیس اور رقیق میں فرق ہے۔ لیکن پانی کا رقیق ہونا کوئی یونیک بات نہیں، یا یہ کہہ لیجیے کہ رقیقیت کوئی یونیک چیز نہیں کیونکہ یہ پانی کے علاؤہ بعض دیگر اشیا کی صفت بھی ہے۔ پس، جس چیز کو منفرد کہا جاتا ہے اس میں یونیک یعنی مطلق یکتا و یگانہ کا مفہوم بھی شامل ہے اور کسی صفت کی بنا پر دوسری بہت سی چیزوں سے ممتاز ہونے کا بھی۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...