منگل، 3 دسمبر، 2019

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیا, آیت نمبر 30)
آج میں اسی موضوع پر چند حقائق تاریخی ثبوتوں کے ساتھ پیش کروں گا. لیکن پہلے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمت اللہ علیہ کی کتاب انتباہات سے ایک اقتباس پڑھ لیں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ جدید ترین سائنسی نظریات کی بنا پر قرآن کی صداقت کی دلیل پیش کرنا ہرگز کوئی مستحسن رویہ نہیں ہے. حضرت مولانا تھانوی اپنی کتاب انتباہات میں فرماتے ہیں:
"... دوسری غلطی یعنی قرآن میں اس کے مسائل کو سائنس پر مشتمل ہونے کی کوشش کرنا۔ جیسا آج کل اکثر اخباروں اور پرچوں میں اس قسم کے مضامین دیکھنے میں آتے ہیں کہ جب اہل یورپ کی کوئی تحقیق متعلق سائنس کے دیکھی سنی, جس طرح بن پڑا اس کو کسی آیت کا مدلول بنا دیا اور اس کو اسلام کی بڑی خیرخواہی اور قرآن کے لیے بڑی فخر کی بات اور اپنی بڑی ذکاوت سمجھتے ہیں اور اس غلطی میں بہت سے اہل علم کو مبتلا دیکھا جاتا ہے۔ اور اس میں ایک غلطی تو یہی ہے کہ مسائل سائنس پر مشتمل ہونے کو قرآن کا کمال سمجھا اور وجہ اس کی یہ ہوئی کہ قرآن کے اصلی موضوع پر نظر نہیں کی گئی۔
قرآن اصل میں نہ سائنس کی کتاب ہے نہ تاریخ کی نہ جغرافیہ کی۔ وہ ایک کتاب ہے اصلاح ارواح کی جس طرح کتب طبیہ میں مسائل ہیں اصلاحِ اجسام کے۔ پس جس طرح کسی کتاب طبی کا پارچہ بافی و کفش دوزی کی صنعت و حرفت کی تحقیق سے خالی ہونا اس کے لیے موجب نقصان نہیں بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس تحقیق پر بلاضرورت مشتمل ہونا خود بوجہ خلط مبحث کے ایک درجہ میں موجب نقصان ہے اور خالی ہونا کمال ہے۔" (انتباہات از مولانا اشرف علیتھانوی)
اب آئیے, قرآن اور بگ بینگ کے موضوع پر بات کریں.
پہلے یہ سمجھ لیں کہ بگ بینگ کا نظریہ جس کو سائنس کا ایک بڑا عظیم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے, کوئی جدید تصور نہیں ہے. اس کی جڑیں یونانی اساطیر اور یونانی فلسفہ میں پیوست ہیں. اس نظریے کا مرکزی خیال متعدد یونانی ماخذوں میں ملتا ہے. مثلا یوریپیڈس کے ڈرامے میلانپے میں یہ الفاظ آئے ہیں:
.... The heaven and earth were once a single form.
پہلی صدی قبل مسیح کے یونانی مورخ دیودور الصقلی (Diodorus Siculus) نے اس تصور کو انیکساغورس سے منسوب کیا ہے اور بازنطین زیزیس نے اس تصور کو انیکساغورس کے ساتھ ساتھ امپیڈوکلس, ہیسیوڈس اور اورفیوس سے بھی منسوب کیا ہے.
حوالہ:
Edmonds, Radcliffe G., III. 2013. Redefining ancient Orphism: A study in Greek religion. Cambridge, UK: Cambridge Univ. Press. Page No 85
ہندوستان کے معروف مفکر رادھاکرشنن نے اپنی کتاب

The Principal Upnishads
کے صفحہ 38 پر اس نقطہ نظر کو یوریپیدس کے ساتھ ساتھ قدیم یونانی فلسفی انیکسامنڈر سے بھی منسوب کیا ہے:
Anaximander develops a scheme similar to the Orphic cosmology: (1) There is a primal undifferentiated unity. (2) A separation of opposites in pairs to form the world order. (3) A reunion of these sundered opposites to generate life. This formula is stated by Euripides (Melanippe, Fragment 484): "The tale is not mine; I had it from my mother: that Heaven and Earth were once one form, and when they had been sundered from one another, they gave birth to all things and brought them up into the light.'
یعنی انیکسامنڈر نے اورفیائی تصور کائنات سے ملتا جلتا منصوبہ پیش کیا ہے جو یہ ہے کہ (1) ایک ابتدائی غیرمنفک وحدت تھی (2) یہ وحدت اضدادی جوڑوں میں منقسم ہو گئی جس سے نظام عالم نے اپنی ہستی پکڑی (3) ان اضدادی جوڑوں کے ایک بار پھر ملنے سے زندگی وجود پذیر ہوئی.
یہ فارمولا یوریپیڈس (ملانپے, فریگمنٹس 484) میں بھی مذکور ہوا ہے. ... آسمان اور زمین کبھی ایک ہیئت تھے, اور جب وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے تو ان کے سبب تمام چیزیں پیدا ہوئیں اور روشنی میں آئیں.
حوالہ:
Radhakrishnan, Sarvepalli. 1913. The principal Upanishads. London: George Allen & Unwin. Page No 38
میں نے مزید تحقیق کی تو دیودور الصقلی, جس کا ذکر اوپر آیا, اس کے تاریخی متن میں اس تصور کا درج ذیل الفاظ میں تذکرہ ملا:
For whereas all things at the first were jumbled together, Heaven and Earth were in one Mass, and had the one and the same Form: But afterwards (they say) when Corporeal Beings appeared one after another, the World at length presented itself in the order we now see ...
حوالہ:
https://books.google.co.in/books?id=18NuQDkB0dMC&pg=PA1&dq=%22For+whereas+all+things+at+the+first+were+jumbled+together%22+diodorus&hl=ur&sa=X&ved=0ahUKEwjJ3v_1kpLpAhV6zzgGHevhDTgQ6AEICDAA#v=onepage&q=%22For%20whereas%20all%20things%20at%20the%20first%20were%20jumbled%20together%22%20diodorus&f=false
غرض ہم نے دیکھا کہ یہ نکتہ کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے, بعد ازاں جدا ہوئے, یہ سائنس کی کوئی ایسی معجزاتی تحقیق نہیں کہ بگ بینگ تھیوری سے پہلے لوگ اس کو نہ جانتے ہوں۔ یہ عقیدہ ہزاروں سالوں سے چلا آ رہا ہے, بیسویں صدی میں سائنسدانوں کو صرف یہ کامیابی ملی ہے کہ انہوں نے جدید ترین فلکیاتی آلات سے اس سمت میں مزید یقین بہم پہنچایا ہے تاہم اس کے باوجود یہ ابھی تک صرف ایک نظریہ ہی ہے. اور کبھی بھی اس کا خاتمہ ہو سکتا ہے. سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں, اس لیے یہ خواہش کہ کاش ہماری مذہبی کتاب میں بھی جدید ترین سائنسی نظریات کی گنجائش نکل آتی, ایک غیر موزوں ہی نہیں غیر محتاط خیال بھی ہے. کیونکہ اگر ہم نے یقین کر لیا کہ ہمارے بعض مذہبی عقائد سائنس سے ثابت ہیں اور آگے چل کر اگر خود سائنس بدل گئی تو کیا ہوگا؟ البتہ ہم کو اگر سائنسی تحقیقات سے ایسی ہی گہری دلچسپی ہے تو ہم خود آزادانہ ایک سائنسی نظریہ اور تحقیق پیش کر کے اس ہر بجا طور ہر فخر محسوس کر سکتے ہیں.
مذکورہ بالا ماخذوں سے جو اقتباسات میں نے پیش کیے ہیں, ان میں ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس طرح "آسمان اور زمین" کی لفظیات میں اولین تخلیق کا ذکر ان میں کیا گیا ہے بعینہ اسی طرح قرآن میں بھی "آسمان اور زمین" کے ساتھ کہا گیا ہے:
اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ (الانبیا, آیت نمبر 30)
قدیم اساطیری و فلسفیانہ تصورات اور قرآن کریم دونوں "آسمان اور زمین" کی لفظیات میں اس لیے بات کرتے ہیں کہ ازمنہ قدیم اور قرون وسطی میں یہی لفظیات رائج تھیں. لوگ اسی طرح کائنات کو سوچتے تھے اس لیے اسی طرح کلام کیا گیا.
اب رہا یہ سوال کہ سابقہ اساطیری و فلسفیانہ کتابوں کی طرح قرآن کریم میں بھی یہ تصور کیوں پایا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانے میں اہل علم کا جو اعتقاد ہوتا ہے اسی کے اعتبار سے مذہبی کتابیں بھی نازل ہوتی ہیں اور وہ بنیادی طور پر یہ بتاتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ تم یہ جو سمجھ رہے ہو کہ کائنات کی ابتدا یوں نہیں یوں ہوئی ہوگی تو اس ابتدا کی تہہ میں کارفرما سبب دراصل رب العالمین کا ہے, اور رب وہ ہے جو کائنات کے نظام کو, خواہ تم کو وہ جیسا بھی نظر آئے, چلا رہا ہے. اس رب اور پاک پروردگار کو تم اصطلاحی طور پر خدا کہو, گاڈ کہو یا اللہ, بات ایک ہی ہے. یعنی مذہبی کتاب یہ نہیں بتاتی کہ کائنات کا راز کیا ہے, اور یہ کیونکر وجود میں آئی, اگر خدا تعالی ہم کو یہ بتا دے تب تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے. پس, مذہبی کتابیں ہم کو یہ بتاتی ہیں کہ تم اگر اپنی عقل سے کائنات کی ابتدا اس طرح سے ہونا سمجھ رہے ہو تو یہ مت سمجھنا کہ یہ کوئی کھیل تماشہ ہے اور بلاارادہ و الل ٹپ یہ سب کچھ واقع ہو رہا ہے بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک صاحب ارادہ اور فعال ہستی کے اثر سے واقع ہو رہا ہے. اس کا ایک عظیم مقصد ہے جس کو سمجھنے کی کوشش تم کر سکتے ہو لیکن ہر حال میں یاد رکھنا کہ زندگی عشق و محبت اور امن و شانتی, صلح و آشتی, باہمی ہمدردی اور وسیع المشربی سے عبارت ہے. ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے. سب کی آزمائش اسی میں ہے کہ کارخانہ کائنات کو کارعبث نہ سمجھیں بلکہ اس کی حکمتوں میں فکر و تحقیق کریں.
اس تحقیق سے ہم کو یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہم کَبھی اپنی مذہبی کتاب کے متعلق یہ نہ کہیں کہ اس میں تو اتنے سو یا ہزار سال پہلے ہی آج کی سائنسی تحقیقات کا حاصل پیش کر دیا گیا تھا. اس قسم کی باتوں سے ذہن بھٹک کر غلط راہ ہر لگ جاتا ہے اور ہم مذہبی کتابوں میں تزکیہ و تصفیہ قلب کے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ان سے جدید ترین سائنسی تحقیقات برامد کرنے لگ جاتے ہیں. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ دین میں کچھ ترقی ہوتی ہے اور نہ دنیا حاصل ہوتی ہے.

اتوار، 31 مارچ، 2019

مذہب کا مستقبل

آج سے کئی سال قبل ایک دوست نے مجھ سے کئی سوالات پوچھے تھے لیکن میں نے ان کا جو جواب دیا اس کے اندر نظم اور ربط کی کمی تھی، اور زیادہ تر اس وجہ سے کہ میرے اندر ان تمام سوالات کا جواب دینے کی علمی صلاحیت نہیں تھی۔ اس لیے میں اپنا جواب ان کو پوسٹ نہیں کر سکا۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا:
کیا اپ سمجہتے ہیں که مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت نہیں ہو گی؟
اس سوال کے جواب میں جو کچھ میں نے لکھا وہ یہ تھا:

مستقبل کے انسان بھی زمانہ حال کے انسانوں سے ہی برامد ہوں گے. اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے نزدیک مذہب کی حیثیت کیا ہے. تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت انسانوں کی اکثریت مذہب پر ہی چلتی ہے. انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتی.
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مذہبی جنگ و جدل اور دہشت گردی کے سبب موجودہ صورتحال کے نتیجے میں لوگ مذہب کو ترک کر دیں گے. یہ کسی حد تک درست ہے کہ لوگ مذہب کے منفی نتائج کو دیکھ کر ایسا ضرور کریں گے, اور بہت سے لوگوں نے ایسا کیا بھی ہے, لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ مذہب کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا. میں بھی بہت دنوں تک ایسا ہی سمجھتا رہا لیکن بعد میں مجھے اس نقطہ نظر کو ترک کرنا پڑا. اس کے کئی اسباب ہیں جنہیں میں درجِ ذیل طور پر لکھتا ہوں:
1. پچھلے ادوار میں مذہب ایک علمی ضرورت بھی تھا اور معاشرت کی بنیاد بھی. اب فلسفیانہ اور سائنسی علوم کی زبردست ترقی کے سبب مذہب کا تعلق حصولِ علم سے بہت کم رہ گیا ہے, البتہ مذہب اب بھی معاشرت کی بنیاد ہے, اور مذہبی عقائد, خواہ وہ کتنے ہی غیرمعقول یا غیرمنطقی نظر آتے ہوں, آج بھی ہم عقیدہ انسانوں کو باہم جوڑتے ہیں. پیدائش اور موت کی رسوم, نکاح و طلاق کے طریقے, اور اجتماعی جشن (مثلاً کرسمس, عید, ہولی دیوالی) کا انعقاد وغیرہ مذہب کو باقی رکھنے کا کام کرتے ہیں. انسانوں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی ہے اور عقائد کی بنیاد پر قوموں, ذیلی قوموں اور فرقوں میں منقسم ہے. اور تمام فرقوں کے لوگوں میں ایک بڑی تعداد ایسی پائی جاتی ہے جو مذہب سے متنفر ہے لیکن اس کے باوجود ایسے لوگوں کی زندگی بھی مذہبی ہی ہے کیونکہ وہ اپنی پیدائش سے لے کر موت تک مذہبی رسومات ہی کے زیرِ نگیں ہیں, وہ اپنے ہم مذہب لوگوں میں مذہب کی عائد کردہ طریقوں اور ممنوعات و محرمات کا لحاظ رکھتے ہوئے نکاح کرتے ہیں, اپنے ہم مذہب لوگوں کے طریقے سے اپنے ہاں پیدائش, موت کے رسوم کا اہتمام کرتے ہیں (ختنہ, منڈن, تدفین، داہ سنسکار وغیرہ), مذہبی خوشیوں یعنی عیدوں میں شرکت کرتے ہیں, اور یہ سب رسوم و قیود ایسی ہیں کہ اجتماعی طور پر ان کے تسلسل میں کوئی ٹوٹ نہیں ہے, گو شخصی انحرافات ہر مذہب کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں لیکن منحرفین کی نسلیں بہت جلد قوم کے مرکزی دھارے سے آ کر مل جاتی ہیں. ان مظاہر کے مشاہدے کے بعد ایک شخص اگر یہ سمجھتا ہو کہ مذہب کا خاتمہ ہو جائے گا تو وہ ایک بہت بڑی نادانی میں مبتلا ہے. مذہب قائم ہے عوام الناس میں رائج سنتوں یعنی پٹے ہوئے راستوں کے صراط مستقیم پر. اور ٹیڑھا راستہ اختیار کرنے والے چند لاکھ ملاحدہ ایک مذہب کے عوام الناس کو اس سنت سے منحرف نہیں کر سکتے. چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جس قدر غالی ملاحدہ مذہب کو فنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں, مذہب اسی قوت سے عوام پر اپنی گرفت بڑھاتا جا رہا ہے, خاص طور سے اہلِ اسلام میں مذہبی بنیاد پرستی ساری دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں دروں مذہبی اور بین مذیبی کشمکش میں گرفتار ہیں. پھر یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی جس تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے, اسی تیزی کے ساتھ الحاد بھی بڑھ رہا ہے. لیکن مذہب و الحاد کے تناسب میں بالترتیب 9 اور 1 کا تناسب بھی معلوم نہیں ہوتا. اس صورتحال میں رہ کر اگر آپ غور کریں تو پائیں گے کہ مذہب کا خاتمہ مشکل ہی نہیں, ناممکن بھی ہے.
2. مذہب اس لیے باقی نہیں ہے کہ اس کے ماننے والے حق و صداقت یا علم کے حامی ہیں, بلکہ اس کے قائم رہنے کا اولین سبب وہ معاشرتی, جماعتی اور تہذیبی بنیاد ہے جو مذہب فراہم کرتا ہے. مذہبی شخص علمی نکتوں کو نہیں سنتا بلکہ جماعتی عصبیت کی بنیاد پر متحرک ہوتا ہے. جماعتی عصبیت ایک طرف ایک مذہب یا فرقہ کے انسانوں کو باہم جوڑتی ہے تو انہیں دوسرے مذاہب کے انسانوں سے توڑتی اور کاٹتی بھی ہے. یعنی مذہب علمی حقیقت سے زیادہ اجتماعی اور گروہی حقیقت ہے. اور جہاں گروہی عصبیت کارفرما ہو, وہاں علمی سوالات کی کوئی وقعت نہیں.
3. یہ نکتہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مذہب انسان کی مابعد موت نجات کے متعلق کچھ عقائد کامل یقین کے ساتھ پیش کرتا ہے. فلسفہ اور سائنس میں انسان کی مابعد موت نجات پر اتنے شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا. زندگی اور کائنات کا وجود کیوں ہے؟ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے, انسان کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا, ان سوالات کا جواب دینا معاشرتی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے قطعی ضروری ہے. ان سوالات کے جواب سے عاری معاشرہ کے افراد کے درمیان کوئی جذبِ باہم نہیں رہ سکتا.چنانچہ اقبال نے ٹھیک ہی کہا:
قوم مذہب سے ہے, مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں, محفل انجم بھی نہیں
فلاسفہ و ملاحدہ کے سامنے سب سے بڑا سوال اگر یہ ہے کہ مذہب کا خاتمہ کیسے کیا جائے تو انہیں مذکورہ بالا سوالات کا جواب بالکل یقین کے ساتھ دینا ہوگا, یعنی ایسے نئے عقائد کی تخلیق کرنی ہوگی جو انسانوں کے درمیان جذبِ باہم کی کیفیت کو پیدا کرے. اور جوں ہی کہ ایسے نئے عقائد وجود میں آئے, ایک نئے مذہب کی داغ بیل پڑ جائے گی, اور ان عقائد کے خلاف کچھ دوسرے عقائد کی پیشکش ممنوع قرار دے دی جائے گی. کیونکہ مسئلہ یہ نہ ہوگا کہ کون سا عقیدہ برحق ہے بلکہ یہ ہوگا کہ کون سے عقیدے پر ملاحدہ کے معاشرہ اور تہذیب کی بنیاد قائم ہے. اور جیسے ہی کوئی عقیدہ اس حد تک مقتدر ہو جائے کہ وہ جماعت کی بنیاد سمجھا جانے لگے, ویسے ہی اس پر تنقید کا باب بند ہو جائے گا, اس عقیدہ کو پیش کرنے والے شخص کا مذاق اڑانا ممنوع ہوگا. یہ پھر وہی صورتحال ہوگی جس سے آج کے اردو ملاحدہ بھی متنفر ہیں.
4. اب تک آپ بھی اس حقیقت تک پہنچ چکے ہوں گے کہ مرکزی مسئلہ زندگی اور کائنات سے متعلق ان ابتدائی سوالوں کا ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کے حتمی جوابات چاہتا ہے, تاکہ اپنی اجتماعی زندگی کو ان جوابات کے اعتبار سے سنوار سکے. لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان سوالات کا کوئی ایک جواب نہیں ہے, اور اس لیے نہیں ہے کہ خود انسانی عقلوں اور طبعیتوں میں اختلاف ہے. ہر عقیدے پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے, اور ہر عقیدے کو طنز و استہزا کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے, اور اس کے مقابلے میں ایک مختلف عقیدہ پیش کیا جا سکتا ہے. اور اس سب سے کسی انسانی جماعت کا شیرازہ بکھرتا ہے, یا اس سے ٹوٹ کر نئی جماعتیں بنتی ہیں, پھر ان نئی جماعتوں میں مزید عقائدی نوعیت کی شکست و ریخت ہوتی ہے, اور مزید نئی جماعتیں ظہور میں آتی ہیں.
5. اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ زندگی اور کائنات سے متعلق بنیادی سوالوں سے فرار حاصل کیا جا سکتا ہے اور مذہب کو اجتماعیت کی بنیاد سے بے دخل کیا جا سکتا ہے, اور خالص دنیوی مقاصد کے تحت ایک قوم کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے, تو ممکن ہے ان کا سمجھنا صحیح ہو, لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان سوالات سے فرار حاصل کرنا ممکن نہیں, البتہ یہ ممکن ہے کہ جماعت کی بنیاد ان سوالوں کے جواب پر نہ ہو کر کسی دوسری بنیاد پر ہو. مثلاً جغرافیائی خطہ, زبان, مجرد تہذیبی, تمدنی اور ثقافتی روایات, تو یہ سب بھی کوئی مستقل بنیادیں نہیں ہیں, اور یہ بھی شکست و ریخت سے دو چار ہوتی رہتی ہیں.
6. اس سلسلے میں ایک سوال یہ ہے کہ فلسفیانہ سطح پر نوعِ انسانی کو ایک جماعت بن کر رہنا چاہیے یا متفرق جماعتیں بن کر. نوعِ انسانی کا متفرق جماعتیں بن کر رہنا تو ایک سامنے کی بات ہے, لیکن ذرا سے غور و فکر کے بعد ہی معلوم ہوجاتا ہے سارے انسانوں کا ایک جماعت بن کر رہنا ممکن نہیں, انسان گروہ در گروہ منقسم ہو کر ہی زندگی گزار سکتا ہے. اس لیے وہ لوگ غلطی پر ہیں جو متفرق جماعتوں کو مٹا کر تمام نوع انسانی کو ایک قوم بنا دینا چاہتے ہیں.
7. اب آئیے, اس سوال پر غور کریں کہ مستقبل کے انسان کو مذہب کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ نہ انسان ایک ہے, اور نہ مذہب ایک ہے. زندگی اور کائنات کے سوالوں کا جواب بھی ایک نہیں ہے. اس لیے سوال مستقبل کے انسان کا نہیں بلکہ "انسانوں" کا ہے. انسانوں کا جماعتوں میں منقسم ہونا بھی ایک حقیقت ہے. اور انسانی جماعت کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے, زندگی اور کائنات سے متعلق سوالات کا جواب بھی کسی انسانی جماعت کی بنیاد بن سکتا ہے, اور زبان, نسل, جغرافیائی خطہ, مجرد تہذیب و ثقافت, روایتی مذاہب اور جدید ترین نظریات بھی انسانی جماعتوں کی بنیاد بن سکتے ہیں. البتہ مذاہب یا نظریوں اور فلسفوں کی بنا پر جو قومیں وجود میں آئیں گی, وہ زیادہ دیرپا ہوں گی. کوئی مذہبی یا غیرمذہبی جماعت ایسی بھی وجود میں آ سکتی ہے جو اپنے عقائد میں ہمہ وقت سائنسی اور فلسفیانہ نوعیت کی تحقیقات کے ذریعے ترمیم کرتی رہے, لیکن ایسی جماعتوں میں ذیلی جماعتیں اور فرقے بکثرت ظہور میں آئیں گے. اس طرح نوعِ انسانی کو کسی ایک عقیدے یا جماعت کا پابند رکھنا ممکن نہیں ہوگا.
رہی بات روایتی مذاہب کے باقی رہنے کی تو میرا خیال ہے کہ وہ ایک مزار کی طرح باقی رہیں گے. روایتی مذاہب جامد ہوتے ہیں اور اپنے اندر کسی تغیر کو اصولاً راہ نہیں دیتے. جیسے ہی وہ کسی اصولی تغیر کو برداشت کریں گے, ان کا پچھلا مذہبی اصول باطل ہو جائے گا. مثلاً اہلِ اسلام میں جو لوگ اب صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں اور حدیث سنت کی حجیت سے دست بردار ہو چکے ہیں, ان کے لیے اسلام کا یہ قدیم اور اصلی اصول باطل ہو چکا کہ شرعی احکام معلوم کرنے کے ماخذ چار ہیں: قرآن, سنت, اجماع اور قیاس و اجتہاد. حدیث و سنت اور اجماع کی حجیت سے انکار ان اہلِ اسلام نے جدید مغربی عقل کے ذریعے اٹھائے گئے ناقابلِ شکست اعتراضات کے بعد کیا ہے. حدیثوں سے ثابت ہے کہ ذی روح کی مصوری حرام ہے, مجسمہ سازی نہیں کرنی چاہیے, عورت ناقص العقل ہے, جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی, یا 999 فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے وغیرہ. اس قسم کے مذہبی تصورات سے سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے مابعد مودودیوں اور غامدیوں کے لیے حدیث و سنت کی حجیت سے انکار کرنا, یا متنوع تاویلات کے ذریعے ان حدیثوں سے پیدا ہونے والے سوالات کو تحلیل کر دینا بالکل ضروری ہے. ایسا کرنے کے ذریعے یہ لوگ اسلام کو مغربی نظریہ اور فلسفہ کے مقابلے میں ایک قابلِ عمل سیاسی آئیڈیولوجی بنانا چاہتے ہیں تاکہ اہلِ مغرب اسلام کو قبول کر سکیں. لیکن اہلِ مغرب اتنے کم علم تو نہیں اور نہ ہمارے ہاں کے علما و فضلا اتنے کم علم ہیں کہ اس قسم کی لیپاپوتی کو نہ سمجھیں گے. مذہب میں غرب زدگی پر مبنی تجدد پسندی کا حشر بہت برا ہوگا, لیکن مابعد مودودیوں اور غامدیوں کو اس کا شعور نہیں ہے.
مغرب زدہ تجدد پسندوں کے ملیامیٹ ہو جانے کے بعد ہماری نظر روایتی اسلاموں کی طرف اٹھے گی اور چونکہ اس کا ہر حکم مغربی جدیدیت کی پیدا کردہ علمی و تکنیکی ماحول میں قابلِ قبول نہ ہوگا, مثلاً ذی روح کی مصوری و سنگتراشی, تو شریعت کا یہ حکم آپ سے آپ معطل ہو جائے گا. اس قسم کے تعطل کو اسلام کی شکست نہیں سمجھنا چاہیے, خواہ یکے بعد دیگرے اسلام کے کتنے ہی احکامات ناقابلِ عمل ہوتے چلے جائیں. مابعد مودودیوں اور غامدیوں کو اپنی مغرب زدگی میں یہ یقین نہیں آتا کہ یہ احکامات جو دورجدید میں آ کر معطل ہو گئے, اللہ تعالی کی طرف سے ہو سکتے ہیں, ان کی نظر میں آخر خدا تعالی کیونکر ایسے ناقابلِ عمل احکامات صادر کر سکتا ہے؟ چنانچہ وہ اسی مذہبی متن سے تعبیری و تاویلی کھینچ تان کے ذریعے اس چیز کا جواز نکال لیتے ہیں جس مذہبی متن سے گزشتہ چودہ سو سالوں تک اس چیز کو حرام کیا جاتا رہا. ظاہر ہے یہ ایک بڑی شرمناک بات ہے, لیکن جب شرم ہی کو طاق پر اٹھا کر رکھ دیا تو اب جو چاہو کرو, اسلام کو مغربی عقل کی پیدا کردہ صورتحال میں بذریعہ تاویل جو چاہو بنا دو, لیکن علمی سطح پر اس کی پرِ کاہ کے برابر اہمیت نہیں.
8. اب سوال ہے کہ روایتی مذاہب جو مغربی ماحول میں ناقابلِ عمل ہو گئے, کیا وہ زندہ رہیں گے؟ تو دنیا میں ایک اسلام ہی نہیں, بہت سے مذاہب ہیں جو زندہ ہیں, اور فوسل کی صورت اختیار کر چکے ہیں. مذہب کا علمی کردار اب چونکہ بہت کم باقی رہ گیا ہے, اور معاشرتی کردار ابھی باقی ہے, اور شاید ہمیشہ باقی رہے, اس لیے مذہب کا تعلق فکر و عقیدہ سے کم اور مذہبی روحانی شخصیات سے زیادہ ہو گیا ہے. چنانچہ مذہبی احساس اب آپ کو تبلیغی سنٹروں میں نہیں بلکہ مزارات اور آستانوں میں دکھائی دے گا. یہ اجمیر و کلیر اور نظام الدین کی گلیوں میں جلوہ فگن ہے. محتاج اور بے بس انسانوں کے انبوہ ان مزارات پر حاضری دیتے اور اپنی روحانی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں. استاد نصرت فتح علی خاں اور دیگر فنکاروں کی صوفی قوالیاں اور گانا بجانا اس بات کے شاہد ہیں کہ مذہب کا یہ تصور مسلمانوں میں بہت مقبول ہو چکا ہے. ان قوالیوں کو سننا اور ان سے حظ اٹھانا ہی اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ اب مذہب اور مزار لازم و ملزوم ہو چکے. اور جن لوگوں کو اپنی وہابیانہ آئیڈیالوجی پر بڑا غرہ ہے, وہ صوفی میوزک کا متبادل پیش کر کے دکھائیں. اور خالص بادہ توحید کی بنیاد پر پیش کر کے دکھائیں۔ اور میرا خیال ہے وہ نہ کر سکیں گے۔
پس, روایتی مذہب اپنے احکام کی حد تک معطل ہونے کے بعد متصوفانہ رنگ میں ظاہر ہوگا, اور قوم کو متحد کرے گا, یہ متصوفانہ مذہب نہ فلسفہ و سائنس کا دشمن ہوگا اور نہ خواتین پر کوئی ڈریس کوڈ لادے گا اور نہ ایک مذہبی آئیڈیولوجی کی پیش کش اور تبلیغ کے ذریعے دنیا کی دوسری قوموں پر غلبہ حاصل کرنے کی پرامن دعوتی جدو جہد سے لے کر مذہبی جدال و قتال کی سچویشن پیدا کرے گا.
9. آپ کے سوال کا بالکل ٹو دی پوائنٹ جواب دینا, دو اور دو چار کی طرح, فی الوقت میرے لیے بہت مشکل ہے, لیکن اگر اس سلسلے میں مزید سوالات سامنے رکھے جائیں تو ممکن ہے اس بحث کے کئی گوشے مزید روشن ہوں۔

ہفتہ، 23 مارچ، 2019

سر سید سے دو قدم آگے: ڈاکٹر اسرار احمد کا انکار حدیث

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم, عصر حاضر کے ایک تجدد پسند رجحان رکھنے والے مفسر قرآن ہیں. انہوں نے انکار حدیث کی انوکھی راہ نکالی ہے. ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیات جن میں سائنسی مضامین بیان ہوئے ہیں, ان کے سلسلے میں اسلاف (صحابہ, تبع تابعین, مفسرین وغیرہ) کی رائیں تو ایک طرف, خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی قطعی نہیں ہوگا. ڈاکٹر صاحب کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

"...قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے, نہ سائنس کی ہے نہ ٹیکنالوجی کی ہے. اس حوالے سے ایک بڑا منطقی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے اسلاف نے قرآن کی ان آیات کا کوئی خاص مفہوم معین کیا اپنے دور کی معلومات کی سطح پر, ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں. سائنسی فینومنا کو جو سائنسی ترقی ہو رہی ہے اس کے حوالے سے سمجھیں گے. یہاں تک کہ اب آخری بات عرض کر رہا ہوں, خود حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھی اس میں قطعی نہیں ہوگا. یہ بات بہت ثقیل اور گراں گزرے گی بہت سے لوگوں پر. سائنس اور ٹکنالوجی میں اگر حضور کی کوئی حدیث بھی سامنے آ جائے تو اس کو بھی ہم کوئی دلیلِ قطعی نہیں سمجھیں گے. اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک واقعہ بہت اہم ہوا حضور کی زندگی میں. حضور جب ہجرت فرما کر تشریف لائے مدینہ منورہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضور کی پیدائش مکے کی, ساری زندگی آپ نے وہاں گزاری, وہ وادی غیر ذی ذرعہ ہے, وہاں کوئی پیداوار, کوئی زراعت, کوئی کاشت ہوتی ہی نہیں تھی, آپ کو کوئی تجربہ سرے سے نہیں تھا, ہاں تجارت کا تجربہ تھا, بھرپور تجارت کی تھی, یہاں آئے تو آپ نے دیکھا کھجوروں کے سلسلے میں انصار مدینہ تعبیر نخل, وہ ایک اصطلاح ہے, کھجور ایک ایسا پودا ہے جس کا ایک فی میل فلاور ہوتا ہے اور ایک میل علیحدہ, اب میل فلاور اور فی میل فلاور ان دونوں کو قریب لے آئیں, تو اس سے اس بات کا زیادہ امکان ہو جاتا ہے (کہ) فرٹیلائزیشن ہو, اور پھل بنے اور زیادہ آپ کو پھل حاصل ہو, فصل زیادہ ہو, اگر وہ فاصلے پر رہیں گے تو ہو سکتا ہے اس کا امکان کم ہو, تو وہ اس کو قریب جوڑ دیتے تھے. حضور نے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ یعنی نیچر جو ہے, نیچر کین ٹیک کیئر آف اٹسیلف, آخر فطرت ہے, فطرت نے یہ ساری چیزیں بنائی ہیں, آپ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ صرف یہ کہا آپ نے, آپ نے روکا نہیں, لیکن ظاہر بات ہے صحابہ کرام کے لیے, رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین, حضور کا اتنا کہنا بھی گویا کہ حکم کے درجے میں (تھا), انہوں نے اس سال وہ کام نہیں کیا, فصل کم ہو گئی, اب وہ ڈرتے ڈرتے, جھجھکتے جھجھکتے حضور کی خدمت میں آئے, حضور آپ نے وہ فرمایا تھا, ہم نے وہ نہیں کیا, تعبیر نخل اس سال نہیں کی ہم نے, فصل کم ہوئی ہے. آپ نے فرمایا, انتم اعلم بامور دنیاکم, اس کا ایک ایک لفظ یاد کر لیجیے, انتم اعلم بامور دنیاکم, اپنے ... دنیوی و مادی معاملات میں تم زیادہ تجربہ کار ہو, تم زیادہ حقائق سے واقف ہو. ... اعلم کا لفظی ترجمہ کرنے کی جرات مجھے نہیں ہو رہی ہے, تم زیادہ واقف ہو ان چیزوں سے, میں یہ چیزیں سکھانے نہیں آیا, آپ ٹیکنالوجی پڑھانے نہیں آئے تھے, آپ طب سکھانے نہیں آئے تھے, آپ کوئی اور سائنس پڑھانے نہیں آئے تھے, ورنہ تو ہم شکوہ کرتے کہ آپ نے ہمیں ایٹم بم بنانا کیوں نہیں سکھا دیا پہلے ہی, نہیں, یہ موضوع ہی نہیں ہے, قرآن کا موضوع معین ہونا چاہیے. قرآن کا موضوع انسان کی ہدایت, اس ہدایت کے لیے جس قدر اس کو ضرورت ہے علم کی, کہ...جو یہ فیزیکل فینومینا ... (ہیں), ان کے حوالے سے بھی ہدایت حاصل کرے, اس حد تک ان کا تذکرہ ہے, لیکن یہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں جو شئے مضمر ہے وہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوگی. یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا کوئی مفہوم ہمارے اسلاف نے ایک ہزار برس پہلے یا چھ سو برس پہلے سمجھا ہو, اور وہ مفہوم غلط ثابت ہو جائے, وہ ایک علیحدہ بات ہو گئی لیکن قرآن مجید کا ٹیکسٹ جو ہے اس کے اندر کہیں ایسی بات نہیں آ سکتی."
(حوالہ نیچے تبصرے میں دیکھیں)
دیکھا آپ نے ڈاکٹر اسرار احمد کس قدر جرات و بیباکی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن میں موجود سائنسی نوعیت کی آیات کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی قطعی نہیں ہوگی. یعنی ڈاکٹر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق کوپرنیکس, گیلیلیو, نیوٹن اور آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ ایسے علمائے سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں تو قرآن کی سائنسی آیات کی نئی تعبیر کی جا سکتی ہے لیکن اسلاف نے اپنے زمانے کی معلومات کی سطح پر قرآن کی سائنسی آیات کا جو مفہوم معین کیا وہ قطعی نہیں ہوگا. اتنا ہی نہیں
"خود حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھی اس میں قطعی نہیں ہوگا".

کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ اللہ تعالی نے جن پر قرآن نازل کیا ہو ان کا فرمان بھی قرآن کے معنی معین کرنے میں قطعی نہیں ہوگا. غنیمت ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نہ فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے "اپنے زمانے کی معلومات کی سطح پر قرآن کی آیات کے مفہوم معین کیے تھے!"
اتنی مہارت کے ساتھ حدیث کا انکار کر کے قرآن کی نئی تعبیر کی جرات تو سر سید کو بھی نہ ہوئی تھی جنہوں نے صحف مقدسہ کی تعبیر کا ایک جدید اصول "تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل علی ملۃ الاسلام" میں بیان فرمایا تھا:

"كلام الهي کي اصلي مراد سمجهنے کے لیئے بعض مقامات پر اس طرح معنوں کا لینا جایزهي نہیں ھے بلكه نہایت ضروري ہے. غور کرنے کی بات ھے که الله تعالی نے هماری تہذیب اخلاق اور پاکیزگي روح کے لیے انبیا بھیجے اور ان کو وحی عنایت کی تاکه اس سے هم اپنے اخلاق بهي درست کریں اور نجات ابدي بهي حاصل کریں پھر وہ تعلیمیں ہمارے خیال اور گمان میں بهي نہ تھیں علاوہ اس کے ایسے دقیق اور نازک مضامین بھي تھے جنکا سمجهه میں آنا اور آنکي اصليت اور حقیقت کا دریافت کرنا انسان کی سمجهه اور فکر سے باهر تها اور ایسے مضامین تو بہت کثرت سے تھے جنکا بغیر ترقي علم کے سمجهه میں آنا غير ممکن تها اور رحمت اور حکمت الهي مقتضي إسبات کي تهي که هماري تمام جماعت انسانی بقدر اپني اپني استعداد کے اس سے فائده اٹھائے خصوما اس وقت میں بھی جبکہ هماري سوسائٹی بچپن کی حالت میں تهي اور کسی طرح علم نے ترقی نہیں پائي تهي اسلیئے مقتضاے حکمت یهه تها که خدا کي وحي ايسی طرز و انداز بیان سے نازل هو که آسکے اصلي نتيجه سے کسی زمانہ میں اور کوئي شخص محروم نه رهی ، پس ضرور هوا که ایسے مضامین جو درحقیقت انسان کی سمجهه سے باهرهیں یا بچپن کي حالت هماري سوسیٹی کی ان کے سمجهنے کي لياقت نہ رکهتي تهي وہ بطور مثال اور تشبيهه کے بیان کی جاویں اور گو کہ وہ مضامین مثالی اور تشبيهي کسي زمانه میں حقيقي سمجهے گئے هوں ، مگر اس سے کچهه نقصان اور قباحت هماري خلقي اور روحانی تربیت کو نہیں تھا کیونکه اسکے نتیجه میں خواه وہ مضامین مثالی اور تشبيهي سمجهي جاویں جس طرح پر کہ بیان ہوئے تھے خواہ اصلي اور حقيقي كسی طرح کا تفاوت نه تها
ان باتوں کے سبب ضرور تھا که کلام الهي صرف بطور حقیقت هي کے نه بیان کیا جائے بلکه بطور مثال اور تشبيه کے بهي هو تاکه هماري ضعيف عقل اسکے ذریعه سے اس اصلی تعلیم اور اسکے متحد نتيجه سے محروم نرهے پس کلام الہي کو يکسر تمثيل أور تشبيه سے خالي سمجهنا اور آسکے سیاق اور اسکے مقتضی سے درگذرنا ایسا ہی جیسیکہ اس کے تمام کلام کو تمثيلي اور تشبيهي اور خیالات شاعرانه سمجھنا.
جسطرح که اقسام مذکورہ بالا کے مضامین نے جو کلام الهي میں واقع هیں اسپر اعتقاد رکھنے والوں کو کھبرا لیا ھے آسي طرح ان الفاظ نے بھی جو کلام الهي ميں واقع هیں اور حال کي ترقي علم نے انکے برخلاف ثابت کیانہے حد سے زیادہ ان کو گھبرا دیا ہے مگر وہی ترقی علم ہم کو یہ بھی دکھاتی ھے که ان الفاظ کے تعبير معانی میں جس قدر قصور تھا ہمارے علم کا تھا نه كلام الهي کا، درحقیقت انبیاء کے بھیجنے اور وحی کے نازل کرنے سے اصلی مقصود انسان کي روحاني تربيت هے جو امور که تجربه اور ترقي علم پر منحصر ہیں جو روز بروز انسان پر هوتي جاتی ھے ان سے کچهه بهي علاقه نہیں ہے اسلیئے ضرور تها که جو الفاظ انبیاء کے دل میں ڈالی جاویں وہ انسان کي هرحالت علم اور سمجهه سے باهر نہ ہوں مگر اس کے ساتهه يه بهي ضرور تها که وة الفاظ حقيقت کے بهي برخلاف نہوں تاکه هر ایک زمانه کے آدمي بقدر اپنے علم کے جو اس زمانہ میں رکهتے هین اس سے روحاني فائده اٹھاویں اور جبکہ انسان کے علم کو  زیادہ تر ترقي هو اور حقیقت اشياء نسبت سابق کے زیاده تر اسپر منکشف هوں تو وہ جان لے کہ جو الفاظ انبیاء کے دلوں میں ڈالے گئے تھے وہ بھي اسي ترقي يافتم علم کی طرف اشارہ کرتے تھے انکے معانے کی تعبیر میں جہانتک قصور تها همارے ہي علم کا تها نه آن الفاظ کا اس بیان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کلام انبیا کا کس قدر عظمت اور منزلت رکھتا ہے کہ باوجود هماری مخالف اور متبائن خیالات کے مطابق حقیقت اور هر ایک وقت هماري روحانی تربیت کو مفید اور کافي تها."
(حوالہ: سر سید احمد خاں, تبیین الکلام, حصہ دوسرا, صفحہ 31 تا 34)

ذرا غور فرمائیے کہ سر سید کی فکر کیسے کیسے گل کھلا رہی ہے اور کس قسم کے لوگ ان سے استفادہ کر رہے ہیں! اور سیاسی اسلامسٹوں کو سر سید کی فکر کس کس کروٹ راس آ رہی ہے. حالانکہ سر سید نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان سے اس طرح کھلے بندوں انکار نہ کیا تھا.