ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

تہذیبی و مذہبی ادعا کی کامیابی کے اسباب

مختلف قبائل، ذات برادریوں، طبقوں یا قوموں کے معاشی مفادات پر مبنی ایک مجرد سیاسی صف بندی کوئی دیر پا یا مستقل چیز نہیں ہے۔ چونکہ اس سے مستقل جوڑ توڑ پر مبنی سیاسی کشمکش جاری رہتی ہے اور زندگی کا کوئی اونچا آدرش سامنے نہیں آ پاتا، اس لیے ایسی سیاسی صف بندیوں کے اثر سے محض معاشی و سیاسی مفادات پر مبنی ایک کمزور تقریر وجود میں آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیبی قوم پرستی یا مذہبی ادعا پر مبنی تحریکات اس لیے کامیاب ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ زندگی کا ایک ہمہ گیر، جامع اور کلی نقطہ نظر اور آدرش پیش کرتی ہیں خواہ وہ آدرش بجائے خود کتنا ہی غیر آدرش ہو یا دکھائی دیتا ہو۔
جدید مغربی تہذیب نے ہمارے ہاں جن تصورات و اصطلاحات کو فروغ دیا ہے ان میں سے اکثر ہمارے سماجی اور معاشرتی سیاق سے ہم آہنگ نہ ہو سکے جس طرح وہ خود مغرب میں ہیں۔ مثلاً جب ہم "انسانی مساوات" یا "آزادی اظہار" جیسی مغربی قدروں کی بات کرتے ہیں تو یہ محض ایک خالی ظرف کو بیچنے جیسی چیز ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ انسانی مساوات اور آزادی اظہار کے بغیر کوئی نظامِ زندگی کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں آزادی اظہار یا انسانی مساوات کے علمبرداروں کے نزدیک خود انسانی زندگی کا نصب العین اور مقصد کیا ہے جس کی طرف وہ انسانوں کو بڑھانا چاہتے ہیں؟ مجرد انسانی مساوات اور آزادی اظہار کی بات کرنا اپنے آپ میں کوئی مثبت کارروائی نہیں۔ یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ سب انسانوں کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں اور سب کو اپنی بات کہنے کا مساوی موقع ملنا چاہیے، اور اس ظاہر و باہر حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن مساوی موقع فراہم کرنے کے بعد آپ لوگوں سے کیا کرنے اور کیا بولنے کی توقع رکھتے ہیں؟ پھر لوگ جو کچھ بولیں اور کریں، اس کے لیے آپ کے ہاں کیا، کیسے اور کتنے متنوع منصوبے پائے جاتے ہیں؟
تہذیبی قوم پرستوں اور مذہبی ادعائیت پسندوں کے ہاں زندگی کا نصب العین اور ایک جامع منصوبہ بہرحال پایا جاتا ہے اور یہی وجہہ ہے کہ لوگ کشاں کشاں ان کی متعین کردہ راہ پر چلے جا رہے ہیں اور دنیا کے بعض ممالک، مثلاً ترکی میں اپنے نصب العین کو انہوں عوام میں مقبول بنا دیا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ جس نصب العین کو پانے کی جدوجہد ترکی کی اسلامی تحریک کر رہی ہے، وہ موجودہ دنیا میں ناممکن ہے اور ایک نہ ایک دن اس کا انجام سخت عبرتناک ہوگا۔ ترکی کے عوام کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکی کہ مذہبی حقانیت اور تہذیبی ادعا پر مبنی تحریکات جو نظریہ حیات اور نصب العین فراہم کرتی ہیں اس سے انسان وحشت و بربریت کے بستہ و تاریک گپھاؤں میں اتر جاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مغرب نے دنیا کی جو رہنمائی کی ہے اور عالم کی استادی کے فرائض انجام دیے ہیں اس کا سب سے بڑا فائدہ خود مغرب کو پہنچا ہے اور مشرق بالخصوص ایشیا اور افریقہ مغربی ترقیات کی حقیقی اسپرٹ سے محروم ہی رہے ہیں گو ان دونوں براعظموں کے بیشتر ممالک بظاہر ترقی کرتے نظر آتے ہوں اور اپنے ہاں مغرب میں پیدا ہونے والی قدروں کو درامد کر چکے ہوں۔
یہاں ایک امر کی مزید وضاحت بیحد ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جو قدریں مغرب میں پیدا ہوئیں وہ مغربی ممالک کے لیے معنویت لیے ہوئے تھیں کیونکہ وہ ایک طویل فکری عمل کے بعد وجود میں آئی تھیں، لیکن جب انہیں پسماندہ ایشیائی ممالک میں درآمد کیا گیا تو انہوں نے اپنی معنویت کھو دی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ہمارے ہاں مغرب کی طرح متنوع اور گہرا فکری عمل نہیں چل سکا۔ ہمارے عقل پرست افراد اور گروہ زندگی کو مختلف مجتہدانہ اور حقیقت پسندانہ نقطہ ہائے نظر سے نہ دیکھ سکے اور نہ سمجھ سکے۔ ہم مغرب سے آئی ہوئی جدیدیت (بشمول ترقی پسندی) اور اپنی قدامت پسند روایت کی باہمی کشمکش میں پڑے ریے۔ ازکارِ رفتہ ہوتے چلے جانے والے عقائد و رسوم کی عصریت و موزونیت کے اثبات پر مبنی نیم عقلی قیل و قال، جوڑ پیوند اور تاویلاتی جہالت پر مبنی ایک سڑے گلے نظامِ حیات کو جیتے رہے۔ یہی اسباب ہیں کہ جس دور کو مغرب نے دورِ جدید کا نام دیا ہے، اس میں  ہمارے ہاں اجتہادِ فکر پر مبنی عظیم فلاسفہ وجود میں آنے کے بجائے اقبال، مودودی و قطب جیسے غیرمتجسس، قلیل الفکر اور تنگ نظر مفکروں/ نظریہ سازوں کا غلبہ ہوتا چلا گیا جن کے اندر زندگی اور کائنات کو لے کر کبھی کوئی نیا سوال نہ ابھرا اور وہ سیکڑوں ہزاروں سال پرانے مذہبی تصورات کی مدافعت کرتے رہے۔ ہمارے عالی دماغ کسی نہ کسی طور نت نئی تعبیرات کے ذریعے قدیم مذہبی و تہذیبی ڈھانچے کو بچائے اور بنائے رکھنے میں کام آگئے اور جدید ترین، تازہ دم نظریات کے سلسلے وجود میں نہ آ سکے۔ یہ کام مغرب میں خوب ہوا لیکن وہ مغرب ہی کے لیے مفید تھا اور اہلِ مشرق کی حقیقی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا تھا الا یہ کہ ہمارے اہلِ فکر اس کا ترجمہ اور تنقید کرتے، اور اس طرح مشرق و مغرب میں نظری سطح پر مکالمہ ہوتا جس کے نتیجے میں فطری طور پر ہمارے ہاں ایک سے زیادہ عظیم شخصیتیں اور ان کے نظریاتِ زندگی وجود میں آتے۔
ایک سے زیادہ نظریاتِ زندگی کی موجودگی میں ہی "فکری و عملی آزادی" کا نعرہ اپنی معنویت رکھتا ہے۔ جس معاشرے میں ایک بیپناہ اکثریت یعنی 99 فیصد لوگوں کا مذہب ایک ہو، وہاں آزادی فکر و عمل کا نعرہ لگانا ایک فضول، بے معنی اور لاحاصل جد و جہد کی دعوت دینا ہے اور ایسی دعوت کو آج نہ کل ناکام ہو جانا ہے۔
ایسے معاشرے میں آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ خود کو ترقی پسند کہتے ہیں وہ بھی مذہبی ہوئے بنا نہیں رہ سکے اور ان میں سے بعض نے اپنی ترقی پسندی کو عین مذہب کا جامہ پہنا دیا ہے۔ ویسے یہ ہمارے ہاں ایک معروف رجحان ہے کہ جدید ترین مغربی افکار و نظریات کو مذہبی قالب دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ یہ مغربی افکار و نظریات ہمارے مذہب میں پہلے ہی موجود ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں محدود تعداد میں اجتہادِ فکر سے عاری مغرب سے متاثر متوسط سے بھی کم درجے کے اہلِ فکر ہیں اور بہت بڑی تعداد میں نیم عقلی مذہبی و تہذیبی ادعائیت پسند مفکرین جو اظہار کی آزادی کا فائدہ اٹھا کر وجود میں آئے ہیں اور دنیا بھر میں زور و شور سے اپنی مذہبی دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں۔اس کے مقابلے میں اس طبقے کو دیکھیے جو ایک طرف اپنے کو جدیدیت پسند اور/ یا ترقی پسند کہتا ہے اور دوسری طرف مذہب میں بھی مبتلا ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس زندگی اور کائنات کے متعلق اپنا کوئی طبع زاد نظریہ نہیں ہے، اور نہ ان کے درمیان جلیل القدر اور مجتہدانہ بصیرت رکھنے والی ایسی شخصیتیں ہیں جو زندگی کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھتی ہوں اور علم و فکر کے میدان میں انہوں نے بڑے مغربی مفکروں کے پائے کا کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔ یہ پسماندگی ہمہ گیر ہے اور علم کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے۔ بڑے علمی اور فکری کارناموں کی عدم موجودگی میں ہمارے مقامی معاملات و مسائل سے نبرد آزما ہونے میں مغربی طور طریقوں کی پابندی کی گئی اس حال میں کہ  ہمارے حالات اور ذہنی کیفیتیں  مغربی حالات اور کیفیتوں سے مختلف تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک طرف خود ہم اس لائق نہیں تھے کہ اپنے معاملات اپنے خلق کردہ طریقوں سے چلاتے، دوسری طرف مغربی طریقے ہمارے معاملات کے لیے موزوں نہیں تھے، تیسری طرف روایتی مذہب کے عقائد، رسوم اور احکام جدید حالات میں ناقابلِ عمل ہو گئے تھے، چوتھی طرف مذہبی تجدد پسند جامد عقائد سے چمٹے رہے اور اپنے عقائد، رسوم و رواج نیز احکامات کی نت نئی تاویلیں اور تعبیریں کرتے اور ہر ایک تعبیر کے ناکام ہونے پر دوسری بوگس اور ناقابلِ یقین تعبیر لائے اور اسی سب میں اپنی صلاحیتوں کو برباد کیا، پانچویں طرف ہمارے پاس اپنے غور و فکر اور اظہارِ خیال کے لیے کوئی اعلی درجے کی زبان نہ تھی الا یہ کہ ہم انگریزی زبان میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں۔ جس انگریزی داں الیٹ طبقے کو مغرب زدہ سمجھا جاتا ہے اس کا معاشرے پر اقتدار تھا اور وہ مغرب سے مختلف نظامات کو جوں کا توں درآمد کرتا جا رہا تھا لیکن عوام تک مذہب پرستوں کی رسائی تھی جو اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں خطاب کرتے تھے اور اس کے نتیجے میں ان کی پسماندہ رجعت پسند تقریریں عامۃ الناس میں رائج ہوتی چلی گئیں۔ یہی سبب ہے کہ دیسی زبانوں کا مزاج مذہبی ہی رہا اور ان میں افکار و نظریات کا اصلی و حقیقی تنوع اور رنگارنگی نہ دیکھی جا سکی۔
اب جبکہ مذہبی و تہذیبی ادعائیت پسندی کا معاشرہ پر غلبہ ہو گیا تو لبرلوں اور ترقی پسندوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ آج ان کی جیسی حالت ہے، دراصل یہ خود ان کی اپنی کرنی کا پھل ہے۔ انہوں نے ایک ساتھ دو ناووں پر سوار ہونا چاہا۔ ایک ناؤ ترقی پسندی اور/ یا مغربی جدیدیت کی اور دوسری ناؤ روایتی اور/ یا تجدد پسند مذہبیت کی تھی۔ وہ ان دونوں میں سے کسی کو ترک کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کی فکری صلاحیت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنا ایک منفرد نظریہ حیات قائم کر سکتے اور اس کے تحت دیسی زبانوں میں عظیم علمی و فکری کارناموں کے سلسلے وجود میں لاتے۔ فکری صلاحیت کی بنیاد قوتِ تجسس پر ہوتی ہے جس کو سر سید جیسے تاویلیوں نے پوری قوت سے کچل ڈالا تھا اور ان کے ضمیر کو مطمئن کر دیا تھا کہ جدیدترین مغربی سائنسی تحقیقات تمہاری مذہبی کتاب میں پہلے ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں اساسی نوعیت کے غور و فکر اور علم و تحقیق کا باب شروع ہونے سے پہلے ہی بند ہو گیا اور تعبیری و تفسیری قیل و قال کا دروازہ کھل گیا جو آج تک کھلا ہوا ہے، ہمارے عالمی دماغ افراد اس میں بیدھڑک داخل ہوتے ہیں اور کوئی، شبلی، کوئی فراہی، کوئی مودودی، کوئی پرویز تو کوئی غامدی بن کر نکلتا ہے اور مذہب کے ایک سے زیادہ متنوع، متضاد اور باہم متصادم اڈیشن نکلنے لگتے ہیں۔ یہ بالذات کوئی بری بات نہیں لیکن آپ دیکھیں کہ یہ سب کچھ مذہب کے ایک ہی محور کے گرد ہو رہا ہے۔ لگتا ہے مذہب کے اس کھونٹے کو بچانا دنیا کی ہر چیز سے ہی نہیں اپنے وجود سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ ایسا کیوں ہوا کہ مذہب باوجود اس کے کہ وہ ایک ناقابلِ عمل چیز ہو چکا تھا، ہمارے ذہن و فکر پر اتنا اثرانداز ہو سکا؟
کیونکہ مذہب نے شروع ہی سے ہمارے سامنے ایک نصب العین رکھا، زندگی گزارنے کا ایک طریقہ بتایا، کچھ رسوم و رواج قائم کیے، ظاہر ہے اس سب کے مقابلے میں ترقی پسندی ہو یا جدیدیت یا سائنسی نقطہ نظر، ایک محدود چیز ہے اور زندگی کے ہر ایک مرحلے میں ہمارے کام نہیں آ سکتا۔
جدید سائنسی انکشافات اور افکار و نظریات نے ہجوم کر کے مذہب کی تغلیط ضرور کر دی لیکن جدیدیت پسند اور ترقی پسند عناصر نے مذہب کے متبادل کے طور پر زندگی کا کوئی جامع تصور، نصب العین اور پروگرام پیش کرنے کے بجائے کوشش کی کہ مذہب کو اس کی روایتی یا کسی قدر اصلاح شدہ شکل میں ساتھ رکھ لیا جائے یا جدید ترین افکار و نظریات کو مذہب کے قالب میں یا مذہب کو جدید ترین اسالیب میں پیش کر دیا جائے۔ لیکن یہ صریحاً ایک منافقانہ طرزِ عمل تھا اور ان سب کوششوں میں قدیم و جدید کا جوڑ پیوند صاف طور پر نظر آ جاتا تھا۔ ترقی پسندوں، لبرلوں، اور اسلامسٹوں کے ہاں کوئی نظری و عملی یک رنگی نہیں تھی۔ مذہب کی معاشرتی بیل گاڑی میں ہوائی جہاز کا انجن فٹ کر کے انہوں نے یورپ و امریکہ جیسی ترقی یافتہ زندگی کی طرف پرواز کرنے کی کوشش کی جو ناممکن تھا۔