نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بیرون دریا کچھ نہیں

یہ حقیقت ہے کہ قدیم تہذیبیں مثلاً مصری، یونانی، ایرانی، ہندوستانی وغیرہ سب اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں تھیں۔ قرون وسطی کی جس تہذیب کو اسلامی کہا جاتا ہے وہ بھی نہایت ترقی یافتہ تھی۔ ان سب تہذیبوں کے علمی اور فنی کارناموں پر ہماری جدید تہذیب کی بنیاد ہے۔ لیکن ہماری قدیم اور وسطی تہذیبوں کے بہت سے تاریک پہلو بھی تھے اور ان کو جاننا ضروری ہے تاکہ ان سے بچ کر ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچا جائے۔
ایک رجعت پسند صرف اپنی تہذیب کے روشن پہلو کو ہی دیکھتا ہے اور تاریک پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا

ہے کہ وہ اپنی تہذیب کے تاریک پہلوؤں سے اپنی شناخت کرنے لگتا ہے۔ دوسری تہذیبوں میں نہ اس کو روشنی نظر آتی ہے اور نہ ان کے بزرگوں میں کمال۔ اصل خرابی کی جڑ یہی ہے۔
رجعت پسندوں کے برعکس ترقی کے حامی افراد دنیا کی ہر تہذیب کی قدر کرتے ہیں لیکن ان کے تاریک پہلوؤں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔ ترقی پسند لوگوں کے نزدیک ارسطو، بوعلی سینا، آریہ بھٹ وغیرہ میں مذہبی لحاظ سے کوئی فرق مراتب نہیں ہوتا۔ سب اس کے اپنے بزرگ ہوتے ہیں۔
جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے ان میں اس رجحان کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اسلامی اور مغربی تہذیبیں جنہوں نے دنیا کی ہر قدیم تہذیب کے علوم و افکار سے فائدہ اٹھایا۔ آج کے جو رجعت پسند ہیں، وہ اس صفت سے عاری ہیں۔ وہ معاصر دنیا میں علوم کے جو خزانے ہیں اور علوم کے جو دریا بہہ رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کا رخ موڑنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ وہ خود اپنا رخ بدلتے۔ ایسے لوگ مذہب کے جامد تصور کے مارے ہوئے ہیں اور مذہب کو صرف مذہبی کتابوں اور صرف اپنی مذہبی کتابوں کی مدد سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مذہب اور مذہبی عقائد کا مفہوم زندگی کے دیگر علوم اور ان کے تصورات کے مقابلے میں ہی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ یعنی مذہب دیگر علوم و افکار کے درمیان ہی بامعنی ہے۔ اسی طرح تنہا ایک مذہب دیگر مذاہب کے درمیان ہی اپنی معنویت رکھتا ہے۔ توحید اسی وقت تک بامعنی اور قابل فہم ہے جب تک دنیا میں شرک کا تصور باقی ہے۔ شرک کے خاتمے کے ساتھ ہی توحید بھی محو ہو جائے گا۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہ حال افراد کے ساتھ ہی نہیں، نظریات کے ساتھ بھی ہے، عقائد کے ساتھ بھی ہے، علوم کے ساتھ بھی ہے۔
ایک فرد دوسرے فرد کے بغیر، ایک نظریہ دوسرے نظریہ کے بغیر، ایک عقیدہ دوسرے عقیدے کے بغیر، ایک مذہب دوسرے مذہب کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتا۔
جب حقیقت یہ ہے تو کون یہ کہہ سکتا ہے کہ تنہا اس کی تہذیب خود کفیل اور خود مختار ہے اور اس کے تصوراتی اور واقعی وجود کے لیے دیگر تہذیبوں کی ضرورت نہیں ہے؟
جو لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھ پائیں، وہی نرگسیت کے شکار ہوتے ہیں۔
اس نرگسیت سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ چیزوں کو ان کی انفرادیت میں ہی نہیں ان کی جامعیت میں بھی دیکھا جائے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم چیزوں کو انفرادیت میں سوچ سکنے کے اہل ہیں۔ ہم چیزوں کو تنہا اور اکیلا سوچ ہی نہیں سکتے، ہم کو تو صرف یہ وہم ہوتا ہے کہ ہم مثلاً اسلام، عیسائیت، ہندو مت وغیرہ کو تنہا تنہا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں کسی منفرد مذہب یا عقیدہ پر سوچتے وقت پس منظر میں دیگر مذاہب اور عقائد موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ذہن میں موجود اس پس منظر کا ادراک ہو جائے۔ یہ ادراک ہو جائے کہ ایک شئے دیگر اشیا کے درمیان ہی بامعنی ہے۔ یا زیادہ فنڈامنٹل طور پر، ایک شئے دوسری شئے کے مقابلے میں ہی ذہناً اور وجوداً خاص شناخت ہو سکتی ہے۔ یہی ادراک تحفہ ہے اس نرگسیت کے لیے جو اپنے ہی ماضی کے خود ساختہ تصور کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
جب تک چیزیں مختلف نہ ہوں یا وہ جب تک متبائن اور متضاد نہ ہوں تب تک ان کو شناخت ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سب کچھ ایک جیسا ہو جائے تو دفعتاً ہستی کی روشنی معدوم ہو جائے۔ ہستی اسی وقت تک ہے جب تک کہ نیستی کا تصور ہے۔ حروف تہجی میں صرف ایک حرف سے کیا کام چل سکتا ہے؟ سب حروف مل کر ہی تو حروف تہجی بناتے ہیں۔ سب مذاہب مل کر مذہب کے شعبے کو وجود میں لاتے ہیں۔ سب فلسفے مل کر فلسفہ کے شعبے کو۔ پھر مذہب، فلسفہ، شاعری ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی بنا پر ہی ایک دوسرے سے علیحدہ خیال کیے جاتے ہیں اور انسانی زندگی کی تکمیل کرتے ہیں۔ تنہا ایک شعبہ کس طرح تمام شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے؟ اور اگر اس کی کوشش کی جائے تو فساد فی الارض کی مختلف صورتیں پیدا ہوں گی۔
اس رخ پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
صرف مذہبی رجعت پسندوں کے خلاف گفتگو کرتے رہنا ان کے مرض کو اور بڑھائے گا:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
یہ علاج ہی صحیح نہیں کہ ان کی خرابیوں کو واضح کیا جائے۔ کیونکہ آپ ان کا جس قدر علاج کریں گے، وہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔
(فیس بک پر میرا ایک تبصرہ، 11 مئی 2020)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...