نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قرآن کریم کی دو رخصتیں

ایک اہم اسٹیٹس پر میرے کچھ تبصرے:
Tariq Ahmad Siddiqiقرآن کی وضربوھن والی آیت کی کیا نئی تفسیر ہو سکتی ہے تا کہ اس کی رو سے مرد کا عورت کو (یعنی شوہرکا بیوی کو) مارنے کا اختیار رکھنا ممنوع قرار پائے، اور متعدد دیگر معاملات میں عصری تقاضوں کے تحت قرآنی آیات کے نئے معانی وجود میں آ جائیں؟
6 نو مبر کو 8:55 ﺻﺒﺢ بجے · Edited · Like
Muhiuddin Ghazi طارق صاحب قرآن مجید میں اپنی مرضی کا حکم تلاش کرنے کے بجائے اللہ کا حکم تلاش کریں. اور پهر دیکهیں کہ اللہ کے حکم کی کیا شان ہوتی ہے اور وہ بندوں کے وسیع تر حقیقی مفادات کی کتنی حفاظت کرتا ہے.
عصری تقاضوں سے زیادہ اہمیت ابدی تقاضوں کی ہوتی ہے.
6 نو مبر کو 9:40 ﺷﺎﻡ بجے · Like · 3
Tariq Ahmad Siddiqi سورہ نور کی درج ذیل آیت میں نکاح کے سلسلے میں جو ابدی ہدایات پیش کی گئی ہیں (یا آپ کے نقطۂ نظر کی رو سے جن ابدی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور ان میں جو آپشن دیے گئے ہیں، ان کی تمام شقوں پر عمل آوری کی کیا صورت آج لوگوں کو میسر آ سکتی ہے؟:
وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ١ؕ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۰۰۳۲
"تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔" (ترجمہ: مولانا مودودی)
یہ ظاہر ہے کہ آج لونڈیاں نہیں بنائی جا سکتیں اس لیے اس آیت میں درج ہدایات کے ایک آپشن پر موجودہ دور میں عمل آوری نہیں ہو سکتی۔ پس کیا آپ مانتے ہیں کہ صالح لونڈی سے نکاح کی عام اجازت دینے والی اس آیت میں جو ہدایت پائی جاتی ہے وہ موجودہ دور میں ابدی نوعیت کی نہیں رہی؟
پھر دور جدید میں جو اسلامی خلافتیں قائم ہوئی اور ہو رہی ہیں، ان کے ذریعے کفر و اسلام کی جنگ میں محارب خواتین کو گرفتار کر کے ان کو پہلے لونڈی بنایا جائے، اور اس کے بعد ان سے نکاح کیا جاوے، تو اس میں کیا قباحت جناب والا کو نظر آتی ہے؟ اور نصوص شرعیہ (کتاب و سنت مع حدیث بشمول خبرواحد) سے اس کی ممانعت کیونکر ثابت ہوتی ہے؟
كل 2:23 ﺻﺒﺢ بجے · Like
Muhiuddin Ghazi طارق صاحب آپ کو فکر یہ ہے کہ آج کے دور میں کچه آیتوں پر عمل کیوں نہیں ہوسکتا ہے. آپ کی فکرمندی کی وجہ یہ ہے کہ آپ عصری تقاضوں میں محصور ہیں. قرآن مجید کی ہدایات ایسی ہیں جو ہر زمانے کے مسائل کا احاطہ کرتی ہیں اور اس کو یقینی بماتی ہیں کہ کسی زمانے کو مسئلہ تشنہ ہدایت نہ رہ جائے.
آپ جب قرآن مجید پڑهیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس میں یہ بهی بتایا گیا ہے کہ غلامی کے دور میں غلامی کے کیا احکام ہیں. اور یہ بهی بتایا گیا ہے کہ غلامی کے دور کا خاتمہ کیسے ہو اور یہ بهی بتایا گیا ہے کہ غلامی کا دور گزر جانے کے بعد اس کی واپسی کے دروازے کیسے بند کئے جائیں.
اسی کو کہتے ہیں عصری تقاضوں سے آگے بڑه کر ابدی تقاضوں کی تکمیل.
كل 7:31 ﺻﺒﺢ بجے · Like · 3
Tariq Ahmad Siddiqi آپ نے مذکورہ بالا تبصرے میں گویا صاف طور پر یہ اقرار کیا کہ قرآن کی کچھ آیتوں (جن کی ایک مثال غلامی سے متعلق آیتیں ہیں) پر عمل کا دور اب گزر چکا۔ پھر آپ نے خدشہ ظاہر کیا کہ وہ واپس آ سکتا ہے، تو اس صورت میں اس کو ختم کرنے کا طریقہ بھی قرآن میں درج ہے۔
پس آپ کے نقطۂ نظر سے، یہ بات آپ کے نزدیک بھی ثابت ہوئی کہ "غلامی کا دور گزر گیا" لیکن ساتھ ہی آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ واپس بھی آ سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب وہ واپس آئے گا، اور دنیا میں غلام اور لونڈیاں اسی طرح پائی جائیں گی جس طرح عہد وسطی میں پائی جاتی تھیں تو قرآن میں لونڈیوں سے تمتع یا نکاح کرنے کا آپشن ایک بار پھر مومنوں کو حاصل ہوگا کیونکہ اسلام کسی انسانی یا سماجی برائی کو بتدریج ہی دور کر سکتا ہے۔
آپ کے نزدیک بھی قرآن کی رو سے غلامی کی برائی کو مٹانے کا طریقہ ''تدریجی'' نوعیت کا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب غلامی کا باب مستقلاََ بند ہے اور جو کوئی محاربین جنگ کو قانوناََ غلام اور لونڈی بنائے گا، اس کو بہ جبر روکنا عالمی برادری کے لیے بالکل ضروری ہے۔ اور اس میں کسی رو رعایت کی کوئی گنجائش نہ ہو گی کہ اتنے لاکھ یا کروڑ غلام پیدا ہو چکے ہیں، اس لیے اب ان کے وجود کو برداشت کر کے وہی سب طریقے اختیار کیے جائیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد وسطی میں اختیار کیے تھے۔ آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ روایتی شرعی نقطۂ نظر سے غلامی کا باب مستقلاََ بند نہیں ہے کیونکہ قرآن و سنت میں کوئی صریحی نص اس معنی کی نہیں پائی جاتی کہ "اب تم پر محاربین جنگ کو بھی غلام بنانا حرام قرار دیا جاتا ہے۔" یا قرآن میں کہیں یہ بات نہیں آئی کہ "زمانہ قریب یا بعید میں غلامی کا دور ختم ہو جائے گا"۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ "غلامی کا دور گزر گیا" کہہ کر اسلام کی ترجمانی فرما رہے ہیں لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ یہ ایک دردمند عالم دین کی ذہنی اپج ہے جو منقولات سے صرف نظر کرتے ہوئے مقاصد شرعیہ کے فلسفہ کی رو سے انسانی طور پر وجود میں آ رہی ہے۔ آپ کو معلوم ہو کہ روایتی اسلام کی رو سے غلامی کا دور قانوناََ اب بھی باقی ہے۔ چنانچہ مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب نے گزشتہ جہاد افغانستان میں غلام اور لونڈی بنانے کا شرعی جواز پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حالیہ دور کے متعلق بھی نہیں کہا جا سکتا کہ غلامی کا باب بند ہو گیا۔ آج جو ہر پانچ دس سال پر کہیں نہ کہیں اسلامی خلافتیں وجود میں آ رہی ہیں، کوئی ضروری نہیں کہ ان کا نظریہ غلامی کے سلسلے میں یہ ہو کہ اب شریعت مطہرہ کی رو سے جنگ میں غلام بنانا جائز نہیں۔ فی نفسہ غلام بنانے کی ممانعت خود اللہ تعالی نے نہیں فرمائی، بلکہ اس کے برعکس اس کی ابدی آیات میں لونڈی سے نکاح بلکہ تمتع کی اجازت بھی پائی جاتی ہے۔ عنقریب جب کوئی جدید امیرالمومنین لونڈیاں اور غلام بنائیں گے، اس وقت ان کے حلقہ اقتدار میں پائے جانے والے مومنین کو یہ آپشن حاصل ہوگا جو قرآن کی ابدی ہدایت میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسی خبریں ہیں کہ ابو بکر البغدادی اور ان کا گروپ غلام بنانے کا قائل ہے۔ پس، ان سب اسباب سے آپ کا یہ قول صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ "غلامی کا دور گزر گیا" اور اس کے ساتھ ہی آپ کا مجھ سے ان لفظوں میں خطاب کرنا صورت واقعہ کے خلاف ہو جاتا ہے:
"طارق صاحب آپ کو فکر یہ ہے کہ آج کے دور میں کچه آیتوں پر عمل کیوں نہیں ہوسکتا ہے. آپ کی فکرمندی کی وجہ یہ ہے کہ آپ عصری تقاضوں میں محصور ہیں۔"
4 منٹ · Edited · Like
Tariq Ahmad Siddiqi آپ نے چونکہ قرآن میں غور و فکر کی بات فرمائی تھی، اس لیے میں نے عورتوں کو مارنے کی رخصت کے متعلق استفسار کیا تھا کہ عصری تقاضوں کی رو سے اس کی کیا تفسیر ہو سکتی ہے۔ آپ نے عصری تقاضے کو درکنار کرتے ہوئے ابدی تقاضوں کی طرف توجہ دلائی جس پر تحقیق کی جا سکتی ہے کہ وہ فی الواقع کیا ہیں لیکن عصری تقاضوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ نیاز فتح پوری کے لفظوں میں یہ حریت فکر و ضمیر کا دور ہے اور اب عورت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ مرد کی حاکمانہ قوامیت اس پر قائم رہے اور وہ اس کو مارنے (پھول کی چھڑی سے ہی سہی) کا مجاز بھی ہو۔ جس طرح آپ نے اپنے پچھلے تبصرے میں ایک غیرمنصوص فقہی موقف اختیار فرمایا کہ غلامی کا دور گزر چکا، اسی طرح یہ کیوں نہیں کہا جا سکتا کہ عورتوں کو مارنے یا ان پر اپنی انچارجیت مسلط کرنے کا دور بھی گزر چکا؟ یعنی جس طرح آپ کے نزدیک لونڈی سے نکاح یا تمتع کے آپشن پر عمل کرنے کا دور گزر چکا اسی طرح عورت کو مارنے کی رخصت پر عمل کرنے کا دور بھی کیوں نہیں گزر چکا؟ کیونکہ جس طرح غلامی اب ایک ناپسندیدہ عمل ہے اسی طرح بیوی کو مارنا بلکہ کسی اور طرح ستانا بھی ایک ناپسندیدہ اور بری بات ہے۔ یہ مرد کو مرغوب تو ہو سکتا ہے لیکن خدا کو مطلوب نہیں، کیونکہ یہ ایک قبیح فعل ہے اور اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ حالانکہ انہوں نے جنگ میں لونڈی اور غلام بھی بنائے اور ان کو آزاد بھی کیا۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ غلام بنانا عہدرسالت میں ایک بری بات تھی؟ ظاہر ہے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس سے ذات رسول پر حرف آتا ہے۔ اس لیے میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ خیر وشر، نیکی و بدی اور حسن و قبح کا معیار زمانے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ایک زمانے میں کسی کام کے جائز ہونے کے سبب اس پر نیکی کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ قانوناََ روا ہے، لیکن دوسرے زمانے میں آ کر وہی بات بدی میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کو مارنا یا لونڈیوں سے تمتع کرنا ایک دور میں قابل برداشت تھا اور اسی بنا پر اس میں خیر بھی پوشیدہ تھا، لیکن موجودہ دور میں آ کر یہ دونوں چیزیں بالاجماع ناجائز و حرام قرار دی جا سکتی ہیں بشرطیکہ دین کے لفظی تصور کو جینا چھوڑ کر دین کے عقلی تصور کو اپنایا جائے اور مسائل زندگی میں منصوصات قطعیہ کو حجت نہ بنایا جائے۔
مختصراََ یہ کہ جس طرح اب ایک قبیح چیز ۔۔۔غلامی۔۔۔ کے دور کو گزر جانا چاہیے اسی طرح دوسری قبیح چیز۔۔۔ مردوں کا ایک درجہ افضل ہونا یا بیوی کو نشوز پر مارنا۔۔۔۔۔ کے دور کو بھی لازماََ گزر جانا چاہیے۔ لیکن موخرالذکر مسئلے میں آپ کا یہ فرمانا کہ
"وہ (اللہ) بندوں کے وسیع تر حقیقی مفادات کی کتنی حفاظت کرتا ہے، عصری تقاضوں سے زیادہ اہمیت ابدی تقاضوں کی ہوتی ہے"
دراصل عورتوں کو مارنے کی قرآنی رخصت کو موجودہ دور میں بھی ضروری قرار دینا ہے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈی