حقیقتِ مذہب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حقیقتِ مذہب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 8 جون، 2023

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

 یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔

کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے۔ اور ان دونوں کی شناخت بالترتیب عدم ڈیزائن اور عدم منصوبہ سے ہوتی ہے۔ ایک طرح کے مناظر سے پورے کل پر قیاس کرنا جبکہ دوسری طرح کے مناظر بھی پائے جاتے ہوں ایک آربٹریری عمل ہے اور کسی کا اپنے ایسے قیاس پر ایمان لانے کا مطالبہ کرنا نہ صرف آربٹریری ہے بلکہ جابرانہ عمل بھی ہے۔
ڈیزائن کے معنی کیا ہیں؟ مادہ کا مختلف اشکال یا صورتوں میں پایا جانا۔ لیکن کیا ہوا کی کوئی شکل و صورت ہوتی ہے؟ جواب ہوگا نہیں۔ ہوا کی اگر کوئی شکل ہوتی بھی ہے تو وہ فی الحقیقت خود بخود مرتب نہیں ہوتی۔ ہوا جیسے ظرف یا مکانی حدوں میں ہو ویسی ہی شکل لے لیتی ہے۔ جدھر سے جیسا دباؤ پڑے ویسی ہی شکل میں ہوا پھیلی ہوئی ہوتی ہے، یا ویسی ہی شکل لے لیتی ہے۔ یہی حال پانی کا ہے کہ جس بوتل میں رکھو ویسی ہو جائے۔ پانی کبھی بوتل کی شکل میں، کبھی قطرہ کی شکل میں، کبھی دریا کی شکل میں، کبھی موج کی شکل میں، اور کبھی سمندر کی شکل میں جیسا جس جس نے دباؤ ڈالا، اسی کے مطابق خود کو بدلتی رہتی ہے۔ ورنہ اس کی کوئی ابتدائی شکل کہاں تھی؟ پانی کی سب شکلیں اور کیفیتیں اس کو درپیش سرد و گرم حالات اور اس پر عائد ہونے والی قید و بند وغیرہ کا نتیجہ ہیں۔
اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ہوا اور پانی کی طرح ہی کائنات کے کسی مادے کی کوئی متعینہ شکل نہیں۔ سب ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے سبب ہی وجود میں آئے ہیں یعنی سب ایک دوسرے پر جبر کرنے کے سبب ہی مختلف اور متضاد شکلیں اور ہیئتیں بدلتے چلے گئے ہیں۔ سورج، چاند، ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، پیڑ پودوں، گھونسلوں اور پرندوں، جانوروں اور غاروں، انسانوں اور گھروں، گھروں اور ان کی مختلف اشیا، ان سب کی ہیئتیں ایسے ہی ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتی، ایک دوسرے پر عمل کرتی، ایک دوسرے کے اندر داخل ہوتی اور اس سے خارج ہوتی، اور اس طرح ایک دوسرے کو متشکل کرتی ہوئی گزر رہی ہیں اور خدا معلوم کب تک جابر و مجبور، قاہر و مقہور، فاعل و مفعول کا یہ کھیل چلتا رہے گا، اور خدا معلوم کب سے چلتا آ رہا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جبر کے اس عمل کی نہ کوئی ابتدا ہو نہ انتہا، آدی ہو نہ انت، بلکہ جبر کی لیلا اپرم پار ہو۔
پس، اس نظام کو سمجھنا ہے تو جبر کے عمل کو سمجھنا ہوگا۔ جابر و مجبور، اور فاعل و مفعول کو سمجھنا ہوگا اور اس کے لیے پھر فارم یا ہیئت ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ لیکن محض فارم کو سمجھنے سے کیا حاصل؟ اور فارم کیا ہے؟ یہ سوائے جبر کے نتیجے کے اور بھی کچھ ہے؟ اور اگر محض فارم کو سمجھنے میں لگوگے تو جبر کے لامتناہی سلسلے میں پڑ جاؤگے۔ اسی اپرم پار میں پھنسے رہ جاؤ گے اور جو حقیقت کا سرا ہے اس کو کھو دو گے۔ اس لیے صوفیا کہتے ہیں کہ عدم یا شونیہ کی طرف آؤ۔ اسی میں سما جاؤ۔ یہ سب ہیئتوں سے ماورا ایک غیر ہیئت ہے۔ اور اسی میں سب کو لین ہونا ہے۔
لیکن عدم یا شونیہ کی "غیر ہیئت" کی اہمیت جتلانا کیا ہیئت کی بحث کے بغیر ممکن ہے؟
ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
پھر صوفیا کا یہ کہنا کہ عدم یا شونیہ مصدر ہستی ہے، اس بیان میں اسی قدر دلیل ہے جس قدر اس بیان میں کہ خود عدم کا مصدر یہی عالم وجود ہے جس میں چیزوں کی ہیئتیں بدل جانے کے بعد ان کی ابتدائی ہیئتوں کے لیے عدم کا ایک لفظ تجویز کر دیا جاتا ہے جس کے بالذات کوئی معنی ہی نہیں۔ البتہ دیگر معانی کے ساتھ رکھنے پر یہ لفظ بامعنی ہو جاتا ہے۔
بہرحال، عدم یا شونیہ کوئی قائم بالذات تصور نہیں۔ یہ ہمیشہ وجود کے تصور پر قائم ہے۔ اور یہی بات وجود کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ بھی قائم بالذات نہیں اور عدم کے تصور پر قائم ہے۔ اس لیے جو کوئی عدم اور وجود کی بحث میں کسی ایک کو بھی اولیت یا فوقیت دیتا ہے وہ دراصل "پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا" جیسی بحث میں کوئی ایک موقف اختیار کرتا ہے۔
یہ کہنا کہ عدم اور وجود میں تفریقی رشتہ ہے، یعنی تصور عدم بالذات شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی شناخت موقوف ہے تصور وجود پر۔ اور تصور وجود بالذات شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ موقوف ہے تصور عدم پر۔ جیسے رات کی پہچان نہیں دن کے بغیر، اور دن کی پہچان نہیں ہے رات کے بغیر۔ اور چونکہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔ اسی طرح عدم کی پہچان نہیں ہے وجود کے بغیر، وجود کی پہچان نہیں ہے عدم کے بغیر، اور یہ منفیت بجائے خود یہ اعلان کر رہی ہے کہ نہ وجود ہے اور نہ عدم، پھر جو کچھ ہے اس کی حیثیت عدم کی ہوئی یا نہیں؟ صوفیا اور فلاسفہ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں دراصل ایک منطقی پھیر میں پڑ گئے ہیں۔ یہاں مسئلہ عدم اور وجود کا نہیں۔ بلکہ مسئلہ اشیا کے مابین شناخت اور تمیز کا ہے۔ وجدان کے جھروکے سے دکھائی دینے والی، یا ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات (خواہ وہ تصور عدم ہو یا تصور وجود) اگر تفریقی نوعیت رکھتے ہیں، اور اسی تفریقی بنیاد پر ہم ان میں باہم تمیز کرتے ہیں تو یہاں معاملہ عدم اور وجود کا ہوا یا شناخت کا؟ ظاہر ہے کوئی بھی کہے گا کہ یہاں معاملہ تمیز اور شناخت کا ہی ہے۔ یعنی ہم تفریقی بنیادوں پر اپنے ہونے اور دیگر تمام موجودات کے ہونے یا نہ ہونے کو وجدان اور ذہن کے ذریعے "پہچانتے" ہیں، نہ کہ ان کے عدم یا وجود کا "علم" حاصل کرتے ہیں۔ ساختیات اور پس ساختیات چیزوں کی پہچان اور پرکھ اور ان کی کارکردگی کی سائنسیں ہیں نہ کہ عدم اور وجود کے دو تصورات میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کے آلات۔ مزید یہ کہ تفریقی رشتہ کی بنا پر ہر موجود و معدوم کا رد کرتے ہوئے ہم خالص عدم یا شونیہ کے تصور کو تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ تمیز اور ادراک ہی کی سطح پر ہوتا ہے، اس کے ذریعے واقعتا اور حقیقتا خالص عدم تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ تصورات ذہنی میں تفریقی مظہر کا مشاہدہ خود ذہن ہی میں موجود اتحادی مظہر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی ہمارا ذہن فرق، اختلاف، تضاد، تباین وغیرہ کا مشاہدہ کرتا ہی ہے الحاق و اتحاد، اتفاق و اشتراک، ترادف اور توافق کے تصورات کی بنا پر جو خود ہمارے ذہن ہی میں ان تصورات کے عقب میں موجود ہوتے ہیں اور وہیں سے اپنے خارج میں پروجیکٹ کر کے تفریقی مظاہر یعنی تضادات کے نظام کا مشاہدہ کراتے ہیں۔
اور ذہن میں اس عقب کے عقب میں پھر فرق، اختلاف، تضاد اور تباین کے تصورات ہی ہوتے ہیں۔ اور ایک بار پھر، ذہن میں عقب کے عقب کے عقب میں الحاق و اتحاد، اتفاق و اشتراک، ترادف اور توافق کے تصورات ہوتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ لامتناہی ہو جاتا ہے، جیسے آئینے کے مقابلے میں آئینہ رکھ دیا جائے اور ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہو جائے:
جیوں مکھ ایک دیکھی دوئی درپن، گہلا تیتا گایا
جن رجب ایسی بدھی جانیں، جیوں تھا تیوں ٹھہرایا
حضرت اوشو کہتے ہیں: جیوں مکھ ایک دیکھی دوئی درپن ، چہرا تو ایک ہے، لیکن درپن میں جھانکوگے ، تو دو ہو جاتا ہے۔ اور درپن میں جھانکے بنا چہرے کا پتا نہیں چلتا۔ سو مجبوری ہے۔ جھانک کر ہی پتا چلے گا۔ درپن میں جھانکنا تو ہوگا۔ مگر جھانکتے ہی جو ایک تھا، وہ دو ہو جاتا ہے۔ اس لیے خطرہ بھی ہے۔
درپن میں جھانکنا مجبوری ہے یا لزوم ہے۔ اگر ابتدا میں روح ہی روح تھی۔ اور روح کو دراصل تشفی نہیں ہوتی تھی اس لیے اس نے درپن میں جھانکا۔ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ درپن کہاں سے آیا؟ درپن مجازی معنوں میں کہا گیا۔ درپن کے استعارے سے اصل مقصود یہ ہے کہ جس طرح درپن میں فرضی تصویر بنتی ہے اسی طرح مادہ جو ہے وہ دراصل روح کا مفروضہ ہے۔ روح نے فرض کر لیا ہے مادے کو ورنہ مادہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جیسے ہم فرض کر لیتے ہیں اپنے اندر اپنے ضمیر کو، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ایک ہی ہیں اور ضمیر ہمارا مفروضہ ہے جو ہماری غلط کاریوں پر متنبہ کرتا ہے۔ ضمیر حالانکہ صرف ایک مفروضہ ہے، وجود نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔ جس طرح ضمیر کا کانٹا انسان کے مادی وجود کا مفروضہ ہے اسی طرح مادہ روح کا مفروضہ ہے۔
اگر مادہ روح کی ہی پیداوار ہے تو پھر کسی ایک کو کسی دوسرے پر فضیلت کیوں دی جائے؟ کیونکہ ایک نے دوسرے کو پیدا کیا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوا تو دوسرا پہلے کا مقصود و مطلوب ٹھہرا۔ ورنہ پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اپنے سے کمتر شئے کو پیدا کرنا چہ معنی؟ صوفی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو ثنویت کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسری طرف مادہ کی تحقیر کرتا ہے جسے خود روح نے پیدا کیا ہے، یا جو روح کا نتیجہ ہے۔ روح نے مادہ کو اس لیے نہیں پیدا کیا، یا روح کے نتیجے میں مادہ اس لیے وجود میں نہیں آیا کہ اس کی تذلیل و تحقیر ہو ۔ صوفیا کی تقریروں کو جہاں سے بھی اٹھائیے ، ہر جگہ مادہ کی تکریم کے بجائے اس کی تذلیل و اہانت کا جذبہ کارفرما نظر آئے گا۔
روحانیت پرست شاید اس گہری حقیقت تک نہ پہنچ سکا کہ اس کائنات کا درد یہی ہے کہ یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ روح کی تمنا یہی ہے کہ کوئی دوسرا ہوتا۔ چنانچہ اپنی اسی تمنا کو پورا کرنے کے لیے اس نے اس مادی کائنات کی صورت میں ایک صنم تراش لیا۔ یہ صنم خود روح کی اپنی پیداوار ہے جو مادہ کی شکل میں مشہود و متمثل ہو گئی ہے۔ اور اسی مادہ کا ارتقا، اس کی ترقی، اس کی فلاح روح کا مقصود و مطلوب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہے، یعنی جو کچھ نظر آتا ہے، خواہ وہ مادہ ہو یا کچھ اور، اس کی پیدائش کا سبب روح کو کیوں قرار دیا جائے؟ جو کچھ موجود ہے اسی کو ‘‘سب کچھ’’ کیوں نہ مان لیا جائے؟ اب جو کچھ ہے، اسی میں ارتقا اور ترقی کو کائنات کا منتہائے مقصود کیوں نہ مان لیا جائے؟ اس لیے کہ اس کے بعد ہماری نظر میں یک جہتی پیدا ہو جائے گی جو سم قاتل ہے۔ اس لیے صوفیا مادی ترقی کے مقابلے پر روحانی سکون کو لاتے ہیں۔ لیکن مادی ترقی ہو یا روحانی سکون، یہ دونوں منتہائے مقصود ہمیں اس حقیقی علم تک نہیں پہنچاتے جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی علم یہی ہو سکتا ہے کہ یہ کائنات کیوں ہے؟ کیسے وجود میں آئی؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ دنیا کا یہ کھیل یا کارخانہ کب تک چلے گا؟ اور جب ختم ہو جائے گا پھر کیا کچھ اور ظہور میں آئے گا؟ مذہب ہو، تصوف ہو، فلسفہ ہو، سائنس ہو سب کا منتہائے مقصود انہیں سوالات کا جواب دینا ہے یا مسلسل اس کی کوشش کرتے رہنا ہے اور ان میں سے جو کوئی ان سوالات کے نئے جوابات دینے میں پیش قدمی نہیں کرتا، وہ رٹے رٹائے عقائد کا پشتارہ بن جاتا ہے، اور جو سبقت کرتا ہے وہی امامت کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔

احقاق حق کا صراط مستقیم

دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کی بقا و ترقی کا دارومدار بہت سی باتوں پر ہے۔ ان میں سے ایک ہے " اپنے عقیدے یا نظریے سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا اور اس کی خامیوں کی پردہ پوشی ہرگز نہ کرنا۔" لیکن یہ صرف ایک معقول طریقہ ہے اعلی درجے کی روش نہیں۔ اعلی درجے کی روش جس سے بڑھ کر کوئی اور راہ ہو ہی نہیں سکتی وہ کچھ یوں ہے۔ "اپنے عقیدے یا نظریے کے خلاف خود ہی غور و فکر کرتے رہنا اور جیسے ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خرابی یا غلطی معلوم ہو، اس کو فوری مشتہر کر دینا۔ اس طریقے کے مقابلے میں جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب ادنی اور پست درجے کے ہیں۔ ایک عالی دماغ شخص کے عقائد و نظریات کا یہی حال ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہی انہیں سخت تنقید و تنقیص کا ہدف بناتا ہے اور اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ہر لمحہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کب اس کو اپنے عقائد و نظریات کی کوئی کمی معلوم ہو اور کب وہ خود اسے سب سے پہلے سامنے لائے۔ اور اگر کوئی دوسرا اسے سامنے لائے تو وہ خود سب سے پہلے لپک کر اس کو قبول کرے۔
اگر ہم دنیا میں معروضی طور پر، سب کے لیے صداقت کے کسی اڈیشن یا حق کے کسی جز تک پہنچ سکتے ہیں یا صداقت کا کوئی جدید اڈیشن یا یا صداقت کا کوئی جز تخلیق کر سکتے ہیں تو اس کا طریق کار یہی ہے، یہی ہے، اور صرف یہی ہے۔ اس کے سوا جس قدر طریق ہائے کار ہیں وہ سراسر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرانے والے ہیں۔
فلسفہ یا سائنس جس چیز کا نام ہے وہ منجملہ دیگر بہت سے طریقہائے کار کے ناگزیر طور پر اسی طریقے سے وجود میں آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تحت جس قدر معلومات اور نظریات دنیا کو فراہم کی جاتی ہیں، لوگ ان کو بالآخر تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجیے کہ اس علم، عقیدہ یا نظریہ کی شان کیسی اعلی و ارفع ہوگی جس کا پیش کرنے والا خود اٹھ کر یہ کہے کہ اس کی خوب جانچ پرکھ کر لو، خوب اعتراضات کر لو، یہاں تک کہ اگر تمہیں میرے عقائد و نظریات کا خاکہ اڑانا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لو، لیکن اگر میرے عقائد و نظریات میں کسی بھی درجے میں صداقت ہے تو تم باوجود اس کی مضحک تردید کرنے کے اسے لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ کر سکوگے۔ اور اگر میرے نظریات میں کسی درجے کی کوئی صداقت نہیں تو پھر میں خود ان سے سب سے پہلے بیزار ہونے والا ہوں۔ ایک اعلی درجے کا فلسفی اسی خلق عظیم پر پیدا ہوتا ہے اور یہی وہ پہلا اور آخری نمونہ ہے جس سے پہلے اور جس کے بعد کسی اور نمونے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بھلا اس شخص سے بہتر اور کس کا نقطہ نظر ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ آؤ میں اور تم دونوں مل کر اپنے اپنے عقائد و نظریات پر بھی اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات پر بھی خوب تنقیدیں کریں اور خود اپنی اور ایک دوسرے کی علمی و فکری غلطیوں کو کھولیں، ایک دوسرے کی کجی پر گرفت کریں اور تب کہیں جا کر جو کچھ قابل قبول معلوم ہوتا ہو اس کو جزم و یقین کے بجائے نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ قبول کریں اور بعد میں جیسے ہی اپنی کسی اجتماعی یا انفرادی غلطی کا علم ہو، ہم اس کی پردہ پوشی کے بجائے اس کو افشا کر دیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور سیدھی راہ کا تصور تم کر سکتے ہو؟ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور اخلاقی رویے کو اپنا نمونہ بنا سکتے ہو اگر فلسفیانہ صداقت کا کوئی سوال درپیش ہو؟

بدھ، 4 جنوری، 2017

ناقل اور عاقل کا فرق

ناقل اور عاقل میں قطبین کا فرق ہے۔ ناقل اور کائنات کے درمیان آیات و روایات کا حجاب حائل رہتا ہے اور وہ زندگی کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ عاقل کائنات کا براہ راست مطالعہ کرتا ہے اور درپیش صورتحال میں اپنی انسانی عقل سے ایک راہ عمل متعین کرتا ہے۔ دور جدید میں مذہبی معذرتخواہوں ںے ایک منقول معقولی طریق کار اپنایا ہے جس کے مطابق وہ نقل کی روشنی میں عقل سے کام لیتے ہیں۔ یعنی پہلے وہ کسی زیر بحث مسئلے میں تمام آیات و روایات کو اکٹھا کرتے ہیں، ان کے سیاق کا تعین کرتے ہیں اور پھر جدید حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ملتا جلتا حکم اپنے اس منقول معقولی طریقہ کار سے برامد کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ اگلے زمانوں میں بھی ائمہ مجتہدین اسی طریقہ کار سے کام لے کر مذہبی منقولات سے جدید احکام و ہدایات برامد کرتے تھے۔ نقل پہلے بھی عقل پر مقدم تھی، اور آج بھی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تجدد پسندوں ںے ائمہ مجتہدین کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا طریق کار اپنا لیا ہے، ایک خام خیالی ہے۔ جب تک مذہبی منقولات کی بالادستی انسانی ذہن پر قائم رہے گی، اس وقت تک انسانی عقل جدید تر حالات کو انہیں کی روشنی میں دیکھتی رہے گی اور عوام الناس کی اکثریت زندگی کے ہر معاملے میں پسماندگی کی شکار ہوگی اور علمی و فنی ترقی کے اعلی درجوں پر نہ پہنچ سکے گی۔

مذہب اور تعمیرِ نو؟

بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

مذہبی صداقت کا شمولیتی تصور

"چونکہ حدیث کا کوئی حکم,  مثلاً ایک مشت داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کا حرام ہونا قرآن سے ثابت نہیں ہے  اس لیے داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کرنا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے"، یہ موجودہ دور کی ایک غالب تقریر ہے,  اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجددپسند اسلام کو بجائے ایک مذہب رہنے دینے کے,  ایک سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں.  اس قسم کے تخفیفی اسلامزم کے سبب ہم سینہ ٹھوک کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب سراسر عقل و خرد کی بنیاد پر قائم ہے گو ہماری محدود عقل خدائی مصلحتوں کو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے بعد ہم  "یہ حکم قرآن میں نہیں ہے" کہہ کر مروجہ اسلام میں جہاں چاہے تبدیلی کر سکتے ہیں. سرسید,  فراہی اور غامدی ایسے تجدد پسند اسلامسٹ اپنی دانست میں چونکہ  صداقت کو مقدس صحیفے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ حدیثوں سے کسی نہ کسی طرح نجات پالیں جن پر موجودہ سائنسی دور میں ایمان نہیں لایا جا سکتا.  لیکن اس کے بعد اسلام پانی کی طرح رقیق ہو جاتا ہے اور اس کو جس برتن میں چاہو ڈھال لو.

اتوار، 10 جولائی، 2016

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد



علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’

اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا :

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضرت نے لگایا جن کو ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں۔آئیے ہم امامِ عالی مقام کی کتاب ‘‘المنقذ من الضلال ’’ سے وہ اقتباس پڑھیں جس میں ان کی علمی تکفیر کا ایک نمونہ پایا جاتا ہے:


‘‘پھر ارسطاطالیس نے افلاطون اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الٓہیہ کی جو اُس سے پہلے گذرے ہیں ایسی تردید کی ہے کہ کچھ کسر باقی نہیں رکھی۔ اور ان سب سے اپنی بیزاری ظاہر کی ہے۔ لیکن اُس نے بعض رذایل کفر و بدعت ایسے چھوڑ دیے جس کی تردید کی توفیق خدا تعالی نے اس کو نہیں بخشی تھی ۔ پس واجب ہے کہ اُن کو اور اُن کے اتباع مثلاً علمائے اسلام میں سے بوعلی ابن سینا اور فاریابی وغیرہ کو کافر کہا جائے۔ کیونکہ ان دو شخصوں کی مانند اور کسی شخص نے فلاسفہ اہل اسلام میں سے فلسفہ ارسطاطالیس کو اس قدر کوشش سے نقل نہیں کیا ۔’’

[حوالہ: ابی حامد محمد غزالی، خیرالمقال فی ترجمہ المنقذ من الضلال ، ترجمہ :مولوی سید ممتاز علی، مترجم چیف کورٹ پنجاب لاہور، مطبع :اسلامیہ پریس لاہو، 1890عیسوی، صفحہ نمبر 32-35]


برادرانِ اسلام، اب جتنا چاہے افسوس کیجیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ غزالی نے ابن سینا اور فارابی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا کہ وہ کافر تھے کیونکہ ان دونوں جید فلسفیوں کے عقائد و افکار بالتحقیق غیراسلامی اور خلافِ قرآن تھے۔ لیکن اگر آپ بھی علامہ غزالی کی طرح ابونصر فارابی اور ابن سینا کو کافر مانتے ہیں، تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو علم سکھایا؟ فارابی و ابن سینا تو مسلمان تھے ہی نہیں، پھر ہمارا یہ دعوی باطل ہوا یا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس کے فروغ میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا؟ اہلِ مغرب نے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا علم تو حاصل نہیں کیا ، انہوں نے تو فارابی و ابن سینا اور دوسرے کافر وملحد لوگوں سے فلسفہ ہی سیکھا، پھر سوال یہ ہے کہ عہدِ وسطی کے سائنسی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں کا کارنامہ کیوں کہا جائے؟ صرف اس لیے کہ فارابی اور ابن سینا مسلمانوں میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دور کے فلسفہ و سائنس میں اعلی ترین مقام حاصل کیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عقیدہ کی بنیاد پر تکفیر کا یہ باب بند کیا جائے اور ان سب لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، اور / یا خود کو مسلمان قرار دیا۔یہی امت کی بازیافت اور اس کی تعمیرِ نو کی دنیاوی بنیاد ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر یہ منظور نہیں توباطل تعمیمات پر مبنی ایسے گمراہ کن اور بوگس دعوے ختم کیے جائیں کہ مسلمانوں نے اہل ِ مغرب کو فلسفہ اور سائنس سکھایا، اور ٹھیک ٹھیک یہ پتا لگایا جائے کہ عہدِ وسطی کے کتنے فلاسفہ و سائنسداں اپنے عقائد کے اعتبار سے صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھے اور کتنے ان میں ملحد و زندیق اور دیگر اقسام ‘گمراہ’ اور ’گمراہ گر’ پیدائشی مسلمان تھے جنہیں امتِ مسلمہ سے خارج کرنا شرعاً ضروری ہے۔

پیر، 27 جون، 2016

آبِ حیات اور منرل واٹر

اگر ایک شئے کے متعلق تمہیں یہ یقین ہو کہ یہ آسمان سے نازل شدہ مقدس آبِ حیات ہے لیکن دنیا اس شئے کو یہ حیثیت دینے پر تیار نہ ہو، پھر تمہارے لیے کیا یہ جائز ہو سکتا ہے کہ اس پر منرل واٹر کا لیبل لگا کر اسے مقبولِ خاص و عام بنانے کی کوشش کرو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ منرل واٹر دنیا کے گڈھے سے نکالا جانے والا پانی ہے، اور لوگ دورانِ سفر منرل واٹر کے بہت سے استعمال کر سکتے اور کرتے ہیں، مثلاً وہ اس کو پی سکتے ہیں، اس سے اپنا منہ دھو سکتے ہیں، کلی کر کے پھینک سکتے ہیں. منرل واٹر کے بہت سے استعمالات ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک بوتل منرل واٹر صرف بیس روپے میں آتا ہے اور ہر کس و ناکس کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن جس شئے کے متعلق تمہیں یقین کامل ہے کہ وہ آب حیات ایسی بیش قیمتی شئے ہے، کیا اسے منرل واٹر کے نام سے بیچا جانا, پھر اس کا یوں صرف اور ضائع کر دیا جانا تم پسند کروگے؟ آب حیات تو اکثیرِ بینظیر اور شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا استعمال ہرگز وہ نہیں ہو سکتا جو منرل واٹر کا ہے، یعنی جب جی چاہا بیس روپوں کے عوض خرید لائے، پھر جیسے جی چاہا صرف کر دیا, اور خالی بوتل پلیٹ فارم پر لڑھکا دی. آب حیات اگر سیل پیک بوتل میں آئے اور خرچ ہو جائے,  تو اس کی بوتل بھی مقدس ہوگی, اور اس کو بصد احترم لوگ اپنے پاس رکھنا چاہیں گے.
اب اپنے اس نازیبا عمل پر بصیرت کی نظر ڈالو, ٹھنڈے دل سے غور کرو. تمہارے پاس آب حیات کا جو ذخیرہ ہے، اس کے متعلق اگر تم ساڑھے نو سو سال تک بھی یہ اعلان کرتے کہ یہ آسمان سے نازل شدہ امرت رس ہے جو نوعِ انسانی کے لیے شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا ایک گھونٹ تمہارے تمام دنیوی و اخروی مسائل کا حل ہے، تو سوائے دو چار کے کوئی تمہاری اس بات پر ایمان نہ لاتا، پس، اس مشکل کو محسوس کر کے تم نے  ‘‘آبِ حیات مارکہ منرل واٹر’’ کا ایک لیبل چھپوایا، اور اسے اپنے آبِ حیات کی بوتلوں پر لگوا کر کبھی مفت تقسیم کرتے رہے اور کبھی دوکانوں میں سجا دیا تاکہ لوگ خود بھی خرید کر پئیں، اور تم نے توقع یہ کی کہ تمہارے آبِ حیات برانڈ منرل واٹر کا پہلا گھونٹ ہی لوگوں کو اس کی آسمانیت کا یقین و احساس دلا دے گا، اور لوگ اسے حیات بخش سمجھ کر محفوظ کر لیں گے، اور اسے عام منرل واٹر کی طرح استعمال نہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی تم نے لیبل پر یہ انتباہ بھی لکھ دیا کہ یہ عام منرل واٹر نہیں، بلکہ آسمانی منرل واٹر ہے، اس لیے برائے مہربانی اس کو کلی کر کے نہ پھیکیں، اسے پینے کے سوا کسی اور کام میں لانا منع ہے، دیگر استعمالات کے لیے منرل واٹر کے بہت سے دنیاوی برانڈ موجود ہیں، آپ ان کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن خبردار، یہ منرل واٹر دراصل آب حیات ہے، اس کے ساتھ ادب و تمیز سے پیش آئیں۔ غرض تم نے بصد اہتمام اسے دنیا بھر کی دوکانوں میں سجایا، جگہ جگہ اسے خرید کر پینے کی دعوت دینے والے ایجنٹ مقرر کیے، ان ایجنٹوں کی حیثیت آب حیات کے محافظ کی بھی تھی کہ جب بھی کوئی کلی کر کے پھینکنا چاہے، وہ اسے اس قبیح حرکت سے منع کریں اور آبِ حیات کے تقدس کا خیال رکھنا سکھائیں، لیکن خریداروں نے ایجنٹوں سے یہ جرح شروع کر دی کہ آپ اسے بیچ تو رہے ہیں بیس ہی روپوں میں، اس پر لکھا ہوا تو منرل واٹر ہی ہے، اور یہ دوکانوں میں منرل واٹر کے دوسرے برانڈوں کے ساتھ رکھا ہوا بھی ہے، پھر کیا وجہہ ہے کہ اس کو ہم پینے کے سوا اور کسی کام میں نہ لائیں؟ پس، تم لاجواب ہو گئے۔
غرض، اس ظاہر و باہر حقیقت پر غور کرو کہ تم اپنی چیز کو جس لیبل کے ساتھ، جس شمار و قطار میں رکھوگے، دنیا بھی اس کے ساتھ اسی شمار و قطار کی دوسری چیزوں کا سا معاملہ کرے گی۔
دیکھو، ہم کیسی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں تا کہ تم عقل کے ناخن لو۔ غالباً تم سمجھ گئے ہو گے کہ یہاں کیا کچھ کہا جا رہا ہے، پھر بھی اب استعارے کی یہ زبان ترک کر کے ہم اس لطیف نکتے کو مزید واضح کرتے ہیں۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ مذہب ایک آسمانی شئے ہے، پھر اس کو فلسفہ، نظریہ اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ فلسفہ تو انسانی ذہن و دماغ سے پیدا ہونے والی چیز ہے اور نظریہ، تھیوری اور آئیڈیالوجی بھی انسانی اختراعات میں سے ہیں۔ بھلا ان چیزوں کا اس شئے سے کیا تعلق ہے جسے تم مذہب کہہ کر آسمان سے نازل شدہ بتاتے ہو؟ کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے؟ کیا مذہب کو آئیڈیالوجی قرار دینا آب حیات پر منرل واٹر کا لیبل چپکانا نہیں ہے؟ پھر جب اسے عام منرل واٹر سمجھا گیا اور اسی حیثیت سے کبھی پی لیا گیا اور کبھی کلی کر کے پھینکا گیا, تو اب اس میں اتنا سیخ پا کیوں ہوتے ہو کہ فلاں نے کلی کر دی اور اس کا احترام نہیں کیا۔
تمہاری گمراہی یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ مذہبی آئیڈیالوجی کی کونسلیں تشکیل دے بیٹھے ہو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ، تم نے اصطلاحات کی سطح پر دورِ جدید میں نہ صرف یہ کہ آسمانی مذہب کو دنیاوی اصطلاحات کا اسیر و محتاج بنا دیا بلکہ تم میں سے بہتوں نے مذہبی احکامات و فرامین میں تحریفات کا ارتکاب بھی کیا.
بھلا بتاو تو سہی کہ آخر وہ کیا محرک ہے کہ تم ایک آسمانی شئے پر منرل واٹر ایسی دنیاوی شئے کا نام لگاتے ہو، کیا اس لیے کہ منرل واٹر ایک اسمارٹ اور پرکشش تصور ہے، مقبول خاص و عام ہے، اور اس کی تجارت خوب پھل پھول رہی ہے، جبکہ آب حیات کا تصور عامۃ الناس کے ذہنوں میں دھندلا اور گدلا ہو گیا ہے، اور چونکہ ہو تم آبِ حیات کے سوداگر جس کی دنیا میں مانگ نہیں الا ماشااللہ، اس لیے تم نے محض اسے بیچنے کے لیے اپنے ہی آب حیات پر ‘‘منرل واٹر’’ کا لیبل لگا دیا ہے۔ پس، بالتحقیق، یہاں تم نے اپنی دنیا کو اپنا دین اور اپنے دین کو اپنی دنیا بنا لیا ہے، تاکہ تمہارا کاروبار چل نکلے۔
ہائے افسوس! یہ تم نے کیا کیا؟ اپنے آسمانی مذہب کو ایک دنیاوی آئیڈیالوجی بنا کر رکھ دیا! کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس لیبل بازی سے غلط فہمی کے سوا اور جو کچھ بھی پھیلا، وہ بھی اسی غلط فہمی کی نذر ہو گیا؟
پس، اے مکمل نظام حیات آئیڈیالوجی کے پروانو، تم کب تک یوں ہی مکھی مچھروں کی طرح مغربی تعقل پسندی کی شمع مضمحل پر گرتے رہوگے، اور اپنے ہی جلنے سے پیدا ہونے والی روشنی کو اپنی جدوجہد سے پیدا ہونے والا نورِ حق باور کراتے رہوگے؟ ہرگز نہیں، حق اس سے بہت بلند چیز ہے جو تمہارے ذہنوں ںے قائم کر رکھا ہے۔
اے آبِ حیات مارکہ منرل واٹر بیچنے والو، ذرا اپنے جلنے کی پھڑپھڑاہٹ اور چراندھ کو محسوس کرو، سارا ماحول ایک غلیظ دھوئیں سے بھر گیا ہے، اور ساری دنیا کھانس رہی ہے۔ کب محسوس کروگے کہ تم نے  قدیم میں جدید کی چھونک لگا کر ایک طرف تو قدیم کو متحجر ہونے سے روکا، اور دوسری طرف، جدید میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اور اس چیز کو انقلاب اور کارتجدید کا نام دیتے ہو۔ یہی تمہاری وہ غیرعلمی اور غیرعقلی روش ہے جس کے سبب نہ تم دین کو اس کی روایتی شکل میں دیکھ سکتے ہو، نہ کبھی حکمائے مغرب کی طرح نچھک اور تری فلسفہ میں ڈبکی لگا سکتے ہو. تم نے قدیم میں جدید کا جوڑ پیوند لگا کر اپنے کو روایت کے فیوض اور جدیدیت کی برکات, دونوں سے محروم کر لیا اور اس طرح نہ گھر کے رہے, نہ گھاٹ کے.

جمعرات، 2 جون، 2016

مذہب اور صلح جوئی

مذہب جس قدر انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، اسی قدر وہ انہیں توڑتا بھی ہے۔ یہ نوعِ انسانی کا اجتماعِ باہمی ہی نہیں بلکہ ان کے مابین افتراقِ دائمی بھی ہے۔ مذہب اگر انسان میں بھائی چارہ پیدا کرتا اور انہیں امن و آشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے تو اقوام و ملل کو اپنے عقائد کے تحفظ، مدافعت اور تبلیغ و اشاعت کی خاطر باہم لڑاتا بھی ہے۔ مذہب یہی چاہتا ہے کہ انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں صرف اسی کی خاطر جیے اور مرے۔ اسی کے حسبِ منشا دوسرے انسانوں سے تعلق بنائے اور منقطع بھی کرے۔ چنانچہ مذہب نکاح ہی نہیں کراتا، جبری طلاق بھی دلواتا ہے۔ اور مذہب عبارت ہے انسانوں کو جماعتوں اور گروہوں میں منقسم کرنے اور ہھر انہیں باہم لڑا بھڑا کر ان کی دنیاوی زندگی کو برباد کر دینے سے۔ دنیا میں کسی اور چیز کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان اتفاق ہو سکتا ہے، لیکن مذہب کی بنیاد پر صلح نا ممکن ہے۔ خود ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان طویل المیعاد طور پر اتحاد ممکن نہیں کجا کہ دو مذاہب والوں میں اتحاد ہو جائے۔ انسان جب گروہ در گروہ منقسم ہو جائیں تو ان کے درمیان مذہباً کیا مشترک ہے، اس کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے، اور دفعتاً وہ شئے اہمیت اختیار کر لیتی ہے جو ان کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ یعنی انسانی گروہوں کے درمیان مشترکہ مذہبی خصائص کی کوئی فیصلہ کن اہمیت نہیں ہو سکتی بلکہ اصل اہمیت اس اختلاف کی ہے جس کی بدولت وہ گروہ کی شکل میں منظم ہوئے ہیں اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کرتے ہیں۔
جیسے ہی کسی مذہبی اختلاف، امتیاز یا وصف کی بنا پر ایک جماعت یا گروہ کی تشکیل ہوتی ہے، ویسے ہی انسانیت کی زمین میں تنگ نظری کے شجرِ خبیث کا بیج پڑ جاتا ہے۔ اگر مذہبی اختلاف کی نوعیت انفرادی ہو تو کچھ مضائقہ نہیں، لیکن جیسے ہی یہ اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے، ویسے ہی انسان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ یکساں مذہبی خصائص، اوصاف یا اختلافات یا جداگانہ مقاصد کی بنا پر جماعت سازی اور اِس کو اخروی فلاح کی بنیاد بنانا ہی وہ لعنت ہے جس سے کام لے کر شیطان انسانوں سے انتہائی طویل مدتی خون خرابہ کا ناپاک عمل سرزد کراتا ہے۔ مذہب کا یہی اجتماعی تصور ہے جو انسانی قلوب کو جذبۂ قتال سے آلودہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں حیاتِ دنیوی فتنہ و فساد سے بھر اٹھتی ہے۔
اگر مذہب کا یہ اجتماعی تصور ختم ہو جائے، پھر کوئی ایسی ط۔ویل المعیاد شئے باقی نہیں رہتی جو سیکڑوں ہزاروں سالوں تک حق و باطل کی لایعنی کشمکش کو برقرار رکھ سکے۔ نسل، رنگ، زبان، ذات پات، یہ سب چیزیں انسانوں کے اختلاطِ باہمی سے بدل جاتی ہیں لیکن اہلِ مذہب اپنے عقائد کو ان کی اولین خالص شکل میں باقی رکھنا چاہتے ہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر ‘‘اصل’’ مذہب سے رجوع کرنے کی بے پناہ تڑپ ہوتی ہے۔ اور چونکہ ہر اجتماعی مذہب اور ہر مذہبی فرقہ کا ماننے والا اپنے مذہبی اور فرقہ وارانہ عقائد کے اصلی اور خالص ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسروں کے عقائد کو بے اصل اور غلط بتاتاہے اس لیے اہلِ مذاہب کے اندر نہ بین مذہبی اتحاد ممکن ہے اور نہ دروں مذہبی۔  
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ایک مذہب یا فرقہ میں شامل شخص اپنے عقائد  کو خالص اور دوسروں کے عقائد کو غیرخالص قرار دیتا رہے. یہ گویا مذہب نہ ہوا دودھ گھی، شہد اور سونے چاندی کا کاروبار ہو گیا۔ اب اسی کی دوکان زیادہ چلے گی جو اپنے آپ کو واقعات کی دنیا میں خالص ثابت کردے۔ اور یہ اس دنیا کی زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ دودھ میں اگر پانی ملا ہوا ہو یا سونے چاندی میں دیگر دھاتوں کی آمیزش کر دی گئی ہو تو سائنسی آلات کی مدد سے اس کا پتا لگایا جا سکتا ہے لیکن مذہب میں جو آمیزش ہو چکی، اس کی تحقیق کا کوئی یکساں معروضی آلہ ہمارے پاس ہمارے پاس نہیں ہے جس سے کام لے کر ہم ثابت کر دیں کہ ایک ہمارا ہی مذہب حق اور خالص ہے اور بقیہ تمام باطل اور ملاوٹ والے ہیں۔
اس لیے مذہبی مسائل بنیادی طور پر ناقابلِ حل ہیں۔ اور جب مذہب کی بنیاد پر جماعت سازی اور گروہ بندی ہو تو ان کے درمیان جو تنازعات ہوں گے، وہ بھی حتمی طور پر لاینحل ہوں گے۔ پھر جب وہ تنازعات مذہبی گروہوں کے مابین جنگ و جدال میں بدلیں گے تو ظاہر ہے انسانی خون کا بہنا بھی رک نہ سکے گا۔ اس کے برعکس، اگر مذہب کو ہر فرد کا نجی معاملہ بنا دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اہلِ مذاہب کے درمیان امن و سکون کی ایک دائمی حالت پیدا ہو گئی ہے اور ہر شخص اپنا من پسند عقیدہ چننے یا ایک نئے عقیدے کی تخلیق کرنے کے لیے آزاد ہے اور کسی دوسرے کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ کس مذہب کو ترک کر کے کیا عقیدہ اختیار کر رہا ہے یا اس کے ایسا کرنے سے کس مذہبی قوم کے افراد کی تعداد گھٹ یا بڑھ رہی ہے!
مذہب کو اگر قوموں اور جماعتوں کی بنیاد نہ بنایا جائے تو اس کے بعد اول تو یہی ممکن نہیں کہ کوئی دوسری چیز اس کی جگہ لے سکے گی، دوسرے یہ کہ اگر زبان، نسل یا کوئی اور شئے اس کی جگہ لینے کی کوشش کرتی بھی ہے اور اس کے سبب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ شئے، اور اس سے پیداشدہ مسائل چونکہ اسی دنیا سے متعلق ہوں گے نہ کہ حیات بعد الموت یا مابعدالطبیعات سے، اس لیے انہیں بحسن و خوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
مذہب کو ایک نجی و ذاتی، داخلی و موضوعی، اور انفرادی نوعیت کی شئے بنانے کے بعد ان تمام فتنوں کا سدّ باب ہو جائے گا جو مذہب کو اجتماعی شئے کے طور پر برتنے سے پیدا ہوتی ہیں۔