جمعرات، 30 جون، 2011

سماجی علوم کا نصب العین اور طریقہ کار

یہ موضوع بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد لکھی گئی کوئی باضابطہ، مربوط اور منظم تحریر نہیں ہے۔اس میں سائنسی اور سماجی علوم کے نصب العین اور طریقہ کار کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کی نوعیت صرف ایک سرسری اور طائرانہ نظر کی ہے۔ سائنسی و سماجی علوم میں اوپر اور دور سے جو کچھ نظر آتا ہے بس اسی کو پیش نظر رکھ کر ایک بے ضابطہ سا مقدمہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس لیے اس تحریر کو مصنف کی طرف سے حرف آخر نہ سمجھا جائے۔


ایک

موجودہ دور میں علوم و فنون کی درس و تدریس کو دو بڑے حصوں کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ ایک کا نام سائنس ہے اور دوسرے کا آرٹس۔ سائنس کے تحت طبیعیات (فزکس)، حیاتیات (بایولوجی)، کیمیا (کیمسٹری) اور ان تینوں بنیادی سائنسی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں مثلاً بایو کیمسٹری، بایو فزکس۔ سائنس کے عملی انطباق (پریکٹیکل ایپلی کیشن) کو تکنالوجی کہتے ہیں۔ اسے بھی سائنس کے ساتھ ہی رکھا جاتا ہے. آرٹس کے تحت مذہبیات، منطق، ریاضی، فلسفہ، ادبیات عالیہ، فنون لطیفہ (رقص وموسیقی، مصوری، مجسمہ سازی) سماجیات، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم آتے ہیں۔ آرٹس کے تحت آنے والے علوم کی جن شاخوں (Disciplines) کے مطالعے کا موضوع ‘‘انسان اور اس کے متعدد انفرادی و سماجی معاملات و مسائل’’ ہے اسے انسانی و سماجی علوم کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ انسانی و سماجی علوم کے دائرے میں سماجیات، نفسیات، معاشیات، جغرافیہ، لسانیات اور ان بنیادی سماجی علوم سے مرکب متعدد علوم آتے ہیں۔ مثلاً سماجی نفسیات (سوشل سائیکالوجی)، سیاسی جغرافیہ (جیوپالیٹکس)، سماجی لسانیات (سوشیو لنگوسٹکس) وغیرہ۔
یہ ایک مختصر ترین خاکہ ہے جس کی مدد سے علم و فن کی درس و تدریس کے موجودہ ڈھانچے کا ایک مجمل سا تصور ہمارے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت علوم و فنون کی موجودہ ترتیب و تقسیم سے کسی قسم کا تعرض کیے بغیر میں سب سے پہلے سماجی و سائنسی علوم میں ‘‘علم’’ کا کیا مفہوم متعین ہونا چاہیے اس سے بحث کروں گا پھر اس بات کی وضاحت کی کوشش کروں گا کہ انسانی و سماجی علوم(Humanities and Social Sciences) میں ‘‘علم’’ کی کیا کیفیت ہے اور جن امور کو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے علم کے زمرے میں رکھا جاتا ہے وہ دراصل علم کے نہیں بلکہ ظنون و قیاسات کے مرتبے پر ہیں۔
سائنسی علم کی صحت کے سلسلے میں ہمیں یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ قطعی طور پر حقیقت ہے یعنی اس میں کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں نہ پہلے کبھی تھی اور نہ بعد میں کبھی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر زہر کھانے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی سے سوکھے کا مرض ہو جاتا ہے۔ زمین سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے۔ پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھاپ بن جاتا ہے۔ ان معاملات کا علم قطعی اور یقینی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ کبھی واقع ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ سن 2001میں اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے وزیر اعظم تھے تو اب سے ایک ہزار سال پہلے بھی یہ سچ تھا اور اب سے ایک ہزار سال بعد بھی یہی سچ ہوگا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور من موہن سنگھ وزیر اعظم ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب علم بدل گیا۔ علم حالات سے متعلق ہوتا ہے۔ جب حالات میں تبدیلی واقع ہو گی تو ان حالات کو ظاہر کرنے کے لیے نیا علم بھی وجود میں آئے گا۔ لیکن کوئی تبدیل شدہ حالت اپنے سے پہلے والی حالت کے وجود کی نفی نہیں کر سکتی۔ جب پچھلی حالت کے وجود کی نفی نہ ہوئی تو پچھلی حالت کے علم کی نفی بھی نہیں ہو سکتی۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علم وہی ہے جس میں کوئی تغیر واقع نہ ہو۔
اس سلسلے میں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے۔ عہد وسطی میں سائنسی علم یہ تھا کہ سورج زمین کے چاروں طرف گردش کرتا ہے۔ دور جدید میں معلوم ہوا کہ خود زمین سورج کے چاوں طرف گردش کرتی ہے۔ مذہبی حلقوں میں اکثر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اس طرح تو سائنسی علم بھی اعتقاد ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر عہد وسطیٰ میں سورج کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ زمین کے چاروں طرف گھومتا ہے اور موجودہ دور میں اس کے برعکس سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ اب سے ہزار پانچ سو سال بعد موجودہ دور کا یہ سائنسی اعتقاد بھی غلط ثابت ہو جائے؟ جس طرح عہد وسطیٰ کے لوگ اپنے سائنسی علم کے خلاف سوچ بھی نہین سکتے تھے اسی طرح دور جدید کے لوگ بھی موجودہ سائنسی علم کے خلاف نہیں سوچ سکتے۔ عہد وسطی میں دوربین اور دیگر سائنسی آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ لوگ علم کے لیے غور و فکر اور حواس خمسہ کے راست استعمال پر منحصر تھے اسی لیے وہ جو کچھ دیکھتے تھے اس پر ایمان لے آتے تھے، حالانکہ وہ صحیح نہیں تھا۔ دور جدید میں سائنسی آلات کی ایجاد کے بعد ہی زمین کی سورج کے گرد گردش کرنے والی بات سمجھ میں آ سکی۔ اسی طرح عین ممکن ہے کہ اب سے ہزار پانچ سو سال بعد کی سائنسی تحقیقات کی رو سے موجودہ علم کی نفی بھی ہو جائے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنسی حقائق بھی زمانے کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ زمین کا سورج کے گرد گھومنا اگر واقعی ناقابل اعتبار ہے تو پھر اسے سائنسی علم کی فہرست سے خارج کر دینا چاہیے اور اسے علم کے بجائے گمان غالب یا ایک قسم کا فلسفہ ہی سمجھنا چاہیے۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں زمین کی سورج کے گرد گردش کو ہر مکنی زاویے سے دیکھ لیا گیا ہے تب ہی جا کر اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم گیا ہے۔ اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسے امور میں بھی شک و شبہ کی گنجائش ہے تو پھر انہیں بھی احتیاطاً سائنسی علم کے زمرے سے نکال کر ظن و قیاس کے زمرے میں رکھنا ہوگا۔ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ قیاسات کو تیقنات کے نام سے موسوم کریں اس حال میں کہ ہم جانتے ہوں کہ یہ دراصل قیاسات ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ آخر ہمیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ موجودہ دور کا کون سا علم مستقبل میں غلط ہو جانے والا ہے؟ یہ سوال پریشان کن تو ہے لیکن سائنسی علم اپنی پشت پر چند دلائل اورشہادتیں رکھتا ہے جن کی مدد سے ان کی بار بار تصدیق ہو سکتی ہے اور اسی لیے انہیں سائنسی علم کہا گیا ہے۔ ورنہ انہیں بھی فلسفیانہ قیاس کے زمرے میں ہی رکھا جاتا۔ ایٹم میں الیکٹران پروٹون اور نیوٹران کے وجود اور ان کی کارکردگی کے سلسلے میں سائنس کے دعووں کو ہم اس لیے نہیں مان لیتے کہ مٹھی بھر سائنسداں اس کا دعویٰ کر رہے ہیں اورہمیں ان کی بات پر ایمان بالغیب لانا ہی ہوگا ورنہ تحصیل علم کی گاڑی ایک منٹ کے لیے بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ سائنس میں ایمان بالغیب لانے جیسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ہر ایک امر کی تصدیق کے لیے سیدھا راستہ کھلا ہوا ہے کہ جو چاہے آئے اور سائنسی آلات و ظروف کی مدد سے سائنس کے دعووں کی سچائی معلوم کر لے۔ سائنسی علم ہمیں اپنی بازتصدیق کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سائنس مذہب کی طرح ‘‘لن ترانی’’ نہیں کہتی اور نہ اپنے پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دیتی ہے۔ سائنسی علم میں اس قدر قطعیت اور وضاحت اسی لیے ہے کہ اس میں معقولات کے ساتھ ساتھ محسوسات کو بھی حجت قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی امر معقول کی تصدیق محسوسات سے نہیں ہوتی تو سائنس کے مطابق وہ سرے سے سائنسی علم ہی نہیں ہے۔
اگر ہم عقل کے ساتھ ساتھ حواس کو بھی حجت قرار دیں تو علم اور قیاس میں فرق بالکل واضح ہو جائے گا۔ ہمیں یہ صاف صاف معلوم ہو جائے گا کہ کیا چیزیں علم ہیں اور کیا چیزیں قیاس یا فلسفہ۔ دنیا ہمیشہ سےناقابل انکار محسوس حقائق اور ظنون و قیاسات کے درمیان فرق کرتی آئی ہے۔ معقولات و محسوسات کے میل سے ناقابل انکار حقائق پیدا ہوتے ہیں۔ اور ‘‘علم’’ کو بھی ناقابل انکار اور ازقسم محسوسات ہی ہونا چاہیے۔ دو فلسفی اپنے اپنے غوروفکر یا قیاس کی مدد سے ایک ہی معاملے میں دو متضاد حکم لگا سکتے ہیں۔ جبکہ دو سائنسداں کسی ایک معاملے میں دو متضاد حکم نہیں لگا سکتے۔ مثال کے طور پر ایک سائنسداں اگر یہ کہتا ہے کہ سائینامائیڈ کھانے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے تو دوسرا اس کی نفی نہیں کر سکتا۔ دونوں کو ایسے امور پر لازماً متفق ہونا ہوگا کیونکہ سائنس کے لیے معیار حواس ہوتے ہیں نہ کہ ذہنی تخیل آرائی۔ فلسفی کے لیے حواس معیار تحقیق نہیں ہے۔ اس کے معیارات سائنسی معیارات سے کم بھی ہو سکتے ہیں اور زائد بھی۔ایک فلسفی چاہے تو محسوسات کا انکار بھی کر سکتا ہے اور چاہے تو معقولات کے ساتھ ساتھ منقولات کو بھی اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا سکتا ہے۔

دو

سماجی علوم کا موضوع مطالعہ ‘‘انسانی معاملات و مسائل’’ ہے اور اس کا طریقہ کار سائنسی ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں معقولات کی تصدیق محسوسات کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گویا محسوسات کی حیثیت براہین قاطعہ کی ہے۔ مولانا مودودی نے سائنس کے متعلق کہیں لکھا ہے کہ یہ محسوسات کی غلام ہے۔ یہ سائنس کا خاصہ اور اس کی فطرت ہے ۔ اگر محسوسات کی شرط کو ہٹا دیا جائے تو سائنس میں معقولات کے سوا کچھ نہ رہ جائے گا اور سائنس اور فلسفہ ایکم ایک ہوجائیں گے۔ انسانی سماج میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کی حقیقی وجہ تک محسوسات تو دور بعض اوقات معقولات کی رسائی بھی نہیں ہو پاتی۔ مثلاً خود کشی ایک سماجی مسئلہ ہے۔خود کشی کے مرتکب افراد خوب سوچ سمجھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم کیسے یہ حکم لگا سکتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے نے جلدبازی میں ایسا کیا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ آگیا ہو یا اسے کینسر جیسا مہلک مرض ہو گیا ہو جس میں تکلیف ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہو۔ ایسے معاملات میں کچھ لوگوں کی عقل بھی یہی حکم لگاتی ہے کہ تکلیف دہ زندگی جھیلنے سے اچھا موت کی نیند سو جانا ہے۔ یاایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض اذیت پسند لوگ حصول لذت کے لیے خودکشی کر گزریں۔ بعض صوفیوں اور مجاہدوں کو بھی قتل ہونے میں خاص قسم کی لذت محسوس ہوتی ہے۔ جنگ کرنا اور جنگ میں اپنی جان دے دینا ایک سراسر غیرمعقول طرز عمل ہے۔
انسانی سماج میں قدم قدم پر ایسے ہی سوالوں سے سابقہ پڑتا ہے جس کی کوئی سائنسی توجیہہ پیش کرنا ناممکن ہے۔ عقلی و سائنسی طور پر بہت سی نصیحتیں حق بہ جانب نظر آتی ہیں لیکن کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک سماج کے افراد ان پر عمل کرنے لگیں۔ انسانی سماج یا اس کے افراد عقل و سائنس کی بنیادوں پر بہت کم اور اعتقادات و توہمات کی بنیاد پربہت زیادہ چلتے ہیں۔ ہر دور میں ‘‘آستھا’’ سائنس سے زیادہ قوی رہی ہے۔ جو چیزیں سائنسی بنیادوں پر کام ہی نہیں کر رہی ہوں ان کےسائنسی مطالعہ کا آخر کتنا فائدہ ہے؟
اوپر کی معروضات کے خلاف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘بے شمار فطری مظاہر بھی ایسے ہیں جن کی کوئی سائنسی توجیہہ ابھی تک پیش نہیں کی جا سکی تو کیا صرف اس بنا پر ہم فطرت کے مطالعے میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا ترک کر دیں گے؟ اگر فطرت کا مطالعہ ہم سائنسی طریقہ کار سے کر رہے ہیں اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تمام تر فطری مظاہر کی توجیہہ پیش کی جا سکے اور صرف اسی وجہہ سے ہم مطالعہ فطرت میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا ترک نہیں کرتے تو پھر انسانی سماج کے مطالعے کے سلسلے میں ہی ہم سائنسی طریقہ کار سے مدد لینا کیوں ترک کر دیں؟ فطرت ہی کی طرح سماج کے مطالعے میں بھی تو بہت سے مظاہر ایسے ہیں جن کی کوئی سائنسی توجہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے جس طرح فطرت کے مطالعے میں سائنسی طریقہ کار سے مدد لینے کا انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح انسان اور سماج کے مطالعے میں بھی سائنسی طریقہ کار سے مدد لینے کا انکارنہیں کیا جا سکتا۔’’
یہ طرز استدلال بظاہر بہت جاندار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ انسان یا اس کا سماج فطرت کی طرح کوئی اندھا گونگا، بہرا اور بے شعور موضوع نہیں ہے۔ فطرت کسی پیچیدہ مشین کی طرح خودکار اور خود منضبط ہے۔ جبکہ انسانی سماج میں ایسی مشینی خودکاری اور خود انضباطی نہیں پائی جاتی۔ انسان اور اس کے سماج کا مطالعہ موسمیات کے مطالعے جیسی کوئی چیز نہیں ہے کہ ہم انسان اور اس کی تقدیر کے سلسلے میں کسی قسم کی پیشینگوئی (پریڈکشن) کر سکیں۔ اس تحریر کو پڑھتے وقت ایک اور غلط فہمی یہ ہو سکتی ہے کہ میں شاید انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کے استعمال کے خلاف کچھ کہہ رہا ہوں۔ میرا مدعا یہ نہیں ہے۔سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کا استعمال بدرجہ اتم ہونا چاہیے ۔ یہاں میرا اصل مدعا صرف یہ ہے کہ سائنسی طریقہ کار کے استعمال کی ناگزیریت کے باوجود انسانی و سماجی علوم ‘‘سائنس’’ نہیں بن سکے ہیں اور نہ کبھی بن سکتے ہیں کیونکہ موضوعِ انسانی میں فطرت کی طرح مشینی خودکاری اور خود انضباطی کا عمل نہیں پایا جاتا۔ (واضح رہے کہ مشینی خودکاری محض ایک استعارہ ہے)۔
انسان ایک خود مختار وجود ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ انسان کی خود مختاری کی اصل وجہہ اور اس کے تمام تر خودمختارانہ افعال کا مرکزو محور اُس کی نیت ہے اور نیت کی حتمیت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی اعمال کے پس پشت موجود نیت ہمہ وقت غیرمعقول اور غیر محسوس طور پر مختلف النوع تغیرات کی زد میں رہتی ہے۔ نیت کا دائرہ کار صرف گناہ اور ثواب سے ہی متعلق نہیں۔ نیت انسانی افراد، اداروں اور انجمنوں کے تمام تر اعمال و وظائف کے پس پشت موجود ناگفتہ بہہ/ ناقابل اظہار/ناقابل فہم اغراض و مقاصد کا نام ہے۔ کسی سماج میں ایک شخص یا جماعت کسی مخصوص عمل یا روایت پر کیوں عمل پیرا ہے اس کی کوئی ٹھیک ٹھیک سائنسی توجیہہ اس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح سائنسی علوم میں مظاہر فطرت کا مطالعہ کرتے وقت ہو جاتی ہے۔ انسانی نیت کے سلسلے میں کوئی کامیاب پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ہے۔ پس جب نیت ہی ناقابل مطالعہ اور ناقابل تحقیق ہوگئی جس پر انسانی سماج کے افراد، اداروں اور انجمنوں کے تمام تر اعمال و ظائف کا دار و مدار ہے تو ظاہر ہے سائنسی طریقہ کار کے ذریعے انسانی و سماجی علوم میں حاصل کیے جانے والے علم کی قطعیت وحتمیت کی ضمانت بھی نہ رہی اور اس طرح تمام تر انسانی و سماجی علوم ان معنوں میں ناکام قرار پائے جن معنوں میں فطری سائنس ہمیشہ سے کامیاب قرار پاتی رہی ہے۔ پس سماجی علوم میں دراصل علم یا سائنس نہیں بلکہ سائنس کی دھجیاں اور پرزے ہیں۔ وہاں محسوسات پر مبنی چند سائنسی حقائق کو معقولات سے جبراً منسلک کر دیا گیا ہے اور اسی کے ذریعے اپنے مزعومہ ‘‘ سوشل سائنس’’ کی تشکیل کی گئی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب نیت کی عدم قطعیت کی وجہہ کر انسان کے انفرادی یا اجتماعی عمل کی کوئی قطعی سائنسی توجیہہ ممکن نہیں تو سائنسی طریقہ کار کی حیثیت کتنی رہ جاتی ہے؟ نربلی، مذہبی ماتم، جنسی اذیت رسانی، لذت کوشی، محرمات سے نکاح کا ممنوع ہونا، جرم و سزا، جنگ و خونریزی، پسند و ناپسند، ذوق اور بدذوقی، تہذیب اور بربریت، سماجوں میں پائی جانے والی مختلف الاقسام حلتیں اور حرمتیں، ان میں سے کون سی چیز خالص عقلی و سائنسی طور پر قابلِ مطالعہ ہے؟ ہاں البتہ ایسے معاملات و رسومات کا کوئی مفصل ریکارڈ رکھنا ہو تو اس میں سائنسی طریقہ کار ضرور کارآمد ہو سکتا ہے۔ پھر سماجی علوم میں میں علما و مفکرین سے زیادہ منشیوں اور محرروں کی خدمات حاصل کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ایک منشی یا محرر زیادہ صحت کے ساتھ سماجی امور و مسائل کو نقل کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے سماج اور اس کے افراد کے اعمال و وظائف وغیرہ کا کوئی مفصل ریکارڈ رکھنا سماجی علوم کے پیش نظر نہیں ہے۔ وہ تو سائنس کی طرح سماجی مظاہر اور انسانی معاملات کی توضیح و تعبیر کرتے ہیں۔ اور کسی بھی سماجی عمل کی توضیح و تعبیر اور نظام فطرت کی سائنسی توضیح تعبیر میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
سائنسی طریقہ کار کے استعمال کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح فطری سائنسوں میں ہم جس غیر جانب داری کے ساتھ فطرت پر کوئی اخلاقی تبصرہ کیے بغیر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح سماجی سائنسوں میں بھی غیرجانب داری کے ساتھ افراد یا سماج کی اخلاقیات سے کوئی چھیڑچھاڑ کیے بغیر سماج کا مطالعہ کریں تاکہ طلبا کا ذہن کسی فرد یا سماج کے سلسلے میں مثبت یا منفی طرز فکر کا شکار نہ ہو۔ لیکن سماجی امور کا مطالعہ کرتے وقت ہم متعدد تعصبات اورتوہمات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غیر جانب دار رہنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم سماج کو صرف سمجھ کر رہ جائیں۔ اس کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ جوں ہی کہ ہم نے بدلنے کی کوشش کی، ہم غیر جانب دار نہ رہ سکے۔ سماجی امور و مسائل پر سائنسی طریقے سے تحقیق و تفتیش کرتے ہی ہمارے سامنے حق اور ناحق کا سوال اٹھنے لگتا ہے۔ سماجی علوم کے علما چونکہ سماجی علوم کو ‘‘سائنس’’ بنانا چاہتے ہیں اس لیے وہ سماج کا مطالعہ کرتے وقت اپنے اخلاقی ردعمل سے پیچھا چھڑانے کی عمداً کوششش کرتے ہیں لیکن اس میں وہ کماحقہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔وہ انسانی سماج ، اس کی فطرت اور اس کی ساخت کے ایسے قاری ہوتے ہیں جن کی قرات میں اپنے ردعمل کو پوشیدہ رکھنے کی مشق کے سبب ایک مخصوص قسم کی ریاکاری اور منافقت پیدا ہوجاتی ہے۔ شعوری طور پر اس منافقانہ قرات کے نتیجے میں تمام تر انسانی و سماجی علوم کا لاشعور (جو تحریر ی طور پر وجود میں نہیں رکھتا، آف دی ریکارڈا) غیر اخلاقی کثافت اور مختلف النوع تعصبات سے لبالب بھر جاتا ہے۔

تین

سائنسی تحقیقات کی بنیاد جذبہ تجسس پر ہے اس لیے سائنس داں مظاہر فطرت کا علم حاصل کر کے رک جاتا ہے۔ یہاں اس کے جذبہ تجسس کی تشفی ہو جاتی ہے۔ جذبہ تجسس کی تشفی کی بنیاد پر سوچا جائے تو مجرد سائنس کا نصب العین صرف اور صرف جاننے کے سوا اور کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ سائنس صرف اشیا کے جاننے کا عمل ہے خواہ اس عمل سے نوع انسانی کو فائدہ ہو یا نقصان۔ سیاروں اور ستاروں کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔ پانی کیسے برستا ہے، انسان کے جسمانی اعضا کے اعمال وظائف کیا ہیں۔ دن کیسے ہوتا ہے، رات کیسے آتی ہے۔ یہ سوالات عملاً معصوم ہیں۔ ان سے حیات و کائنات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ صرف جاننا یا مجرد علم دنیا کو نہیں بدل سکتا۔ علم کے ساتھ جب عمل کی قوت جڑتی ہے تو فلسفہ پیدا ہوتا ہے۔ فلسفہ زندگی کو ویسے کا ویسا قبول نہیں کرتا جیسی کہ وہ عملاً ہوتی ہے۔ وہ ‘‘ہونا چاہیے’’ پر عمل کرتا ہے۔ سائنس کی مدد سے وہ پہلے چیزوں کی کارکردگی کا علم حاصل کرتا ہے پھر ان چیزوں کو اپنے آرام و آسائش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بدلتا ہے۔ سائنس کے تمام تر سوالات چونکہ معصومیت کی انتہا پر ہوتے ہیں اس لیے وہ ہر معاملے کو جاننا چاہتی ہے۔ اور جاننے کے لیے تجربہ و مشاہدہ کا استعمال کرتی ہے۔ تجربہ و مشاہدہ یعنی مجرد فکر سے اوپر اٹھ کر اشیا کو دیکھنے، سونگھنے، چکھنے وغیرہ کی شرط لگاتی ہے۔ جبکہ فلسفہ ایسی کسی شرط سے بندھا ہوا نہیں ہے۔ وہ بے شرط ہے۔ اور فلسفہ کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی شرط سے بندھا ہوا نہ رہے۔ اگر وہ ہر معاملے میں دیکھنے سونگھنے اور چکھنے کی شرط لگائے تو پھر وہ فلسفہ نہ ہوگا بلکہ سائنس ہو گی جو اپنی کاوشوں کی بدولت عالم غیب کی چیزوں کو عالم شہادت میں لا دیتی ہے۔
سائنس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ چیزیں کیا ہیں، کیوں ہیں اور وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ وہ معروضی ہوتی ہے۔ جیسا کہ سائنسدانوں کا دعویٰ ہے۔ اگر سائنسدانوں کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو پھر کہنا پڑے گا سائنس ازخود فطرت کو نہیں بدلتی، اس پر فتح نہیں پانا چاہتی۔ اس کو انسانوں کے حق میں استعمال (ایکسپلائٹ) نہیں کرتی۔ بلکہ یہ فلسفہ ہے جو سائنس کی مدد سے فطرت کو بدلتا ہے۔ سائنس ایک تحقیق کرتی ہے اور فلسفہ اس تحقیق کا استعمال کرتا ہے۔ مثلاً سائنس بتاتی ہے کہ پانی بھاپ کیسے بنتا ہے اور بھاپ میں کیا کیا قوتیں پنہاں ہیں۔ اورپھر انسان کی قوت فکر یعنی فلسفہ آگے آتا ہے اور سائنسی علم کا عملی انطباق کرتے ہوئے اس کا اچھا یا برا استعمال کرتا ہے۔ یہ انسان کی قوت اختراع ہے جو بھاپ کی قوت سے ریل کا انجن بناتی ہے۔ اور قوت اختراع کو ہم سائنس نہیں کہہ سکتے۔ سائنسی ایجادات و اختراعات میں کوئی نہ کوئی آئیڈیولوجی یا فلسفہ بالقوہ موجود رہتا ہے۔ سائنس تو وہ تھی جس نے انتہائی معصوم طریقے سے بھاپ کی نوعیت و ماہیت کا انکشاف کیا۔ گویا سائنسداں کے ذہن میں ایک معصوم سوال پیدا ہوا اور اس نے اس کے معصوم جواب کی تحقیق کی۔ یہ درحقیقت کسی نظام اخلاق سے متعلق آئیڈیولوجی یا فلسفہ ہی تھا جس نے سائنس کی معصومت کا استعمال یا استحصال کیا اور بھاپ سے وہ کام لیا جو وہ چاہتا تھا۔ یورینیم کے ایٹم میں پنہاں قوت کو کس نے آشکار کیا؟ سائنس نے۔ اور اس سے ایٹم بم کس نے بنایا؟ ٹکنالوجی نے۔ اور ٹکنالوجی کیا ہے؟ سائنس کا عملی انطباق یعنی قوت ایجاد و اختراع جس میں کوئی نہ کوئی آئیڈیولوجی یا فلسفہ موجود رہتا ہے۔پس ایک ہے غیر جانب دار سائنسی تحقیق اور دوسرا ہے جانب دار فلسفہ جو سائنسی تحقیقات کا استعمال کرتا ہے۔
سائنس چونکہ ازقسم محسوسات ہے اس لیے وہ آگے چلتی ہے اور فلسفہ اس کے پیچھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس فلسفہ کی رہنمائی کا کام انجام دے رہی ہے۔ سائنس کی حیثیت تو ایک روشن چراغ کی ہے فلسفہ جس کی روشنی میں آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اپنے ہاتھ میں سائنس کے اس چراغ کو پکڑے ہوئے فلسفہ جس طرف بھی رخ کرتا ہے چراغ کی روشنی بھی ادھر ہی پھیلیتی ہے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رہنمائی دراصل چراغ کی ہے۔ لیکن کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ امامت تو ابھی بھی اسی کے ذمے ہے جو سائنس کے چراغ کو تھامے ہوئے ہے۔ یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ سائنس دراصل فلسفہ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے۔ اور وہ جس طرح چاہے سائنس سے اپنا کام نکالتا ہے۔سائنس اور سائنسی طریقہ کار کے نام سے اس دھوکہ دہی سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یا تو فلسفہ خود گمراہ ہے یا عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ سماجی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا بھی یہی حال ہے۔ حالانکہ غالب اور برسراقتدار فلسفے سائنس کے ذریعے ذہنی و فکری طور پر وہ تباہی نہیں پھیلا سکے ہیں جو سماجی علوم کے ذریعے سے انہوں نے پھیلا دی ہے۔

چار

تمام فلسفہ عالم غیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اور تمام سائنس عالم شہادت سے۔ اور دنیا کے تمام معقولات و قیاسات عالم غیب سے متعلق ہوتے ہیں نہ کہ عالم شہادت سے۔ اور علم کا تعلق عالم شہادت سے ہے نہ کہ عالم غیب سے۔ اور تمام تر انسانی و سماجی علوم زیادہ تر عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس ان کو علوم کہنا ایک غیر معقول امر ہے جس کی غیر معقولیت کوتسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔
محسوسات عالم شہادت کی بنیاد ہیں اور معقولات عالم غیب کی۔ محسوسات اور معقولات کے درمیان جس قدر فاصلہ ہوگا ہم حقیقی علم سے اسی قدر دور ہوں گے۔ حقیقی علم وہی ہے جس میں محسوسات اور معقولات کے درمیان فصل نہ ہو کر وصل ہو۔ جوں ہی کہ ان دونوں کے درمیان وصل ہوا علم وجود میں آ گیا۔ اس سے پہلے جو کچھ ہے وہ بس اٹکلوں اور قیاسات کے مرتبے پر ہے۔ دنیا میں تنازعات کی اصل وجہہ تجربات و محسوسات سے نہیں بلکہ قیاسات و معقولات ہیں۔ جو چیزیں محسوسات کی بنیاد پر اظہر من الشمس ہیں ان میں نہ کبھی کوئی اختلاف ہو سکتا ہے اور نہ ہوا ہے۔ تجربات و محسوسات کا انکار کون کر سکا ہے؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، تجربہ کیجے اور خود محسوس کر لیجیے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ سوشل سائیسیز یا سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے؟ تاکہ دنیا یہ یقین کر لے کہ ہمارے معقولات برحق ہیں۔ برحق ہیں کیونکہ محسوسات نے ان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔سائنسی طریقہ کار کا مطلب ہی یہ ہے کہ شک کی کوئی بات نہیں۔ ہم جا کر دیکھ آئے ہیں، محسوس کرآئے ہیں، یہی صحیح ہے جو ہمارے نظریے کی رو سے ثابت ہو رہا ہے۔ پس انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کی اہمیت محض اتنی ہے کہ وہ فلسفیانہ نظریات کو تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر پرکھنے کا بھرم قائم رکھے۔ لیکن یہ بھرم لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اوپر اور دور ہی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں اولیت محسوسات کو نہیں بلکہ معقولات و قیاسات کو حاصل ہے۔ انسانی معاملات و مسائل پر غور و فکر کے ذریعے ہر دور میں نظریات قائم کیے جاتے رہے ہیں اور بعد میں محسوسات یعنی سائنسی تحقیقات کی مدد سے انہیں پایہ ثبوت تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چارہ کار ہے بھی نہیں۔
سماجی علوم میں ہی نہیں بلکہ سائنسی علوم میں بھی محسوسات کو اولیت حاصل نہیں رہی۔ نظریہ ہر حال میں مقدم ہے۔ کسی بھی امر کے اثبات کے لیے یہ ایک فطری طریقہ کار ہے۔ لیکن جب تک سائنسی طریقہ کار کی مدد سے کسی امر کا اثبات نہ ہو جائے تب تک اس کو سائنس کیوں سمجھا اور کہا جائے؟ جب ایک بار یہ معلوم ہو گیا کہ انسانی و سماجی علوم میں سائنسی طریقہ کار کی حیثیت کیا ہے اور قیاسات و معقولات کی کیا تو پھر انہیں ‘‘علوم’’ میں کیوں شمار کیا جائے؟ علم یعنی سائنس، علم یعنی محسوسات، یعنی ہر قسم کے شک و شبہ سے پرے۔ علم یعنی وہ چیز جس کو ہم آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور کانوں سے سن چکے ہیں۔ اور دیکھی اور سنی ہوئی باتوں سے انکار ممکن نہیں۔ کیا جملہ سماجی علوم کی یہی کیفیت ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ وہاں تو زیادہ تر معاملات و مسائل کے سلسلے میں ایک سے زیادہ نظریے موجود ہیں جن کی رہنمائی میں ہی سائنسی طریقہ کار کی مدد سے تحقیقات انجام دی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سماجی علوم میں ہم قدم قدم پر اختلافی آرا سے دو چار ہوتے ہیں۔ سائنسی علوم میں ہم چند ایک چیزوں کو چھوڑ کر مشکل ہی سے مختلف فیہہ چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص بہ آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ سائنسی علوم میں متفق علیہ کا غلبہ ہے اور سماجی علوم میں مختلف فیہہ کا۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم سماجی علوم کو سماجی فلسفہ کے نام سے موسوم کرتے؟ لیکن ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ موجودہ انسانی و سماجی علوم کے نصب العین کے خلاف ہے۔
سماجی علوم کی ہر شاخ اپنی جگہ سائنس بننا چاہتی ہے۔ حتی کہ فلسفہ میں بھی بعض ایسے فکری دھارے (مثلاً ہوسرل کی فینومینولاجی) پائے جاتے ہیں جو اپنی فلسفیانہ کاوشوں کو بھی باضابطہ سائنس بنانا چاہتے ہیں۔ جب فلسفہ اس حماقت میں مبتلا تو تو پھر سماجی علوم کے متعلق کیا کہنا! بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ! بہر حال کہنا صرف اس قدر ہے کہ فلسفہ ہو یا سماجی علوم، سائنس بننا دونوں میں سے کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک ناممکن الحصول نصب العین ہے جس کی تکمیل تبھی ہو سکتی ہے جب علمائے سماجی سائنس کو مافوق الفطری قوتیں حاصل ہو جائیں۔

پانچ

سائنسی اور سماجی علوم کے نام سے جو کچھ طلبا و طالبات کو اسکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے اس میں علم کم اور قیاسات زیادہ ہیں خواہ وہ قیاسات کتنے ہی قوی یا حقیقت سے قریب ترین معلوم ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر پانچویں چھٹی کلاس سے ہی بچوں کو اسکولوں میں نظریہ ارتقا پڑھانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اسکولوں اور کالجوں میں نظریہ ارتقا نہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ خود اب میرا بھی یہی خیال ہے کہ نظریہ ارتقا کائنات میں زندگی کے حقائق کو سمجھنےکی طرف ایک اہم قدم ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک یہ قطعی طور ثابت نہیں ہو سکا اس لیے اسے باضابطہ طور پر فلسفہ ہی کہہ کر پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے نہ کہ سائنس قرار دے کر۔ جو چیز سائنسی معیارات پر پوری نہیں اترتی اس کو سائنس کہہ کر پڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
اونچے درجوں کی سائنس کی کتابوں میں خود اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقا ابھی تک مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔ لیکن نچلے درجوں تک یعنی دسویں تک تو اس کو سائنس کہہ کر ہی پڑھایا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کا پورا ماحول اور طرز استدلال نظریہ ارتقا کے برحق ہونے کا پروپیگنڈا کرتا ہے۔ سائنسی طور پر کسی امر کو اس وقت تک حقیقت نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کا اثبات محسوسات کی بنیاد پر نہ کر لیا جائے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا، سائنس کے اونچے درجوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے اور فلفسیانہ نظریات و قیاسات اور سائنسی حقیقت کے مابین فرق کیا جاتا ہے۔ لیکن تب تک بہت سارا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ طلبا کو یونیورسٹی تک آتے آتے دس بارہ سال گزر جاتے ہیں اور ان کا ذہن اس قدر پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ اس سے اختلاف کرتے ہوئے کسی اور رخ پر نہیں سوچ سکتے۔ بہت کم طلبا ہوتے ہیں جو غیر جانب دار رہتے ہوئے نظریہ ارتقا کے سلسلے میں منطقی ریب و تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں۔
مناسب یہ ہوگا کہ جو چیزیں سائنسی طور پر ثابت شدہ اور مصدقہ ہیں، بار بار آزمائے جا چکے ہیں اسکولوں میں صرف انہیں ہی سائنس کہہ کر پڑھایا جائے اور بقیہ کو محض نظریات و قیاسات کے طور پر۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سائنسی علوم کی اسکولی تدریس میں بھی غیر سائنسی عناصر پائے جاتے ہیں جن کی بیخ کنی آزادی فکر کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔
یہ تو تھی سائنسی علوم میں علم کی کیفیت کے سلسلے میں ایک اصولی بات۔ اب آئیں انسانی و سماجی علوم کی طرف۔ علم کے نام پر محض قیاسات و نظریات پڑھانے کی نامعقول روایت کا تماشا اگر دیکھنا ہو تو بنیادی سماجی علوم میں سے کسی ایک کو اٹھا کر دیکھیے۔ اس میں قدم قدم پر نظریہ ارتقا کی گونج سنائی دے گی۔ ایک غیر ثابت شدہ نظریہ اس قدر اہمیت اخیتار کر گیا ہے کہ یہ تقریباً ہر سماجی علم کی بنیاد ہے۔ تاریخ کو بھی سماجی علوم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیاد بھی یہی غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ ماقبل تاریخ کے ابتدائی اسباق پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہو گا کہ آپ تاریخ کم اور حیاتیات زیادہ پڑھ رہے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نظریہ ارتقا غلط اور بے بنیاد ہے۔ میرا خیال ہے کہ زمین پر زندگی کو سمجھنے کے لیے اب تک کے تمام نظریات میں یہی سب سے زیادہ معقول اور حق سے قریب ترین نظریہ ہے۔ لیکن با ایں ہمہ یہ مکمل طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔ اس لیے علمی حزم و احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو سماجی علوم کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ کیا اور کتنا فرق پڑے گا اگر تاریخ کی کتابوں میں انسانی زندگی کی ابتدا کو غیر جانب دار طور پر شروع کیا جائے؟ یا کم از کم نظریہ ارتقا کے خلاف جو دلائل دیے جاتے ہیں انہیں بھی اسی جوش و خروش اور تفصیل کے ساتھ درج کیا جائے؟ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ نصابی کتابوں میں حیات انسانی کی ابتدا سے متعلق مختلف اور متضاد نظریات کے تمام حامیوں کے دلائل کو بے کم و کاست بیان کر دیا جائے۔ اس سے خطرہ یہ ہے کہ کم عمر اسکولی طلبا کا ذہن گمراہ ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن یہ گمراہی کسی غیر ثابت شدہ صراط مستقیم سے زیادہ بہتر ہے۔ نصابی کتابوں میں مختلف و متنوع نظریات کو زیر بحث لانے سے بلاشبہ طلبا کنفیوز تو ہوں گے لیکن اسی کنفیوزن کی بدولت وہ مزید غور و فکر کی طرف مائل ہوں گے اور اپنے لیے زیادہ شعور کے ساتھ حیات انسانی کی ابتدا کے سلسلے میں کسی بھی نقطہ نظر کو اپنا سکیں گے۔ لیکن چونکہ موجودہ علمی و فکری روایت میں کلیت پسندانہ رجحانات کا غلبہ ہے اس لیے اس کے اندر کسی ایسے نصاب کو برداشت نہیں کیا جا سکتا جو مختلف و متضاد نظریات کی تعلیم کے ذریعے طلبا کے سامنے ایک سے زیادہ نظریہ یا فلسفیانہ متبادل پیش کر سکے۔ دنیا کے ہر اجتماعی نظام تعلیم و تربیت کا مقصد اپنے مقلدوں کو پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ان اغراض و مقاصد کو پورا کرتے رہیں جن کے پورا کرانے کے لیے اس اجتماعی نظام تعلیم و تربیت کو وجود میں لایا گیا ہے۔

25.06.2011

اتوار، 8 مئی، 2011

مذہب اور مذہبیت

صدہاسال سے
فقہی موشگافیوں کی بدولت
فتویٰ سے پیدا کیا جا رہا ہے جو تقویٰ
اس تقویٰ سے مارگیا ہے لقویٰ ہماری مذہبیت کو
اور اب الٹی چل رہی ہے سانس
بس تھوڑی دیر اور
تھوڑی دیر اور
پھر دم اکھڑجائے گا
سر ہانے بیٹھا مولوی آیت الکرسی تو پڑھ ہی رہا ہے
کچھ دیر بعد جھولم جھول فاتحہ خوانی بھی کرے گا
پھر حلق تک ٹھونس لے گا حلوہ، ملیدہ، پلاو اور مرغ
اور لمبی تان کر سو جائے گا بعد نماز فجر
رات بھر چلنے والے میلاد کی تھکان مٹانے کے لیے
ظہر میں اٹھ کر ٹونٹی والے لوٹے میں پانی منگوائے گا
منہ میں کلی بھر کر پھچاک سے پانی پھینکے گا آگے
اوربائیں ہاتھ کی دو انگلیاں
حلق میں ڈال کر اوع اوع کرے گا
لو ہو گیا وضو
اب نماز پڑھائے گا
دن بھر میں پانچ بار پڑھاتا ہے
نماز کے نام پر اپنے مسلک کا جنازہ
جس سے مذہب کو روزانہ ملتی ہے پانچ بار زندگی
اور مذہبیت کو پانچ بار موت

2009

المعلقات

لعنت ہے ان سب زن مریدوں کی زن مریدی پر
جو طاق راتوں میں بھی جفت ہو کر سوئے
اور اونٹ کی طرح گردن پھیر لی اپنی ایسی جورووں کی طرف سے
بعد اس کے کہ وہ ان سے خوب خوب متمتع ہوچکے
اور پھر اپنے ہمسایوں کی جورووں کی طرف متوجہ ہوئے
اور ان سے اپنا دردِ نہاں بیان کیا
حالانکہ ان کے لیے جائز نہ تھا کہ وہ ایسا کرتے
بے شک تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو
پس اب چکھو مزہ اپنے شریر ہمسایوں کے شر کا
تمہاری جوروئیں اب تمہارا مزید انتظار نہ کرسکیں گی
کہ تمہارے ہمسایے ضرور ڈالیں گے ان پر ڈورے
جنہیں تم نے چھوڑ دیا اَدھر لٹکتا
اور جن کی طرف سے تم ہوگئے بے نیاز
اور سمجھ لیا جنہیں تم نے بے وقوف اور بے وزن

2009

For a Well Furnished Toilet

حالانکہ میں ایک غریب آدمی ہوں
لیکن مجھے تمنا ہے
ایک ایسا مسکراتا چمچماتا بیت الخلا بنوانے کی
جس میں بیٹھ کر
قباحت و انقباض کی کیفیت میں مبتلا ہو ئے بغیر
سوچ سکوں دیر تک
دنیا جہان کے مسائل پر
ماڈرنزم، پوسٹ ماڈرنزم
اور مارکسزم، پوسٹ مارکسزم سے لے کر
دلت ومرش اور استری ومرش تک
حتی کہ نیو ورلڈ آرڈر پر بھی
اور پھر اٹھتے وقت
فلش کے ساتھ ہی بہادوں سب معاصر افکار

میں ایسا بیت الخلا ضرور بنواوں گا
حالانکہ میں فی الحال ایک غریب آدمی ہوں
شکشت بے روزگار
لیکن اپنی مرضی سے بے روزگار ہوں
بازار میں کام کی کمی نہیں
کوئی بھی کام کر سکتا ہوں
پان بیڑی سگریٹ
یا کرانے کی دوکان بھی کھول سکتا ہوں
لیکن ایسی فراغت نصیب نہ ہو سکے گی
جیسی میرے پیش نظر ہے
تب رات رات بھر نہیں جاگ سکوں گا
اور دن چڑھے تک نہیں سو سکوں گا
اور تب زندگی میں وہ بے راہ روی نہیں رہ جائے گی
جو زندگی کا عزیز ترین سرمایہ ہوتی ہے
ایک احساسِ زیاں
جو میری اُس بے راہ روی سے بڑی شدت سے پیدا ہوگا
وہی اس زندگی کی یافت ہوگی
نہیں زندگی نہیں
وہی دراصل اس جسدِ خاکی کی کوشش ناکام کا حاصل ہوگا

کسی ایسے بیت الخلا کے لیے
اسی معیار کا ایک گھر بھی بنوانا ہوگا
اور اسی معیار کا ایک گھر بنوانے کے لیے
کوئی اہم یا اعلیٰ عہدے دار
یا ایک یونیورسٹی پروفیسر بننا پڑے گا
جس کے چہرے پر ایک نفیس داڑھی ہو
اور چہرے پر ایک خاص قسم کی نظریاتی ثقاہت و سختی بھی
اور جو سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا ہوا کلاسیکل جغادری معلوم ہوتا ہو

کسی ایسے ہی بیت الخلا کی یوٹوپیائی تمنامیں
زندگی کے دن گزرتے جاتے ہیں
جوان جسم میں بڑھاپے کی آہٹ
اور چہرے کی ساخت میں نامطلوب انقلابات
آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن گئے ہیں
اور آنکھ سے نیچے
گالوں کی ہڈیاں مزید ابھر آئی ہیں
چہرا مزید چوڑا ہو گیا ہے
سر اور داڑھی میں اکا دکا سفید بال نظر آنے لگے ہیں
اوراب کبھی کبھی درد بھی ہونے لگا ہے
آنکھوں میں پڑھتے وقت

مگرجوانی کی اسی شام
میں قسم کھاتا ہوں
میں ایسا بیت الخلا ضرور بنوا کر رہوں گا
جس سے متصل ہی ہوگا ایک خوبصورت باتھ روم
بے حد خوابناک اور طرب ناک
جس میں جاکرشاور کے نیچے
عمر بھر کی تھکن زائل ہو جائے گی
ایک ایک عضو کو مل مل کر نہاوں گاباتھ ٹب میں
اور اس طرح صبح و شام
یونیورسٹی پروفیسر ایکدم فریش ہوکر نکلے گا
اور پھر باتھ روم سے ملحق بیڈروم میں گھس جائے گا
تولیہ لپیٹے ہوئے

تو کیا ہوگی ترتیب میرے خواب کی ؟
تعمیر و تزئینِ بیت الخلا
اور بیت الخلا سے متصل غسل خانہ
اور غسل خانے سے ملحق خواب گاہ
ذرا انگریزی میں دہرالوں
ویل فرنشڈ ٹوائیلٹ اینڈ باتھ روم
اینڈ اٹیچڈ بیڈ روم، ویل ڈیکوریٹیڈ

یہ خواب اس وقت تک خواب رہے گا
جب تک کہ میں وہ پڑھتا رہوں گا جوپڑھنا چاہتا ہوں
اور وہ لکھتا رہوں گا جو میں لکھنا چاہتا ہوں
اور میرا یہ خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا
جب میں دوسروں کی ضرورت کے مطابق لکھوں گا
جب ماڈرنزم، پوسٹ ماڈرنزم
مارکسزم ، پوسٹ مارکسزم
ایکو کریٹی سزم، گائینو کریٹی سزم، فیمی نزم
اور سب رائج الوقت سکوں کی کھنک
میرے حواس پر سوار ہو جائے گی
اور میں اپنے جنون میں ایک کیمیاوی تبدیلی کرلوں گا
دوسرے جیسا کہتے ہیں
ویسا ہی بن جاوں گا
اور بس تھوڑا سا
کہیں کہیں معاصر افکار میں تصرف کرکے
اپنے افکار اور اپنی تحریرمیں ایک انفرادیت پیدا کرلوں گا
اور تب کہیں جا کر کوئی لکھے گا مضمون
’طارق صدیقی کی انفرادیت‘
یا ایسا ہی کچھ

اور تب میری پروفیسری کی راہ ہموار ہوگی
اور پھر ہو سکتا ہے
کہیں ایسا ہو جائے
کہ مجھے صدر شعبہ بنا دیا جائے
اور پھر تو ایسا بھی ہو سکتا ہے
کہ میدان علمی میں میرے کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے
مجھے اعزازی طورپر پارلیمان کا ممبر نامزد کر دیا جائے
یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جاوں
یا ساہتیہ اکادیمی کا صدر
یا ایسا ہی کچھ

دنیا بھر میں کتنی ہی یونیورسٹیاں مجھے
پی ایچ ڈی کی ڈگری دے کر اپنا نام روشن کریں گی
جانے کتنے ہی ایوارڈ مجھے دیے جائیں گے
اور میں سب کو شکریے کے ساتھ قبول کر تا چلا جاوں گا
اور دنیا کی دیوقامت شخصیات میں میرا شمار ہوگا

لیکن یہ سخت مشکل ہے
سخت مشکل ہے ایسا بیت الخلا بنوانا
کہنا آسان ہے
قسم کھانا آسان ہے
لیکن کرنا مشکل ہے

ٹھینگے سے

2009

رٹو اور

ایورسٹ پر
گیان کا سورج
اگا تھا پورب ہی میں
اگا تھا پورب ہی میں
پیارے طوطا بھائیو
جھوٹ موٹھ مت گاو اتنا
اب دھرتی ہے گتی مئے گول
فرار ہو گیا سورج پشچم

سات سمندر پار اِدھر بھی
جل دیوتا گرج رہے تھے
ڈر جاتے تھے طوطا پن میں لوگ
پشچم پیر دھریں تو کیسے

لہروں سے لڑتے بھڑتے
ہٹلر ہی آتے تھے
سچ مچ ہٹلر ہی آتے تھے
ریل چلانے
گاووں کو شہر بنانے
جیسے نئے کولمبس آج
انت رکش سے مل کر پھینکیں
جگ مگ جال طلسم

پیارے طوطا بھائیو
اب آنکھ میچ کر
سانس کھینچ کر گاو
اوم ڈبلو ڈبلو ڈبلو
دنیا بن گئی گاوں

2006

نو مینس لینڈ (میل فی میل پالیٹکس)

پڑھو اے بی سی ڈی
جتنے مرد ہیں
اتنی عورتیں
یعنی برابر برابر
تو سنسد میں بھی ، فوج میں بھی
دونوں ہوں گے برابر برابر
نہ ایک کم نہ ایک زیادہ
بلکہ پردھان منتری بھی دو ہوں گے
ایک مرد ، ایک عورت
مرد مردوں کا پردھان منتری
عورت عورتوں کی پردھان منتری
مگر ایک میان میں دو تلواریں
نہیں رہ سکتیں
دو پردھان منتریوں سے
ایک دیش نہیں چل سکتا
اس لیے پارٹیشن بہتر ہے
مردوں کا دیش الگ
عورتوں کا دیش الگ
دونوں دیشوں کی اپنی سنسد
اپنی سرحد ، اپنی فوج
اور جہاں پر
دونوں دیشوں کی سیما ریکھا ملے گی
وہ نو مینس لینڈ ہوگا
—”اور ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا بھین جی؟“
ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا ، ا یچ آر ڈی کا کیا ہوگا !
ہم مشین نہیں عورتیں ہیں مردوادیو سمجھے
ایچ آر ڈی کا کام نومینس لینڈ میں ہوگا!
”تھینک یو بھین جی ، پاسپورٹ کے چکر سے تو نجات ملی !“

2006

دانو اور پری

ناری تم لوک کتھا کی وہی پری ہو
دور گگن سے اس دھرتی پر
کریڑا کرنے جو آتی تھی
یہیں بس گئی

یہیں بس گئی ؟
نہیں نہیں
اک دانو نے پکڑ لیا تھا
جس کے جھلمل نبھ پنکھوں کو
دھر پوَرُش سے کتر دیا تھا
جس کے تن کو
تن کے من کو
اس دانو نے
بس اک چھن میں
رشتوں ناتوں سمبندھوں کے
کرُور جال میں جکڑ لیا تھا

پھر ُیگ جانے کتنے بیتے
پنکھ رَہِت اُن بیاکل ڈَینوں کی تڑپھن میں
سونا چاندی ، ہیرے موتی
لعل ، جواہر ، نیلم روبی
مٰخمل ،ریشم، خوشبو
سب نیوچھاور
سب نیوچھاور اس کے تن پر
پھر بھی من تھا چھٹ پٹ چھٹ پٹ
جیسے جل بن مچھلی

سورج، چندا اور ستارے
گنگا ،جمنا اور ہمالَے
آتی جاتی ساری رِتوئیں
کلی، پھول اور تتلی، بھونرے
سب روتے تھے
اس کے دکھ پر
یہ کہتے تھے
اڑ جا وپھرمُکت گگن میں
پنکھ لگا کر نقلی
او ری پگلی

2005

شاعری اور نظریہ

غور سے تو ہماری جوتی بھی نہیں سنتی شاعری
شاعری کویہاں جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں
گھر کی جورو کی طرح
اور نہ جانے کتنے شعر
ہماری جوتیوں کے نیچے سے ٹیاوں ٹیاوں کرتے ہوئے نکل جاتے ہیں
ہماری جوتیوں کی ساخت ہی ایسی ہے

جی میں تو آتا ہے کہ ابھی جوتیا کے اس بے خود شعریت کو نکال باہر کریں
اس کی زبان درازی کی وجہ سے
لیکن کچھ سوچ کر رہ جاتے ہیں
آخر کو اس کی ضرورت بھی پڑتی ہی ہے
ورنہ ہماری جوتی بھی نہیں سنتی شاعری
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ
سر پر چڑھ کر ناچے گی یہ حرافہ
اسی لیے اسے گھر کی جورو کی طرح جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں
اور اس طرح اِس کو اوقات بتاتے رہتے ہیں
منہ باندھ کر مارتے ہیں روزانہ بھیتریا مار

2009

جنڈر وار

حوا کی بیٹیوں نےآدم کے بیٹوں کو للکارا
ازل سے آج تک
تم نے میرے ساتھ جو کیا
اس کا حساب دو
آدم کے بیٹوں نے کہا
تم میرے برابر نہیں ہو کیا
اچھا تو آو ’استری ومرش‘ کریں
اور پھر خوب استری ومرش ہوا
فلموں میں
نوٹنکیوں میں
میلوں ٹھیلوں میں
یہاں تک کہ
باقی رہ گیے
حوا کی بیٹیوں کے تن پر
کپڑوں کے دو تار
اور ہاتھ میں ایک رومال
آنسو پونچھنے کے لیے

2005

بھیتر کی یاترائیں

بلی ، کتے ، گدھے ، بندر، سور
پیارے پیارے اور بھیانک ، گندے
یا نالی کے کیڑے بھِن بھِن
یا مکھی مچھر، تتلی بھونرے بھَن بھَن
سب جیتے ہیں اوپر اوپر
عام سطح پر باہر باہر
اِس مایا سے اُس مایا پر
جا پڑتے ہیں جبری جبری بے خبری میں
نہیں جانتے سب کایا ہے فانی
جو ظاہر ہے سب چھایا ہے جانی
ظاہر باہِر کوئی حقیقت
نہیں ہے ایسی تیسی اس دنیا کی
چل بھیتر جا
فلس فلس فس
ہاں بھیتر جا
رینگ رینگ کر
سرک سرک کر
اپنے اندر
ڈوب خودی میں
اُب ڈُب اُب ڈُب
پھر باہر آ
کھول کے آنکھیں
دیکھ یہ دنیا، سندر اور بھیاوہ
ہے قدموں میں آنکھ بچھائے
لوٹ رہے ہیں کس شردھا سے سب دوپائے
جیت لیا نا آخر تو نے
بھیتر جا کر اس دنیا کو مردِ قلندر
مرد ِسکندر اس مایا کو، اس مدیرا کو
چھان لیا ناآخر
جی لینا ہے ٹھان لیا نا آخر!

2009

ملتِ مرحوم

ہم تاریخ میں دفن ہیں
اور تہذیب ہمارا کفن ہے
اورزبان ہمارے ماتم کا گیت
اور مذہب ہمارے قبرستان کی کانٹے دار گھیرا بندی
جو باہر ہے وہ اندر آ سکتا ہے
مگر اندر کے لوگ باہر نہیں جا سکتے
کھلی فضا میں
(2008)

ابھی نہیں

ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
ضعیفی میں
میں آسانی سے مرنا چاہتا ہوں
اپنی طبعی موت
اپنے بستر پر
رات کو سونے کے بعد
گہری نیند میں

مجھ سے پہلے
مر چکی ہو ماں
مجھ سے پہلے
مر چکا ہوباپ
جو سمجھتا ہے مجھے لاٹھی بڑھاپے کی
اور صفیہ
مجھ سے پہلے مر چکی ہو
اور نافرمان اولادیں مری زندہ رہیں
بدن پر کوڑھ کی مانند
اور انور بھی
مجھ سے پہلے مر چکا ہو
کٹ چکے ہوں دوستی کے سلسلے سارے
پرانے اور نئے
تاکہ تنہائی مقدر ہو مرا یہاں تک کہ
زندگی بوجھ بن جائے
اور پھر تیری ضرورت ہو
تب اٹھا لینا مجھے مشکل کشا
ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
(2006)

ہم تم

ہم تم
ترجمے ہیں دوست
ایک دوجے کے لیے
آج تک
جو بھی کہا میں نے تمہیں
جو بھی کہا تم نے مجھے
سب ترجمہ پن سے
کون سمجھا ہے کسی کو تہہ تلک
خوامخواہ جذبات کی رو میں
سنو
اوریجنل کچھ بھی نہیں ہمدم
تم وہی ہو ایو
میں وہی آدم
اسی ڈسکورس میں جینا
اسی ڈسکورس میں مرنا
کبھی اقرار کا چکر
کبھی انکار کا دھرنا
یہی اپنا مقدر ہے
یہی ہے زندگی کرنا
متن سے کھینچ لوں گا ایک دن بالجبر
نفس معنی کی طرح تم کو
توڑ ڈالوں گا کسی دن فن کی زنجیریں تمام
(2006)

عورت

عورت ایک طرح سے بیل ہے جو پاس کے پیڑ پر چڑھتی ہے
عورت ایک طرح سے تیل ہے جو دیے میں جلتی رہتی ہے چپ چاپ
عورت ایک طرح سے کھیل ہے جسے کھیلتے ہیں ہم بار بار جیتنے کے لیے
عورت ایک طرح سے ریل ہے جس کا ڈرائیوراور گارڈ دونوں ہی ہیں مرد
عورت ایک طرح سے جیل ہے جس میں قید رہتی ہے مرد کی جان
بڑے آرام سے
(2009)

یاد

یاد جانے کب چلی آئی
کب چلی آئی دبے پاوں
جیسے آتی ہے بہار معتدل
موسم سرما کے بعد



تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے
تو لگتا ہے کہ آیا ہے
کوئی جھونکا ہوا کا
مری بے چارگی
مری مصروفیت کے بند کمرے میں
جھروکے سے
سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل

اف نہ جانے کب چلی جائے
کب چلی جائے دبے پاوں
آکاش میں اڑتے
کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے
زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے

کیوں نہیں رہتی
ہمیشہ کیوں نہیں رہتی
موجزن دل میں سمندر کی طرح
جب بھی آئی جاں بہ لب آئی
جیسے برساتی ندی
2006

جانب ِمنزل

جس دن بھر آئیں گی آنکھیں اس دن چل دوں گا چپ چاپ
اٹھا کر جھولا
جس میں تہہ بر تہہ ہونگے میلے کپڑے دوچار
بڑھی شیو اور مڑا تڑا سا کرتا پہنے
ہاتھ میں ایک ٹفن
جس میں رکھ لوں گا خرید کرتھوڑے بُھنے چنے
کہیں رکوں گاکسی موڑ پر کھا لوں گاسر پر ہاتھ دھرے
سرکاری نل کے نیچے کپڑے دھو لوں گا
اور سکھا کرپھر چل دوں گا انجانی منزل کی اُور
(2009)

اتوار، 6 مارچ، 2011

عورت : مشرق و مغرب

ان کی عمریں نباتات کی عمروں کی طرح بسر ہو جاتی ہیں۔
— ابن رشد

[حالانکہ مشرق اور مغرب کا فرق اب ساری دنیا میں تقریباًختم ہوگیا ہے اور ہر مشرق میں ایک مغرب اور ہر مغرب میں ایک مشرق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مقناطیس کے ہر ذرے میں قطبین کا وجود ہوتا ہے، لیکن بغور دیکھا جائے اور مشرق و مغرب کو الگ الگ سوچا جائے ، تو معلوم ہوگا کہ عورت کے مشرقی و مغربی تصور میں آج وہی فاصلہ ہے جو خود مشرق اور مغرب میںہے۔ تصور کا یہ فرق ماضی بعید میں کس قدر تھا ،یہ تاریخ کا سوال ہے ، مگرجو فرق زمانہ حال میں موجود ہے اس پر غور کرنا پہلے ضروری ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت آخر عورت ہے ، خواہ مشرق میں ہو یامغرب میں، اس لیے خود اس میں اور اس کے تصور میں دونوں تہذیبوں میں مشترک قد ریں بھی پائی جاتی ہیں جن کا سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے جو اس مضمون کا موضوع نہیں۔
چونکہ یہ مضمون یکے بعد دیگرے دو انتہاﺅں پرجا جا کر لکھا گیا ہے اس لیے بعض الفاظ یا جملے ناگوار ہو سکتے ہیں ۔مگر یہ زیادہ ضروری تھا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کا دماغ جن دو انتہاﺅں پررہتا ہے اسے بیان کیا جائے نہ کہ روایتی ذوقِ مطالعہ کی رعایت کرتے ہوئے میٹھی میٹھی باتیں کی جائیں ۔]


مشرقی اور مغربی عورت میں چراغِ خانہ اور شمعِ محفل کا فرق ہے۔ مغرب میں عورت آلہ ¿ تفریح و تجارت ہے اور مشرق میں سامان خدمت و اطاعت۔یعنی مغربی خاتون محبوبہ ہے اور مشرقی عورت لونڈی۔ رفیقہ ¿ حیات وہ کہیں نہیں ہے، الا ماشااللہ۔ نسوانی حسن کا ذوقِ مصرف بھی مشرق و مغرب میں جدا جدا ہے ۔ایک جگہ وہ شو کیس میں سجی ہے اوردوسری جانب چہاردیواری کی زینت بنی ہے ۔غالباًصنف’ ِنازک‘ کایہی وہ مصرف ہے جس کے پیش نظر پیہم اُس کی تربیت کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مشرقی اور مغربی قوموں کے ذوقِ تربیت میں بھی خاصافرق ہے۔مغربی ذوق ہر ممکن طریقے سے جوہر نسوانیت کو آشکار کرنے کی طرف مائل رہتا ہے اورمشرقی ذوق اس کو ہر طرح پوشیدہ رکھنے کی سعی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک اسے استقبالیہ پر مسکرانے کا انعام دیتا ہے اور دوسرا اسے کھڑکی سے باہر جھانکنے کی سزا۔گویا اپنے اندازِتربیت میں مغرب سراپا ترغیب ہے اور مشرق سراپا ترہیب۔حالانکہ ترغیب ا ور ترہیب دونوں کی غرض و غایت ایک ہی ہے، یعنی تربیت کرنا اور سدھانا، لیکن ایک خود کو عورت کا مربی اور مزکی قرار دیتا ہے اور دوسرا اس کا دوست اور ساتھی ہونے کا دم بھرتا ہے۔ مربی و مزکی ہونے کی حیثیت سے ایک اسے سنوارتا اور پھٹکارتا ہے اوردوست ہونے کی مناسبت سے دوسرا خیر خواہانہ مشوروں میں یقین رکھتا ہے ، وہ بھول کر بھی سرزنش نہیں کرتا کہ سرزنش اور گوشمالی سے بغاوت جنم لیتی ہے۔جبکہ بعض اعتدال پسندوں کا خیال یہ ہے کہ عورت کی تربیت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں سے کام لینا ضروری ہے۔ صرف رغبت دلانے یا صرف دہشت پیدا کرنے کا رویہ غیر معتدل ہے۔ کامیاب اور بہترین مربی وہ ہے جو پیار بھی جتائے اور پھٹکاربھی لگائے۔ اِسی سے نسوانی شخصیت کا ارتقا ہوتا ہے اور اس میں توازن و اعتدال کی صفت جلوہ گر ہوتی ہے۔اِسی سے اس میں وفاداری ، اطاعت شعاری اور خدمت گزاری پیدا ہوتی ہے ۔ اور اِسی سے اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
مغرب میں عورت کو دکھا کر سنوارا ، اور سنوار کر دکھایا جاتا ہے اور مشرق میں چھپا کر سنوارا، اور سنوار کر چھپادیا جاتا ہے۔سجنا اور سنورنا ہردو جگہ اس کا مقدر ہے ،مگر آفتابِ حسن کو مغرب میں زوال نہیں۔اور اِس وقت تویہ نصف النہار پر ہے۔اور عالمِ مشرق میں اس کو برقعے کی تاریکی میں لپیٹ دیا گیا ہے۔نتیجے کے طور پرمغرب کے نصف النہار کے مقابلے مشرق میں شبِ تار کا عالم ہے۔ مگردونوں جگہ عورت کے جسم پر بارہ بج رہے ہیںاور روح کاکہیںکوئی پتا نہیں۔ مغرب کا نصف النہار جس میں اس کا ایک ایک عضو چاندی سا چمکتا اور سونے سا دمکتا ہے ۔نصف النہار— جس کی چمک نے بصارت ہی نہیں بصیرت کو بھی خیرہ کر دیا ہے ۔ اتنا خیرہ کر دیا ہے کہ ُاس کے بدن کی نسبتاً آسان راہوں سے ہو کر روح کی دشوار گھاٹی میں اترنے کی راہ نہیں سوجھتی۔ اورادھر مشرق کی شب تارمیں بدن ایک شجر ممنوعہ ہے جس کی کوئی شاخ ہری نہیں — بس ایک منحوس میلی چادر جس کی تاریکی میں اس شجر ممنوعہ کی ہر شاخ اپنی فطری شادابی ،اور توازن ،اور لوچ کھو بیٹھی ہے۔واللہ یہ بدن روح کے منزل مقصود تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے،بلکہ بدن خو د منزل ہے،بالذات منزل ہے ، اور مشرق میں یہی بدن اپنی حقیقی روح کھو بیٹھا ہے، حالانکہ روحانیت کی گرم بازاری ہے۔ بہر حال نصف النہار ہو یا شبِ تار ، دونوں کے اپنے فائدے بھی ہیں جن کا کہ کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔
ہیہات !اُس پارحسن و جمال کا دریا بہہ رہا ہے کہ فیض اٹھانے والے فیض اٹھاتے اور دادِ حسن دیتے جاتے ہیں۔ اوراِدھر یہ حال کہ ہر گھڑی چور اچکوں ، اٹھائی گیروں اور تماش بینوں کادھڑکا لگا رہتا ہے، سو تالا لگاکر سونے چاندی سا محفوظ رکھتے ہیں۔ اُدھر افراط کاایسا چشم کشاہوشربامنظر کہ ریمپ پر قطار در قطار کیٹواک مچی ہے، گویا ہرنیاں پالتو بنا لی گئیں۔تہذیب کے دامن میں حسنِ وحشی کو ایسی تربیت ملی کہ چوکڑیوں میں طراری کے بجائے طرحداری پیدا ہوئی ، اور غمزوں میں تصنع کے سا تھ نزاکت، اورتبسم میں توقع کے ساتھ لگاوٹ۔ دیکھوکہ کس طرح آفتاب و ماہتاب ایک ساتھ بِنداس گریبانوں سے نکلے پڑتے ہیں جن کی حرارت سے مغرب بخارمیں پھنک رہا ہے۔ دیکھو اور سبق حاصل کرو کہ کس طرح وہاں حسن سے فیضیاب کرانے پر خطابات ملتے ہیں ۔ اوراِدھر ایسی تفریط کہ سہواً بھی ظاہر ہونے والی کوئی زینت ظاہر ہو جائے تو عتابوں کی جھڑی اور آنسوﺅں کی لڑی۔یا مظہر العجائب، اُدھر شارعِ عام، اِدھر حبسِ دوام! وہاں تنِ نازک پر کپڑے کا ایک تار اوررخِ زیبا پرشرم کا ایک چلّو تک باقی نہیں رہتا اوریہاں اسے برقعے میں کفنا کرحیا میں دفنا دیا جاتا ہے۔الغرض اُدھر بِکنی پر اصرار ،اِدھر برقعے کی تکرار۔اورمشرقیت ا ور مغربیت کی اس کشمکش میں عورت کی اپنی کہیں کوئی مرضی نہیںہے ۔اس کااپنی روح اوراپنے جسم پر کوئی اختیار، کوئی حق باقی نہیں ۔وہ اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتی۔ہر کہیںمرد اس کے خدا بنے ہوئے ہیںجو لمحہ لمحہ اس کی تقدیر میں جنت یا جہنم لکھ رہے ہیں۔خود اسے آگے بڑھ کر اپنا جہنم یا اپنی جنت چن لینے کی آزادی نہیں ۔
اور جبر کے اس ماحول میں اعتدال کی پھٹکری لگانے والے پھٹکری یوں لگاتے ہیں: مغرب نے عورت کو ننگا کیا اور مشرق نے اسے چھپایا۔اورچھپانا، ننگا کرنے کے مقابلے بہتر ہے۔ عورت کا تو مفہوم ہی اسرار و خفاہے۔ آگاہ!عورت ایک راز نہاں ہے ، اس کو ہر گز افشا نہ کرنا چاہیے۔یہ تہذیب کی آبرو اورزندگی کی ضمانت ہے۔ مگر اسے مخفی رکھنے میں توسط و اعتدال کی شاہراہ سے یک سرِ مو تجاوز نہ ہو۔اسے چھپاﺅ جتنا کہ چھپاﺅ جتنا کہ چھپانے کاحق ہے اور دکھاﺅ جتنا کہ دکھانے کا حق ہے۔
اور ’ چھپاﺅ ‘اور’ دکھاﺅ‘ کی ساری کھینچ تان کے درمیان عورت ہر دو جگہ عملاً ایک غیر ذی روح شئے ہے۔مشرق میں عورت کا مرد سے زیروزبر یعنی امیرو مامور کاتعلق ہوتا ہے اور مغرب میں شیر و شکر یعنی عاشق و معشوق کا۔ غور کیجیے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہاں عورت کو امور خانہ داری کے بھرم اوروہاں امور مملکت کے وہم میں لاحق رکھا گیا ہے۔ یعنی یہ باورچی خانے کی ملکہ اور وہ ڈرائنگ روم کی شوبھا۔اِدھر یہ دیگچیوں کی ٹھناٹھن ،اُدھر وہ قلقلِ مینا۔زیبا ہو یا کرسٹینا۔ زیادہ سے زیادہ مشرقی عورتیں گھریلو مکھیوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور مغربی عورتیں خوشرنگ تتلیوں کی۔دونوں کا مقابلہ کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔مشرق میںان کی زندگیاں نباتات کی طرح بسر ہو جاتی ہیں اور مغرب میں حیوانات کی طرح۔ پس لکھو کہ مشرق میں وہ دن رات مسالا پیسنے کی سل پر اپنا مقدر کوٹ رہی ہے۔اور لکھو کہ مغرب میں اس نے اپنی مامتا کو سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل کر دیا ہے۔اورلکھو کہ مشرقی عورتیں وہ کلیاں ہیں جو حجلہ ¿ عروسی کی ملگجی روشنی میں سیج کے کام آ گئیںاور یہ بھی لکھو کہ مغربی عورت روزانہ بدل دیے جانے والے کوٹ کے گلاب سے زیادہ کچھ نہیں جس کو آخرکار ڈسٹ بن کی نذر ہوجاناہے۔
خداوند ہو یا خاوند،مشرقی عورت کے لیے دونوں یکساں ہیں۔ دونوں کو خوش رکھنا مشرقی تہذیب اور روایات کی رو سے اس کا فرض منصبی ہے۔ اور دونوں اپنی مرضی کے مالک و مختار ہیں۔ جو چاہیں کریں ۔ دونوںعادل و منصف اور جبار و قہار ہیں، جو چاہیں سزا دیں۔ جب ، جہاں اور جتناچاہے ماریں،بلکہ مار ہی ڈالیں۔خواہ وہ موت حادثاتی نظر آئے یا طبعی۔ دونوں اس سے عفت و پاکدامنی کا مطالبہ کرتے ہیں۔دونوں ہی اسے خدمت گذار ، وفادار اور اطاعت شعار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور دونوں بلا شرکت غیرے اس کے حاکم اور آقا ہیںکہ عورت کو دونوں میں سے دونوں کا انتخاب کرنا ہے۔ اور دونوں میں سے کسی ایک کی نافرمانی بھی قابل سزا جرم ہے۔ایک کی نافرمانی عاقبت خراب کردیتی ہے اور دوسرے کی نافرمانی چہرا۔
اورمغربی عورت میں نہ خوف ِخدا ہے ، نہ خوفِ خاوند۔ وہ بے لگام ہے۔ لیکن جدھر بہاﺅ ،اُدھر بہے گی۔ پیار کی چمچ سے چلاﺅ حل ہو جائے گی۔سیدھے اٹھا کر پی جاﺅ ، احتجاج نہ کرے گی۔ یہ مغربیت سے پیدا شدہ روحانیت کے فقدان اور جسمانیت کے ہیجان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس نا گفتہ بہ صورت حال سے تنگ آکر بعض مغربی عورتیںکبھی روحانی سکون کی تلاش میں مشرق کی خاک چھانتی ،سادھو سنیاسیوںکی سیوا میں جوگن کا روپ دھارے موکش کو پراپت ہو جاتی ہیں اور کبھی مشرق کی سخت گیر گھریلو زندگی میں جذب ہو کررہنا ہی ان کا مقدر ہوتاہے۔یہ مغرب سے مشرق کی طرف عورت کی ہجرت ہے ۔ مگر( توازن برقرار رہے اِس لیے )یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ ہجرت ایکطرفہ نہیں ہے۔ یہ مشرق سے مغرب کی طرف بھی ہوتی ہے جس کی نوعیت زیادہ تر نظریاتی اور تہذیبی ہے۔ یہ مشرق کے کانجی ہاﺅسوں سے بھاگ کر مغربی افکار کے استوائی جنگلات میں پناہ لینے کی ایک کوشش ہے ۔ مغربی فکر کے استوائی جنگلات اور ان کی مہیب تاریکی —جو فکر و نظر کے درندوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور شکار گاہ بھی۔تاریکی—جس میں شیر چیتوں،لومڑکتوں اور بھیڑیوں کی آنکھیں بھوک سے چمک چمک اٹھتی ہیں کچھ سنا !آہوئے رمیدہ— مفرور باغی عورت کی چیخ و پکار ، جو انجانے ہی رد تشکیل کے ہتھیار کو اپنے بدن پرآزما تے اور المیہ کاسکھ بھوگتے ہوئے کہہ رہی ہے : میں تنہا ہوں،میں بے وطن ہوں، میں ایک زندہ لاش ہوں۔

۲
یہ حقیقت ہے کہ عورت سے متعلق ہر بحث اس کے بدن سے شروع ہوتی ہے اوربدن ہی پر جاکر ختم ہو جاتی ہے۔مشرق میں یہ بدن حیاسے عبارت ہے اور مغرب میں ادا سے۔ حیا عورت کوروکتی اور باندھتی ہے ، پوشیدہ رکھتی ہے ، مطیع و فرمانبردار بناتی ہے اور ادا اسے کھولتی ہے، ظاہر کرتی ہے،آزاد و خود مختاربناتی ہے۔ حیا مشرقی عورت کا زیورہے۔یہ اس کی گردن کا طوق،گلے کا ہار، بازو کا بازو بند اور پیروںکی پازیب ہے۔زیورات میں ایک قسم کی پھانس ہے، گھیرا بندی ہے۔زیور قیدو بند کی علامت ہے۔چہاردیواری کے اندریہ ننھی ننھی سنہری زنجیریںاُس کے جسم کو جکڑ کر رکھتی ہیں۔ اور روح کے مسرور و مطمئن ہونے کا فریب دیتی ہیں۔ یہ زنجیریںاس کی’ ناقابل اعتبار سرکش ادا‘ کے لیے حیا کی مضبوط لگام ہیں۔
حیامشرقی عورت کا سب سے قیمتی زیور ہے جس کو اس نے اب تک سنبھالے رکھا ہے۔ یہ بیش قیمتی زیور اس کے سر تا پا لبادے میں مخفی رہتا ہے۔ جبکہ مغربی عورت کا لباس مختصرہوتے ہوتے زیوروں کے سائز تک آ پہنچاہے۔بلکہ یہ مختصر لباس عملاً زیور بن گیاہے۔ زیور جو قید و بند کی علامت اور مردانہ اقتدار کی نشانی ہے ۔اورمغرب کی بیٹیوں کا یہ زیورخاتونِ مشرق کی طرح کسی سرتاپالبادے کے نیچے نہیں بلکہ لباسِ فطرت کے اوپرسجایا جاتا ہے :
حوا کی بیٹیوں نے آدم کے بیٹوں کو للکارا
ازل سے آج تک
تم نے میرے ساتھ جو کیا
اس کا حساب دو
آدم کے بیٹوں نے کہا
تم میرے برابر نہیں ہو کیا؟
اچھا تو آﺅ ”اِستری وِمَرش“ کریں
اور پھر خوب استری ومرش ہوا
ادب، آرٹ اور کلچرمیں
اور پردہ سیمیں پر
اور نوٹنکیوں،میلوں ٹھیلوں میں
حتٰی کہ باقی رہ گئے
حوا کی بیٹیوں کے تن پر
کپڑوں کے دو تار
اور ہاتھ میں ایک رومال
آنسو پونچھنے کے لیے !
کیا فرق پڑتا ہے اگر تمہیںکھلی ڈلی چراگاہوں میںغلامی کا چارہ ملے اور کیا فرق پڑتا ہے اگر کانجی ہاﺅسوں میں تمہیں سنہرے زیوروں سے لاد دیا جائے۔آزمائش تو تب ہے جب تم عالمِ مغرب میں ہر سو برپا اُس ہیجان خیز رقصِ برہنہ کے درمیان دفعتاًپکار اٹھو کہ مشرق کا یہ سرتاپا حجاب میرے لیے کافی ہے۔مگر یہ کہتے ہی نکیلے پنجوں اور پینے دانتوں والے بھیڑیے تمہیں نوچ ڈالیں گے۔ وہ لبادہ تار تار کردیں گے جس کو خود تم نے بہ رضا و رغبت چنا ہوگا۔تم ذرا یہ کر تو دیکھو۔تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مغرب میں تم محض ایک ٹشو پیپرہو جس سے وہی مردوادی سور یعنی Male chauvinistic pig اپنی نجاست صاف کرتا ہے۔ اورذرا مشرق کے کانجی ہاﺅسوں سے نکل کر دیوانہ وار دوڑتی ہوئی کھلی ہوا میںآکسیجن لینے باہر نکلو اس حال میں کہ ظاہر ہونے والی کوئی زینت ظاہر ہو رہی ہو— گھسیٹ کر پھر انہیں کانجی ہاﺅسوں میں بند کردیا جائے گا۔ پس صنف ِنازک نے نہ کہیں اپنی مرضی سے خود کو چھپایا اورنہ کہیں اپنی رغبت سے آشکار ہوئی ۔
حیا اور ادا، یہ دو مختلف اور متضاد قوتیں ہیں۔ اِن سے صنف ِنازک کا بھرم قائم رہتا ہے۔ یہ بھرم مٹائے نہیں مٹتا۔یہ فطری و لابدی ہے۔یہ بھرم عورت کو عورت بنائے رکھتا ہے۔اسے مرد سے الگ ایک مستقل صنف ہونے کا امتیاز بخشتا ہے۔عورت سب کچھ سے نجات پا سکتی ہے ،مغرب میںاپنی مامتا کی شراب نچوڑ سکتی ہے اور مشرق میں اسی مامتا کی خاطر اپنے وقار کو چولہے میں جھونک سکتی ہے، لیکن اِن دونوں قوتوں سے اسے کہیں نجات نہیں۔جب ایک سامنے ہوتی ہے تو لازماً دوسری چھپ جاتی ہے۔ ایک مشرق میں اس کے بدن پرچھا گئی ہے۔ اور دوسری مغرب میں اس پر غالب آگئی ہے۔یعنی اِدھرجو شئے حیا کے گہن سے گہنا گئی ہے ادھر وہی شئے شعلہ صفت اپنی ہی آگ میں دہک رہی ہے ۔دیکھتے دیکھتے اس کاوجود آپ ہی جل بجھے گا۔ اب ان دونوں قوتوں سے ، اپنے اندر کی اپنی ہی قوتوں سے ،اپنی ہی ساخت سے بلکہ خود اپنے آپ سے کیسے نپٹے گی عورت؟ہے کوئی رد تشکیلی، ساخت شکن فارمولا؟
حیا اور ادا سے کہیں نجات نہیں کیوں کہ یہ ایسی قوتیں ہیں جو اس کے باطن میںپیدا ہوتی ہیں اور ظاہرمیں ان کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔حیا اور ادا کو کہیں اور سے لاکر نہیں ٹھونسا گیا ، یہ اُس کے وجود میں پہلے سے موجود ہیں۔ماقبل تاریخ سے موجود ہیں۔ اس سے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ حیا اور ادا ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔یہ بہ باطن ایک ہیں اور بہ ظاہر دو۔ حیاکے ساتھ کچھ دور تلک جادیکھو۔ ہجر کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا؛ ہجر— جو لذت آگیں بھی ہے اور دردآفریں بھی ، ہجر— جو وصال کا صحیح مفہوم سمجھاتا ہے،اور اس کی تمنا اور خواہش کو جلا دیتا ہے؛ وہی ہجرحیا کے ساتھ رہتے ہوئے در حقیقت ہجر نہ رہا ،حسرت کی آگ بن گیا، اور بالآخر یہ حسرت بھی دم توڑنے لگی ، اور اِس کے ساتھ ہی وصال کامفہوم بھی خطرے میں پڑ گیا اور زندگی بھی اپنی معنویت کھونے لگی۔ ناچار و بالقصد، ادا کے ساتھ چند ہی قدم چلے کہ دفعتاً وصال ہو گیاتا آنکہ پھرعالم ہجر میں لوٹ جانے کی تمنا ہوئی۔ حیا بظاہر کچھ نہ ہونا ہے ۔اور ادا بظاہر کچھ’ہو ‘جانا۔حیا چپ رہنا ہے اور ادا بول پڑنا۔بالقصد چپ رہنا اور بے اختیار بول پڑنا۔ کیا خاموشی اور گویائی دو چیزیں ہیں؟ظاہر بیں آنکھ کہے گی کہ دو ہیں۔مگر اِس کم فہمی سے پرے شاعر نے کہا ہے :
نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو
خموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
حیا خاموشی ہے اور ادا گویائی۔ حیااصل ہے اور ادا فرع۔حیا جڑ ہے اور ادا شاخ۔شاخ کی نشو نماجڑ سے ہے اورجڑ کی محنت کا حاصل شاخیں ۔مگر شاخوں نے آسمان سے لو لگائی اور جڑوں نے شاخوں کی خاطر پستی کا سفر منظور کیا۔
حیا اور ادا کی یہی کیفیت مطلوب ہے۔ مگر مشرق ومغرب میں نہ حیا کی یہ کیفیت ہے نہ ادا کا یہ رجحان۔مشرق میں حیا ،حیا نہیں اور مغرب میں ادا ،ادا نہیں۔ مشرق میں حیا نظام جبر کا سناٹا ہے اور مغرب میں ادا سناٹے کی چیخ۔ایک طرف حیا نظامِ جبر کا سیاسی استحکام اور دوسری طرف ادا ایک دہشت گردانہ کارروائی،خود کش دھماکہ! مغرب میں عورت کو خاموش رکھا گیا تھا۔ اب وہ بول رہی ہے۔اورمشرقی عورت ابھی بولنا سیکھ رہی ہے۔مگر اس کی بھی لے وہی ہے ۔
مغربی عورت اب تک حیا اور اداکی حقیقت کبریٰ کو نہ سمجھ سکی، اور شائی لاک نے اس کی کوکھ کو رہن رکھ لیااور اس نے سود در سود وصول کیایہاں تک کہ وہ بنجر ہو گئی۔اور اِدھر مشرق میں دولتِ حسن میںسے بقدرِ زکوٰة بھی آمادگی نہیں۔ یہاںنسوانی حسن کی حیثیت ایک خزینے اور دفینے کی ہے جس پروہی مردوادی ناگ پھن کاڑھے بیٹھا ہے:
نسوانیت ِزن کا نگہباں ہے فقط مرد!
آہ یہ نازک صنف! بغاوت اس کے بس کی بات نہیں۔مگر اس نے اطاعت بھی کی تو اس سے اطاعت نہ ہو سکی۔ اطاعت و بغاوت کے درمیان ہر موڑ پہ رسوائی،ہرمحاذ پہ پسپائی اورہر سودا خام ۔ اس نے خود کو جتنا افشا کیا اتنا ہی اسے چھپ جانا پڑا، اتنا ہی بے نام و نشان ہونا پڑا۔ اورجتنا چھپنے کی کوشش کی ، اتنا ہی اس کا چرچا ہوا۔ مگر اس کا حقیقی جلوہ نہ کوئی دیکھ سکا اور نہ وہ خود کسی کو دکھا سکی۔اس کی حقیقت مستور ہی رہی۔ سطحِ ظاہر پر جو ظاہر ہوا وہ بدن تھا اور جو مخفی رہا وہ بھی بدن ہی تھا۔پس کیا عورت بدن کے علاوہ بھی کچھ ہے؟اگر ہاں تو اس کی کوئی دلیل سوائے اس دلیل کے نہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ عورت بدن کے علاوہ بھی کچھ ہوبلکہ بدن سے زیادہ کچھ ہو۔لیکن اسے بدن سے زیادہ کچھ نہیں رہنے دیاگیا۔ مشرق و مغرب میں اس نے جو کچھ چھپایا اور جو کچھ دکھایا اس میں وہ خود کہیں نہیں تھی۔ مشرق میں ، وہ خداوند قدوس کی نہیں، مجازی خداﺅں کی شریعت تھی جس نے اسے جکڑ کر رکھا اور ’حق‘ کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ اور مغرب میں سرے سے تمام شریعتوں کی دھجیاں اڑا کر خرد کی روشنی کو یہاں تک پھیلادیا گیا کہ وہ اظہر من الشمس تو ہو گئی مگر اس کی اندرونی کیفیتوں اور وارداتوںتک کسی کی رسائی نہ ہوسکی۔ دکھانے اور چھپانے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک طرف روزافزوں تاریکیوں میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا اور دوسری طرف روشنیوں کے جھماکوں میں آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے۔

خاتون اسلام اور ورک کلچر

کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جس قوم کی عورتیں تعلیم یافتہ ، باشعور اور مہذب ہوتی ہیں وہی قوم صحیح معنوں میں ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق ہے۔ پس ماندہ قوم عورتوں کو نفسیاتی طور پر کمزور سمجھ کربے جا نگرانی میں رکھتی ہے۔ انہیں پابند بناتی ہے ، خود مختار نہیں ہونے دیتی۔ان پر شک کرتی ہے ،اعتبار نہیں کرتی۔ فتووں کی زبان میں بات کرتی ہے ،دوستانہ مشورے نہیں دیتی۔

 

معیاری اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھ کر ان کی تربیت کی کوشش کرتی ہے۔ ان سے تقویٰ اور احسان کا ایسا مطالبہ کرتی ہے جو اس قوم کے مردوںسے ممکن نہیں ہوتا۔حتیّٰ کہ مردوں کی بڑی سے بڑی کجروی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر نا پڑتاہے اور خواتین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں ۔مسلم قوم میں عورتوں کو لے کر یہ تمام رویے اپنائے جاتے ہیں ۔ان باتوں کو لیپ پوت کر چھپانے سے بہتر ہے کہ انہیں بے کم و کاست بیان کردیا جائے تا کہ ان کے علاج کی واقعی فکر پیدا ہو ۔
اسلام میں عورتوں کے حقوق پر تقریریں چاہے جتنی ہو جائےں لیکن عملی طور پر متوسط طبقے میں مسلمان خواتین کے ساتھ’ نصف بہتر ‘کے بجائے’ نصف کمتر ‘کا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔جب تک اس سلوک کی وجہ کو نظریاتی طور پر سمجھااور عملی طور پر دور نہیں کیا جاتا مسلمان خواتین پس ماندگی کی موجودہ حالت سے نہیں نکل سکتیں۔واضح رہے کہ عورتوں کی پس ماندگی بھی مسلمانوں کے زوال کی ایک بنیادی وجہ ہے جس کا لازمی نتیجہ ہمیں یہ دیکھنا پڑا کہ پوری قوم غیر متوازن ہو کر شکست و ریخت سے دوچار ہو گئی۔
مذہب اور پسماندگی
مسلمان عورتوں کی پس ماندگی تقریباً ہمہ گیر ہے۔متوسط طبقے کی مسلم خواتین دوسری قوموں کی خواتین کے مقابلے میںتقریباً ہر اعتبار سے زیادہ پچھڑی ہوئی اس لیے ہیں کہ انتہاپسندمسلم علما نے اسلام کے نام پر ان پر ایسی پابندیاں لگا رکھی ہیں جو فی الواقع اسلام نے نہیں لگائی ہیں۔ دوسرے مذاہب کی خواتین بڑے اطمینان سے اپنے اپنے مذہبی و تہذیبی رسوم و روایات کو بالائے طاق رکھ کر دنیوی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوتی ہیں جبکہ مسلمان عورتیں ، دین حق کی پیرو ہونے کے سبب ،اپنے دینی و مذہبی اصول و فرائض سے سمجھوتا نہیں کر سکتیں ۔
روایت پسند مرد علما، خواتین کو جس چیز سے منع کرتے ہیں ، وہ خدا اور رسول کا حکم سمجھ کراس سے رک جاتی ہیں اورجس چیز کا حکم دیتے ہیں اسے اختیار کرلیتی ہیں۔مگر عورتوں سے متعلق اسلامی احکام و ہدایات بیان کرتے وقت روایتی علما لاشعوری طور پر مرد انہ نقطہ نظر اختیار کر لیتے ہیں اور مردوں کی قوامیت کے دائرے میں اتنی وسعت پیدا کر دیتے ہیںکہ قوامیت ، الوہیت یعنی خدائی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ چونکہ خواتین میںاعلیٰ دینی تعلیم کا فقدان ہے ،وہ قرآن و سنت سے خود استفادہ نہیں کر سکتیں ، اس لیے وہ علما کی طرف سے بیان کردہ جملہ احکام و ہدایات کی پیروی ہی کو اصل دین سمجھتی ہیں۔ حیرت ہے کہ عصری علوم تو دور خواتین میںدینی و شرعی علوم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رجحان ابھی تک زور نہیں پکڑسکا۔
تعلیم نسواں: گریزو فرار کے حیلے
تعلیم یافتہ اور شائستہ سمجھے جانے والے مسلم حلقوں میںا عتدال و توازن جیسے الفاظ کا کا فی چرچا رہتا ہے۔ ’امت وسط‘ ہونے کی بات انتہائی زور و شور سے دہرائی جاتی ہے لیکن اس بلند مقام تک پہنچا کیسے جائے اس کا کوئی قابل عمل نسخہ ہمارے پاس نہیں ۔کیا اسے اعتدال و توازن کی عمدہ مثال کہیں گے کہ ملت کے شائستہ سمجھے جانے والے گھرانوں میں زیادہ تر عورتیں محض پابند صوم و صلوٰة،امور خانہ داری میں ماہر، آٹھواں پاس یعنی خط و کتابت کے لائق ، ناظرہ قرآن پڑھی ہوں اور ان کے مرد عالم فاضل ،دقیقہ سنج اور ہمہ گیر صلاحیت کے مالک ہوں ۔حتیٰ کہ مرد علما خود تو بیضاوی، قدوری کا درس دیتے ہوں اور ان کی بیویاں بہشتی زیور، جنت کی کنجی ، دوزخ کا کھٹکا جیسی کتابوں تک ہی محدود ہوں؟
کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے سند یافتہ حضرات کے یہاں خواتین صرف ہائی اسکول پاس ہوتی ہیں ؟غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عمل کی کوتاہی نہیں بلکہ یہ صورتحال تعلیم نسواں کے متعلق ایک ایسے نظریے کی عملی تفسیر ہے جس کے تحت عورتوں کواتنا ہی پڑھایا جاتا ہے جتنے کی ’ضرورت‘ ہے۔ اورخواتین کی ضرورت بس ’امور خانہ ‘تک محدود ہے ۔چہار دیواری سے باہر کیا ہو رہا ہے نہ اسے جاننے کی ضرورت ہے نہ اس میں پڑنے کی ۔ دنیا میں کیسے کیسے علمی و معلوماتی اور نظریاتی انقلابات آ رہے ہیں، ان کی سمجھ رکھنا اور ان کا سامنا کرنا صرف اور صرف مرد کا کام ہے۔ ناقابل انکار طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ گھر کو صرف عورت دیکھے گی اور گھر سے باہر صرف مرد ۔ عورت کا دائرہ عمل صرف اور صرف اس کا گھر ہے۔ یہیں پر اس کی ڈولی آئی تھی اور یہیں سے اس کا جنازہ اٹھے گا۔ یہی اس کی جنت ہے اور یہی اس کی معراج۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورتوں کے لیے عصری علوم کے دروازے از روئے شریعت بند سمجھ لیے گئے ہیں اوراعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کا حصول ان کے لیے آپ سے آپ شجر ممنوعہ قرارپا گیا ہے۔ چونکہ عورتوں کا دائرہ کار مردوں سے الگ مان لیا گیا ہے اس لیے ان کی تعلیم و تربیت، اورمطالعے کے موضوعات و مضامین بھی مردوں سے الگ قرار پاتے ہیں ۔ قدامت پرستوں کی طرف سے یہ مشورہ عرصہ ¿دراز سے دیا جا رہا ہے کہ خواتین سماجیات، سیاسیات، نفسیات ،جغرافیہ ، طبیعیات ، حیاتیات وغیرہ مضامین محض جنرل نالج کے لیے پڑھیں اور ہوم سائنس پر خصوصی توجہ دیں۔ الغرض ہر طرح کوشش یہی کی جاتی ہے کہ آدھی دنیا کی زندگی باورچی خانے ہی تک محدود ہو۔ دوسرے لفظوں میں خواتین امور خانہ داری کو چھوڑ کر امور مملکت میں ہرگزدخیل نہ ہونے پائیں۔
حالانکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلم لڑکیوں کو مختلف اسلامی اداروں میںاعلیٰ دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے دینے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جو خواتین کوعصری اداروں میںاعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتے۔مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اور ان کے سامنے بھی یہی مسئلہ ہے کہ آخر اعلیٰ تعلیم کے بعد عورتوں کامشغلہ اورروزمرہ کا معمول کیا ہوگا ؟ اس مسئلے کے حل کے لیے یہ مان لیا گیا ہے کہ خواتین کم سے کم اسکول کالج میں توپڑھا سکتی ہیں ۔اس کے سوا دوسرے باعزت پیشے ہمیں اس لیے نظر نہیں آتے کہ ہم نے خواتین کو لے کرچند ایسے نظریے اورسپنے پال رکھے ہیں جو ہر وقت سر پر سوار رہتے ہیں اور کوئی معقول بات سوچنے نہیں دیتے۔
امورِخانہ داری = امورِ مملکت؟
کچھ سخت گیر عناصر عورتوں کا امور خانہ داری کو چھوڑ کر امور مملکت میںدخل دینا قیامت کی نشانی سمجھتے ہیں۔ عورتوں کا سیاسی و معاشی سرگرمیوں میںبھی حصہ لیناان کے نزدیک کفر سے کم نہیں ۔ان کی نظر میں عورت کا مصرف بس یہی ہے کہ ”شادی بیاہ ہو،بچے ہوں، نماز قرآن پڑھے، بچو ں کی تربیت کرے، کھانا پکائے دسترخوان سجائے ، کپڑے دھوئے یا واشنگ مشین میں ڈال دے، استری کرے ، گل بوٹے بنائے، منہدی کے ڈیزائن سیکھے، ماہنامے واہنامے پڑھے، اس سے آگے مسلم معاشرے میں عورتوں کا آخر کیا رول ہونا چاہیے؟“ ان کی زبان یہ کہتے نہیں تھکتی کہ ”مغرب نے عورت سے اس کی مامتا چھین لی ہے اور اسے بازار کی شئے بنا دیا ہے اب عورتوں کو ماں کے رول میں لوٹنا ہوگا تاکہ وہ مربی کی حیثیت سے اپنی اولاد کی تربیت کرے۔“ماں کے رول میں لوٹنا یا نہ لوٹنا مغرب کا مسئلہ ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خواتین اپنے اوپر عائد ہونے والی فطری ذمے داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دیتے ہوئے کس طرح ہندوستانی معاشرے میں مثالی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایسا کردار جس سے کہ ان کا نسوانی وقار بھی باقی رہے اور وہ گھر سے باہر کی دنیا میں بھی انقلاب لا سکیں۔ ہر صورت میں ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ امورِ خانہ داری اور امورِ مملکت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
دائرہ کارکی بحث یااستحصال کی تکنیک ؟
عورت کو مربی کی حیثیت میں پیش کرنے والے حضرات کے نزدیک مسلم خاتون کی مربیانہ حیثیت کہاں سے شروع کرکس جگہ ختم ہوتی ہے، اس کے متعلق کوئی واضح رہنمائی اب تک موجود نہیں ہے۔ عورت کو مربیانہ حیثیت میں پیش کرنے والے حضرات کے نزدیک مربی کا ایسا بندھا ٹکا فارمولا ہے جس میں ’امور خانہ داری‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ سب سے پہلے عورت اور مرد کے دائرہ کار کو اسلام کے ترجمان بن کر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے گھروں میں عورتوں کا استحصال جاری رہ سکے۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں پر کھانا بنانے اورکپڑے لتے دھونے کو نماز کی طرح فرض کر دیتے ہیں۔ وہ شریک حیات کو ایک دایہ کے جملہ فرائض سونپ کریہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خواتین کو ان کے فطری دائرہ کار میں رکھا ہے اور ان کے لیے باعزت طریقے سے زندگی بسر کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔
خواتین کا دائرہ کار کولہو کے بیل اور آٹا پیسنے کی چکی جتنا نہیں ہو سکتا۔ ملت اسلامیہ ہند کے علما و مفکرین کااس بات کو بہ تکرار کہتے چلے جانا کہ’ اللہ تعالیٰ نے خواتین پر معاشی تگ و دو کا بوجھ نہیں ڈالا اور یہ ذمے داری مردوں پر ہے‘ در اصل ایک ایسا تکنیکی بیان ہے جس سے خواتین عمر بھر مردوں کی دست نگر اور ان کی محتاج بنی رہتی ہیں۔ان کے اندر امور خانہ داری کے سواکوئی دوسری فنی مہارت یا علمی صلاحیت حاصل کرنے کی تمنا نہیں جاگتی۔شوہر اوربال بچوں کے لیے دو وقت کھانا بنانے اوران کے کپڑے لتے دھونے ، پریس کرنے جیسے چھوٹے موٹے کاموں ہی میں ان کا سارا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ انہیں چھوٹے موٹے کاموں کو خواتین کی عظیم ترین ذمے داری قرار دے کراسلام کی آڑ میں ان سے خدمت لینے کا جواز پیداکیا جاتا ہے۔ حالانکہ کھانا بنانا اور کپڑے لتے دھونا زوجہ پرفرض نہیں ہے اورنہ کسی طور یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مردوں کو اللہ تعا لیٰ نے امور خانہ داری( یعنی کھانا بنانا،برتن دھونا ، سینا پروناوغیرہ )کی انجام دہی سے رخصت دے دی ہے۔ یہ بھی کوئی شرعی حکم نہیں کہ مردوں کو کھانا نہیں بنانا چاہیے یاخواتین پر معاشی تگ و دو حرام ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کو اللہ تعالیٰ نے مردوں سے زیادہ آسانیاں اورسہولتیں دے رکھی ہیں ۔ باہمی سمجھوتے اور افہام و تفہیم کے ذریعے مرد اور عورت گھریلو کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے دینے کے بجائے خواتین کے روزمرہ کے مروجہ معمول ہی کو من جانب اللہ قرار دینا خواہش نفس کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ۔واضح رہے کہ مردوں کا پورا متوسط طبقہ آٹھ گھنٹے آفس کی ڈیوٹی بجا کربقیہ اوقات میں چین کی بنسی بجاتا ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
خواتین اور ورک کلچر
جب ایک بار یہ معلوم ہو گیا کہ عورتیں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں تو پھر اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی ان کا دائرہ کار طے کیا جانا چاہیے۔اور دائرہ کار طے کرنے کا اختیار صرف مردوں ہی کو نہیں ہے۔دین اور شریعت کی آڑ میں مردوں کی قوامیت کا حوالہ دے کر عورتوں کو یہ باور کراناکہ انہیں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ،دراصل انہیں شوہروں پر نامناسب حد تک انحصار کرنے کی ترغیب دینا ہے ۔ یہاں مسئلہ صرف عورتوں کے گذارے اور نان و نفقہ کا نہیں بلکہ ان کے وقار کا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس خاتون کو سینے پرونے اور گل بوٹے بنانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ آتا ہو وہ اپنے شوہر کے مرنے کے بعد یا تو وراثت میں ملنے والا سرمایہ خرچ کرے گی یا بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گی۔ بیٹے پر حق ضرور ہوتا ہے مگراپنے ذریعے حاصل کیے گئے سرمایے کی بات کچھ اور ہے۔ کیا اسلام یہی چاہتا ہے کہ خواتین زندگی بھر اِس اُس کے سامنے محض اپنا حق مانگتی پھریں اور مر د ”اَن داتا “ بنے دنیا کی زمینوں کے بیشتر حصے پر قابض رہیں، تجارت اور صنعت و حرفت پر انہیں کا غلبہ ہو ؟ بازارِ حصص ان ہی کی مٹھی میں ہو، کل کارخانے ، کھیت کھلیان، موٹر گاڑیاں ،بنگلے وغیرہ صرف مردوں کے نام ہوں اور خواتین کو اس تمام دنیوی مال و متاع میں سے کچھ ملے بھی تو صرف اپنے اقربا کی موت کے بعد؟
پس عورتوں کا امپاورمنٹ انہیں معاشی طورپر طاقتور بنائے بغیر نہیں ہوسکتا۔بار بار یہ دہرانے کی ضرورت ہے کہ متوسط طبقے کی ایک خاتون کی معاشی ضروریات محض حق مہر پالینے اور نان و نفقہ حاصل کر لینے سے پوری نہیں ہو جاتیں۔ اگر شوہر تنگدست نہ بھی ہو اور بیوی کی تمام فرمائشیں پوری کر سکتا ہوتب بھی زوجہ کو معاشی تگ و دو کرنے سے روک کر اسے کاہلی اور بے عملی کی حالت میں مبتلا کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس میں شوہر اب بھی مجازی خداسمجھا جاتا ہے جس کی مٹھی میں عورت کی تقدیر ہوتی ہے۔ وہی اس کی پسند و ناپسندکو طے کرتا ہے ۔ وہی طے کرتا ہے کہ عورت کو کب مائکے جانا ہے اور کب نہیں جانا ۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں باہمی افہام و تفہیم سے طے کرنے کی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں مرد تو اپنی قوامیت کا واسطہ دے کر عورت کو اپنی اطاعت پر آمادہ کر لیتا ہے۔ مگر جب عورت اپنے حقوق پر اصرار کرے تو اس کوسر کشی اوربغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا کرنے پر طلاق کے دو بول ،بول کر اس کی اوقات تک بتائی جا سکتی ہے ۔ان تمام حالات کے مد نظر اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ خواتین معاشی طورپرزیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں ۔جب وہ معاشی طور پر استحکام حاصل کر لیں گی تو زوجین کے درمیان کے تنازعات طاقت سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے حل ہوں گے اور فریقین کو بات چیت کی میز تک آنے کے لیے تیار ہونا ہی پڑے گا۔ ان امور پرمنصفانہ نقطہ نظرسے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے ساتھ برابری کا سلوک ہو اور وہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں مساویانہ طور پر حصہ لے سکے۔
خواہ کسی بھی زاویے سے سوچا جائے خواتین کے تئیں ہمیں اپنے رویے کو ہی نہیں بلکہ اپنے نظریے کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔آئندہ زمانے کی خواتین کا کردارصرف گھر تک محدود نہیں رہ سکے گا بلکہ وہ سیاست و معیشت پر راست اثر انداز ہوں گی بلکہ ہو رہی ہیں۔میٹرو پالیٹن شہروں کی خواتین میں جو ورک کلچر پیدا ہو ا ہے وہ یقینانسوانیت کے شایان شان نہیں ۔ مگر اس کو بہانہ بنا کر بالذات ورک کلچر کو بر کہنا بھی صحیح نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خواتین کے لیے ایک متبادل ورک کلچر کی تشکیل کی جائے۔ انہیں روزگار سے لگایا جائے ۔
حالانکہ خواتین کے لیے روزگار کی بات کرنا ہمارے متوسط طبقے کی تہذیبی روایات میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ در اصل یہ اسلام نہیں بلکہ ہماری تہذیب اور ثقافت ہے جس نے آدھی دنیا کو عضو معطل اور بے سرو سامان بنا کر چھوڑ دیا ہے۔اس مائنڈسیٹ کو بدلا جانا چاہیے اور متوسط طبقے کی خواتین کے لیے ان کے شایان شان ذریعہ ¿ معاش اور ورک کلچر پیدا کرنے کی طرف توجہ کی جانی چاہیے۔خواتین میں ورک کلچر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وقت کا جتنا بڑا حصہ بد نظمی کے سبب ضائع ہو جاتا ہے اس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو انقلابی نوعیت کے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔