پیر، 25 دسمبر، 2017

عمران شاہد بھنڈر اور سارا مغربی فلسفہ

مغربی فلسفہ کی روایت میں ایک فلسفی کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی سامی مذہب کے پیغمبر کے پیش کردہ مقدس متون, ان سے ثابت شدہ عقائد کا اثبات کرے. اگر ایک فلسفی ایسا کرتا ہے تو یہ اپنے فلسفیانہ منہاج کو دریابرد کر دینے کے برابر ہے. فلسفہ میں علمیات کا شعبہ اسی لیے ہے تا کہ فلسفیوں کے ایک معاشرہ میں حصولِ علم کے ماخذ اور طریقوں کا تعین ہو. اس سلسلے میں پہلی اصولی بات یہ ہے کہ فلسفہ میں فلسفیانہ علم کاماخذ انسانی ذہن و دماغ ہوتا ہے نہ کہ انسان سے ماورا کوئی فوق فطری ہستی کسی فلسفی کو بذریعہ الہام و وحی حقیقت کا علم بخشتی ہے. اگر ایسا ہو تو فلسفی کا اپنا کارنامہ کیا رہ جائے گا؟ اور اس صورت میں ایک ہی دور کے فلسفیوں میں علمی اختلافات بھی نہیں پائے جا سکیں گے, کیونکہ اگر وہ فوق فطری یا برتر قوت فلسفیوں کو علم بخشتی ہے تو ایسا علم وقت واحد میں مختلف فیہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ایسا کیسے ممکن ہے کہ، مثلاً، افلاطون اور ارسطو پر ایک ہی فوق فطری وجود/ برتر ہستی وحی/ ہدایت نازل کرے اور ان دونوں کے مابین زبردست اختلافات پیدا ہو جائیں؟ بالفرضِ محال, یہ مان بھی لیاجائے کہ افلاطون و ارسطو نے کسی مقدس سامی مذہبی متن سے استفادہ کیا تو اب ان دونوں کے لیے یہ ماننا لازم آئے گا کہ ان کا کام حقیقی علم یا حقیقت تک پہنچنا نہیں بلکہ ایک سامی پیغمبر جو کچھ کہہ گئے ہیں, بس اسی کی عقلی تفسیر و تعبیر کرتے رہنا ہے. لیکن یہ کام تو مذہبی علما پہلے ہی کر رہے ہیں, پھر اس میں فلسفی کی تخصیص کیا ہوئی؟
کسی سامی پیغمبر نے سچ کہا, اس کی شہادت ایک مغربی فلسفی دو طریقوں یا صورتوں سے دے سکتا ہے. پہلا, عقلی و استدلالی طریقے سے سامی پیغمبر کی تعلیمات کے مطالعے کے ذریعے. اور دوسرا, ایک الہامی طریقے سےکام لے کر, یعنی اسی ماخذ تک رسائی حاصل کر کے جس تک سامی پیغمبر کی رسائی ہوئی اور جو اس پر الہام کرتا ہے, یعنی خدا. پہلی صورت میں, جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں فلسفی کاکام صرف تعبیری رہ جاتا ہے, اور دوسری صورت میں فلسفی خود ایک سامی پیغمبر بھی بن جاتا ہے کیونکہ اس کے علم کا ماخذ وہی (یعنی خدا) ہے جو سامی پیغمبر کا ہے. اس صورت میں مذہب اور فلسفہ کے اختلاف کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ خود فلسفیوں کے درمیان اختلاف کا خاتمہ ہو جانا چاہیے. لیکن سامی خدا سے الہام یافتہ ایک فلسفی کی صداقت کو سامی علمائے مذہب تو دور خود کوئی دوسرا فلسفی بھی تسلیم نہ کرے گا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے.
مذہب اورفلسفہ کے درمیان اصل پیکار ان کے ماخذ اور اس تک پہنچنے کے بالترتیب وہبی اور کسبی طریقِ کار میں پوشیدہ ہے. سامی مذہب کا پیغمبر یہ کہتا ہے کہ ذاتِ حق نے اس کو اپنا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کر لیا ہے, اور اسے حقیقت میں سے جتنا چاہا اتنا علم بخشا ہے. اس کے ٹھیک برعکس, ایک فلسفی کا اصرار یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو خدا تعالی نے پیغامِ حق کے لیے منتخب کر لیا ہے تو پھر میرا کام تفسیر و تعبیر کے سوا کیا رہ جاتا ہے؟ لیکن درحقیقت میرا تجسس تو بے پایاں ہے, میں تو وجود کی حقیقت تک پورے کا پورا پہنچنا چاہتا ہوں, ہر چند کہ یہ ممکن ہو یا نہ ہو. علم کی میری پیاس اتنی ہی نہیں ہے جتنے پر قناعت کرنا ایک سامی مذہب لن ترانی کہہ کر سکھاتا ہے. یہی نہیں, اگر پیغمبر کو خدا نے منتخب کیا تو اور ذہین انسانوں کو کیوں متجسس چھوڑ دیا, اور براہِ راست کوئی علم نہ دے کر کتاب کی شکل میں علم دیا. پھر جن کو متجسس چھوڑا ان کا کام صرف اس کتاب کی تعبیر کرتے رہنا ٹھہرا. یعنی سوال کچھ تھا اور خدا کی طرف سے جواب کچھ ملا. سوال تھا زندگی اور کائنات کیا, کیوں اور کیسے ہے اور اس کا جواب پیغمبر نے خدا کی کتاب کی شکل میں دیا, اور یہ بھی بتایا کہ اس سے زیادہ جواب خدا کی طرف سے نہیں مل سکتا! تمہاری عقل محدود ہے, اس لیے تم حقیقت کے حتمی علم سے محروم ہو,پس تم متجسس انسانوں کو صرف مقدس متن کی تعبیری سرپھٹول میں تاابد مشغول رہنا ہے.
سامی مذہب اور مغربی فلسفہ میں اساسی اور نوعی بلکہ قطبین کا اختلاف ہے. ایک کہتا ہے پورب چلو لیکن دوسرا اس کے حکم کو اپنے منطقی استدلال سے تحلیل کر دیتا ہے, اور بجائے پورب کے پچھم چلتا ہے.  ایک کہتا ہے کہ حقیقت کا علم صرف کچھ چنے ہوئے لوگوں تک محدود ہے جبکہ دوسرا اس کی نفی کرتے ہوئے حقیقت کا ایک مختلف اڈیشن پیش کرتا ہے. پھر ایک فلسفی سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ پیغمبر کا یہ دعوی تسلیم کر لے کہ "خدا نے اس کو پیغامِ حق پہنچانے کے لیے منتخب کر لیا ہے" اور اس کے حصے میں محض اس پیغمبر کا مطیع و منقاد ہو کر رہنا لکھ دیا ہے (الا یہ کہ فلسفی اپنےماخذ اور منہاج سے منحرف ہو جائے).
اردو کے ایک نامور نقاد عمران شاہد بھنڈر سامی مذاہب اور فلسفہ کے اس اساسی اور نوعی فرق کو نہیں سمجھتے اور فرماتے ہیں کہ "سارا مغربی فلسفہ یہودیت و مسیحیت کی سچائی کے اثبات پر مشتمل ہے"، یعنی ان کی نظر میں عظیم مغربی فلسفیوں کو سامی مذاہب اور مغربی فلسفہ کے اصلی و نوعی فرق کا علم نہ تھا. یہاں میں ان کے ایک اسٹیٹس اور اس ہر ان کے ساتھ ہونے والی اپنی بحث کو نقل کرتا ہوں:
[عمران شاہد بھنڈر کا فیس بک اسٹیٹس مورخہ 15 اگست 2016 عیسوی
یہودیت اور مسیحیت
سارا مغربی فلسفہ دو مذاہب کے درمیان اپنے اپنے مذاہب کی سچائی کو ثابت کرنے کی بحث پر مشتمل ہے۔ اور اس ساری لڑائی کے دو بڑے فلسفی ہیں۔ ہیگل مسیحیت کا نمائندہ ہے۔ دریدا، جو قدرے دیر بعد منظر عام پر آیا، وہ یہودیت کا مبلغ ہے۔  ہم جس عہد میں زندہ ہیں اس میں دریدا نے ہیگل یا مسیحیت کے بطن میں اتنے شگاف ڈال دیے ہیں کہ ہیگلیائی فلسفہ ’’تثلیث‘‘ کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔]
طارق احمد صدیقی: مغربی فلسفہ کی ابتدا یونان سے ہوئی. مسیحیت بعد کا قصہ ہے.
مزید یہ کہ اسلامی فلسفہ یونانی فلسفہ کی توسیع ہے اور اسلامی فلسفہ کا اصلاً اسلام سے کوئی تعلق نہیں.
مجھے بڑی حیرت ہے کہ آپ نے کیسے سارے مغربی فلسفہ کو مسیحیت و یہودیت کے اثبات کی بحثوں پر مشتمل قرار دے لیا.
عمران شاہد بھنڈر: آپکی بات انتہائی طفلانہ ہے۔ فلسفے کی روایت سے مکمل طور پر نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔  فلسفے کی تاریخ نہیں، بلکہ فلسفہ پڑھیں۔
طارق احمد صدیقی: آپ نے فرمایا کہ میں فلسفہ کی روایت سے مکمل طور نابلد ہوں. پھر اگلے ہی جملے میں اس بات کی نفی کر دی کہ فلسفہ کی تاریخ نہ پڑھوں بلکہ فلسفہ پڑھوں. روایت یعنی ٹریڈیشن سے آگاہی تاریخ کا علم حاصل کیے بغیر کیونکر ہو سکتی ہے؟ پھر اگر ایک بات تاریخ کے حوالے سے میں نے رکھی تو آپ کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ میں روایت سے نابلد ہوں؟
آپ مغربی فلسفہ کی کوئی نصابی کتاب دیکھ لیں, اس سے آپ کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ مغربی فلسفہ میں ہر قسم کے فلسفی پائے جاتے ہیں. ان میں مذہبی بھی ہیں, غیر مذہبی بھی, بے خدا اور دہریے بھی. اس میں خالص مادی, روحانی, مشرکانہ اور موحدانہ ہر قسم کے فلسفیانہ افکار پائے جاتے ہیں.
عمران شاہد بھنڈر: فلسفہ پڑھنے میں فلسفے کی تاریخ بھی موجود ہوتی ہے۔ لیکن فلسفے کی لکھی ہوئی کسی تاریخ میں فلسفہ موجود ہو، یہ ضروری نہیں ہے۔  ان باتوں کی سمجھ دیر بعد ہی آتی ہے۔
کیا میں نے کہیں کہا کہ مسیحیت یونانی فلسفے سے پہلے کا قصہ ہے؟ پلوٹینس جو کہ شاید دو سو سال بعد از مسیح ہے، مسیحیت کا تصور تثلیث اسی کی عطا ہے۔ اور پھر فلسفہ مسیحیت کے حصار میں ایسا آیا کہ بیسویں صدی تک نہیں نکلا۔
یہ فقرہ فیورباخ کا ہے کہ سارا مغربی فلسفہ الہیات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
طارق احمد صدیقی: فلسفہ مذہب سے آزاد ایک شئے ہے اور الہیات مذہب کی نہیں بلکہ فلسفہ کی شاخ ہے. فلسفہ مذہب کے حصار میں نہیں آیا بلکہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ہی فلسفہ کے حصار میں آ گیا ہے. مسیحی اور مسلمان اپنے دین کی فلسفیانہ تعبیر پر مجبور ہوئے. ایک دور تھا جب مسیحی علما نے ارسطو کی کچھ کتابوں کو پڑھنے کی ممانعت کر دی تھی, لیکن مسلمان فلسفیوں نے انہیں پڑھ کر علمی ترقی کر لی تو ان کی دیکھا دیکھی عیسائی دنیا میں بھی ارسطو کی ممنوعہ کتب/ ابواب پڑھے جانے لگے. مسلمانوں میں جب فلسفہ کا فروغ ہوا تو اس کے رد عمل میں علمِ کلام پیدا ہوا اور روایتی علما نے پہلے پہلے فلاسفہ اور متکلمین دونوں گروہوں کی سرزنش کی لیکن آگے چل کر متکلموں کو قبول کر لیا.  فلسفیوں کو آج تک قبول نہ کیا جا سکا. مثلاً ابنِ سینا اور فارابی کو ان کے کفریہ عقائد کے سبب آج تک کافر ہی سمجھا جاتا ہے.
مذہب منقولات سے عبارت ہے. اور مذہبی فکر مقدس متن کی تعبیر پر مبنی ہوتی ہے اور اسی کے ارد گرد گھومتی ہے. فلسفہ مذہب سے مختلف شئے ہے. اور درحقیقت فلسفہ یا مذہب چاہ کر بھی ایک دوسرے سے مصالحت نہیں کر سکتے. (جاری)
مغربی فلسفہ میں علم کا ماخذ کوئی خارجی قوت نہیں بلکہ خود انسان کا دماغ ہے. خدا انسان سے رابطہ نہیں کرتا بلکہ ایک فلسفی انسان خود اپنی کوشش سے خدا تک پہنچتا ہے. جبکہ سامی مذاہب میں علم کا ماخذ وہ خدا ہے جو خارج سے پیغمبر پر وحی فرماتا ہے جو اگر تحریری شکل میں باقی رکھی جائے تو اس کو خدا کی کتاب کہاجاتا ہے. اگر ایک فلسفی انسان کے خارج سے وحی کا نزول تسلیم کر لے تو پھر اس کا کام تفسیر و تعبیر تک محدود ہو جاتا ہے کیونکہ وہ یہ مانتا ہے کہ علم اس کے پاس نہیں بلکہ کسی گزشتہ/ آئندہ/ آخری پیغمبر کے پاس ہونا چاہیے اور اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ جس پیغمبر کی امت میں ہے, اس کا مطیع فرمان بنے اور اس کی پیش کردہ کتب و اقوال یعنی "مقدس متن" کی شرح لکھتا رہے, یا زیادہ سے زیادہ ان امور میں اجتہاد کرے جن میں خدا و پیغمبر کی طرف سے کوئی ہدایت نہ پائی جاتی ہو. پس, اگر کوئی فلسفی کسی سامی مذہب کا یہ اصول تسلیم کر لے کہ وحی انسان پر اس کے خارج سے نازل ہوتی ہے, تو اس کے فلسفہ کا چرخہ صرف مذہبی تعبیر کا سوت کات کررہ جائے کیونکہ اس صورت میں اس پر اس پیغمبر کی اطاعت اور اس کی وحی کو آخری حجت ماننا بھی فرض ہے جسکی امت میں وہ پایا جاتا ہے.
اور اگر ایک فلسفی علم کا ماخذ انسان کے داخل یعنی خود اپنے دماغ  کو تسلیم کرے تو اس کے بعد, حتمی طور پر, وہ خود کو بھی اور اپنے جیسے تمام فلسفیوں کو بھی پیغمبری کا اہل قرار دے لیتا ہے. اس کے نتیجے میں پیغمبری وہبی کے بجائے ایک کسبی چیز ہو جاتی ہے اور روایتی سامی مذہب کے ان پیغمبروں کی ضرورت نہیں رہ جاتی جو پانچ سو یا ہزار دو ہزار برس کے بعد انسانوں کی ہدایت کے لیے خدا تعالی کی طرف سے مقرر کیے جاتے ہیں.
پس, فلسفہ میں تورات, انجیل یا قرآن اور ان کے لانے والے پیغمبر پر ایمان رکھنا اور دوسری طرف علم کا ماخذ اپنے ہی دل و دماغ کو بتانا, دو متضاد باتیں ہیں. کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ ژاک دریدا کو مذہب اور فلسفہ کے فرق کی اتنی موٹی بات بھی نہیں معلوم؟
عمران شاہد بھنڈر: آپ کے لیے مشورہ ہے کہ آپ فلسفے کو براہِ راست پڑھیں۔ وقت نکال ’’تنقید عقل محض‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ یعنی دیباچہ طبع ثانی پڑھیں۔  یہ پڑھ لیں باقی باتیں بعد میں کریں گے۔ اگر آپ نہیں پڑھیں گے تو مجھے بہت تفصیل میں جانا پڑے گا۔
طارق احمد صدیقی: تنقیدِ عقلِ محض کے دیباچہ طبعِ سوم کا تعلق آپ کے اس اسٹیٹس پر میرے تبصروں سے کیا ہے؟
میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں مذہب اور فلسفہ کا نوعی فرق بتایا ہے. اگر کچھ مغربی فلسفی بعض سامی مذاہب پر یقین رکھتے ہیں, اور اپنے یقین و ایمان کے حق میں فلسفیانہ دلائل پیش فرماتے ہیں, تو ان کی اس اصولی فلسفیانہ/ مذہبی غلطی کے سبب "سارا" مغربی فلسفہ مسیحیت/  یہودیت کے اثبات کی بحث کیونکر بن سکتا ہے؟
اس کے علاوہ مغربی فلسفہ میں تو بے خدا, دہریے, لامذہب ہر قسم کے فلسفیانہ افکار پائے جاتے ہیں, پھر اس تمام تر فلسفیانہ صورتحال کو محض ایک بیان "یہودیت/ مسیحیت کے اثبات کی بحثیں" تک محدود کر دینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
تبصرے:
وردان خالد: محترم طارق احمد صدیقی صاحب.
کسی بھی قضیے میں قطعیت کے ساتھ ایک بات بیان کرنا اور اس پہ ڈٹ جانا کیا منطقی،سائنسی اور فلسفیانہ طرز استدلال کی ضد نہیں؟
منطق پہ عبور منطقی طرز فکر اور فلسفہ کا مطالعہ فلسفیانہ طرز فکر اور سائنس کا مطالعہ سائنسی استدلالی انداز پیدا نہیں کرتا.؟
طارق صدیقی: اگر بات اپنی نظر میں قطعی واضح ہو تو ڈٹ جانے میں حرج نہیں ہے. لیکن جب دلائل سامنے رکھے جائیں اور اپنے موقف کی غلطی قطعی واضح ہو کر سامنے آئے تو اعلی ظرفی یہی ہے کہ فوراً اس کو تسلیم کیاجائے. میں حتی الامکان اس کی کوشش کرتا ہوں. کیونکہ صحتِ فکر کا خیال رکھنے سے ہی ترقی ہو سکتی ہے.
عمران شاہد بھنڈر صاحب نے جو الزامات دریدا پر لگاتے ہیں, اگر وہ واقعی صحیح ہیں, یعنی یہ کہ ژاک دریدا اپنے آبائی سامی مذہب کی سچائی کو ثابت فرماتے رہے, تب تو دریدا خود مغربی فلسفہ کی روایت سے باہر ہو گئے. کیونکہ سامی مذہب کا خدا اور یونانی فلسفہ کا خدا دونوں میں ایک دوسرے کی ضد اس معنی میں ہیں کہ اول الذکر اپنے بندوں تک پیغمبر کی وساطت سے پہنچتا ہے جبکہ موخرالذکر خدا مادی آلائشوں سے ماورا ایک ایسا خدا ہے جس تک ایک فلسفی اپنی ہی فکری کوشش سے پہنچتا ہے.
یہ سوال اساسی نوعیت کا حامل ہے کہ فلسفیانہ خدا اور مذہبی خدا میں فرق کیا ہے اور ان تک رسائی کا طریقِ کار کسبی ہے یا وہبی.
فلسفیانہ خدا کے سلسلے میں ایک فیصلہ کن بات تعقلی پیراڈائم میں کہی جا سکتی ہے جبکہ (سامی) مذہبی خدا کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات صحفِ مقدسہ سے رجوع کرنے کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے.
مجھے بڑی حیرت ہے کہ ژاک دریدا کی نظر سے یہ حقیقت کیونکر اوجھل رہ گئی کہ مذہبی اور فلسفیانہ خدا میں کوئی مصالحت ہو ہی نہیں سکتی. اور جو کوئی ایسی کوشش جس سطح پر کرے اس کا فلسفہ بھی اسی سطح پر مشکوک ہو جائے گا.
صلاح الدین درویش: falsafy ki samajh boojh ky hawaly sy aik zimmydarana aur maqool koshsih pr khirajy tehseen....khud marx ny apni jawani ky ehed main masihi taleemaat sy mutaalik mubahis ky IKHTATAM ka elan bhi ferma dia tha...naay scientific zamany ky shawahid ky baad bhi ager falsafa mazhab ki londi bani hua hy.......hahahaha.....to bally ji.
طارق صدیقی: فلسفہ کی ابتدا یونان کے دیومالائی مذہب سے انحراف کا نتیجہ ہے. اب درمیان میں سامی اہلِ مذاہب نے اس کو اغوا کرنے کی کوشش کی, تو اس کی ذمہ داری انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام پر نہیں ڈالی جاسکتی. انبیا کو اگر ہر ایک غیب کا علم نہ تھا, تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کے تو سان و گمان میں یہ بات نہ رہی ہوگی کہ ارسطو خدا کا تصور یوں بھی کر سکتا ہے.
فلسفہ اور مذہب میں اتنا زبردست فرق ہے کہ اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں انسانی بالخصوص اسلامی تاریخ میں آج تک کہرام مچا ہوا ہے, اور بات دہشت گردانہ کارروائیوں تک آ پہنچی ہے.
میں ایک عرصے سے یہ کہہ رہا ہوں, اور بہت سے لوگ کہتے آ رہے ہیں, کہ مذہب میں عقل کا حتمی دخل کبھی ہو ہی نہیں سکتا. کیونکہ یہاں علم کا ماخذ انسان کا ذہن و دماغ نہیں, اور ہداہت و ضلالت کی راہوں کا روشن ہونا انسان کی اپنی کاوش کا نتیجہ نہیں ہو سکتا. سامی مذاہب کا خدا اپنے بندوں/ انسانوں سے خود رابطہ کرتا ہے. بندے اپنی کوشش سے اس سے سمپرک نہیں سادھ سکتے. وہ ہدایت کے محتاج ہوتے ہیں. بغیر خدا کی رہنمائی کے بندے ٹامک ٹوئیاں مار سکتے ہیں لیکن ذاتِ حق کا منشا انہیں ہرگز نہیں معلوم ہو سکتا, کیونکہ انسانی عقل محدود ہوتی ہے. پھر جب ایک پیغمبر سامی خدا کی طرف سے آتا ہے تو بندوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مرضی کیا ہے. سامی خدا اور بندوں کے درمیان پیغمبر رابطے کا ذریعہ ہے مگر یکطرفہ, خدا تعالی ہر بندے کے تجسس کی تشفی براہ راست نہیں کرتا اور نہ ہر بندہ خدا سے مکالمہ کر سکتا ہے. خدا سے بات کرنا, صرف ایک سامی پیغمبر کے لیے مخصوص ہے. اور اس کی رحلت کے بعد پیغمبر کے وارث علما قرار پاتے ہیں لیکن ان پر جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام نہیں آتے اور نہ کوئی نئی الہامی کتاب لا سکتے ہیں. ناچار علما کو سابقہ سیاقوں میں نازل شدہ آیات اور گزشتہ پیغمبر کی روایات کی روشنی میں انسانوں کے نت نئے مسائل کا جواب دینا پڑتا ہے. اگر سامی علما کی براہِ راست رسائی خدا تک ہوتی تو پھر منقولاتِ مذہبی کی اتنی تفسیر و تاویل کی کوئی ضرورت نہ تھی, ہر نزاعی اور مبہم مسئلے میں خدا تعالی اپنی فارق بین الحق والباطل آیات نازل فرما دیتا تاکہ بندوں پر یہ بات واضح ہو جائے کہ اس کا اصل منشا کیا ہے جس میں وہ باہم مختلف و متصادم ہو رہے ہیں.
(اگلا تبصرہ)
طارق احمد صدیقی:اب چونکہ منقولات ہی خدا کا منشا معلوم کرنے کا واحد ذریعہ رہ گئے ہیں، اور گرچہ ہر قسم کی وحی کا سلسلہ بند ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، صحف مقدسہ کی ہدایت کا محتاج انسان رہے گا، اس لیے جدید و معاصر مسائل میں انہیں کی تعبیر نو پر تکیہ کرنا ضروری ہے۔
مغربی فلسفہ خالص انسانی عقل کی بنا پر کام کرتا ہے، فلاسفہ خدا کی ہدایت و رہنمائی کے محتاج نہیں ہیں، وہ جب چاہتے ہیں اپنی ضرورت کے اعتبار سے اپنے فلسفہ میں تبدیلی کر لیتے ہیں، اس طرح پچھلا موقف منسوخ ہو کر ایک نیا موقف گھڑ لیا جاتا ہے، لیکن مذہب میں نسخِ آیات تو پیغمبر کے دور میں ہی ہو سکتا ہے، یا کوئی نیا پیغمبرآئے تو پچھلے پیغمبروں کی لائی ہوئی تعلیمات منسوخ ہو سکتی ہیں۔
ہر جدید و معاصر تحقیق و انکشاف کے بعد اہلِ مذاہب کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے، چنانچہ جب ارض مرکزی کے بجائے شمس مرکزی تصور قائم کیا جاتا ہے، اور جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے تو قرآن کی تفسیریں بدلنے لگتی ہیں، اور کہا جانے لگتا ہے کہ مذہب نے فی الحقیقت یہ کہا تھا، جسے ہم نے اپنی محدودیت فکر کے سبب غلط سمجھ لیا، اور قرآن کے مطابق بھی بات وہی ہے جو گیلیلو دوربین کی مدد سے کہتا ہے۔
پس، اس طرح مذہبی منقولات میں معاصر تعبیروں کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔ فلسفیانہ تحقیقات مذہبی منقولات کی نئی تعبیر کا تقاضا کرتی ہیں، تاکہ پچھلے سیاقوں کی آیات و روایات میں عصریت و موزونیت کی کیفییت برقرار رہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا کہ فلسفہ مذہب کے فولڈ میں آ گیا، یا مذہب کی لونڈی بن گیا، اس وقت صحیح ہو گا جبکہ ایک فلسفی ایسا کرے، لیکن اس صورت میں فلسفی اپنے مقامِ بلند سے گر کرمحض ایک مذہبی بن جاتا ہے، اور اس کے ایسے کارنامے فلسفہ کا حصہ تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔ اب خواہ وہ ژاک دریدا ہو یا کوئی اور، جیسا کہ عمران شاہد بھنڈر صاحب فرماتے ہیں (مجھے اس بات پر شک ہے)۔ اور جب ایسا کوئی الزام کسی جلیل القدر فلسفی پر لگایا جائے تو یہ انتہائی سنگین بات ہے اور اس سے اس کا پورا نظامِ فکر ہی مشکوک اور مخدوش ہو جاتا ہے۔
جوں جوں مذہب کو فلسفیانہ و سائنسی تحقیقات کے لحاظ سے بذریعہ تعبیر بدلا جانے لگتا ہے، توں توں انسانی عقل احتجاج اور اعتراض کرتی ہے۔ چونکہ مذہب کا کام امت سازی ہے، اور اعتراض اگر مذہب پر ہو تو امت سازی کے مقصد پر ضرپ پہنچتی ہے، اس لیے معاملہ حق و صداقت کے بجائے گروہی عصبیت کا بن جاتا ہے۔ پھر فلسفیانہ عقل اور مذہبی نقل کے درمیان معرکہ آرائیاں ہوتی ہیں، اہلِ مذاہب میں شدت پسندی اور سخت گیری پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے ازلی و ابدی عقائد کی مدافعت زندگی کی ہر ایک سطح پر کرنے لگتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہوتا کہ ہے ایک طرف وہ آزاد مغربی فلسفہ و سائنس کے عطاکردہ حقائق و انکشافات کے لیے اپنے مذہب میں جگہ نکالتے ہیں اور دوسری طرف وہ فلسفہ کا ابطال کرتے ہیں۔ اور عوام الناس یہ خیال کرتے ہیں کہ مذہب ایک مطلق صداقت ہے کیونکہ اس کی پشت پر ایسے فلاسفہ ہوتے ہیں جو مذہب کو فلسفیانہ قالب میں پیش کرتے ہیں، اس کو عقل و خرد کے ہر ایک حقیقی تقاضے پر پورا اترنے والا ثابت کرتے ہیں، اور اس طرح مذہب میں عقل کا دخل ہو جاتا ہے جس کے بعد عوام الناس سے یہ توقع فضول ہے کہ انہیں کبھی یہ صحیح بات معلوم ہو سکے گی کہ مذہب اور فلسفہ میں خدا واسطے کا بیر ہے، اور مذہب کو فلسفیانہ اسالیب میں پیش کرنا نہ مذہب کی رو سے صحیح ہے اور نہ فلسفہ کی رو سے۔ کیونکہ فلسفہ میں ابتدا ہی سے یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ ‘‘خدا اپنے بندوں سے رابطہ نہیں کرتا’’، بلکہ انسان کو خود ہی خدا کی حقیقت تک پہنچنا ہے، اور مذہب میں ابتدا ہی سے یہ بات رہی ہے کہ خدا خود اپنے بندوں تک پیغمبروں کی وساطت سے اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ گویا، فلسفی فاعل ہے، جو یزداں تک اپنی عقلی کمند پھینکتا ہے، اور مذہبی ایک مفعول جو خدا کے پیغمبروں کا مخاطب ہے۔ فلسفی اور مذہبی میں فاعل و مفعول کے اس باریک فرق کو دیکھنے کے بعد ایک شخص مذہب اور فلسفہ کے اصولی فرق کو سمجھ جائے گا، اور مذہب کو فلسفیانہ اسالیب و تعبیروں کا ہدف بنانے سے پرہیز کرے گا۔ افسوس کہ سر سید احمد خاں نے اس کی بڑی کوشش کی لیکن انہیں ناکام ہونا ہی تھا۔ ہمارے ہاں انہیں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان کے متجددانہ کارناموں کی بنا پر آگے چل کر مذہب، فلسفہ اور سائنس سے مرکب ایک عجیب سیاسی آئیڈیولوجی کا ظہور ہوا اور عامۃ المسلمین مذہبی حقانیت کے احساس سے اس قدر لبالب ہو گئے کہ اب ہر دوسرا مذہب راہِ حق سے منحرف، صداقت کا مسخ شدہ، محرف اڈیشن اور ہر دوسرا فلسفہ انہیں ضلالت کے قعرِ مذلت میں گرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
(میں نے یہ مراسلہ 16 اگست 2016 کو فیس بک پر پوسٹ کیا)