فکر و آگہی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فکر و آگہی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 8 جون، 2023

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

 یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔

کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے۔ اور ان دونوں کی شناخت بالترتیب عدم ڈیزائن اور عدم منصوبہ سے ہوتی ہے۔ ایک طرح کے مناظر سے پورے کل پر قیاس کرنا جبکہ دوسری طرح کے مناظر بھی پائے جاتے ہوں ایک آربٹریری عمل ہے اور کسی کا اپنے ایسے قیاس پر ایمان لانے کا مطالبہ کرنا نہ صرف آربٹریری ہے بلکہ جابرانہ عمل بھی ہے۔
ڈیزائن کے معنی کیا ہیں؟ مادہ کا مختلف اشکال یا صورتوں میں پایا جانا۔ لیکن کیا ہوا کی کوئی شکل و صورت ہوتی ہے؟ جواب ہوگا نہیں۔ ہوا کی اگر کوئی شکل ہوتی بھی ہے تو وہ فی الحقیقت خود بخود مرتب نہیں ہوتی۔ ہوا جیسے ظرف یا مکانی حدوں میں ہو ویسی ہی شکل لے لیتی ہے۔ جدھر سے جیسا دباؤ پڑے ویسی ہی شکل میں ہوا پھیلی ہوئی ہوتی ہے، یا ویسی ہی شکل لے لیتی ہے۔ یہی حال پانی کا ہے کہ جس بوتل میں رکھو ویسی ہو جائے۔ پانی کبھی بوتل کی شکل میں، کبھی قطرہ کی شکل میں، کبھی دریا کی شکل میں، کبھی موج کی شکل میں، اور کبھی سمندر کی شکل میں جیسا جس جس نے دباؤ ڈالا، اسی کے مطابق خود کو بدلتی رہتی ہے۔ ورنہ اس کی کوئی ابتدائی شکل کہاں تھی؟ پانی کی سب شکلیں اور کیفیتیں اس کو درپیش سرد و گرم حالات اور اس پر عائد ہونے والی قید و بند وغیرہ کا نتیجہ ہیں۔
اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ہوا اور پانی کی طرح ہی کائنات کے کسی مادے کی کوئی متعینہ شکل نہیں۔ سب ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے سبب ہی وجود میں آئے ہیں یعنی سب ایک دوسرے پر جبر کرنے کے سبب ہی مختلف اور متضاد شکلیں اور ہیئتیں بدلتے چلے گئے ہیں۔ سورج، چاند، ستاروں، پہاڑوں، دریاؤں، پیڑ پودوں، گھونسلوں اور پرندوں، جانوروں اور غاروں، انسانوں اور گھروں، گھروں اور ان کی مختلف اشیا، ان سب کی ہیئتیں ایسے ہی ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتی، ایک دوسرے پر عمل کرتی، ایک دوسرے کے اندر داخل ہوتی اور اس سے خارج ہوتی، اور اس طرح ایک دوسرے کو متشکل کرتی ہوئی گزر رہی ہیں اور خدا معلوم کب تک جابر و مجبور، قاہر و مقہور، فاعل و مفعول کا یہ کھیل چلتا رہے گا، اور خدا معلوم کب سے چلتا آ رہا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جبر کے اس عمل کی نہ کوئی ابتدا ہو نہ انتہا، آدی ہو نہ انت، بلکہ جبر کی لیلا اپرم پار ہو۔
پس، اس نظام کو سمجھنا ہے تو جبر کے عمل کو سمجھنا ہوگا۔ جابر و مجبور، اور فاعل و مفعول کو سمجھنا ہوگا اور اس کے لیے پھر فارم یا ہیئت ہی سے رجوع کرنا ہوگا۔ لیکن محض فارم کو سمجھنے سے کیا حاصل؟ اور فارم کیا ہے؟ یہ سوائے جبر کے نتیجے کے اور بھی کچھ ہے؟ اور اگر محض فارم کو سمجھنے میں لگوگے تو جبر کے لامتناہی سلسلے میں پڑ جاؤگے۔ اسی اپرم پار میں پھنسے رہ جاؤ گے اور جو حقیقت کا سرا ہے اس کو کھو دو گے۔ اس لیے صوفیا کہتے ہیں کہ عدم یا شونیہ کی طرف آؤ۔ اسی میں سما جاؤ۔ یہ سب ہیئتوں سے ماورا ایک غیر ہیئت ہے۔ اور اسی میں سب کو لین ہونا ہے۔
لیکن عدم یا شونیہ کی "غیر ہیئت" کی اہمیت جتلانا کیا ہیئت کی بحث کے بغیر ممکن ہے؟
ہر چند کہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
پھر صوفیا کا یہ کہنا کہ عدم یا شونیہ مصدر ہستی ہے، اس بیان میں اسی قدر دلیل ہے جس قدر اس بیان میں کہ خود عدم کا مصدر یہی عالم وجود ہے جس میں چیزوں کی ہیئتیں بدل جانے کے بعد ان کی ابتدائی ہیئتوں کے لیے عدم کا ایک لفظ تجویز کر دیا جاتا ہے جس کے بالذات کوئی معنی ہی نہیں۔ البتہ دیگر معانی کے ساتھ رکھنے پر یہ لفظ بامعنی ہو جاتا ہے۔
بہرحال، عدم یا شونیہ کوئی قائم بالذات تصور نہیں۔ یہ ہمیشہ وجود کے تصور پر قائم ہے۔ اور یہی بات وجود کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ بھی قائم بالذات نہیں اور عدم کے تصور پر قائم ہے۔ اس لیے جو کوئی عدم اور وجود کی بحث میں کسی ایک کو بھی اولیت یا فوقیت دیتا ہے وہ دراصل "پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا" جیسی بحث میں کوئی ایک موقف اختیار کرتا ہے۔
یہ کہنا کہ عدم اور وجود میں تفریقی رشتہ ہے، یعنی تصور عدم بالذات شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی شناخت موقوف ہے تصور وجود پر۔ اور تصور وجود بالذات شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ موقوف ہے تصور عدم پر۔ جیسے رات کی پہچان نہیں دن کے بغیر، اور دن کی پہچان نہیں ہے رات کے بغیر۔ اور چونکہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔ اسی طرح عدم کی پہچان نہیں ہے وجود کے بغیر، وجود کی پہچان نہیں ہے عدم کے بغیر، اور یہ منفیت بجائے خود یہ اعلان کر رہی ہے کہ نہ وجود ہے اور نہ عدم، پھر جو کچھ ہے اس کی حیثیت عدم کی ہوئی یا نہیں؟ صوفیا اور فلاسفہ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں دراصل ایک منطقی پھیر میں پڑ گئے ہیں۔ یہاں مسئلہ عدم اور وجود کا نہیں۔ بلکہ مسئلہ اشیا کے مابین شناخت اور تمیز کا ہے۔ وجدان کے جھروکے سے دکھائی دینے والی، یا ذہن کے پردے پر ابھرنے والے تصورات (خواہ وہ تصور عدم ہو یا تصور وجود) اگر تفریقی نوعیت رکھتے ہیں، اور اسی تفریقی بنیاد پر ہم ان میں باہم تمیز کرتے ہیں تو یہاں معاملہ عدم اور وجود کا ہوا یا شناخت کا؟ ظاہر ہے کوئی بھی کہے گا کہ یہاں معاملہ تمیز اور شناخت کا ہی ہے۔ یعنی ہم تفریقی بنیادوں پر اپنے ہونے اور دیگر تمام موجودات کے ہونے یا نہ ہونے کو وجدان اور ذہن کے ذریعے "پہچانتے" ہیں، نہ کہ ان کے عدم یا وجود کا "علم" حاصل کرتے ہیں۔ ساختیات اور پس ساختیات چیزوں کی پہچان اور پرکھ اور ان کی کارکردگی کی سائنسیں ہیں نہ کہ عدم اور وجود کے دو تصورات میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کے آلات۔ مزید یہ کہ تفریقی رشتہ کی بنا پر ہر موجود و معدوم کا رد کرتے ہوئے ہم خالص عدم یا شونیہ کے تصور کو تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن یہ تمیز اور ادراک ہی کی سطح پر ہوتا ہے، اس کے ذریعے واقعتا اور حقیقتا خالص عدم تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ تصورات ذہنی میں تفریقی مظہر کا مشاہدہ خود ذہن ہی میں موجود اتحادی مظہر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی ہمارا ذہن فرق، اختلاف، تضاد، تباین وغیرہ کا مشاہدہ کرتا ہی ہے الحاق و اتحاد، اتفاق و اشتراک، ترادف اور توافق کے تصورات کی بنا پر جو خود ہمارے ذہن ہی میں ان تصورات کے عقب میں موجود ہوتے ہیں اور وہیں سے اپنے خارج میں پروجیکٹ کر کے تفریقی مظاہر یعنی تضادات کے نظام کا مشاہدہ کراتے ہیں۔
اور ذہن میں اس عقب کے عقب میں پھر فرق، اختلاف، تضاد اور تباین کے تصورات ہی ہوتے ہیں۔ اور ایک بار پھر، ذہن میں عقب کے عقب کے عقب میں الحاق و اتحاد، اتفاق و اشتراک، ترادف اور توافق کے تصورات ہوتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ لامتناہی ہو جاتا ہے، جیسے آئینے کے مقابلے میں آئینہ رکھ دیا جائے اور ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہو جائے:
جیوں مکھ ایک دیکھی دوئی درپن، گہلا تیتا گایا
جن رجب ایسی بدھی جانیں، جیوں تھا تیوں ٹھہرایا
حضرت اوشو کہتے ہیں: جیوں مکھ ایک دیکھی دوئی درپن ، چہرا تو ایک ہے، لیکن درپن میں جھانکوگے ، تو دو ہو جاتا ہے۔ اور درپن میں جھانکے بنا چہرے کا پتا نہیں چلتا۔ سو مجبوری ہے۔ جھانک کر ہی پتا چلے گا۔ درپن میں جھانکنا تو ہوگا۔ مگر جھانکتے ہی جو ایک تھا، وہ دو ہو جاتا ہے۔ اس لیے خطرہ بھی ہے۔
درپن میں جھانکنا مجبوری ہے یا لزوم ہے۔ اگر ابتدا میں روح ہی روح تھی۔ اور روح کو دراصل تشفی نہیں ہوتی تھی اس لیے اس نے درپن میں جھانکا۔ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ درپن کہاں سے آیا؟ درپن مجازی معنوں میں کہا گیا۔ درپن کے استعارے سے اصل مقصود یہ ہے کہ جس طرح درپن میں فرضی تصویر بنتی ہے اسی طرح مادہ جو ہے وہ دراصل روح کا مفروضہ ہے۔ روح نے فرض کر لیا ہے مادے کو ورنہ مادہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جیسے ہم فرض کر لیتے ہیں اپنے اندر اپنے ضمیر کو، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ایک ہی ہیں اور ضمیر ہمارا مفروضہ ہے جو ہماری غلط کاریوں پر متنبہ کرتا ہے۔ ضمیر حالانکہ صرف ایک مفروضہ ہے، وجود نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔ جس طرح ضمیر کا کانٹا انسان کے مادی وجود کا مفروضہ ہے اسی طرح مادہ روح کا مفروضہ ہے۔
اگر مادہ روح کی ہی پیداوار ہے تو پھر کسی ایک کو کسی دوسرے پر فضیلت کیوں دی جائے؟ کیونکہ ایک نے دوسرے کو پیدا کیا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوا تو دوسرا پہلے کا مقصود و مطلوب ٹھہرا۔ ورنہ پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اپنے سے کمتر شئے کو پیدا کرنا چہ معنی؟ صوفی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو ثنویت کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسری طرف مادہ کی تحقیر کرتا ہے جسے خود روح نے پیدا کیا ہے، یا جو روح کا نتیجہ ہے۔ روح نے مادہ کو اس لیے نہیں پیدا کیا، یا روح کے نتیجے میں مادہ اس لیے وجود میں نہیں آیا کہ اس کی تذلیل و تحقیر ہو ۔ صوفیا کی تقریروں کو جہاں سے بھی اٹھائیے ، ہر جگہ مادہ کی تکریم کے بجائے اس کی تذلیل و اہانت کا جذبہ کارفرما نظر آئے گا۔
روحانیت پرست شاید اس گہری حقیقت تک نہ پہنچ سکا کہ اس کائنات کا درد یہی ہے کہ یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ روح کی تمنا یہی ہے کہ کوئی دوسرا ہوتا۔ چنانچہ اپنی اسی تمنا کو پورا کرنے کے لیے اس نے اس مادی کائنات کی صورت میں ایک صنم تراش لیا۔ یہ صنم خود روح کی اپنی پیداوار ہے جو مادہ کی شکل میں مشہود و متمثل ہو گئی ہے۔ اور اسی مادہ کا ارتقا، اس کی ترقی، اس کی فلاح روح کا مقصود و مطلوب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہے، یعنی جو کچھ نظر آتا ہے، خواہ وہ مادہ ہو یا کچھ اور، اس کی پیدائش کا سبب روح کو کیوں قرار دیا جائے؟ جو کچھ موجود ہے اسی کو ‘‘سب کچھ’’ کیوں نہ مان لیا جائے؟ اب جو کچھ ہے، اسی میں ارتقا اور ترقی کو کائنات کا منتہائے مقصود کیوں نہ مان لیا جائے؟ اس لیے کہ اس کے بعد ہماری نظر میں یک جہتی پیدا ہو جائے گی جو سم قاتل ہے۔ اس لیے صوفیا مادی ترقی کے مقابلے پر روحانی سکون کو لاتے ہیں۔ لیکن مادی ترقی ہو یا روحانی سکون، یہ دونوں منتہائے مقصود ہمیں اس حقیقی علم تک نہیں پہنچاتے جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی علم یہی ہو سکتا ہے کہ یہ کائنات کیوں ہے؟ کیسے وجود میں آئی؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ دنیا کا یہ کھیل یا کارخانہ کب تک چلے گا؟ اور جب ختم ہو جائے گا پھر کیا کچھ اور ظہور میں آئے گا؟ مذہب ہو، تصوف ہو، فلسفہ ہو، سائنس ہو سب کا منتہائے مقصود انہیں سوالات کا جواب دینا ہے یا مسلسل اس کی کوشش کرتے رہنا ہے اور ان میں سے جو کوئی ان سوالات کے نئے جوابات دینے میں پیش قدمی نہیں کرتا، وہ رٹے رٹائے عقائد کا پشتارہ بن جاتا ہے، اور جو سبقت کرتا ہے وہی امامت کے درجے پر فائز ہوتا ہے۔

احقاق حق کا صراط مستقیم

دنیا میں مختلف عقائد اور نظریات کی بقا و ترقی کا دارومدار بہت سی باتوں پر ہے۔ ان میں سے ایک ہے " اپنے عقیدے یا نظریے سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا اور اس کی خامیوں کی پردہ پوشی ہرگز نہ کرنا۔" لیکن یہ صرف ایک معقول طریقہ ہے اعلی درجے کی روش نہیں۔ اعلی درجے کی روش جس سے بڑھ کر کوئی اور راہ ہو ہی نہیں سکتی وہ کچھ یوں ہے۔ "اپنے عقیدے یا نظریے کے خلاف خود ہی غور و فکر کرتے رہنا اور جیسے ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی خرابی یا غلطی معلوم ہو، اس کو فوری مشتہر کر دینا۔ اس طریقے کے مقابلے میں جتنے طریقے ہیں وہ سب کے سب ادنی اور پست درجے کے ہیں۔ ایک عالی دماغ شخص کے عقائد و نظریات کا یہی حال ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہی انہیں سخت تنقید و تنقیص کا ہدف بناتا ہے اور اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس میں اگر وہ کامیاب نہ ہو سکے تو اسے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے لیکن ہر لمحہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کب اس کو اپنے عقائد و نظریات کی کوئی کمی معلوم ہو اور کب وہ خود اسے سب سے پہلے سامنے لائے۔ اور اگر کوئی دوسرا اسے سامنے لائے تو وہ خود سب سے پہلے لپک کر اس کو قبول کرے۔
اگر ہم دنیا میں معروضی طور پر، سب کے لیے صداقت کے کسی اڈیشن یا حق کے کسی جز تک پہنچ سکتے ہیں یا صداقت کا کوئی جدید اڈیشن یا یا صداقت کا کوئی جز تخلیق کر سکتے ہیں تو اس کا طریق کار یہی ہے، یہی ہے، اور صرف یہی ہے۔ اس کے سوا جس قدر طریق ہائے کار ہیں وہ سراسر ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرانے والے ہیں۔
فلسفہ یا سائنس جس چیز کا نام ہے وہ منجملہ دیگر بہت سے طریقہائے کار کے ناگزیر طور پر اسی طریقے سے وجود میں آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے تحت جس قدر معلومات اور نظریات دنیا کو فراہم کی جاتی ہیں، لوگ ان کو بالآخر تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجیے کہ اس علم، عقیدہ یا نظریہ کی شان کیسی اعلی و ارفع ہوگی جس کا پیش کرنے والا خود اٹھ کر یہ کہے کہ اس کی خوب جانچ پرکھ کر لو، خوب اعتراضات کر لو، یہاں تک کہ اگر تمہیں میرے عقائد و نظریات کا خاکہ اڑانا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لو، لیکن اگر میرے عقائد و نظریات میں کسی بھی درجے میں صداقت ہے تو تم باوجود اس کی مضحک تردید کرنے کے اسے لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ کر سکوگے۔ اور اگر میرے نظریات میں کسی درجے کی کوئی صداقت نہیں تو پھر میں خود ان سے سب سے پہلے بیزار ہونے والا ہوں۔ ایک اعلی درجے کا فلسفی اسی خلق عظیم پر پیدا ہوتا ہے اور یہی وہ پہلا اور آخری نمونہ ہے جس سے پہلے اور جس کے بعد کسی اور نمونے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بھلا اس شخص سے بہتر اور کس کا نقطہ نظر ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ آؤ میں اور تم دونوں مل کر اپنے اپنے عقائد و نظریات پر بھی اور ایک دوسرے کے عقائد و نظریات پر بھی خوب تنقیدیں کریں اور خود اپنی اور ایک دوسرے کی علمی و فکری غلطیوں کو کھولیں، ایک دوسرے کی کجی پر گرفت کریں اور تب کہیں جا کر جو کچھ قابل قبول معلوم ہوتا ہو اس کو جزم و یقین کے بجائے نہایت حزم و احتیاط کے ساتھ قبول کریں اور بعد میں جیسے ہی اپنی کسی اجتماعی یا انفرادی غلطی کا علم ہو، ہم اس کی پردہ پوشی کے بجائے اس کو افشا کر دیں۔ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور سیدھی راہ کا تصور تم کر سکتے ہو؟ کیا اس سے بڑھ کر کسی اور اخلاقی رویے کو اپنا نمونہ بنا سکتے ہو اگر فلسفیانہ صداقت کا کوئی سوال درپیش ہو؟

بدھ، 4 جنوری، 2017

مذہب اور تعمیرِ نو؟

بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

مذہبی صداقت کا شمولیتی تصور

"چونکہ حدیث کا کوئی حکم,  مثلاً ایک مشت داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کا حرام ہونا قرآن سے ثابت نہیں ہے  اس لیے داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کرنا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے"، یہ موجودہ دور کی ایک غالب تقریر ہے,  اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجددپسند اسلام کو بجائے ایک مذہب رہنے دینے کے,  ایک سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں.  اس قسم کے تخفیفی اسلامزم کے سبب ہم سینہ ٹھوک کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب سراسر عقل و خرد کی بنیاد پر قائم ہے گو ہماری محدود عقل خدائی مصلحتوں کو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے بعد ہم  "یہ حکم قرآن میں نہیں ہے" کہہ کر مروجہ اسلام میں جہاں چاہے تبدیلی کر سکتے ہیں. سرسید,  فراہی اور غامدی ایسے تجدد پسند اسلامسٹ اپنی دانست میں چونکہ  صداقت کو مقدس صحیفے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ حدیثوں سے کسی نہ کسی طرح نجات پالیں جن پر موجودہ سائنسی دور میں ایمان نہیں لایا جا سکتا.  لیکن اس کے بعد اسلام پانی کی طرح رقیق ہو جاتا ہے اور اس کو جس برتن میں چاہو ڈھال لو.

پیر، 20 جون، 2016

الحاد اور مذہب دشمنی

الحاد ایک شئے ہے اور مذہب دشمنی دوسری. ایک گہرے فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے اور دوسرا سطحیت کے مارے لوگوں کا طریقہ. الحاد یہ ہے کہ زندگی پر پیغمبرانہ بلندی سے نظر ڈالی جائے اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جائے جس پر چلنے والوں کو ضال و مضل کہا جاتا ہے. جبکہ مذہب دشمنی یہ ہے کہ مذہبی لوگوں یا خود مذہبی روایت کی ہر چھوٹی بڑی بات میں کیڑے نکالیں جائیں اور یہ ہرگز نہ دیکھا جائے کہ جس بات پر ہم آج تنقید کر رہے ہیں وہ مذہب کی تشکیل کے زمانے میں کیا حیثیت رکھتی تھی اور کیوں اس زمانے کے لوگ اس کو روا یا قابل برداشت سمجھتے تھے.
ملحد اپنی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتا ہے. اس کی فکر ابنائے زماں سے مختلف ہوتی ہے, وہ اپنی جگہ ایک تسلسل کے ساتھ سوچتا رہتا ہے کہ معاصر زندگی کے مسائل کیا ہیں اور چونکہ مذہب کے صراطِ مستقیم پر چل کر ان مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا, اس لیے دوسرے راستے کون سے ہیں جنہیں اختیار کیا جا سکتا ہے.
لیکن ایک مذہب دشمن مذہب کو نیچا دکھانا اور تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کی نظر میں مذہب دنیا کی تمام تر برائیوں کی جڑ ہے. اس لیے, ایک مذہب دشمن کا رویہ ایک غالی مومن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہوتا جو مذہب کو دنیا کے تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے.
ملحد اپنے دور میں ادراک کے بلند ترین درجے پر فائز ہوتا ہے جبکہ مذہب دشمن کا ذہن انتقامی نہج پر سوچنے کے سبب رکاکت اور پستی کی انتہا پر. اس کو انسانی زندگی کے معمولی حقائق بھی نظر نہیں آتے.
ملحد تاریخ کے دھارے کو موڑنے میں ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے جبکہ سخت گیر مذہب دشمن عناصر اور بنیاد پرست غالی مومنین دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بدکلامانہ پیش آکر دنیا کے اخلاقی ماحول کو آلودہ کرتے ہیں اور لوگوں کی نظر سے گر جاتے ہیں. میں بھی ان دونوں قسم کے افراد کو جہلائے زمانہ میں شمار کرتا ہوں. اور وہ مومن اور وہ ملحد میری نظر میں محترم ہے جو زندگی اور کائنات کے مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے اور کج بحثی, کٹ حجتی اور یاوہ گوئی سے خود بھی محفوظ رہتا اور دوسروں کو بھی خبردار کرتا ہے.

بدھ، 16 دسمبر، 2015

نیکی کا کریڈٹ اور بدی کا ٹھیکرا

دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ جنگ و جہاد کی صورتحال پائی جاتی ہے, اس کے لیے بڑی طاقتوں کو الزام دینا ایک عام رویہ ہو گیا ہے جس میں بعض انارکسٹ خواتین و حضرات بھی مبتلا ہیں جو اپنے کو حقوق انسانی کے مدافعت کار بتاتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ چونکہ بڑی طاقتیں نہ صرف یہ کہ ان خطوں میں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے مداخلت کرتی ہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کے باہمی تنازعات کو بھی ہوا دیتی ہیں, انہیں گروہوں میں منقسم کر کے لڑاتی ہیں, یہاں تک کہ انتہائی مہلک ہتھیار سپلائی کرتی ہیں تا کہ وہ ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ سکیں, اور پھر ڈیموکریسی کے قیام کے بہانے ان پر چڑھ دوڑتی ہیں, اس لیے دنیا کے ان خطوں میں عدم استحکام کا اصل سبب یہ بڑی طاقتیں ہیں. اس قسم کی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو  پرلے درجے کا یکرخا اور نظریاتی بھینگے پن کا شکار ہو اور زمینی حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہو. واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثر خطوں میں مذہبی نوعیت کی قتل و غارتگری ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے جس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں. اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے مذہبی دہشت گردی کی تخلیق کے لیے اصلاً بڑی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور غارتگری کے اس پورے سلسلے میں باہم برسرپیکار گروپوں کی اصل ذمہ داری اور ان کی پیدائش کے بنیادی سماجی و معاشرتی اور سیاسی اسباب کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرنا ایک غیرمعقول رویہ ہے. یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص شراب پی کر ہنگامہ کرے اور ہم اس شخص کی اصلاح کے بجائے شراب بیچنے والوں کی مذمت شروع کر دیں. اور اس سے بھی زیادہ غیرمعقول صورتحال وہ ہوگی جس میں مذمت کرنے والوں میں وہ ہنگامہ خیز شرابی بھی شامل ہو جائے اور اپنی جگہ بکتا رہے کہ کیوں یہ لوگ شراب بیچتے ہیں جو میں خرید کر پینے پر مجبور ہوں! اگر شراب بنانا اور بیچنا ایک برائی ہے تو اس کو خرید کر پینا اس سے بدرجہا زیادہ بڑی برائی ہے اس صورت میں جب آپ شراب کے نقصانات کو جانتے بھی ہوں اور اس کے باوجود اس کے استعمال سے خود کو یا دوسروں کو نہ روک پا رہے ہوں اور بدستور شراب بیچنے والوں کی مذمت کیے جا رہے ہوں. اس سے آخر فائدہ کیا ہوگا؟ جنہیں مذہبی بنیادوں پر لڑنا ہے, انہیں اگر جدید ہتھیار نہ بھی فراہم کیے جائیں تو وہ پرانے ہتھیاروں سے لڑیں گے. پھر جس مذہبی فرقہ میں تلواروں کی کثرت ہو گی یا اس میں زیادہ طاقتور مذہبی جنونی پائے جائیں گے وہ فتحیاب ہوں گے, شکست خوردہ افراد کو قتل کریں گے, ان کی عورتوں کو باندی بنائیں گے, یہ زمانہ قدیم میں بھی ہوتا تھا, قرون وسطی میں بھی ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا ہے. اس برہنہ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے بے تکی باتیں کرنے سے مذہبی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا. ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی اولاد کے بگڑنے کا الزام دوسروں کی اولادوں پر رکھتے ہیں کہ اسی نے میرے بیٹے کو خراب کیا. اسی کی صحبت میں رہ کر میرے بیٹے نے فلاں برائی سیکھ لی. میں نے تو دیکھا ہے کہ کچھ گارجین اس بات پر آپس میں لڑ بھی جاتے ہیں. ہر ایک دوسرے کے بیٹے کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے لیکن کوئی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس نے اپنی اولاد کی کیسی تربیت کی, اس کو کیسا ماحول دیا, زندگی گزارنے کے کیا طریقے سکھائے. کیا اس کا لڑکا سنگ و خشت جیسا تھا کہ پڑوسی کے لڑکے نے تراش خراش کر اسے بدی کی مورت بنا ڈالا؟ ژاں پال سارتر کے مطابق جو لوگ اپنی کمزوریوں  سے پیدا ہونے والی خرابی کا الزام دوسروں پر رکھتے ہیں وہ خود کو انجانے ہی ایک بے جان شئے بنا لیتے ہیں جیسے وہ راستے کا پتھر ہوں جسے راہگیر اپنی ٹھوکروں سے ادھر سے ادھر منتقل کرتے رہتے ہیں. انسان جیسے ایک زندہ اور بااختیار وجود کے متعلق یہ خیال کرنا کہ دوسرے اس کو بہکا دینے کی طاقت رکھتے ہیں, بدعقیدگی کی علامت ہے. صحیح عقیدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ  اپنی اندرونی جبلت کے مقتضی سے خود ہی بے راہ ہو کر بہک جاتے ہیں اور اپنی برائی کی پردہ پوشی کے لیے دوسروں پر الزام رکھتے ہیں. ایسے لوگ انسان ہونے کے باوجود خود کو خس و خاشاک کی طرح بنا لیتے ہیں اور بدی کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں. یہ چونکہ اپنے نیک و بد اعمال کی ذمہ داری خود قبول کرنے سے پہلو تہی کرنا ہے اس لیے یہ  اپنے ایک خود مختار وجود ہونے کی نفی کرنا بھی ہے اور اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتاکہ ایسا بدعقیدہ شخص "عمل اور ردعمل" کے لامتناہی سلسلے میں پڑ جائے جیسے مادی اشیا پڑی ہوتی ہیں, مثلاً سورج کی گرمی سے ہوا طوعاً و کرہاً گرم ہو کر چلتی ہے, اور اپنے ساتھ کتنی ہی جاندار و بے جان چیزوں کو اڑائے پھرتی ہے, اس میں شک نہیں کہ انسانوں کے قدم بھی آندھیوں میں اکھڑ جا سکتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری اس کو خود لینی ہوگی کہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکا بجائے اس کے کہ وہ موسم کی ناسازگاری کو اس کا سبب قرار دے. جوں ہی کہ اس نے اپنے وجود سے باہر دوسروں کو اپنی بربادی کا الزام دینا شروع کیا, وہ عمل اور ردعمل کے لامتناہی سلسلے میں پڑ گیا. ذمہ داری اگر میری نہیں تو پھر ذمہ داری کسی اور کی بھی نہیں کیونکہ سب کے سب یہاں  اسباب و علل کے بندھے ٹکے قانون میں جکڑے ہوئے ہیں. پھر جوکچھ ہو رہا ہے اس کا شکوہ عقلی کے بجائے ایک جذباتی گفتگو ہے. نوع انسانی کے سامنے دو ہی راستے ہیں ایک وہ جس میں خود کو ایک ذمہ دار و خود مختار وجود کے طور پر تسلیم کرنا اور اپنی اجتماعی و انفرادی نیکی و بدی کا سارا کریڈٹ خود لینا ہے, اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ساری دنیا اور اس میں رہنے والے تمام انسانوں کو اپنی ہی طرح اسباب و علل یعنی عمل اور ردعمل کے قانون میں گرفتار تسلیم کرنا ہے. ان دونوں کے بین بین ایک تیسرا راستہ بھی ہے لیکن وہ بدتوفیقانہ ہے, یعنی اپنی انفرادی و اجتماعی نیکی کا کریڈٹ تو خود لینا اور بدی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنا.