نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اردو فکر، لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مذہبی صداقت کا شمولیتی تصور

"چونکہ حدیث کا کوئی حکم,  مثلاً ایک مشت داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کا حرام ہونا قرآن سے ثابت نہیں ہے  اس لیے داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کرنا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے"، یہ موجودہ دور کی ایک غالب تقریر ہے,  اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجددپسند اسلام کو بجائے ایک مذہب رہنے دینے کے,  ایک سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں.  اس قسم کے تخفیفی اسلامزم کے سبب ہم سینہ ٹھوک کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب سراسر عقل و خرد کی بنیاد پر قائم ہے گو ہماری محدود عقل خدائی مصلحتوں کو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے بعد ہم  "یہ حکم قرآن میں نہیں ہے" کہہ کر مروجہ اسلام میں جہاں چاہے تبدیلی کر سکتے ہیں. سرسید,  فراہی اور غامدی ایسے تجدد پسند اسلامسٹ اپنی دانست میں چونکہ  صداقت کو مقدس صحیفے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ حدیثوں سے کسی نہ کسی طرح نجات پالیں جن پر موجودہ سائنسی دور میں ایمان نہیں لایا جا سکتا.  لیکن اس کے بعد اسلام پانی کی طرح رقیق ہو جاتا ہے اور اس کو جس برتن میں چاہو ڈھال لو.

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد

علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’ اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا : مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضر...

فلسفہ و سائنس میں مادری، تہذیبی و مذہبی زبان کا لزوم

[یہ ایک فیس بک نوٹ ہے جو ۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی   کو لکھا گیا۔ مخاطب کا نام حذف کر دیا گیا ہے ۔] محترم … … … ، فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔ واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی  قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔ اسی کا نتیجہ ...