جمعرات، 17 دسمبر، 2015

سہ روزہ دعوت اور "داعش": میٹھا میٹھا ہپ, کڑوا کڑوا تھو

1

پرواز رحمانی صاحب اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت کے اڈیٹر ہیں۔ وہ خبر و نظر کے نام سے سہ روزہ دعوت میں ایک مستقل کالم بھی لکھتے ہیں جو پہلے صفحے پر جگہ پاتا ہے اور اسلامسٹوں میں بہت مقبول ہے۔ میں یہاں ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ اور ۲۵ نومبر ۲۰۱۵ کے دعوت میں شائع ہونے والے خبرونظر کے دو کالموں کو پیش کر رہا ہوں جو داعش یعنی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) سے متعلق ہیں۔ 
جیسے جیسے داعش کے خلاف ساری دنیا میں رائے عامہ ہموار ہوئی ہے، (بالخصوص پیرس حملوں کے بعد) ویسے ویسے مودودی اسلامسٹوں نے بھی اس دہشت گرد گروپ کے خلاف بولنا شروع کر دیا ورنہ شروع میں ان کا نقطہ نظر داعش کو لے کر بہت مثبت تھا اور وہ مغربی میڈیا کی ایسی رپورٹوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے جن میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ مغربی میڈیا کتاب و سنت پر عمل پیرا مسلم عسکری گروپوں کی کردار کشی کرتی ہے۔ 
اب جبکہ داعش کے متعلق کھل کر بہت سی باتیں سامنے آ چکی ہیں، مودودی اسلامسٹوں نے اس مسئلے پر اپنی پرانی لائن بدل لی ہے لیکن وہ اب بھی مغربی میڈیا کی رپورٹوں پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب وہ کچھ ایسی باتیں کہنے لگے ہیں کہ ’’داعش کے دہشت گرد صیہونی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ داعش کے دہشت گردوں کا اسلام اور مسلمان سے کوئی تعلق نہیں، داعش کے افراد کرائے پر مہیا کیے گئے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔‘‘
مودودی اسلامسٹوں کا یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ افغانی طالبان کے متعلق بھی انہوں نے یہی روش اختیار کی تھی اور افغانستان میں ملا عمر کی طالبانی حکومت کو اسلامی حکومت کہتے تھے جس نے افغانستان میں گوتم بدھ کے مجسمہ کومسمار کیا تھا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ ان اسلامسٹوں کو ’’اقامت دین‘‘ سے بڑی دلچسپی ہے اوردنیا میں کہیں بھی کوئی بھی شدت پسند گروہ کتاب و سنت کی بنیاد پر اسلامی خلافت کے قیام کے نعرے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، یہ بے اختیار اس کو اپنا دل دے بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ جب طالبانیوں کی قید ی ایک مغربی خاتون صحافی یووان رڈلی نے طالبان کے مبینہ حسن اخلاق سے متاثر ہو کراسلام قبول کیا تھا تو ان مودودی اسلامسٹوں کو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے یووان رڈلی کے ساتھ افغانی طالبان نے اچھا سلوک کیا ہو ، لیکن دین و سیاست کی یکجائی کا قائل کوئی شدت پسند گروہ حسن اخلاق کا کتنا ہی مکمل نمونہ کیوں نہ ہو، جب وہ ڈیموکریٹک یا فوجی طریقے سے اقتدار میں آتا ہے تو اسلام کی اپنی بنیادپرستانہ تعبیرات کو ہی رواج دیتا ہے۔ وہ قطع ید، سنگسار، محاربین کو غلام اور لونڈی بنانا وغیرہ مذہبی قوانین کو انتہائی سختی سے نافذ کرتا ہے اور موقع و محل اور دنیا و زمانہ کے تقاضوں کی بالکل پروا نہیں کرتا۔ 
داعش کے معاملے میں بھی اسلامسٹوں نے یہی ٹھوکر کھائی اور اپنے ابتدائی تجزیوں میں انہوں نے اسے ایک مسلمان عسکریت پسند گروہ تسلیم کر لیا ۔ چنانچہ پرواز رحمانی، اڈیٹر سہ روزہ دعوت ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ کے خبر و نظر میں بتایا ہے کہ کیرلاکی جو نرسیں ہندوستان واپس آئیں انہوں نے داعش کے حسن سلوک کا ذکر کیا ہے۔داعش کے دہشت گرد ان ہندوستانی نرسوں کو بہن کہتے تھے۔ پرواز صاحب نے اس خبر کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا اور فرمایا: 
[’’اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی عسکری مسلم گروپ نے جسے دنیا کے سامنے انتہائی سفاک بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہو، اپنے مقید افراد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔‘‘]
گویا ان کے حافظے میں متعدد مسلم عسکری گروپوں کی رحمدلی کی مثالیں روشن ہیں جنہیں دنیا کے سامنے سفاک بنا کر پیش کیے جانے کی پوری ایک روایت موجود ہے۔ آگے لکھتے ہیں: 
[’’داعش یا آئی ایس آئی ایس کے بارے میں انٹرنیشنل میڈیا جو کچھ بتا رہا ہے اس کی صڈاقت روز اول سے مشکوک ہے۔‘‘]
وہ داعش کے متعلق حسن ظن کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں: 
[’’ حقیقت صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ امریکی قبضے کے مخالف مسلح گروپ جو عراق میں پہلے سے موجود تھے، اب امریکہ کی کٹھ پتلی نوری المالکی سرکار کے مظالم اور سنی آبادیوں کے ساتھ اس کے بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے مزید سرگرم ہوگئے ہیں۔ البتہ یہ یقین کرنے کے اسباب موجود ہیں کہ اب اسلام دشمن قوتیں اپنے منصوبوں کے لیے انہیں استعمال کر رہی ہیں، ان کی یہ زبردست عسکری قوت اور پیش قدمی، خلیفہ کے تقرر، عالمی خلافت کے قیام کے سلسلے میں ان کے غیرحکیمانہ بیانات اور ان کے نقشے میں ہندوستان جیسے ملکوں کی شمولیت جیسے اعلانات یا تو انہیں بدنام کرنے کے لیے کوئی اور جاری کر رہا ہے اور اگر وہ خود یہ بیانات دے رہے ہیں تو یقیناً اسلام کے ازلی دشمنوں کے سازشی جال میں پھنس کر یہ سب کر رہے ہیں۔ تاکہ ان کی آڑ میں اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف عالمی رائے ہموار کی جا سکے۔‘‘]
خبر و نظر کے اس پورے کالم میں پرواز رحمانی یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ داعش یا آئی ایس آئی ایس کے متعلق رپورٹیں مشکوک ہیں۔ ایک طرف ’’کیرلا کی نرسوں کا تجربہ‘‘ ہے جو انہیں یہ یقین دلا رہا ہے کہ داعش ایک اسلامی گروہ ہے اوردوسری طرف انٹرنیشنل میڈیا کی رپورٹیں ہیں جن کے مطابق وہی گروہ اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کر رہا ہے۔ اور بقول پرواز رحمانی اگر ایسا اعلان واقعی داعش والے ہی کر رہے تھے تو وہ ’’غیرحکیمانہ‘‘ تھے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس داعشی اعلان خلافت کو دہشت گردانہ قرار دینے کے بجائے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسے ’’غیرحکیمانہ‘‘ کہہ کر پرواز رحمانی صاحب نے اس متشددانہ بیان کی شدت کو کم کر دیا۔

ایسا نہیں ہے کہ پرواز رحمانی صاحب یہ نہ جانتے ہوں کہ داعش کس چڑیا کا نام ہے۔جس شخص نے ایک طویل عرصے تک میڈیا میں کام کیا ہو اور اس کی نظر سے روزانہ متعدد اخبارات و رسائل ہی نہ گزرتے ہوں بلکہ خود اس کے اپنے اخبار میں داعش کی حقیقت پر طول طویل تجزیے شائع ہوتے ہوں، اس کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ داعش کے متعلق کوئی واضح رائے نہیں رکھتا، اور محض چند رپورٹوں پر اسلامی نقطہ نظر سے محض قیاس آرائی کر رہا ہے۔دعوت کی ۱۶ جولائی ۲۰۱۴ کی اشاعت میں صفحہ اول پر ، پرواز رحمانی صاحب نے لکھا تھا: 
[’’اب رہ جاتا ہے داعش یا آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا) تو یہ حقیقت ہے کہ عراق و شام کے کچھ گروپوں نے مل کر اپنا یہ نام رکھ لیا ہے لیکن وہ اس قدر مضبوط عسکری قوت رکھتا ہے کہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن گیا ہے، دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنی ’’خلافت‘‘ قائم کرنا چاہتا ہے، فہم سے بالاتر اور سمجھ سے قطعی باہر ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے اسلام دشمن قوتیں اسے بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اس کے غیرحکیمانہ ہی نہیں، احمقانہ بیانات اور اعلانات اس کا واضح ثبوت ہیں۔‘‘] 
داعش کے جو بیانات پرواز رحمانی صاحب کی نظر میں’’غیرحکیمانہ‘‘ تھے (خبر و نظر ۱۳ جولائی ۲۰۱۴) وہ اب ۱۶ جولائی ۲۰۱۴ کو ‘‘احمقانہ‘‘ بھی ہو گئے۔ بہرحال، پرواز رحمانی صاحب کی اس بات سے یہ معلوم ہوا کہ داعش کے لڑاکے کوئی اور نہیں مسلمان ہی ہیں، خواہ اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہوں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسلم عسکری گروہ نرسوں کے ساتھ کوئی غلط سلوک نہیں کرتا وہ اتنا عقلمند کیوں نہیں ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو سکے؟ 
دعوت کی ۱۶ جولائی ۲۰۱۴ کی اسی اشاعت میں پرواز رحمانی صاحب نے داعش کے متعلق یہ جملہ بھی لکھا تھا: 
[’’عراق پر امریکی قبضے کے خلاف داعش کی مسلح مہم کو مستقلاً سنی دہشت گردی کہا جا رہا ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے شیعہ مقدس مقامات اور شیعہ آبادیوں پر حملے کروائے جا رہے ہیں۔‘‘]
دیکھا آپ نے۔ کسی تعبیر کی حاجت نہیں۔ ان کی بات بالکل صاف ہے۔ ’’عراق پر امریکی قبضے کے خلاف داعش کی مسلح مہم کو مستقلاً سنی دہشت گردی کہا جا رہا ہے‘‘۔ ان کے اس جملے سے تاثر کیا بنا؟ کہ داعش نامی تنظیم امریکی قبضے کے خلاف مسلح جہاد کرتی ہےاسی لیے اسے سنی دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے جس کے ثبوت کے طور پر شیعوں اور ان کے مقدس مقامات پر حملہ ’’کرایا جاتا‘‘ ہے گویا داعش کوئی ایسا گروہ نہیں ہے کہ جو شیعوں پر حملہ کرنے جیسا کام کرے!
اچھا، اب ۲۵ نومبر ۲۰۱۵ کے دعوت کا خبرونظر ملاحظہ فرمائیے ۔ وہی پرواز رحمانی صاحب داعش کے متعلق لکھتے ہیں: 
[’’انسانیت کے دشمنوں نے ڈیڑھ سال قبل ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے نام سے خود ہی ایک دہشت گرد گروپ کھڑا کیا، خود اسے افراد اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور خود ہی اسے انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا کر دنیا کو اپنے ارد گرد متحد کر رہے ہیں۔ خود ہی اس سے ملکوں میں حملے کرواتے ہیں پھر خود ہی اس کی مذمت میں ایک ساتھ چیختے چلاتے ہیں۔ ابتدا میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش کو کھڑا کرنے کے پیچھے کوئی عالمگیر منصوبہ شاید نہیں تھا، وہ اس سے صرف عراق و شام میں کام لینا چاہتے تھے۔۔۔
تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیا جائے کہ داعش وہی کچھ ہے جو امریکہ اور اسرائیل دنیا کو بتا رہے ہیں یعنی یہ جنگجو مسلمانوں کا گروپ ہے جو دنیا میں اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتا ہے تو کیا یہ واقعی اتنا مضبوط ہے کہ امریکہ تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا؟ اس سے لڑنے کے لیے اسے پوری دنیا کی متحدہ قوت درکار ہے جب کہ اکیلا امریکہ ایسے دس داعشوں کو ایک دن میں دس دس بار تباہ کر سکتا ہے۔۔۔ 
لہذا نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کا پورا کھیل اسلام کو بدنام اور امت مسلمہ کو کمزور کرنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔۔۔۔ ‘‘]
اب ۱۳ جولائی ۲۰۱۴ والے خبرونظر کالم کو ایک بار پھر پڑھیے کہ مدیر دعوت نے داعش کے متعلق کیا فرمایا تھا: 
[’’اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی عسکری مسلم گروپ نے جسے دنیا کے سامنے انتہائی سفاک بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہو، اپنے مقید افراد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہو۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔‘‘ ]
سوال پیدا ہوتا کہ مدیر دعوت اب ’’کیرلا کی نرسوں کے تجربے ‘‘کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟

2
16 جولائی 2014 کے اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت نے ‘‘عراق کا بحران اور امت مسلمہ‘‘ کے نام سے ایک خصوصی جائزہ پیش کیا تھا جس میں مفتی ارشد فاروقی، سکریٹری، مرکزی جمعیت علمائے ہند کے حوالے سے سوالات پر مبنی ایک تحریر شائع ہوئی تھی، عنوان تھا: ‘‘داعش عراق کو مغربی تسلط سے آزاد کرانا چاہتا ہے‘‘۔ میں ذیل میں اس تحریر سے قابل توجہ پیراگرافوں اور جملوں کو ٹائپ کررہاہوں۔ مفتی ارشد فاروقی نے اسلامسٹ اخبار سہ روزہ دعوت میں داعش کے متعلق درج ذیل بیانات دیے تھے:

[’’مغربی میڈیا ہمیشہ سے حقائق پر پردہ ڈال کر غلط طریقے سے پیش کرتا آ رہا ہے۔ اس وقت یہ کوشش ہو رہی ہے کہ عراق کو شیعہ بلاک بنا کر شام لبنان اور بحرین کو ملا کر ایک بلاک اور سنی محاذکے خلاف کھڑا کیا جائے۔ 
داعش وہ گروپ ہے جو طویل عرصے سے مالکی افواج کے ظلم کا شکار رہا ہے اور عراق کو مغربی تسلط سے بچانا چاہتا ہے، یہ لوگ اسلام پسند ہیں، اس میں مختلف گروپ شامل ہو گئے ہیں جو عراق میں ظلم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین ہزار لوگوں نے مالکی فوجیوں کی بڑی تعداد کو کھدیڑ کر رکھ دیا اور اب بغداد سے محض پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔۔۔
دنیا میں اسلام پسند گروپوں میں سب سے بڑا نام الاخوان المسلمون کا ہے انہیں جن حالات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے، دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ کس طرح ان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، داعش اور اخوان میں طریق کار کا فرق ہے، اخوان کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ حالات سے کس قدر سمجھوتا کر کے اسلامی نظام کے قیام کی دعوت دیتے ہیں جب کہ داعش کے لوگ کوئی سمجھوتا کیے بغیر براہ راست خلافت اسلامیہ کا نام لے رہے ہیں اور انہوں نے یہ دعوی کر دیا ہے کہ انہوں نے خلافت قائم کر دی ہے۔ 
اس پورے معاملے میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کا جو تبصرہ آیا ہے وہ توجہ طلب ہے۔ انہوں نے خلافت کے قیام کے طریق کار کو غلط قرار دیا ہے، ان کی اسلام پسندی کو غلط قرار نہیں دیا ہے۔ 
طالبان اور القاعدہ کے بارے میں ہمیشہ سے ایک گروپ کی رائے یہ رہی ہے کہ یہ لوگ امریکہ کے پروردہ ہیں جنہیں روس کے خلاف امریکہ نے کھڑا کیا تھا، لیکن روس کی جنگ کے خاتمے کے بعد یہ لوگ امریکہ کے اثرات سے آزاد ہو گئے تو امریکہ نے انہیں تباہ کر دیا۔ جبکہ حقائق یہ ہیں کہ طالبان میں جو لوگ رہے ہیں ہ انتہائی دین دار واقع ہوئے ہیں۔ برطانوی صحافی یونی ریڈلی کے تاثرات یہ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ دین پر عمل کرنے والے تھے۔ 
ایک بار خبر یہ آئی تھی کہ کچھ جعلی طالبان بھی پکڑے گئے تھے جو مسلمان نہیں تھے، اصل طالبان کو بدنام کرنے کے لیے فرضی طالبان کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس وقت شام میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ اصل اسلام پسند گروپوں کے درمیان ایسے لوگوں کو داخل کر دیا ہے جو ان کے درمیان رہ کر اسلام پسندوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔۔۔
داعش کے مظالم کی جو صورتیں پیش کی جا رہی ہیں اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں ہندوستانی نرسوں کے ساتھ ان کا معاملہ سامنے آیا تو دنیا حیران رہ گئی۔ انہوں نے انہیں عزت و عافیت سے رکھا۔ اس کا اعتراف نرسوں نے اپنی گفتگو میں کیا ہے۔ رہی بات جنگ میں سختی کی تو ہر جنگ میں دشمن کے خلاف مدمقابل کرتا ہے اور امن کے قیام کے لیے اگر یہ سختی کی جا رہی ہو تو ایسا کرنا درست ہوگا۔ (گفتگو اشرف بستوی)] حوالہ: سہ روزہ دعوت، 16 جولائی 2014 عیسوی۔ 

ملاحظہ فرمایا آپ نے! کس طرح مفتی ارشد فاروقی صاحب نے داعش اور اخوان المسلمون دونوں کو اسلام پسند قرار دیا اوربتایا کہ ان کے درمیان فرق صرف طریق کار کا ہے۔کس طرح انہوں نے فرمایا کہ طالبان ایک دیندار گروہ ہیں ، اور کس طرح انہوں نے داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے متعلق فرمایا کہ قیام امن کی غرض سے دشمن کے خلاف سختی کرنا درست ہوگا! اور ایسا کون کہہ رہا ہے؟ مرکزی جمعیت علمائے ہند کے جنرل سکریٹری جناب مفتی ارشد فاروقی، اور ان کی ایسی باتیں شائع کہاں ہو رہی ہیں؟ مودودی اسلام پسندوں کے ترجمان اخبار سہ روزہ دعوت نئی دہلی میں! 
واضح رہے کہ جیسے جیسے انٹرنیشنل میڈیا میں داعش کی دہشت گردی کی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، ویسے ویسے ہندوستان کے اسلامسٹوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا بالخصوص پیرس حملوں کے بعد وہ داعش کو بڑی طاقتوں کی سازش قرار دینے لگے ہیں ۔ اب اسلامسٹ حضرات کسی صورت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ داعش نامی یہ دہشت گرد مسلمانوں کا حصہ ہیں بلکہ اب ان کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا داعش کو مسلمانوں کا حصہ بنا کر پیش کر رہا ہے یعنی داعش کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے!
سوال یہ ہے کہ یہ حضرات دہشت گرد گروپوں (جنہیں یہ "اسلامی عسکریت پسند گروپ" قرار دیتے ہیں) کے متعلق شروع ہی سے یہ موقف کیوں نہیں اپناتے کہ ان کی سرگرمیاں غیراسلامی ہیں اور ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ اگر انہیں میڈیا کے بیانات پر بھروسہ نہیں تو آخر کیرلا کی نرسوں کے تجربے والی رپورٹ پر کیسے یقین کر لیتے ہیں؟ کیا یہ میٹھا میٹھا ہپ, کڑوا کڑوا تھو کی مثال نہیں؟

بدھ، 16 دسمبر، 2015

نیکی کا کریڈٹ اور بدی کا ٹھیکرا

دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردانہ جنگ و جہاد کی صورتحال پائی جاتی ہے, اس کے لیے بڑی طاقتوں کو الزام دینا ایک عام رویہ ہو گیا ہے جس میں بعض انارکسٹ خواتین و حضرات بھی مبتلا ہیں جو اپنے کو حقوق انسانی کے مدافعت کار بتاتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ چونکہ بڑی طاقتیں نہ صرف یہ کہ ان خطوں میں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے مداخلت کرتی ہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کے باہمی تنازعات کو بھی ہوا دیتی ہیں, انہیں گروہوں میں منقسم کر کے لڑاتی ہیں, یہاں تک کہ انتہائی مہلک ہتھیار سپلائی کرتی ہیں تا کہ وہ ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ سکیں, اور پھر ڈیموکریسی کے قیام کے بہانے ان پر چڑھ دوڑتی ہیں, اس لیے دنیا کے ان خطوں میں عدم استحکام کا اصل سبب یہ بڑی طاقتیں ہیں. اس قسم کی باتیں وہی کہہ سکتا ہے جو  پرلے درجے کا یکرخا اور نظریاتی بھینگے پن کا شکار ہو اور زمینی حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا ہو. واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثر خطوں میں مذہبی نوعیت کی قتل و غارتگری ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے جس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں. اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے مذہبی دہشت گردی کی تخلیق کے لیے اصلاً بڑی طاقتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور غارتگری کے اس پورے سلسلے میں باہم برسرپیکار گروپوں کی اصل ذمہ داری اور ان کی پیدائش کے بنیادی سماجی و معاشرتی اور سیاسی اسباب کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرنا ایک غیرمعقول رویہ ہے. یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص شراب پی کر ہنگامہ کرے اور ہم اس شخص کی اصلاح کے بجائے شراب بیچنے والوں کی مذمت شروع کر دیں. اور اس سے بھی زیادہ غیرمعقول صورتحال وہ ہوگی جس میں مذمت کرنے والوں میں وہ ہنگامہ خیز شرابی بھی شامل ہو جائے اور اپنی جگہ بکتا رہے کہ کیوں یہ لوگ شراب بیچتے ہیں جو میں خرید کر پینے پر مجبور ہوں! اگر شراب بنانا اور بیچنا ایک برائی ہے تو اس کو خرید کر پینا اس سے بدرجہا زیادہ بڑی برائی ہے اس صورت میں جب آپ شراب کے نقصانات کو جانتے بھی ہوں اور اس کے باوجود اس کے استعمال سے خود کو یا دوسروں کو نہ روک پا رہے ہوں اور بدستور شراب بیچنے والوں کی مذمت کیے جا رہے ہوں. اس سے آخر فائدہ کیا ہوگا؟ جنہیں مذہبی بنیادوں پر لڑنا ہے, انہیں اگر جدید ہتھیار نہ بھی فراہم کیے جائیں تو وہ پرانے ہتھیاروں سے لڑیں گے. پھر جس مذہبی فرقہ میں تلواروں کی کثرت ہو گی یا اس میں زیادہ طاقتور مذہبی جنونی پائے جائیں گے وہ فتحیاب ہوں گے, شکست خوردہ افراد کو قتل کریں گے, ان کی عورتوں کو باندی بنائیں گے, یہ زمانہ قدیم میں بھی ہوتا تھا, قرون وسطی میں بھی ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا ہے. اس برہنہ حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے بے تکی باتیں کرنے سے مذہبی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا. ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی اولاد کے بگڑنے کا الزام دوسروں کی اولادوں پر رکھتے ہیں کہ اسی نے میرے بیٹے کو خراب کیا. اسی کی صحبت میں رہ کر میرے بیٹے نے فلاں برائی سیکھ لی. میں نے تو دیکھا ہے کہ کچھ گارجین اس بات پر آپس میں لڑ بھی جاتے ہیں. ہر ایک دوسرے کے بیٹے کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے لیکن کوئی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس نے اپنی اولاد کی کیسی تربیت کی, اس کو کیسا ماحول دیا, زندگی گزارنے کے کیا طریقے سکھائے. کیا اس کا لڑکا سنگ و خشت جیسا تھا کہ پڑوسی کے لڑکے نے تراش خراش کر اسے بدی کی مورت بنا ڈالا؟ ژاں پال سارتر کے مطابق جو لوگ اپنی کمزوریوں  سے پیدا ہونے والی خرابی کا الزام دوسروں پر رکھتے ہیں وہ خود کو انجانے ہی ایک بے جان شئے بنا لیتے ہیں جیسے وہ راستے کا پتھر ہوں جسے راہگیر اپنی ٹھوکروں سے ادھر سے ادھر منتقل کرتے رہتے ہیں. انسان جیسے ایک زندہ اور بااختیار وجود کے متعلق یہ خیال کرنا کہ دوسرے اس کو بہکا دینے کی طاقت رکھتے ہیں, بدعقیدگی کی علامت ہے. صحیح عقیدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ  اپنی اندرونی جبلت کے مقتضی سے خود ہی بے راہ ہو کر بہک جاتے ہیں اور اپنی برائی کی پردہ پوشی کے لیے دوسروں پر الزام رکھتے ہیں. ایسے لوگ انسان ہونے کے باوجود خود کو خس و خاشاک کی طرح بنا لیتے ہیں اور بدی کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں. یہ چونکہ اپنے نیک و بد اعمال کی ذمہ داری خود قبول کرنے سے پہلو تہی کرنا ہے اس لیے یہ  اپنے ایک خود مختار وجود ہونے کی نفی کرنا بھی ہے اور اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتاکہ ایسا بدعقیدہ شخص "عمل اور ردعمل" کے لامتناہی سلسلے میں پڑ جائے جیسے مادی اشیا پڑی ہوتی ہیں, مثلاً سورج کی گرمی سے ہوا طوعاً و کرہاً گرم ہو کر چلتی ہے, اور اپنے ساتھ کتنی ہی جاندار و بے جان چیزوں کو اڑائے پھرتی ہے, اس میں شک نہیں کہ انسانوں کے قدم بھی آندھیوں میں اکھڑ جا سکتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری اس کو خود لینی ہوگی کہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکا بجائے اس کے کہ وہ موسم کی ناسازگاری کو اس کا سبب قرار دے. جوں ہی کہ اس نے اپنے وجود سے باہر دوسروں کو اپنی بربادی کا الزام دینا شروع کیا, وہ عمل اور ردعمل کے لامتناہی سلسلے میں پڑ گیا. ذمہ داری اگر میری نہیں تو پھر ذمہ داری کسی اور کی بھی نہیں کیونکہ سب کے سب یہاں  اسباب و علل کے بندھے ٹکے قانون میں جکڑے ہوئے ہیں. پھر جوکچھ ہو رہا ہے اس کا شکوہ عقلی کے بجائے ایک جذباتی گفتگو ہے. نوع انسانی کے سامنے دو ہی راستے ہیں ایک وہ جس میں خود کو ایک ذمہ دار و خود مختار وجود کے طور پر تسلیم کرنا اور اپنی اجتماعی و انفرادی نیکی و بدی کا سارا کریڈٹ خود لینا ہے, اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ساری دنیا اور اس میں رہنے والے تمام انسانوں کو اپنی ہی طرح اسباب و علل یعنی عمل اور ردعمل کے قانون میں گرفتار تسلیم کرنا ہے. ان دونوں کے بین بین ایک تیسرا راستہ بھی ہے لیکن وہ بدتوفیقانہ ہے, یعنی اپنی انفرادی و اجتماعی نیکی کا کریڈٹ تو خود لینا اور بدی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑنا.