مضامین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مضامین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 17 نومبر، 2016

محمد حسن عسکری ــــ اردو ادب میں ساختیات کے بانی و خاتم؟

1

ہندوستان اور پاکستان میں ساختیات پراولین تنقیدی بحث کرنے والوں میں محمد حسن عسکری کو پہلے اردو ادیب کی حیثیت سے جانا جاتاہے۔عسکری نے فرانسیسی مصنف محمد آرکون کے نام 25 نومبر1975 کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے آرکون کو قرآن مجید کی ساختیاتی قرأت سے پرہیز کا مشورہ دیا تھا۔ عسکری کا یہ خط ان کے انتقال کے چودہ برس بعد 1992 میں اسٹڈیز ان ٹریڈیشن نامی جریدے میں ‘‘قرآن مجید کا ایک راسخ العقیدہ نقطہ نظر’’ کے عنوان سے مضمون کی شکل میں شائع ہوا اور وہاں سے اس کا ترجمہ ناصر بغدادی نے اردو میں کیا اور اس پر ایک تعارفی نوٹ بعنوان ‘‘ساختیات اور عسکری صاحب: ایک تعارف’’ لکھ کر شائع کرایا جسے میں نے سہ ماہی نیاورق کی جلد9، شمارہ23، (2006 عیسوی) میں پڑھا ۔

بغدادی نے مذکورہ خط پر اپنے نوٹ میں بعض ایسے دعوے کیے ہیں جو میری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں ہیں۔ ان دعووں میں سے ایک تو یہ ہے کہ عسکری بنام آرکون خط میں ساختیات کے استرداد سے پہلے اردوادب میں ساختیات کا تعارف نہیں ہواتھا، دوسرا یہ کہ عسکری کو ساختیاتی مبادیات پر تحریری بحث کرنے والے پہلے اردو ادیب کی حیثیت حاصل ہے، تیسرا یہ کہ ساختیاتی مبادیات پر استردادی بحث کرنے کی بنا پر وہ اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار اور خاتم بھی ہیں اور چوتھا دعوی یہ ہے کہ عسکری کو1975 تک ساختیاتی مبادیات پر کامل عبور حاصل تھا۔

ان میں سے پہلے دو دعوے تحقیقی نوعیت کے ہیں، اس لیے معقول تو ہیں لیکن ان کی صحت کو تسلیم کرنے میں بعض تحقیقی دقتیں ہیں: پہلی تو یہ کہ ساختیاتی فلسفہ لسان کا تعارف اگرسوسیئر اور اس کے نام کے ساتھ زبان کے ایک ساخت ہونے کے خیال کو پیش کرنا کہا جائے تو چند پیراگرافوں میں حامد اللہ ندوی یہ کام 1971کر چکے ہیں، اور اگرسوسیئر کا نام لیے بغیر زبان کے ایک ساخت ہونے کے تصوراور اس کی تمام تر نہیں تو کئی فلسفیانہ بنیادوں کو پیش کرنے کو بھی ساختیاتی لسانیات کے بنیادی اصولوں کا تعارف کہا جائے تو عتیق احمد صدیقی انہیں1969 سے پہلے پیش کر چکے ہیں، اور اگر بذریعہ ترجمہ ساختیاتی لسانیات، ساختیاتی اور پس ساختیاتی ادبی نظریہ اور تنقید/ تنقیدی نظریہ میں ماخذ کا درجہ رکھنے والے مقالات یا کتابوں سے سے ترجمہ اور مواد اخذ کرنے کو بھی تعارف کے ذیل میں رکھا جائے کیونکہ اس میں بکثرت ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان اور ادبی تھیوری کے نظریات و شخصیات زیر بحث آئے ہیں تو ترقی پسند نقاد محمد حسن مارکسی نقاد لوسین گولڈمین کی ایک متعلقہ تحریرکا ترجمہ نیز رولاں بارت کی ایک تحریر کا خلاصہ اپنے رسالہ عصری ادب کے پہلے شمارے 1970 میں شائع کر چکے ہیں ، اس کے ساتھ ہی نیر اقبال فرڈیننڈ ڈی سوسیئر کی کتاب عام لسانیات کا درس کے پہلے باب کا ترجمہ پیش کر چکے ہیں، اسی طرح اگر گوپی چند نارنگ کے مطابق ساختیات و پس ساختیات کے ساتھ روسی ہیئت پسندی بھی نئی تھیوری میں شامل ہے تو اس کا تعارف وجیہ الدین احمد 1966-67میں کرا چکے ہیں۔ ان سب تحریروں میں زیادہ تر ایسی ہیں جنہیں اردو میں ساختیات کے ابتدائی تعارف /تعارفی حوالوں کے ذیل میں رکھا جا سکتا ہے ۔ دوسری دقت ان دو دعووں کو تسلیم کرنے میں یہ ہے کہ محمد علی صدیقی نے 1975 میں ہی ، اور عسکری کےآرکون کو خط لکھنے سے کم از کم ایک ماہ پہلے ، ساختیات پر تنقید کی ابتدا کی تھی جو رسالہ اوراق کےستمبر اکتوبر 1975کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ان دقتوں کے رہتے ہوئے یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ عسکری اردو کے پہلے ادیب ہیں جنہوں نے ساختیاتی مبادیات پر تحریری بحث کی تھی اور ان سے پہلے اردو ادب میں ساختیات کا تعارف نہیں ہوا تھا؟

بغدادی کے بقیہ دو دعوے چونکہ فکری عصبیت کی بنا پر کیے گئے ہیں اس لیے وہ بلند بانگ ہیں اور انہیں تسلیم کرنے میں بعض اصولی مسائل ہیں: پہلا یہ کہ عسکری کا خط اردو میں نہیں تھا، اس لیے وہ اردو میں ساختیات کے نہ بانی ہو سکتے ہیں ، نہ خاتم۔ دوسرے یہ کہ استرداد سے بنیاد نہیں پڑ سکتی ۔ تیسرےیہ کہ خط میں اس بات کا کوئی مضبوط تاثر نہیں ملتا کہ سن 1975 تک عسکری ساختیات کی لسانیاتی بنیادوں سے کامل عبور کے درجے تک واقف ہو چکے تھے۔

میں اپنے اس مضمون میں بفضلہ تعالی بغدادی کے ان ہی بلند بانگ دعووں کی مدلل تردید کے ساتھ ان دقتوں کی نشاندہی بھی کروں گا جن کے سبب عسکری کو ساختیات پر اولین گفتگو / بحث کرنے والے اردو ادیب کا درجہ دیا جانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس سے پہلے تحقیقی مثالوں کے ساتھ کچھ اصولی باتیں رکھنا چاہوں گا۔پہلی تو یہ کہ ہم ایک مصنف کی کسی تحریر کو کسی نظریے کے تعارف کرانے کا کریڈٹ کن بنیادوں پر دیتے ہیں؟ کیا اس سلسلے میں کسی متعلقہ متن/ عبارت کی علمی حیثیت،اس کے اندر آنے والے حوالوں کی نوعیت، اس کے الفاظ کی کم سے کم تعداد کی شرط بھی لگا سکتے ہیں؟ ان سوالوں پر فکر و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی نظریے / رجحان کے تعارف میں اس کے بنیادگزار کا نام لیناایک علمی تقاضا تو ہے لیکن لازمی شرط نہیں ہے اس لیے کہ تعارف نظریے کا ہونا ہے نہ کہ اس کے بنیادگزار کا۔ البتہ یہ ہمیشہ ضروری ہے کہ متن یا عبارت میں متعارف ہونے والے نظریے یا رجحان کےایک یا ایک سے زائد اصول یااس کے کچھ لازمی خصائص بھی بیان ہوں جن کا مکمل طور پر مستند ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایسا ہونے پر تعارف کی کم سے کم شرط پوری ہو جاتی ہے اور ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہاں میں نے فلاں نظریے یا رجحان یا فکر کے متعلق کچھ سنا ہے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی شخص کے اولین تعارف کے لیے بس اس کا نام اور اس کے کچھ کاموں کا حوالہ کافی ہوتا ہے ، بلکہ محض نام سے واقفیت کو بھی اس کا تعارف کہا جا سکتا ہے۔ غائبانہ تعارف میں تو یہ بھی ممکن ہے کہ تعارف کرانے والا دانستہ یا نادانستہ کوئی غلط بات بول جائے اور بعد میں لوگوں کو علم ہو کہ یہ تعارف اتنا صحیح نہیں تھا لیکن تعارف کرانے والے کی کچھ باتیں اگر صحیح ہوں تو اس سے اس کے تعارف کرانے کے عمل کی نفی نہیں ہوتی۔ افکار و نظریات کے سلسلے میں غائبانہ تعارف یا تو مستند ہوگا یا غیرمستند لیکن وہ بہرحال تعارف کے ذیل میں آئے گا، جبکہ بالمشافہ تعارف یا توماخذوں کے ترجمہ کے ذریعے ہوگا یا پھر قارئین ماخذوں کو براہِ راست پڑھیں گے۔ جہاں تک کسی نظریے کے تعارف میں تعداد الفاظ کی قید کا سوال ہے تواس میں پرچہ امتحان جیسی قید نہیں ہو سکتی کہ وہ کم سے کم اتنے الفاظ میں ہونا چاہیے۔تعارف ایک جملے بلکہ بعض اوقات ایک لفظ میں بھی ہو سکتا ہے۔ اورجس طرح ایک شخص دوسرے لوگوں سے کسی چیز کا نام سن کر اس سے کسی نہ کسی حد تک متعارف ہو جاتا ہے اسی طرح لسانی و ادبی نوعیت کی بحثوں کے سیاق میں کسی نظریے کا صرف نام پڑھ لینا اولین تعارف کے ذیل میں آتا ہے، خواہ یہ تعارف کتنا ہی تشنہ کیوں نہ ہو۔

افکار و نظریات کا تعارف پیش کرنے کے سلسلے میں مذکورہ بالا اصولی باتوں کو جب میں اپنے سامنے رکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں بعینہ یہی معاملہ ہے کہ ابتدائی حوالے کا کریڈٹ بھی لکھنے والے کو دیا جاتا ہے۔ جیسے مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی کتاب ‘‘تنقید اور اسلوبیاتی تنقید’’ میں ‘‘ادب اور نشانیات’’ کے عنوان سے آل احمد سرور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ‘‘غالباً پہلے بزرگ نقاد ہیں جنہوں نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں نشانیات کا ذکر کیا ہے۔’’ یہاں اس سلسلے میں وہاب اشرفی کا ایک گونہ منفی نقطہ نظر بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ گوپی چند نارنگ پراپنے مضمون ‘‘گوپی چند نارنگ کی ساختیات شناسی ’’میں اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘یہ بحث نہیں اٹھانی چاہیے کہ سب سے پہلے ساختیات کی طرف کون متوجہ ہوا۔ اگر خون لگا کر شہیدوں میں نام گنوانے کی آرزو ہو تو تاریخ نارنگ سے آگے بھی جائے گی۔’’حالانکہ اشرفی یہ بھی قبول کرتے ہیں کہ نارنگ سے پہلے ساختیات پر لکھنے والے بہ تمام و کمال اپنے موضوع سے آگاہ نہ تھے اور ان کی تحریریں ‘‘برسبیلِ تذکرہ کے زمرے میں آتی ہیں۔’’ (ماہِ نو، جنوری تا اپریل 1996، صفحہ157)۔ اس میں شک نہیں کہ وہاب اشرفی نے نارنگ پر اپنے مضمون میں ان کے کارنامے کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور میں بھی اس بات پر یقین رکھتاہوں کہ اردو میں ساختیات کی تفہیم میں نارنگ اپنے معاصرین سے بازی لے گئے ، یہ اور بات کہ انہوں نے ایسا زیادہ تر بذریعہ ترجمہ کیا ہو، لیکن نارنگ کے کارنامے کی عظمت کو تسلیم کرانے کے لیے ضروری نہیں کہ دوسروں کی سبقت کی نفی کی جائے خواہ وہ ایک حرف کی ہی سبقت کیوں نہ ہو، اور اس سلسلے میں‘‘ خون لگا کر شہیدوں میں نام گنوانے’’ کی بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس محاورے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والا اپنا خون بہاتا نہیں بلکہ محض کسی اور کا خون لگالیتا ہے، جو اس کے جھوٹے ہونے کا پتا دیتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ کارزارِ علمی میں سوئی کے نوک کے برابر بھی کسی کا لہونکلے، تو ا س کی نفی یا تحقیر نہیں کی جا سکتی۔ یہی وہ سخت علمی معیار ہے جس پر ہم اردو میں ہر مصنف کے کارنامے کی جانچ کرتے ہیں اور اس کا مقام و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔ اس معیار کو خطرے میں ڈالنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم دنیائے علم و فکر کو پروپگنڈے اور رجحان سازی کے حوالے کر دیں ۔ اس سیاق میں وہاب اشرفی کی ایک اور غلطی کی طرف توجہ دلانا بھی دلچسپ ہوگا کہ انہوں نے اپنے اسی مضمون میں نارنگ کو ایک اور کریڈٹ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ‘‘ گوپی چند نارنگ نے شاید پہلی بار مارکسی تنقید کے نئے آفاق کی طرف ہمارے ذہن کو موڑنا چاہا ہے۔’’ (صفحہ 160 )مارکسی تنقید کے نئے آفاق سے وہاب اشرفی کی مراد نارنگ کا لوئی آلتھیوسے، گولڈمان، ماشیرے اور رولاں بارت کو موضوعِ بحث بنانا اور بالخصوص گولڈمان کے متعلق یہ ‘ احساس دلانا ’ ہے کہ وہ پہلا نقاد ہے جس کے ‘‘فکری رویے میں مارکسیت اور ساختیات کا اشتراک نظر آتا ہے۔’’ (حوالہ سابق)لیکن اشرفی کا نارنگ کو لفظ شاید استعمال کرتے ہوئے ‘‘پہلی بار مارکسی تنقید کے آفاق کی طرف ہمارے ذہن کو موڑنا ’’چاہنےکی بات بھی صحیح نہیں ہے۔نارنگ سے پہلے مارکسی تنقید کے اس نئے آفاق کی طرف توجہ دلانے کا کام ایک ترقی پسند دانشور محمد حسن 1970 میں ہی عصری ادب کے پہلے شمارے میں لوسین گولڈمان کی چودہ صفحات پر مبنی ایک تحریر کا ترجمہ اور رولاں بارت کی ایک تحریر کا خلاصہ شامل کر چکے تھے، اس لیے یہ کریڈٹ نارنگ صاحب کو نہیں جاتا جسے شاید کے لفظ ساتھ وہاب اشرفی نے انہیں دینے کی کوشش کی۔ لفظ شاید کا استعمال اس کے سوا اور کیا بتا رہا ہے کہ لکھتے وقت ان کی طبعیت نارنگ کی طرف پوری طرح مائل ہے اور یہ تحقیقی گفتگو کا معیارِ مطلوب نہیں ہو سکتا۔ برسبیل تذکرہ، نارنگ کوکسی حد تک یہی کریڈٹ مناظر عاشق ہرگانوی نے بھی اپنی کتاب ‘‘گوپی چند نارنگ اور ادبی نظریہ سازی ’’ (1995)دیا ہے لیکن بڑے منفی طور پر:
‘‘پروفیسر نارنگ نے ‘‘مارکسیت، ساختیات اور پس ساختیات’’ پر بھی کھل کر لکھا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں ساختیاتی مارکسیت، اور نئی مارکسیت کا تنقیدی تعارف بھی باضابطہ طور پر تھیوری کی پوری آگہی کے ساتھ سب سے پہلے گوپی چند نارنگ نے کرایا۔ تعجب ہے کہ یہ توفیق نئے پرانے ترقی پسندوں میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوئی، اور اس راہ میں بھی پہلا قدم نارنگ کو ہی اٹھانا پڑا۔ ’’ )صفحہ (45
یہ صحیح ہے کہ نارنگ نے تھیوری کی پوری آگہی کے ساتھ ساختیاتی مارکسیت کا تنقیدی تعارف کرایا لیکن جب یہ کہا جائے کہ نئے پرانے کسی ترقی پسند کو‘‘ یہ توفیق نہ ہوئی’’ ، تو ان کے لہجے کے تکدر کا علم ہو جاتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں نارنگ سے پہلے ترقی پسند دانشور محمد حسن نے ہی ایک قدم اٹھایا اور ساختیاتی مارکسیت کے ایک نظریہ سازلوسین گولڈمان کی ایک تحریر عصری ادب کے 1970 کے پہلے شمارے میں شامل کیا ، اگراس کو پہلا قدم نہ مانا جائے کیونکہ وہ ترجمہ ہے تو خود نارنگ صاحب نے گولڈمان کے نظریات کو متعارف کراتے وقت کون سا طبع زاد کارنامہ انجام دیا تھا؟ انہوں نے بھی توعمران شاہد بھنڈرکی تحقیق کے مطابق رامن سیلڈن کی کتاب ہمعصر ادبی نظریہ سے گولڈمان کے افکار کا ترجمہ ہی کیا تھا۔ پھر یہ بات از خود واضح ہے کہ دو ترجموں میں سے کس کو سبقت حاصل ہے۔ لیکن بات اگر طبع زاد کی ہے تو نارنگ صاحب کے نئی تھیوری پر باقاعدہ لکھنے کی ابتدا سے چند سال پہلےمحمد حسن نے 1983میں عصری ادب کےجولائی تا اکتوبر( 1983)کے شمارے میں ‘‘ادبی سماجیات’’ کے عنوان سے لکھا تھا:
‘‘گولڈ مان نے لوکاچ کے نظریوں کو ایک نئی جہت بخشی۔ اپنے طریق کار کو گولڈ مان نے عمومی و خلقی تشکیلیت کا نام دیا ۔ اس کا لب لباب صرف یہ تھا کہ ہر ادبی فن پارے کو مکمل بالذات وحدت قرار دیا جائے اور اسے پہلے اس کے مختلف عناصر اور اجزا کی شناخت اور ان کے باہمی رشتوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر ان عناصر اور اجزا کی شناخت اور ان کے باہمی رشتوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور پھر ان عناصر اور اجزا کی ٹھوس تاریخی اور سماجی جڑیں اور عوامل اور محرکات تلاش کیے جائیں اور ان سماجی طبقوں سے جوڑ کر انہیں دیکھا جائے جو مصنف کے عالمی وژن یا تصور حیات میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے گولڈمان کی تشکیلیت روسی ہیئت پرستوں (مثلا ثلاوسکی اور رومن جیکب سن وغیرہ) سے بالکل مختلف تھی بلکہ ہیئت پرستوں کی متن پرستی اور مارکسی تنقید کے سماجی تجزیے کے درمیان ایک موثر مفاہمہ تھی۔ ( صفحہ 22

اس اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ترقی پسند دانشور محمد حسن ساختیاتی مارکسیت سے ہرگز ناواقف نہیں تھے، اور انہوں نے محمد علی صدیقی اور محمد حسن عسکری کی طرح اسے مسترد نہیں کیا تھا۔

خیر، میرا موضوع یہ نہیں ہے کہ ساختیاتی مارکسیت کے باب میں نارنگ پر ترقی پسندوں کی سبقت کو ثابت کروں، میں دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف ادبی رجحانات اور سیاسی وابستگیاں رکھنے والے پوری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے محبوب مصنفوں کو کسی نہ کسی طرح وہ کریڈٹ بھی دے دیں جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ بعینہ یہی معاملہ ناصر بغدادی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ انہیں جیسے ہی یہ علم ہوا کہ عسکری نے1975میں ساختیات پر کوئی بات کی تھی تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ انہیں اردو میں ساختیات کے نہ صرف موسس و بانی کار اور خاتم کا درجہ دے دیں بلکہ ساختیات پر ان کے کامل عبور کو بھی دکھلا دیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عسکری آرکون کے نام اپنے خط میں ساختیات پر بالائی اور تردیدی گفتگو کے کوئی بہت خاص اصولی یا علمی گفتگو نہیں کرتے، اور اس سلسلے کی ان کی زیادہ تر باتیں عام علمی گپ شپ پر مبنی ہیں۔ یوں بھی ان کا یہ خط لکھے جانے کے تقریبا17 برسوں بعد 1992میں منظرعام پر آیا۔ اور اردو میں سوسیئر کے کارنامے ، ساختیاتی لسانیات اور تعبیرات نیز پس ساختیاتی صورتحال سے واقفیت عسکری کے1975 کے خط سے بہت پہلے کا واقعہ ہے اور اس کے ثبوت کے طور پر کئی ترجمے اور طبع زاد تحریریں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن پہلے عسکری کے اس خط سے بحث کرنا مناسب ہے۔ میں یہاں بغدادی کے نوٹ سے کچھ اقتباسات نقل کروں گا جن میں خط کشیدہ جملے علمی اور فکری اعتبار سے قابل گرفت ہیں:
1. ڈاکٹر نارنگ کے بقول اردو ادب میں 1976 میں ساختیات کا ‘‘تعارف’’ ہو چکا تھا۔ اب جبکہ عسکری صاحب کا یہ مضمون چھپ چکا ہے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عسکری صاحب اردو کے وہ پہلے ادیب تھے جنہوں نے 1975میں ساختیاتی مبادیات پر نہ صرف یہ کہ جامع اور مدلل تحریری بحث کی بلکہ اسلام کے سیاق و سباق میں اس کے بالقوۃ امکانات سے خبردار بھی کیا ہے۔ چونکہ ساختیات بنیادی طور پر سیکولرتاویلات و تصورات سے مشتق ہے لہذا قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے وہ اس کے منفی مضمرات سے کماحقہ واقف تھے ۔ اس مضمون میں انہوں نے محمد آرکون جیسے اسلام کے مردآگاہ اور صاحب علم کو ان امکانی نقصانات سے باخبر کیا ہے جو قرآن مجید کی قرأت کو لسانیاتی ، ساختیاتی، ثقافتی بشریات اور دیگر علوم کے حوالے سے کی جانے سے پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے یہ بدیہی صداقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عسکری صاحب کو چھٹی دہائی میں ساختیاتی نظریات پر کامل عبور تھا۔ ’’ (صفحہ100-101)[1]

2. عسکری صاحب نے 1970 میں مشہور فرانسیسی مصنف اور مفکر لوئی گاردے سے اپنی ملاقات کا حوالہ بھی دیا ہے جس نے انہیں بتایا تھا کہ مغرب میں اب کلاڈ لیوی اسٹراس عضو معطل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور یہ کہ ساختیات کے تعلق سے اس نے جو نظریات و مفروضات وضع کیے تھے اب ان کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ممکن ہے یہ محض اتفاق ہو کہ عسکری صاحب کے ساتھ یہ سارے واقعات اس وقت پیش آئے تھے جب اردو ادب میں ساختیات کا ‘‘تعارف’’ بھی نہیں ہوا تھا۔ان بدیہی حقائق کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عسکری صاحب اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار تھے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب مغرب میں ساختیات کے استرداد کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا تو عسکری صاحب نے منضبط اور منطقی استدلال اور دلائل کے ساتھ بالصراحت اس کو مسترد کر دیا تھا۔ اس لحاظ سے ان کی حیثیت ساختیات کے ضمن میں خاتم کی بھی ہے۔ (صفحہ101)

3. یہ ساتویں دہائی کے اتبدائی برسوں کی بات ہے جب عسکری صاحب کو نہ صرف ساختیاتی افکار اور ان کے تمام و کمال جزئیات پر عبور حاصل تھا بلکہ انہوں نے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کے بعد انہیں یکسر مسترد بھی کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں اس عملی دنیا میں ساختیاتی افکار کی حیثیت خیالی اڑانوں سے زیادہ نہ تھی، یہ ان کا ساختیات کے باب میں حتمی محاکمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اردو ادب میں ساختیات کا ‘‘تعارف’’ بھی نہیں ہوا تھااور اردو ادب کے جن لکھنے والوں نے ازاں بعد ساختیات میں طبع آزمائی کی ، ان کی ایک بڑی اکثریت ساختیات کی مبادیات اور بنیادی لوازمات تو دور کی بات ہے، شاید اس کی اصطلاح سے بھی ناواقف تھی۔ (صفحہ102)
خط کشیدہ جملوں میں ناصر بغدادی نے جو دعوے کیے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اور ان کے علمی اثبات کے لیے عسکری کی مزید تحریریں درکار ہیں جو 1975 یا اس سے پہلے کی ہوں۔ یہ ان کی کوئی باضابطہ تحریر نہیں بلکہ صرف ایک خط ہے ، جو اردو زبان میں نہیں لکھا گیا۔ اردو بولنے والا ایک شخص کسی دوسری زبان میں کچھ لکھے تو اس کو اردو کا سرمایہ نہیں کہا جا سکتا۔البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو بولنے والوں میں ایک اردو ادیب نے سن عیسوی1975میں ایک شخص نے ساختیات پر کسی اور زبان میں ایک گفتگو کی تھی، لیکن یہ اس سلسلے میں ایک غیرمتعلق بات ہے۔ ناصر بغدادی کا یہ دعوی کہ ‘‘عسکری صاحب اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار تھے’’ اس لیے بھی بے اصل ہے کہ عسکری نے اردو ادب میں ساختیات کی بنیادڈالنے کے بجائے اپنے ایک غیراردو خط میں اسے مسترد کر دیا تھا۔

بغدادی کا اگلادعوی یہ ہے کہ عسکری ‘‘ساختیات کے خاتم تھے ’’ جس کی بنیاد یہی ہے کہ اردو میں سوائے عسکری کے کسی اور نے اس وقت تک ساختیات کی بنیاد نہیں ڈالی تھی، اس لیے جب انہوں نے اسے مسترد کر دیا تو انہیں خاتم کا درجہ بھی آپ سے آپ حاصل ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسکری کے اس طرح ایک خط میں ساختیات کو مسترد کرنے سے نہ وہ مسترد ہوئی ، نہ اس کا خاتمہ ہوا اور نہ دوسرے بہت سے ادیبوں نے اس کے خاتمے کو تسلیم کیا۔ اردو زبان و ادب میں تو آج تک نہ صرف یہ کہ ساختیات پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں بلکہ ساختیاتی اصولوں کا ادب پر اطلاق بھی کیا جاتا رہا ہے۔

ناصر بغدادی کا یہ دعوی بھی کہ عسکری کو چھٹی دہائی کے عرصے میں ساختیاتی مباحث پر کامل عبور حاصل تھا محتاجِ دلیل ہے۔ خط میں اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ عسکری چھٹی دہائی یعنی1951تا1960 کے عرصے میں ساختیات اور پس ساختیات کے تمام اہم ماخذوں کا نہ صرف مطالعہ فرماتے تھے بلکہ انہیں اس پر کامل عبور بھی حاصل ہو گیا تھا۔ خط کے مضمون سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1975 تک ساختیات کے انٹلیکچوئیل فیشن سے کچھ نہ کچھ واقف تھے اور ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریہ سازوں اور دانشوروں کے کارناموں کی کچھ بھنک انہیں لگ گئی تھی یا وہ موٹا موٹی اس کے متعلق کچھ جانتے تھے، اور اسی کی بنا پر اپنی مذہبی راسخ العقیدگی کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے آرکون کو وہ خط لکھا تھا جس میں قرآن کریم کے ساختیاتی مطالعہ سے پرہیز سے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

عسکری نے ساختیات پر جتنی باتیں آرکون سے کہیں وہ اِدھر اُدھر سے پڑھ کر، یا سرسری مطالعہ کے بعد بھی کہی جا سکتی ہیں۔ ان کے متعلق ساختیاتی مبادیات پر کامل عبور رکھنے کی بات تبھی تسلیم کی جا سکتی ہے جبکہ وہ لیوی اسٹراس ، رولاں بارت، مشیل فوکو وغیرہ کے ساتھ ساتھ سوسیئر کا بھی نہ صرف یہ کہ ذکر کرتے بلکہ ان کے قائم کردہ نظریات کی تمام اہم فکری بنیادوں سے بھی خط میں نبرد آزما ہوتے۔واضح رہے کہ عسکری کےخط میں فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر اور ژاک دریدا تک کا ذکر نہیں ہے ۔ بالفرض عسکری کے لیے خط میں سوسیئر کے ذکر کا موقع نہ تھا تو کیا1967 میں ژاک دریدا کی ایک ساتھ شائع ہونے والی تین کتابوں اوراس کے فلسفہ ردتشکیل کے ذکر کا موقع بھی انہیں نہ ملا تھا؟ دریدا اور ردتشکیل کا حوالہ تو خود عسکری کے موقف کو مضبوط کرتا کہ دیکھیے آرکون صاحب ، سوسیئر کے لسانیاتی تصورات اور لیوی اسٹراس کے افکار کا ژاک دریدا اور اس کی ردتشکیلی فکر نے کیا حال کر دیا ہے اور اس کے باوجود آپ قرآن کریم کی ساختیاتی قرات کا ارادہ رکھتے ہیں! پھر جس طرح کسی فن پارے کی ساختیاتی قرات کے بعد اس کی ردتشکیلی قرأت ہو سکتی ہے اسی طرح قرآن کریم کی ساختیاتی قرأت کے بعد معاذاللہ اس کی ردتشکیلی قرات کی راہ بھی یقیناً کھلے گی۔ جو شخص بھی ساختیات پر اس درجہ کامل عبور رکھے گا ، اس کے سامنے یہ نکتہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگا اور وہ آرکون ایسے مصنف کو متنبہ کرتے وقت ضرور اس کا ذکر کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ عسکری اپنے خط میں ایسا نہ کر سکے۔ کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ عسکری ژاک دریدا کے کارنامے کی عظمت سے واقف نہ تھے؟پھر ساختیات پر 1975تک ان کے کامل عبور کا دعوی محض ایک دعوی ہے جو تاحال محتاج ثبوت ہے۔

اگر کامل عبور رکھنا اسی قسم کی اڑتی پڑتی ، بالائی گفتگو کو کہا جاتا ہے، جیسی عسکری نے ساختیات پر کی، تو میں مغربی فلسفہ کے کسی بھی موضوع پر کچھ فلسفیوں اور ان کے خیالات کا ذکراپنے نقطہ نظر سے کیے دیتا ہوں، تو کیا اس سے دنیا کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ طارق صدیقی کو مغربی فلسفہ کے فلاں موضوع پر کامل عبور حاصل ہے؟ یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ کہ جو شخص پانچ یا دس سال تک اتنے سارے مصنفوں کی کتابیں کسی موضوع پر بہ نظر غائراور تنقیدی نقطہ نظر سے پڑھتا رہے یہاں تک کہ اس پر کامل عبور کے درجے تک پہنچ جائے لیکن اس اثنا میں اس کی بھاپ بھی اپنے منہ سے نہ نکالے اور سوائے ایک ذاتی خط کے کوئی دوسری چیز نہ لکھے، یہ بات یا تو علمی معجزہ ہے یا مغرب کی فکری جاسوسی۔ہم عسکری ایسے عظیم ‘غیرملّانقاد ’سے اس کی توقع نہیں کر سکتے۔

عسکری کا آرکون کے نام اپنے خط میں لوئی گاردے سے ملاقات اور لیوی اسٹراس کے متعلق گاردے سے ازراہِ شائستگی استفسارکرنا، اس کے جواب میں لوئی گاردے کا مجسم سوال ہو کر یہ کہنا کہ ‘‘آج کل کون لیوی اسٹراس کا مطالعہ کرتا ہے؟’’، پھر عسکری کا گاردے کی نظر میں خود کو حماقتوں کا پلندہ بننے سے بچانے کے لیے آلتھیوسے اور فوکو کا نام لینا ، ساختیات کو انٹلیکچوئیل فیشن قرار دینا ، رولاں بارت اور کلاڈ لیوی اسٹراس کے علمی نظریات پر سرسری گفتگو کرنا، لیوی اسٹراس کی تضحیک کی غرض سے آکسفرڈ میں اس کے متعلق زبان زد ایک فقرے کہ ‘‘لیوی اسٹراس دقت پسند ہے اور اس کے خیالات کو سمجھنا بے حد مشکل ہے لہذا وہ ایک عظیم مفکر ہے’’ جیسی باتوں کا ذکر کرنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عسکری ساختیاتی فلسفہ لسان کے بنیادی اصولوں سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے۔ ساختیاتی مباحث پر جو آدھی ادھوری اور موٹا موٹی گفتگو اس خط میں ملتی ہے اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی کہ عسکری اس وقت تک سوسیئر کے اصل کارنامے اور زبان پر اس کے بصیرت افروز نکات سے واقفیت رکھتے تھے نیز سوسیئر ی تصورات کی بنیادی کمزوریوں سے واقف تھے، جو اس کے نظام فکر کو مسترد کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ سوسیئر نے جن معروضی بنیاد وں پر اور جس طریقہ کار سے کام لے کر زبان کے ایک ساخت ہونے کا نظریہ پیش کیا تھا، اور لیوی اسٹراس اور دیگر نظریہ سازوں نے جس طریقے سے سوسیئری تصورات کا اطلاق ادب و اساطیر پر کیا تھا، اس سے کماحقہ واقفیت کا ثبوت بھی عسکری کے یہاں نہیں ملتا۔ غرض ان کا یہ پورا خط پڑھے لکھوں کی گپ شپ پر مبنی ایک نیم علمی دستاویز ہے جس کی ساختیات کے تنقیدی جائزہ کے باب میں کوئی باضابطہ حیثیت نہیں ہے۔

محمد حسن عسکری کو چھٹی دہائی میں ‘‘ساختیاتی نظریات پر کامل عبور’’ تھا یا نہیں، اس سلسلے میں کچھ کہنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس موضوع پر تحقیق نہ کی جائے کہ انہوں نے1975یا اس سے پہلے کی اپنی کسی تحریر میں ساختیات یا پس ساختیات کی فکری بنیادوں سے واقفیت کا ثبوت دیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی انہیں ساختیاتی مبادیات پر ‘‘جامع اور مدلل تحریری بحث ’’ کے بعد ساختیات کو مسترد کرنے والی علمی شخصیت کے طور پر تبھی تسلیم کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کی کوئی ایسی تحریرہو جس میں ساختیات کے بنیادی نکات پر موٹا موٹی گفتگو کرنے کے بجائے علمی تردید کی گئی ہو۔ آرکون کے نام عسکری کا خط ان شرطوں پر پورا نہیں اترتا۔ البتہ عسکری کو یہ کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ساختیات کو مسترد کیا تھا لیکن ناکافی دلائل کی بنیاد پر۔

عسکری کا خط اردو میں نہیں لکھا گیا اس لیے اس کی بنا پر انہیں ‘‘اردو ادب میں ساختیات کا موسس و بانی کار ’’ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان کی طرح اردو میں بھی کسی نظام ِفکر کا موسس و بانی کار وہی ہو سکتا ہے جو کچھ عرصہ ہی سہی ، اس کو درآمد کرے اور اپنائے نہ کہ پہلی ہی سانس میں اس کا رد لکھ ڈالے۔ ساختیات پر تغلیطی یا ابطالی نوعیت کی ایک تحریر لکھ دینے سے ، اس کی تاسیس اور بنا نہیں پڑسکتی۔ بغدادی نے عسکری کے زیرِ بحث خط کے سوا ان کی 1975یا اس سے پہلے کی کوئی اردو تحریر پیش نہیں کی کہ انہوں نے ساختیات یا اس کے کسی نکتے کو اپنایا۔

اسی طرح کسی زبان میں کسی فکری سلسلے کے خاتم کا درجہ اس دانشور یا مفکر کو دیا جا سکتا ہے جس کا کارنامہ اس درجہ تابناک اور روشن ہو کہ اس کے بعد آنے والے دانشور اور مفکر اس سے کسب فیض کریں اور متعلقہ نظام فکر کی بنیادوں میں کوئی اضافہ نہ کر سکیں، اور ان کا کارنامہ محض یا زیادہ تر تشریحی اور تعبیری نوعیت کا ہو۔کسی نظام فکر کا خاتم ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اس نظام فکر سے متفق ہوں اور اس میں اپنی عبقریت کوروزِ روشن کی طرح عیاں کر دیں اور اس کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کا کارنامہ آفتاب کو چراغ دکھانے جیسا ہو، چنانچہ مذہب میں بھی پیغمبری کے سلسلے کا خاتم وہی ہو سکتا ہے جو خود بھی ایک پیغمبر ہو۔ ایک غیرپیغمبر کو پیغمبری کے سلسلے کا خاتم نہیں کہا جا سکتا ، خواہ وہ پیغمبروں کی پیش کردہ تعلیمات پر کیسی ہی تنقید کیوں نہ لکھے۔ اس لحاظ سے ساختیات کے باب میں عسکری ایسے لیوی اسٹراس سے فکری بغض رکھنے والے کسی شخص کو خاتم کی حیثیت نہیں مل سکتی۔ اگر عسکری لیوی اسٹراس کے معتقد ہوتے، پہلے اس کی باتوں پر ایمان لاتے، اور اس کے بعد اس کے نظامِ فکر کی اتنی زبردست اصلاح کرتے کہ کم از کم اردو اور زیادہ سے زیادہ مغربی دنیا میں کوئی شخصیت عسکری کی ہم پلہ نہ ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ فلسفہ ساختیات کا خاتمہ ان پر ہوگیا اور ان کے بعد اب اس شعبے میں کوئی دیوقامت شخصیت پیدا نہ ہوگی۔

اگر بغدادی ‘‘خاتم’’ لفظ کو اس معنی میں استعمال کر رہے ہیں کہ عسکری نے اردو میں ساختیاتی فلسفہ لسان کا خاتمہ کر دیا، تو اس صورت میں بھی یہ کوئی صحیح بات نہیں کیونکہ عسکری سے پہلے اور ان کے بعدبھی محمد علی صدیقی نے ساختیات کے خاتمے کا کارنامہ زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ محمد علی صدیقی نے عسکری کے خط مورخہ 25 نومبر1975سے کم از کم ایک ماہ پہلے اوراق کے ستمبر اکتوبر1975 کے شمارے سے ہی ساختیاتی لسانیات پر مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جو 1976 میں دو مضامین پر ختم ہوا۔ یہ اور بات کہ محمد علی صدیقی اردو میں ساختیات کے خاتمے کی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ہوں کیونکہ ، جیسا کہ پہلے میں نے عرض کیا، آگے چل کریہ نظریہ اپنے متعلقات کے ساتھ اردو میں بہت مقبول ہوا۔

میں ذیل میں اوراق کے مذکورہ شمارہ (ستمبر اکتوبر 1975 )میں محمد علی صدیقی کے مذکورہ مضمون سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں تا کہ قارئین پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے کہ ساختیات پر گفتگو کی ابتدا محمد علی صدیقی نے اپنے اسی مضمون سے کی، اور تمہیدی گفتگو ہی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے قلم کیوں اٹھایا ہے:
‘‘آج کل لسانیات نے جس قدر اہمیت حاصل کر لی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ فلسفہ، ادب اور سائنس کی ہر بحث میں کلیدی رول ادا کرتے کرتے کہیں یہ علم بذاتِ خود علمِ کل تو نہیں ہو جائے گا۔ ہمارے علم میں ہے کہ مغرب کا بیشتر فلسفیانہ ادب لسانی تجزیہ کے گرد گھوم رہا ہے۔ خیال و فکر سے زیادہ طرزِ ادا اور طرزِ ادا میں بھی منطقی طو رپر درست اظہار نے فکر و نظر کی ہر بحث کو لایعنی اور بیکار بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہم جدید اردو ادب میں بھی انتشار، عبثیت، تھکن اور شکستِ ذات پر مشتمل خیالات کا اس درجہ زور و شور دیکھ رہے ہیں کہ جیسے لایعنیت ہی اس کا سب سے بڑا مقصد اور انسانی زندگی کو خوابوں اور رومانس سے نجات دلانا ہی سب سے بڑا وظیفہ ہو۔ ’’ (صفحہ 180)
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تمہید ہی ساختیات کو موضوع بنانے کی غرض سے شروع کی گئی ہے ۔ اور آگے پڑھیں:
مقصدیت کو ژولیدگی سے تعبیر کرنے والے ۔۔۔ بقراطوں نے سماجی و معاشرتی تجزیہ کو قلمرو ادب سے باہر نکالنے کی جدوجہد بہت خلوص نیت سے شروع کی تھی لیکن ان کی تمامتر کاوشوں میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو زیادہ جاذب توجہ نہ ہوسکا۔ وہ ہے لسانیات کا شعبہ ۔ ہم سے اکثر اپنی سادہ دلی میں لسانیات کو زبانوں کا سائنسی مطالعہ گردانتے رہے اور بے شک یہ کچھ زیادہ غلط بھی نہیں تھا اور ہے لیکن شعبہ لسانیات نے ‘‘پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو’’ کو جس طرح انتشارِ ذہنی پیدا کرو اور حکومت کرو’’ میں متبدل کیا ہے وہ ایسا ہے جیسے سامراجی دور نوآبادیاتی دور کی شکل میں ہمارے سامنے آ گیا ہو۔ موجودہ لسانیات عظیم طاقتوں کی سیاسی حکمتِ عملی میں اس قدر اہم رول ادا کر رہی ہے کہ ہم جب تک زبان کے متعلق یونانی فلاسفہ کے زمانہ سے انیسویں صدی کے دور تک مختلف تعریفوں کو اپنے ذہن میں نہ رکھیں، ہمیں اس نقطہ تک پہنچنے میں کچھ مشکل پیش آ سکتی ہےجسے مضبوطی سے پکڑ کر اورسائنسی طور پر آگے بڑھا کر بڑی طاقتوں نے لسانیات سے سابئرنیٹکس ، کمپیوٹر اور ابلاغ کے عمومی نظریات میں بڑے بڑے انقلابات کے لیے راستے ہموار کر دیے ہیں کہ ایک امریکی ماہر سماجیات وینس پیکارڈ کے نظریہ کے مطابق کسی ملک کی ثقافت ابلاغی انجینیرنگ کے ذریعے چند سالوں میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح کسی زبان کے لسانی ڈھانچہ سے اس زبان کے بولنے والوں کی ثقافتی گرامر اخذ کی جا سکتی ہے۔

اس صورتحال کا نتیجہ نکلا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں کے لیے کسی بھی زبان میں بھیجے جانے والے پیغام تک رسائی اس طرح آسان ہو گئی ہے جیسے کہ کسی ٹیپ سے براہ راست نقل ، ہر زبان کی لغت، نحوی ڈھانچہ، روزمرہ اور محاورہ برقی آلات میں ریاضیاتی مساواتوں کے ذریعے داخل کر دیا جاتا ہے اور اس طرح کسی بھی پیغام کو پڑھنا (ڈیکوڈ) کرنا مشکل امر نہیں رہتا۔ یہ تو ٹکنالوجی ہے لیکن ٹکنالوجی کے پسِ پشت ایک خاص تھیوری ہوتی ہے اور میں اس سلسلہ ہائے مضامین میں زبان کی اولین تعریف سے لے کر اہم اور چیدہ چیدہ تعریفوں سے گزرتا ہوا موجود لسانیات کے اس بظاہر غیر سیاسی، عرفِ عام میں تکنیکی رخ کی طرف آوں گا جس نے موجودہ اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جب ہم کسی نقاد کو قابلِ فہم، قابلِ ادراک اور باہم مربوط نحوی ڈھانچے کے ادبی شہ پارے کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھیں تو وینس پیکارڈ کے اس دعوی پر زیادہ مشوش نہ ہوں کہ تبدیلی ثقافت کا ٹھیکہ لیا جا سکتا ہے۔ یہاں تو بات صرف قابل فہم کو ناقابل فہم میں متبدل کر کے خط معکوس کو خط محض بنانے ہی کی ہے لیکن جو لوگ خود کو اس گورکھ دھندے میں اپنی خوشی و رغبت سے ملوث کرتے ہیں وہ غالباً اپنی اس ضد کے شکار ہوتے ہیں کہ وہ سیاست سے بچتے بچتے دوسروں کی سیاست کو بھی سیاست سے زیادہ ادبی فیشن سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں جس طرح فعلی۔جذباتی۔صفتی (VERBAL/EMOTIVE/ QUALITATIVE) اظہار کو ہدف ملامت بنا کر مصدقہ جذبات کی اضافیت کو جنم دیا گیا ہے۔ اس سے خود ‘زندگی’ اور اس کی جدلیت بھی پہلے واہمہ اور پھر عبث و لایعنی ثابت کی جا رہی ہے اور ایک طرح سے حرکت اور امتزاج ِ اضداد کے مقابلہ میں سکونی اور متعین ثقافت اور اقدار کی وکالت کی جا رہی ہے ۔ اگر عینیت پسندی مقصدیت کا مقابلہ کرنے کے لیے نراجیت اور بے راہ روی کا سہارا لینے لگے تو پھر وہ کیسا سکونی اور متعین معاشرہ جس کے لیے اس قدر حرکی ہونے کی ضرورت پیش آتی ہو کہ زندگی تمامتر حرکت کے باوجود نقطہ ٔسکوت (STILL POINT) سے مشتبہ ہو کر رہ جائے۔ ایلیٹ جیسے متعصب ماضی پرست شاعرو نقاد نے ایک خوبصورت تضاد کے ذریعہ اپنی اصل نیت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے نقطہ ٔ سکوت کو ادبی اصطلاح کے طور پر پیش کیا تھا اور کاش اسے جدیدیت کا علمبردار ماننے والے ساتھ ہی ساتھ ماضی پرست اور رجعت پسند بھی تسلیم کر لیں تو جدت قدامت کے انمٹ رشتے آسانی سے سمجھ میں آ سکیں۔

آئیے پہلے ہم سرسری طور پر زبان کے بارے میں مختلف نظریات کا طائرانہ جائزہ لیں تا کہ ہم جدید لسانیات کے ‘‘سیاسی ’’ رول کا بخوبی اندازہ لگا سکیں جو ٹکنالوجی کی ترقی اور ابلاغ کے میدان میں محیرالعقول ترقی کے عمومی اعتراف کی وجہ سے غیرسیاسی نظرآتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ ایک انتہائی سیاسی میدان کو غیر سیاسی ثابت کرنے میں جس قدر محنت اور وسائل کی ضرورت ہے وہ اگر میسر ہوں تو پھر فیشن ایبل غیرسیاسی ادبا کی کھیپ تیار ہونے میں کیا دیر لگتی ہے۔ ’’

محمد علی صدیقی نے یہاں واضح اشارہ دے دیا ہے کہ وہ جدید لسانیات اور معاصر مغربی دنیا میں اس کی کلیدی اہمیت پرسلسلہ وار مضامین لکھ کر تنقیدی گفتگو کرنے والے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں:
زبان کے مسئلہ پر غور کرنے سے پہلے غور کرنا ہوگا کہ سوچنے والا خود کیا ہے؟ اگر وہ عینیت پسند ہے تو پھر قبل تجربی تصورات کو زیادہ اہمیت مل جاتی ہے۔ اگر وہ کانٹ کا ہم خیال عینیت پسند ہے تو پھر مظہری اور بالذات (NOUMENAL) نظریات کی بحث شروع ہو جاتی ہے، اگر وہ مادیت پسند ہے تو پھر عینیت پسندانہ دم چھلے تقریباً ختم ہو جاتے ہیں ، اور اگر ہم عینیت پسندی اور مابعدالطبیعات کے ساتھ ساتھ نتائجیت کے عمل داری کے خلاف ہیں تو پھر فلسفہ زبان مختلف ہوتا چلا جائے گا۔ دراصل ہر فلسفۂ زبان کے پس پشت ایک مخصوص نظریہ حیات کی عمل داری ہوتی ہے۔ اگر ہم اجزا کی قیمت پر ‘نشانیۂ زبان ’ (SIGN-LANGUAGE) استعمال کرنا چاہتے ہیں تو وہ روایت اور تہذیب کے خلاف یکسر بغاوت ہوگی۔ آجکل ہم ‘‘لا’’ کا ذکر بہت سنتے ہیںَ کچھ نئے ادیبوں کے لیے ‘‘لا’’ ایک ادبی منشور کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہ اپنی تمام تر ‘‘بزعم خود ترقی پسندی کے باوجود ایک نراجی اوررجعت پسند نقطہ نظر ہی کی وکالت کرتے ہیں۔ ’’

‘‘حقیقت یہ ہے کہ زبان ہر دور اور ہر زمانہ میں خیالات اور محسوسات کے اظہار کا وسیلہ رہی ہے۔ اسے SIGNSکا ایک سسٹم تسلیم کیا جائے یا اسما اور افعال کے ساتھ نحوی رشتہ کو ارتباط بخشنے کی سائنس، ہر حالت میں زبان انسانی رویہ کی ایک جھلک ہے، یا سوچ کا ایک انداز اور اس کی پیچیدگیاں سراسر انسانی ذہن کی پیچیدگیاں ہیں اور اس کی حدود بھی انسانی ذہن کی حدود ہیں لیکن ہر صورت میں زبان۔ خیال اور مواد کے ابلاغ کی پہلی سیڑھی ہے۔

زبان حقائق کا آئینہ ہے اور اس کے باوجود کہ حقائق منجمد لسانی سانچوں سے مجروح ہو سکتے ہیں لیکن حقیقی تخلیق کار کے لیے یہ مسلہ اس لیے اہم نہیں کہ وہ غریب الفاظ کو امیر اور مردہ الفاظ کو زندہ کرنا جانتا ہے۔ وہ بدلتے ہوئے حقائق کی اس طرح مرقع نگاری کرتا ہے کہ بین السطور کی خالی جگہ ‘پر ’نظر آتی ہے۔ زبان میں تبدیلی کا بڑا سبب زود حس لغت ہوتی ہے جو پیداواری رشتوں اور ثقافتی پھیلاو کی وجہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن صرف و نحو میں تبدیلی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو پھر ایک نئی زبان وجودمیں آنے کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ لیکن اب ہم کسی زبان کی پیدائش، ترقی اور پھیلاو کے متعلق صرف کلاسیکی طرز کے علما سے کبھی کبھار سن لیتے ہیں۔ اب اصلی معاملہ علمیات SEMANTICSبلکہ معنویات SEMIOLOGYکا رہ گیا ہے اور علم لسان کے سلسلہ میں سارے معرکے اس میدان میں سر کیے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ابلاغ کے سلسلہ میں اس قدر سائنسی و تکنیکی نظریات کارفرما نظر آتے ہیں کہ نفس مضمون سے زیادہ ادائیگی یا اظہار کا معاملہ تمام تر اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گسٹالٹ اور نسیجیت (STRUCTURALISM) کے نظریات کو کچھ حضرات سائنسی بلکہ ترقی پسندانہ تک خیال کر بیٹھتے ہیں جب کہ ونڈت WANDT ، DE SAUSSURE، اور CLAUDE LEVI-STRAUSSکے غیرترقی پسندانہ نقطہ ہائے نظر خود ان کی ان تحریروں سے عیاں ہیں جو ادب کی کتابوں سے زیادہ ابلاغ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، آج کل ان تمام نظریات کی محافظ ہے۔

خیر ابھی ہماری گفتگو میں وہ موڑ نہیں آیا جہاں یہ بحث پوری طرح چھیڑی جا سکے۔’’ (محمد علی صدیقی، لسانی مباحث، اونیسویں صدی تک مشمولہ اوراق ، ستمبر اکتوبر، 1975)

پس، محمد علی صدیقی کے اس مضمون میں ساختیات، سوسیئر، کلاڈ لیوی اسٹراس اردو قارئین کے لیے نہ صرف یہ کہ متعارف ہوئے بلکہ ساختیات پر ایک طویل بحث کی ابتدا کے سیاق میں زیرِ بحث بھی آگئے اور انہیں مسترد کرنے کا بھی آغاز اسی مضمون سے ہوا۔اس لیے، مذکورہ بالا اقتباسات سے قطعی واضح طور پر یہ معلوم ہوا کہ محمد علی صدیقی نے 1975 میں ہی محمد حسن عسکری سے کم از کم ایک ماہ پہلے ستمبر اکتوبر میں جدید لسانیات اور ساختیات پر تحریری بحث کی ابتدا کی جو1976میں اوراق کے دو مضامین میں اپنے انجام تک پہنچی۔ اس لحاظ سے سب سے پہلے خاتمہ کی کوشش کرنے والے کے معنوں میں کسی کو اگر خاتم کہا جانا چاہیے تو وہ عسکری کے بجائے ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی ہی ہیں۔ لیکن چونکہ محمد علی صدیقی سے پہلے اردو میں باقاعدہ کوئی ساختیاتی دبستان تھا ہی نہیں تو انہیں ساختیات کا خاتمہ کرنے والے کے معنوں میں خاتم کیسے کہا جا سکتا ہے؟ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ محمد علی صدیقی کو ساختیات کا بانی بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ انہوں نے بنا ڈالنے کے بجائے اس کو رد کر دیا ۔

غرض، اب تک یہ واضح ہو چکا کہ عسکری ساختیات یا اس کے نظامِ فکر یاساختیاتی ادبی تھیوری کے نہ بانی ہیں ، نہ خاتم۔ان کی حیثیت بس اسے مسترد کرنے والی ادبی شخصیت کی ٹھہرتی ہے جس کو اپنے استرداد میں اولیت و سبقت کا درجہ ہرگز حاصل نہیں الا یہ کہ ہمیں اس سلسلے میں عسکری کی کوئی دوسری تحریر دستیاب ہو جائے۔


2

اب دیکھا جائے کہ محمد علی صدیقی سے پہلے اردوکے علمی حلقوں میں سوسیئر ، لیوی اسٹراس، اور یا ساخت/ ساختیات نیز گوپی چند نارنگ سے پہلے وہ موضوعات جنہیں گوپی چند نارنگ نے نئی تھیوری اور اس کے متعلقات میں شامل کیا ہے ، کس حد تک زیربحث آئے تھے یا نہیں ،اور کن لکھنے والوں کے ہاں ان کے یا ان میں سے کسی ایک کے حوالے پائے جاتے ہیں؟ میں اپنی تحقیق کی حد تک سن وار پیچھے جاتے ہوئے ایسی تمام تحریروں اور ان کے مصنفوں کو لکھ کر ان میں سے ہر ایک تحریر سے اقتباسات پیش کروں گا۔(واضح رہے کہ میرا مقصد ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس قسم کے تمام مضامین کی فہرست سازی نہیں ہے )

1974: مضمون ‘‘زبان، خیال اور حقیقت ’’از محمد ذاکر

محمد ذاکر کا ایک مضمون بعنوان ‘‘زبان، خیال اور حقیقت ’’ ۱۹۷۴ میں رسالہ جامعہ دہلی کے ماہ اکتوبر میں شائع ہوا تھا۔ مصنف نے مضمون پر ایک نوٹ لگایا ہے جس کے مطابق ان کا یہ مضمون امریکی ماہر لسانیات بنجامن لی وورف کے تتبع میں لکھا گیا۔ وورف کے متعلق یہ بات معروف ہے کہ وہ ساختیاتی سلسلے کا ماہرِ لسانیات ہے۔ اس مضمون کی اہمیت اسی بات سے معلوم ہو سکتی ہے کہ ساختیاتی لسانیات کے جو نکات مبہم اور عسیرالفہم رہ جاتے ہیں ، وہ اس کے مطالعے سے بخوبی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔
‘‘۔۔۔ یہ خیال عام ہے کہ بات کر لینا ایک آزاد اور بے باک، نہایت سادہ سا عمل ہے۔ عالِم یہ بھی سمجھتا ہے کہ جیسے جیسے اس کے‘دل’ میں کچھ خیال ‘آتے’ ہیں وہ انہیں ظاہر کرنے کے لیے انہیں مناسب الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ گویا خیال فطری یا وہبی ہیں۔ بولنے سے پہلے اس کے دل میں وہی مخصوص خیال کیوں آتے ہیں؟ اس کا جواب اس کے پاس شاید صرف یہ ہوگا کہ اس وقت سماجی زندگی کا تقاضا ہی اس کا محرک ہوتا ہے حالانکہ اس سے اس سوال پر ۔۔۔ کہ مخصوص خیالات ہی کیوں آتے ہیں اور ان کے اظہار کے لیے وہ زبان کے مخصوص سانچے ہی کیوں استعمال کرتا ہے، کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ یہی نہیں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ اس کے‘خیال میں ’ اس کی سماجی ضرورتیں یہ جانے بغیر بھی اچھی طرح پوری ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گویا خیال کا ‘دل میں آنا’ ایک بدیہی اور سیدھا سادہ عمل ہے اور ‘زبان’ اس کا سیدھا سادہ اظہار ہے ۔ حالانکہ ‘فکر یا خیال کرنا’ انتہائی پراسرار بات ہے اور شاید اس پر مطالعہ زبان ہی کے ذریعے روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس مطالعہ کے ذریعے ہی ہم پر یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی شخص کے خیالات کچھ ایسے سخت اصول و قوانین کے سانچوں کے تابع ہوتے ہیں جن سے وہ خود بے خبر ہوتا ہے۔
یہ سانچے کیا ہیں؟ درحقیقت یہ اس کی اپنی زبان کے پیچیدہ اور اٹل نظام ہیں جو تمدنی زندگی کے باعث ‘وجود’ میں آتے ہیں۔ ہر شخص بہرحال کسی نہ کسی زبان ہی میں سوچتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبان کے مخصوص سانچے ہی کسی شخص کی شعوری کارکردگی (فکر و خیال) کی بنیاد ہوتے ہیں۔ مثلاًاردو میں آوازوں کی مخصوص ترترتیب کا کوئی بامعنی (!)مجموعہ جسے عرف عام میں لفظ کہا جاتا ہے، ان آوازوں سے شروع نہیں ہوتا جنہیں اردو والے ’ڑ‘ اور نون غنہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے محض اردو جاننے والا کوئی شخص ایسی بات نہ کہے گا ، نہ سوچے گا جس میں اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے اسے شروع میں ‘ڑ’ یا نون غنہ کی آواز برآمد کرنی پڑے۔ اسی طرح اردو میں کوئی لفظ تین ساکن حروف (یا ایک ساتھ تین مصمت آوازوں) سے شروع نہیں ہوتا۔ یہی وہ سانچے ہیں جو اس کے فکر و خیال کو محصور کیے رہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح اور اصول اور ضابطے فارمولوں کی شکل میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ کوئی جدت پسند سے جدت پسند اردو ادیب یا شاعر اپنے مافی الضمیر یا فکر و خیال کے اظہار کے لیے ان سانچوں سے باہر جا کر نہیں سوچ سکتا۔ گویا یہ زبان کے سانچے ہی ہیں جو فکر و خیال کی ظاہری شکل و صورت متعین کرتے ہیں۔ صفحہ 183-87

1971: طبع زاد مضمون: ‘‘تجوید اور صوتیات ’’ از حامد اللہ ندوی

یہ ایک مفصل عالمانہ مضمون ہے جو ترقی پسند نقاد آل احمد سرور کی ادارت میں نکلنے والے رسالے اردو ادب میں حامداللہ ندوی نے تجوید اور صوتیات کے عنوان سے لکھا تھا اور اس میں سوسیئر اور زبان کی ساخت (اسٹرکچر)اپنے نام کے ساتھ متعارف ہوئے تھے:
تقابلی لسانیات سے ان کی (اہل مغرب کی) مایوسی نے انہیں زبان (LANGUAGE) کی بجائے بولی (DIALECT) کو بنیاد بنا کر اک نیا تجربہ کرنے پر مجبور کر دیا اور ان کے مسلسل تجربات کے نتیجے میں توضیحی لسانیات (DISCRIPTIVE LINGUISTICS) وجود میں آئی، اس صنف لسانیات کی بنیاد تحریر (WRITING) اور معنی (MEANING) کے بجائے بول چال(SPEECH) اور ساخت (STRUCTURE) پر ہے اور اس میں ہر زبان کو اس کے معنی مطلب کا سہارا لئے بغیر محض اس کے اصوات، اس کے اجزا اور اس کے حصص کی مدد سے اس کے پورے نظام کا تعین کیا جاتا ہے، یورپ اور امریکہ میں اس توضیحی لسانیات کے پیشرو دی ساسور (DE SAUSSURE) دی کرتنے (DE COURTENAY) فرنز بواس (FRANZ BOAS) ولیم ڈوائٹ وھٹنے (WILLIAM DWIGHT WHITNY) ایڈورڈ ساپر (EDWARD SAPIR) لیونارڈ بلوم فیلڈ (LEVNARD BLOOMFIELD) اور ہیرس (HARRIS) وغیرہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کی تحریروں کو بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
توضیحی اور تقابلی دونوں قسم کی لسانیات کی تعبیر و تشریح کا سلسلہ یوروپ میں عموماً اور امریکہ میں خصوصاً آج بھی بڑے زور و شور سے جاری ہے اور ان کی نت نئی تفسیریں صبح شام سامنے آ رہی ہیں۔ کثرت تعبیر بعض اوقات خواب ہی کو پریشان کر دیتی ہے اس لئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ اس کی آخری صورت کیا ہوگی۔۔۔ (حامداللہ ندوی، تجوید اور صوتیات: ایک موازنہ، مشمولہ سہ ماہی اردو ادب،اڈیٹر آل احمد سرور، شمارہ نمبر ۳، ۱۹۷۱ عیسوی، صفحہ ۸۳)

1970: ترجمہ بعنوان ‘‘نظریہ اور تحریر ’’، اصل مصنف: لوسین گولڈ مان ، مترجم: نامعلوم
ترقی پسند نقاد محمد حسن کی ادارت میں نکلنے والے رسالہ عصری ادب کے پہلے شمارے میں بائیں بازو کے ردّتشکیلی نقاد لوسین گولڈ مین کی چودہ صفحات پر مشتمل ایک تحریر کا ترجمہ ‘‘نظریہ اور تحریر’’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں ساختیات کا ترجمہ تشکیلیت کیا گیا ہے اور لاکاں، فوکو، التھیوسے وغیرہ زیرِ بحث آئے ہیں۔ محمد حسن کا اپنے مذکورہ بالا رسالے میں لوسین گولڈمین کا ترجمہ شامل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ مارکسی تنقید کے نئے آفاق سے واقف تھے، اور یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچی کہ گوپی چند نارنگ نے اس معاملے میں سبقت نہیں کی تھی۔ یہاں اس ترجمے سے کچھ حصہ نقل کرنا دلچسپ ہوگا:
"ادبی تخلیق کا تصور تاریخ اور سماجیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سطح پر تشکیلیت کی دو اہم دریافتیں ہیں۔ ایک ماورائے انفرادیت (یااجتماعی) موضوع کا تصور، اور دوسرے تمام فکری عملی اور اہم حرکات کے تشکیلی کردار کا تصور۔

تشکیلیت نے آگے چل کر اس پر بھی زور دیا ہے کہ تمام انسانی اور غالباً حیوانی حرکات بھی اہم سماجی معنویت رکھتی ہیں۔ یعنی وہ کسی عملی مسئلہ کو حل کر نے کے لیے فلسفیانہ تصورات کی زبان میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ صفحہ ۹۵

تحلیل نفسی کے سلسلے میں نسلی تشکیلیت کی سماجیات نے فرائڈ سے بہت پہلے تین بنیادی تصورات کو قبول کیا اور ان کی توسیع کی:۔

(الف) ہر انسانی حقیقت معنویت رکھتی ہے۔

(ب) یہ معنویت اپنے کردار کی اضافی وحدتtotalityسے یا اجتماعی سانچے سے حاصل ہوتی ہے جو فرد اور ماورائے فرد کے امتیازات پر قائم ہیں اور (یہ بھی کہنا پڑتا ہے) کہ جزوی طور پر بھی تہذیبی عناصر کو محض فرد یا تاریخ کو محض سوانح اور خاص طور پرlibidoکے مطالعہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔

آخر میں اس غیرحیاتیاتی پیکریت non-geneticکے خلاف جو فرانسیسی فکر میں اب جگہ پاتا جا رہا ہے اور لیوی اسٹراس، بارتھس، گریماس، فوکولٹ، التھوزر، لاکان وغیرہ کے برخلاف حیاتیاتی تشکیلیت جو ایک مدت سے تاریخ کے سمجھنے کے لیے سلسلے میں سانچوں کی بنیادی اہمیت پر زور دیتی رہی ہے، اب ماورائے انفرادیت موضوع کی مدافعت کرتی ہے اور اس حقیقت پر اصرار کرتی ہے کہ ہر سانچہ ایک مستقل بالذات اور باعمل وحدت نہیں ہے جو انسان کو مقید کر لیتی ہو بلکہ ایک موضوع کے عمل کے بنیادی کردار ہوتا ہے(انفرادی لی بی ڈو یا ماورائے انفرادیت کردار) اور صرف یہی تخلیقی اور باعمل ہوتا ہے اور کچھ ہی کم زور اس بات پر دیتی ہے کہ کوئی انسانی عمل ان سانچوں کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا جو ان اعمال پر پوری طرح جاری و ز ہیں (زبان ، پیداوار کے باہمی رشتے، سماجی گروہ، تصور حیات وغیرہ) مگر یہ سانچے انسان کے ابتدائی praxisکا نتیجہ ہیں یعنی ایک موضوع کے praxisہیں اور اپنی باری آنے پر موجودہ praxisسے متاثر اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں جن کی یہ ایک ضروری خصوصیت اور جزو بن جاتے ہیں اور محض خارجی مواد نہیں رہتے۔حوالہ سابق ،99 تا100

اس ترجمہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ترقی پسند دانشور محمد حسن اسلام پسند نقاد محمد حسن عسکری اور محمد آرکون کی خط و کتابت سے تقریباً پانچ سال پہلے 1970میں ساختیات اور پس ساختیات کے مباحث اور ان کے ہنگاموں سے واقف ہو چکے تھے اوراسی کے پیش نظر مارکسیت اور ساختیات میں خلط کرنے والے نقاد لوسین گولڈمان کا ترجمہ اپنے رسالے میں شائع کیا۔

1970: رولاں بارت کی ایک تحریرکی تلخیص مشمولہ آڑے ترچھے آئینے(عصری ادب کا مستقل کالم ) از محمد حسن (ترقی پسند نقاد)
محمد حسن نے رولاں بارت کی ایک تحریر کی تلخیص بھی عصری ادب کے پہلے شمارے میں پیش کی تھی جو محمد حسن نے اپنے رسالے کے کالم آڑے ترچھے آئینے میں شامل کی گئی تھی:
"سائنس بنام ادب کے عنوان پر لکھتے ہوئے رولینڈ بارتھیس نے دونوں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے جس میں خاص طور پر زبان کی طرف دونوں کے رویے پر زور دیا ہے۔ سائنس کے لیے زبان محض ایک ذریعہ ہے جسے وہ زیادہ سے زیادہ شفاف اور غیرجانبدار (یا بے رنگ) بنانا چاہتا ہے تا کہ مافی الضمیر قطعی طور پر اور جذباتیت کی غیرضروری آلودگی یا آرایش کے بغیر ادا ہو جائے جب کہ ادب کے لیے زبان اس کی ہستی اس کی کائنات ہے یعنی ادب کے نفس مضمون کا تصور ہیئت سے الگ کر کے نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس زبان کی حکمرانی اورsovereigntyمطلقیت کا قائل نہیں بلکہ وہ اسے محض نفس مضمون سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس کا سارا حسن اور جادوگری انداز ِ بیان یعنی زبان ہی پر قائم ہے اور زبان میں بھی وہ جن الفاظ کو استعمال کرتا ہے ان کے محض لغوی معنوں پر قناعت نہیں کرتے بلکہ معنوں کی مختلف سطحیں ، جہتیں اور پرت پیدا کرتا ہے ، اس لیے ہیئت یا فارم کو الگ کر کے شاعری یا ادب کا کوئی وجود نہین رہ جاتا۔ بارتھیس کا یہ کہنا ہے کہ سائنس کے مختلف شعبے سماجیات، نفسیات، تحلیل نفسی، لسانیات وغیرہ آج جو کچھ دریافتیں کر ر ہے ہیں ادب میں وہ سب موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ادب نے ان کو بیان نہیں کیا ہے بلکہ اپنے میں سمو لیا ہے یعنی ادب بنا کر لکھا ہے اور اس لحاظ سے وہ ’’بیان‘‘ نہیں رہتا تجربہ بن جاتا ہے۔ وہ ادبی انداز بیان کے انبساط پر بھی بہت زور دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ ’’انبساط تسکین ذوق سے کہیں زیادہ وسیع اور معنویت سے معمور تجربہ ہےجس کی گہرائیوں کو ہنوز ناپا نہیں گیا ہے صرف بروک آرگ نے اس ادبی تجربے کی گہرائیوں تک پہنچنے کی تھوڑی بہت کوشش کیھ مگر اس کی رسائی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب انسان خالص ’’ادبی‘‘ زندگی گزارنے پر رضامند ہو۔ اس خالص ’’ادبی ‘‘ زندگی کا اشارہ بودلیر کے اس جملے کی طرف ہے جو اس نے اڈگر ایلن پو کی زندگی کے بارے میں کہا تھا۔ (عصری ادب، پہلا شمارہ، جنوری ۱۹۷۰)

1969 سے پہلے1، مضمون زبان کیا ہے؟ از عتیق احمد صدیقی ، ششماہی اردوئے معلی ، قدیم اردو نمبر
دہلی یونیورسیٹی کے شعبہ تحقیق کے رسالے اردوئے معلی کے قدیم اردو نمبر میں عتیق احمد صدیقی کے مضمون ‘‘بعنوان زبان کیا ہے ؟’’ میں زبان کے جدید تصور کی رو سے اس کی ساخت پر روشنی ڈالی گئی تھی اور ان میں کئی ایسے نکات زیربحث آئے تھے جنہیں آج اردو ادب کے ساختیاتی نقاد بڑے لطف کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ اس سے یہ غلط تاثر پڑتا ہے کہ اردو میں فلسفہ ٔ لسان کی جدید پیش رفتوں سے واقفیت کا نہ صرف یہ کہ فقدان ہے بلکہ اردو میں معنی کو لفظ میں منحصر سمجھا جاتا ہے۔

گوپی چند نارنگ ساختیات کے تعارف کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ‘‘جدید لسانیات دراصل ساختیاتی لسانیات ہے۔’’ اس لیے جدید لسانیات کے بنیادی اصولوں کو زیربحث لانے کے معنی ساختیات کے بالواسطہ تعارف کے ہوں گے۔گوپی چند نارنگ نے یہ فقرہ مناظر عاشق ہرگانوی سے اپنی گفتگو میں اس سیاق میں کہا کہ انہوں نے (یعنی نارنگ )لسانیات سے اسلوبیات اور ساختیات تک ایک طویل ذہنی سفر طے کیا ہے اور 1976میں محمد علی صدیقی کے ذریعے ساختیات کے تعارف سے بہت پہلے یعنی بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں انہوں نے ساختیاتی ادبی تنقید سے متعلق انگریزی اور اردو رسائل میں تحریریں شائع کرائی ہیں اور وہ ساختیات اور متعلقہ افکار و نظریات کو اپنے ذہن و شعور کا حصہ بناتے آرہے تھے۔

عتیق احمد صدیقی نے جن کتابوں کے مطالعے کے بعد انہوں نے ایسا جامع مضمون لکھا، ان میں یقیناً سوسیئر کا ذکر ہوگا نیزسوسیئر کا ذکر ان کتابوں میں بھی ہے جن کا ذکر انہوں نے کتابیات کی فہرست میں کیا ہے:

1. JOHN P. HUGHES: THE SCIENCE OF LANGUAGE

2. A. A. HILL: INTRODUCTION TO LINGUISTIC STRUCTURE

3. LOUIS GRAY: FOUNDATIONS OF LANGUAGE

4. W. M. URBAN: LANGUAGE AND REALITY

5. BLOCH & TRAGGER: OUTLINE OF LINGUISTIC ANALYSIS

6. C. F. HOCKETT: A COURSE IN MODERN LINGUISTICS

7. SAPIR: LANGUAGE

فہرست سے ظاہر ہے کہ عتیق احمد صدیقی ساختیاتی فلسفہ لسان سے نابلد نہ تھے۔ مضمون میں ساختیات کی کئی لسانیاتی بنیادوں کا ذکر ہے اور کئی رہ گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ زبان کیا ہے نہ کہ ساختیاتی فلسفہ لسان سے متعارف کرانا ہے۔ زبان کے سلسلے میں انہوں نے اپنے مقالے کی بحث کو چند نکات میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو درج ذیل ہے:
زبان (1) ترسیل خیالات کا ذریعہ ہے جسے (2) ایک سماج کے افراد استعمال کرتے ہیں؛ (3) یہ استعمال علامتوں کے ذریعے ہوتا ہے جو (4) صوتی ہوتی ہیں اور (5) خود اختیاری ہوتی ہیں نیز (6) یہ علامتیں ایک ضابطے میں مربوط ہوتی ہیں۔ ان نتائج کو یکجا کیا جائے تو زبان کی تعریف کا تعین یوں کیا جا سکتا ہے کہ زبان صوتی خوداختیاری علامتوں کا منظم مجموعہ ہوتی ہے جس سے کسی سماجی گروہ میں ترسیل خیال کا کام لیا جاتا ہے۔ (صفحہ 30) اوپر نکتہ نمبر 5 میں تلخیص کرتے ہوئے مصنف نے زبان کی علامتوں کے لیے 'خود اختیاری' کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن پہلے وہ اس کے لیے من مانا کا لفظ استعمال کر چکے ہیں: چونکہ علامتیں خود جزو شئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کا صرف صوتی اظہار ہوتی ہیں، اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان علامتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ یہ تعین کون کرتا ہے؟ اور کیا ان علامتوں اور اشیا میں کوئی باہمی ربط ہوتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ شے اور علامت کا کوئی منطقی یا معنوی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ نہ علامت میں اپنے معنی سے متعلق کوئی علامت پوشیدہ ہوتی ہے بلکہ استعمال عام سے علامت اور شئے میں خارجی تطبیق پیدا ہوتی ہے۔ ان علامتوں اور خارجی مظاہر سے ان کے تعلق کا احساس نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اور اہل زبان ان علامات اور ان کی خارجی تبطیق سے اس درجہ مانوس ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کو بالکل منطقی اور عقلی سمجھنے لگتے ہیں۔ مثلاً گحوڑا، سورج، کمرہ، میز وغیرہ علامات سے جو تصور ہمارے ذہن میں آیا ہے، وہ محض عرصہ دراز کے استعمال کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہے ورنہ اس کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی کہ کمرے کو گھوڑا میز کو کمرہ کیوں نہیں کہا جا سکتا۔ اگر علامت اور اس کے خارجی مظہر میں کوئی داخلی ربط ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ایک خاص چوپائے کو ہندوستان میں (اور ہندوستان کے بھی ایک خاص علاقے میں) کتا، ایران میں سگ، عرب میں کلب، انگلستان میں Dog، فرانس میں Chien اور زیکوسلوواکیہ میں Pes کہا جاتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اس وقت علامت اور معنی کا کوئی داخلی باہمی تعلق نہیں ہے لیکن ابتدا میں ضرور تعلق رہا ہوگا اور اشیا کی خصوصیات کے اعتبار سے یا ان کی کسی ھرکت مثلاً آواز وغیرہ کی نقل میں ہی ان کے لیے اشاراتی علامات مقرر کی گئی ہوں گی۔ لیکن اس خیال کا اطلاق معدودے چند علامات پر ہی ہو سکتا ہے اور ان میں بھی بعض مشابہتیں ہونے کے باوجود مکمل ہم آہنگی نہیں ہو سکتی۔ بالآخر اسی نتیجے پر پہنچنا ہوگا کہ آوازوں کی مخصوص ترتیب سے پیدا شدہ اکائیوں کے معنی کسی ایک جماعت یعنی سماجی گروہ کے اتفاق رائے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس میں کسی منطقی استدلال کو دخل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے پیچھے انسان کی خودمختاری اور من مانا انداز کارفرما ہوتا ہے۔ چونکہ یہ علامتیں خود اختیاری ہوتی ہیں، یعنی ان کے اندر خود کوئی معنی پوشیدہ نہیں ہوتے اور ان کی سماجی حیثیت بھی ہوتی ہے، اس لیے معاشرے کی نفسیاتی اور ذہنی تبدیلیاں ان پر اثرانداز ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے زبان کے ارتقائی عمل میں یہ بات عام ہے کہ امتداد زمانہ کے ساتھ علامت کا مفہوم بدل کر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ مثلاً لفظ رنڈی جو اٹھارویں صدی تک مطلقاً عورت کے لیے استعمال ہوتا تھا، اب بازاری عورت (طوائف) کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔صفحہ 27 تا 28

اب تک ہم علامات کو خود اختیاری اور من مانے طور پر استعمال کرنے کی بات کرتے رہے ہیں لیکن یہ من مانا انداز ضابطے اور قاعدے سے بے نیاز نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر زبان کا نظام بڑے ضابطوں کا پابند ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ نظام کسی ایک شخص کا ترتیب دیا ہوا نہیں ہوتا اور نہ کسی خاص وقت میں یک بہ یک وجود میں آ جاتا ہے، بلکہ سالہاسال کا استعمال اور رواج اس ضابطے کے وجود کا باعث ہوتا ہے اور اسی کے تحت زبان کے تمام اجزا کی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ ہر زبان میں یہ نظام تہہ در تہہ ہوتا ہے۔ بالعموم پہلی سطح آوازوں کی ترکیب و ترتیب ہوتی ہے یعنی چند آوازوں کو ملا کر بامعنی اکائیاں یا علامتیں بنائی جاتی ہیں اور زیادہ صحیح یہ کہ بن جاتی ہیں اور پھر ان اکائیوں کی ترتیب سے کسی پورے خیال کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ عرف عام پہلی ترتیب کو لفظ اور دوسری کو جملے سے تعبیر کرتے ہیں۔ لفظوں کی ساخت اور جملوں ان کی ترتیب مختلف زبانوں میں مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ہر زبان میں ترتیب کا یہ ڈھانچا متعین بھی ہوتا ہے۔ تعین کی صورت کسی خاص ترتیب کے بار بار دہرائے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح ایک نمونے کو دیکھ کر دوسرے مجموعے (جملے) تیار کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح جو سانچے تیار ہوتے ہیں ان میں متبادل اجزا کے استعمال سے زبان کا نظام بنتا ہے، اگر اردو میں یہ نامکمل جملہ کہا جائے:

لڑکا ۔۔۔۔ کتاب۔۔۔۔۔ ہے

تو خالی جگہوں کو متعدد اکائیوں (لفظوں) سے پر کیا جا سکتا ہے، مثلا:

لڑکا “اپنی” کتاب پڑھتا ہے

“ا مجھے “ دیتا “

“ نئی “ پسند کرتا “ وغیرہ۔

1968: ترجمہ بعنوان ‘‘لسانیات کی تاریخ پر ایک نظر ’’ مترجم: نیر اقبال ، اصل مصنف: فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر
قومی زبان کراچی کے فروری ۱۹۶۸ کے شمارے میں نیر اقبال نے فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی کتاب ‘‘عام لسانیات کا درس’’ کے تعارفی باب کا ترجمہ ایک مقالہ کی شکل میں شائع کرایا۔ ۱۹۶۸ وہ زمانہ تھا جبکہ مغرب میں ساختیاتی و پس ساختیاتی بحثوں کی گرم بازاری تھی۔ اس سے پہلے والے سال یعنی ۱۹۶۷ میں ہی ژاک دریدا کی تین کتابیں، آف گرمیٹولوجی، رائیٹنگ اینڈ ڈیفرینس اور اسپیچ اینڈ فینومینا شائع ہوئی تھیں ۔ اس پس منظر میں نیر اقبال کا قومی زبان میں ساختیاتی فلسفہ لسان کے اولین ماخذ کا ترجمہ کیا جانا اردو میں غیرمعمولی واقعہ ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نیر اقبال کی نظر ساختیاتی و پس ساختیاتی مباحث پر رہی ہوگی۔

1966-67، ہیئت اور مواد، مضمون از وجیہ الدین احمد ، مجلہ عثمانیہ، خصوصی اشاعت: مقالہ نمبر
وجیہ الدین احمد کا مضمون ‘‘ہیئت اور مواد’’ مجلہ عثمانیہ حیدرآباد کے مقالہ نمبر میں 1966-67 میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں ہیئت اور مواد سے متعلق بعض مشرقی اور مغربی تصورات زیربحث آئے ہیں اور ان میں روسی ہیئت پسندی پر بھی کسی قدر تفصیلی گفتگو پائی جاتی ہے۔ یہاں یہ بتانا غیرموزوں نہ ہوگا کہ گوپی چند نارنگ روسی ہیئت پرستی کو نئی تھیوری میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ساختیات سے متاثر ادبی تنقید کے اولین نقوش روسی ہیئت پسندوں کے یہاں ملتے ہیں اور ۱۹۱۵ سے ۱۹۳۳ تک ہیئت پسندی کی تحریک کو دبا دیا گیا، لیکن اس سے وابستہ بعض مصنفین ماسکو سے پراگ آئے اور پراگ اسکول آف لنگوئسٹکس کی بنیاد ڈالی ۔ ان میں رومن جیکب سن اور رینے ویلک خاص تھے جنہوں نے بعد میں بہت شہرت پائی۔ (مناظر عاشق ہرگانوی، گوپی چند نارنگ اور ادبی نظریہ سازی ،صفحہ ۱۹) نارنگ کے ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب وجیہ الدین احمد کے مذکورہ مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘۔۔۔ روسی ہیئت پرستی پر ایک نظر ڈالیں تو اس خیال کو مزید تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ روس کی تحریک Formalism مغرب میں شاید ہی معروف ہو کیونکہ روس ہی میں وہ کافی دبا دی گئی اور اس تحریک کا بنیادی متن مشکل ہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ انگریزی ادب میں VICTOR ELRICH کی تصنیف RUSSIAN FORMALISM سے اس تصور کے بنیادی نظریات کو ٹھیک طور سے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ روسیوں کے نزدیک ہیئت ایک نعرہ بن گیا ہے جس میں وہ سارے اجزا شامل ہیں جو کسی ادب پارہ کی تخلیق کے لیے لازمی ہیںَ روس کے ہیئت پرستوں نے ان پر کی گئی تصوراتی تنقید کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس تصور کی تردید کی کہ ہیئتیں ایسے پیمانے ہیں جن میں کوئی تیار شدہ مواد انڈیل دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے پیش رو اور بعد کے آنے والے کئی نقادوں کی طرح اس بات پر اصرار کیا ہے کہ ہیئت اور مواد کی وحدت ان کو ایک دوسرے سے ناقابل تقسیم کر دیتی ہے اور کسی ادبی تخلیق کے لسانی عناصر اور اس کے تصورات کے درمیان کوئی خط فاصل کھینچنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ جب مواد کا لفظ کہا جاتا ہے تو اس میں ہیئت کا تصور خود بخود شامل ہے ۔ مثال کے طور پر کسی ناول میں جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں وہ اس کے مواد کے اجزا ہیں لیکن ان واقعات کو پلاٹ کی تشکیل کے لیے جس طرح ترتیب دیا جاتا ہے وہ اس ناول کی ہیئت کا پہلو ہوتا ہے۔ اگر واقعات کی یہ ترتیب بگاڑ دی جائے تو پھر ناول کوئی جمالیاتی تصور پیدا نہیں کر سکے گا۔ خود زبان کی ایک جمالیاتی سطح ہوتی ہے جو ادبی تخلیق کی ہیئت کی ایک پرت ہوتی ہے ۔ جمالیاتی نقطہ نظر سے خود الفاظ کی انفرادیت متنوع ہوتی ہے جن میں خود ایک جمالیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ روس کے ہیئت پرستوں نے اس مسئلہ کے جو حل نکالے ہیں وہ کسی حد تک ناقص ہیں۔ ایک تو یہ انہوں نے ہیئت کی اصطلاح کو کچھ توسیع دے دی ہے اور بس۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیئت وہ ہے جو لسانی اظہار کو ادبی تخلیق کی شکل دے دے۔ چنانچہ وکٹر کہتا ہے ‘‘ہیئت پرستوں کا طریقہ تصورات کی تردید نہیں کرتانہ ہی آرٹ کے مواد کی تردید کرتا ہے بلکہ اس طریقہ میں نام نہاد مواد خود ہیئت کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے۔’’ وکٹر یہ تسلیم کرتا ہے کہ اگر ہم ہیئت سے جمالیات مراد لیں تو مواد کے سارے حقائق ہیئتی مظاہر کے طور پر ظاہر ہوں گے۔ اس بنیاد پر وہ کہتا ہے کہ محبت، غم، باطنی کشاکش، فلسفیانہ تصور وغیرہ شاعری میں یوں ہی نہیں ملتے، بلکہ وہ کسی ہیئت کے قالب میں ملتے ہیں۔ اس کی بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ آرٹسٹ کی لاپرواہی سے برآمد ہونے والے نتائج بتاتا ہے اور کہتاہے کہ :

‘‘کسی شاعر سے اس کے تصورات اور احساست کو وابستہ کرنا اتنا ہی بے معنی ہے جتنا کہ قرون وسطیٰ کے تماشائی کے نزدیک کسی اداکار کو اس بات پر سزا دینا واجبی ہو سکتا تھا کہ اس نے جیوڈا کا رول ادا کیا تھا۔ کسی شاعر کو نظریاتی اختلاف کے مقابلے میں اس سے زیادہ اہمیت کیوں دی جائے کہ ایک کے ہاتھ میں تلوار ہو اور دوسرے کے ہاتھ میں پستول’’۔

تصورات کی حیثیت کیانویس پر لگائے جانے والے رنگوں کی ہے جو بجائے خود مقصود نہیں ہوتے وہ ایک فنی کلیت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسے ہم ہیئت کہتے ہیں۔

عام طور پر روسی ہیئت نگاروں نے یہ دیکھا کہ محض اس حقیقت کا ادراک حاصل کر لینا کہ ہیئت ایک ایسی کیفیت ہے جو مواد کو پیے جاتی ہے کافی نہیں ہے انہوں نے اس کو ایک نئے اصول سے بدل دیا اس اصول کے تحت انہوں نے ایک طرف تو غیرفنکارانہ اور غیرجمالیاتی مواد کا فنکارانہ اصول سے مجموعی طور پر مقابلہ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس اصول کے تحت ‘‘طریقہ’’ ان کے یہاں کسی ادبی مطالعہ کا واحد حقیقی موضوع ہو سکتاہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہیئت کا تصور ادبی بیزاری یا تخلیقی مسائل کے میکانکی تصورات میں تحویل ہو کر رہ گیا۔ جس کا مطالعہ کسی تخلیق سے جدا طور پر بھی کیا جا سکتا تھا یا مربوط طور پر بھی روسی ہیئت پرست بالخصوص ابتدائی دور کے ہیئت پرستوں نے شاعری کی زبان کو ایک جدا اور خصوصی زبان قرار دیا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عام بول چال کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جسے وہ منظم انحراف کہتے تھے ان کے یہاں ہیئت کا تصور عناصر کے رابطوں کے مجموعہ اثرات سے بہت کچھ مشابہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا طریقہ کار اور ان کے اصول حد درجہ نازک و لطیف تھے لیکن یہ ہیئت کے قدیم روایتی تصورات کی طرف لوٹ آئے۔

جب روسی ہیئت پرستی پولینڈ اور چیکوسلوواکیہ پہنچی تو دو جنگوں کے درمیان کی مدت میں اس کا رابطہ جرمنی کی کلیت پسند روایت اور موضوعِ فکر میں فلسفیانہ بصیرت سے قائم ہوا۔ یہ کیفیت HUSSERL کی PHENOMENOLOGY یا پھر CASSIRMR کے علامتی ہیئتوں کے فلسفہ میں ملتی ہے۔ چیکوسلواکی FORMALISM کے بجائے STRUCTURALISM کی اصطلاح برتتے تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں ہیئت کی جگہ ساخت کا لفظ کسی ادبی تخلیق کی من حیث المجموع زیادہ ترجمانی کر سکتا تھا اور اس میں لفظ ہیئت کی نسبت خارجی تخئیل انگیزی کا عنصر نہایت کم ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہیئت کا مطالعہ محض ادبی اصولوں کی روشنی میں نہیں کیا جا سکتا ۔ ہیئت نہ تو نری حسیاتی کیفیت ہے نہ ہی نری لسانیاتی۔ کیونکہ یہ محرکات ‘‘موضوعات’’ کردار اور پلاٹ کی ایک دنیا سے عبارت ہوتی ہے۔ پولینڈ کے مظاہر پرست نے 1941 میں ایک زیادہ مربوط نظریہ پیش کیا جس کی رو سے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی ادبی تخلیق اگرچہ ایک کلیت ہوتی ہے لیکن یہ کلیت باہم مختلف طبقات سے ترکیب پاتی ہے۔ ادبی تخلیق کا یہ تصور دو خدشات کو دور کر دیتا ہے ایک تو کلیت کا وہ رجحان جو نامیاتی ہے اور جس میں ہیئت اور مواد کو جدا طور پر دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ دوسرا وہ رجحان جو اس کے عین برعکس ہے جس میں ادبی تخلیق کا سالماتی ٹکڑوں میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ادبی تخلیق میں طبقات کا یہ تصور رینے ویلک کے پاس بھی ملتا ہے جس میں ٹھیٹ تجزیہ کاری کو ترجیح دی گئی ہے اور کسی ادبی تخلیق کی کلیت سالمیت اور اس کی ہیئت و مواد کی وحدت میں بصیرت کے آگے ہتھیار ڈالنے سے روکا گیا ہے۔

ان مباحث کے بعد ایک بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ مغربی تنقید نگاروں نے ہیئت اور مواد پر بحث کرتے ہوئے ادب کی مقصدیت کو فراموش کیا ہے۔ کوئی مادی یا غیرمادی حقیقت کیوں نہ ہو اس کی کوئی شکل اور کوئی مواد کیوں نہ ہو جب تک اس کے مقصد اور اس کی قدر کا تعین نہ ہو اس کی ہیئت اور اس کا مواد دونوں غیراہم ہیں۔ کوئی ایسی شئے جو قدر ، مقصد یا افادیت سے عاری ہو ایک باعمل معاشرہ میں اس کا مقام مشکل سے عجائب خانہ میں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ رینے ویلک نے تنقیدی تصورات سے متعلق اپنی تصنیف CONCEPT OF CRITICISM میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۴۹ میں آسٹیس ویرن کے ساتھ اپنی مشترکہ تصنیف THEORY OF LITERATURE شائع کرتے وقت اس نے صرف متن کے تجزیہ پر زور دیا تھالیکن ہیئت اور مواد کے موضوع پر معاصرین کے خیالات کی چھان بین کے بعد ۱۹۶۴ تک وہ اقدار کی اہمیت کو محسوس کرنے لگا تھا۔ چنانچہ جدید ناقدین میں رینے ویلک وہ پہلا شخص ہے جس نے ہیئت اور مواد کے مسئلہ کو اقدار کی روشنی میں دیکھنا ضروری سمجھا۔ وہ کہتا ہے :

‘‘اب پھر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ادبی مطالعہ کا حق کسی ادبی تخلیق کی ساخت کے مکمل تجزیہ سے ادا نہیں ہوتا۔۔۔ ادبی تخلیق اقدار کی ایک ایسی کلیت ہوتی ہے جو محض اس کے ڈھانچے سے وابستہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے اہم عناصر اور اس کی معنویت کو تشکیل دیتی ہے۔ کسی ادبی تخلیق سے نظرانداز کرتے ہوئے اس کا مطالعہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اور یہ کوششیں ہمیشہ ناکام ہوں گی کیونکہ ادب کی روح وہ قدر ہے جو اس میں مضمر ہوتی ہے۔ ادبی مطالعہ کو اصول نقد سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اصول نقد اقدار کا محاسبہ کرتے ہیں۔’’

ادبی تنقید میں ہیئت اور مواد کے ساتھ قدر کا تعلق وہ حقیقی مسئلہ ہے جو ادب میں نظریات کی پذیرائی کے امکان اور طریقوں کو واضح کر سکتا ہے ۔’’ (صفحہ70 تا 73)۔
خاتمہ:

غرض اتنے سارے مواد کی موجودگی میں محمد حسن عسکری کے متعلق ناصربغدادی کا یہ دعوی کہ وہ ‘‘اردو ادب میں ساختیات کے موسس و بانی کار ’’ تھے اور انہیں ساختیات کے ‘‘خاتم’’ کا درجہ بھی حاصل ہے، صحیح نہیں ہے، خاص طور سے اس بنا پر کہ محمد علی صدیقی ساختیات پر اصولی، تنقیدی اور استردادی بحث کی ابتدا کرنے میں سبقت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بغدادی کا یہ دعوی بھی تحقیق کے بعد غلط ثابت ہوا کہ عسکری نے اپنے خط میں ساختیات پر جس وقت تنقید کی، اس وقت ‘‘اردو ادب میں ساختیات کا تعارف بھی نہیں ہوا تھا’’۔ واقعہ یہ ہے کہ عسکری اور صدیقی سے بھی پہلے اردو میں ساختیات، پس ساختیات اور دیگر متعلقہ افکار و نظریات سے واقفیت رکھنے والے موجود تھے، وہ کسی نہ کسی حد تک ان پرنظر رکھتے تھے، اپنی استطاعت بھر ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب سے اخذ واستفادہ اور ترجمہ کرتے یا مضامین لکھتے تھے، اور بعض کے ہاں ان پر ایک گونہ تنقید بھی پائی جاتی تھی گو اس میں استرداد کا رنگ نمایاں نہ ہواور وہ‘‘ برسبیل تذکرہ ’’قسم کی چیز ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساختیات کا ایک گونہ تعارف محمد علی صدیقی سے بھی پہلے1970 میں لوسین گولڈمان کی ایک تحریر کا ترجمہ بعنوان ‘‘نظریہ اور تحریر’’ میں ہو چکا تھاجسے محمد حسن نے اپنی ادارت میں نکلنے والے سہ ماہی عصری ادب میں شامل کیا تھا۔

آخر میں یہ وضاحت کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں جن مصنفوں کا ذکر میں نے کیا ہے، ان میں سے کسی کے متعلق میرا یہ دعوی نہیں ہے کہ اردو میں اسی نے سب سے پہلے ساختیات کی بنیاد رکھی یا اسے کسی بھی درجے میں سب سے پہلے متعارف کرایا۔ یہ ایک منصفانہ تحقیق کا موضوع ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ گزشتہ صدی میں شائع ہونے والے تمام رسائل و جرائد اور کتابوں میں ساختیات اور اس سے متعلق افکار پر شائع ہونے والے مواد کی ایک مکمل فہرست تیار کی جائے اور اس کے بعد ہی اس کا فیصلہ کیا جائے۔


1 اردوئے معلی کےقدیم اردو نمبر میں سن اشاعت درج نہیں ہے لیکن اس کے آخر میں غالب نمبر حصہ سوم کو زیرطبع بتایا گیاہے۔ غالب نمبر کی اشاعت فروری 1969 ہے۔

ہفتہ، 23 نومبر، 2013

تہذیبیں، نشأۃِ ثانیہ، ترجمہ



[اس تحریر کا مقصد ایک وسیع  تر سیاق  میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے ایک  روشن خیال اور ترقی پسند تصور کو سامنے لانا ہے۔ یہ ایک فکری مقالہ  ہے  اور تحقیقی  نقطۂ نظر سےاس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔ رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال کے الفاظ  کو ان کے مجرد معنوں میں استعمال کیا گیا  اوران کا تعلق کسی خاص مکتبِ فکر یا نظریے سے وابستہ افراد سے نہیں ہے۔ ]

مغربی تہذیب کے ہمہ جہت غلبہ و استیلاکے ردِّعمل میں جزیرہ نما ہند کی مختلف قوموں کےبنیادپرست روایتی یا ایک لفظ میں رجعت پسندذہنوں میں اپنی  تہذیبی جڑوں سے مراجعت  اور ان کی  مدافعت پر مبنی  بظاہر ایک  طاقتوراحیائی شعور پیدا ہوا ہے، اور  اسی  بنا پر  ان کے اندرسے  ایسی دینی، ثقافتی اور سیاسی  تحریکیں ظہور میں آئی ہیں جو  اپنی تہذیبوں  کے ‘سنہرے ماضی ’ کو ازسرنوِ  زندہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کی واقعی جستجو سے زیادہ اس کا رومانی تصور تہذیبوں کے رجعت پسند عناصر کو متحرک رکھتا ہے اور اسی کے زیرِ اثر وہ زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے مذہب اور تہذیب کے ایک‘مکمل نظام ِ حیات’یا‘طریقۂ  زندگی’ہونے کا دعویٰ‘پورے زور’کے ساتھ کرتے ہیں۔ فلسفیانہ، علمی اور سائنسی  سطح پر وہ اپنی مذہبی کتابوں کوپیش کرتے ہیں،اورتہذیبی،ثقافتی اوراخلاقی سطح پر وہ اپنی زبان، تاریخ،اساطیر اور رسوم و روایات اور شخصیات کو نوعِ انسانی کا ‘‘ آدرش ’’قرار دیتے  ہیں۔ان کی نظر میں دنیا کو بہتر بنانے کا طریقہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ ان کے ایجاد کردہ تہذیبی یا مذہبی ماڈل کو قبول کر لیا جائے جوتہذیب ِ جدید کے لیے  حیاتِ نو کا پیغام،امرت رس اور شفائے کاملہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ  ان کی تہذیبیں ماضی میں قوموں کی علمی اورفکری امامت کے منصب پر فائز رہ چکی ہیں ۔دنیا ان  کی  تہذیب  سے کسبِ فیض  کے بعد ہی علم  اور سائنس کے  اس مقام تک پہنچی ہے۔ دورِ جدید کی ایجادات و اکتشافات ان کے ذریعےقائم کردہ ابتدائی  تصورات اور  بتائی ہوئی راہوں پر چل کر ہی ممکن ہو ئی  ہیں۔ خاص طور سے اہل مغرب کو ماضی میں جو بصیرت انہوں نے  عطاکی  تھی اسی کی بدولت آج وہ  دنیاوی ترقی کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ لیکن مغربی تہذیب  نے  مادیت کی اندھی دوڑ میں ان  روحانی و اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ  دیا ہے جسے اپنے سنہرے دور میں  استادانہ حیثیت سے وہ خود برت رہی تھیں۔اس کے نتیجے میں دنیا ظلم و عدوان کی آماجگاہ بن گئی ہے، خشکی اور  تری میں فساد برپا ہو چکا ہے، اور وہ اخلاقی پستی کے قعرِ مذلت میں گری جا رہی ہے۔اب دنیا کی قوموں بالخصوص اقوامِ مغرب کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ان کے پیش کردہ   نظام حیات  اور فلسفہ ٔ زندگی  پر ایمان لے آئیں۔ اپنےایسے دعووں کو سچ کر دکھانے کے لیے سیاسی سطح پروہ اپنے ازلی  اور ابدی مذہبی  اورتہذیبی اصولوں کی بنیاد پر ایک مثالی اور طاقتورسیاسی نظام یا ریاست کا قیام عمل میں لانا چاہتی ہیں۔ اس غرض سے وہ اپنی قوموں کے افراد میں محبت، اخوت، یگانگت اور اتحاد واتفاق کی فضا پیدا کرتی ہیں اور انہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط بناتی ہیں، اور اپنے سنہرے ماضی  یا اس کے خیالی تصور سے متعلق یا متعلق  کردہ    مثالی شخصیتوں سے منسوب ایک مجموعہ ٔ اخلاق کو آدرش قرار دے کرانہیں اس کی پیروی کی نہ صرف ترغیب دیتی بلکہ  اس پر انتہاپسندانہ اصرار بھی کرتی ہیں۔

2
اس میں شک نہیں کہ احیائے دین و ثقافت کے نام پر ماضی بعید کی بعض معاصر تعبیروں کی شدت پسندانہ تکرار پر مبنی ایک رجعت پسندانہ خطاب  وجود میں آیا ہے جس سے  بین تہذیبی کشمکش اور مذہبی عدم رواداری کی فضا پروان چڑھی ہے، اور بنیاد پرستانہ اور انتہاپسندانہ افکار،خیالات ، تصورات اور لفظیات پر مبنی نشأۃِ ثانیہ کا ایک سطحی تصور  قائم  ہوا ہے جس  سے بے شمار افراد مذہب اور تہذیب کے حقیقی  فہم سے دور ہو کرمحض ایک سیاسی  وجود بن گئے ہیں۔
مذہبی اور تہذیبی احیاپرستی کی ایسی رجعت  پسندانہ خطابی مشقیں نشأۃِ ثانیہ  اور اس کے مترادف تصورات پرقابض و متصرف ہو  گئی ہیں اورتہذیبوں کے مابین مذہبی، تہذیبی اور اخلاقی تفوق و برتری کی ہوڑ پیدا کرکے نشأۃِ ثانیہ کے مسرت بخش  تصور کو دھندلا دیا ہے۔ اس سے معاشرے کے سلیم الفطرت ، انسان دوست، روشن خیال اور جدیدیت کے حامی دانشوروں اور عام لوگوں  میں مذہبی یا  تہذیبی  احیا  کا  ایک ناپسندیدہ تاثر  قائم ہوا، اوروہ عام طور پر نشأۃِ ثانیہ کے خطابی میدان سے کنارہ کش رہے اور رجعت  پسندرجحانات کے حامل ذہنوں   کو اس کا موقع  حاصل ہو گیا  کہ وہ  تہذیبوں کے احیائی شعور کو غلبہ، اقتدار،مذہبی حقانیت، اور تہذیبی  و اخلاقی برتری جیسی لفظیات  سے متعلق کر دیں۔اگرنشأۃِ ثانیہ کے اس بنیادپرستانہ تصور کی  بروقت ردتشکیل کے ذریعے اس کے خوش آئند پہلوؤں کو نہ پیش کیا گیاتو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ تہذیبیں لمبے عرصے تک تعقل پسندی اور سائنسی فکر سے محروم ہو کرباہمی کشمکش  میں مبتلا نو استعماریت کے جوئے سے بندھی ہوئی رہیں۔
تہذیبوں کے احیا یا نشأۃِ ثانیہ (Renaissance)  کا تعلق ماضی سے زیادہ  اس کے مستقبل سے ہے کیونکہ اُسی میں اِس دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونا ہے، اور اس کا تصور روایت پرستی کے  بجائے عقلیت ، تخلیقیت،  ندرت ، اور فکری و  فنی  ارتقا سے  وابستہ ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب کی طرح جزیرہ نما کی تہذیبیں بھی  اپنا منفرد اور  شاندار ماضی رکھتی ہیں،اور
تہذیبی احیا  کا مروجہ تصور خود ہی یہ واضح کر رہا ہے کہ انہیں   ایک نئی زندگی کی ضرورت ہے  جو زمانہ ٔ   حال میں تہذیب کا بیج بونےاور مستقبل میں اس کے شجرِ طیب ہو جانے سے عبارت ہے۔ بیج  جب مٹی میں داخل ہوتا ہے تو آب و ہوا اور ضروری معدنیات لینے کی غرض سے اپنے ظاہری  خول کو ہٹا دیتا ہے جو ایک طویل عرصے سے اس کے اندرونی حصے کی حفاظت کرتا آ رہا تھا۔تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کا سب سے مشکل مرحلہ تہذیب کے  بیج کو مٹی میں داخل کرنے کی ترقی پسندجرأت سے کام لینا ہے تاکہ بیج ایک شجرِ طیب ہونے کی غرض سے مردہ روایت  (Dead Habit)کے اس خول کو ہٹا دے جوکبھی حیات بخش عناصر کے تحفظ کے لیے تھا لیکن اب حیاتِ نو سے  مزاحمت کے نتیجے میں مصلحتِ فطرت کے عین مطابق اسے مٹ جانا ہے۔
 عصری آگہی اس حقیقت کے بروقت  ادراک  میں ہے کہ اب تہذیبی نشأۃِ ثانیہ کے خطابی میدان میں کون سی قوتیں آگے بڑھیں گی اور کون سی قوتیں بے دست و پا ہو کر اپنے بنیادپرستانہ  روایتی خول  میں از خود سمٹتی چلی جائیں گی (الا یہ کہ وہ فطرت کے عین مطابق عمل کر کے ازخود اپنی قلب ماہیئت کر لیں اور اس طرح  تہذیبوں کی نئی زندگی  کی تعمیر میں حصہ  لیں، مگریہ اسی صورت میں ممکن ہے  جب تہذیبوں کے رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال  عناصر میں ایک ہمہ گیر مکالمہ وجود میں آئے  اور باہمی تصادم کے بجائے تعاون کا فطری جذبہ ان پر غالب ہو اور وہ  پرامن بقائے باہم کے ایسے میکانزم تک پہنچ جائیں جس سے موجودہ اور آئندہ دنیا میں تہذیبوں کا صحیح رخ پر ارتقا ہو، بجائے اس کے کہ ان کے مابین مذہبی حقانیت، تہذیبی برتری  اورسیاسی  غلبہ و استیلا  جیسے تصورات پر  مبنی باطل اور فضول کشمکش ہو جس کے تلخ ثمرات نے ایک عرصے سے دنیا کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے)۔


3
رجعت پسندانہ خطاب میں تہذیب کو تعمیر و ترقی کے بامِ عروج تک پہنچانے کا وعدہ تو ہے  لیکن اس کا شعور نہیں کہ  تہذیب کو  مستقبل کے اس مقام تک کیسے پہنچایا جائے کیونکہ وہ مغربی تہذیب کے ہمہ گیر غلبہ و استیلا کے ردِّعمل میں، اور حال کی ضرورتوں  اور مستقبل کے سنہرے خوابوں کے مدِّنظر صرف ماضی بعید کے احیا کی مدافعانہ  تکرار سے  وجود میں آئی ہیں، اسی لیے وہ زمانہ ٔ حال میں حرکت  وعمل کے اپنے تمام تر دعووں کے باوجودانسانی ذہن کو مستقبل کی تعمیر کی جرأت عطا نہیں کر سکتیں۔   ایسا لگتا ہے کہ ان کا وظیفہ بس یہیں تک تھا کہ وہ ایک خاص مدت تک تہذیب کے بیج کی حفاظت کریں تاکہ اُس کے اندر موجود عنصرِ حیات کو گزند نہ پہنچے۔ ان کے مدافعانہ اسالیب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اب تک کی  ساری تگ و دو ایک قومی  و ملی احساس پیدا کرنے تک محدود تھی ، جو انسانی فطرت میں بالفعل پائی جاتی ہے ، اور اسے ضرورت سے زیادہ پیدا کرنا کھانے میں نمک کی زیادتی ہے۔
رجعت پسندفکر کے زیرِ اثر کارفرما قوتیں  تہذیب کی تعمیرِ نو کے نام پر  جدیدطریق ہائے کار اور عصری اسالیب کو اختیار کرنے کی ظاہرداری میں مبتلا ہیں ، اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنے کی تعلیم دیتی  ہیں   حالانکہ اصل مسئلہ ان سے مطابقت کا نہیں بلکہ ان کی تخلیقِ نو کا ہے، اصل مسئلہ موسیقی کی پرانی دھن بجانا، یا جدید اور عصری تقاضوں سے مرعوب ہو کر نئی دھنوں کی کامیاب نقالی کرنا نہیں بلکہ بذات خود نئی دھنوں کی تخلیق کے پورے ایک  سلسلے  کو وجود میں لانا ہے۔نشأۃِ ثانیہ کا روشن خیال  اور ترقی پسند تصورازکارِ رفتہ کو کارتجدید کے پروسیس سے بدل دینے ، پرانی تہذیبوں کے بطون سے  نئی تہذیبوں  کو برامد کرنے  کے  تاریخی عمل سے متعلق ہےجن کے افراد‘حریت ِ فکر و ضمیر’ کی نعمت سے مالامال ہو کر‘ عمل و خیال’  کی نئی طرحیں ڈالتے ہیں۔
 نشأۃِ ثانیہ کے انسان دوست، روشن خیال اور ترقی پسندجہتوں پر مبنی  تصور کے زیرِ اثر تہذیبوں کی تشکیل نئی طرز پر تو ہوگی لیکن ان کا اپنے ماضی سے اسی طرح رشتہ برقرار رہے گاجس طرح ہر بعد والی نسل کا پہلے والی نسل سے ہوتا ہے۔نشأۃِ ثانیہ تہذیبوں کے ارتقائی پروسیس کا ایک حصہ ہے جس میں روایتی نمونوں کی بعض غیرضروری  سیاقی  ہیئتیں تہذیب کے بے شکل اور خام  اخلاقی مادوں پر سے اپنی پکڑ چھوڑ دیتی ہیں اور  اقتضائے زمانہ کے سبب  ان کی جگہ نئی سیاقی ہیئتوں کی تخلیق کی ضرورت ہوتی ہے ۔  رجعت پسند ذہن کی بصارت چونکہ ظاہربیں ہے  اس لیے وہ فکر و عمل کی متعدد  قدیم اور روایتی  نمونوں کی سیاقی  ہیئت کو ہی ازلی و ابدی  خیال کرتا ہے اور بدلے ہوئے حالات میں ان پر اصرار  کرکے اپنی ہی روایت میں پنہاں اخلاقی مادے کی آفاقیت کو  کھو دیتا ہے۔چونکہ وہ ماضی کی  سیاقی ہیئتوں  سے جذباتی لگاؤ رکھتا ہے، ان سے اپنی پہچان متعین کرتا ہے ، اور ان کے خاتمے کو اپنی پہچان کا خاتمہ سمجھتا ہے، اسی لیے ان سے متعلق معاملوں میں  وہ اپنے لیے  ایک موزوں ہیئت کی تخلیق نہیں کر پاتا ۔ حالانکہ پرانی   ہیئت کی اسپرٹ اور مقصد کو ملحوظ رکھ کر نئی ہیئت کی تخلیق سے تہذیب کی نئی پہچان قائم ہو جاتی ہے۔
رجعت پسندی بنیادی طور پر  مذہبی فکر میں ارتقا نہ ہونے کے سبب پیدا ہوتی  ہے۔مذہب اپنی فکری جہت میں فلسفیانہ اور سائنسی علوم سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اور اسی کے نتیجے میں دونوں میں تصادم کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مذہب معاشرے  کے  انفرادی و اجتماعی وجود کی اساسی طرز اور تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے ایک ضروری حوالہ ہے۔ مذہب کے بغیر عوام زندگی کو بے معنی خیال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے بغیر بھی زندگی لایعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس اعتبارسے تہذیبوں میں کوئی ارتقایافتہ مذہبی فکر وجود میں آنی چاہیے جو فلسفیانہ اور سائنسی علوم سے متصادم ہونے کے بجائے  ان کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں  ان راہوں پر چلنے دے جسے  وہ خود اپنے لیے منتخب کریں۔
مذہبی فکر میں ارتقا نہ ہونے سے تہذیبوں کے نشأۃِ ثانیہ کی تھیم متاثر ہوتی ہے اوراس کا  رجعت پسندانہ تصور جامد مذہبی  افکار کو اپنے حق میں استعمال کرنے لگتا ہے۔ پھر اس کے بعد  انسانی ذہن ایسے نمونوں کی تخلیق نہیں کر سکتا جو اپنی نوعیت میں انوکھی، عدیم المثال اورعالمی اثرات کی حامل ہو جس میں بہ یک وقت مقامیت اور آفاقیت  کا ایسا فطری  امتزاج ہو جس سے تمام نوعِ انسانی یکساں طور پر فائدہ اٹھاسکتی ہو۔ نشأۃِ ثانیہ کی ماضی پرستانہ  خطابی مشقوں نے روایت  کے  مذہبی اور ثقافتی طرزوں  کے ظاہری پہلوؤں پراس حدتک زور دیا ہے کہ روایتی زندگی سے تخلیقیت اور ندرت کے جذبے خارج ہو گئے ہیں۔اس سے رجعت پسند حلقوں میں جمالیاتی خلا پیدا ہوا ہے جس کو وہ ماضی کے کھنڈروں کی یاد سے پرکرنے کی کوششوں میں لگے  ہیں  یا اپنی مقامی ضرورتوں کے مدنظر مغربی نمونوں سے ظاہری مطابقت بٹھانے میں مصروف ہیں۔ یعنی روایت قدیم ہو یا جدید،  ہر معاملے میں  وہ مغز کے بجائے پوست سے مشابہت  کو تہذیب کی نئی  زندگی خیال کرتے ہیں اور عوام الناس سے اپنے اس طرزِ فکر کی پابندی کرانا چاہتے ہیں۔ عام آبادی چونکہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے متعارف ہو چکی ہے، اور دنیا بڑی حد تک عالمی گاوں میں بدل کر آفاقی قدروں کی جستجو کر رہی ہے، اس لیے  بعید نہیں ہے کہ ایک خاص دور میں متعددسنہرے  ماضیوں  کی شدت پسندانہ تکرار پر مبنی خطابوں کے یہ سلسلے  تہذیبوں کے کسی تصادم کو وجود میں لانے سے پہلے خود ہی  فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔دنیا کی ہر تہذیب کا ایک سنہرا ماضی  ہے جس سے ساری دنیا واقف ہے۔ اس کی تکرار کے معنی اس کے سوا کچھ  نہیں ہیں کہ  ہم ایک ماضی کو  دوسرے ماضیوں پر غالب کرنے کی سیاست کررہے ہیں۔ اور مابعد جدید دور میں نئی نسلیں اس تہذیبی سیاست کو تسلیم کر لیں اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
عالمی سطح پر عقل پرست ملاحدہ مذہبی اور تہذیبی سیاست کے تلخ  ثمرات کی طرف اشارہ کر کے اب سرے سے  روایتی مذاہب کو ہی  رخصت کر دینا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ان کی  فکری وعملی قوت سے صرف نظرکرلینا  اور اس قسم کی باتیں کہ ساری دنیا میں  ایک ‘‘ہمارے ’’ہی مذہب  اور اس کی تہذیب و ثقافت کا احیاہو رہا ہے ، خوش گپیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی مذہب یا تہذیب و ثقافت کے احیا کے ساتھ ہی اب لامذہبیت  اور الحاد کا بھی علمی ، فکری اور سائنسی سطح پر  زبردست  احیا ہو رہا ہے اور سیکولر دنیا میں ہم ان  ملاحدہ  کو بہ نظرِ تحقیر نہیں دیکھ سکتے جو خود کو کسی مذہب یا خدا  سے منسوب نہیں کرنا چاہتے۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بچشم سر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح وہ مذہبی کشمکش کے برے نتائج پر انگشت نمائی کرکے بالذات مذہب  کے خلاف  رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان سے مذہب کے حق میں بحث تو جاری رکھی جا سکتی ہے لیکن منطقی  و استدالالی پیراڈائم میں  ان کے نظریات کو بہ آسانی خارج نہیں کیا جا سکتا۔ پھر جس قسم کی بحث ملاحدہ سے ہوتی ہے اسی قسم کی‘‘ حقانی’’ بحثیں مذہبی لوگ آپس میں کرتے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مذہب اپنی جماعت  کی تعداد بڑھانے پر مبنی ایک مسلکی دعوت ، دوسروں کے دینی  نقطۂ نظر کو ہمیشہ غلط سمجھنے کی فکری ادعائیت اور جمہوری  قوت  کے زور پراپنا مذہبی نظام قائم کرنے  کی سیاسی تحکمیت کا شکار ہو کر اپنی حقیقی روح کھو دیتا ہے۔
 مذہبی حقانیت پر مبنی بحثوں کے آخری معنی یہی ہیں  کہ  صرف ہم  صحیح ہیں اس لیے  ہم ہی غالب رہیں گے اور دنیا کے وسائل و ذرائع پر ایک چھتر راج کریں گے۔ انسان سلیم الفطرت بھی  واقع ہوا ہے اور  مذہب  اور تہذیب  کوحقانیت  اور برتری کی ادعائیت پسندانہ بحثوں سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا۔ مذہبی صداقت ایک لطیف شئے ہے جو قلوب میں رفتہ رفتہ ہی سرایت کرتی ہے  لیکن رجعت پسند فکر اپنے عزائم کے حق میں قلوب کو‘‘ مسخر ’’کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی مخصوص زبان اور اس میں مستعمل لفظیات  کے سہارے عوام الناس  کو بہکا کر ان سےمذہب اور زندگی کا شعور چھین لیتی ہے۔اپنی تنگ دامانی  کے سبب مغربی نظامِ حیات  کا  کوئی متبادل پیش کرنا نہ اس کے بس میں کبھی رہا ہے اور نہ  وہ کبھی پیش کر سکتی  ہے۔ پھر یقینی ہے کہ مذہب اور تہذیب کی رجعت پسندانہ تعبیروں کی اس بے تکان تکرار کے ردعمل میں معاشرے کے ذہین افراداسی مغربی اخلاق کو اپناتے چلے جائیں جس سے بچنے کی انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔  ان کے  مذہبی تصور میں پیدا ہونے والے اس فسادکی ذمہ داری اسی رجعت پسند فکر پرعائد  کی جائے گی کیونکہ اسی  نے مردہ روایت(Dead Habits)  پر زور دے کر بے شمار افرادِ قوم کو بالذات  اپنے مذہب اور تہذیب سے متنفر کر دیا۔
حق، مذہب، تہذیب اور ان  کی بازیافت یا  احیاجیسی چیزوں کو غلبہ، اقتدار، تمکن فی الارض ، شکتی کےحصول جیسے تصورات سے متعلق کرنے سے جو آئیڈیالوجی تشکیل پاتی ہے اس میں سے انسان دوستی اور وسیع المشربی کا جذبہ نکل جاتا ہے ۔انہیں اسباب کی بنا پر وثوق سے کہا جا سکتا کہ بعض تہذیبوں میں تو بہت جلد، اور بعض میں ذرا دیر سے ان  آئیڈیالوجیوں کی بنا پر تشکیل پانے والا خطاب کمزور پڑجائے گا ۔

4
جزیرہ نما کی قومیں جن مذہبی اور تہذیبی  بنیادوں پر قائم ہیں، ان سے رجوع کرناتحصیل حاصل ہے۔ ماضی کی یہ بنیادیں ان کے ساتھ باالفعل چلی آئی  ہیں، اور اب احیائی مصالح  کے پیش نظر روایت میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنے کا سوال ہےجو ایک پیچیدہ اور متنازعہ کام ہے ، البتہ یہ ضرور دیکھتے رہنا  ہو گا کہ ماضی کے فکری ورثے میں وہ کیا  بصیرتیں پنہاں  ہیں جو چھوٹ گئی ہیں، اور اُس دور میں  ان بصیرتوں کے حصول کا وہ کیا طریقہ ٔ  کار تھا جس کی بدولت بزرگوں کا ماضی اس قدر شاندار اور تابناک  تھا۔  اس کے معنی یہ ہرگز  نہیں ہوں گے کہ کسی ایک تہذیب سے متعلق افکارِ ماضیہ کی گردان کی جاتی رہے کیونکہ احیائی شعور کے قوانین اس تعصب کی نفی کرتے ہیں۔
ماضی کی گمشدہ بصیرتوں اور ماضی کے طریقہ ہائے کار کی تحقیق کے ساتھ ہی ہمیں زمانہ ٔ موجودہ کی  ترقی یافتہ قوموں کے فکری سرمائے سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا۔پچھلے ڈیڑھ ہزار سالوں کی مستند  تاریخ  سے معلوم ہوتا ہے  کہ اپنے عروج کے ابتدائی مرحلے میں ترقی یافتہ تہذیبیں  دنیا کی دیگر تہذیبوں اور قوموں کے فلسفیانہ اور سائنسی سرمائے سے استفادہ  کرنے میں مذہبی یا تہذیبی عصبیت کا شکار نہیں ہوئی ہیں۔ اور انہوں نے اپنے دور کےسائنسی افکار و نظریات کا  بڑے پیمانے پر  ترجمہ کر کے اپنی زبانوں کو علمی اعتبار سے اس حد تک زرخیز بنا دیا ہے  کہ کچھ ہی عرصے بعد  ان کے ہاں عظیم خلاق فلاسفہ  اور دیگر  عباقرۂ روزگار شخصیتوں کےسلسلے ظہور میں آنے لگے  ہیں جو قومی و ملی  زندگی میں نئی روح پھونک کر اس کی کایاپلٹ کردیتے ہیں۔
ماضی کی اسلامی اور موجودہ مغربی دنیا کے علمی عروج کے پیچھے ترجموں کی صدہا سال تک چلنے والی سرگرمیاں اور تحریکیں رہی ہیں۔ مغرب میں پندرہویں صدی کی نشأۃِ ثانیہ اور سترہویں صدی کی سائنسی ترقیات سے پہلے بارہویں صدی کی نشأۃِ ثانیہ کا پورا دور ترجموں کے لیے ہی مشہور ہے۔حالانکہ بارہویں صدی سے پہلے بھی آٹھویں  سے نویں صدی (کیرولنگی نشأۃِ ثانیہ) اور دسویں صدی( اوٹونین نشأۃِ ثانیہ) میں نشأۃِ ثانیہ کے دو ادوار ملتے ہیں جس کی نوعیت  مذہبی تھی  لیکن عہدِ وسطیٰ اور دورِ جدید تک مغربی نشاۃِ ثانیہ کے صدہا سال پر محیط تاریخی عمل میں ترجموں  کا دور نہ آیا ہوتا تو مغربی دنیا کا فکری و علمی  ترقی کے اس درجے کو پہنچنا ممکن نہیں تھا۔
صحیح الفکر احیائی شعور کا ترجمہ سے گہرا تعلق ہے۔ ہندوستان  میں  جب کبھی اس شعور کی لو تیز ہوئی ، ترجمہ کی چھوٹی بڑی تحریکیں  پیدا ہوئیں اور تعلیم یافتہ طبقے کے خواص نےجدید افکار و نظریات میں دلچسپی لی ۔ لیکن مذہبی غلبہ کے حصول پر مبنی خطاب کےاثر  سے احیائی شعور کی رو بہک کر تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہو گئی ۔ جب تمام آدرش ، معیار، مثالیں، نمونے، نظریے ، فلسفے، صرف  اپنے  ہی یہاں ہیں، اوردنیا  بھر میں جو کچھ ہے وہ صرف ہمارا  دیا ہوا  ہے، تو پھرمغرب سے  علوم و افکار کی تیزرفتار منتقلی پراجتماعی  توجہ بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ تہذیبی نرگسیت  پر مبنی اس رجعت پسندانہ خطاب سے  صحت مند احیائی شعور متاثر ہوا اور مغربی زبانوں سے ترجمہ کی ضرورت کے  عام دانشورانہ احساس میں کمی آئی اور جن ذہنوں کو مغربی فکر وفلسفہ  کی تحصیل و ترجمہ  کے ذریعے اپنی فکری صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کرنا تھا، وہ  عقائدی  برتری کی بحثوں،ساری دنیا کی اخروی فلاح اور فکری رہنمائی  کے ٹھیکے پر مبنی پروگراموں،  مذہبی  دعوتوں، میٹنگوں،جلسوں، جلوسوں اور  دیگر غیراہم سرگرمیوں میں کام آگئیں۔ مذہبی اور تہذیبی شعور پیدا کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بے شمارسعید روحوں میں مذہبی اور تہذیبی ادعائیت پسندی پیدا کر کے انہیں  سخت جھگڑالوبنا دیا جائے۔

5
مغربی استعمار سےآزادی کے بعد ترجمہ کے میدان میں انفرادی و اجتماعی سطح پر  جتنی تیزی سے پیش قدمی ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہو سکی۔ورنہ اب تک مغربی زبانوں سے  اتنا کچھ ترجمہ ہو چکا ہوتا کہ  عام آبادی کا ذریعہ ٔ تعلیم انگریزی کے بجائے ملکی  زبانیں ہوتیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ  ،ملکی زبانوں میں اعلیٰ تعلیم  اب بھی بڑی حد تک ایک خواب ہی ہے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم مادری زبانوں میں ہو اور اعلیٰ تعلیم انگریزی میں، اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ انتہائی مہلک ہیں۔ چین میں ترجمے کی ناگزیر اہمیت کو محسوس کیا گیا ہے اور ہر سطح پربڑی کامیابی سے چینی زبان کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ  بنا لیا گیا۔ چین کو حاصل ہونے والی بے پناہ ترقیوں کا یہ بھی ایک بنیادی سبب ہے۔
تہذیبی احیا کے تاریخی عمل میں ترجماتی مرحلہ کے بغیرعلمی نشأۃِ ثانیہ کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی اب بھی  طبقہ ٔ اشرافیہ کے خواص کی  زبان ہے اور اس کو ہندوستان  میں وہ حیثیت حاصل نہیں ہے کہ عام آبادی کے  طلبہ اس میں علمی ثقاہت کے معیارِ مطلوب کو حاصل کر سکیں کجا یہ کہ اس میں وہ صلاحیت بہم پہنچائیں جو فکر و فلسفہ اور تخلیق و تنقید  کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔ یہ خیال  بھی صحیح نہیں  ہے کہ انگریزی میں افکار و نظریات کا مطالعہ کرنا اور ملکی زبانوں میں تاریخ ساز فکری  کارنامہ انجام دینا ممکن ہے۔ کسی زبان میں کوئی بڑا فلسفیانہ کارنامہ اس میں موجود دیگر بڑے فلسفیانہ کارناموں کے مثبت یا منفی ردعمل کے طور پر وجود میں آتا، اس سے ماخوذ و متاثر ہوتا ہے۔ ترجمہ کے ذریعےایک زبان میں اہم  فلسفیانہ متون کی فراہمی سے ایک مفکر  کو وہ  مستند  بنیادیں مل جاتی ہیں جن سے اتفاق، اختلاف یا انحراف کرتے ہوئے وہ اپنا فلسفہ لکھتا ہے۔انگریزی   میں  فلسفہ   پڑھ کرکسی  غیر ترقی یافتہ ملکی زبان  جس میں فلسفہ کی روایت بے حد کمزور ہو،  کسی نئے فلسفیانہ موضوع پر کوئی  کتاب لکھنا اول تو بہت مشکل  ہے،  دوسرے یہ کہ ان سے  یہ توقع نہیں کی جا سک-تی کہ وہ  دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کرمشرق و مغرب کے دارالعلوموں اور اکادمیوں میں اس حد تک مقبول ہو جائے گی کہ  لوگ اس میں  پیش  کردہ خیالات و تصورات کو استعمال میں لائیں گے۔کسی زبان کے فلسفیانہ متون کا یہ استقبال اسی صورت میں ممکن ہے جب  وہ  انتہائی ترقی یافتہ ہو، اور اس میں لفظیات و اصطلاحات متعینہ معنوں میں مستعمل ہوں، اور اس میں فلسفہ کی ایک مضبوط روایت قائم ہو جو دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے ہم پلہ ہو، اوراس کے  اپنے قارئین سمجھ سکتے ہوں کہ اس میں کیا بات کہی جا رہی ہے تا کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوں، اور وہ کتاب پہلے اپنے یہاں بحث کا موضوع بنے۔  یہی وہ اسباب ہیں کہ  اردو جیسی زبان میں ساختیات و پس ساختیات پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو بہت سے لوگ ، بلکہ بڑی  علمی و ادبی شخصیتیں بھی چیستان کہہ کر خارج کرتی رہی ہیں۔ ترجمہ کے مرحلے سے گزرے بغیر ملکی زبانوں میں  معاصر یا تازہ مغربی  افکار و نظریات پر تعارفی نوعیت کی تحریریں لکھنے سے آگے بڑھ کر اس پر تنقید کرنے یا اس کی بنیاد پر کوئی مکتبِ فکر قائم کرنے یا علمی  و ادبی  تحریک چلانے کا بہت دور تک کوئی فائدہ  سمجھ میں نہیں آتا بلکہ اس سے زیادہ تر غلط فہمی پھیلتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وسیع پیمانے پر مغربی فلسفہ کے ترجمے کے بغیر جدید فکری ترقیات سے متعلق جو کچھ کہا جائے گا،ملکی زبانوں میں ان سے متعلق بنیادی کتابوں کی عدم موجودگی میں  عام قارئین کے لیے وہ  چیستان ہی ثابت ہوگا ۔ بنیادی ماخذتک رسائی نہ ہونے کے سبب  ملکی زبانوں کے قارئین ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے لیکن فکر و نظر کی گتھیاں نہ سلجھ سکیں گی ۔ جدید نظریات پر طبع زاد کتابیں لکھنا ،  ملکی زبانوں میں کچھ نہ ہونے سے تو ضرور بہتر ہے لیکن وہ ترجمہ کا بدل نہیں  ہو سکتی ہیں۔ ترجمہ  کے صحیح  معنی یہ ہیں کہ مترجم ایک بڑے  مصنف کو اپنی زبان میں لے آیا ہے اور وہ اس کے وجود کا حصہ ہو گیا ہے، اور اب اس زبان کے قارئین شرح صدر کے ساتھ اس کے خیالات پر بحث کر سکتے ہیں، انہیں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی بنیاد پر تنقیدی، تاثراتی، تخلیقی ، اور تحقیقی نوعیت کے نئے کارنامے بھی انجام دیں گے  اور اس طرح ایک ساتھ متعدد فکری روایتیں  ترجمہ کی بدولت  قائم ہوجائیں گی۔
ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قومیں ترجمہ کے صحیح مفہوم کو سمجھتی ہیں ، وہ اس بات پر نظر رکھتی ہیں کہ کہاں کس پیمانے پر ترجمہ ہو رہا ہے ، اس کے کیا اثرات پڑ رہے ہیں، اور وہاں فکرو فلسفہ کی  ترقی کس  درجہ ہو سکی ہے، اور کہاں سے ترجمہ کے ذریعے  فکر و علم کو اپنے ہاں منتقل کرنا ہے۔ کسی زبان میں فلسفہ کی ترقی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں  اُس زبان سے فلسفیانہ متن کا  ترجمہ ناگزیر ہوجائے۔ جیسے آج اردو میں مغربی زبانوں کے  شہرۂ آفاق متون کے  ترجمے ناگزیر ہیں۔ یہی وہ معیار ہے جس سے  کسی زبان اور اس کے بولنے والوں کے فکری ارتقا کا پیمانہ متعین ہوتا ہے ۔فکری کارنامے کا معیار یہ نہیں ہے کہ ہم خود ایک فکری  کارنامہ انجام دیں اور انگریزی میں خود ہی  ترجمہ کرنے یا کرانے  کے ذریعے اس کی تبلیغ بھی کریں ۔ناگزیر صورتوں میں ہی اس کا جواز سمجھ میں آسکتا ہے۔  فکری طور پر اثرانداز ہونا اگر  واقعی کوئی بہت اِروٹک چیز ہے تو اس کا بھی  یہ طریقہ نہیں ہو سکتا۔ خود ہی ایک کتاب لکھنا، اور خود ہی اس کا ترجمہ کرانا دراصل اپنے فکری  پروڈکٹ کو خود ہی بیچنا ،خود ہی خریدنا ، اور دوسری زبان میں اسے بالکل مفت فراہم کر دینا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نصابی ضرورتوں  اوربعض  دیگر محرکات کے تحت خاصی تعداد میں ترجمے ہوتے  آئے ہیں اورموجودہ دور میں بھی ترجمہ کی سرگرمی سست رفتاری سے ہی سہی، ضرور چل رہی  ہے۔ نصابی  ترجمہ  فکراور علم کی منتقلی کا ایک مسلسل عمل ہے جو اپنی مانگ کے اعتبار سے ہمیشہ چلتا رہے گا، لیکن یہ  ترجمہ کی اس  وسیع تحریک کا بدل نہیں جو  صالح احیائی شعور کے زیرِ اثر  مادی نفع و نقصان سے بے نیاز ہو کر تہذیب کو بام ِ عروج پر پہنچانے کی غرض سے  انفرادی و اجتماعی سطح  پر دیکھی جاتی ہےجس کے بغیر کسی تہذیب کی علمی  نشأۃِ ثانیہ کا ہر دعویٰ سطحیت اور ظاہربینی کا نتیجہ ہے۔ اور علمی نشأۃِ ثانیہ کے اس شعور کے بغیر مذہبی اور تہذیبی نشأۃِ ثانیہ کی کسی سرگرمی کو ضرورت سے زیادہ طول دینا انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے وقت ، قوت، صلاحیت، اورانسانی  و فطری  وسائل کو ضائع کردینا ہے۔
رجعت پسند فکر تہذیبی عروج کے اپنے  تمام تردعووں اور انسانی وسائل اور سرمایہ کے بڑے پیمانے پر استعمال کے باوجود نشأۃِ ثانیہ کے ترجماتی مرحلے کا ادراک اب تک نہیں کر سکی ہے۔ اس میں بنیادی اہمیت  تحصیل ِنظرکے بجائے ‘‘غلبہ و اقتدار ’’،  ‘‘تمکن فی الارض  ’’، ‘‘اقصائے عالم پر چھا جانے’’  اور ‘‘شکتی کے حصول ’’ جیسے تصورات کی ہے، اور انہیں کے زیرِ اثر ایسی سطحی آئیڈیالوجیوں کی  تشکیل ہوئی ہے جن کا تہذیبی احیا  کی حقیقی سرگرمیوں  سے تعلق نہیں بلکہ ان سے خود نشأۃِ ثانیہ کےتصور پرحرف آتا ہے۔تمکن فی الارض کی ایسی شدید خواہش سےمعلوم ہوتا ہے کہ رجعت پسند جامد  فکر میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کا تصور  تہذیبوں کے باہمی تعاون کے بجائے ان کے مابین  تصادم کے جذبے پر استوار ہے۔بالفرض تہذیبوں کے درمیان کوئی اولمپک ہو بھی رہا ہو تو اس میں وہی قوم فتحیاب ہو سکتی ہے جو زندگی کے ہر شعبۂ فکر میں غالب تہذیبوں سے آگے بڑھ جائے۔لیکن جو کام دقت طلب اور صبر آزما ہو ، ذہن اس سے بھاگتا ہے، اوراسے  نہ کرنے کے  مختلف قسم کے جواز اور حیلے تراشتا ہے،  مثبت رخ پر سوچنے کے بجائے چون و چرا اورقال و قیل   سے کام لیتا ہے جو فلسفیانہ کے بجائے ایک مناظرانہ رویہ ہے۔ تمکن فی الارض کا نعرہ لگانا اور اس کے نام پر لوگوں کو جمع کرنا چونکہ آسان ہے ، اس لیے ذہن اس کی طرف بے اختیار  ہو کر لپکتا ہے، پھر جلسوں جلوسوں ، کانفرنسوں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے اور نئی نسل اسی سب میں لگ کر یہ خیال کرتی ہے کہ خوب تہذیبی  غلبہ ہو رہا ہے۔
قومی و ملی زندگی کے تمامی شعبوں میں بنیادی  اصلاحات ، خواہ وہ اخلاقی  نوعیت کی ہوں یامادی و تکنیکی،اسی وقت ممکن ہیں جب  ملک و ملت کےذہین طبقے  کو حریتِ فکر و ضمیر کی نعمت حاصل ہو،اس کے افراد میں گہرا فلسفیانہ شعورکی پیدائش پیدا ہوتاکہ ان کے سامنے دنیا کی ہر تہذیب کی تاریخ کے جملہ پہلو روشن ہوں، اور ان میں جدید فلسفیانہ اور سائنسی افکار و نظریات کا کماحقہ مطالعہ کرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں فکرِ تازہ کی تخلیق کا جذبہ پایا جاتا ہو جو اب  مغربیات سے  وسیع پیمانے پربذریعہ ترجمہ  استفادہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس،
نشأۃِ ثانیہ اور تہذیبی عروج کے اس تاریخی پروسیس میں ترجماتی مرحلہ کے آنے سے وہ  رجحانات جو نشأۃِ ثانیہ اور اس کے مترادفات  پر قابض و متصرف ہیں ،آپ سے آپ ساکن ہو جائیں گے، اور اس کے ساتھ ہی احیاپرستی کا رجعت پسند خطاب اپنی طبعی عمر پوری کر لے گا  جوملکی  زبانوں میں اپنی  مختلف النوع مشقوں کے  ذریعے ذہنوں میں راسخ ہواہے، اور اِس کے نتیجے میں تعمیر و ترقی کا پورا ایک میدان آزاد ہو جائے گا۔
ملکی  زبانوں میں ترقی یافتہ تاریخی اور معاصر قوموں کے فلسفیانہ  اور سائنسی افکار کے فروغ کے لیے طویل مدت تک  بڑے پیمانے پر  فلسفہ ،سماجی اور  سائنسی علوم سے متعلق  فکری نوعیت کےبنیادی اور تازہ ترین  متون کا ترجمہ پیش کرنے کے  طویل المیعادطور پر  چند لازمی نتائج  نکلیں گے :
1. فلسفیانہ اور سائنسی افکار کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں ملکی زبانوں میں فلسفیانہ شعور اور دانشورانہ  ذہن کے حامل افراد پیدا ہوں گے۔
2. انہیں میں سے ایک خاص  تعداد ایسے افراد کی بھی نکلے گی جن کے ذہن نئے اور مستند خیالات  کا سرچشمہ ہوں گے۔ وہ اپنی تہذیبی زبانوں میں  جس قسم کے فکری متون کی تخلیق کریں گے وہ اپنی فکری صلابت کے اعتبار سے عالمی سطح پر اسی طرح اثرانداز ہوں گے جس طرح ہمارے یہاں  اور ساری دنیا میں مغربی فلسفیوں اور نظریہ سازوں  کے افکار و خیالات اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس نتیجے کی طرف اشارہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ترجمہ کے ذریعے جس قسم کی تبدیلی مقصود ہے اس کا ایک عمدہ تصور ہمارے سامنے آ جائے۔
3. مختلف تاریخی اور معاصر سمتوں سے فلسفیانہ معانی  کاترجماتی بہاؤ اظہار کی مختلف اور  متنوع صورتوں  میں ڈھل کر جدید  فلسفیانہ روایات  اور مکاتبِ فکر کو وجود میں لائے گا۔
4. معاصر ترقی یافتہ تہذیبوں کے فلسفیانہ  اور سائنسی افکار پر مبنی متون  کا  تازہ ترین ترجمہ ملکی زبانوں کی فکری  رفتار کو  مغربی زبانوں  کی رفتار کے  قریب لے آئے گا۔
5. مترجمین جس قسم کےفلسفیانہ اور سائنسی  متن کا ترجمہ کریں گے  ان کے اندر اسی قسم کی علمی اور فکری  صلاحیتیں پیدا ہوں گی اور ان کے اندر اسی قسم کے متن کی تخلیق کی صلاحیت بھی پیداہوگی  جن کا قومی زندگی کی تعمیر  میں بہتر استعمال کیا جا سکے گا۔
 ان کے علاوہ بھی متعدد مفید نتائج مرتب ہوں گے اور یہ سب فوائد مل  کر تہذیبوں کی نشاۃِ  ثانیہ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے  کی تاریخی  جدوجہد میں معاون ثابت ہوں گے۔ یہ  سب باتیں  مختصراً اس امید کے ساتھ پیش کی گئی ہیں کہ دیر سویر موزوں احیائی مقاصد کےساتھ  ترجمہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جو تہذیبوں کی  نشأۃِ ثانیہ کے اس ترجماتی مرحلے کی تکمیل کریں گی جس کی ابتدا ماضی میں  ہی ہو چکی ہے۔

6

ہمارے سامنے   درپیش اصل مسئلہ احیاپرست تحریکات، تنظیمیں اور ادارے نہیں ہیں بلکہ وہ ذہن ہے جو معاشرے کی نفسیات میں موجودہے۔ یہ ذہن  ان افراد کی بدولت پیدا ہوتا ہے جنہیں  غور و فکر اور مطالعہ کی عادت ہے اور انہیں وہ لٹریچر  اور مواد ملکی زبانوں میں  بہ آسانی دستیاب ہو جاتا  ہے جو انہیں  اپنی تہذیب  و ثقافت  کے تئیں ضرورت سے زیادہ حساس بناتا ، ان کے اندر دوسروں بالخصوص مغربی تہذیب کے لیے نفرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی باہمی گفتگوؤں میں  بھی مغرب کے لیے  باطل، گمراہ، ایمان سے تہی، اباحیت پسند، فحش، بے حیا،  بے راہ رو، اباحیت پسند، مادہ پرست جیسے الفاظ کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ رجعت پسند لٹریچر میں مغرب کا ایسا اسٹیریوٹائپ  تصور پیش کر نے کےساتھ ہی  مغربی فلسفہ  اور سائنس  کی تحقیر ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ یہ سب  تو بنیادی طور پر  ہمارا ہی  سکھایا ہوا ہے لیکن مغربی قوموں نے اس میں مادہ پرستی  کی مکروہ بدعت پیدا کر دی ہے جس کی بدولت وہ دنیوی  ترقی تو کر رہے ہیں لیکن روحانیت  سے عاری  ہوکراخلاقی حدود و قیود سے آزاد اور اخروی فلاح سے محروم ہو گئے  ہیں۔ اب ایک بار پھر ہماری تہذیب کے نونہال مغرب کو صراطِ مستقیم پر لانے کی رہنمائی کا  عظیم فریضہ انجام دیں گے۔
 مغربی قوموں نے چونکہ دنیا بھر کے فلسفوں اور سائنسوں سے فائدہ اٹھایا ہے اوران کے حکما و فلاسفہ ہر قدیم و جدید تہذیب کے فلسفیوں اورسائنسدانوں کی کھلے دل سے تعریف کرتے ہیں ، ان کے جس نظریے یا نقطۂ نظر سے سے انہیں  دلچسپی ہوتی ہے ، اسے  وہ فوراً اپنا  بھی لیتے ہیں، ان کی علمی  رواداری کواس کے صحیح تناظر میں دکھانے کے بجائے رجعت پسند لٹریچر  میں اسے اپنی ‘‘حقانیت’’ اور ‘‘برتری ’’  کی دلیل بنا لیا جاتا ہے۔دنیا کے ہر معاشرے میں مسائل ہوتے ہیں، مغربی قوموں  میں بھی اپنے مسائل کو لے کر خاصی پریشانی پائی جاتی ہے اور وہ   جدید ترین تحقیقات کے علاوہ سابقہ تہذیبوں کے افکار میں بھی ان کا حل تلاش کرتےہیں، یہ ان کی وسعتِ نظر کے سبب ہے، لیکن رجعت پسند ان کی اس رواداری کو بھی اپنی عظمت سے جوڑ کر دیکھتے اور مغربی تہذیب  کو‘‘ ہدایت کے امرت رس  کی پیاسی’’ بتانے لگتے ہیں۔حالانکہ خود ان کے  نقطہ ٔ نظر سے ہی سوچا جائے تو  اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کسی  تہذیب کے تاریخی افکار مغرب کی کیا رہنمائی کر رہے ہیں ، بلکہ  یہ ہے کہ موجودہ دور میں  اس میں کتنے ایسے فلسفی  اور سائنسداں  پائے جاتے ہیں جوڈارون اورفرائڈ اور مارکس کی طرح  مغربی نظام ِعلم کونئی بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں؟ اس اعتبار سے سوچنا چاہیے کہ اپنے  ماضی کے ایسے دہراؤ سے خود ہم کو اب تک کیا  کامیابی حاصل ہوئی؟اور اگر نہیں ہوئی تو اس کے اسباب کیا ہیں؟  مغرب کو ہمارے ماضی کی تلاش خود ہم سے زیادہ رہی ہے۔اور مغرب کا بھی اپنا  ایک ماضی  ہے اور وہ یونان اور روم ہے۔ اس لیے مغرب کوئی بے ماضی چیز نہیں ہے کہ ہم اس پر اپنا دعویٰ کرنے لگیں ۔ دنیا میں  ایک نہیں متعدد قدیم تہذیبیں ہیں اور وہ سب قابلِ احترام ہیں، اور سب نے  دنیا کی تعمیر و ترقی  میں اپنا رول ادا کیا ہے۔ لیکن  اس کو نئی منزلوں تک وہی قوم اور جماعت لے جاسکتی ہے جو پرانے کی تحقیق اور نئے  کی تلاش میں رہتی  ہو اور اس میں کسی قسم کے  تعصب سے کام نہیں لیتی ہو۔ اور موجودہ زمانے میں مغربی قومیں اس میں سب سے آگے ہیں۔
رجعت پسند لٹریچر میں  جس قسم کے جذباتی دلائل سے کام لیا جاتا ہے اس کے نتیجے میں معاشرے کے  ذہین افراد  کے   غور و فکر کی سمت بدل جاتی ہے اور وہ معذرت خواہانہ اور مدافعانہ (Apologetic)  طرزِ استدلال  کے عادی ہو جاتے ہیں ، لیکن واقعات کی دنیا میں   اس سے کام نہ چلتا دیکھ کر ،  وہ بالآخر انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔  اور یہی چیز  طویل المیعاد طور پر قوموں کی تعمیر و ترقی میں مزاحم ہوتا ہے۔
کسی معاشرے کے افراد میں پائی جانے والی اس  نفسیات  کی قلبِ ماہیئت کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی ریڈنگ پبلک اورذہنی و فکری طور پر بلند افراد کے لیے ان  ہی کی  تہذیبی زبان میں
 تازہ ترین  مغربی افکار و نظریات  پر مبنی تعارفی نوعیت کی کتابوں کے ترجمے فراہم کیے جائیں۔ نیز قدیم و جدید اور تازہ ترین  علوم و افکار کے ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتابوں کے ترجمے کی انفرادی ا ور اجتماعی سطح پر  کوششیں کی جائیں۔
اجمالاً، مشرقی تہذیبوں میں نشأۃِ ثانیہ کے کام کووہ سب  قوتیں اپنے ہاتھ میں لیں جو ایک پرامن انسانی معاشرہ کی تعمیر کرنا چاہتی ہیں۔ کسی تہذیب کا حقیقی نشاۃ ِ ثانیہ منقولات  کی ظاہرپرستانہ تعبیروں  کا نفاذ، تہذیب و تمدن میں اشکالِ ماضیہ سے ظاہری مشابہت پیدا کرلینے، اورتمکن فی الارض کا خواب دیکھتے رہنے  میں نہیں  ہے ، بلکہ  زمانہ کے اعتبار سے  ہر شعبۂ حیات میں نئی شکلوں اور ہیئتوں کی تخلیق، اورقدیم تاریخی اور معاصر ترقی یافتہ تہذیبوں  کے علوم و افکار کو اپنی زبانوں میں بذریعہ ترجمہ منتقل کرنے کےصبرآزما عمل میں پوشیدہ ہے۔ملکی زبانوں میں مشرق و مغرب کے علوم و افکار کا ترجمہ علمی نشأۃِ ثانیہ کی طرف پہلا قدم ہے جس کے بغیر تہذیبی نشأۃِ ثانیہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، خواہ اس کے لیے کتنا ہی زور صرف کر دیا جائے۔