اتوار، 6 مارچ، 2011

عورت : مشرق و مغرب

ان کی عمریں نباتات کی عمروں کی طرح بسر ہو جاتی ہیں۔
— ابن رشد

[حالانکہ مشرق اور مغرب کا فرق اب ساری دنیا میں تقریباًختم ہوگیا ہے اور ہر مشرق میں ایک مغرب اور ہر مغرب میں ایک مشرق کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مقناطیس کے ہر ذرے میں قطبین کا وجود ہوتا ہے، لیکن بغور دیکھا جائے اور مشرق و مغرب کو الگ الگ سوچا جائے ، تو معلوم ہوگا کہ عورت کے مشرقی و مغربی تصور میں آج وہی فاصلہ ہے جو خود مشرق اور مغرب میںہے۔ تصور کا یہ فرق ماضی بعید میں کس قدر تھا ،یہ تاریخ کا سوال ہے ، مگرجو فرق زمانہ حال میں موجود ہے اس پر غور کرنا پہلے ضروری ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عورت آخر عورت ہے ، خواہ مشرق میں ہو یامغرب میں، اس لیے خود اس میں اور اس کے تصور میں دونوں تہذیبوں میں مشترک قد ریں بھی پائی جاتی ہیں جن کا سامنے لایا جانا بھی ضروری ہے جو اس مضمون کا موضوع نہیں۔
چونکہ یہ مضمون یکے بعد دیگرے دو انتہاﺅں پرجا جا کر لکھا گیا ہے اس لیے بعض الفاظ یا جملے ناگوار ہو سکتے ہیں ۔مگر یہ زیادہ ضروری تھا کہ مشرقی اور مغربی تہذیب کے ٹھیکے داروں کا دماغ جن دو انتہاﺅں پررہتا ہے اسے بیان کیا جائے نہ کہ روایتی ذوقِ مطالعہ کی رعایت کرتے ہوئے میٹھی میٹھی باتیں کی جائیں ۔]


مشرقی اور مغربی عورت میں چراغِ خانہ اور شمعِ محفل کا فرق ہے۔ مغرب میں عورت آلہ ¿ تفریح و تجارت ہے اور مشرق میں سامان خدمت و اطاعت۔یعنی مغربی خاتون محبوبہ ہے اور مشرقی عورت لونڈی۔ رفیقہ ¿ حیات وہ کہیں نہیں ہے، الا ماشااللہ۔ نسوانی حسن کا ذوقِ مصرف بھی مشرق و مغرب میں جدا جدا ہے ۔ایک جگہ وہ شو کیس میں سجی ہے اوردوسری جانب چہاردیواری کی زینت بنی ہے ۔غالباًصنف’ ِنازک‘ کایہی وہ مصرف ہے جس کے پیش نظر پیہم اُس کی تربیت کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مشرقی اور مغربی قوموں کے ذوقِ تربیت میں بھی خاصافرق ہے۔مغربی ذوق ہر ممکن طریقے سے جوہر نسوانیت کو آشکار کرنے کی طرف مائل رہتا ہے اورمشرقی ذوق اس کو ہر طرح پوشیدہ رکھنے کی سعی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک اسے استقبالیہ پر مسکرانے کا انعام دیتا ہے اور دوسرا اسے کھڑکی سے باہر جھانکنے کی سزا۔گویا اپنے اندازِتربیت میں مغرب سراپا ترغیب ہے اور مشرق سراپا ترہیب۔حالانکہ ترغیب ا ور ترہیب دونوں کی غرض و غایت ایک ہی ہے، یعنی تربیت کرنا اور سدھانا، لیکن ایک خود کو عورت کا مربی اور مزکی قرار دیتا ہے اور دوسرا اس کا دوست اور ساتھی ہونے کا دم بھرتا ہے۔ مربی و مزکی ہونے کی حیثیت سے ایک اسے سنوارتا اور پھٹکارتا ہے اوردوست ہونے کی مناسبت سے دوسرا خیر خواہانہ مشوروں میں یقین رکھتا ہے ، وہ بھول کر بھی سرزنش نہیں کرتا کہ سرزنش اور گوشمالی سے بغاوت جنم لیتی ہے۔جبکہ بعض اعتدال پسندوں کا خیال یہ ہے کہ عورت کی تربیت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں سے کام لینا ضروری ہے۔ صرف رغبت دلانے یا صرف دہشت پیدا کرنے کا رویہ غیر معتدل ہے۔ کامیاب اور بہترین مربی وہ ہے جو پیار بھی جتائے اور پھٹکاربھی لگائے۔ اِسی سے نسوانی شخصیت کا ارتقا ہوتا ہے اور اس میں توازن و اعتدال کی صفت جلوہ گر ہوتی ہے۔اِسی سے اس میں وفاداری ، اطاعت شعاری اور خدمت گزاری پیدا ہوتی ہے ۔ اور اِسی سے اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
مغرب میں عورت کو دکھا کر سنوارا ، اور سنوار کر دکھایا جاتا ہے اور مشرق میں چھپا کر سنوارا، اور سنوار کر چھپادیا جاتا ہے۔سجنا اور سنورنا ہردو جگہ اس کا مقدر ہے ،مگر آفتابِ حسن کو مغرب میں زوال نہیں۔اور اِس وقت تویہ نصف النہار پر ہے۔اور عالمِ مشرق میں اس کو برقعے کی تاریکی میں لپیٹ دیا گیا ہے۔نتیجے کے طور پرمغرب کے نصف النہار کے مقابلے مشرق میں شبِ تار کا عالم ہے۔ مگردونوں جگہ عورت کے جسم پر بارہ بج رہے ہیںاور روح کاکہیںکوئی پتا نہیں۔ مغرب کا نصف النہار جس میں اس کا ایک ایک عضو چاندی سا چمکتا اور سونے سا دمکتا ہے ۔نصف النہار— جس کی چمک نے بصارت ہی نہیں بصیرت کو بھی خیرہ کر دیا ہے ۔ اتنا خیرہ کر دیا ہے کہ ُاس کے بدن کی نسبتاً آسان راہوں سے ہو کر روح کی دشوار گھاٹی میں اترنے کی راہ نہیں سوجھتی۔ اورادھر مشرق کی شب تارمیں بدن ایک شجر ممنوعہ ہے جس کی کوئی شاخ ہری نہیں — بس ایک منحوس میلی چادر جس کی تاریکی میں اس شجر ممنوعہ کی ہر شاخ اپنی فطری شادابی ،اور توازن ،اور لوچ کھو بیٹھی ہے۔واللہ یہ بدن روح کے منزل مقصود تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے،بلکہ بدن خو د منزل ہے،بالذات منزل ہے ، اور مشرق میں یہی بدن اپنی حقیقی روح کھو بیٹھا ہے، حالانکہ روحانیت کی گرم بازاری ہے۔ بہر حال نصف النہار ہو یا شبِ تار ، دونوں کے اپنے فائدے بھی ہیں جن کا کہ کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔
ہیہات !اُس پارحسن و جمال کا دریا بہہ رہا ہے کہ فیض اٹھانے والے فیض اٹھاتے اور دادِ حسن دیتے جاتے ہیں۔ اوراِدھر یہ حال کہ ہر گھڑی چور اچکوں ، اٹھائی گیروں اور تماش بینوں کادھڑکا لگا رہتا ہے، سو تالا لگاکر سونے چاندی سا محفوظ رکھتے ہیں۔ اُدھر افراط کاایسا چشم کشاہوشربامنظر کہ ریمپ پر قطار در قطار کیٹواک مچی ہے، گویا ہرنیاں پالتو بنا لی گئیں۔تہذیب کے دامن میں حسنِ وحشی کو ایسی تربیت ملی کہ چوکڑیوں میں طراری کے بجائے طرحداری پیدا ہوئی ، اور غمزوں میں تصنع کے سا تھ نزاکت، اورتبسم میں توقع کے ساتھ لگاوٹ۔ دیکھوکہ کس طرح آفتاب و ماہتاب ایک ساتھ بِنداس گریبانوں سے نکلے پڑتے ہیں جن کی حرارت سے مغرب بخارمیں پھنک رہا ہے۔ دیکھو اور سبق حاصل کرو کہ کس طرح وہاں حسن سے فیضیاب کرانے پر خطابات ملتے ہیں ۔ اوراِدھر ایسی تفریط کہ سہواً بھی ظاہر ہونے والی کوئی زینت ظاہر ہو جائے تو عتابوں کی جھڑی اور آنسوﺅں کی لڑی۔یا مظہر العجائب، اُدھر شارعِ عام، اِدھر حبسِ دوام! وہاں تنِ نازک پر کپڑے کا ایک تار اوررخِ زیبا پرشرم کا ایک چلّو تک باقی نہیں رہتا اوریہاں اسے برقعے میں کفنا کرحیا میں دفنا دیا جاتا ہے۔الغرض اُدھر بِکنی پر اصرار ،اِدھر برقعے کی تکرار۔اورمشرقیت ا ور مغربیت کی اس کشمکش میں عورت کی اپنی کہیں کوئی مرضی نہیںہے ۔اس کااپنی روح اوراپنے جسم پر کوئی اختیار، کوئی حق باقی نہیں ۔وہ اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتی۔ہر کہیںمرد اس کے خدا بنے ہوئے ہیںجو لمحہ لمحہ اس کی تقدیر میں جنت یا جہنم لکھ رہے ہیں۔خود اسے آگے بڑھ کر اپنا جہنم یا اپنی جنت چن لینے کی آزادی نہیں ۔
اور جبر کے اس ماحول میں اعتدال کی پھٹکری لگانے والے پھٹکری یوں لگاتے ہیں: مغرب نے عورت کو ننگا کیا اور مشرق نے اسے چھپایا۔اورچھپانا، ننگا کرنے کے مقابلے بہتر ہے۔ عورت کا تو مفہوم ہی اسرار و خفاہے۔ آگاہ!عورت ایک راز نہاں ہے ، اس کو ہر گز افشا نہ کرنا چاہیے۔یہ تہذیب کی آبرو اورزندگی کی ضمانت ہے۔ مگر اسے مخفی رکھنے میں توسط و اعتدال کی شاہراہ سے یک سرِ مو تجاوز نہ ہو۔اسے چھپاﺅ جتنا کہ چھپاﺅ جتنا کہ چھپانے کاحق ہے اور دکھاﺅ جتنا کہ دکھانے کا حق ہے۔
اور ’ چھپاﺅ ‘اور’ دکھاﺅ‘ کی ساری کھینچ تان کے درمیان عورت ہر دو جگہ عملاً ایک غیر ذی روح شئے ہے۔مشرق میں عورت کا مرد سے زیروزبر یعنی امیرو مامور کاتعلق ہوتا ہے اور مغرب میں شیر و شکر یعنی عاشق و معشوق کا۔ غور کیجیے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہاں عورت کو امور خانہ داری کے بھرم اوروہاں امور مملکت کے وہم میں لاحق رکھا گیا ہے۔ یعنی یہ باورچی خانے کی ملکہ اور وہ ڈرائنگ روم کی شوبھا۔اِدھر یہ دیگچیوں کی ٹھناٹھن ،اُدھر وہ قلقلِ مینا۔زیبا ہو یا کرسٹینا۔ زیادہ سے زیادہ مشرقی عورتیں گھریلو مکھیوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور مغربی عورتیں خوشرنگ تتلیوں کی۔دونوں کا مقابلہ کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔مشرق میںان کی زندگیاں نباتات کی طرح بسر ہو جاتی ہیں اور مغرب میں حیوانات کی طرح۔ پس لکھو کہ مشرق میں وہ دن رات مسالا پیسنے کی سل پر اپنا مقدر کوٹ رہی ہے۔اور لکھو کہ مغرب میں اس نے اپنی مامتا کو سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل کر دیا ہے۔اورلکھو کہ مشرقی عورتیں وہ کلیاں ہیں جو حجلہ ¿ عروسی کی ملگجی روشنی میں سیج کے کام آ گئیںاور یہ بھی لکھو کہ مغربی عورت روزانہ بدل دیے جانے والے کوٹ کے گلاب سے زیادہ کچھ نہیں جس کو آخرکار ڈسٹ بن کی نذر ہوجاناہے۔
خداوند ہو یا خاوند،مشرقی عورت کے لیے دونوں یکساں ہیں۔ دونوں کو خوش رکھنا مشرقی تہذیب اور روایات کی رو سے اس کا فرض منصبی ہے۔ اور دونوں اپنی مرضی کے مالک و مختار ہیں۔ جو چاہیں کریں ۔ دونوںعادل و منصف اور جبار و قہار ہیں، جو چاہیں سزا دیں۔ جب ، جہاں اور جتناچاہے ماریں،بلکہ مار ہی ڈالیں۔خواہ وہ موت حادثاتی نظر آئے یا طبعی۔ دونوں اس سے عفت و پاکدامنی کا مطالبہ کرتے ہیں۔دونوں ہی اسے خدمت گذار ، وفادار اور اطاعت شعار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور دونوں بلا شرکت غیرے اس کے حاکم اور آقا ہیںکہ عورت کو دونوں میں سے دونوں کا انتخاب کرنا ہے۔ اور دونوں میں سے کسی ایک کی نافرمانی بھی قابل سزا جرم ہے۔ایک کی نافرمانی عاقبت خراب کردیتی ہے اور دوسرے کی نافرمانی چہرا۔
اورمغربی عورت میں نہ خوف ِخدا ہے ، نہ خوفِ خاوند۔ وہ بے لگام ہے۔ لیکن جدھر بہاﺅ ،اُدھر بہے گی۔ پیار کی چمچ سے چلاﺅ حل ہو جائے گی۔سیدھے اٹھا کر پی جاﺅ ، احتجاج نہ کرے گی۔ یہ مغربیت سے پیدا شدہ روحانیت کے فقدان اور جسمانیت کے ہیجان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس نا گفتہ بہ صورت حال سے تنگ آکر بعض مغربی عورتیںکبھی روحانی سکون کی تلاش میں مشرق کی خاک چھانتی ،سادھو سنیاسیوںکی سیوا میں جوگن کا روپ دھارے موکش کو پراپت ہو جاتی ہیں اور کبھی مشرق کی سخت گیر گھریلو زندگی میں جذب ہو کررہنا ہی ان کا مقدر ہوتاہے۔یہ مغرب سے مشرق کی طرف عورت کی ہجرت ہے ۔ مگر( توازن برقرار رہے اِس لیے )یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ ہجرت ایکطرفہ نہیں ہے۔ یہ مشرق سے مغرب کی طرف بھی ہوتی ہے جس کی نوعیت زیادہ تر نظریاتی اور تہذیبی ہے۔ یہ مشرق کے کانجی ہاﺅسوں سے بھاگ کر مغربی افکار کے استوائی جنگلات میں پناہ لینے کی ایک کوشش ہے ۔ مغربی فکر کے استوائی جنگلات اور ان کی مہیب تاریکی —جو فکر و نظر کے درندوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور شکار گاہ بھی۔تاریکی—جس میں شیر چیتوں،لومڑکتوں اور بھیڑیوں کی آنکھیں بھوک سے چمک چمک اٹھتی ہیں کچھ سنا !آہوئے رمیدہ— مفرور باغی عورت کی چیخ و پکار ، جو انجانے ہی رد تشکیل کے ہتھیار کو اپنے بدن پرآزما تے اور المیہ کاسکھ بھوگتے ہوئے کہہ رہی ہے : میں تنہا ہوں،میں بے وطن ہوں، میں ایک زندہ لاش ہوں۔

۲
یہ حقیقت ہے کہ عورت سے متعلق ہر بحث اس کے بدن سے شروع ہوتی ہے اوربدن ہی پر جاکر ختم ہو جاتی ہے۔مشرق میں یہ بدن حیاسے عبارت ہے اور مغرب میں ادا سے۔ حیا عورت کوروکتی اور باندھتی ہے ، پوشیدہ رکھتی ہے ، مطیع و فرمانبردار بناتی ہے اور ادا اسے کھولتی ہے، ظاہر کرتی ہے،آزاد و خود مختاربناتی ہے۔ حیا مشرقی عورت کا زیورہے۔یہ اس کی گردن کا طوق،گلے کا ہار، بازو کا بازو بند اور پیروںکی پازیب ہے۔زیورات میں ایک قسم کی پھانس ہے، گھیرا بندی ہے۔زیور قیدو بند کی علامت ہے۔چہاردیواری کے اندریہ ننھی ننھی سنہری زنجیریںاُس کے جسم کو جکڑ کر رکھتی ہیں۔ اور روح کے مسرور و مطمئن ہونے کا فریب دیتی ہیں۔ یہ زنجیریںاس کی’ ناقابل اعتبار سرکش ادا‘ کے لیے حیا کی مضبوط لگام ہیں۔
حیامشرقی عورت کا سب سے قیمتی زیور ہے جس کو اس نے اب تک سنبھالے رکھا ہے۔ یہ بیش قیمتی زیور اس کے سر تا پا لبادے میں مخفی رہتا ہے۔ جبکہ مغربی عورت کا لباس مختصرہوتے ہوتے زیوروں کے سائز تک آ پہنچاہے۔بلکہ یہ مختصر لباس عملاً زیور بن گیاہے۔ زیور جو قید و بند کی علامت اور مردانہ اقتدار کی نشانی ہے ۔اورمغرب کی بیٹیوں کا یہ زیورخاتونِ مشرق کی طرح کسی سرتاپالبادے کے نیچے نہیں بلکہ لباسِ فطرت کے اوپرسجایا جاتا ہے :
حوا کی بیٹیوں نے آدم کے بیٹوں کو للکارا
ازل سے آج تک
تم نے میرے ساتھ جو کیا
اس کا حساب دو
آدم کے بیٹوں نے کہا
تم میرے برابر نہیں ہو کیا؟
اچھا تو آﺅ ”اِستری وِمَرش“ کریں
اور پھر خوب استری ومرش ہوا
ادب، آرٹ اور کلچرمیں
اور پردہ سیمیں پر
اور نوٹنکیوں،میلوں ٹھیلوں میں
حتٰی کہ باقی رہ گئے
حوا کی بیٹیوں کے تن پر
کپڑوں کے دو تار
اور ہاتھ میں ایک رومال
آنسو پونچھنے کے لیے !
کیا فرق پڑتا ہے اگر تمہیںکھلی ڈلی چراگاہوں میںغلامی کا چارہ ملے اور کیا فرق پڑتا ہے اگر کانجی ہاﺅسوں میں تمہیں سنہرے زیوروں سے لاد دیا جائے۔آزمائش تو تب ہے جب تم عالمِ مغرب میں ہر سو برپا اُس ہیجان خیز رقصِ برہنہ کے درمیان دفعتاًپکار اٹھو کہ مشرق کا یہ سرتاپا حجاب میرے لیے کافی ہے۔مگر یہ کہتے ہی نکیلے پنجوں اور پینے دانتوں والے بھیڑیے تمہیں نوچ ڈالیں گے۔ وہ لبادہ تار تار کردیں گے جس کو خود تم نے بہ رضا و رغبت چنا ہوگا۔تم ذرا یہ کر تو دیکھو۔تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مغرب میں تم محض ایک ٹشو پیپرہو جس سے وہی مردوادی سور یعنی Male chauvinistic pig اپنی نجاست صاف کرتا ہے۔ اورذرا مشرق کے کانجی ہاﺅسوں سے نکل کر دیوانہ وار دوڑتی ہوئی کھلی ہوا میںآکسیجن لینے باہر نکلو اس حال میں کہ ظاہر ہونے والی کوئی زینت ظاہر ہو رہی ہو— گھسیٹ کر پھر انہیں کانجی ہاﺅسوں میں بند کردیا جائے گا۔ پس صنف ِنازک نے نہ کہیں اپنی مرضی سے خود کو چھپایا اورنہ کہیں اپنی رغبت سے آشکار ہوئی ۔
حیا اور ادا، یہ دو مختلف اور متضاد قوتیں ہیں۔ اِن سے صنف ِنازک کا بھرم قائم رہتا ہے۔ یہ بھرم مٹائے نہیں مٹتا۔یہ فطری و لابدی ہے۔یہ بھرم عورت کو عورت بنائے رکھتا ہے۔اسے مرد سے الگ ایک مستقل صنف ہونے کا امتیاز بخشتا ہے۔عورت سب کچھ سے نجات پا سکتی ہے ،مغرب میںاپنی مامتا کی شراب نچوڑ سکتی ہے اور مشرق میں اسی مامتا کی خاطر اپنے وقار کو چولہے میں جھونک سکتی ہے، لیکن اِن دونوں قوتوں سے اسے کہیں نجات نہیں۔جب ایک سامنے ہوتی ہے تو لازماً دوسری چھپ جاتی ہے۔ ایک مشرق میں اس کے بدن پرچھا گئی ہے۔ اور دوسری مغرب میں اس پر غالب آگئی ہے۔یعنی اِدھرجو شئے حیا کے گہن سے گہنا گئی ہے ادھر وہی شئے شعلہ صفت اپنی ہی آگ میں دہک رہی ہے ۔دیکھتے دیکھتے اس کاوجود آپ ہی جل بجھے گا۔ اب ان دونوں قوتوں سے ، اپنے اندر کی اپنی ہی قوتوں سے ،اپنی ہی ساخت سے بلکہ خود اپنے آپ سے کیسے نپٹے گی عورت؟ہے کوئی رد تشکیلی، ساخت شکن فارمولا؟
حیا اور ادا سے کہیں نجات نہیں کیوں کہ یہ ایسی قوتیں ہیں جو اس کے باطن میںپیدا ہوتی ہیں اور ظاہرمیں ان کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔حیا اور ادا کو کہیں اور سے لاکر نہیں ٹھونسا گیا ، یہ اُس کے وجود میں پہلے سے موجود ہیں۔ماقبل تاریخ سے موجود ہیں۔ اس سے بھی پہلے سے موجود ہیں۔ حیا اور ادا ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔یہ بہ باطن ایک ہیں اور بہ ظاہر دو۔ حیاکے ساتھ کچھ دور تلک جادیکھو۔ ہجر کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا؛ ہجر— جو لذت آگیں بھی ہے اور دردآفریں بھی ، ہجر— جو وصال کا صحیح مفہوم سمجھاتا ہے،اور اس کی تمنا اور خواہش کو جلا دیتا ہے؛ وہی ہجرحیا کے ساتھ رہتے ہوئے در حقیقت ہجر نہ رہا ،حسرت کی آگ بن گیا، اور بالآخر یہ حسرت بھی دم توڑنے لگی ، اور اِس کے ساتھ ہی وصال کامفہوم بھی خطرے میں پڑ گیا اور زندگی بھی اپنی معنویت کھونے لگی۔ ناچار و بالقصد، ادا کے ساتھ چند ہی قدم چلے کہ دفعتاً وصال ہو گیاتا آنکہ پھرعالم ہجر میں لوٹ جانے کی تمنا ہوئی۔ حیا بظاہر کچھ نہ ہونا ہے ۔اور ادا بظاہر کچھ’ہو ‘جانا۔حیا چپ رہنا ہے اور ادا بول پڑنا۔بالقصد چپ رہنا اور بے اختیار بول پڑنا۔ کیا خاموشی اور گویائی دو چیزیں ہیں؟ظاہر بیں آنکھ کہے گی کہ دو ہیں۔مگر اِس کم فہمی سے پرے شاعر نے کہا ہے :
نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو
خموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
حیا خاموشی ہے اور ادا گویائی۔ حیااصل ہے اور ادا فرع۔حیا جڑ ہے اور ادا شاخ۔شاخ کی نشو نماجڑ سے ہے اورجڑ کی محنت کا حاصل شاخیں ۔مگر شاخوں نے آسمان سے لو لگائی اور جڑوں نے شاخوں کی خاطر پستی کا سفر منظور کیا۔
حیا اور ادا کی یہی کیفیت مطلوب ہے۔ مگر مشرق ومغرب میں نہ حیا کی یہ کیفیت ہے نہ ادا کا یہ رجحان۔مشرق میں حیا ،حیا نہیں اور مغرب میں ادا ،ادا نہیں۔ مشرق میں حیا نظام جبر کا سناٹا ہے اور مغرب میں ادا سناٹے کی چیخ۔ایک طرف حیا نظامِ جبر کا سیاسی استحکام اور دوسری طرف ادا ایک دہشت گردانہ کارروائی،خود کش دھماکہ! مغرب میں عورت کو خاموش رکھا گیا تھا۔ اب وہ بول رہی ہے۔اورمشرقی عورت ابھی بولنا سیکھ رہی ہے۔مگر اس کی بھی لے وہی ہے ۔
مغربی عورت اب تک حیا اور اداکی حقیقت کبریٰ کو نہ سمجھ سکی، اور شائی لاک نے اس کی کوکھ کو رہن رکھ لیااور اس نے سود در سود وصول کیایہاں تک کہ وہ بنجر ہو گئی۔اور اِدھر مشرق میں دولتِ حسن میںسے بقدرِ زکوٰة بھی آمادگی نہیں۔ یہاںنسوانی حسن کی حیثیت ایک خزینے اور دفینے کی ہے جس پروہی مردوادی ناگ پھن کاڑھے بیٹھا ہے:
نسوانیت ِزن کا نگہباں ہے فقط مرد!
آہ یہ نازک صنف! بغاوت اس کے بس کی بات نہیں۔مگر اس نے اطاعت بھی کی تو اس سے اطاعت نہ ہو سکی۔ اطاعت و بغاوت کے درمیان ہر موڑ پہ رسوائی،ہرمحاذ پہ پسپائی اورہر سودا خام ۔ اس نے خود کو جتنا افشا کیا اتنا ہی اسے چھپ جانا پڑا، اتنا ہی بے نام و نشان ہونا پڑا۔ اورجتنا چھپنے کی کوشش کی ، اتنا ہی اس کا چرچا ہوا۔ مگر اس کا حقیقی جلوہ نہ کوئی دیکھ سکا اور نہ وہ خود کسی کو دکھا سکی۔اس کی حقیقت مستور ہی رہی۔ سطحِ ظاہر پر جو ظاہر ہوا وہ بدن تھا اور جو مخفی رہا وہ بھی بدن ہی تھا۔پس کیا عورت بدن کے علاوہ بھی کچھ ہے؟اگر ہاں تو اس کی کوئی دلیل سوائے اس دلیل کے نہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ عورت بدن کے علاوہ بھی کچھ ہوبلکہ بدن سے زیادہ کچھ ہو۔لیکن اسے بدن سے زیادہ کچھ نہیں رہنے دیاگیا۔ مشرق و مغرب میں اس نے جو کچھ چھپایا اور جو کچھ دکھایا اس میں وہ خود کہیں نہیں تھی۔ مشرق میں ، وہ خداوند قدوس کی نہیں، مجازی خداﺅں کی شریعت تھی جس نے اسے جکڑ کر رکھا اور ’حق‘ کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ اور مغرب میں سرے سے تمام شریعتوں کی دھجیاں اڑا کر خرد کی روشنی کو یہاں تک پھیلادیا گیا کہ وہ اظہر من الشمس تو ہو گئی مگر اس کی اندرونی کیفیتوں اور وارداتوںتک کسی کی رسائی نہ ہوسکی۔ دکھانے اور چھپانے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک طرف روزافزوں تاریکیوں میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا اور دوسری طرف روشنیوں کے جھماکوں میں آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے۔

خاتون اسلام اور ورک کلچر

کسی قوم کی حالت کا صحیح اندازہ اس قوم کی عورتوں کی حالت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جس قوم کی عورتیں تعلیم یافتہ ، باشعور اور مہذب ہوتی ہیں وہی قوم صحیح معنوں میں ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق ہے۔ پس ماندہ قوم عورتوں کو نفسیاتی طور پر کمزور سمجھ کربے جا نگرانی میں رکھتی ہے۔ انہیں پابند بناتی ہے ، خود مختار نہیں ہونے دیتی۔ان پر شک کرتی ہے ،اعتبار نہیں کرتی۔ فتووں کی زبان میں بات کرتی ہے ،دوستانہ مشورے نہیں دیتی۔

 

معیاری اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھ کر ان کی تربیت کی کوشش کرتی ہے۔ ان سے تقویٰ اور احسان کا ایسا مطالبہ کرتی ہے جو اس قوم کے مردوںسے ممکن نہیں ہوتا۔حتیّٰ کہ مردوں کی بڑی سے بڑی کجروی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر نا پڑتاہے اور خواتین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں ۔مسلم قوم میں عورتوں کو لے کر یہ تمام رویے اپنائے جاتے ہیں ۔ان باتوں کو لیپ پوت کر چھپانے سے بہتر ہے کہ انہیں بے کم و کاست بیان کردیا جائے تا کہ ان کے علاج کی واقعی فکر پیدا ہو ۔
اسلام میں عورتوں کے حقوق پر تقریریں چاہے جتنی ہو جائےں لیکن عملی طور پر متوسط طبقے میں مسلمان خواتین کے ساتھ’ نصف بہتر ‘کے بجائے’ نصف کمتر ‘کا سلوک ہی کیا جاتا ہے۔جب تک اس سلوک کی وجہ کو نظریاتی طور پر سمجھااور عملی طور پر دور نہیں کیا جاتا مسلمان خواتین پس ماندگی کی موجودہ حالت سے نہیں نکل سکتیں۔واضح رہے کہ عورتوں کی پس ماندگی بھی مسلمانوں کے زوال کی ایک بنیادی وجہ ہے جس کا لازمی نتیجہ ہمیں یہ دیکھنا پڑا کہ پوری قوم غیر متوازن ہو کر شکست و ریخت سے دوچار ہو گئی۔
مذہب اور پسماندگی
مسلمان عورتوں کی پس ماندگی تقریباً ہمہ گیر ہے۔متوسط طبقے کی مسلم خواتین دوسری قوموں کی خواتین کے مقابلے میںتقریباً ہر اعتبار سے زیادہ پچھڑی ہوئی اس لیے ہیں کہ انتہاپسندمسلم علما نے اسلام کے نام پر ان پر ایسی پابندیاں لگا رکھی ہیں جو فی الواقع اسلام نے نہیں لگائی ہیں۔ دوسرے مذاہب کی خواتین بڑے اطمینان سے اپنے اپنے مذہبی و تہذیبی رسوم و روایات کو بالائے طاق رکھ کر دنیوی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوتی ہیں جبکہ مسلمان عورتیں ، دین حق کی پیرو ہونے کے سبب ،اپنے دینی و مذہبی اصول و فرائض سے سمجھوتا نہیں کر سکتیں ۔
روایت پسند مرد علما، خواتین کو جس چیز سے منع کرتے ہیں ، وہ خدا اور رسول کا حکم سمجھ کراس سے رک جاتی ہیں اورجس چیز کا حکم دیتے ہیں اسے اختیار کرلیتی ہیں۔مگر عورتوں سے متعلق اسلامی احکام و ہدایات بیان کرتے وقت روایتی علما لاشعوری طور پر مرد انہ نقطہ نظر اختیار کر لیتے ہیں اور مردوں کی قوامیت کے دائرے میں اتنی وسعت پیدا کر دیتے ہیںکہ قوامیت ، الوہیت یعنی خدائی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ چونکہ خواتین میںاعلیٰ دینی تعلیم کا فقدان ہے ،وہ قرآن و سنت سے خود استفادہ نہیں کر سکتیں ، اس لیے وہ علما کی طرف سے بیان کردہ جملہ احکام و ہدایات کی پیروی ہی کو اصل دین سمجھتی ہیں۔ حیرت ہے کہ عصری علوم تو دور خواتین میںدینی و شرعی علوم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رجحان ابھی تک زور نہیں پکڑسکا۔
تعلیم نسواں: گریزو فرار کے حیلے
تعلیم یافتہ اور شائستہ سمجھے جانے والے مسلم حلقوں میںا عتدال و توازن جیسے الفاظ کا کا فی چرچا رہتا ہے۔ ’امت وسط‘ ہونے کی بات انتہائی زور و شور سے دہرائی جاتی ہے لیکن اس بلند مقام تک پہنچا کیسے جائے اس کا کوئی قابل عمل نسخہ ہمارے پاس نہیں ۔کیا اسے اعتدال و توازن کی عمدہ مثال کہیں گے کہ ملت کے شائستہ سمجھے جانے والے گھرانوں میں زیادہ تر عورتیں محض پابند صوم و صلوٰة،امور خانہ داری میں ماہر، آٹھواں پاس یعنی خط و کتابت کے لائق ، ناظرہ قرآن پڑھی ہوں اور ان کے مرد عالم فاضل ،دقیقہ سنج اور ہمہ گیر صلاحیت کے مالک ہوں ۔حتیٰ کہ مرد علما خود تو بیضاوی، قدوری کا درس دیتے ہوں اور ان کی بیویاں بہشتی زیور، جنت کی کنجی ، دوزخ کا کھٹکا جیسی کتابوں تک ہی محدود ہوں؟
کیا وجہ ہے کہ بڑے بڑے سند یافتہ حضرات کے یہاں خواتین صرف ہائی اسکول پاس ہوتی ہیں ؟غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عمل کی کوتاہی نہیں بلکہ یہ صورتحال تعلیم نسواں کے متعلق ایک ایسے نظریے کی عملی تفسیر ہے جس کے تحت عورتوں کواتنا ہی پڑھایا جاتا ہے جتنے کی ’ضرورت‘ ہے۔ اورخواتین کی ضرورت بس ’امور خانہ ‘تک محدود ہے ۔چہار دیواری سے باہر کیا ہو رہا ہے نہ اسے جاننے کی ضرورت ہے نہ اس میں پڑنے کی ۔ دنیا میں کیسے کیسے علمی و معلوماتی اور نظریاتی انقلابات آ رہے ہیں، ان کی سمجھ رکھنا اور ان کا سامنا کرنا صرف اور صرف مرد کا کام ہے۔ ناقابل انکار طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ گھر کو صرف عورت دیکھے گی اور گھر سے باہر صرف مرد ۔ عورت کا دائرہ عمل صرف اور صرف اس کا گھر ہے۔ یہیں پر اس کی ڈولی آئی تھی اور یہیں سے اس کا جنازہ اٹھے گا۔ یہی اس کی جنت ہے اور یہی اس کی معراج۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورتوں کے لیے عصری علوم کے دروازے از روئے شریعت بند سمجھ لیے گئے ہیں اوراعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کا حصول ان کے لیے آپ سے آپ شجر ممنوعہ قرارپا گیا ہے۔ چونکہ عورتوں کا دائرہ کار مردوں سے الگ مان لیا گیا ہے اس لیے ان کی تعلیم و تربیت، اورمطالعے کے موضوعات و مضامین بھی مردوں سے الگ قرار پاتے ہیں ۔ قدامت پرستوں کی طرف سے یہ مشورہ عرصہ ¿دراز سے دیا جا رہا ہے کہ خواتین سماجیات، سیاسیات، نفسیات ،جغرافیہ ، طبیعیات ، حیاتیات وغیرہ مضامین محض جنرل نالج کے لیے پڑھیں اور ہوم سائنس پر خصوصی توجہ دیں۔ الغرض ہر طرح کوشش یہی کی جاتی ہے کہ آدھی دنیا کی زندگی باورچی خانے ہی تک محدود ہو۔ دوسرے لفظوں میں خواتین امور خانہ داری کو چھوڑ کر امور مملکت میں ہرگزدخیل نہ ہونے پائیں۔
حالانکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلم لڑکیوں کو مختلف اسلامی اداروں میںاعلیٰ دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے دینے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جو خواتین کوعصری اداروں میںاعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتے۔مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اور ان کے سامنے بھی یہی مسئلہ ہے کہ آخر اعلیٰ تعلیم کے بعد عورتوں کامشغلہ اورروزمرہ کا معمول کیا ہوگا ؟ اس مسئلے کے حل کے لیے یہ مان لیا گیا ہے کہ خواتین کم سے کم اسکول کالج میں توپڑھا سکتی ہیں ۔اس کے سوا دوسرے باعزت پیشے ہمیں اس لیے نظر نہیں آتے کہ ہم نے خواتین کو لے کرچند ایسے نظریے اورسپنے پال رکھے ہیں جو ہر وقت سر پر سوار رہتے ہیں اور کوئی معقول بات سوچنے نہیں دیتے۔
امورِخانہ داری = امورِ مملکت؟
کچھ سخت گیر عناصر عورتوں کا امور خانہ داری کو چھوڑ کر امور مملکت میںدخل دینا قیامت کی نشانی سمجھتے ہیں۔ عورتوں کا سیاسی و معاشی سرگرمیوں میںبھی حصہ لیناان کے نزدیک کفر سے کم نہیں ۔ان کی نظر میں عورت کا مصرف بس یہی ہے کہ ”شادی بیاہ ہو،بچے ہوں، نماز قرآن پڑھے، بچو ں کی تربیت کرے، کھانا پکائے دسترخوان سجائے ، کپڑے دھوئے یا واشنگ مشین میں ڈال دے، استری کرے ، گل بوٹے بنائے، منہدی کے ڈیزائن سیکھے، ماہنامے واہنامے پڑھے، اس سے آگے مسلم معاشرے میں عورتوں کا آخر کیا رول ہونا چاہیے؟“ ان کی زبان یہ کہتے نہیں تھکتی کہ ”مغرب نے عورت سے اس کی مامتا چھین لی ہے اور اسے بازار کی شئے بنا دیا ہے اب عورتوں کو ماں کے رول میں لوٹنا ہوگا تاکہ وہ مربی کی حیثیت سے اپنی اولاد کی تربیت کرے۔“ماں کے رول میں لوٹنا یا نہ لوٹنا مغرب کا مسئلہ ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خواتین اپنے اوپر عائد ہونے والی فطری ذمے داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دیتے ہوئے کس طرح ہندوستانی معاشرے میں مثالی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایسا کردار جس سے کہ ان کا نسوانی وقار بھی باقی رہے اور وہ گھر سے باہر کی دنیا میں بھی انقلاب لا سکیں۔ ہر صورت میں ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ امورِ خانہ داری اور امورِ مملکت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
دائرہ کارکی بحث یااستحصال کی تکنیک ؟
عورت کو مربی کی حیثیت میں پیش کرنے والے حضرات کے نزدیک مسلم خاتون کی مربیانہ حیثیت کہاں سے شروع کرکس جگہ ختم ہوتی ہے، اس کے متعلق کوئی واضح رہنمائی اب تک موجود نہیں ہے۔ عورت کو مربیانہ حیثیت میں پیش کرنے والے حضرات کے نزدیک مربی کا ایسا بندھا ٹکا فارمولا ہے جس میں ’امور خانہ داری‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ سب سے پہلے عورت اور مرد کے دائرہ کار کو اسلام کے ترجمان بن کر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے گھروں میں عورتوں کا استحصال جاری رہ سکے۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں پر کھانا بنانے اورکپڑے لتے دھونے کو نماز کی طرح فرض کر دیتے ہیں۔ وہ شریک حیات کو ایک دایہ کے جملہ فرائض سونپ کریہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خواتین کو ان کے فطری دائرہ کار میں رکھا ہے اور ان کے لیے باعزت طریقے سے زندگی بسر کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔
خواتین کا دائرہ کار کولہو کے بیل اور آٹا پیسنے کی چکی جتنا نہیں ہو سکتا۔ ملت اسلامیہ ہند کے علما و مفکرین کااس بات کو بہ تکرار کہتے چلے جانا کہ’ اللہ تعالیٰ نے خواتین پر معاشی تگ و دو کا بوجھ نہیں ڈالا اور یہ ذمے داری مردوں پر ہے‘ در اصل ایک ایسا تکنیکی بیان ہے جس سے خواتین عمر بھر مردوں کی دست نگر اور ان کی محتاج بنی رہتی ہیں۔ان کے اندر امور خانہ داری کے سواکوئی دوسری فنی مہارت یا علمی صلاحیت حاصل کرنے کی تمنا نہیں جاگتی۔شوہر اوربال بچوں کے لیے دو وقت کھانا بنانے اوران کے کپڑے لتے دھونے ، پریس کرنے جیسے چھوٹے موٹے کاموں ہی میں ان کا سارا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ انہیں چھوٹے موٹے کاموں کو خواتین کی عظیم ترین ذمے داری قرار دے کراسلام کی آڑ میں ان سے خدمت لینے کا جواز پیداکیا جاتا ہے۔ حالانکہ کھانا بنانا اور کپڑے لتے دھونا زوجہ پرفرض نہیں ہے اورنہ کسی طور یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مردوں کو اللہ تعا لیٰ نے امور خانہ داری( یعنی کھانا بنانا،برتن دھونا ، سینا پروناوغیرہ )کی انجام دہی سے رخصت دے دی ہے۔ یہ بھی کوئی شرعی حکم نہیں کہ مردوں کو کھانا نہیں بنانا چاہیے یاخواتین پر معاشی تگ و دو حرام ہے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین کو اللہ تعالیٰ نے مردوں سے زیادہ آسانیاں اورسہولتیں دے رکھی ہیں ۔ باہمی سمجھوتے اور افہام و تفہیم کے ذریعے مرد اور عورت گھریلو کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے دینے کے بجائے خواتین کے روزمرہ کے مروجہ معمول ہی کو من جانب اللہ قرار دینا خواہش نفس کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ۔واضح رہے کہ مردوں کا پورا متوسط طبقہ آٹھ گھنٹے آفس کی ڈیوٹی بجا کربقیہ اوقات میں چین کی بنسی بجاتا ہے جو کسی بھی طرح مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
خواتین اور ورک کلچر
جب ایک بار یہ معلوم ہو گیا کہ عورتیں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں تو پھر اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی ان کا دائرہ کار طے کیا جانا چاہیے۔اور دائرہ کار طے کرنے کا اختیار صرف مردوں ہی کو نہیں ہے۔دین اور شریعت کی آڑ میں مردوں کی قوامیت کا حوالہ دے کر عورتوں کو یہ باور کراناکہ انہیں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ،دراصل انہیں شوہروں پر نامناسب حد تک انحصار کرنے کی ترغیب دینا ہے ۔ یہاں مسئلہ صرف عورتوں کے گذارے اور نان و نفقہ کا نہیں بلکہ ان کے وقار کا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس خاتون کو سینے پرونے اور گل بوٹے بنانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ آتا ہو وہ اپنے شوہر کے مرنے کے بعد یا تو وراثت میں ملنے والا سرمایہ خرچ کرے گی یا بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گی۔ بیٹے پر حق ضرور ہوتا ہے مگراپنے ذریعے حاصل کیے گئے سرمایے کی بات کچھ اور ہے۔ کیا اسلام یہی چاہتا ہے کہ خواتین زندگی بھر اِس اُس کے سامنے محض اپنا حق مانگتی پھریں اور مر د ”اَن داتا “ بنے دنیا کی زمینوں کے بیشتر حصے پر قابض رہیں، تجارت اور صنعت و حرفت پر انہیں کا غلبہ ہو ؟ بازارِ حصص ان ہی کی مٹھی میں ہو، کل کارخانے ، کھیت کھلیان، موٹر گاڑیاں ،بنگلے وغیرہ صرف مردوں کے نام ہوں اور خواتین کو اس تمام دنیوی مال و متاع میں سے کچھ ملے بھی تو صرف اپنے اقربا کی موت کے بعد؟
پس عورتوں کا امپاورمنٹ انہیں معاشی طورپر طاقتور بنائے بغیر نہیں ہوسکتا۔بار بار یہ دہرانے کی ضرورت ہے کہ متوسط طبقے کی ایک خاتون کی معاشی ضروریات محض حق مہر پالینے اور نان و نفقہ حاصل کر لینے سے پوری نہیں ہو جاتیں۔ اگر شوہر تنگدست نہ بھی ہو اور بیوی کی تمام فرمائشیں پوری کر سکتا ہوتب بھی زوجہ کو معاشی تگ و دو کرنے سے روک کر اسے کاہلی اور بے عملی کی حالت میں مبتلا کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں ۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس میں شوہر اب بھی مجازی خداسمجھا جاتا ہے جس کی مٹھی میں عورت کی تقدیر ہوتی ہے۔ وہی اس کی پسند و ناپسندکو طے کرتا ہے ۔ وہی طے کرتا ہے کہ عورت کو کب مائکے جانا ہے اور کب نہیں جانا ۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں باہمی افہام و تفہیم سے طے کرنے کی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں مرد تو اپنی قوامیت کا واسطہ دے کر عورت کو اپنی اطاعت پر آمادہ کر لیتا ہے۔ مگر جب عورت اپنے حقوق پر اصرار کرے تو اس کوسر کشی اوربغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا کرنے پر طلاق کے دو بول ،بول کر اس کی اوقات تک بتائی جا سکتی ہے ۔ان تمام حالات کے مد نظر اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ خواتین معاشی طورپرزیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں ۔جب وہ معاشی طور پر استحکام حاصل کر لیں گی تو زوجین کے درمیان کے تنازعات طاقت سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے حل ہوں گے اور فریقین کو بات چیت کی میز تک آنے کے لیے تیار ہونا ہی پڑے گا۔ ان امور پرمنصفانہ نقطہ نظرسے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے ساتھ برابری کا سلوک ہو اور وہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں مساویانہ طور پر حصہ لے سکے۔
خواہ کسی بھی زاویے سے سوچا جائے خواتین کے تئیں ہمیں اپنے رویے کو ہی نہیں بلکہ اپنے نظریے کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔آئندہ زمانے کی خواتین کا کردارصرف گھر تک محدود نہیں رہ سکے گا بلکہ وہ سیاست و معیشت پر راست اثر انداز ہوں گی بلکہ ہو رہی ہیں۔میٹرو پالیٹن شہروں کی خواتین میں جو ورک کلچر پیدا ہو ا ہے وہ یقینانسوانیت کے شایان شان نہیں ۔ مگر اس کو بہانہ بنا کر بالذات ورک کلچر کو بر کہنا بھی صحیح نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خواتین کے لیے ایک متبادل ورک کلچر کی تشکیل کی جائے۔ انہیں روزگار سے لگایا جائے ۔
حالانکہ خواتین کے لیے روزگار کی بات کرنا ہمارے متوسط طبقے کی تہذیبی روایات میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ در اصل یہ اسلام نہیں بلکہ ہماری تہذیب اور ثقافت ہے جس نے آدھی دنیا کو عضو معطل اور بے سرو سامان بنا کر چھوڑ دیا ہے۔اس مائنڈسیٹ کو بدلا جانا چاہیے اور متوسط طبقے کی خواتین کے لیے ان کے شایان شان ذریعہ ¿ معاش اور ورک کلچر پیدا کرنے کی طرف توجہ کی جانی چاہیے۔خواتین میں ورک کلچر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وقت کا جتنا بڑا حصہ بد نظمی کے سبب ضائع ہو جاتا ہے اس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو انقلابی نوعیت کے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔