ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم, عصر حاضر کے ایک تجدد پسند رجحان رکھنے والے مفسر قرآن ہیں. انہوں نے انکار حدیث کی انوکھی راہ نکالی ہے. ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ قرآن کی وہ آیات جن میں سائنسی مضامین بیان ہوئے ہیں, ان کے سلسلے میں اسلاف (صحابہ, تبع تابعین, مفسرین وغیرہ) کی رائیں تو ایک طرف, خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی قطعی نہیں ہوگا. ڈاکٹر صاحب کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
"...قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے, نہ سائنس کی ہے نہ ٹیکنالوجی کی ہے. اس حوالے سے ایک بڑا
منطقی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے اسلاف نے قرآن کی ان آیات کا کوئی خاص مفہوم معین کیا اپنے دور کی معلومات کی سطح پر, ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں. سائنسی فینومنا کو جو سائنسی ترقی ہو رہی ہے اس کے حوالے سے سمجھیں گے. یہاں تک کہ اب آخری بات عرض کر رہا ہوں, خود حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھی اس میں قطعی نہیں ہوگا. یہ بات بہت ثقیل اور گراں گزرے گی بہت سے لوگوں پر. سائنس اور ٹکنالوجی میں اگر حضور کی کوئی حدیث بھی سامنے آ جائے تو اس کو بھی ہم کوئی دلیلِ قطعی نہیں سمجھیں گے. اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک واقعہ بہت اہم ہوا حضور کی زندگی میں. حضور جب ہجرت فرما کر تشریف لائے مدینہ منورہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضور کی پیدائش مکے کی, ساری زندگی آپ نے وہاں گزاری, وہ وادی غیر ذی ذرعہ ہے, وہاں کوئی پیداوار, کوئی زراعت, کوئی کاشت ہوتی ہی نہیں تھی, آپ کو کوئی تجربہ سرے سے نہیں تھا, ہاں تجارت کا تجربہ تھا, بھرپور تجارت کی تھی, یہاں آئے تو آپ نے دیکھا کھجوروں کے سلسلے میں انصار مدینہ تعبیر نخل, وہ ایک اصطلاح ہے, کھجور ایک ایسا پودا ہے جس کا ایک فی میل فلاور ہوتا ہے اور ایک میل علیحدہ, اب میل فلاور اور فی میل فلاور ان دونوں کو قریب لے آئیں, تو اس سے اس بات کا زیادہ امکان ہو جاتا ہے (کہ) فرٹیلائزیشن ہو, اور پھل بنے اور زیادہ آپ کو پھل حاصل ہو, فصل زیادہ ہو, اگر وہ فاصلے پر رہیں گے تو ہو سکتا ہے اس کا امکان کم ہو, تو وہ اس کو قریب جوڑ دیتے تھے. حضور نے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ یعنی نیچر جو ہے, نیچر کین ٹیک کیئر آف اٹسیلف, آخر فطرت ہے, فطرت نے یہ ساری چیزیں بنائی ہیں, آپ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ صرف یہ کہا آپ نے, آپ نے روکا نہیں, لیکن ظاہر بات ہے صحابہ کرام کے لیے, رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین, حضور کا اتنا کہنا بھی گویا کہ حکم کے درجے میں (تھا), انہوں نے اس سال وہ کام نہیں کیا, فصل کم ہو گئی, اب وہ ڈرتے ڈرتے, جھجھکتے جھجھکتے حضور کی خدمت میں آئے, حضور آپ نے وہ فرمایا تھا, ہم نے وہ نہیں کیا, تعبیر نخل اس سال نہیں کی ہم نے, فصل کم ہوئی ہے. آپ نے فرمایا, انتم اعلم بامور دنیاکم, اس کا ایک ایک لفظ یاد کر لیجیے, انتم اعلم بامور دنیاکم, اپنے ... دنیوی و مادی معاملات میں تم زیادہ تجربہ کار ہو, تم زیادہ حقائق سے واقف ہو. ... اعلم کا لفظی ترجمہ کرنے کی جرات مجھے نہیں ہو رہی ہے, تم زیادہ واقف ہو ان چیزوں سے, میں یہ چیزیں سکھانے نہیں آیا, آپ ٹیکنالوجی پڑھانے نہیں آئے تھے, آپ طب سکھانے نہیں آئے تھے, آپ کوئی اور سائنس پڑھانے نہیں آئے تھے, ورنہ تو ہم شکوہ کرتے کہ آپ نے ہمیں ایٹم بم بنانا کیوں نہیں سکھا دیا پہلے ہی, نہیں, یہ موضوع ہی نہیں ہے, قرآن کا موضوع معین ہونا چاہیے. قرآن کا موضوع انسان کی ہدایت, اس ہدایت کے لیے جس قدر اس کو ضرورت ہے علم کی, کہ...جو یہ فیزیکل فینومینا ... (ہیں), ان کے حوالے سے بھی ہدایت حاصل کرے, اس حد تک ان کا تذکرہ ہے, لیکن یہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ قرآن مجید کے الفاظ میں جو شئے مضمر ہے وہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوگی. یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا کوئی مفہوم ہمارے اسلاف نے ایک ہزار برس پہلے یا چھ سو برس پہلے سمجھا ہو, اور وہ مفہوم غلط ثابت ہو جائے, وہ ایک علیحدہ بات ہو گئی لیکن قرآن مجید کا ٹیکسٹ جو ہے اس کے اندر کہیں ایسی بات نہیں آ سکتی." (حوالہ نیچے تبصرے میں دیکھیں)
دیکھا آپ نے ڈاکٹر اسرار احمد کس قدر جرات و بیباکی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن میں موجود سائنسی نوعیت کی آیات کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی قطعی نہیں ہوگی. یعنی ڈاکٹر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق کوپرنیکس, گیلیلیو, نیوٹن اور آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ ایسے علمائے سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں تو قرآن کی سائنسی آیات کی نئی تعبیر کی جا سکتی ہے لیکن اسلاف نے اپنے زمانے کی معلومات کی سطح پر قرآن کی سائنسی آیات کا جو مفہوم معین کیا وہ قطعی نہیں ہوگا. اتنا ہی نہیں
"خود حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھی اس میں قطعی نہیں ہوگا".
کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ اللہ تعالی نے جن پر قرآن نازل کیا ہو ان کا فرمان بھی قرآن کے معنی معین کرنے میں قطعی نہیں ہوگا. غنیمت ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نہ فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے "اپنے زمانے کی معلومات کی سطح پر قرآن کی آیات کے مفہوم معین کیے تھے!"
اتنی مہارت کے ساتھ حدیث کا انکار کر کے قرآن کی نئی تعبیر کی جرات تو سر سید کو بھی نہ ہوئی تھی جنہوں نے صحف مقدسہ کی تعبیر کا ایک جدید اصول "تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل علی ملۃ الاسلام" میں بیان فرمایا تھا:
"كلام الهي کي اصلي مراد سمجهنے کے لیئے بعض مقامات پر اس طرح معنوں کا لینا جایزهي نہیں ھے بلكه نہایت ضروري ہے. غور کرنے کی بات ھے که الله تعالی نے هماری تہذیب اخلاق اور پاکیزگي روح کے لیے انبیا بھیجے اور ان کو وحی عنایت کی تاکه اس سے هم اپنے اخلاق بهي درست کریں اور نجات ابدي بهي حاصل کریں پھر وہ تعلیمیں ہمارے خیال اور گمان میں بهي نہ تھیں علاوہ اس کے ایسے دقیق اور نازک مضامین بھي تھے جنکا سمجهه میں آنا اور آنکي اصليت اور حقیقت کا دریافت کرنا انسان کی سمجهه اور فکر سے باهر تها اور ایسے مضامین تو بہت کثرت سے تھے جنکا بغیر ترقي علم کے سمجهه میں آنا غير ممکن تها اور رحمت اور حکمت الهي مقتضي إسبات کي تهي که هماري تمام جماعت انسانی بقدر اپني اپني استعداد کے اس سے فائده اٹھائے خصوما اس وقت میں بھی جبکہ هماري سوسائٹی بچپن کی حالت میں تهي اور کسی طرح علم نے ترقی نہیں پائي تهي اسلیئے مقتضاے حکمت یهه تها که خدا کي وحي ايسی طرز و انداز بیان سے نازل هو که آسکے اصلي نتيجه سے کسی زمانہ میں اور کوئي شخص محروم نه رهی ، پس ضرور هوا که ایسے مضامین جو درحقیقت انسان کی سمجهه سے باهرهیں یا بچپن کي حالت هماري سوسیٹی کی ان کے سمجهنے کي لياقت نہ رکهتي تهي وہ بطور مثال اور تشبيهه کے بیان کی جاویں اور گو کہ وہ مضامین مثالی اور تشبيهي کسي زمانه میں حقيقي سمجهے گئے هوں ، مگر اس سے کچهه نقصان اور قباحت هماري خلقي اور روحانی تربیت کو نہیں تھا کیونکه اسکے نتیجه میں خواه وہ مضامین مثالی اور تشبيهي سمجهي جاویں جس طرح پر کہ بیان ہوئے تھے خواہ اصلي اور حقيقي كسی طرح کا تفاوت نه تها
ان باتوں کے سبب ضرور تھا که کلام الهي صرف بطور حقیقت هي کے نه بیان کیا جائے بلکه بطور مثال اور تشبيه کے بهي هو تاکه هماري ضعيف عقل اسکے ذریعه سے اس اصلی تعلیم اور اسکے متحد نتيجه سے محروم نرهے پس کلام الہي کو يکسر تمثيل أور تشبيه سے خالي سمجهنا اور آسکے سیاق اور اسکے مقتضی سے درگذرنا ایسا ہی جیسیکہ اس کے تمام کلام کو تمثيلي اور تشبيهي اور خیالات شاعرانه سمجھنا.
جسطرح که اقسام مذکورہ بالا کے مضامین نے جو کلام الهي میں واقع هیں اسپر اعتقاد رکھنے والوں کو کھبرا لیا ھے آسي طرح ان الفاظ نے بھی جو کلام الهي ميں واقع هیں اور حال کي ترقي علم نے انکے برخلاف ثابت کیانہے حد سے زیادہ ان کو گھبرا دیا ہے مگر وہی ترقی علم ہم کو یہ بھی دکھاتی ھے که ان الفاظ کے تعبير معانی میں جس قدر قصور تھا ہمارے علم کا تھا نه كلام الهي کا، درحقیقت انبیاء کے بھیجنے اور وحی کے نازل کرنے سے اصلی مقصود انسان کي روحاني تربيت هے جو امور که تجربه اور ترقي علم پر منحصر ہیں جو روز بروز انسان پر هوتي جاتی ھے ان سے کچهه بهي علاقه نہیں ہے اسلیئے ضرور تها که جو الفاظ انبیاء کے دل میں ڈالی جاویں وہ انسان کي هرحالت علم اور سمجهه سے باهر نہ ہوں مگر اس کے ساتهه يه بهي ضرور تها که وة الفاظ حقيقت کے بهي برخلاف نہوں تاکه هر ایک زمانه کے آدمي بقدر اپنے علم کے جو اس زمانہ میں رکهتے هین اس سے روحاني فائده اٹھاویں اور جبکہ انسان کے علم کو زیادہ تر ترقي هو اور حقیقت اشياء نسبت سابق کے زیاده تر اسپر منکشف هوں تو وہ جان لے کہ جو الفاظ انبیاء کے دلوں میں ڈالے گئے تھے وہ بھي اسي ترقي يافتم علم کی طرف اشارہ کرتے تھے انکے معانے کی تعبیر میں جہانتک قصور تها همارے ہي علم کا تها نه آن الفاظ کا اس بیان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کلام انبیا کا کس قدر عظمت اور منزلت رکھتا ہے کہ باوجود هماری مخالف اور متبائن خیالات کے مطابق حقیقت اور هر ایک وقت هماري روحانی تربیت کو مفید اور کافي تها."
(حوالہ: سر سید احمد خاں, تبیین الکلام, حصہ دوسرا, صفحہ 31 تا 34)
ذرا غور فرمائیے کہ سر سید کی فکر کیسے کیسے گل کھلا رہی ہے اور کس قسم کے لوگ ان سے استفادہ کر رہے ہیں! اور سیاسی اسلامسٹوں کو سر سید کی فکر کس کس کروٹ راس آ رہی ہے. حالانکہ سر سید نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان سے اس طرح کھلے بندوں انکار نہ کیا تھا.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں