جمعرات، 21 مئی، 2020

ارطغرل غازی والی فلمی حکمت عملی

حالیہ دنوں میں ارطغرل غازی نامی سیریل نے مذہب کے نام پر جو غیرمعقول رجعت پسندانہ کیفیت ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کر دی ہے، اس کو کم لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ غیرمعقول میں نے اس لیے کہا کہ یہ سیریل جس مذہبی طنطنے کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اس کے چند ہی سین دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اسلام کی سچی ترجمانی نہیں کرتا اور اسلام کے نام پر ایک خاص قسم کا فریب دیتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں اس نکتے کو ثابت کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس تاریخی کردار ارطغرل کو اس سیریل میں پیش کیا گیا ہے، ہمارے بعض ماضی پرست اردو مبصروں نے اس کا عقیدہ اور مسلک تک دریافت کر لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ارطغرل کا تعلق ترک قبائل کی شاخ قائی قبیلے سے تھا اور یہ قبیلہ عقیدتاً اہل سنت و الجماعت سے منسلک تھا اور مسلکاً حنفی تھا!
مجھے نہ ارطغرل غازی کے اہل سنت ہونے سے کچھ غرض ہے اور نہ اس کے مسلکاً حنفی ہونے سے۔ لیکن حنفیت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا کرنا ارطغرل غازی کے تاریخی کردار سے متوقع ہے۔ اسی طرح اس سیریل کے مصنف اور ہدایت کار چاہے کسی بھی اسلامی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، ان کو چاہیے تھا کہ فلم بناتے وقت حنفی مسلک کی فقہ کو دھیان میں رکھتے لیکن انہوں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اسی کے نتیجے میں پورے کا پورا سیریل غیرمعقول، غیراہل سنت والجماعت، غیرحنفی اور غیراسلامی ہو گیا ہے۔
یوں تو فلم اور سیریل بنانا ہی اسلام کی رو سے ناجائز و حرام ہے۔ سر سید احمد خاں صاحب کی تکفیر بھی دیگر وجوہ کے ساتھ اسی وجہ سے بھی ہوئی تھی کہ وہ تصویر کو جائز کہتے تھے۔ (مذاہب اسلام از نجم الغنی رامپوری) لیکن چلیے اب کمیرہ اور ٹی وی کی ذی روح تصویریں کو جائز کر ہی لیا گیا ہے تو کم از کم بقیہ اسلامی احکامات و ہدایات کا تو خیال ڈائرکٹر کو رکھنا ہی چاہیے تھا ورنہ پھر وہ کس اسلام اور اسلام کے کن زریں اصولوں کی تبلیغ اپنے سیریل میں فرما رہے ہیں؟ اور کس اسلامی تہذیب کا شوق ،نوجوانوں کو دلا رہے ہیں؟ اور بالفرض ارطغرل سیریل کے مصنف اور ہدایت کار صحیح اسلامی ہدایات سے واقف نہیں تو کیا برصغیر کے ہمارے اسلامسٹ مبصروں کو بھی ان کا علم نہیں جو اس سیریل کو بحیثیت ایک اسلامی سیریل کے متعارف کرا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، وہ یہ دعوی بھی کر رہے ہیں کہ ارطغرل غازی کو دیکھ کر متعدد لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں! فلموں اور سیریلوں کے ذریعے اسلام پھیلانے کی یہ کوشش سوائے نادانی کے اور کچھ نہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اس سیریل کے خالقوں کی اہل سنت و الجماعت اور حنفی فقہ اور اسلام سے ناواقفیت کا ثبوت فراہم کریں، ہم برصغیر کے چند مبصروں کا قول نقل کرتے ہیں تاکہ اسلام پسندوں کے نزدیک اس فلم کی اسلامی حیثیت کیا ہے، وہ واضح ہو جائے!
ایک مبصر فرماتے ہیں:
"حال ہی میں بی بی سی نے ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ارطغرل ڈرامہ میں جو دکھا گیا ہے وہ خلاف حقیقت اور تاریخ کے برعکس ہے ۔ کئی یورپین اور امریکی دانشوروں نے بھی اس ڈرمہ پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ارطغرل ایک گمنام ہے جسے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے زبردستی ہیرو بناکر پیش کردیا ہے ۔
۔۔۔
تاریخ پڑھنے اور ڈرامہ دیکھنے کے بعد آپ یقینی طور پر یہی کہیں گے کہ ڈرامہ میں جو کچھ دکھاگیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے اور اس وقت کے یہی حالات تھے جیسا ڈرامہ میں بتایا گیا ہے ۔
۔۔۔
ڈرامہ میں پیش کی گئی فکر ، جدو جہد، صلیبیبوں اور منگولوں سے لڑائی حقیقت پر مبنی ہے ۔ ارطغرل کا تعلق ایک خانہ بدوش قبیلہ سے تھا جس نے عظیم اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا اور اس کا مشن پورا ہوا ۔ اس کے نام سے منگولوں اور صلیبیوں پر ہیبت طاری تھی اور آج اس کے کردار پر ڈرامہ بننے کے بعد پھر یورپ اور امریکہ پر اس غازی کا خوف طاری ہوگیا ہے ۔"
شمس تبریز قاسمی، اڈیٹر، ملت ٹائمز اور جوائنٹ ڈائرکٹر پریس کلب آف انڈیا۔
https://urdu.millattimes.com/archives/55874

ایک اور مبصر لکھتے ہیں:
"۔۔۔ اسلام دشمن اور خدا کے منکرین کا طبقہ اس ڈرامے کے خلاف بہت ہی بدترین بدہضمی کا شکار ہےـ کیونکہ غازی ارطغرل کا یہ تاریخی ڈرامہ مسلمانوں میں جس نظریے اور جذبات کو انگیخت کررہاہے اسی سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے لیے عالمِ کفر نے گزشتہ ۲ سو سال لگاتار محنت کی ہے۔"
"دیریلیس ارطغرل غازی ایک شاہکار نظریاتی قوت کا ثبوت دے رہا ہے،اس نے پوری دنیا میں مسلم نوجوانوں کے اندر عروج کی انگڑائی پیدا کردی ہے، اس ڈرامے نے مسلمانوں کو اپنے ماضی کے عظیم شہسواروں اور ہیروز کی جستجو میں ڈال دیا ہے، امریکہ اور برطانیہ کے پروڈکشن ہاؤز کا اثر مسلمانوں سے کم ہوگیا، مغرب، بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے مسلط کردہ شیطانی ہیرو اپنا اثر کھو رہےہیں۔" (خان سمیع اللہ)
https://qindeelonline.com/urtugal-darama-asarat-aur-ateraz…/

یہ دو تبصرے اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ ارطغرل غازی سیریل کو ہمارے مذہبی لوگ کس قدر پسند کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جو لوگ اس سیریل کو پسند کر رہے ہیں ان کی دشمنی "منکرین خدا" اور "عالم کفر" سے کتنی زیادہ ہے اور انہیں "ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے شیطانی ہیروز" سے کس قدر نفرت ہے۔
لیکن اتنی بڑے اسلامی سیریل کے متعلق مفتیان دین اور حامیان شرعِ متین کا فتوی کیا ہے وہ بھی سن لیجیے۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہوں گا۔ مفتی خلیل الرحمن قاسمی برنی، بنگلور ارطغرل غازی کے متعلق فرماتے ہیں:
"اس ڈرامے کی پہلی خرابی یہ ہے کہ اس میں تاریخی سچائی سے انحراف کیا گیا ہے۔کیوں کہ غازی ارطغرل کی مستند تاریخ محفوظ نہیں ہے۔دوسری خرابی یہ ہے کہ اس میں حسین عورتوں کا کردار بھی شامل کیا گیا ہے۔ظاہر ہے یہ عورتیں دیکھنے والوں کے لئے نامحرم ہیں لہذا! اِن کو دیکھنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نامحرم عورتوں کو دیکھنا آنکھ کا زنا قراردیا ہے۔نامحرم خواتین پر نظرڈالنا ایسا گناہ ہے جو بھیانک گناہوں تک لے جاتاہے۔
اس ڈرامے کی تیسری خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں عشق و معاشقہ کے مناظر پیش کئے گئے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے مناظر معاشرہ کے لئے اوربالخصوص نوجوان نسل کے لئے کس قدر مہلک اوراخلاق سوز ثابت ہوتے ہیں۔علماء نے لکھا ہے کہ فحش ناول یا جرائم پیشہ لوگوں کے حالات پر مشتمل قصے یا فحش اشعار لہوِ حرام میں داخل ہیں۔
پانچویں خرابی جو اظہرمن الشمس ہے،یہ ہے کہ یہ سراسر لایعنی اورعبث چیز ہے۔اس سے نہ دینی فائدہ ہے اورنہ دنیوی فائدہ .محض تضییع اوقات ہے۔اس طرح کی چیزیں روحانیت کے لئے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔
اس ڈرامے کی چھٹی خرابی یہ ہے کہ اس میں تصویر یں ہیں جب کہ تصویر کا حرام ہونا ہرزمانہ میں تمام علماء کے نزدیک مسلم رہاہے۔تصویر کے سلسلے میں علماء کا شدت پسند رویہ اس حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔
یہ ساری خرابیاں اورکئی قسم کے گناہ ”ارطغرل“ڈرامے میں جمع ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام دارالافتاؤں نے ”ارطغرل“ ڈرامے کو دیکھنا حرام قراردیا ہے۔
جو لوگ اس کو یکھنے کے جواز پر اصرار کررہے ہیں یقینا ان کا یہ نظریہ غلط اور راہِ راست سے ہٹاہواہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کو دیکھنے سے انقلابی کیفیت اوربہادرانہ عزائم پیداہوتے ہیں تو میں اِن لوگوں سے کہوں گا کہ اگر وہ یہ صفات پیداکرناچاہتے ہیں تو انہیں قرآن و حدیث اورسیرتِ رسول و سیرت صحابہ سے وابستہ ہونا چاہیے۔اس سے صالح انقلاب کے جذبات بھی پیدا ہوں گے اوراخلاق وکردار میں پاکیزگی اوربلندی بھی آئے گی۔"
https://hindustanurdutimes.com/%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%85%DB…/

غرض ہم نے دیکھا کہ ماڈرنسٹ اسلام پسندوں کی ارطغرل غازی کے متعلق کیا رائے ہے اور روایتی علمائے دین کا فتوی کیا ہے۔ اگر کسی فلم میں مرد و زن کا بے پردہ اختلاط دکھایا جائے، حسین عورتیں ہوں جو اپنی شکل و صورت کے حسن کی نمائش کر رہی ہوں، مرد و زن کے مابین معاشقہ بھی اس فلم میں دکھایا گیا ہو تو اس کو "اسلامی فلم" کیونکر کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو صریح غیراسلامی فلم ہوگی! انہیں سب باتوں کے لیے تو ہم ہالی ووڈ - بالی ووڈ کو برا کہتے رہے ہیں اور ٹی وی کو شیطانی بکسا قرار دیتے رہے ہیں۔ انہیں باتوں کی وجہ سے ہم مغربی تہذیب کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ اب یہی سب کچھ ہم کو اسلام کے نام پر دیکھنے کو مل رہا ہے تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مغربی تہذیب اپنا مقدمہ جیت چکی ہے۔ اور ماڈرن فرزندان اسلام پاکیزہ معاشرہ کے قیام کا اپنا دعوی کہیں دور چھوڑ آئے ہیں اور اس بات پر آمادہ ہیں کہ نامحرم مرد اور خواتین کو ناظرین کے سامنے پردے پر سجا سنوار کر پیش کیا جائے۔ یہ صریح مغرب والے اختلاط مرد و زن کی شروعات ہے۔
اس سلسلے میں اسلامی فقہ کی رو سے اصل نکتہ "سترِ عورت" کا ہے۔ اگر ایک فلم کار فلم بناتے وقت ستر عورت کو ملحوظ نہ رکھے تو اس کی فلم کو اسلامی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ارطغرل غازی میں ستر عورت کے حنفی قواعد کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اگر کسی غیر حنفی نقطہ نظر سے بھی دیکھِیں تو اس میں ہیروئن کی زلف کھلی ہوئی ہے، یعنی سر کو ڈھانکا نہیں گیا۔ یہ اسلام کے نام پر بنائی گئی فلم کے گمراہ کن ہونے کی صریح دلیل ہے۔
اسلام میں خواتین کے زلف کھول کر شوٹنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ممکن ہے کہ ماڈرن اسلام پسند یہ کہیں کہ صرف زلف ہی تو کھولی گئی ہے، اس میں کیا حرج ہے، ہالی ووڈ بالی ووڈ کی فلموں میں تو اور بھی بہت کچھ کھلا رہتا ہے۔ تو ایسے ماڈرنسٹ مذہبی رجعتیوں سے میرا کہنا ہے کہ جو ہیرے کا چور وہ کھیرے کا چور۔ اس طریقے سے فلمیں بنانا صریح گناہ کی بات ہے۔ یہ مفتی خلیل الرحمان قاسمی، بنگلور کے متذکرہ بالا مضمون سے قطعی واضح ہے۔
میں نے ارطغرل غازی سیریل کو ادھر ادھر سے دیکھا ہے، پورا دیکھنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔ لیکن جس قدر اس کو دیکھ سکا ہوں، میں اپنی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ اس نے مجھے کہیں سے مجبور نہیں کیا کہ اس کو پورا دیکھوں۔ میں تو ایسی فلموں دیکھتا ہوں کہ جنہیں اگر پانچ منٹ دیکھ لیا جائے تو پوری فلم دیکھے بغیر چین نہ آئے۔ اس لحاظ سے میں ہالی ووڈ فلمیں بھی دیکھتا ہوں اور بالی ووڈ فلمیں بھی۔
اگر ایک شخص کو فلمیں بنانی ہی ہیں اور فلمیں دیکھنی ہی ہیں تو اس کے لیے اسلام کا نام لینے کی کیا ضرورت ہے؟ جیسا کہ روایتی علما کہتے ہیں اسلام میں تو اس کی اجازت ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا نام لیے بغیر ہم نے اعلی درجے کی معیاری فلمیں بنائی ہیں اور عالمی سطح کے اداکار پیدا بھی کیے ہیں۔ مثلاً مدھوبالا، نرگس، سائرہ بانو، دلیپ کمار، شاہ رخ خان، عامر خان، عرفان خان، نواز الدین صدیقی، سلمان خان وغیرہ۔ ان اداکاروں کی بہت سی فلمیں ایسی ہیں کہ ان کو سنیما کی تاریخ میں لازوال حیثیت حاصل ہے۔ انہیں اداکاروں سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔ یہ وہ اداکار ہیں جو بلاتفریق مذہب و ملت تمام عالم انسانیت کے لیے اپنے فلمی کارناموں اور معرکوں کے لحاظ نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ اداکار بقیہ سب اداکاروں سے عظیم تر ہیں۔ فلم انڈسٹری میں ہر اداکار کی اپنی انفرادیت اور اپنی عظمت ہوتی ہے جسے وہ اپنی اداکاری کے زور سے قائم کرتا ہے۔
سنیماٹوگرافی سراسر ایک مغربی چیز ہے۔ مغرب ہی میں یہ پیدا ہوئی، اور مغرب ہی کے واسطے سے بقیہ دنیا میں پھلی پھولی، سنیما اور اسلام کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے سنیما کے میدان میں پیش قدمی اگر کرنی ہو تو اسلام کا حوالہ دینا قطعی غلط ہے۔
رہی بات سنیما کے ذریعے عملی زندگی میں اسلامی قدروں کو فروغ دینا تو جس مذہب میں سنیما دیکھنا ہی جائز نہ ہو، اس کو سنیما کے ذریعے فروغ دینے کی کوشش غیرسنجیدہ اور نازیبا ہے۔
آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اسلامی نظام کا قیام چاہنے والے اہل اسلام کو ارطغرل غازی ایسی گمراہ اور غیرشرعی فلموں کے دیکھنے سے محفوظ فرمائے۔ یہ دعا اس لیے کہ یہ اسلامسٹ آخر کس اسلام کو نافذ کریں گے؟ اسلام میں تو خواتین کو برقعہ پہننا ہے یا کم از کم سر ڈھانپنا ہے۔ اگر ارطغرل غازی سیریل کے زور پر اسلامی خلاف قائم ہو گئی تو اس میں اسلامسٹ حجاب کی پابندی کیسے کروا سکیں گے؟ کیا ان کے نزدیک اب اسلام میں حجاب کی پابندی اور ستر عورت کی شرط نہیں رہی؟
معلوم ہوتا ہے یہ ماڈرنسٹ اسلامسٹ حضرات ارطغرل غازی فلم کو محض عبوری حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب ارطغرل غازی اس سیریل کے ذریعے تاریخ کے دھندھلکے سے یکایک جست لگا کر برامد ہوگا اور خلافت قائم کر دے گا، تب اسلامی ریاست کے شہریوں کو یہ بتایا جائے گا کہ شرعی پردہ کی حد کیا تھی اور انہیں کس قسم کا حجاب کرنا ہے! یوں بھی آج کل ماڈرن اسلامسٹ بھی فرماتے ہیں کہ خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو ارطغرل غازی کی ہیروئن حلیمہ باجی نے موجودہ حجاب جیسا حجاب کیوں نہیں فرمایا؟ واللہ اعلم۔ بہت کنفیوزن ہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تبصرہ کریں