نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اسلامیات لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

قرآن کریم کی دو رخصتیں

ایک اہم اسٹیٹس پر میرے کچھ تبصرے: Tariq Ahmad Siddiqiقرآن کی وضربوھن والی آیت کی کیا نئی تفسیر ہو سکتی ہے تا کہ اس کی رو سے مرد کا عورت کو (یعنی شوہرکا بیوی کو) مارنے کا اختیار رکھنا ممنوع قرار پائے، اور متعدد دیگر معاملات میں عصری تقاضوں کے تحت قرآنی آیات کے نئے معانی وجود میں آ جائیں؟ 6 نو مبر کو 8:55 ﺻﺒﺢ بجے · Edited · Like Muhiuddin Ghazi طارق صاحب قرآن مجید میں اپنی مرضی کا حکم تلاش کرنے کے بجائے اللہ کا حکم تلاش کریں. اور پهر دیکهیں کہ اللہ کے حکم کی کیا شان ہوتی ہے اور وہ بندوں کے وسیع تر حقیقی مفادات کی کتنی حفاظت کرتا ہے. عصری تقاضوں سے زیادہ اہمیت ابدی تقاضوں کی ہوتی ہے. 6 نو مبر کو 9:40 ﺷﺎﻡ بجے · Like · 3 Tariq Ahmad Siddiqi سورہ نور کی درج ذیل آیت میں نکاح کے سلسلے میں جو ابدی ہدایات پیش کی گئی ہیں (یا آپ کے نقطۂ نظر کی رو سے جن ابدی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور ان میں جو آپشن دیے گئے ہیں، ان کی تمام شقوں پر عمل آوری کی کیا صورت آج لوگوں کو میسر آ سکتی ہے؟: وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ١ؕ اِنْ ي

اسلام اور مسلمانوں کو درپیش اصل خطرے

18 اپریل 2018 کو فیس بک پر میں نے درجِ ذیل مراسلہ لکھا تھا: دین خطرے میں ہے۔ مجھے بھی اس جملے سے لفظ بہ لفظ اتفاق ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے خطرے میں ہے، اس پر میری رائے دنیا کے بہت سے لوگوں سے علیحدہ ہے۔ ہمارا دین آج سے چودہ سو سال پہلے وجود میں آیا اور پہلا خطرہ اس دین کو تب پیش آیا جب عالم اسلام میں یونانی فلسفہ داخل ہوا۔ اس وقت کے مسلمانوں نے اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں اسلام میں علوم عقلیہ کا ظہور ہوا اور ہر بات کو عقل کی میزان پر تولا جانے لگا۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق مختلف قسم کے سوالات کیے جانے لگے، وجودی اور شہودی جھگڑا پیدا ہوا۔ وحی و رسالت پر مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور عقیدہ ایسا غیر متزلزل ہوا کہ اس کے اجزائے ترکیبی کے ٹوٹنے بکھرنے ک سلسلہ آج تک جاری ہے۔ دوسرا خطرہ دور جدید میں مغرب کے فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی کے ہمہ گیر عالمی غلبہ سے پیدا ہوا اور عقائد دینیہ کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ بھی سوالات کے دائرے میں آ گئی۔ اب عقیدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین، احکام اور ہدایات کی غیر موزونیت پر گفتگو ہونے لگی۔ ایسے متکلمی

تلاوت یعنی پڑھنا اور سمجھنا دونوں؟

عصرِ حاضر کے ایک بلند پایہ عالم دین مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو فیس بک پر’قرآن کو سمجھ کر پڑھنے‘‘ سے متعلق ایک اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا جو درجِ ذیل ہے: ’’قرآن کے الفاظ اللہ کے ہیں انہیں پڑھنا مطلوب۔ یہ الفاظ بامعنی ہیں، انہیں سمجھنا مطلوب۔ یہی پڑھنا اور سمجھنا تلاوت ہے۔‘‘ میں نے موصوف کے اس اسٹیٹس اپڈیٹ پر ایک مختصر گفتگو کی تھی جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں:

اسلام میں شورائیت پر ایک سوال

کیا اسلام میں سرشماری کے بعد کثرت آرا پر مبنی شورائیت قرآن سے ثابت ہوتی ہے؟ یعنی صدر حکومت اس کو چنا جائے جس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں؟ اور ریاست کے معاملات میں صدر ریاست اپنے مشیروں کی اکثریت کی رائے ماننے کا پابند ہو؟ فرض کیجیے، اگر مشیر پانچ ہوں اور چھٹا خود صدر ریاست ہو تو پانچ مشیر مل کر صدر کو تگنی کا ناچ نچا دیں گے، اور اگر مشیر چار ہوں تو ان میں سے تین اگر آپس میں مل جائیں تو صدر صاحب کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ اسی لیے اسلام میں اکثریت کی حاکمیت پر مبنی شورائی نظام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ مشورے میں شریک ضرور ہوں لیکن چلے وہی بات جو حق ہو، اور حق وہ ہے جو طاقت کی بنیاد پر واقع ہو۔ اور طاقت وہ ہے جس کا لوہا طوعا و کرہاً سب کو ماننا پڑے۔

ناقل اور عاقل کا فرق

ناقل اور عاقل میں قطبین کا فرق ہے۔ ناقل اور کائنات کے درمیان آیات و روایات کا حجاب حائل رہتا ہے اور وہ زندگی کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ عاقل کائنات کا براہ راست مطالعہ کرتا ہے اور درپیش صورتحال میں اپنی انسانی عقل سے ایک راہ عمل متعین کرتا ہے۔ دور جدید میں مذہبی معذرتخواہوں ںے ایک منقول معقولی طریق کار اپنایا ہے جس کے مطابق وہ نقل کی روشنی میں عقل سے کام لیتے ہیں۔ یعنی پہلے وہ کسی زیر بحث مسئلے میں تمام آیات و روایات کو اکٹھا کرتے ہیں، ان کے سیاق کا تعین کرتے ہیں اور پھر جدید حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ملتا جلتا حکم اپنے اس منقول معقولی طریقہ کار سے برامد کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ اگلے زمانوں میں بھی ائمہ مجتہدین اسی طریقہ کار سے کام لے کر مذہبی منقولات سے جدید احکام و ہدایات برامد کرتے تھے۔ نقل پہلے بھی عقل پر مقدم تھی، اور آج بھی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تجدد پسندوں ںے ائمہ مجتہدین کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا طریق کار اپنا لیا ہے، ایک خام خیالی ہے۔ جب تک مذہبی منقولات کی بالادستی انسانی ذہن پر قائم رہے گی، اس وقت تک

مذہب اور تعمیرِ نو؟

بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔ کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔