نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ابن صفی اور اسلامی ادب

بعض نیم عقلی دانشور کہتے ہیں کہ ابن صفی اسلامی رجحان کے حامل تھے اس لیے ان کے ناولوں میں اسلامی پسندی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اور محض اسی لیے وہ ابن صفی کو ناولوں کو بڑا ادب باور کرانے پر تل گئے ہیں۔ دراصل اردو میں اسلامی ادب قحط الرجال کا شکار ہے۔ اسلامی ادب کے نام پر لکھی گئی کہانیوں اور شاعری میں اس قدر واعظانہ اور مفتیانہ باتیں ہوتی ہیں کہ آدمی بوریت کا شکار ہوجاتاہے۔ معاشرہ میں بھی ایسے مذہبی ادب کے کردار کہیں چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔اس قسم کا پاکیزہ ادب لکھنے والوں کے فن میں بھی کوئی خاص ترقی نہیں دیکھی گئی۔ ساری ادبی شہرت اور وقار تو عصمت اور منٹو جیسے ’’فحش‘‘ لکھنے والوں کے حصے میں آئی اور پاکیزہ اسلامی ادب لکھنے والوں کو ادب کے بلند ترین معیار پر نہیں رکھا جا سکتا۔
یہی اسباب ہیں کہ اسلام پسندوں نے بعض مین اسٹریم ادیبوں کو ہڑپنے کی کوشش کی ہے۔ ابن صفی کا اغوا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابن صفی مسلمان تو تھے لیکن انہوں نے جو ناول لکھے ان کے مشتملات ۹۹ فیصد سے زیادہ غیراسلامی نوعیت کے ہیں۔
ابن صفی کے ناول ہندی اور بنگلہ میں بھی ترجمہ ہو کر شائع ہوتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے ناولوں کو اس طرح لکھا کہ ان میں مذہبی عنصر نہ آنے پائے کیونکہ جب ان کا ہندی ترجمہ کیا جاتا تو دیگر اہل مذاہب انہیں پسند نہیں کر سکتے تھے۔ میں بچپن سے ہی ہندی اور اردو جاسوسی دنیا پڑھتا آ رہا ہوں۔ اور کسی بھی زبان میں ان کی جاسوسی کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے یہ احساس نہ ہوا کہ ابن صفی کا کوئی مرکزی کردار اپنی مذہبی شناخت اور تشخص پر زور دے رہا ہے یا اس کا خالق اپنے کو کسی مذہبی ادب کا نمائندہ بتا رہا ہے۔ چنانچہ ابن صفی سے متاثر ہونے والے غیرمسلم ادیبوں میں وید پرکاش شرما جیسے بڑے اور پاپولر ہندی مصنف بھی رہے ہیں۔ ابن صفی کا طرزِ تحریر اردو جیسی زبان میں بھی بڑی حد تک سیکولر تھا اور اسی سبب سے اس کا ترجمہ بھی مذہبی عصبیت اور پروپگنڈہ سے پاک تھا۔ جاسوسی دنیا کے ہندی اڈیشن میں کرنل فریدی کو کرنل ونود، عمران کو راجیش، انور اور رشیدہ کو بالترتیب رمیش اور سرلا کے طور پر لکھا گیا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن صفی کا مقصد اپنے ناولوں کے ذریعے اپنی مذہبی نظریات کو فروغ دینا نہیں تھا۔
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں اسلامی آدرشوں کو قائم کرنے کے بجائے عام انسانی اخلاقیات کی ترجمانی کی۔ یہ صحیح ہے کہ ابن صفی کے مرکزی کردار یا ہیرو شراب نہیں پیتے (البتہ کسی ناول میں اس بات کا ذکر ہے کہ کیپٹن حمید نے کئی دفعہ شراب پی تھی لیکن بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا)، لیکن ایسی باتوں کو صرف اسلامی اخلاق سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ شراب کو عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے۔ نہ عمران پنجوقتہ نمازی ہے اور نہ کرنل فریدی و کیپٹن حمید ۔ کیپٹن حمید نامحرم عورتوں اور لڑکیوں سے بات چیت، ہنسی مذاق، فلرٹ وغیرہ کی حد تک لطف اندوز ہونے کا شدید خواہشمند رہتا ہے، یہی اس کی روحانی غذابھی ہے، وہ تنہائی میں بھی لڑکیوں اور عورتوں سے ملتا جلتا ہے بلکہ ان کے ساتھ نائٹ کلبوں میں رقص بھی کرتا ہے مگر اس دوران وہ کوئی نازیبا یا غیر شائستہ حرکت نہیں کرتا۔ لیکن کرداروں سے ’’نازیبا حرکت نہ کرانا‘‘ مصنف کے ذریعے اسلامی اخلاق کی پیروی کرنا یا اس کی تبلیغ ہرگز نہیں ہے۔ ابن صفی کے کسی مرکزی کردار کے رشتے داروں کے ہاں برقعہ یا حجاب رائج نہیں، اور نہ کسی ناول میں اسلامی لباس کو اس غرض سے متعارف کرایا گیا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔ البتہ ایک ناول میں بین الاقوامی مجرم سنگ ہی غالباً بچ نکلنے یا نہ پہچانے جانے کی غرض سے برقعہ پہنتا ہے۔ کرنل فریدی جب کسی کیس کے سلسلے میں اپنے والد کے رفقا کے خاندانوں میں جاتا ہے تو وہاں کی عورتیں اسلامی اصول کے مطابق اس سے پردہ نہیں کرتی ہیں۔ ابن صفی کے ناولوں میں کہیں بھی اسلامی پردہ یا اسلامی حجاب (سترِ عورت کو چھپانے پر مبنی) کی کوئی تبلیغ نہیں ملتی۔ البتہ متعدد مقامات پر عریانیت کی تردید اس میں ضرور ملتی ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو صرف اسلام سے منسوب کہا جا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابنِ صفی کے بعض کردار اسلامی اخلاق کے برعکس زندگی گزارتے ہیں۔ مثال کے طور پر انور اور رشیدہ کی میٹروپالیٹن جوڑی کو کسی اسلامی خانے میں فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ آپس میں جنسی تعلقات تو نہیں بناتے لیکن بغیر نکاح کیے ایک فلیٹ میں ساتھ تو رہتے ہی ہیں۔ اور اس سے مذہبِ اسلام میں یہ کہہ کر منع فرمایا گیا ہے کہ نامحرم مرد اور نامحرم عورت جب ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے انور اور رشیدہ کے ساتھ چوبیس گھنٹوں میں چند گھنٹے تو شیطان ضرور رہتا ہوگا۔
انور اپنی محبوبہ رشیدہ کو ’’پیار سے رشو ڈارلنگ کہتا تھا۔ یہ بھی ایک غیراسلامی بات ہے کہ بغیر نکاح کیے کسی لڑکی کے نام کا مخفف بنا کر اس کے ساتھ ’’ڈارلنگ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے۔دونوں میں اس قدر دوستی اور محبت تھی کہ انور رشیدہ سے سگریٹ کے پیسے مانگا کرتا تھا۔ جب رشیدہ انکار کرتی کہ اب اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ ردی اخبار بیچ کر اسے سگریٹ خرید کر لانے کا حکم دیتا تھا۔ اور اگر رشیدہ ایسا نہ کرتی تو انور اٹھ کر پے در پے کئی تھپڑ رسید کر دیتا۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، کبھی کبھی رشیدہ بھی انور کو پیٹ ڈالتی تھی۔ ایک مرد اور عورت کا بغیر نکاح کیے اس حد تک گہری محبت کرنا، اور ایک دوسرے کو مار پیٹ کر جنسی نوعیت کا تلذذ و مسرت حاصل کرنے کی عکاسی کرنا، اسلام کے مذہبی اخلاق یا قانون کی رو سے صحیح نہیں ہو سکتا (الا یہ کہ مذہب کی ایک مغرب زدہ تعبیر کی جائے)۔مولانا مودودی کے اسلامی ادب کے نقطہ ٔ نظر سے ابن صفی کو ان دونوں کا نکاح کرا دینا چاہیے تھا۔ مجھے پاکستان کے اسلام پسند ماہرین ابنِ صفی سے پوچھنا ہے کہ انور اور رشیدہ کا نکاح کس نکاح خواں نے پڑھایا تھا؟
اب ذرا غور فرمائیے، کہ قاری پر ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کو پڑھنے کا کیا اثر ہوگا؟ کیا وہ فریدی کی طرح خود تو شراب نہ پئیں گے لیکن شراب کے عادی مہمانوں کے لیے اپنے گھر میں شراب رکھیں گے؟ کیا ایک لڑکا کیپٹن حمید کی طرح لڑکیوں کی صحبت سے لطف اندوز نہ ہونا چاہے گا؟ وہ اس کے ساتھ تنہائی میں نہ ملے گا، نائٹ کلبوں میں رقص نہ کرے گا؟ عمران کی طرح کیا وہ نہ چاہے گا کہ لڑکیاں اس کی دیوانی ہو جائیں؟ کیا ایک لڑکا نہ چاہے گا کہ کوئی جولیانا فٹزواٹر شکرال کی مہم میں ایک ساتھ سفر کرتے ہوئے کسی پڑاؤ پر رات کے اندھیرے میں اس کی چھولداری میں آ کر فرطِ جذبات سے اس کے ساتھ لپٹ جائے اور وہ ٹھیک عمران کی طرح ‘‘اوہ ممی! اوہ ڈیڈی، بچاؤ!’’ کہہ کر اپنے کو جولیانا سے چھڑا لے؟ لیکن واقعات کی دنیا میں اس خیال کو عملی جامہ پہناتے وقت ایک لڑکا اندھیرے میں لپٹ پڑنے والی کسی لڑکی کو واقعی عمران کی طرح جھٹک سکتا ہے؟ اور ایک لڑکی جو ابنِ صفی کے ناول پڑھتی ہو، کیا عمران جیسے ایک ’’معصوم احمق‘‘ یا کرنل فریدی جیسے ’’ہارڈ اسٹون‘‘ کے خواب نہ دیکھنے لگے گی؟ اور ممکن ہے بعض لڑکیوں کو کیپٹن حمید ماڈل کا اسمارٹ حاضر جواب، مہذب اور بذلہ سنج مرد بھی پسند آ جائے اور وہ اپنی بہتیری شامیں اس کے ساتھ ہائی سرکل نائٹ کلب میں گزارنا چاہے! اور تابوت میں آخری کیل کے بطور یہ سوال کہ ایک نو آموز جرنلسٹ لڑکی کے دل میں انور جیسے کرائم رپورٹر کے ساتھ لیون اِن ریلیشن شپ میں رہنے کی تمنا پیدا نہیں ہوگی؟ پہلے پہل تو یہی ہوگا کہ وہ سوچے گی کہ ہم پاکبازی سے ایک ساتھ رہیں گے، جنسی تعلقات نہیں قائم کریں گے، لیکن کیا اس زمانے میں انور جیسے کرائم رپورٹر اور رشیدہ جیسی صحافی عورتیں ہو سکتی ہیں؟ پھر ایک ہی فلیٹ میں وہ کیونکر معصوم حالت میں رہ سکیں گے؟ دنیا کے کسی بھی مولوی سے پوچھ لیجیے کہ کیا اسلام میں انور اور رشیدہ کی طرح بلانکاح ایک چھت کے نیچے رہنا جائز ہے؟ پس، اس قسم کی بیہودہ ترغیبیں دینے والا جاسوسی لٹریچر اسلامی نقطہ نظر کی رو سے فحش ہے اور اس کا لکھنا، چھاپنا، پڑھنا، اور خرید و فروخت سب ناجائز و حرام ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ماننا بھی لازم ہے کہ ابن صفی نے جو جاسوسی ناول لکھے وہ اسلامی ادب کا حصہ نہیں ہیں۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...