یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
کہاں ایک خارش زدہ آوارہ کتا جو حقیقت کے اندر ‘ پایا جاتا’ ہے سڑک کے ایک کنارے دانش حاضر کے چکرویوہ میں گول گول گھومتا ہوا اپنے ہی جنون میں رطب اللسان ہمہ وقت و ہی جھاؤں جھاؤں اور کہاں ایک کھایا پیا مست مولااکادمک بلڈ ہاؤنڈ اور جوہوا میں ناک اٹھا کر انٹلکچوئیل سائٹیشن دیتے ہوئے حقائق کی تہہ تک پہنچتا ہے جس کی رال سے علمی ثقاہت ٹپکتی ہے جس کی چال سے عملی متانت چھلکتی ہے انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ بھونکتا ہے وَوف وَوف! اور کبھی پاگل نہیں ہوتا وَوف وَوف!