ادھر کچھ عرصے سے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے ذہین افراد کی ذہنی و فکری صلاحیتیں ادنی درجے کی جاہلانہ یا منتقمانہ بحثوں کی نذر ہوئی جا رہی ہیں لیکن انہیں اس کا شعور نہیں کہ وہ سوائے مزید لغویت پھیلانے کے کوئی فلسفیانہ کارنامہ انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو زندگی اور کائنات سے متعلق اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے میں اہم سنگ میل نصب کر سکتے تھے۔ میں یہاں کسی شخص کا خصوصیت سے نام نہیں لوں گا بلکہ چند باتیں عمومی طور پر احباب کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
جو لوگ حقائق اشیاء پر غور کرتے ہیں ان کے پاس فضول کی مغز ماری بالخصوص ان عقائد و نظریات کے سلسلے میں بدزبانی کا کوئی موقع نہیں ہوتا جنہیں وہ "باطل" سمجھتے ہیں۔ کوئی عقیدہ اگر جدید سائنسی پیمانوں پر کھرا نہیں اترتا یا فلسفہ، جدید ہو یا قدیم، اس کے متعدد مکاتب فکر سے متصادم ہوتا ہے اور مبینہ طور پر "بحیثیت ایک مافوق الفطری ماخذ سے برامد ہونے کے" انسانی عقل میں نہیں آتا تو یہ اس بات کے لیے کافی نہیں کہ اس عقیدہ کے متعلق طنز و استہزا کا رویہ اپنایا جائے۔ البتہ ایسی عقلی تنقید و تردید سے جس میں کوئی غیراخلاقی پہلو نہ نکلتا ہو کوئی صاحب فہم اور سلیم الفطرت انکار نہیں کر سکتا۔
لیکن مخالف عقائد و نظریات پر تنقید، تردید، تنقیص جیسی چیزیں اس وقت زیادہ مفید ہوتی ہیں جبکہ خود ہمارے پاس کوئی فکر ہو، کوئی تحقیق ہو۔ مظاہرِ ہست و نیست کی کوئی نہ کوئی توجیہ ہو۔ اور اگر ایسی توجیہ ہو جو ماضی و حال کی ہر توجیہ سے کسی نہ کسی اعتبار سے علیحدہ ہو یا علیحدہ معلوم ہوتی ہو تو سونے پر سہاگہ۔
لیکن ایسے حضرات کی انرجی محض بدزبانی اور قال و قیل میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں کہتے۔ ممکن ہے اس رویے سے بھی کوئی چھوٹا موٹا فائدہ مرتب ہوتا ہو لیکن یہ ایسا فائدہ ہے جو بالعموم اس سے ہونے والے نقصانات ہی کی نذر ہو جاتا ہے۔
زندگی ایک ایسی انمول چیز ہے کہ اس کو کنکر پتھر چننے میں نہیں لگانا چاہیے (حالانکہ کوئی چننا چاہے تو چنتا رہے)۔ مخالف عقائد و نظریات میں اگر واقعی کوئی نقص ہے تو اس کو ظاہر کرنا ہرگز کوئی عیب نہیں ہے لیکن چوبیس گھنٹے ان ہی مزعومہ یا ممکنہ نقائص کی بنا پر بدزبانی میں لگے رہنا یقیناً اپنی وقت اور صلاحیت کا کوئی اچھا استعمال نہیں ہے اگر واقعی ہمارے پاس وہ چیز ہو جس کو صلاحیت کہتے ہیں۔ اگر صلاحیت نہ ہو یا بدزبانی ہی کی صلاحیت پیدا کی ہو تب تو حرج نہیں، جتنی چاہے کیجیے، لیکن اگر ہم اپنے اندر کوئی اعلی صلاحیت پاتے ہوں تو اس کو اس کے شایان شان کاموں میں لگانا چاہیے۔ ایسے حضرات کا اپنے بدکلامانہ طرز پیشکش کے حق میں یہ دلیل فراہم کرنا کہ ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں تا کہ مخالف عقائد و نظریات کے حاملین میں رواداری اور برداشت کی عادت پیدا ہو یہ پرلے درجے کا احمقانہ اجتہاد ہے۔
اس پس منظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا میں حقیقی اہمیت اپنے نظریات کی تبلیغ و ترویج یا مخالفین کے نظریات کی تردید و ابطال کی نہیں ہے۔ کوئی بڑا نظریہ دنیا کی پارکھی نظروں سے بالآخر پوشیدہ نہیں رہتا۔ نظریہ اضافیت اور کوانٹم تھیوری کی تبلیغ کس نے کی تھی؟ لیکن بے شمار عالی دماغ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور بہت سے مذہبی مبلغین تک اس کے اثر سے کہنے لگے ہیں کہ ہمارے مذاہب میں پہلے ہی یہ تھیوریاں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح نظریہ ارتقا کی طرف بھی کسی کو دعوت و تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑی۔ محض چند ایک یا مٹھی بھر لوگوں نے سخت علمی مجاہدہ اور محنت شاقہ کے ذریعے اسے مرتب کیا اور دنیا بھر کے علما نے اسے تسلیم کر لیا۔ اسی طرح نیوٹن کے قانون کشش ثقل، مارکس کی جدلیاتی و تاریخی مادیت اور طبقاتی کشمکش، فرائیڈ کے نظریہ لاشعور، سوسیئر کی ساختیات، لیوی اسٹراس کی ثقافتی بشریات، فوکو کے علم اور طاقت، دریدا کی ردتشکیل کی مثالیں ہیں جنہیں کسی نے بھونڈی دعوت و تبلیغ کے ذریعے نہیں پھیلایا۔ بلکہ پہلے پہل عالی دماغوں نے ہی اسے تسلیم کیا۔ دنیا میں کم ایسے اوریجنل فلسفی ہوں گے جو مداریوں، سپیروں، جادو گروں اور گویوں کی طرح گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر ہر کس و ناکس تک پیغام حق سناتے رہے ہوں۔ عظیم فلسفیوں یا سائنسدانوں کو اتنا وقت میسر نہیں آتا کہ وہ اپنے طبع زاد علمی نظریات کو اجدادی پشتارے کی طرح اپنی پیٹھ پر لیے لیے پھریں اور ہر ایک کو اپنے عقیدے کا گشتی فولڈر تحفتاً پیش کریں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے مختلف عقائد و نظریات کی تنقید و تردید میں بھی بڑا نام پیدا کیا وہ بھی اپنے اسلوب میں اس قدر صاف ستھرے تھے کہ ان کے طریقے کو بمشکل ہی مناظرانہ اور ابطالی کہا جا سکتا ہے اور اس کا تو امکان ہی نہیں کہ انہیں کسی مخصوص عقیدے اور نظریے کا مخالف داعی یا پرچارک قرار دیا جا سکے۔
کسی بھی عظیم فکری وجود کا تو زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے، غور و فکر، مشاہدہ اور تجربہ میں گزرتا ہے، دعوتی و تبلیغی یا ابطالی نوعیت کے بھچر بھچر کی اس کو فرصت کب ملتی ہے؟ وہ تو عمر بھر صداقت کی جستجو میں غلطاں و پیچاں رہتا ہے۔ اسے تو ہر وقت یہ خوف دامنگیر رہتا ہے کہ مبادا زندگی اور کائنات کے درک و فہم میں کہیں ایسی چوک نہ ہو جائے کہ اس کے نظریات کی پختہ عمارت ریت کے محل کی طرح زمیں بوس ہو جائے۔
ایسی ذہنی و نفسیاتی حالت میں مبتلا کوئی فلسفی جب روزمرہ کی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا بھی ہے تو صرف اس لیے کہ جسم و جان کا رشتہ بہ طرز احسن برقرار رہے، اور اس کی نیند، اس کا دماغ، اس کی صحت اعلی ترین معیار پر قائم رہے (جو اکثر بمشکل ہی ممکن ہوتا ہے) تا کہ اپنی فکری عمارت یا نظریات کی دنیا زیادہ بہتر طور پر تعمیر کر سکے۔
اور کسی فلاسفر کے افکار و نظریات کس لیے ہوتے ہیں؟ تاکہ وہ حیات و کائنات کی اصل یا وجہ کو جان سکے، سمجھ سکے۔ "جاننا" اس کی زندگی کا واحد مقصد ہے۔ اور اسی جاننے کی خاطر وہ بار بار شک کرتا ہے، بار بار رجوع اور توبہ کرتا ہے، لیکن اپنے شک پر وہ نہ کسی متقی و پرہیزگار کی طرح لاحول پڑھتا ہے اور نہ اپنی توبہ پر عاصی و گنہگار کی طرح تعوذ و استغفار۔ اس کی تشکیک اور اس کی توبہ کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ خود کو لاحق ہونے والے ہر ایک وسوسے پر وہ گمراہیوں کے گہرے گڑھے میں انایاس ہی اور کبھی پورے شعور کے ساتھ گرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے پیر گڑھے کی آخری سطح پر ٹھہر جاتے ہیں لیکن وہ اسی عالم ارتیاب میں ایک بار پھر اس سطح پر بھی اپنے پاؤں مار کر دیکھتا ہے، لیکن یقین کی سنگلاخ چٹان پر تشکیک کی موہوم ضربیں لاحاصل ہیں۔ پس، وہ ریب و تذبذب کا پھاوڑا ایک طرف رکھ کر ذہن و دماغ کی صحیح حالت میں گویا ہوتا ہے:
I THINK THEREFORE I AM
یہ ایسی شان ہوتی ہے کہ تمام تر گلزار ہست و بود اس کے ناتواں وجود میں سانس لیتے ہیں، اور بالآخر فطرت اس پر اپنے الہامات کی بارش کرتی ہے۔ اور ایسے ہی مٹھی بھر گنے چنے افراد بالآخر اور بالواسطہ دنیا کی علمی و فکری اور اخلاقی و تمدنی ترقی کی اصل بنیاد بن جاتے ہیں حالانکہ ان کی کوششیں ہرگز اس غرض کے لیے نہیں ہوتیں۔ ان کی فلسفیانہ زندگی کا پہلا اور آخری مقصد صرف اور صرف جاننا اور جانتے رہنا اور جانتے ہوئے ہی، یا جاننے کی کوشش کرتے ہوئے ہی مرتے چلے جانا ہوتا ہے۔ جاننے سے الگ فلسفیانہ طور پر زندہ رہنے کا کوئی اور مفہوم ان کے مذہب میں صریح گمراہی ہے۔
اب ہم کسی قدر سمجھ سکتے ہیں کہ فلسفی کے پاس جاننے یا جاننے کی کوشش سے متعلق سرگرمی کے علاوہ نہ اتنا وقت باقی رہ سکتا ہے کہ وہ اپنے افکار و نظریات کی مجلدات پیٹھ پر لاد کر گلی کوچوں میں آواز لگاتا رہے اور نہ اس کو یہی دھن سوار رہتی ہے کہ کس طرح نت نئے طریقوں سے اپنے مخالف نظریات کے خلاف مسلسل بدکلامانہ پرچار کیا جائے۔
بلاشبہ، ایک فلسفی اپنی فکری و تحقیقی یافت کے نتائج کی اشاعت بھی کرتا ہے، اور ایک گونہ اس کا امکان ہے کہ یہ بھی کسی قسم کی دعوت ہی ہو، لیکن کیا یہ اس دعوت و تبلیغ سے پرکاہ کے برابر بھی مشابہ ہے جیسی آج ہم مختلف نظریات کے حاملین کی عملی زندگی میں دیکھتے ہیں؟ کیا وہ فلاسفہ، جو عالم انسانیت کے قابل فخر کمال ہیں انہیں اپنے افکار کے تعارف یا اسے پھیلانے کے لیے بھی اسی طرح گلا کھینچنے اور زبان درازی کرنے کی ضرورت پڑی؟ حقیقت یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کی حاجت محض کمزور نظریات کو ہے۔ اور جب کمزور نظریات کو مضبوط بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور نادان لوگ انہیں مضبوط باور کر لیتے ہیں تب ان کے فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے بعض لوگ پہلے تنقید و تنقیص اور پھر بدزبانی پر اتر آتے ہیں جو ان کی کاہلی اور بے عملی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ حضرات دراصل اگلے لوگوں کے نظریات، عقائد اور کارناموں کو جھٹلانا چاہتے ہیں، یہ ان کی کھینچی گئی لکیروں کو مٹا کر انہیں چھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے دل و دماغ میں وہ گودا اور بوتا نہیں کہ اپنی علیحدہ لکیریں کھینچیں جو ماضی کی سب لکیروں سے بڑی ہو جائے۔
الغرض، دنیا میں اصل اہمیت جدید عقائد و نظریات کی تخلیق اور ان پر سائنسی طریقوں سے تحقیق کی ہے۔ جو لوگ ایسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں، وہی زندگی بھر کسی مروجہ عقیدے کی تبلیغ و اشاعت میں لکیر کے فقیر بنے رہتے یا اس کی تردید و مخالفت میں گزشتہ لکیروں کی تحقیر کرتے ہیں اور انہیں میں سے بعض بعض لوگ بدزبان کہلاتے ہیں۔
اور جو لوگ محض اپنی دلچسپی کی بنا پر حقائق کی تحقیق میں لگے رہتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، وہی دنیا میں علمی ترقی کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے قائم کردہ نظریات کو دعوت و تبلیغ کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ بس اپنے نظریات کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں اور اگر ان کے نظریات میں واقعی کوئی قوت ہوتی ہے تو لوگ خود بخود اس کو تسلیم کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔ جیسے معشوق کی ایک جھلک ہی عاشق کو بیتاب کر دیتی ہے ایسے ہی کسی انوکھے یا ممکنہ صحیح نظریے اور عقیدے کی ایک جھلک ہی انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس کے متعلق اور جانے اور اس پر وقتی طور پر ایمان لائے۔ بڑا فلسفی وہی ہے جس کے ان چھوئے اور کنوارے نظریات کی ایک جھلک دیکھ کر ہی گنے چنے باشعور اور پارکھی لوگ بیقرار ہو جائیں اور ان میں سے بھی چند لوگ اس تک پہنچیں اور اس سے اپنی پیاس بجھائیں۔ نادرالوجود فلسفی کے فلسفہ کا حال شہد کے چھتے جیسا نہیں ہوتا کہ لاتعداد مکھیاں اس پر تلے اوپر بھنبھنا رہی ہوں، یا یہ علاقے کے مشہور حلوائی کی دوکان پر چھنتی ہوئی جلیبیوں جیسی چیز بھی نہیں کہ اس پر موٹی موٹی مکھیاں بھجبھجا رہی ہوں اور حلوائی ہر ایک کو بقدر اس کی اداکردہ قیمت کے تول تول کر جلیبیاں دیے جا رہا ہو۔ بڑا فلسفہ کوئی شمع جیسی چیز بھی نہیں کہ جس پر پروانے آ آ کر نثار ہوتے رہیں اور ان کے جلنے کی بدبو اور چراندھ سے سارا ماحول دھوئیں اور غلاظت سے بھر جائے۔ فلسفہ ظاہری مظاہر سے پرے باطنی سبب اور علت کی دانائی اور آگہی کی خوراک ہے جسے اس کے ضرورتمند لوگوں کو ہی فراہم کرنی چاہیے۔ بعض لوگ تمسخرانہ طور پر علم و آگہی کی اس خوراک کو "تفلسف کا انجیکشن" کہتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ دراصل بے شعورے اور بودے ہیں۔ ایسے ٹھس لوگوں پر فلسفہ کی خوشبو اسی طرح حرام ہے جیسے بدعقیدہ پر جنت کی۔ ازمنۂ قدیم میں بعض فلسفی ایسے بھی ہوتے تھے جو لوگوں سے اپنے نظریات پر ایمان لانے سے روکتے اور پہلے اس کا اہل بننے کی تاکید کرنے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ نااہلوں کے لیے عظیم نظریات بندر کے ہاتھ میں استرے کی طرح ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ فلسفی ہیں تو اپنے نظریات کو نااہلوں سے بچائیے اور اسے وہاں پہنچائیے جہاں اس کی ضرورت ہے جو لوگ اس کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہوں۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی مقبول یا نامقبول عقیدے اور نظریے کو نااہلوں اور کم فہموں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے اندر کوئی اعلی صلاحیت ہے تو اس کو تردید و ابطال پر مبنی جاہلانہ دعوتی و پرچاری نوعیت کے کاموں میں لگانے کے بجائے اس کا وہ استعمال کیجیے جس سے آپ علم و عرفان کی بلند ترین منزل پر پہنچ سکیں۔
( 30 جولائی 2021، فیس بک مراسلہ)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں