منگل، 24 نومبر، 2015

علامہ ارشدالقادری کی ایک دلیل

علامہ ارشد القادری کی کتاب جماعت اسلامی سے درج ذیل اقتباس پڑھیں, پھر یا تو ان کے زور قلم کی داد دیں یا قیل و قال شروع کر دیں. داد کی توقع ان سے ہے جو غیر جانبدار اور انصاف پسند ہوں اور قیل و قال کی توقع ان سے جو فکر مودودی کے اسیر ہیں:

"... مولانا مودودی انبیا و اولیا کے ان عقیدت مند مسلمانوں کو جو ظاہر سے باطن تک زندگی کے تمام مراحل میں مومن ہیں, موحد ہیں, کلمہ گو ہیں, بے دریغ مشرک سمجھتے ہیں. 
...
ثبوت کے لیے مولانا کی مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
[انبیا علیہ السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ اللہ واحد و قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے. وہاں سے خداؤں کی دوسری اقسام تو رخصت ہو گئیں مگر انبیا, اولیا, شہدا, صالحین, مجاذیب, اقطاب, ابدال, علما, مشائخ اور ظل اللہوں کی خدائی پھر بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی رہی. جاہل دماغوں نے مشرکین کے خداؤں کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کو خدا بنالیا (تجدید و احیائے دین از مولانا مودودی ص 11)] 
آگے چل کر پوری وضاحت کے ساتھ اس مشرک طبقے کی نشاندہی ان الفاظ میں کی گئی ہے. ملاحظہ ہو: 
[مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ فاتحہ, زیارت, نیاز, نذر, عرس, صندل, چڑھاوے, نشان, علم, تعزیے اور اسی قسم کے دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی. (حوالہ سابق ص 11)] 
دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ گل افشانی فرماتے ہیں: 
[جاہلیت مشرکانہ نے عوام پر حملہ کیا اور توحید کے راستہ سے ہٹا کر ان کو ضلالت کی بے شمار راہوں میں بھٹکا دیا. ایک صریح بت پرستی تو نہ ہو سکی, باقی کوئی قسم شرک کی ایسی نہ رہی جس نے مسلمانوں میں رواج نہ پایا. 
پرانی جاہلی قوم کے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اپنے ساتھ بہت سے مشرکانہ تصورات لئے چلے آئے اور یہاں ان کو صرف اتنی تکلیف کرنی پڑی کہ پرانے معبودوں کی جگہ بزرگان اسلام میں سے کچھ معبود تلاش کریں, پرانے معبدوں (بت خانوں) کی جگہ مقابر اولیا سے کام لیں. (حوالہ سابق ص 25) ]
... 
دنیا کا کون مسلمان ہے جو انبیا و اولیا کو اپنا معبود سمجھتا ہے اور اصنام کی جگہ قبروں کی پرستش کرتا ہے؟ اس طرح کا کوئی فرضی مسلمان مولانا مودودی کی دنیائے خیال میں ہو تو ہو, واقعات کی دنیا میں ہرگز نہیں ہے. 
خدا کا محبوب اور مقرب بندہ سمجھ کر بزرگوں کے مقابر کی زیارت و روحانی استفاضہ اور مقدس ہستیوں کے آثار کا تحفظ اگر مولانا کے تئیں بت پرستی ہے تو میں عرض کروں گا کہ ذرا پیچھے پلٹ کر دیکھیے! یہ جاہلیت مشرکانہ کی نہیں خود عہد اسلام کی یادگار ہے. خود قرآن نے مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ اور صفا و مروہ کو مسعٰی بنانے کا حکم دے کر تعظیم آثار کے عقیدہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے. 
پھر جن مزارات و مقابر کو مولانا مودودی صنم خانے سے تعبیر کرتے ہیں, ان کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ آئے کہاں سے؟ ظاہر ہے کہ روضہ رسول پاک ہو یا مزارات اہل بیت و صحابہ, اولیائے عرب کے مقابر شریفہ ہوں یا یا عجم کے, یہ کچھ آج نہیں بنا لیے گئے ہیں. بلکہ عہد صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین, مشائخ و محدثین, اور فقہائے اسلام کے دور تک جس دن کسی مقرب خداوندی کو سپرد خاک کیا گیا, اسی دن سے اس کے مدفن کی حفاظت شروع ہو گئ, اس کی تربت کے نشانات کو باقی رکھنے کے لیے ارد گرد صالحین کا پہرہ بیٹھ گیا, یہاں تک کہ اس مزار کی رونق و آبادی کا اہتمام قرن اول سے شروع ہو کر بعد میں آنے والے صلحائے امت تک ہر قابل اعتماد دور میں ہوتا رہا. 
... 
پھر "جاہلیت مشرکانہ" کہہ کر ان روایات پر جو حملہ آور ہوتا ہے اس کا حملہ عوام پر نہیں خواص پر ہے. دینی تاریخ کے لاکھوں بکھرے ہوئے اوراق پر آج بھی ائمہ حق اور اسلام کے مقتدر پیشواؤں کی ... طویل فہرست ہمارے سامنے موجود ہے جنہوں نے مزارات انبیا و اولیا کی زیارتیں کیں اور ان سے روحانی استفاضہ کیا.
اگر اسی کا نام شرک ہے تو مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلامی تاریخ کے تمام طبقات کو مشرک تسلیم کرنے کی نسبت یہ تسلیم کرنا زیادہ آسان اور قرین عقل ہے کہ مولانا مودودی کا ذہن ہی مشرک ساز اور کافر گر ہے." 
(حوالہ: کتاب "جماعت اسلامی", مصنف: علامہ ارشد القادری, ناشر: مکتبہ جام نور, دہلی, صفحہ 82 تا 85)

تو یہ طویل اقتباس آپ نے پڑھا. یہاں علامہ ارشد القادری نے بھی اپنی دلیل قرآن ہی سے فراہم کی ہے کہ اللہ تعالی نے "مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ اور صفا و مروہ کو مسعٰی بنانے کا حکم دے کر تعظیم آثار کے عقیدہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے." علامہ ارشد القادری کی یہ دلیل بھی توجہ طلب ہے کہ اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی زیارت کا مفہوم رسول کو معبود بنانا نہیں ہے تو خدا کے مقدس اور برگزیدہ بندوں کے مزارات کی زیارت ان برگزیدہ بندوں کو معبود بنا لینے کا ثبوت کیونکر ہو سکتا ہے؟

پیر، 16 نومبر، 2015

تکثیری معاشرہ کا مذہبی شعور

ایک تکثیری معاشرہ (پلورل سوسائٹی) میں مذہب کا کون سا اڈیشن چل سکتا ہے اور کون سا نہیں؟ کون سا اڈیشن اس میں امن و سکون کا ضامن ہے اور کون سا فساد فی الارض کا موجب؟ کس اڈیشن سے معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والے افراد پیدا ہوتے ہیں اور کس اڈیشن سے دیر سویر مذہبی دہشت گردوں کا ہی ظہور ہوتا ہے؟
کیا وہ اڈیشن جس میں دین و سیاست کی تفریق ہو یا وہ اڈیشن جس میں انہیں یکجا کر دیا گیا ہو؟ وہ اڈیشن جو انسان کی اجتماعی زندگی کے قوانین کو تغیر پذیر تسلیم کرتا ہو یا وہ اڈیشن جو صحف مقدسہ میں درج ہر ایک قانون کے نفاذ کی تحریک چلاتا ہو؟ وہ اڈیشن جو دیگر مذاہب کو اپنی جگہ صحیح سمجھتا ہو یا وہ اڈیشن جو اپنے سوا سب مذاہب کو باطل, گمراہ کن اور تحریفات کا مجموعہ قرار دیتا ہو؟ وہ اڈیشن جو ایک سیکولر اور ڈیموکریٹک معاشرہ میں دوسرے مذایب کے ساتھ پرامن طور پر رہ سکتا ہو یا وہ اڈیشن جو ایک تحریکی دعوت کے ذریعے یا بزور بازو ایک تھیوکریٹک اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا ہو؟ وہ اڈیشن جو ہر نیک شخص کو بلا تفریق مذہب و ملت نجات کی بشارت دیتا ہو یا وہ اڈیشن جو نجات کو صرف اپنے ماننے والوں کے لیے مخصوص کردیتا ہو؟ ایک تکثیری معاشرے کے لیے مذہب کا کون سا اڈیشن, اس کی کون سی تعبیر موزوں ہے؟

اسلامسٹوں کا فریبِ تکثیریت


ایک اسلامسٹ جب تکثیریت (پلورلزم) کی اہمیت پر لیکچر دیتا ہے تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ یا خدا, یہ عجوبہ کیونکر ممکن ہوا! جو لوگ سر تا پا وحدانیت (سنگولرازم) میں ڈوبے ہوں اور ساری دنیا میں اسلام ایک مکمل نظام حیات مارکہ دعوتی جد و جہد میں مصروف ہوں اور اس کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کو اقامت دین کی فرضیت کا سبق پڑھاتے اور ایک وحدانی مذہبی ریاست یعنی خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا خواب دکھاتے ہوں, اور اپنی ان سرگرمیوں کو رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہوں, ایسے لوگ تکثیریت کی گردان کرنے لگیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں. انہیں دنیا میں جب اور جہاں بھی اقتدار حاصل ہوگا, وہ  اجتماعی زندگی کی تنظیم اپنے وحدانی اصولوں کے علاوہ کس دوسرے اصول پر کر ہی نہیں سکتے.

کتنی الٹی بات ہے کہ فکری سطح پر تکثیریت کا اثبات اور وحدانیت کی نفی وہ رجعت پسند کریں جو اپنے مذہب کو حق کا واحد ترجمان اور دوسروں کے مذہب کو بدعات و خرافات اور تحریفات کا مجموعہ بتاتے ہوں, جو اپنے مذہبی افکار و نظریات کے سوا ہر دوسرے نظریہ کی تردید کرتے ہوں, جن کے ابطالی اور تغلیطی لٹریچر میں جدید اور مابعد جدید مغربی افکار و نظریات کے خلاف طنز و استہزا, ملامت, دشنام طرازی اور زہر افشانی کے سوا کچھ نہ پایا جاتا ہو, اور جو قدم قدم پر مذہب و عقائد کے وحدانی تصور پر ایمان نہ لانے والے کو جہنم کی بشارت دیتے ہوں!

تکثیریت کے معنی یہ ہیں کہ حق کا کوئی ایک اڈیشن نہیں اور زندگی گزارنے کا کوئی ایک طریقہ بقیہ طریقوں سے برتر یا کمتر نہیں. کوئی ایک مذہب, کوئی ایک تہذیب, کوئی ایک نظام, کوئی ایک مجموعہ قانون بقیہ تمام مذاہب, تہذیبوں, نظاموں اور قوانین کے مقابلے میں کوئی تخصیص, کوئی امتیاز نہیں رکھتا, سب اپنی اپنی جگہ برحق ہیں الا یہ کہ ان میں کوئی چیز ایسی ہو جو روح عصر اور نوع انسانی کے ارتقایافتہ شعور کے صریحی خلاف ہو.اصل بات یہ ہے کہ یہ اسلامسٹ تکثیریت کا راگ اس لیے الاپ رہے ہیں کہ اس کی آڑ میں ان کی وحدانی سیاسی دعوت فروغ پاتی رہے یہاں تک کہ وہ کثرت آرا سے ایک میجریٹیرین مذہبی نظام قائم کر سکیں جس کو وہ اقامت دین کے نام سے یاد کرتے اور تاریخ دعوت و جہاد کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔ اسلامسٹوں کی تکثیریت ایک تقیہ اور لبادہ ہے۔ یہ ان کی مصلحت اور اسٹریٹجی ہے جس سے کام لے کر وہ آخرش اسی تکثیریت کو فنا کر دیں گے جس کی فراہم کردہ  آزادانہ  فضا میں وہ اپنے وحدانی اپروچ کو زندہ رکھتے اور تمکن فی الارض کے نصب العین تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

پیر، 2 نومبر، 2015

فکری پسماندگی کی کچھ علامتیں

فکری طور پر پسماندہ وہ ہوتا ہے جو دنیائے فکرو نظر میں اپنی تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ ازکار رفتہ مذہبی یا قومی عقائد و افکار کا راگ الاپتا رہے اور آگے نکل جانے والی قوموں سے بغض و حسد رکھتا ہو. ایسے لوگوں کی بہت سی علامتیں ہیں:  تعقل پسندی اور مغربی فلسفہ و سائنس کی تحقیر کرنا, مغربی فلسفہ و سائنس کے مقابلے میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کے منقولاتی اجدادی فلسفہ و سائنس کی  بنا ڈالنا, نوع انسانی پر اپنی تاریخی قوم کے ذریعے کیے جانے والے علمی احسانوں کو یاد دلاتے رہنا کہ ہم نے فلاں تحقیق سب سے پہلے پیش کی اور ہم نہ ہوتے تو دنیا  علمی و تکنیکی ترقی کے موجودہ مقام تک ہرگز نہ پہنچتی, اوریجنل اور گہرے فکری, تحقیقی کام کے ذیل میں صرف مقدس کتابوں کی شرحیں اور حاشیے لکھنا, مذہب اور سائنس میں تطبیق دینے کی ناکام کوشش کرتے رہنا, جدید تہذیب کو گمراہ, بے حیا اور بے شرم قرار دینا, اپنے اخلاقی نقطہ نظر کو پورے قوم کا اخلاقی نقطہ نظر بنانے کی کوشش کرنا, ماضی بعید کی عظمت و شوکت کی گردان کرتے رہنا, کوئی بھی نئی بات سنتے ہی آگ بگولا ہو کر پوچھنا کہ یہ کہاں لکھا ہے اور یہ کس سے ثابت یا منقول ہے؟