نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

بحث باب سے مراسلات دکھائے جا رہے ہیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

مولوی ذکاءاللہ اور معنی کی تکثیریت

(ایک فیس بک اسٹیٹس پر میرا تبصرہ) ساختیات و پس ساختیات کا ایک سیاق بلاشبہ مقامی (یعنی مغربی ) ہے لیکن دوسرا آفاقی نوعیت بھی رکھتا ہے۔ قاری اساس تنقید کے سلسلے میں بھی یہی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر مغربی نظریے کو بے دردری سے مسترد کر تے چلے جائیں، جیسا کہ محمد حسن عسکری اور محمد علی صدیقی نے کیا، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں خود ہمارے بزرگوں نے اس سلسلے میں کس رائے کو پسند فرمایا ہے ، اور اس کے بعد خود اپنی فکر و تحقیق سے ایک نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اردو میں ساختیات و پس ساختیات کو متعارف کرانے اور اس کو ادبی نظریہ کے طور پر رائج کرنے والے اردو میں فلسفہ لسان کی روایت سے باخبر نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ مولوی ذکاءاللہ کے ہاں لسانیاتی نشان کی تشکیل فرڈیننڈ ڈی سوسیئر سے پہلے ہو گئی تھی حالانکہ مولوی ذکاءاللہ کے فلسفہ زبان (خواہ وہ مغربی حکمائے زبان سے ماخوذ ہی کیوں نہ ہو) میں وہ خامیاں نہیں پائی جاتیں جن کے سبب سوسیئر کی تنقید ہوئی ۔ قاری اساس تنقید معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ہے اور اسے بھی مولوی ذکاءاللہ نے رسالہ تقویم اللسان ...

کیا ’سیکولر مسلم‘ کی اصطلاح درست ہے؟

گزشتہ روز فیس بک پر ایک صاحب کے اسٹیٹس کے نیچے میں نے ' سیکولر مسلم' کی اصطلاح اور اس سے جڑے ہوئے کچھ اہم مسائل پر درج ذیل تبصرہ لکھا: سیکولر مسلم کی اصطلاح کی حقیقت  کی مدلل وضاحت سے  پہلے ہم کو مذہبی اور سیکولر کی ایک تعریف متعین کرنی ہوگی۔ یہ بتانا ہوگا کہ مذہبی کیا ہے اور سیکولر کیا، اس کے بعد ہی ہم دونوں میں مشترک قدروں کی تلاش کر سکتے ہیں۔ مذہب مافوق الفطری/ معجزاتی طریقے سے حاصل شدہ علم کی بنا پر انسان کی مابعد موت نجات کے اصول مقرر کرتا ہے اور اسی علم کی بنا پر انسان کو نجات یافتہ بنانے کے غرض سے پیدائش، موت، شادی و غمی کے موقعوں کے لیے رسوم و رواج کی تخلیق، تنقید، حذف و اضافہ اور ترتیب و تہذیب کرتا ہے۔ اس طرح ہر وہ شئے اور رسم بالآخر مذہبی نوعیت کی ہو جاتی ہے جس کو مذہب اپنے اصول نجات سے متصادم نہ پائے۔ سیکولر کے معنی ‘‘دنیاوی’’ کے ہوتے ہیں۔ دنیاوی یعنی محسوسات سے متعلق چیزیں۔ یہ مذہب یا دین سے مختلف  ہے۔ ایک سیکولر شخص مافوق الفطری طریقے سے حاصل شدہ کسی علم کی بنا پر انسان کے لیے مابعد موت نجات کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ دین و مذہب کے...

مذہب اور واقعاتی صداقت

[یہ  بحث  ۲۰۱۲ عیسوی  میں فیس بک پر سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ساتھ ہوئی   تھی۔اس وقت سے   اب تک  میرے نقطہ نظر میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اب میرا یہ ماننا ہے کہ روایتی علمائے دین کا نقطہ نظر ہی اس اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو قرآن و سنت میں منقول ہے اور جس پر چودہ سو سالوں سے مسلمانوں کے صحیح العقیدہ فرقے عمل پیرا ہیں۔  چنانچہ میں اب مذہب میں   مغربی طرز کی تعقل پسندانہ روش اور دینی  و شرعی امور و مسائل میں فلسفیانہ  افکار و نظریات کے دخول نیز  شریعت کی اصلاح کے ذریعے ایک ماڈرن اسلام کی تخلیق کا سخت  مخالف ہوں ــــــــ   طارق صدیقی، ۲۹ جولائی ، ۲۰۱۵ عیسوی] محترم سعادت اللہ حسینی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ! میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں بخاری شریف کی ایک حدیث   کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا   کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے جہنم میں جانے کا عقیدہ رکھنا ایک غیرمعقول بات ہے۔   آپ کے بقول    میرا ایسا کہنا علمی بددیانتی ہے   کیونکہ اسی   حدیث میں آگے یہ کہا گ...