جمعہ، 27 جولائی، 2012

دعوت، ادعائیت، تحکمیت

عالم اسلام میں، تمام تر فکری، مذہبی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، اور تاریخی اختلافات، تنازعات اور تفرقوں، اورتمام ترگروہ بندیوں، تحریکوں، فرقوں اور مسلکوں کے باوجود، کم از کم ، یہ بات متفق علیہ ہے کہ اسلام ایک آسمانی یا الٰہی مذہب ہے۔ امتِ واحدہ کے مختلف فیہ اور متنازعہ امور کی موجودہ کثرت کے فکری، فقہی، تحریکی اور فرقہ وارانہ صورت حال میں، اور اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست اور ترقی پسند اسلام کی مغربی تقسیموں کے موجودہ عالمی منظرنامہ میں، اسلام وہ ہے، عالم اسلام کے افراد، مقامی معاشرے، تہذیبیں ، مکاتب، مسالک، خانقاہیں، فرقے، تنظیمیں اور تحریکیں جس کی مشق کرتی ہیں؛ اسلام وہ ہے، مسلمان، اپنے تمام تراختلافات، تنازعات اور مناقشات کے باوجود، جس پر انتہائی شرح صدر اور یقین کامل کے ساتھ، اور انتہائی سختی یا کم از کم انتہائی اصرار کے ساتھ، عمل پیرا ہیں—

کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ زیادہ تر مسلم اجتماعیتیں خود کو ایک ساتھ ‘برحق’، ‘فرقہ ناجیہ’، یا کم ازکم خود ہی کو ’حق سے قریب ترین‘ سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ وہ، ’مغرب زدہ‘ تقسیموں کے مطابق خواہ اعتدال پسند ہوں یا بنیاد پرست، ترقی پسند ہوں یا روایت پرست، اپنے ہی ذریعے مقرر کردہ صراط مستقیم کو صراط مستقیم سمجھتی ہیں؛ کچھ ایسی سختی یا اصرار کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک کےاپنے منفرد، مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کی تشکیل ہوئی ہے، خواہ ان کی تشکیلی بنیادیں کتنی ہی بڑی، چھوٹی، اہم یا غیر اہم کیوں نہ ہوں۔ اختلافات کی یہ بنیادیں مسالک اور مکاتب کے مخصوص نقطہ نظر پر استوار ہیں۔اس پورے منظرنامہ میں ، ایک اسلام وہ ہے جو عہد رسالت میں اپنی اصلی اور مکمل شکل میں جاری و نافذ تھا اور بہت سے اسلام وہ ہیں جو آج مسلمانوں کے درمیان اپنی مختلف اور متضاد اشاعتوں میں پائے جاتے ہیں، اورثابت نہیں ہوتا کہ عہد رسالت کا ’اصل اور مکمل اسلام ‘ان میں سے کون ہے؟ لیکن تقریباً ہر اجتماعیت یا گروہ کا دعویٰ یہی ہے کہ عہد رسالت میں اسلام وہی تھا جس کا تصور وہ کرسکتا ہے، یا جس کو اپنے تصور کی مدد سے وہ وجود میں لانا چاہتا ہے۔ اس لیے،ہر اسلامی گروہ بحیثیت گروہ کے اسلام کا کم اور اسلام کے اپنے مخصوص تصور کا اظہار زیادہ کرتا ہے۔ پس عالم اسلام کی موجودہ صورت حال میں، متفق علیہ اسلام سے زیادہ اپنے مختلف فیہ اسلام کا خانہ زاد بلکہ طبع زاد تصور مسلمانوں کی متعدد اجتماعتیوں کو اپنوں اور غیروں کے درمیان متحرک، سرگرداں اور برسرپیکار رکھتا ہے، اور اصل اسلام ان ہی گروہوں، مسلکوں اور فرقوں کے درمیان کہیں گم ہے، یا نظر نہیں آ رہا ہے اور غالباً درمیان ہی میں کہیں خاموشی سے اپنا کام کر رہا ہے، جس کو سامنے لانے کی ضرورت کے قائل سب ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ سامنے نہیں آتا، یعنی اس ’اصل‘ پر اتفاق نہیں ہو پاتا۔

اور مختلف فیہ کے اس ہجوم میں متفق علیہ، اور اس کا مفہوم بھی، گم ہو چکا ہے یا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایک نے دوسرے کو دھندلا اور گدلا کر دیا ہے۔ فروع نے اصل کو ، سپر اسٹرکچر نے بیس کو، دروبام نے زیر زمین بنیاد وں کو منکشف کرنا شروع کردیا ہے۔انتہائی بے کم و کاست طور پر، شاخوں نے اور ان شاخوں پر لگنے والے برگ و بار نے باہم مختلف ،متضاد اور متصادم اسلاموں کے ان تمام تر’’شجر ہائے طیب “ کی جڑوں کو فاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ باہم مختلف اور متضاد اسلاموں کے مابین واقع ہونے والے نظریاتی اور عملی تصادم کی بے شمار تاریخی اور معاصر نظیریں اس بات کی علامت ہیں کہ ان کی نظریاتی جڑوں میں بعض انتہائی بنیادی نوعیت کے امراض ہیں جن کی ایک بار پھر تشخیص ہونی چاہیے۔بلاشبہ، پہلے بھی اس کی تشخیص ہوئی ہے لیکن ہر بار قرآن و سنت سے دوری اور اس کے سبب پیدا ہونے والی عملی کوتاہی کو ان امراض کی تشخیص کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس حال میں کہ قرآن و سنت پر جتنی بحثیں ہوئی ہیں اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئیں، قرآن و سنت پر جتنا کچھ لٹریچر شائع ہوا اس سے پہلے کبھی شائع نہیں ہوا، قرآن و سنت پر بولنے والے جتنے مقرر آج موجود ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں رہے۔

اسلامی فرقوں اور تحریکوں کی طرف سے اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مختلف پالیسیاں اور حکمتیں اپنائی جاتی ہیں جو متشدد اور انتہاپسندانہ طرز استدلال اور کارروائیوں سے لے کر اعتدال پسندی، جمہوری طرزِ افہام و تفہیم اور جمہوری حرکت وعمل کی شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں بیشتر تنظیموں اور تحریکوں کا مطمح نظر، آخری غرض و غایت یہی ہے کہ ایک بار ’اصل اسلام‘ کے انکشاف کے بعد، یا اس پر مسلمانوں کی بڑی آبادی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد تمام تر بڑے اور بنیادی اختلافات مٹ جائیں گے، اور اسلام کا بہت کچھ ماضی ہی کی طرح ایک بار پھر بول بالا ہوگا۔ ایسی تحریکوں میں خانقاہیت سے مماثلت رکھنے والی نسبتاً ڈھیلی ڈھالی خالص روحانی و مذہبی تحریکیں ہیں جو اپنے سیاسی عزائم کا برملا اظہار نہیں کرتیں، یا جدید جاہلیت سے برسرپیکار منظم اور ہمہ گیر نوعیت کی عالم گیر تحریکیں ہیں جو علی الاعلان اسلام کو زندگی کے تمام تر شعبوں میں قائم یا نافذ کرنے کی بات کرتی ہیں۔

لیکن چونکہ ابتدا ہی سے مختلف اسباب (مثلاً تاریخی) کی بنا پر اسلام کی درجنوں مذہبی و فقہی اورسیاسی تشکیلیں ظہور میں آتی رہی ہیں اور ان میں سے بہت سی تشکیلیں اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں (تمام تر سنی اور شیعہ فرقے، فقہی مسالک)؛ چونکہ دین اسلام کی خدمت، اس کی عظمت، اس کی سرفرازی، اور اس کے غلبے کے لیے ایک سے زیادہ اسلامی تحریکات کا ظہور ہوا اور ہوتا رہا ہے (تبلیغی تحریک، تحریک اسلامی، حزب التحریر)؛ چونکہ اسلام کے مذہبی و سیاسی غلبے کے بجائے محض تہذیبی طور پر ایک صالح، صحتمند، ترقی پسند، پرامن اور متمدن مسلم معاشرہ کے قیام کے لیے ایک سے زیادہ ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید اسلامی نظریات وجود میں آئے ہیں (نیاز فتح پوری، اصغر علی انجینئر، )، اس لیے ایک ہے اصل اسلام اور دوسرا ہے اس سے کسی نہ کسی حد تک مشابہ، مختلف یا متصادم ’اسلامی نظریہ‘ جو اسی اصل اور مکمل اسلام کی بازتحقیق یا بازیافت کے لیے ہر اسلامی گروہ نے تشکیل دیا ہے، یا اس کے اندر اس کا ارتقا ہوا ہے۔

مذکورہ بالا پیراگراف کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں: جن متنوع اور مختلف خیالات، نظریات، رجحانات، کا ظہور اعتدال پسند، انتہاپسند اور روایت پرست اسلامیوں کے درمیان ہوا ہے ان کی وجہہ سے، نیز صدراول کے بعد ہی سے مختلف تاریخی اسباب کی بنا پر،اسلامی مسلک، اسلامی نظریہ، تصور، یا آئیڈیالوجی کی ایک سے زیادہ انسانی تشکیلیں موجود ہیں (سنی، شیعہ، صوفی، تبلیغی، تحریکی، متشدد، معتدل، جمہوری، روشن خیال (لبرل)، ترقی پسند، نسوانیتی، آمرانہ، وغیرہ)، اس لیے ایک ہے ’اصل اور مکمل اسلام‘ جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سالوں[1] سے ہماری نظروں سے، بحیثیت مجموعی، کسی نہ کسی حد تک اوجھل رہا ہے، اور جو عہد رسالت میں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جاری و نافذ تھا، اور دوسرا ہے اسی اصل اور مکمل اسلام کی باز تحقیق اور بازیافت کے لیے تشکیل دیے گئے اسلامی نقطہ ہائے نظر، مسالک، مکاتب اور نظریے۔ اس طرح، نتیجے کے طور پر،کم از کم عملاً، اصل اسلام اور اسلامی نظریہ ایک نہیں رہتے بلکہ دو ہو جاتے ہیں۔ اصل اسلام — یعنی متفق علیہ الٰہی یا آسمانی مذہب، اور اسلامی نظریہ — یعنی انسانوں کے ذریعے اس الٰہی مذہب تک پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ’انسانی نظریہ‘۔ ہمیں آج اسلام سے متعلق کسی بھی مسئلے پر بات کرتے وقت الٰہی اور انسانی کے اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

الٰہی مذہب ایک الٰہی کارنامہ ہے، اور الٰہی مذہب کا تصور اور اس کی بنیاد پر ایک نظریہ قائم کرنا یا آئیڈیالوجی مرتب کرنا ایک انسانی کارنامہ۔ الٰہی کارنامہ از قسمِ فطرت ہے، انسانی کارنامہ از قسم تہذیب۔ از قسم فطرت یعنی اللہ کے ذریعے خلق کی گئی ایک قدرتی، فطری، غیر آلودہ اور معصوم حالت، اور از قسم تہذیب یعنی اللہ کی اس فطرت پر انسانی عمل کے ذریعے پیدا شدہ ایک آلودہ اورغیر معصوم حالت جس میں خطا کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے اور ہے۔ الٰہی اور انسانی کارنامہ، یا فطرت اور تہذیب کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا موجودہ دور میں ناگزیز ہے (بلکہ ہر دور میں ناگزیر ہی تھا)۔ اگر کوئی اسلامی فرقہ، جماعت، تنظیم یا تحریک اس بنیادی فرق کو تسلیم نہیں کرتی، تو اس کے لیے اس کے سوا کچھ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے ہی اسلامی عقیدے، نظریے، اور تہذیب کو اسلامی عقیدہ، نظریہ اور تہذیب سمجھے اور دوسری تمام تر جماعتوں اور گروہوں کے نظریے کو کسی نہ کسی حد تک ، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی لحاظ سے، باطل یا گمراہ کن قرار دے، کم از کم مختلف فیہ معاملات کی حد تک۔ اور گروہ بندی یا فرقہ پرستی میں مختلف فیہ کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ متفق علیہ کی۔ اگر متفق علیہ ہی کی اہمیت ہوتی تو سرے سے گروہ بندی یا فرقہ پرستی کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔ پس عالم اسلام میں تفرقہ و اختلاف کی بنیادی وجہہ یہی ہے کہ ایک فرقہ الٰہی اور انسانی کے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا یا ملحوظ رکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا۔ وہ اپنی ہی طبع زاد اسلامی فکر یا اپنے ہی خود ساختہ اسلامی فلسفے کو، جس کو روایتاً یا درایتاً چلے آتے اپنے ہی موہومہ، یا مفروضہ اسلام کی بنیاد پر اس نے استوار کیا ہے، اسلامی سمجھانے پر کمربستہ ہے اور دوسرے تمام تر فرقوں پر گمراہ، بدعتی، فتنہ پرور، لائق مذمت، قابل ملامت، یا کم از کم غلط، ناقابل عمل، غیرموزوں ، گمراہ کن وغیرہ قرار دینے پر بضد ہے۔

اور یہ ایسی نظریاتی، فکری، ایمانی ، اور مذہبی صورت حال ہے جو عملی طور پر عالم اسلام کے اتحاد کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور یہ صورت حال کبھی ختم نہیں ہو سکتی ، کیونکہ ایک ایسی جدید فقہ جس کو تمام مسلمان بالاتفاق تسلیم کر لیں وضع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ایک ایسی وحدانی شریعت جس پر تمام مسلمان بصمیم قلب عمل کر سکیں، موجود نہیں ہے۔جو اسلامی تنظیمیں اور تحریکیں عالم اسلام کو ایک جسد واحد کے طور پر دیکھتی ہیں، وہ دراصل اپنے نظریے کو عالم اسلام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، اور عالم اسلام جو اسلامی عقائد تک میں باہم مختلف ہے،مکمل طور پر ایسے کسی وحدانی نوعیت کے نظریے کو تسلیم نہیں کر سکتا جو اس کے اندر پائے جانے والے فکری و مسلکی اختلاف کا سد باب کرنے کی کوشش کرے۔ آج عالم اسلام اس مقام پر ہے جہاں اسے مذہبی، فقہی، قانونی، تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی طور پر متحد کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہو سکتی ۔ اوراگر غلطی سے تاریخ کے کسی دور میں، کسی مقام پر، کسی اسلام پسند تحریک نے جوش خطابت کے بل پر ایسا کارنامہ کر بھی دکھایا تو اس کا آخری نتیجہ خون خرابے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔

دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے ، گروہوں ، فرقوں اور مسلکوں میں منقسم مسلمان، اسلام کے اپنے منفرد تصور اور اپنی مخصوص تعبیر کے مطابق ہی اس کو جینا چاہتے ہیں ۔ جو اسلامی تحریکیں اس بڑی حقیقت کو نہ سمجھیں گی وہ اسلام کو دنیا میں بطور ایک نظریاتی قوت کے قائم نہ کر سکیں گی۔بلکہ وہ ایک تحریکی فرقہ بھی بن سکتی ہیں جس سے محفوظ رہنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تمام تر اشاعتوں، یا تمام تر جدید اور مابعد جدید اسلاموں کو صدق دل سے تسلیم کر لیں۔

[2]

عالم اسلام کی مذہبی وحدتوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے عطاکی گئی آخری کتاب ہے جسے اللہ کے آخری رسول آنجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔ ہر دعوےکے چند عقلی تقاضے ہوتے ہیں جن کو اگراس کے داعی پورا نہ کریں تو وہ اپنے ہی دعوے کے لحاظ سے باطل ہو جاتے ہیں۔

اگر قرآن تمام انسانوں کی طرف اللہ کی آخری کتاب ہے اور اگر یہ تمام انسانوں سے، ان کی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں، بلاتفریق رنگ و نسل ، بلا تفریق مذہب و ملت خطاب کرتی ہے تو ہر دنیا کے ہر فرد اور جماعت کو اس کا حق آپ سے آپ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ پہلے تو اس کتاب کو پڑھے، اور پھر صرف اور محض اپنے لیے اس کے معنی متعین کرے۔یعنی اس کتاب کے جملوں اور دعووں کی تشریح، توضیح، تاویل اور تعبیر کرے تاکہ وہ اس خطاب کو سمجھ سکے اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق چاہے تو اس پر عمل کرے اور چاہے تو نہ کرے۔

کسی متن کے معانی کے تعین میں افراد باہم مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور متفق بھی۔ اور یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ایک فرد یا جماعت اس کتاب کے معنی کی توضیح، تعبیر اور تشریح کے اس عمل میں غلطی پر بھی ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی کو بزور قوت درست کرنے کا اختیار کسی دوسرے فرد یا جماعت کو نہیں ہو سکتا۔ ایک فرد یا جماعت دوسرے فرد یا جماعت کو اس کی غلطی سے مطلع اور اس پر محض عقلی اعتبار سے گرفت تو کر سکتی ہے لیکن اس پر اس غلطی کی اصلاح کے لیے کسی قسم کا جسمانی دباو ڈالنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو فرد یا جماعت غلطی کی نشاندہی کر رہی ہو وہ خود غلطی پر ہو، یا جس شخص سے غلطی ہو رہی ہو وہ اپنی غلطی کو غلطی ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔

ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرآن کو اسی طرح سمجھنے کا دباو بنانا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جس طرح وہ خود سمجھتا ہے، کیونکہ جس طرح قرآن ایک شخص کے پاس پہنچایا گیا ہے اسی طرح دوسرے کے پاس بھی پہنچا یا گیا ہے۔ قران کوئی پرائیویٹ نوعیت کا خط نہیں جو کسی ایک فرد، جماعت یا قوم کے نام لکھا گیا ہو اس لیے ایک شخص دوسرے شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ قرآن کے معانی و مفہوم کی تعیین اسی طرح کرے جس طرح وہ خود کرتا ہے۔ قرآن پر اتھارٹی کااگر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے تو وہی کر سکتا ہے جو اس کا خالق ہے یا پھر وہ جس نے اسے اس کے خالق کے نام سے پیش کیا ہے۔ حتی کہ دنیا کی کسی بھی ریاست یا حکومت کے لیےبھی—خواہ وہ کوئی اسلامی خلافت ہی کیوں نہ ہو— یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی شخص کو قرآن کا مفہوم متعین کرنے اور اس پرعمل کرنے نیز اپنے اس متعینہ مفہوم کی تبلیغ و اشاعت سے روکے کیونکہ اس کے خالق نے اسے یکساں طور پر سب کے پڑھنے کے لیے بھیجا ہے۔اور پڑھنے یعنی قرأت کا یہ عمل معنی کے تعین کے بغیر ،یعنی اس کی حسب منشا تشریح، تعبیر اور توضیح کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔اور قرأت اور اخذ ِمعنی کا عمل معنوی اعتبار سے تکثیری نوعیت کا ہوتاہے نہ کہ وحدانی۔

قرآن کو جس قدر افراد پڑھیں گے اس کے اتنے ہی مختلف و متصادم معانی، تعبیرات و توضیحات وجود میں آئیں گی، اور ان کی بنیاد پر ایک سے زیادہ اسلاموں، یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کی تشکیل ہوگی، جو فکری سطح پر اپنی نوعیت میں مختلف بھی ہوں گے اور متضاد بھی، متصادم بھی ہوں گے اور متعاون بھی۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جوصرف ایک تخئیل آرائی ہو بلکہ یہ عہد رسالت کے تیس سال بعد سے، یعنی کم و بیش چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔ لیکن واقعات کی دنیا میں ایک فرقہ یا جماعت دوسرے فرقہ یا جماعت کو کتاب و سنت کی حسب منشا تفسیر، تعبیر، تشریح اور توضیح کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اور اسی کا نتیجہ عملاً یہ ہو رہا ہے کہ تقریباً ڈیرھ ہزار سال سے مسلمانوں—اور صحیح معنوں میں کہیں تو انسانوں—کے درمیان خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

فرقے اور جماعتیں اپنے مخصوص تصور کی بنا پر ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پربعض سنی فرقے شیعہ کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن شیعہ اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتے ہیں، بریلوی دیوبندی اور وہابی کی تکفیر اور ان کو اسلام سے خارج کرتے ہیں لیکن دیوبندی اور وہابی خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ تکفیر اور اخراج کے فتووں کے باوجود سب اپنے کو مسلمان سمجھتے اور کہتے ہیں۔ اب یا توتکفیر کے فتووں کو غلط کہا جائے یا مسلمان ہونے کے دعووں کو، یا اس وحدانی مذہبی تصور کو غلط کہا جائے جس کے تحت یہ تمام تر فرقے اور جماعتیں وجود میں آئی ہیں اورصرف خود ہی کو ’اصل‘ اسلام سمجھتی ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد فکری ضلالت و گمراہی کا بہ زور قوت استیصال کرنااسلامی فرقوں اور جماعتوں کی عدم رواداری پر مبنی ایک تاریخی روش ہے جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی فرقوں اور جماعتوں کی فقہی و فکری بنیادوں میں ہی جبروقہر کےعناصر پائے جاتے ہیں جو کتاب و سنت کی تکثیری قرأت اور ان کی حسب منشا تاویل و تعبیر اور اس پر آزادانہ مشق کرنے میں مزاحم ہوتے ہیں۔

کتاب و سنت کی مختلف قرأتوں کے نتیجے میں چونکہ فطری طور پر اسلام کی متعدد اشاعتیں ظہور میں آئی ہیں اور آتی رہیں گی اس لیے ’’اصل اسلام‘‘ کا تصور اب اسلامی فرقوں (یا جماعتوں) کے انفرادی واہمہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔قران جب مختلف زمان و مکاں میں رہنے بسنے والے باہم مختلف، متضاد اور متصادم طبائع ،اذہان اور رجحانات رکھنے والے انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے تو اس کی قرأت بھی باہم مختلف، متضاد اور متصادم ہوگی اور اس کے نتیجےمیں اس کی ایک سے زیادہ تعبیرات و تشریحات وجود میں آئیں گی جن پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں بالکل فطری طور پرایک سے زیادہ اسلاموں یا اسلام کی ایک سے زیادہ اشاعتوں کا ظہور ہو گا۔ البتہ قرأت کے ایسے ہی عمل کے نتیجے میں ایک ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کا تصور ضرور ابھرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسلام کی متعدد اشاعتوں کے مختلف فیہ عناصر کا انسدادکرنے کے ذریعے’فکری انسداد ‘یا ’مفتیانہ اخراج ‘[1]کے ذریعے ایک عالمگیر اسلامی وحدت قائم کرنے کی ناکام سی کوشش کی جائے، اصل پر اصرار ترک کرتے ہوئے ’’متفق علیہ اسلام‘‘ کے اس تصور کو ترقی دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔مگر اس کا طریقہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جس فرقے کو چاہیں جمہوری قانون سازی سے کام لے کر اسلام میں شامل رکھیں اور جس کو چاہیں خارج کردیں۔چونکہ ملت اسلامیہ کو متحد کرنے سے زیادہ اس کو پرامن بنانے کی ضرورت ہے اور موجود دور میں ملت اسلامیہ کو متحد کرنے کی ہر کوشش نقض امن کا باعث ہوگی کیونکہ ہر اتحاد کے لیے ضرورت ہوتی ہے چند متفقہ عقائد کی اور اسلام میں کوئی ایک ایسا عقیدہ نہیں جو متفق علیہ ہو۔ توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد میں ہی مسلمانوں کے درمیان زبردست اختلافات ہیں تو بقیہ اسلام میں کتنے امور ونکات مشترک ہیں اس سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دو مختلف مذاہب بھی متعدد امور میں مشترک ہو تے ہیں۔

لیکن اگر اتحاد امت کا تصور اس قدر پرکشش ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں تو اس کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ متعدد قدیم و جدید اسلامی فرقے اور جماعتیں جن نکات پر متفق ہوں صرف انہیں دیکھا جائے اور جن پر اتفاق ممکن نہیں اس کی بنیاد پر تکفیرواخراج کی آمرانہ و جابرانہ جمہوری روش سے پرہیز کیا جائے ۔[2] یہ بات ہمیشہ ملحوظ رکھنی چاہیے کہ’ اصل ‘کو برامد کرنا اب کسی صورت سے ممکن نہیں ہے کیونکہ نہ ہمارے درمیان اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور نہ ان کے صحابہ جن سے معانی کے تعین کے سلسلے میں رجوع کیا جائے۔ البتہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم ، ان کے صحابہ اور ان کے بعد کے لوگوں کے اقوال و آثار موجود ہیں ، مگر ان کے اقوال و آثار بھی بدلے ہوئے حالات میں نئی تعبیر کا مطالبہ کرتے ہیں اور بہ اعتبار اخذمعنی (تاویل و تعبیر کے ذریعے)ان کی نوعیت بھی وہی ہے جو قرآن کی ہے۔

جب خود انسان اپنے عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں، صلاحیتوں اور خامیوں میں اتنا مختلف اور متضاد ہے تو اسی انسان کے اپنے مخصوص اسلاموں میں یہ سب خوبیاں اور خامیاں کیوں نہ درآئیں گی؟ مختلف النوع اسلامی مسالک، افکار اور نظریات نتیجہ ہیں خود انسان کے اپنے تصور کا جو کتاب و سنت کی بنیاد پر ہر ایک نے اپنے لیے اپنی’محدود‘عقل و فہم سے کام لے کر قائم کیا ہے(جو ناگزیرہے)۔ اور خوبیوں کے اور خامیوں کے باوجود جب ایک انسان خود کو اصل انسان کے طور پر متعارف نہیں کراتا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ صرف اپنے مذہب کو اصل مذہب کے طور پر متعارف کرائے؟ انسان کا مذہب اور مسلک محتاج ہے اس کے اپنے مخصوص نظریے کا جس کو اس نے اپنی انسانی حیثیت میں قائم کیا ہے، اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سے کام لیتے ہوئے قائم کیا ہے ، پھر اس کی ان خوبیوں اور خامیوں کا اثر اس کے قائم کردہ نظریے میں پایا جانا کیا بعید کیا ہے کہ وہ اپنے ہی نظریے کو’’ اصل اور مکمل اسلام ‘‘کے نام سے پیش کرتا ہے؟ کیا دنیا کا کوئی انسان خود کو اصل اورمکمل انسان کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس کے سوا دوسرے جتنے ہیں وہ سب بے اصل اور نامکمل یا کم اصل اور ناقص ہیں؟ پھر مذہب اور مسلک کے اپنے تصور کے ساتھ وہ یہ رویہ کیوں اپناتا ہے کہ اس کے تصور کی رو سے جو مذہب اور مسلک صحیح ہے، صرف وہی صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں۔

اصل مسئلہ تب پیش آتا ہے جب ایک مذہب اور مسلک خود ہی کو معنی کا حکم بنا لیتا ہے ، اپنی ہی عقل کو حجت قرار دیتا ہے اور دوسروں کی عقل کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ خود کو معنی کا حکم بنانے کے ذریعے، ایک مذہب اور مسلک دوسرے مذہب اور مسلک کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور ایک مصلح ذہنی طورپر خود کو اپنے مقابل سے بلندذہنی و فکری سطح پر فائز پاتا ہے۔ صورت حال اس وقت مزید خراب اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے جب ایک مذہب و مسلک دوسرے مسلک و مذہب کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا کرنا چاہتا ہے۔ یعنی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے تبلیغی عمل کے ذریعے اسلامی یا غیر اسلامی ریاست میں قانون سازی کے جمہوری عمل پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ اور اس تبلیغی کوشش کے نتیجے میں فساد فی الارض رونما ہوتا ہے۔ اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاو تو وہ بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔ہرگزنہیں ، دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو مفسد ہیں، جو اپنی حقانیت کو بہ جبر منوانا چاہتے ہیں۔ ایسی جابرانہ و مصلحانہ کوششوں سے ایک مذہبی گروہ کے اندر ادعائیت اور تحکمیت پیدا ہوتی ہے، وہ حق کا حوالہ دار بن جاتا ہے۔ تحکمانہ ادعائیت کا پیدا ہونا ، جمہوری عمل کے ذریعے فکری اقلیتوں کو اسلام سے خارج کردینا، اور انہیں خود کو اسلام سے خارج شدہ نہ سمجھنے پر جسمانی تشدد سے کام لینا، خود کو معنی کا حکم بنانے کا منطقی نتیجہ اور اس کے مقتضیات میں سے ہے۔