نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اسلام میں چہرے کا پردہ اور تجدد پسندوں کا فہم قرآن

1
بعض اسلامی تجدد پسند یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت نہیں ہے۔ لیکن میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ملاحظہ ہو ایک فیسس بک دوست ا۔ش۔ صاحب کے ایک اسٹیٹس پر میرا درجِ ذیل تبصرہ:
ذرا تفصیل کے ساتھ احزاب کی ان آیات پر غور کریں:
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ۠ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ
نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب ۵۳)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۵۹
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (احزاب ۵۹)

اوپر جو پہلی آیت پیش کی وہ احزاب کی ۵۳ ویں آیت کا ایک حصہ ہے اور اس میں ازواج نبی کے متعلق مردوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ان سے پردے کے باہر سے کچھ مانگو۔
یعنی مومنوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنے سامنے ہو کر بات کریں۔
اوپر جو دوسری آیت پیش کی گئی وہ احزاب کی ۵۹ ویں آیت کا ایک حصہ ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ازواج مطہرات، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ وہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ اگر چادروں کے پلو لٹکانے سے مراد چہرے کا پردہ نہیں ہے تب تو اس آیت کی رو سے عام مومنوں کی عورتوں کے ساتھ ساتھ ازواج و دخترانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی چہرے کا پردہ نہیں ہے۔
منحرفانہ، مغرب زدہ اور تجدد پسند تاویلات کے مطابق احزاب کی ۵۹ ویں آیت میں ازواجِ و دخترانِ نبی اور عام مومنوں کی عورتوں کے لیے باہر نکلتے وقت چہرے کے پردہ کا حکم نہیں ہے!
لیکن ان تجدد پسندوں نے احزاب کی ۵۳ ویں آیت پر غور نہیں کیا ورنہ وہ ۵۹ ویں آیت میں جلباب کے مفہوم کو مسخ نہ کرتے۔ ۵۳ ویں آیت میں مومنوں کو پہلے ہی یہ حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ ازواجِ نبی سے پردے کے باہر سے کچھ مانگیں۔
اب تجدد پسندوں کے مطابق ۵۹ ویں آیت کی رو سے جب ازواجِ مطہرات گھر سے باہر نکلیں تو عام مسلمان عورتوں کی طرح ان کا چہرہ کھلا ہو (کیونکہ اس آیت کی رو سے چہرے کا پردہ نہ ازواج مطہرات کے لیے ثابت ہوتا ہے نہ عام مومنین کے لیے!) لیکن جب وہ یعنی ازواجِ مطہرات اپنے گھر کے اندر ہوں تو آیت نمبر ۵۳ کی رو سے عام مرد ان سے پردے کے باہر سے بات کریں۔
پس، ازواجِ مطہرات جب گھر سے باہر نکلیں تو چہرہ کھولیں اور جب گھر کے اندر ہوں تو پردہ کریں! یہی ہے تجدد پسند مغرب زدہ مفسروں کا تفسیری کارنامہ اور فہم قرآن!‘‘
 [ا۔ش صاحب نے میرے اس تبصرے کا کوئی جواب نہیں دیا۔]

2
مذکورہ بالا تبصرہ میں نے اپنے فیس بک پروفائیل پر ۲۲ مئی ۲۰۱۸ کو ایک مراسلے کے طور پر پوسٹ کیا تھا۔ اس مراسلے کے نیچے ایک دوسرے فیس بک ساتھی ا۔ ن۔ صاحب سے مفصل گفتگو ہوئی جو درج ذیل ہے:

۱۔ن: آپ کے دلائل سے قطع نظر آپ کی دوسری پیش کردہ آیت کے تعلق سے استفسار تھا۔ سورہ احزاب میں یہ فقرہ "تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں" کافی غور طلب ہے بلکہ پردے کے حکم کی بنیاد بھی یہی ہے جو اس کے شان نزول کی جانب بھی واضح اشارہ کر رہا ہے یعنی اگر ان عورتوں کو خود پر چادر ڈالنے کا (مروجہ اور باقاعدہ نقاب نہیں) حکم دیا جارہا ہے تو ظاہر ہے اسی آیت میں اس کی وجہ بھی بتائی جارہہی ہے کہ "تاکہ وہ پہچان نہ لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔" لیکن کیا یہی سبب دور جدید میں موجود ہے؟ بلکہ اس کے برعکس نقاب اوڑھنے (چادر نہیں) سے تو وہ دور سے پہچان لی جاتی ہیں اور بعض مغربی ممالک میں ستائی بھی جاتی ہیں۔ یعنی اس آیت میں دیے ہوئے حکم الٰہی کا سبب ہی ختم ہوگیا بلکہ الٹ ہوگیا، گویا بالفاظ دیگر اس حکم کو ناسخ کیوں نہ تسلیم کرلیا جائے، اس پر اصرار کیوں کیا جائے چونکہ منشائے الٰہی آیت سے واضح ہے جس کا سرمو انحراف کیا جارہا ہے۔
طارق احمد صدیقی: اگر آج بھی کوئی عورت زمانہ جاہلیت کی سی سج دھج کے ساتھ پازیب کی جھنکاریں دیتے ہوئے نکلتے تو شہدوں کو موقع مل ہی جاتا ہے۔ قرآن چونکہ فتنہ کا مکمل سد باب کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے اس کے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ عورت جو بناو سنگھار کیے رہتی ہے وہ اس کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، اس بنا پر عین ممکن ہے کہ لوگ اسے چھیڑیں جیسا کہ آج بھی عام طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے قرآن اپنے کہنے میں ٹھیک ہے کہ اپنے بناو سنگھار کو چھپاو اور لوگوں کو یہ تاثر دو کہ تم ایسی عورت نہیں ہو جو سرعام دعوتِ نظارہ دیتی ہوئی چلتی ہے! بلکہ تم ایک ایسی عورت ہو جو نہیں چاہتی کہ لوگ اس کے چہرے کو دیکھ کر مزلے لیں اور آورہ صفت لوگ فقرے کسیں۔ اس لیے تم اپنا چہرہ جلباب سے چھپا لو تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ عورت زمانہ جاہلیت کی سی نہیں ہے جو ہم سے ہنسی مذاق کرے۔ یہ ایک احتیاطی تدبیر تھی جو قرآن کریم میں بتائی گئی۔ اس احتیاطی تدبیر کی بنیاد ہی جنسی نوعیت کے حملوں سے بچانے پر رکھی گئی ہے۔ اس میں عورتوں کو ہی نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنے کو اوڑھ لپیٹ کر چلیں۔
موجودہ دنیا میں اخلاق کا معیار اب دوسرا ہے۔ اب یہ مانا جاتا ہے کہ عورت خواہ کتنا ہی بناو سنگھار کر کے نکلے، کسی کو اسے چھیڑنے کا حق نہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد کو راہ راست پر لائے۔ اس لیے قرآنی دور کے معیارِ اخلاق اور آج کے معیار اخلاق میں فرق ہے۔ موجودہ دور میں ہر عورت کو پورا پورا بناو سنگھار کر کے نکلنے، مثلا لپ اسٹک لگا کر، پازیب کی جھنکار دیتے ہوئے، اور پرفیوم کی خوشبو اڑاتے ہوئے نکلنے کا اختیار ہے۔ آنکھیں نیچی رکھنا ہے تو مرد رکھے۔ اور اگر وہ ایسا ہی وحشی ہے تو حکومت اسے قابو میں کرے۔ یعنی موجودہ معیار اخلاق میں مرد کو سدھایا جاتا ہے لیکن اسلام میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں طور پر نصیحت کی گئی ہے لیکن عورتوں کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کی وجہہ یہ تھی کہ لوگ تجارتی اور جنگی مہمات پر نکلتے تھے، پیچھے عورتیں گھروں کی نگہبانی کرتی تھیں۔ اس لیے ان سے کہا گیا کہ وہی خود کو چھپائیں تاکہ فتنے کا سدباب ہو سکے اور مردوں کو صرف نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا۔
آپ جو بات کہہ رہے ہیں وہ اگر یہی ہے کہ موجودہ دور میں برقعہ پوش خواتین کو مسلمان کے طور پر پہچان کر مغربی معاشروں کے شرانگیز عناصر شرارتیں کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں بنیادی وجہہ جنسی نہ ہو کر کمیونل یا مذہبی نفرت پر مبنی ہوئی۔ بات اگر مسلمان عورت کے طور پر پہچانے جانے کی ہے تب تو وہ بیچاری اسکارف بھی نہ باندھے، بلکہ بند گلے کا کرتا بھی نہ پہنے، اور کوئی ایسی شناخت اپنے جسم پر نہ رہنے دے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ یہ ایک مسلمان ہے! پھر تو یہ مذہبی تشخص کا مسئلہ ہو گیا کہ دنیا کے فرقہ پرست یا کمیونل عناصر یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان عورت بالکل غیرمسلموں کا لباس پہن کر نکلے ورنہ نکلے ہی نہیں۔ اگر کسی ملک کا ماحول واقعی ایسا ہی ہو گیا ہو تو وہاں برقعہ پہن کر نکلنا تو خطرناک ہی ہوگا، خدا معلوم کون کس وقت کدھر سے حملہ کر دے۔ اس لیے وہاں عام لباس پہن کر نکلنا چاہیے۔ لیکن یہ محض ایک اضطراری بات ہوگی۔ جب یہ صورتحال ختم ہو جائے تو اسلام کی رو سے جلباب لگانا ضروری ہوگا۔
قرآن کی بات کا محور یہاں ’’جنسی ہراسانی‘‘ معلوم ہوتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے یہاں ایک اصولی بات کہہ دی گئی ہے۔ ممکن ہے اس میں اقتدار کا پہلو بھی شامل ہو گیا ہو کیونکہ مسلمان اس وقت مدینہ میں ایک غالب قوت تھے۔ اس سیاق میں بھی ’’پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں‘‘ کی تفسیر کی جا سکتی ہے کہ مثلاً جلباب والی عورتیں پہچان لی جائیں کہ بیحیا اور کھلاڑی نہیں ہیں بلکہ برسراقتدار مسلمانوں میں سے ہیں۔ لیکن یہ مجھے دور کی کوڑی لگتی ہے۔ مغربی ملکوں میں برقعہ پوش عورتیں چھیڑی جاتی ہیں لیکن اگر مسلمان وہاں برسر اقتدار ہوتے تو شرانگیز عناصر کو اس کی جرات نہ ہوتی، اس طریقے سے سوچنے پر تو یہ سارا معاملہ جنسی محور سے ہٹ کر اقتدار کے محور پر آ جاتا ہے اور جنسی ہراسانی ایک ثانوی درجے کا سبب رہ جاتا ہے۔ اور اس لیے شاید ایسی تفسیر کرنا درست نہ ہو۔ 

۱۔ن: آپ نے جو سورہ احزاب کی متذکرہ آیت کی تفسیر بتائی ہے، وہ اختراعی ہے۔ چونکہ آیت میں بناؤ سنگھار کے لیے ستائے جانے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ صاف فقرہ ہے "تاکہ پہچان نہ لی جائیں اور ستائی نہ جائیں"؛ گویا واضح ہے کہ یہاں تشخص مسئلہ ہے، کیوں کہ لفظ 'پہچان' تشخص سے عبارت ہے۔ بناؤ سنگھار تو کفار کی عورتیں خوب کیا کرتی تھیں، اگر بناؤ سنگھار کے سبب ہی خطرہ لاحق تھا تو پھر سب سے زیادہ زد تو ان پر ہی پڑتی، سب سے زیادہ وہی ستائی جاتیں۔ 
طارق احمد صدیقی: جو تفسیر میں نے کی ہے وہ اصلا مولانا مودودی کی ہے۔
(یہ تبصرہ گفتگو ختم ہونے کے بعد اڈٹ کیا گیا ہے)
ا۔ن: مودودی صاحب بھی انسان ہی تھے۔ میں کلام الٰہی کی بات کررہا ہوں جس میں بناؤ سنگھار کی شق موجود نہیں ہے۔ 
طارق احمد صدیقی: اس آیت میں نہیں ہے لیکن سورہ نور کی ایک آیت سے ملا کر پڑھنے پر مفہوم مکمل ہو جاتا ہے۔  
 ۱۔ن : اگر آپ کی نظر میں مودودی صاحب کی تفسیر درست ہے تو پھر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نقاب شہوانیت کو روک سکتا ہے؟ کیا یہ فائر وال (نقاب) مملکت اسلامیہ میں نقاب اوڑھی ہوئی عورتوں، معصوم بچیوں حتیٰ کہ مدرسے کے بچوں کو بوالہوس اور شہدوں سے محفوظ رکھ سکا؟ گویا ایک ایسا اصول وضع کیا گیا جو ناکام ہوگیا، جب کہ ہم مغربی عورتوں میں ریپ کا تناسب کم دیکھتے ہیں، باہم رضامندی سے بیشتر کام انجام پاتے ہیں۔
طارق احمد صدیقی: میں نے یہاں قرآن کیا کہتا ہے اس کے متعلق مولانا مودودی کی مدد سے اپنی رائے بیان کی ہے۔ میں اپنے نجی طریق فکر کی رو سے جنسانیت اور خواتین کے لباس پر گفتگو نہیں کر رہا ہوں۔ مختصرا یہ عرض کر دوں کہ میں یہ مانتا ہوں کہ خواتین اپنی مرضی کا لباس پہننا چاہیں تو مجھے اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
ا۔ن: دراصل ہوا یہ کہ آپ نے پوسٹ میں مودودی صاحب کا ریفرنس دیے بغیر بات کی تھی، اسی پر میں نے گفتگوکا آغاز کیا۔ یہ تو بیچ میں مودودی صاحب آگئے ورنہ میں شاید کسی پروفیشنل مفسر پر رائے بھی دینا گوارا نہیں کرتا ہوں۔
طارق احمد صدیقی: پوسٹ میں تو اپنی رائے بیان کی ہے، البتہ آپ کے جواب میں جو تبصرے لکھے، ان میں مولانا سے استفادہ کیا۔
[اس کے بعد الف نون صاحب نے تبصرہ نہیں کیا۔] 

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تحقیق کے مسائل

تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردہ ٔ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصہ ٔ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک نتیجے تک پہنچنے سے زیادہ ایک طریقے ( تک پہنچنے) کا نام ہے۔نتیجہ خواہ کچھ ہو، موجودہ دور میں اس کے طریقہ ٔ کار یا منہاجیات کو صاف و شفاف بنانا فلسفیانہ طور پر زیادہ ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ زیادہ تر نتائج صحت کے ساتھ محسوسات کے دائرے میں حتی الامکان منتقل ہو سکیں۔ دائرہ تحقیق میں ایک مقدمہ کو نتیجہ میں بدلنے کے طریقے کی جس قدر اصلاح ہوتی جائے گی اسی قدر تحقیق معتبر مانی جائے گی۔ البتہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی تحقیق کا طریقہ صحیح نہیں ہو اور نتیجہ بالکل صحیح ہو۔ لیکن اس ناقابل حل مسئلے کے باوجود بہرحال طریقے میں حذف و اضافہ اور اصلاح و تصحیح کی ضرورت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔ حق کے معنی سچ کے ہیں۔ مادہ حق سے...

قرآن اور بگ بینگ

ایک بہت طویل عرصے سے اہل اسلام کا مغرب زدہ طبقہ قرآن کی تصدیق جدید ترین سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے. اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب نہ ہوتی تو اس میں بیسویں صدی کے سائنسی انکشافات کا ذکر چودہ سو سال پہلے کیونکر ممکن تھا؟ اس سلسلے میں ایک بہت بڑی مثال بگ بینگ کی دی جاتی ہے اور قرآن کی اس آیت کو دلیل بنایا جاتا ہے: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

     یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں...