بدھ، 28 نومبر، 2018

تہذیبوں کا تصادم اور مولانا مودودی

مولانا مودودی کا مضمون "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب" ماہنامہ ترجمان القرآن کے ستمبر 1934 عیسوی کے شمارے میں شائع ہوا تھا. درج ذیل اقتباس سے معوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے گو "تہذیبوں کا تصادم" کو اصطلاح کے طور پر نہ استعمال کیا ہو لیکن وہ تہذیبوں کے مابین تصادم کے تصور سے پوری طرح آگاہ تھے. اور اس اعتبار سے وہ سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے پیش رو کہے جا سکتے ہیں.

"مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا ان میں سے بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس اپنی ایک تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلہ میں وہ اپنے خصائص کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں تو بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں، اور کسی شدید تصادم کی نوبت نہ آنے پائی۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی اصول کلیتہً اس تہذیب کے مخالف واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اور ان کے تصادم سے مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کے ہر شعبے پر نہایت تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔"

سید ابوالاعلی مودودی, "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب", مشمولہ تنقیحات, ناشر: دفتر رسالہ ترجمان القرآن, لاہور. سن اشاعت: درج نہیں لیکن دیباچہ 1939 عیسوی میں لکھا گیا, صفحہ 8

(مولانا مودودی کا مذکورہ بالا مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس کا یہ اقتباس انٹرنیٹ سے ہی کاپی کیا گیا ہے).