ہفتہ، 23 نومبر، 2013

تہذیبیں، نشأۃِ ثانیہ، ترجمہ



[اس تحریر کا مقصد ایک وسیع  تر سیاق  میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے ایک  روشن خیال اور ترقی پسند تصور کو سامنے لانا ہے۔ یہ ایک فکری مقالہ  ہے  اور تحقیقی  نقطۂ نظر سےاس میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔ رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال کے الفاظ  کو ان کے مجرد معنوں میں استعمال کیا گیا  اوران کا تعلق کسی خاص مکتبِ فکر یا نظریے سے وابستہ افراد سے نہیں ہے۔ ]

مغربی تہذیب کے ہمہ جہت غلبہ و استیلاکے ردِّعمل میں جزیرہ نما ہند کی مختلف قوموں کےبنیادپرست روایتی یا ایک لفظ میں رجعت پسندذہنوں میں اپنی  تہذیبی جڑوں سے مراجعت  اور ان کی  مدافعت پر مبنی  بظاہر ایک  طاقتوراحیائی شعور پیدا ہوا ہے، اور  اسی  بنا پر  ان کے اندرسے  ایسی دینی، ثقافتی اور سیاسی  تحریکیں ظہور میں آئی ہیں جو  اپنی تہذیبوں  کے ‘سنہرے ماضی ’ کو ازسرنوِ  زندہ کرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کی واقعی جستجو سے زیادہ اس کا رومانی تصور تہذیبوں کے رجعت پسند عناصر کو متحرک رکھتا ہے اور اسی کے زیرِ اثر وہ زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی نوعیت کی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے مذہب اور تہذیب کے ایک‘مکمل نظام ِ حیات’یا‘طریقۂ  زندگی’ہونے کا دعویٰ‘پورے زور’کے ساتھ کرتے ہیں۔ فلسفیانہ، علمی اور سائنسی  سطح پر وہ اپنی مذہبی کتابوں کوپیش کرتے ہیں،اورتہذیبی،ثقافتی اوراخلاقی سطح پر وہ اپنی زبان، تاریخ،اساطیر اور رسوم و روایات اور شخصیات کو نوعِ انسانی کا ‘‘ آدرش ’’قرار دیتے  ہیں۔ان کی نظر میں دنیا کو بہتر بنانے کا طریقہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ ان کے ایجاد کردہ تہذیبی یا مذہبی ماڈل کو قبول کر لیا جائے جوتہذیب ِ جدید کے لیے  حیاتِ نو کا پیغام،امرت رس اور شفائے کاملہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ  ان کی تہذیبیں ماضی میں قوموں کی علمی اورفکری امامت کے منصب پر فائز رہ چکی ہیں ۔دنیا ان  کی  تہذیب  سے کسبِ فیض  کے بعد ہی علم  اور سائنس کے  اس مقام تک پہنچی ہے۔ دورِ جدید کی ایجادات و اکتشافات ان کے ذریعےقائم کردہ ابتدائی  تصورات اور  بتائی ہوئی راہوں پر چل کر ہی ممکن ہو ئی  ہیں۔ خاص طور سے اہل مغرب کو ماضی میں جو بصیرت انہوں نے  عطاکی  تھی اسی کی بدولت آج وہ  دنیاوی ترقی کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ لیکن مغربی تہذیب  نے  مادیت کی اندھی دوڑ میں ان  روحانی و اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ  دیا ہے جسے اپنے سنہرے دور میں  استادانہ حیثیت سے وہ خود برت رہی تھیں۔اس کے نتیجے میں دنیا ظلم و عدوان کی آماجگاہ بن گئی ہے، خشکی اور  تری میں فساد برپا ہو چکا ہے، اور وہ اخلاقی پستی کے قعرِ مذلت میں گری جا رہی ہے۔اب دنیا کی قوموں بالخصوص اقوامِ مغرب کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ان کے پیش کردہ   نظام حیات  اور فلسفہ ٔ زندگی  پر ایمان لے آئیں۔ اپنےایسے دعووں کو سچ کر دکھانے کے لیے سیاسی سطح پروہ اپنے ازلی  اور ابدی مذہبی  اورتہذیبی اصولوں کی بنیاد پر ایک مثالی اور طاقتورسیاسی نظام یا ریاست کا قیام عمل میں لانا چاہتی ہیں۔ اس غرض سے وہ اپنی قوموں کے افراد میں محبت، اخوت، یگانگت اور اتحاد واتفاق کی فضا پیدا کرتی ہیں اور انہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط بناتی ہیں، اور اپنے سنہرے ماضی  یا اس کے خیالی تصور سے متعلق یا متعلق  کردہ    مثالی شخصیتوں سے منسوب ایک مجموعہ ٔ اخلاق کو آدرش قرار دے کرانہیں اس کی پیروی کی نہ صرف ترغیب دیتی بلکہ  اس پر انتہاپسندانہ اصرار بھی کرتی ہیں۔

2
اس میں شک نہیں کہ احیائے دین و ثقافت کے نام پر ماضی بعید کی بعض معاصر تعبیروں کی شدت پسندانہ تکرار پر مبنی ایک رجعت پسندانہ خطاب  وجود میں آیا ہے جس سے  بین تہذیبی کشمکش اور مذہبی عدم رواداری کی فضا پروان چڑھی ہے، اور بنیاد پرستانہ اور انتہاپسندانہ افکار،خیالات ، تصورات اور لفظیات پر مبنی نشأۃِ ثانیہ کا ایک سطحی تصور  قائم  ہوا ہے جس  سے بے شمار افراد مذہب اور تہذیب کے حقیقی  فہم سے دور ہو کرمحض ایک سیاسی  وجود بن گئے ہیں۔
مذہبی اور تہذیبی احیاپرستی کی ایسی رجعت  پسندانہ خطابی مشقیں نشأۃِ ثانیہ  اور اس کے مترادف تصورات پرقابض و متصرف ہو  گئی ہیں اورتہذیبوں کے مابین مذہبی، تہذیبی اور اخلاقی تفوق و برتری کی ہوڑ پیدا کرکے نشأۃِ ثانیہ کے مسرت بخش  تصور کو دھندلا دیا ہے۔ اس سے معاشرے کے سلیم الفطرت ، انسان دوست، روشن خیال اور جدیدیت کے حامی دانشوروں اور عام لوگوں  میں مذہبی یا  تہذیبی  احیا  کا  ایک ناپسندیدہ تاثر  قائم ہوا، اوروہ عام طور پر نشأۃِ ثانیہ کے خطابی میدان سے کنارہ کش رہے اور رجعت  پسندرجحانات کے حامل ذہنوں   کو اس کا موقع  حاصل ہو گیا  کہ وہ  تہذیبوں کے احیائی شعور کو غلبہ، اقتدار،مذہبی حقانیت، اور تہذیبی  و اخلاقی برتری جیسی لفظیات  سے متعلق کر دیں۔اگرنشأۃِ ثانیہ کے اس بنیادپرستانہ تصور کی  بروقت ردتشکیل کے ذریعے اس کے خوش آئند پہلوؤں کو نہ پیش کیا گیاتو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگاکہ تہذیبیں لمبے عرصے تک تعقل پسندی اور سائنسی فکر سے محروم ہو کرباہمی کشمکش  میں مبتلا نو استعماریت کے جوئے سے بندھی ہوئی رہیں۔
تہذیبوں کے احیا یا نشأۃِ ثانیہ (Renaissance)  کا تعلق ماضی سے زیادہ  اس کے مستقبل سے ہے کیونکہ اُسی میں اِس دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونا ہے، اور اس کا تصور روایت پرستی کے  بجائے عقلیت ، تخلیقیت،  ندرت ، اور فکری و  فنی  ارتقا سے  وابستہ ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب کی طرح جزیرہ نما کی تہذیبیں بھی  اپنا منفرد اور  شاندار ماضی رکھتی ہیں،اور
تہذیبی احیا  کا مروجہ تصور خود ہی یہ واضح کر رہا ہے کہ انہیں   ایک نئی زندگی کی ضرورت ہے  جو زمانہ ٔ   حال میں تہذیب کا بیج بونےاور مستقبل میں اس کے شجرِ طیب ہو جانے سے عبارت ہے۔ بیج  جب مٹی میں داخل ہوتا ہے تو آب و ہوا اور ضروری معدنیات لینے کی غرض سے اپنے ظاہری  خول کو ہٹا دیتا ہے جو ایک طویل عرصے سے اس کے اندرونی حصے کی حفاظت کرتا آ رہا تھا۔تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کا سب سے مشکل مرحلہ تہذیب کے  بیج کو مٹی میں داخل کرنے کی ترقی پسندجرأت سے کام لینا ہے تاکہ بیج ایک شجرِ طیب ہونے کی غرض سے مردہ روایت  (Dead Habit)کے اس خول کو ہٹا دے جوکبھی حیات بخش عناصر کے تحفظ کے لیے تھا لیکن اب حیاتِ نو سے  مزاحمت کے نتیجے میں مصلحتِ فطرت کے عین مطابق اسے مٹ جانا ہے۔
 عصری آگہی اس حقیقت کے بروقت  ادراک  میں ہے کہ اب تہذیبی نشأۃِ ثانیہ کے خطابی میدان میں کون سی قوتیں آگے بڑھیں گی اور کون سی قوتیں بے دست و پا ہو کر اپنے بنیادپرستانہ  روایتی خول  میں از خود سمٹتی چلی جائیں گی (الا یہ کہ وہ فطرت کے عین مطابق عمل کر کے ازخود اپنی قلب ماہیئت کر لیں اور اس طرح  تہذیبوں کی نئی زندگی  کی تعمیر میں حصہ  لیں، مگریہ اسی صورت میں ممکن ہے  جب تہذیبوں کے رجعت پسند ، ترقی پسند اور روشن خیال  عناصر میں ایک ہمہ گیر مکالمہ وجود میں آئے  اور باہمی تصادم کے بجائے تعاون کا فطری جذبہ ان پر غالب ہو اور وہ  پرامن بقائے باہم کے ایسے میکانزم تک پہنچ جائیں جس سے موجودہ اور آئندہ دنیا میں تہذیبوں کا صحیح رخ پر ارتقا ہو، بجائے اس کے کہ ان کے مابین مذہبی حقانیت، تہذیبی برتری  اورسیاسی  غلبہ و استیلا  جیسے تصورات پر  مبنی باطل اور فضول کشمکش ہو جس کے تلخ ثمرات نے ایک عرصے سے دنیا کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے)۔


3
رجعت پسندانہ خطاب میں تہذیب کو تعمیر و ترقی کے بامِ عروج تک پہنچانے کا وعدہ تو ہے  لیکن اس کا شعور نہیں کہ  تہذیب کو  مستقبل کے اس مقام تک کیسے پہنچایا جائے کیونکہ وہ مغربی تہذیب کے ہمہ گیر غلبہ و استیلا کے ردِّعمل میں، اور حال کی ضرورتوں  اور مستقبل کے سنہرے خوابوں کے مدِّنظر صرف ماضی بعید کے احیا کی مدافعانہ  تکرار سے  وجود میں آئی ہیں، اسی لیے وہ زمانہ ٔ حال میں حرکت  وعمل کے اپنے تمام تر دعووں کے باوجودانسانی ذہن کو مستقبل کی تعمیر کی جرأت عطا نہیں کر سکتیں۔   ایسا لگتا ہے کہ ان کا وظیفہ بس یہیں تک تھا کہ وہ ایک خاص مدت تک تہذیب کے بیج کی حفاظت کریں تاکہ اُس کے اندر موجود عنصرِ حیات کو گزند نہ پہنچے۔ ان کے مدافعانہ اسالیب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اب تک کی  ساری تگ و دو ایک قومی  و ملی احساس پیدا کرنے تک محدود تھی ، جو انسانی فطرت میں بالفعل پائی جاتی ہے ، اور اسے ضرورت سے زیادہ پیدا کرنا کھانے میں نمک کی زیادتی ہے۔
رجعت پسندفکر کے زیرِ اثر کارفرما قوتیں  تہذیب کی تعمیرِ نو کے نام پر  جدیدطریق ہائے کار اور عصری اسالیب کو اختیار کرنے کی ظاہرداری میں مبتلا ہیں ، اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنے کی تعلیم دیتی  ہیں   حالانکہ اصل مسئلہ ان سے مطابقت کا نہیں بلکہ ان کی تخلیقِ نو کا ہے، اصل مسئلہ موسیقی کی پرانی دھن بجانا، یا جدید اور عصری تقاضوں سے مرعوب ہو کر نئی دھنوں کی کامیاب نقالی کرنا نہیں بلکہ بذات خود نئی دھنوں کی تخلیق کے پورے ایک  سلسلے  کو وجود میں لانا ہے۔نشأۃِ ثانیہ کا روشن خیال  اور ترقی پسند تصورازکارِ رفتہ کو کارتجدید کے پروسیس سے بدل دینے ، پرانی تہذیبوں کے بطون سے  نئی تہذیبوں  کو برامد کرنے  کے  تاریخی عمل سے متعلق ہےجن کے افراد‘حریت ِ فکر و ضمیر’ کی نعمت سے مالامال ہو کر‘ عمل و خیال’  کی نئی طرحیں ڈالتے ہیں۔
 نشأۃِ ثانیہ کے انسان دوست، روشن خیال اور ترقی پسندجہتوں پر مبنی  تصور کے زیرِ اثر تہذیبوں کی تشکیل نئی طرز پر تو ہوگی لیکن ان کا اپنے ماضی سے اسی طرح رشتہ برقرار رہے گاجس طرح ہر بعد والی نسل کا پہلے والی نسل سے ہوتا ہے۔نشأۃِ ثانیہ تہذیبوں کے ارتقائی پروسیس کا ایک حصہ ہے جس میں روایتی نمونوں کی بعض غیرضروری  سیاقی  ہیئتیں تہذیب کے بے شکل اور خام  اخلاقی مادوں پر سے اپنی پکڑ چھوڑ دیتی ہیں اور  اقتضائے زمانہ کے سبب  ان کی جگہ نئی سیاقی ہیئتوں کی تخلیق کی ضرورت ہوتی ہے ۔  رجعت پسند ذہن کی بصارت چونکہ ظاہربیں ہے  اس لیے وہ فکر و عمل کی متعدد  قدیم اور روایتی  نمونوں کی سیاقی  ہیئت کو ہی ازلی و ابدی  خیال کرتا ہے اور بدلے ہوئے حالات میں ان پر اصرار  کرکے اپنی ہی روایت میں پنہاں اخلاقی مادے کی آفاقیت کو  کھو دیتا ہے۔چونکہ وہ ماضی کی  سیاقی ہیئتوں  سے جذباتی لگاؤ رکھتا ہے، ان سے اپنی پہچان متعین کرتا ہے ، اور ان کے خاتمے کو اپنی پہچان کا خاتمہ سمجھتا ہے، اسی لیے ان سے متعلق معاملوں میں  وہ اپنے لیے  ایک موزوں ہیئت کی تخلیق نہیں کر پاتا ۔ حالانکہ پرانی   ہیئت کی اسپرٹ اور مقصد کو ملحوظ رکھ کر نئی ہیئت کی تخلیق سے تہذیب کی نئی پہچان قائم ہو جاتی ہے۔
رجعت پسندی بنیادی طور پر  مذہبی فکر میں ارتقا نہ ہونے کے سبب پیدا ہوتی  ہے۔مذہب اپنی فکری جہت میں فلسفیانہ اور سائنسی علوم سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اور اسی کے نتیجے میں دونوں میں تصادم کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مذہب معاشرے  کے  انفرادی و اجتماعی وجود کی اساسی طرز اور تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے ایک ضروری حوالہ ہے۔ مذہب کے بغیر عوام زندگی کو بے معنی خیال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے بغیر بھی زندگی لایعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس اعتبارسے تہذیبوں میں کوئی ارتقایافتہ مذہبی فکر وجود میں آنی چاہیے جو فلسفیانہ اور سائنسی علوم سے متصادم ہونے کے بجائے  ان کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں  ان راہوں پر چلنے دے جسے  وہ خود اپنے لیے منتخب کریں۔
مذہبی فکر میں ارتقا نہ ہونے سے تہذیبوں کے نشأۃِ ثانیہ کی تھیم متاثر ہوتی ہے اوراس کا  رجعت پسندانہ تصور جامد مذہبی  افکار کو اپنے حق میں استعمال کرنے لگتا ہے۔ پھر اس کے بعد  انسانی ذہن ایسے نمونوں کی تخلیق نہیں کر سکتا جو اپنی نوعیت میں انوکھی، عدیم المثال اورعالمی اثرات کی حامل ہو جس میں بہ یک وقت مقامیت اور آفاقیت  کا ایسا فطری  امتزاج ہو جس سے تمام نوعِ انسانی یکساں طور پر فائدہ اٹھاسکتی ہو۔ نشأۃِ ثانیہ کی ماضی پرستانہ  خطابی مشقوں نے روایت  کے  مذہبی اور ثقافتی طرزوں  کے ظاہری پہلوؤں پراس حدتک زور دیا ہے کہ روایتی زندگی سے تخلیقیت اور ندرت کے جذبے خارج ہو گئے ہیں۔اس سے رجعت پسند حلقوں میں جمالیاتی خلا پیدا ہوا ہے جس کو وہ ماضی کے کھنڈروں کی یاد سے پرکرنے کی کوششوں میں لگے  ہیں  یا اپنی مقامی ضرورتوں کے مدنظر مغربی نمونوں سے ظاہری مطابقت بٹھانے میں مصروف ہیں۔ یعنی روایت قدیم ہو یا جدید،  ہر معاملے میں  وہ مغز کے بجائے پوست سے مشابہت  کو تہذیب کی نئی  زندگی خیال کرتے ہیں اور عوام الناس سے اپنے اس طرزِ فکر کی پابندی کرانا چاہتے ہیں۔ عام آبادی چونکہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے متعارف ہو چکی ہے، اور دنیا بڑی حد تک عالمی گاوں میں بدل کر آفاقی قدروں کی جستجو کر رہی ہے، اس لیے  بعید نہیں ہے کہ ایک خاص دور میں متعددسنہرے  ماضیوں  کی شدت پسندانہ تکرار پر مبنی خطابوں کے یہ سلسلے  تہذیبوں کے کسی تصادم کو وجود میں لانے سے پہلے خود ہی  فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔دنیا کی ہر تہذیب کا ایک سنہرا ماضی  ہے جس سے ساری دنیا واقف ہے۔ اس کی تکرار کے معنی اس کے سوا کچھ  نہیں ہیں کہ  ہم ایک ماضی کو  دوسرے ماضیوں پر غالب کرنے کی سیاست کررہے ہیں۔ اور مابعد جدید دور میں نئی نسلیں اس تہذیبی سیاست کو تسلیم کر لیں اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
عالمی سطح پر عقل پرست ملاحدہ مذہبی اور تہذیبی سیاست کے تلخ  ثمرات کی طرف اشارہ کر کے اب سرے سے  روایتی مذاہب کو ہی  رخصت کر دینا چاہتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ ان کی  فکری وعملی قوت سے صرف نظرکرلینا  اور اس قسم کی باتیں کہ ساری دنیا میں  ایک ‘‘ہمارے ’’ہی مذہب  اور اس کی تہذیب و ثقافت کا احیاہو رہا ہے ، خوش گپیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی مذہب یا تہذیب و ثقافت کے احیا کے ساتھ ہی اب لامذہبیت  اور الحاد کا بھی علمی ، فکری اور سائنسی سطح پر  زبردست  احیا ہو رہا ہے اور سیکولر دنیا میں ہم ان  ملاحدہ  کو بہ نظرِ تحقیر نہیں دیکھ سکتے جو خود کو کسی مذہب یا خدا  سے منسوب نہیں کرنا چاہتے۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بچشم سر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح وہ مذہبی کشمکش کے برے نتائج پر انگشت نمائی کرکے بالذات مذہب  کے خلاف  رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان سے مذہب کے حق میں بحث تو جاری رکھی جا سکتی ہے لیکن منطقی  و استدالالی پیراڈائم میں  ان کے نظریات کو بہ آسانی خارج نہیں کیا جا سکتا۔ پھر جس قسم کی بحث ملاحدہ سے ہوتی ہے اسی قسم کی‘‘ حقانی’’ بحثیں مذہبی لوگ آپس میں کرتے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مذہب اپنی جماعت  کی تعداد بڑھانے پر مبنی ایک مسلکی دعوت ، دوسروں کے دینی  نقطۂ نظر کو ہمیشہ غلط سمجھنے کی فکری ادعائیت اور جمہوری  قوت  کے زور پراپنا مذہبی نظام قائم کرنے  کی سیاسی تحکمیت کا شکار ہو کر اپنی حقیقی روح کھو دیتا ہے۔
 مذہبی حقانیت پر مبنی بحثوں کے آخری معنی یہی ہیں  کہ  صرف ہم  صحیح ہیں اس لیے  ہم ہی غالب رہیں گے اور دنیا کے وسائل و ذرائع پر ایک چھتر راج کریں گے۔ انسان سلیم الفطرت بھی  واقع ہوا ہے اور  مذہب  اور تہذیب  کوحقانیت  اور برتری کی ادعائیت پسندانہ بحثوں سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا۔ مذہبی صداقت ایک لطیف شئے ہے جو قلوب میں رفتہ رفتہ ہی سرایت کرتی ہے  لیکن رجعت پسند فکر اپنے عزائم کے حق میں قلوب کو‘‘ مسخر ’’کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی مخصوص زبان اور اس میں مستعمل لفظیات  کے سہارے عوام الناس  کو بہکا کر ان سےمذہب اور زندگی کا شعور چھین لیتی ہے۔اپنی تنگ دامانی  کے سبب مغربی نظامِ حیات  کا  کوئی متبادل پیش کرنا نہ اس کے بس میں کبھی رہا ہے اور نہ  وہ کبھی پیش کر سکتی  ہے۔ پھر یقینی ہے کہ مذہب اور تہذیب کی رجعت پسندانہ تعبیروں کی اس بے تکان تکرار کے ردعمل میں معاشرے کے ذہین افراداسی مغربی اخلاق کو اپناتے چلے جائیں جس سے بچنے کی انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔  ان کے  مذہبی تصور میں پیدا ہونے والے اس فسادکی ذمہ داری اسی رجعت پسند فکر پرعائد  کی جائے گی کیونکہ اسی  نے مردہ روایت(Dead Habits)  پر زور دے کر بے شمار افرادِ قوم کو بالذات  اپنے مذہب اور تہذیب سے متنفر کر دیا۔
حق، مذہب، تہذیب اور ان  کی بازیافت یا  احیاجیسی چیزوں کو غلبہ، اقتدار، تمکن فی الارض ، شکتی کےحصول جیسے تصورات سے متعلق کرنے سے جو آئیڈیالوجی تشکیل پاتی ہے اس میں سے انسان دوستی اور وسیع المشربی کا جذبہ نکل جاتا ہے ۔انہیں اسباب کی بنا پر وثوق سے کہا جا سکتا کہ بعض تہذیبوں میں تو بہت جلد، اور بعض میں ذرا دیر سے ان  آئیڈیالوجیوں کی بنا پر تشکیل پانے والا خطاب کمزور پڑجائے گا ۔

4
جزیرہ نما کی قومیں جن مذہبی اور تہذیبی  بنیادوں پر قائم ہیں، ان سے رجوع کرناتحصیل حاصل ہے۔ ماضی کی یہ بنیادیں ان کے ساتھ باالفعل چلی آئی  ہیں، اور اب احیائی مصالح  کے پیش نظر روایت میں کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنے کا سوال ہےجو ایک پیچیدہ اور متنازعہ کام ہے ، البتہ یہ ضرور دیکھتے رہنا  ہو گا کہ ماضی کے فکری ورثے میں وہ کیا  بصیرتیں پنہاں  ہیں جو چھوٹ گئی ہیں، اور اُس دور میں  ان بصیرتوں کے حصول کا وہ کیا طریقہ ٔ  کار تھا جس کی بدولت بزرگوں کا ماضی اس قدر شاندار اور تابناک  تھا۔  اس کے معنی یہ ہرگز  نہیں ہوں گے کہ کسی ایک تہذیب سے متعلق افکارِ ماضیہ کی گردان کی جاتی رہے کیونکہ احیائی شعور کے قوانین اس تعصب کی نفی کرتے ہیں۔
ماضی کی گمشدہ بصیرتوں اور ماضی کے طریقہ ہائے کار کی تحقیق کے ساتھ ہی ہمیں زمانہ ٔ موجودہ کی  ترقی یافتہ قوموں کے فکری سرمائے سے بھی فائدہ اٹھانا ہوگا۔پچھلے ڈیڑھ ہزار سالوں کی مستند  تاریخ  سے معلوم ہوتا ہے  کہ اپنے عروج کے ابتدائی مرحلے میں ترقی یافتہ تہذیبیں  دنیا کی دیگر تہذیبوں اور قوموں کے فلسفیانہ اور سائنسی سرمائے سے استفادہ  کرنے میں مذہبی یا تہذیبی عصبیت کا شکار نہیں ہوئی ہیں۔ اور انہوں نے اپنے دور کےسائنسی افکار و نظریات کا  بڑے پیمانے پر  ترجمہ کر کے اپنی زبانوں کو علمی اعتبار سے اس حد تک زرخیز بنا دیا ہے  کہ کچھ ہی عرصے بعد  ان کے ہاں عظیم خلاق فلاسفہ  اور دیگر  عباقرۂ روزگار شخصیتوں کےسلسلے ظہور میں آنے لگے  ہیں جو قومی و ملی  زندگی میں نئی روح پھونک کر اس کی کایاپلٹ کردیتے ہیں۔
ماضی کی اسلامی اور موجودہ مغربی دنیا کے علمی عروج کے پیچھے ترجموں کی صدہا سال تک چلنے والی سرگرمیاں اور تحریکیں رہی ہیں۔ مغرب میں پندرہویں صدی کی نشأۃِ ثانیہ اور سترہویں صدی کی سائنسی ترقیات سے پہلے بارہویں صدی کی نشأۃِ ثانیہ کا پورا دور ترجموں کے لیے ہی مشہور ہے۔حالانکہ بارہویں صدی سے پہلے بھی آٹھویں  سے نویں صدی (کیرولنگی نشأۃِ ثانیہ) اور دسویں صدی( اوٹونین نشأۃِ ثانیہ) میں نشأۃِ ثانیہ کے دو ادوار ملتے ہیں جس کی نوعیت  مذہبی تھی  لیکن عہدِ وسطیٰ اور دورِ جدید تک مغربی نشاۃِ ثانیہ کے صدہا سال پر محیط تاریخی عمل میں ترجموں  کا دور نہ آیا ہوتا تو مغربی دنیا کا فکری و علمی  ترقی کے اس درجے کو پہنچنا ممکن نہیں تھا۔
صحیح الفکر احیائی شعور کا ترجمہ سے گہرا تعلق ہے۔ ہندوستان  میں  جب کبھی اس شعور کی لو تیز ہوئی ، ترجمہ کی چھوٹی بڑی تحریکیں  پیدا ہوئیں اور تعلیم یافتہ طبقے کے خواص نےجدید افکار و نظریات میں دلچسپی لی ۔ لیکن مذہبی غلبہ کے حصول پر مبنی خطاب کےاثر  سے احیائی شعور کی رو بہک کر تہذیبی نرگسیت میں مبتلا ہو گئی ۔ جب تمام آدرش ، معیار، مثالیں، نمونے، نظریے ، فلسفے، صرف  اپنے  ہی یہاں ہیں، اوردنیا  بھر میں جو کچھ ہے وہ صرف ہمارا  دیا ہوا  ہے، تو پھرمغرب سے  علوم و افکار کی تیزرفتار منتقلی پراجتماعی  توجہ بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ تہذیبی نرگسیت  پر مبنی اس رجعت پسندانہ خطاب سے  صحت مند احیائی شعور متاثر ہوا اور مغربی زبانوں سے ترجمہ کی ضرورت کے  عام دانشورانہ احساس میں کمی آئی اور جن ذہنوں کو مغربی فکر وفلسفہ  کی تحصیل و ترجمہ  کے ذریعے اپنی فکری صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کرنا تھا، وہ  عقائدی  برتری کی بحثوں،ساری دنیا کی اخروی فلاح اور فکری رہنمائی  کے ٹھیکے پر مبنی پروگراموں،  مذہبی  دعوتوں، میٹنگوں،جلسوں، جلوسوں اور  دیگر غیراہم سرگرمیوں میں کام آگئیں۔ مذہبی اور تہذیبی شعور پیدا کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ بے شمارسعید روحوں میں مذہبی اور تہذیبی ادعائیت پسندی پیدا کر کے انہیں  سخت جھگڑالوبنا دیا جائے۔

5
مغربی استعمار سےآزادی کے بعد ترجمہ کے میدان میں انفرادی و اجتماعی سطح پر  جتنی تیزی سے پیش قدمی ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہو سکی۔ورنہ اب تک مغربی زبانوں سے  اتنا کچھ ترجمہ ہو چکا ہوتا کہ  عام آبادی کا ذریعہ ٔ تعلیم انگریزی کے بجائے ملکی  زبانیں ہوتیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ  ،ملکی زبانوں میں اعلیٰ تعلیم  اب بھی بڑی حد تک ایک خواب ہی ہے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم مادری زبانوں میں ہو اور اعلیٰ تعلیم انگریزی میں، اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ انتہائی مہلک ہیں۔ چین میں ترجمے کی ناگزیر اہمیت کو محسوس کیا گیا ہے اور ہر سطح پربڑی کامیابی سے چینی زبان کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ  بنا لیا گیا۔ چین کو حاصل ہونے والی بے پناہ ترقیوں کا یہ بھی ایک بنیادی سبب ہے۔
تہذیبی احیا کے تاریخی عمل میں ترجماتی مرحلہ کے بغیرعلمی نشأۃِ ثانیہ کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی اب بھی  طبقہ ٔ اشرافیہ کے خواص کی  زبان ہے اور اس کو ہندوستان  میں وہ حیثیت حاصل نہیں ہے کہ عام آبادی کے  طلبہ اس میں علمی ثقاہت کے معیارِ مطلوب کو حاصل کر سکیں کجا یہ کہ اس میں وہ صلاحیت بہم پہنچائیں جو فکر و فلسفہ اور تخلیق و تنقید  کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔ یہ خیال  بھی صحیح نہیں  ہے کہ انگریزی میں افکار و نظریات کا مطالعہ کرنا اور ملکی زبانوں میں تاریخ ساز فکری  کارنامہ انجام دینا ممکن ہے۔ کسی زبان میں کوئی بڑا فلسفیانہ کارنامہ اس میں موجود دیگر بڑے فلسفیانہ کارناموں کے مثبت یا منفی ردعمل کے طور پر وجود میں آتا، اس سے ماخوذ و متاثر ہوتا ہے۔ ترجمہ کے ذریعےایک زبان میں اہم  فلسفیانہ متون کی فراہمی سے ایک مفکر  کو وہ  مستند  بنیادیں مل جاتی ہیں جن سے اتفاق، اختلاف یا انحراف کرتے ہوئے وہ اپنا فلسفہ لکھتا ہے۔انگریزی   میں  فلسفہ   پڑھ کرکسی  غیر ترقی یافتہ ملکی زبان  جس میں فلسفہ کی روایت بے حد کمزور ہو،  کسی نئے فلسفیانہ موضوع پر کوئی  کتاب لکھنا اول تو بہت مشکل  ہے،  دوسرے یہ کہ ان سے  یہ توقع نہیں کی جا سک-تی کہ وہ  دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو کرمشرق و مغرب کے دارالعلوموں اور اکادمیوں میں اس حد تک مقبول ہو جائے گی کہ  لوگ اس میں  پیش  کردہ خیالات و تصورات کو استعمال میں لائیں گے۔کسی زبان کے فلسفیانہ متون کا یہ استقبال اسی صورت میں ممکن ہے جب  وہ  انتہائی ترقی یافتہ ہو، اور اس میں لفظیات و اصطلاحات متعینہ معنوں میں مستعمل ہوں، اور اس میں فلسفہ کی ایک مضبوط روایت قائم ہو جو دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے ہم پلہ ہو، اوراس کے  اپنے قارئین سمجھ سکتے ہوں کہ اس میں کیا بات کہی جا رہی ہے تا کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوں، اور وہ کتاب پہلے اپنے یہاں بحث کا موضوع بنے۔  یہی وہ اسباب ہیں کہ  اردو جیسی زبان میں ساختیات و پس ساختیات پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو بہت سے لوگ ، بلکہ بڑی  علمی و ادبی شخصیتیں بھی چیستان کہہ کر خارج کرتی رہی ہیں۔ ترجمہ کے مرحلے سے گزرے بغیر ملکی زبانوں میں  معاصر یا تازہ مغربی  افکار و نظریات پر تعارفی نوعیت کی تحریریں لکھنے سے آگے بڑھ کر اس پر تنقید کرنے یا اس کی بنیاد پر کوئی مکتبِ فکر قائم کرنے یا علمی  و ادبی  تحریک چلانے کا بہت دور تک کوئی فائدہ  سمجھ میں نہیں آتا بلکہ اس سے زیادہ تر غلط فہمی پھیلتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وسیع پیمانے پر مغربی فلسفہ کے ترجمے کے بغیر جدید فکری ترقیات سے متعلق جو کچھ کہا جائے گا،ملکی زبانوں میں ان سے متعلق بنیادی کتابوں کی عدم موجودگی میں  عام قارئین کے لیے وہ  چیستان ہی ثابت ہوگا ۔ بنیادی ماخذتک رسائی نہ ہونے کے سبب  ملکی زبانوں کے قارئین ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے لیکن فکر و نظر کی گتھیاں نہ سلجھ سکیں گی ۔ جدید نظریات پر طبع زاد کتابیں لکھنا ،  ملکی زبانوں میں کچھ نہ ہونے سے تو ضرور بہتر ہے لیکن وہ ترجمہ کا بدل نہیں  ہو سکتی ہیں۔ ترجمہ  کے صحیح  معنی یہ ہیں کہ مترجم ایک بڑے  مصنف کو اپنی زبان میں لے آیا ہے اور وہ اس کے وجود کا حصہ ہو گیا ہے، اور اب اس زبان کے قارئین شرح صدر کے ساتھ اس کے خیالات پر بحث کر سکتے ہیں، انہیں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی بنیاد پر تنقیدی، تاثراتی، تخلیقی ، اور تحقیقی نوعیت کے نئے کارنامے بھی انجام دیں گے  اور اس طرح ایک ساتھ متعدد فکری روایتیں  ترجمہ کی بدولت  قائم ہوجائیں گی۔
ترقی پذیر اور ترقی یافتہ قومیں ترجمہ کے صحیح مفہوم کو سمجھتی ہیں ، وہ اس بات پر نظر رکھتی ہیں کہ کہاں کس پیمانے پر ترجمہ ہو رہا ہے ، اس کے کیا اثرات پڑ رہے ہیں، اور وہاں فکرو فلسفہ کی  ترقی کس  درجہ ہو سکی ہے، اور کہاں سے ترجمہ کے ذریعے  فکر و علم کو اپنے ہاں منتقل کرنا ہے۔ کسی زبان میں فلسفہ کی ترقی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں  اُس زبان سے فلسفیانہ متن کا  ترجمہ ناگزیر ہوجائے۔ جیسے آج اردو میں مغربی زبانوں کے  شہرۂ آفاق متون کے  ترجمے ناگزیر ہیں۔ یہی وہ معیار ہے جس سے  کسی زبان اور اس کے بولنے والوں کے فکری ارتقا کا پیمانہ متعین ہوتا ہے ۔فکری کارنامے کا معیار یہ نہیں ہے کہ ہم خود ایک فکری  کارنامہ انجام دیں اور انگریزی میں خود ہی  ترجمہ کرنے یا کرانے  کے ذریعے اس کی تبلیغ بھی کریں ۔ناگزیر صورتوں میں ہی اس کا جواز سمجھ میں آسکتا ہے۔  فکری طور پر اثرانداز ہونا اگر  واقعی کوئی بہت اِروٹک چیز ہے تو اس کا بھی  یہ طریقہ نہیں ہو سکتا۔ خود ہی ایک کتاب لکھنا، اور خود ہی اس کا ترجمہ کرانا دراصل اپنے فکری  پروڈکٹ کو خود ہی بیچنا ،خود ہی خریدنا ، اور دوسری زبان میں اسے بالکل مفت فراہم کر دینا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نصابی ضرورتوں  اوربعض  دیگر محرکات کے تحت خاصی تعداد میں ترجمے ہوتے  آئے ہیں اورموجودہ دور میں بھی ترجمہ کی سرگرمی سست رفتاری سے ہی سہی، ضرور چل رہی  ہے۔ نصابی  ترجمہ  فکراور علم کی منتقلی کا ایک مسلسل عمل ہے جو اپنی مانگ کے اعتبار سے ہمیشہ چلتا رہے گا، لیکن یہ  ترجمہ کی اس  وسیع تحریک کا بدل نہیں جو  صالح احیائی شعور کے زیرِ اثر  مادی نفع و نقصان سے بے نیاز ہو کر تہذیب کو بام ِ عروج پر پہنچانے کی غرض سے  انفرادی و اجتماعی سطح  پر دیکھی جاتی ہےجس کے بغیر کسی تہذیب کی علمی  نشأۃِ ثانیہ کا ہر دعویٰ سطحیت اور ظاہربینی کا نتیجہ ہے۔ اور علمی نشأۃِ ثانیہ کے اس شعور کے بغیر مذہبی اور تہذیبی نشأۃِ ثانیہ کی کسی سرگرمی کو ضرورت سے زیادہ طول دینا انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے وقت ، قوت، صلاحیت، اورانسانی  و فطری  وسائل کو ضائع کردینا ہے۔
رجعت پسند فکر تہذیبی عروج کے اپنے  تمام تردعووں اور انسانی وسائل اور سرمایہ کے بڑے پیمانے پر استعمال کے باوجود نشأۃِ ثانیہ کے ترجماتی مرحلے کا ادراک اب تک نہیں کر سکی ہے۔ اس میں بنیادی اہمیت  تحصیل ِنظرکے بجائے ‘‘غلبہ و اقتدار ’’،  ‘‘تمکن فی الارض  ’’، ‘‘اقصائے عالم پر چھا جانے’’  اور ‘‘شکتی کے حصول ’’ جیسے تصورات کی ہے، اور انہیں کے زیرِ اثر ایسی سطحی آئیڈیالوجیوں کی  تشکیل ہوئی ہے جن کا تہذیبی احیا  کی حقیقی سرگرمیوں  سے تعلق نہیں بلکہ ان سے خود نشأۃِ ثانیہ کےتصور پرحرف آتا ہے۔تمکن فی الارض کی ایسی شدید خواہش سےمعلوم ہوتا ہے کہ رجعت پسند جامد  فکر میں تہذیبوں کی نشأۃِ ثانیہ کا تصور  تہذیبوں کے باہمی تعاون کے بجائے ان کے مابین  تصادم کے جذبے پر استوار ہے۔بالفرض تہذیبوں کے درمیان کوئی اولمپک ہو بھی رہا ہو تو اس میں وہی قوم فتحیاب ہو سکتی ہے جو زندگی کے ہر شعبۂ فکر میں غالب تہذیبوں سے آگے بڑھ جائے۔لیکن جو کام دقت طلب اور صبر آزما ہو ، ذہن اس سے بھاگتا ہے، اوراسے  نہ کرنے کے  مختلف قسم کے جواز اور حیلے تراشتا ہے،  مثبت رخ پر سوچنے کے بجائے چون و چرا اورقال و قیل   سے کام لیتا ہے جو فلسفیانہ کے بجائے ایک مناظرانہ رویہ ہے۔ تمکن فی الارض کا نعرہ لگانا اور اس کے نام پر لوگوں کو جمع کرنا چونکہ آسان ہے ، اس لیے ذہن اس کی طرف بے اختیار  ہو کر لپکتا ہے، پھر جلسوں جلوسوں ، کانفرنسوں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے اور نئی نسل اسی سب میں لگ کر یہ خیال کرتی ہے کہ خوب تہذیبی  غلبہ ہو رہا ہے۔
قومی و ملی زندگی کے تمامی شعبوں میں بنیادی  اصلاحات ، خواہ وہ اخلاقی  نوعیت کی ہوں یامادی و تکنیکی،اسی وقت ممکن ہیں جب  ملک و ملت کےذہین طبقے  کو حریتِ فکر و ضمیر کی نعمت حاصل ہو،اس کے افراد میں گہرا فلسفیانہ شعورکی پیدائش پیدا ہوتاکہ ان کے سامنے دنیا کی ہر تہذیب کی تاریخ کے جملہ پہلو روشن ہوں، اور ان میں جدید فلسفیانہ اور سائنسی افکار و نظریات کا کماحقہ مطالعہ کرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں فکرِ تازہ کی تخلیق کا جذبہ پایا جاتا ہو جو اب  مغربیات سے  وسیع پیمانے پربذریعہ ترجمہ  استفادہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس،
نشأۃِ ثانیہ اور تہذیبی عروج کے اس تاریخی پروسیس میں ترجماتی مرحلہ کے آنے سے وہ  رجحانات جو نشأۃِ ثانیہ اور اس کے مترادفات  پر قابض و متصرف ہیں ،آپ سے آپ ساکن ہو جائیں گے، اور اس کے ساتھ ہی احیاپرستی کا رجعت پسند خطاب اپنی طبعی عمر پوری کر لے گا  جوملکی  زبانوں میں اپنی  مختلف النوع مشقوں کے  ذریعے ذہنوں میں راسخ ہواہے، اور اِس کے نتیجے میں تعمیر و ترقی کا پورا ایک میدان آزاد ہو جائے گا۔
ملکی  زبانوں میں ترقی یافتہ تاریخی اور معاصر قوموں کے فلسفیانہ  اور سائنسی افکار کے فروغ کے لیے طویل مدت تک  بڑے پیمانے پر  فلسفہ ،سماجی اور  سائنسی علوم سے متعلق  فکری نوعیت کےبنیادی اور تازہ ترین  متون کا ترجمہ پیش کرنے کے  طویل المیعادطور پر  چند لازمی نتائج  نکلیں گے :
1. فلسفیانہ اور سائنسی افکار کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں ملکی زبانوں میں فلسفیانہ شعور اور دانشورانہ  ذہن کے حامل افراد پیدا ہوں گے۔
2. انہیں میں سے ایک خاص  تعداد ایسے افراد کی بھی نکلے گی جن کے ذہن نئے اور مستند خیالات  کا سرچشمہ ہوں گے۔ وہ اپنی تہذیبی زبانوں میں  جس قسم کے فکری متون کی تخلیق کریں گے وہ اپنی فکری صلابت کے اعتبار سے عالمی سطح پر اسی طرح اثرانداز ہوں گے جس طرح ہمارے یہاں  اور ساری دنیا میں مغربی فلسفیوں اور نظریہ سازوں  کے افکار و خیالات اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس نتیجے کی طرف اشارہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ترجمہ کے ذریعے جس قسم کی تبدیلی مقصود ہے اس کا ایک عمدہ تصور ہمارے سامنے آ جائے۔
3. مختلف تاریخی اور معاصر سمتوں سے فلسفیانہ معانی  کاترجماتی بہاؤ اظہار کی مختلف اور  متنوع صورتوں  میں ڈھل کر جدید  فلسفیانہ روایات  اور مکاتبِ فکر کو وجود میں لائے گا۔
4. معاصر ترقی یافتہ تہذیبوں کے فلسفیانہ  اور سائنسی افکار پر مبنی متون  کا  تازہ ترین ترجمہ ملکی زبانوں کی فکری  رفتار کو  مغربی زبانوں  کی رفتار کے  قریب لے آئے گا۔
5. مترجمین جس قسم کےفلسفیانہ اور سائنسی  متن کا ترجمہ کریں گے  ان کے اندر اسی قسم کی علمی اور فکری  صلاحیتیں پیدا ہوں گی اور ان کے اندر اسی قسم کے متن کی تخلیق کی صلاحیت بھی پیداہوگی  جن کا قومی زندگی کی تعمیر  میں بہتر استعمال کیا جا سکے گا۔
 ان کے علاوہ بھی متعدد مفید نتائج مرتب ہوں گے اور یہ سب فوائد مل  کر تہذیبوں کی نشاۃِ  ثانیہ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے  کی تاریخی  جدوجہد میں معاون ثابت ہوں گے۔ یہ  سب باتیں  مختصراً اس امید کے ساتھ پیش کی گئی ہیں کہ دیر سویر موزوں احیائی مقاصد کےساتھ  ترجمہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جو تہذیبوں کی  نشأۃِ ثانیہ کے اس ترجماتی مرحلے کی تکمیل کریں گی جس کی ابتدا ماضی میں  ہی ہو چکی ہے۔

6

ہمارے سامنے   درپیش اصل مسئلہ احیاپرست تحریکات، تنظیمیں اور ادارے نہیں ہیں بلکہ وہ ذہن ہے جو معاشرے کی نفسیات میں موجودہے۔ یہ ذہن  ان افراد کی بدولت پیدا ہوتا ہے جنہیں  غور و فکر اور مطالعہ کی عادت ہے اور انہیں وہ لٹریچر  اور مواد ملکی زبانوں میں  بہ آسانی دستیاب ہو جاتا  ہے جو انہیں  اپنی تہذیب  و ثقافت  کے تئیں ضرورت سے زیادہ حساس بناتا ، ان کے اندر دوسروں بالخصوص مغربی تہذیب کے لیے نفرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی باہمی گفتگوؤں میں  بھی مغرب کے لیے  باطل، گمراہ، ایمان سے تہی، اباحیت پسند، فحش، بے حیا،  بے راہ رو، اباحیت پسند، مادہ پرست جیسے الفاظ کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ رجعت پسند لٹریچر میں مغرب کا ایسا اسٹیریوٹائپ  تصور پیش کر نے کےساتھ ہی  مغربی فلسفہ  اور سائنس  کی تحقیر ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ یہ سب  تو بنیادی طور پر  ہمارا ہی  سکھایا ہوا ہے لیکن مغربی قوموں نے اس میں مادہ پرستی  کی مکروہ بدعت پیدا کر دی ہے جس کی بدولت وہ دنیوی  ترقی تو کر رہے ہیں لیکن روحانیت  سے عاری  ہوکراخلاقی حدود و قیود سے آزاد اور اخروی فلاح سے محروم ہو گئے  ہیں۔ اب ایک بار پھر ہماری تہذیب کے نونہال مغرب کو صراطِ مستقیم پر لانے کی رہنمائی کا  عظیم فریضہ انجام دیں گے۔
 مغربی قوموں نے چونکہ دنیا بھر کے فلسفوں اور سائنسوں سے فائدہ اٹھایا ہے اوران کے حکما و فلاسفہ ہر قدیم و جدید تہذیب کے فلسفیوں اورسائنسدانوں کی کھلے دل سے تعریف کرتے ہیں ، ان کے جس نظریے یا نقطۂ نظر سے سے انہیں  دلچسپی ہوتی ہے ، اسے  وہ فوراً اپنا  بھی لیتے ہیں، ان کی علمی  رواداری کواس کے صحیح تناظر میں دکھانے کے بجائے رجعت پسند لٹریچر  میں اسے اپنی ‘‘حقانیت’’ اور ‘‘برتری ’’  کی دلیل بنا لیا جاتا ہے۔دنیا کے ہر معاشرے میں مسائل ہوتے ہیں، مغربی قوموں  میں بھی اپنے مسائل کو لے کر خاصی پریشانی پائی جاتی ہے اور وہ   جدید ترین تحقیقات کے علاوہ سابقہ تہذیبوں کے افکار میں بھی ان کا حل تلاش کرتےہیں، یہ ان کی وسعتِ نظر کے سبب ہے، لیکن رجعت پسند ان کی اس رواداری کو بھی اپنی عظمت سے جوڑ کر دیکھتے اور مغربی تہذیب  کو‘‘ ہدایت کے امرت رس  کی پیاسی’’ بتانے لگتے ہیں۔حالانکہ خود ان کے  نقطہ ٔ نظر سے ہی سوچا جائے تو  اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کسی  تہذیب کے تاریخی افکار مغرب کی کیا رہنمائی کر رہے ہیں ، بلکہ  یہ ہے کہ موجودہ دور میں  اس میں کتنے ایسے فلسفی  اور سائنسداں  پائے جاتے ہیں جوڈارون اورفرائڈ اور مارکس کی طرح  مغربی نظام ِعلم کونئی بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں؟ اس اعتبار سے سوچنا چاہیے کہ اپنے  ماضی کے ایسے دہراؤ سے خود ہم کو اب تک کیا  کامیابی حاصل ہوئی؟اور اگر نہیں ہوئی تو اس کے اسباب کیا ہیں؟  مغرب کو ہمارے ماضی کی تلاش خود ہم سے زیادہ رہی ہے۔اور مغرب کا بھی اپنا  ایک ماضی  ہے اور وہ یونان اور روم ہے۔ اس لیے مغرب کوئی بے ماضی چیز نہیں ہے کہ ہم اس پر اپنا دعویٰ کرنے لگیں ۔ دنیا میں  ایک نہیں متعدد قدیم تہذیبیں ہیں اور وہ سب قابلِ احترام ہیں، اور سب نے  دنیا کی تعمیر و ترقی  میں اپنا رول ادا کیا ہے۔ لیکن  اس کو نئی منزلوں تک وہی قوم اور جماعت لے جاسکتی ہے جو پرانے کی تحقیق اور نئے  کی تلاش میں رہتی  ہو اور اس میں کسی قسم کے  تعصب سے کام نہیں لیتی ہو۔ اور موجودہ زمانے میں مغربی قومیں اس میں سب سے آگے ہیں۔
رجعت پسند لٹریچر میں  جس قسم کے جذباتی دلائل سے کام لیا جاتا ہے اس کے نتیجے میں معاشرے کے  ذہین افراد  کے   غور و فکر کی سمت بدل جاتی ہے اور وہ معذرت خواہانہ اور مدافعانہ (Apologetic)  طرزِ استدلال  کے عادی ہو جاتے ہیں ، لیکن واقعات کی دنیا میں   اس سے کام نہ چلتا دیکھ کر ،  وہ بالآخر انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔  اور یہی چیز  طویل المیعاد طور پر قوموں کی تعمیر و ترقی میں مزاحم ہوتا ہے۔
کسی معاشرے کے افراد میں پائی جانے والی اس  نفسیات  کی قلبِ ماہیئت کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی ریڈنگ پبلک اورذہنی و فکری طور پر بلند افراد کے لیے ان  ہی کی  تہذیبی زبان میں
 تازہ ترین  مغربی افکار و نظریات  پر مبنی تعارفی نوعیت کی کتابوں کے ترجمے فراہم کیے جائیں۔ نیز قدیم و جدید اور تازہ ترین  علوم و افکار کے ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتابوں کے ترجمے کی انفرادی ا ور اجتماعی سطح پر  کوششیں کی جائیں۔
اجمالاً، مشرقی تہذیبوں میں نشأۃِ ثانیہ کے کام کووہ سب  قوتیں اپنے ہاتھ میں لیں جو ایک پرامن انسانی معاشرہ کی تعمیر کرنا چاہتی ہیں۔ کسی تہذیب کا حقیقی نشاۃ ِ ثانیہ منقولات  کی ظاہرپرستانہ تعبیروں  کا نفاذ، تہذیب و تمدن میں اشکالِ ماضیہ سے ظاہری مشابہت پیدا کرلینے، اورتمکن فی الارض کا خواب دیکھتے رہنے  میں نہیں  ہے ، بلکہ  زمانہ کے اعتبار سے  ہر شعبۂ حیات میں نئی شکلوں اور ہیئتوں کی تخلیق، اورقدیم تاریخی اور معاصر ترقی یافتہ تہذیبوں  کے علوم و افکار کو اپنی زبانوں میں بذریعہ ترجمہ منتقل کرنے کےصبرآزما عمل میں پوشیدہ ہے۔ملکی زبانوں میں مشرق و مغرب کے علوم و افکار کا ترجمہ علمی نشأۃِ ثانیہ کی طرف پہلا قدم ہے جس کے بغیر تہذیبی نشأۃِ ثانیہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، خواہ اس کے لیے کتنا ہی زور صرف کر دیا جائے۔