جمعہ، 22 دسمبر، 2017

ذاکر نائیک اور تقابل ادیان

ذاکر نائیک نے تقابلِ ادیان کے نام سے ہندوستان میں پاپولر ٹی وی کلچر کی سطح پر ایک بڑی غیرسنجیدہ روایت شروع کی۔ ٹی وی پر دیگر مذاہب کے رہنما نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس میں دوسرے مذاہب کی کمی کو اچھالا جاتا ہو اور کسی ایک مذہب کو صداقت کا آخری اڈیشن بتایا جاتا ہو۔ ذاکر نائیک نے ایک طرف مختلف مذاہب کی تعلیمات کا مقابلہ پیش کیا اور اسلام کو سب سے زیادہ اچھے اور سچے مذہب کے طور پر پیش کیا، دوسری طرف انہوں نے چند لوگوں کو برسرِ عام کلمہ پڑھوا کر اسلام قبول کرنے کے عمل کو بار بار ٹی وی کے ذریعے مشتہر کیا، تیسری طرف انہوں نے بنیاد پرستی یا فنڈامنٹلزم کے متعلق کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، جو جتنا بنیاد پرست وہ اتنا اچھا مسلمان۔ ان تین اسباب سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا۔
دنیا بھر میں مذہب کی تبدیلی کی قانونی اجازت کسی مذہب کے افراد کی تعداد بڑھانے کی غرض سے نہیں بلکہ انفرادی سطح پر روحانی سکون کے حصول کے لیے دی جاتی ہے جس کا اس پروپگنڈے سے کوئی تعلق نہیں جو ذاکر نائیک سالہاسال تک کرتے رہے۔ اس پروپگنڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق شکوک و شبہات عام ہو گئے۔ ذاکر نائیک کی کوششوں سے ممکن ہے سو پچاس لوگ مسلمان ہوئے ہوں یا ہو سکتا ہے یہ تعداد کچھ سو تک پہنچتی ہو لیکن اس سے فائدہ کے بجائے ایسا زبردست نقصان امت کو پہنچا کہ اس کی تلافی اب بہت مشکل ہے۔
ذاکر نائیک کم و بیش 20 سال تک ٹی وی کے ذریعے اسلام کی دعوت دیتے رہے اور اگر ان کی دعوت میں دم خم ہوتا تو اب تک ہندوستان میں اسلام اکثریت کا مذہب بن چکا ہوتا۔ 20 سال کسی دعوت اور تحریک کو پھلنے پھولنے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ذاکر نائیک دعوتِ دین کے میدان میں کام کرنے والے تنہا آدمی ہوں۔  ہندوستان میں بعض جماعتیں پچہتر (75) سال سے مختلف تبلیغی ذرائع اور طریقوں سے اسلام پھیلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں، مختلف زبانوں میں دعوتی لٹریچر کی تیاری اور دو روزہ، سہ روزہ، ہفت روزہ کے ساتھ ساتھ مستقل چلنے والی دعوتی مہموں کے نام پر خدا معلوم کتنا پیسہ پانی کی طرح بہایا جا چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ کس کا ہے؟ کہاں سے آتا ہے؟ یہ دراصل دعوتی سرگرمیوں سے متفق مسلمانوں کے زکوٰۃ و عطیات سے ملنے والا پیسہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسی دعوتی سرگرمی سے کیا حاصل ہوا جس کے نتیجے میں ہندوستان کی غیر مسلم آبادی کا 0.001 فیصد حصہ بھی اسلام قبول نہ کر سکا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعوتی تنظیمیں سالانہ بیس پچیس لوگوں کو بھی اسلام قبول کرانے میں ناکام ہیں۔ ان کا لٹریچر پڑھنے سے زیادہ تر لوگوں کے اندر تنافر ہی بڑھتا ہے۔ ایک سو لوگوں کو یہ دعوتی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں تو ان میں بہ مشکل ایک آدمی ان کی تھوڑی بہت پذیرائی کر دیتا ہے، کہیں دعوتی جلسہ کرتے ہیں تو دو چار لوگ اٹھ کر از راہِ ہمدردی کچھ تعریف کر دیتے ہیں، بس انہیں باتوں سے یہ دعوتی کارکن خوشی سے پھول کر کپا ہو جاتے ہیں۔ ان غریبوں کو ابھی یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ زمانہ لد گیا جب صوفیا اور مبلغین آتے تھے اور ایک جھٹکے میں ہزاروں لوگوں کو بذریعہ تبلیغ مسلمان کر لیتے تھے۔ پہلے کے زمانوں میں دعوت کا ایک تیر بھی نشانہ خطا نہیں کرتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں فلسفیانہ اور سائنسی علوم کا رواج عوام میں نہیں ہوا تھا، سو لوگ آنکھ بند کر کے فوراً ایمان لے آتے تھے، اب اگر آپ کسی شخص سے اسلام قبول کرنے کی بات کریں گے تو وہ اسلامی عقائد پر ایک سانس میں سو سوال داغ دے گا، اور آپ سے ایک کا صحیح جواب بھی نہ بن پڑے گا۔ کملا داس اور یووان رڈلے کی جن دو چار مثالوں کے بل پر یہ لوگ دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، وہ ان کے اپنے ہاتھوں پھیلائی گئی دعوت کا نتیجہ نہیں ہیں۔ کملا داس نے اسلام پر فلسفیانہ جہت میں دعوتی لٹریچر پڑھ کر اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اس کے اسباب روحانی تھے، اسی طرح یووان رڈلی کوئی ایسی خاتون نہیں جن کو ریشنلزم سے کوئی بہت سروکار ہو، وہ ایک صحافی ہیں اور ان کو لگا کہ جدید مغربی تہذیب کی مادہ پرستانہ اقدار کھوکھلی ہیں، وہاں خاندان کا نظام درہم برہم ہو گیا، اور اس کے حل کی جستجو میں انہوں نے روحانی سکون کی خاطر اسلام قبول کر لیا۔ وہ بھی کوئی دعوتی لٹریچر پڑھ کر مسلمان نہ ہوئی تھی۔ پھر اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مغربی مادہ پرستی سے متنفر ہو کر ہزار پانچ سو لوگوں نے صرف مذہبِ اسلام ہی قبول نہیں کیا بلکہ دوسرے متعدد مذاہب قبول کیے ہیں۔ اوشو اور دیگر ہندوستانی سادھو سنتوں کے ہاتھ پر ہندوستانی مذاہب کو قبول کرنے والی خواتین اور مردوں کی تعداد مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یوگ اور دھیان کرنے، اور ان کے ذریعے موکش کی خواہش رکھنے والے لوگ ساری دنیا میں کرڑوں کروڑ کی تعداد میں ہیں۔ عالمی سطح پر یوگا ڈے کا تعین اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہندوستانی درشن اور مابعد موت نجات اور اس دنیا کی زندگی میں بھی نروان اور کیولیہ پراپت کرنے کے طریقے اتنے زبردست اور گہرے ہیں کہ انسان کو کہیں زیادہ اپیل کر رہے ہیں۔ ایک شخص بغیر ہندو یا بودھ کہلائے ان طریقوں کی پابندی کر سکتا اور کرتا ہے۔
اب دنیا میں دعوت کی نوعیت مذہبی کے بجائے روحانی ہو گئی ہے۔ اب دعوت کلمہ پڑھا کر اپنے مذہب میں شامل کرنے اور افرادی قوت بڑھانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے سے انسان کی روحانی فلاح کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ بذریعہ دعوت افرادی قوت بڑھانے کا خیال ہی اب اوچھا اور پست ہے۔ یہ اخلاقاً بڑی نازیبا بات ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ہر پھر کر ایک ہی بات کہے کہ آؤ اور میرا مذہب قبول کر لو۔
چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے تو ایک ہی قوم کے مذہبی فرقوں کے اندر دعوتی کام کا تادیر جاری رہنا ممکن نہیں۔ شیعہ سنی، مقلد اور غیر مقلد، دیوبندی بریلوی کے تنازعوں پر مطالعہ اور غور کریں تو معلوم ہوگا ان کےپسِ پشت فکری اور عقائدی نوعیت کے جھگڑے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں یا نہیں، یہ عقیدے کا حصہ ہے اور اس کی ایک فلسفیانہ بنیاد بھی ہے اور فلسفہ تعبیرات اور پوزیشنس لینے کا کھیل ہے، چنانچہ یہ مسئلہ اب کبھی حل نہ ہوگا۔ اگر اللہ کے رسول کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے پر ایمان لائے تو آپ صوفی اور بریلوی ہوئے، اور اس پر ایمان نہ لائے تو وہابی قرار پائے۔ نماز کے بعد سلام میں بہت لوگ اسی لیے کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود ہیں۔ ایسے مسائل کا حل آپ قرآن سے رجوع کر کے نہیں نکال سکتے کیونکہ قرآن میں بھی انسانی زبان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کی ایک سے زیادہ باہم متصادم تعبیریں کی جا سکتی ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کی تفسیر وجودی اور شہودی دونوں فلسفیانہ مکاتبِ فکر کے تحت ممکن ہے اور کسی ایک کو آپ غلط نہیں کہہ سکتے۔ قرآن کا یہی وہ مقام ہے جہاں سے آپ ذاتِ باری تعالی کے متعلق جو چاہیں ثابت کر دیں۔ جب خدا اول بھی اور آخر بھی ہے تو درمیان میں بھی وہی ہوگا۔ خدا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے، یعنی جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ بھی، اور جو کچھ ظاہر کی اندرونی سطح---یعنی باطن۔۔۔ میں ہے وہ بھی خدا ہوگا۔ اس لیے وجودی فلاسفہ کے نزدیک ہر شئے بالذات خدا ہوتی ہے۔ جب قرآن ہی کے مطابق خدا ظاہر اور باطن دونوں ہے تو اب باقی کیا رہ گیا؟
اس لیے یہ سمجھنا کہ اسلامی فرقوں کے باہمی عقائدی تنازعات کو آپ قرآن سے رجوع کر کے حل کر لیں گے، آپ کی علمیت کی کمی کا ثبوت ہے۔ قرآن سے رجوع کرنے کے نام پر آپ زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ قرآن کی ایک ہی تعبیر کو دوسرے فرقوں کے افراد پر اپنی چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے تھوپنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسرے فرقے کیوں چپ بیٹھیں گے؟ وہ بھی یہی کریں گے، اور تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی فرقوں کے مابین اب تک یہی دعوتی اور عقائدی کشمکش برپا رہی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے ہیں۔
جاننا چاہیے کہ آپ کا عقیدہ اصلاً ایک تعبیر ہے، یہ کوئی سائنسی یا تجرباتی حقیقت نہیں ہے کہ ہم اس کی صداقت و حقانیت کے لیے ڈیڑھ ہزار سال سے باہمی پیکار میں پڑے ہیں۔ سائنسی صداقتیں بھی اتنے دنوں تک تجربہ کی سطح پر آ کر معطل نہیں رہتیں، بلکہ وہ انسانوں کے اٹل عقیدہ کا حصہ بن جاتی ہیں اور لوگ بلاتفریقِ مذہب و ملت اسے اتنی بڑی تعداد میں مان لیتے ہیں کہ اس سے اختلاف کرنے والے کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی۔ مذہبی عقائد کی نوعیت ایسی نہیں کیونکہ ان کے اندر معنی کی بہت سی "طرفیں" اور تعبیریں ہوتی ہیں۔ عقائدی تنازعہ کی حقیقت یہ ہے کہ ایک "طرف" اور ایک "تعبیر" والا دوسری طرف اور تعبیر والوں سے الجھا ہوتا ہے۔
پھر جو معاملہ دروں مذہبی عقائدی تعبیرات کا ہے وہی بین مذہبی کا بھی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بعض مذاہب توحیدی مذاہب کے برعکس خدا کو ایک نہیں کہتے بلکہ وہ سرے سے خدا کے عدم یا وجود پر کوئی مثبت یا منفی حکم نہیں لگاتے۔ ان کے نزدیک اس کے اسباب ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ خدا کو "ایک" کہنے میں بہت سے منطقی اور عقلی مسائل ہیں۔ "خدا ایک ہے" آخر اس بیان کے معنی کیا ہیں؟ عددی اعتبار سے تو "1" بہت کم ہوا، خدا کو کم از کم لاکھ اور کروڑ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے، تب مانا جائے گا کہ خدا سب سے بڑا اور طاقتور ہے۔ جو مذاہب خدا کو ایک مانتے ہیں وہ اس کی صفات کو انیک مانتے ہیں، مثلاً رحیم، کریم، جبار، قہار، خالق، مالک وغیرہ۔  پس، صفات کے اعتبار سے تو خدا ایک نہ رہا، اور ذاتِ باری تعالی کے لیے تعدد اور کثرت کو تسلیم کر لیا گیا۔  کیا "خدا ایک ہے" کہنے کے معنی خدا کا جسمانی اعتبار سے ایک ہونا ہے؟ جیسے ہم کہتے ہیں ایک پتھر، ایک آلو، ایک کرسی، ایک پہاڑ، کیا ان معنوں میں خدا ایک ہے؟ آلو اور پتھر تو لاتعداد ہوتے ہیں، پھر کیا خدا آلو اور پتھر کی تعداد سے بھی کم ہے؟ صرف ایک؟ پھر وہ ایک خدا کہاں پایا جاتا ہے؟ اگر وہ اسی کائنات کے اندر کسی شئے کی طرح کہیں موجود ہے، یعنی عرش و کرسی پر تب تو وہ کائنات کے اندر ْہوا، لیکن اس صورت میں وہ کائنات کا خالق کیونکر ہو سکتا ہے؟ خود ہی ایک کائنات پیدا کرو اور اس کے اندر بیٹھ رہو، یہ آخر کیسی بات ہے؟ غرض "خدا ایک ہے" یہ ایک ایسی بات ہے جس کا کوئی ایسا مفہوم نہیں نکلتا جس میں کوئی نہ کوئی ناقابلِ حل مسئلہ نہ ہو۔ چنانچہ بعض مذاہب نے اگر خدا کا برملا انکار نہ کیا تو اس کے بارے میں کوئی بیان بھی نہ دیا، بعض مذاہب نے خدا کو صفات سے بھی متصف نہیں کیا کیونکہ الگ الگ صفات خدا کی ذات کے اندر تعدد، اختلاف اور تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پس، جاننا چاہیے کہ خدا کو ایک کہنا، اس کے متعلق خاموش رہنا، یا اس کو صفات سے معرا بتانا، یا اس کے وجود کا انکار کرنا، یہ سب قطعی علم کے نہ ہونے کے سببب کی جانے والی فلسفیانہ تعبیریں ہیں اور متعدد مذاہب اور ان میں سے ہر ایک فرقے نے اپنے فکر و عقل کی بنا پر کسی ایک تعبیر تک پہنچ کر اس کو اختیار کر لیا ہے، اور ان کے ماننے والے آپس میں بغیر کسی حقیقی سبب کے لڑ رہے ہیں، چنانچہ وحدتِ ادیان کا فلسفیانہ تصور قائم کیا گیا تاکہ انہیں باہمی لڑائی جھگڑوں سے بچایا جائے اور یہ درس دیا جائے کہ سب مذاہب فی الاصل ایک ہی ہیں۔ ذاکر نائیک بجائے اس کے کہ وحدتِ ادیان پر بات کرتے، انہوں نے تعداد بڑھانے والی تبلیغ شروع کر دی اور اسی غرض سے مذاہب کا مقابلہ کیا کہ ان میں کون زیادہ اچھا اور سچا ہے۔لیکن اس نقطہ نظر سے کیا جانے والا تقابل انسانی معاشرے میں تو تو میں میں اور مناظرہ کی گرمبازاری کے سوا کچھ پیدا نہیں کر سکتا۔
ہر ایک مذہب کے اندر کوئی نہ کوئی منفرد خوبی ہے اور کسی نہ کسی معاملے میں وہ اوروں سے نمایاں ہے۔ جیسے انسانوں کے اندر انفرادی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور کوئی شخص ہر فن مولا نہیں ہو سکتا۔ کسی نہ کسی علم یا فن میں وہ ضرور دوسرے فرد سے کم نکلے گا کیونکہ اس نے اس میں مہارت حاصل نہیں کی۔ دنیا بھر میں جتنے عظیم لوگ گزرے ہیں ان سب کی خصوصیات کسی ایک شخصیت میں جمع ہونا ممکن نہیں۔ اسی طرح مذاہب نے بھی اپنے اندر منفرد خصوصیات پیدا کی ہیں اور کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں تمام مذاہب کی خصوصیات بدرجہ اتم پائی جائیں، نہ عقائد کے معاملے میں اور نہ عبادات و رسومات کے معاملے میں۔ اور یہ کوئی مطلوب بھی نہیں کہ کسی مذہب میں سارے مذاہب کا عطر پایا جائے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی ایک انسان کے اندر تمام انسانوں کی خصوصیات دیکھنے کی ناکام کوشش کریں۔
تقابلِ ادیان کا مقصد یہ ہے کہ تمام مذاہب جن حالات میں متشکل ہو کر جن خصوصیات کے حامل ہو گئے ہیں، ان کو نمایاں کیا جائے اور یہ کام بحسن و خوبی اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہم ایک کو دوسرے کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں۔ جیسے اجالے کی تمیز اندھیرے سے ہوتی ہے، سرخ کی تمیز سرخ کے طور پر اس لیے ممکن ہے کہ وہ سبز نہیں ہے، اور سبز اس لیے سبز ہے کہ وہ سرخ نہیں ہے۔ دنیا میں ایک ہی رنگ رہ جائے تو اس کو بحیثیت رنگ کے ہم نہ جان سکیں گے۔ جاننا اصلاً تمیز اور تعمیم کا کھیل ہے جو انسانی ذہن کی بنیادی سرگرمی ہے۔ مذاہب کے درمیان باہمی تقابل سے ان کے درمیان اختلافات و اشتراکات روشن ہوتے ہیں، اور ان کے مابین قربتوں اور دوریوں کا علم ہوتا ہے۔ تقابلِ ادیان میں بہتر و کہتر کی تفریق کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔
ذاکر نائیک کا سارا تقابلِ ادیان محض اس لیے ہے کہ کیسے دوسرے مذاہب والوں کو مشرف بہ اسلام کر کے دوسری قوموں کا یا تو وجود ختم کر دیا جائے یا پھر انہیں افرادی قلت سے دوچار کر دیا جائے۔ ایسی تبلیغِ مذہب کے جو حتمی معنی نکلتے ہیں وہ یہی ہیں۔ البتہ ایک شخص اگر اپنی مخصوص ذہنی افتاد کے سبب کوئی دوسرا مذہب قبول کرتا ہو یعنی وہ کسی بھی مذہب کو اپنے ذہن و مزاج سے ہم آہنگ پاتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اپنا مذہب بدل لے۔ اسی طرح ایک لامذہب مذہبی یا مذہبی لامذہب بننا چاہتا ہو تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔ یہ اپنی اپنی افتادِ طبع اور ذہن و مزاج  کی بات ہے کہ ایک کو گلاب زیادہ پسند ہے، دوسرے کو بیلا اور جوہی کی خوشبو زیادہ اچھی لگتی ہے یا ایک کو آم زیادہ اچھا لگتا ہے، دوسرے کے لیے پپیتا زیادہ مفید ہے اور آم سے اس کا معدہ بگڑ جاتا ہے۔ یہ سب ذاتی نوعیت کی باتیں ہیں۔
تقابلِ ادیان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کس طرح مذہب کی دنیا میں دیگر مذہب کے وجود کو ختم کر دیا جائے۔ ممکن ہے ایک شخص کو بدھ مذہب زیادہ یا کم سوٹ کرے اور دوسرے کو ہندو مت یا اسلام۔  مذہب کی تبلیغ خواہ کوئی جماعت کرے یا فرد، اس کو ہر لمحہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اس کے مذہب کے طالب ہوں، بس انہیں تک وہ اپنے مذہب کا پیغام پہنچائے، یہ نہیں کہ وہ اپنے تقابلِ ادیان میں اچھے برے، کم سچے اور زیادہ سچے اور قطعی سچے کی درجہ بندی کرے اور اپنے مذہب کے متعلق یہ کہے کہ سب لوگ اپنے مذہب کو ترک کر کے میرا یہ آبائی مذہب قبول کر لو، کیونکہ میں نے تقابلِ ادیان کی رو سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ میرا مذہب سچاترین اور حرف آخر ہے۔
دنیا میں ایک فلسفہ، ایک نظریہ، ایک مذہب، ایک زبان، ایک نسل ہی باقی رہے اور بقیہ سب فلسفے، مذاہب، زبانیں، اور نسلیں مٹ جائیں، ایسا سوچنا بعض افراد کی حد تک ہو تو اس میں زیادہ نقصان نہیں، لیکن اگر یہ لوگوں کا عمومی رجحان ہو جائے تو اس کا خمیازہ جلد یا بدیر ان لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
تبصرے:
س۔ ف: بہت عمدہ اور بلیغ مضمون.آج کے دور میں تبدیلیِ مذہب کی تبلیغ بےوقوفی ہے کیونکہ کسی کے پاس آج کے سوالات کے جواب نہیں.شاید ہی کوئی باشعور فرد ہو جو تبلیغ کی کوشش سے مسلم ہوا ہے.
ع غ: تو پھر قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ  کے متعلق آپ کی کیا راے ہے ؟
طارق صدیقی: آپ اپنی جگہ خود سوچیں کہ جو ذات احد ہوگی اس کو واحد کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور جو ذات "صمد" یعنی بینیاز ہوگی اس کو انسان سے اپنی عبادت کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور جس کو نہ کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا، وہ خود اپنی ہی تخلیق کردہ کائنات کے اندر عرش و کرسی لگا کر کیسے اس پر فائز ہو سکتا ہے؟ وہ اس کائنات سے باہر ہوگا یا اندر؟
و خ: میری سمجھ میں تو یہ آیا ھے کہ ھر مذھب اپنی بنیاد میں سیکولر اقدار رکھتا ھے ....
یا رکھنی چاھیے ..
کیا مدعا یہ ھی ھے ..؟
طارق صدیقی:  سیکولرازم ایک قسم کی حکمتِ عملی ہے جو مذہبی بدامنی کے مقابلے میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ یا تو سب لوگوں کو بزورِ شمشیر ایک مذہبی عقیدے کا پابند کر لیا جائے یا پھر سب کو اپنے اپنے عقیدے پر چلنے کی آزادی دی جائے۔ پہلا طریقہ کارآمد نہیں رہا کیونکہ اس صورت میں مذہبی لوگوں نے ایک دوسرے کا خون مذہب کے نام پر بہایا، آج بھی عالمِ اسلام میں جو خون خرابہ ہو رہا ہے وہ مذہبی فرقہ بندی کے سبب ہے۔ آخر کس فرقہ کے افراد یہ پسند کریں گے کہ دوسرے عقیدہ کے لوگ ان پر حاکم بن جائیں؟ اگر آپ صرف خدا کو رازق و مشکل کشا مانتے ہوں تو کیا آپ یہ قبول کریں گے کہ ایک ایسا شخص آپ پر حاکم بنا دیا جائے جو یا غوث المدد کہتا ہو؟ اسی طرح کیا یہ ممکن ہے کہ "یا غوث المدد" کہنے والا ایک نجدی کو اپنا خلیفہ مان لے اور اس کی اقتدا میں ریاست کی سب سے بڑی جامع مسجد میں نماز پڑھے؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایک فرقے کے مذہبی اقتدار کو دوسرا فرقہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں، اگر کسی مقام پر نجدی نظامِ حکومت قائم ہو جائے جو نصابی کتابوں میں اولیا اللہ کے کشف و کرامت کی نفی سکھائے یا کسی خانقاہی ریاست میں نجدیوں کے بچے اولیا اللہ کی کرامتیں نصابی کتب میں پڑھنے پر مجبور کیے جائیں، ان دونوں صورتوں میں امن و امان قائم نہیں رہ سکتا۔ مذہبی ریاست میں اس قسم کے لڑائی جھگڑے ایک ہی مذہب کے فرقوں کے مابین ہوتے رہتے ہیں، اقلیتی مذاہب کے ساتھ تو وہاں اور بھی برا سلوک ہوتا ہے۔ سیکولرازم اسی قسم کے لڑائی جھگڑوں سے بچانے کے لیے وجود میں آیا۔ اس کے پیچھے بھی ایک طویل فلسفیانہ تاریخ ہے۔
مذہب بنیادی طور پر کوئی سیکولر چیز نہیں ہے۔ یہ انسان کی نجات سے متعلق سوالوں کا جواب فراہم کرتا اور اس کے لیے کچھ طریقے اور رسوم کو متعارف کراتا ہے۔ سیکولرازم اسی دنیا کی زندگی میں کامیابی کے کچھ واضح طریقے بتاتاہے۔ سیکولرازم کا لازمی مفہوم خدا یا زندگی بعد موت سے انکار نہیں ہے۔ ایک سیکولر ریاست میں مذہبی نجات ایک انفرادی معاملہ ہوتا ہے، اور اجتماعی معاملات عقل، تجربہ اور مشاہدہ کی روشنی میں طے کیے جاتے ہیں کسی مذہبی کتاب کی بنیاد پر نہیں۔
میں نے یہ جو کہا ہے کہ زندگی اور کائنات سے متعلق عقیدہ کی نوعیت تعبیری ہے، وہ مذہبی، لامذہبی، بیخدا اور باخدا کے درمیان مصالحت کی حقیقی اور عقلی بنیاد رکھتا ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ میری یہ بات کسی مذہبی کتاب سے ثابت شدہ ہے۔ کوئی مذہبی عقیدہ اپنے متعلق یہ نہیں کہتا کہ وہ محض ایک تعبیر ہے جس سے ہٹ کر ایک مختلف تعبیر پیش کی جا سکتی ہے۔ ایسا میں اپنی عقل و فکر سے کہتا ہوں۔
29 جنوری 2017 کو پوسٹ کیا گیا۔