جمعرات، 20 اگست، 2015

دعوتِ دین اور داڑھی کی شرعی مقدار

فیس بک پر میرا ایک اسٹیٹس اپڈیٹ (تاریخ یاد نہیں):
مقلدین مودودی ﮐﻮ ﻻﮐﮫ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ ﮐﮧ ﺑرادرانِ اسلام, ﺍﮔﺮ آپ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮنی ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺸﺖ ﺑﮭﺮ ﺩﺍﮌﮬﯽ سنت کے مطابق ﺭکھیں, تفریحی اغراض سےﺍﭘﻨﯽﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟﮐﮭﻨﭽﺎﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮیں, ﻓﻠﻢ ﺑﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﺳﺨﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﺮیں, ﺍﻟﻐﺮﺽ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ لیں, ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻋﻮﺕِ ﻋﺎﻡ فرمائیں, ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻗﻄﻌﯽ معروضی ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺐ بھی انہیں متوجہ کیا ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ, ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ کی مقدار ﺷﺮﻁ ﻧﮩﯿﮟ تو وہ اس مسئلے میں مولانا مودودی کے من مانے فتوے پر چل رہے ہوتے ہیں. ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ سے ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﯽ صریحی ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﺘﻌﯿﻦ ہوتی ہو, اس لیے  علامہ مودودی نے حدیث میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے داڑھی کی روایتی مقدار میں تخفیف فرما دی تھی (دیکھیں رسائل و مسائل) جس کے نتیجے میں مشت بھر سے خاصی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ رکھنے کی ایک نئی سنت (صحیح معنوں میں بدعت) رائج ہو گئی. مجھے علم نہیں کہ مولانا مودودی نے اس رخصت سے کس حد تک فائدہ اٹھایا, لیکن آج دنیائے علم و ادب, یونیورسیٹیوں, کالجوں اور دفاتر  میں پائے جانے والے تجدد پسند اسلامسٹوں میں داڑھی کا مودودی ماڈل بیحد مقبول ہے.
ﺍتنی ﮐﻢ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شخص "کٹھ ملا" ہے، بلکہ اول اول ایک سنجیدہ مفکر کا تاثر قائم ہوتا ہے.
ایک مشت داڑھی کی قید سے شرعاً نجات پانے کے بعد رفتہ رفتہ سینٹی میٹر بلکہ میلی میٹر میں بھی ٹریمر سے داڑھی ٹرم کرنے کی ایک روایت عملاً وجود میں آ گئی, اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پسندوں کی خاصی اسمارٹ صورت نکل آئی. ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﮑﻞ ﻭ صورت ﻣﯿﮟ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺫﻭﻕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮨﻮ گئی ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﺑﮭﯽ. ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺭﻧﺪ ﺭﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻧﮧ ﮔﺌﯽ!
جب کبھی روایتی علما نے ان سے سوال کیا کہ یہ سنت کی پیروی کا کون سا طریقہ آپ نے اپنایا ہے تو ان کا جواب یہی تھا کہ تم اسلام کو داڑھی میں قید سمجھتے ہو؟ اسلام  کرتے پاجامے کی مخصوص کاٹ اور داڑھی کا طول و عرض نہیں, یہ سب تو چھوٹی موٹی اور فروعی بحثیں ہیں, اصل چیز تو تقوی ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ دل میں ہوتا ہے. ان مودودیوں کو ایسی تاویلیں کرتے ہوئے یہ بھی نہ سوجھا کہ قرآن و سنت سے معنی اخذ کرنے کا ان کا طریقہ بھی وہی ہے جو روایتی علما کا ہے, اور احکام شریعت کے نفاذکے معاملے میں یہ ہرگز نہیں دیکھا جاتا کہ معاملہ چھوٹا ہے یا بڑا, بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ خود مذہبی متن سے کیا معنی برآمد ہوتے اور صحابہ و سلف ان سے کیا مراد لیتے آ رہے ہیں. اور داڑھی کی مقدار کا مسئلہ اس قدر چھوٹا موٹا اور غیراہم ہے تو کیوں نہیں یہ مودودیے ایک مشت داڑھی رکھ ہی لیتے ہیں؟ اور اگر یہ اتنی ہی غیر اہم فروعی بات ہوتی تو داڑھی نہ رکھنے پر روایتی علمائے کرام فاسق اور مردود الشہادۃ ہونے کا فتوی کیوں دیتے؟ اور یہ فتوی تو اسی روایتی فقہی طریقے سے لگایا جاتا ہے جس طریقے سے نکاح و طلاق کے مسائل میں فتوے لگائے جاتے ہیں. پھر روایتی فقہ کے ایک نتیجے کو ماننے اور ایک کو نہ ماننے کا کیا مطلب ہے؟

اس پر ایک صاحب نے درج ذیل تبصرہ کیا:

ڈاڑھی کا رکھنا معاملات کی قبیل سے ہے یا عبادات کی؟  اس بات کو سمجھنے سے شرعی حکم کی نوعیت بمعنی فتوی بالکل بدل جائے گی اور بالخصوص جب کہ اس کا تعلق بھی فروعی احکام سے ہو.

میں نے ان کے تبصرہ کا درج ذیل جواب دیا:

پس, آپ کے فتوے کی رو سے ستر عورت کے مروجہ حدود بھی ختم ہو جائیں گے, اور دوپٹہ رکھنا بھی لازم نہیں ہوگا, بلکہ منی اسکرٹ پہن کر نامحرم مردوں سے تنہائی میں ملنا بھی عورت کے لیے جائز ہو جائے گا کیونکہ ان سب باتوں کا تعلق بھی عبادات سے نہیں معاملات سے ہے. اسی طرح چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی عبادات میں سے نہیں ہے. آپ یہ کہہ کر نہیں بچ سکتے کہ یہ قرآن کا حکم ہے (اس لیے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی)  کیونکہ قرآن خود یہ کہتا ہے کہ جو کچھ اللہ کے رسول تمہیں دیں اسے لے لو, اور جس چیز سے منع کریں, اس سے رک جاؤ.
اس لیے ایک بار کسی حدیث کے متعلق یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ واقعی قول رسول ہے اور اس میں کسی بات کا حکم دیا جا رہا ہے تو آپ کے فتوے کے مطابق اگر وہ عبادات میں سے نہ ہو کر معاملات میں سے ہو, تو اس کو بدلا جا سکتا ہے؟ یہی کہنا چاہتے ہیں نہ آپ؟ تو اب میں آپ کے مطابق تبدیل شدہ فقہی احکام کی ایک فہرست مرتب کروں, یا آپ خود ہی کریں گے؟

میرے مذکورہ بالا تبصرے کے بعد انہوں نے درج ذیل جواب دیا:
آپ کے مذکور نکات درست ہوتے اگر ڈاڑھی کا تعلق معاملات میں سے ہوتا. میں اس کو عبادات کے فروعی احکام میں سے سمجھتا ہوں.  "معاملات" کی لفظی ترکیب خود اس بات کی وضاحت ہے کہ ایسے امور جو سماج کے باہمی اتصال و احکام پر مشتمل ہوں. کسی کی ڈاڑھی بڑی ہے یا چھوٹی، ایک مشت ہے یا کم یا سرے سے ہے ہی نہیں اس بات کا "معاشرتی معاملات" سے کیا تعلق؟؟

میرا جواب:
یوں تو انسان کا ہر کام عبادت ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق انجام دیا جائے لیکن اصطلاحی معنوں میں عبادات سے مراد  پرستش کے وہ مخصوص رسمی طریقے ہیں جن کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا ہے.
داڑھی رکھنا عبادت کا کوئی مخصوص اور رسمی طریقہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو ہر انسان کے داڑھی ہو, یہ ضروری نہیں؛ دوسرے, عورتوں کو سرے سے داڑھی ہوتی ہی نہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک عبادت سے محروم ہیں؛  تیسرے, مذہبی عبادات انسان کے اضطراری افعال (مثلاً سانس لینا) کے بجائے ایسے اختیاری اعمال پر مبنی ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاں مذہب کے ماننے والوں کا طریقہ پرستش ہے, اور داڑھی کوئی اختیاری چیز نہیں یعنی داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا بندے کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے, بلکہ یہ سراسر ایک فطری امر ہے کہ کسی کو داڑھی ہوتی ہے اور کسی کو نہیں, چوتھے, ہر انسان کے اختیار میں چونکہ داڑھی کا اگانا یا نہ اگانا نہیں بلکہ اگر داڑھی اگے تو اس کو رکھنا یا نہ رکھنا ہے, اس لیے داڑھی کے مسئلے میں لفظ عبادت کا اطلاق خود آپ ہی کے نقطہ نظر سے تبھی درست مانا جائے گا جب آپ اس کو چھوڑ دیں یا مونڈیں. (کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک داڑھی کا رکھنا عبادت ہے یا اس کا مونڈنا؟)  پانچویں, پھر آپ ہی کے نظریے کی رو سے جسم پر جس قدر بال ہیں ان میں سے بعض  کے متعلق احادیث میں مونڈنے (عانہ) یا اکھیڑنے (بغل کے بال) کا حکم آیا ہے, پس انہیں مونڈنا یا نہ مونڈنا یا اکھیڑنا یا نہ اکھیڑنابھی (آپ کی فقہ کی مقدار کے مطابق) بھی عبادات میں ہی شمار ہوگا؛ عورت کے سر کے بالوں کو خاصا لمبا رکھنے  کا حکم آیا ہے اور انہیں بہت  چھوٹا کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے, پس یہ بھی آپ کی رو سے عبادات میں ہی شمار ہوگا.  بلکہ اسی اصول کی رو سے ناخن بڑھانا یا کاٹنا بھی رسمی عبادت کی ہی ایک شکل ہوگی. اس کے علاوہ ایک بات اور بھی آپ کہتے ہیں کہ "عبادات کے فروعی احکام میں فتوی بالکل بدل جائے گا" (اپنا پہلا تبصرہ دیکھیں) تو اب چاہےجسم پر کہیں بھی بال بڑھیں یا ناخن, ان کو کسی بھی حد تک کاٹنا/مونڈنا یا نہ کاٹنا/نہ مونڈنا بھی عبادات کے فروعی احکام قرار پائیں گے, پھر آپ ہی کے نقطہ نظر سے غسل و وضو بلکہ غسل جنابت بھی عبادات کے فروعی احکام ہیں, پھر ان میں ایک شخص چاہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی فقہ لے کر الگ بیٹھ جائے اور ان کو بالکل بدل دے! خواہ صحابہ کا عمل کچھ بھی کیوں نہ ہو! مثلاً وہ بیوی سے صحبت کرے اور غسل جنابت نہ کرے اور جب اس سے گھر کے لوگ پوچھیں کہ تم کبھی غسل نہیں کرتے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیتے ہو, تو وہ آپ کی فقہ کے مطابق جواب دے کہ یہ تو عبادات سے متعلق  فروعی حکم ہے جس کو بدلا جا سکتا ہے! معاذ اللہ.

آپ کو معلوم ہو کہ فروعی حکم بھی نہیں بدلتا اگر وہ اللہ کے رسول کی صریح احادیث سے ثابت ہو. البتہ فروعی احکام جن مذہبی متون سے برامد ہوتے ہیں ان کے معنی اگر ایک سے زیادہ نکلتے ہوں, تو یہ ایک فروعی مسئلہ اور فروعی اختلاف ہوا. غرض فروعی حکم اور فروعی احکام میں اختلاف دو باتیں ہوئیں. لیکن یہ کہنا کہ ہم سرے سے فروعی حکم کو ہی نہ مانیں گے, یا اس کو جب چاہے بدل دیں گے, اس سے بے شمار رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی اور اسلام پر عمل ناممکن ہو جائے گا.
بال, داڑھی, ناخن, اور لباس کی تراش  خراش اور ہماری وضع قطع کا تعلق بالذات رسمی عبادات سے نہیں بلکہ ہماری معاشرت اور ہمارے معاملات سے ہی ہے. ہماری ہر ایک حرکت کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے, مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر سرعام برہنہ ہو جائے  تو اس سے دوسروں کا براہ راست کچھ نہیں بگڑتا, لیکن اس کا بالواسطہ اثر دوسروں پر ضرور پڑتا ہے. بالخصوص داڑھی کا مونڈنا حقیقی مومن عورتوں کو سخت ناپسند ہوگا اور بہت سی مسلمان خواتین کو پسند ہوگا. داڑھی اور جسم کے دوسرے بالوں کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق چونکہ جنڈر اپیل سے بھی ہے, صفائی و ستھرائی, ذوق سلیم, تزئین و آرائش, اور آداب نمائش سے بھی ہے, اور اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے, اگر ایک شخص داڑھی منڈا کر یا فرینچ کٹ داڑھی رکھ کر سر بازار گھومے تو اس کا اثر لازماً دوسروں پر پڑےگا, اسی طرح ملبوسات اور ستر عورت کا معاملہ ہے کہ ایک شخص غیر شرعی لباس پہنے جس سے ستر عورت کی سربازار نمائش ہوتی ہو, تو بے شک وہ ایسا کام کرتا ہے جس سے دوسرے بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں, اس لیے شخصی طور طریقوں اور  تزئین و آرائش کا انداز بھی بالواسطہ طور پر معاملات کے اندر ہی آتا ہے. عبادات سے بھی ان کا تعلق ضرور ہے لیکن وہ عبادت کی شرطیں ہیں, اور بالذات عبادت نہیں, عبادت کے فروعی احکام میں ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا.
میں مفتی تو نہیں ہوں, اس لیے جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں ممکن ہے فقہی اصطلاحات سے متعلق غلطیاں پائی جائیں. جو کچھ میں کہہ رہا ہوں, اس کے مافی الضمیر کو سمجھنے کی ضرورت ہے.

پیر، 17 اگست، 2015

احسان اور تجارت

نزاع اجنبیوں سے نہیں، اپنوں سے ہوتی ہے۔ اپنوں سے ہمیں جائز و ناجائز توقعات ہوتی ہیں جن کے پورا نہ ہونے پر ہم ان سے جھگڑتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کو اپنا نہ سمجھا جائے۔ اگر ہم دوسروں کو اپنا نہ سمجھیں گے تو توقع ہی ختم ہو جائے گی۔ بقول غالب:
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس کے بعد نہ کسی سے دشمنی ہے اور نہ کسی سے دوستی۔ البتہ جس قدر دوسروں کا ہم نے احسان لیا ہے، اسی قدر احسان انہیں ہم ادا کر دیں۔ لیکن اس میں ایک شرط ہے، وہ یہ کہ اگر اگر ہم کسی کا احسان اپنے سر لیں تو بس اتنا کہ اس کو ہم ادا کر سکیں۔ اتنا زیادہ احسان لے لینا کہ اس کو ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو، مناسب نہیں ہے۔ بالفرض، کسی سے اتنا زیادہ احسان لینے کی نوبت آ ہی جائے تو پھر اسی وقت کہہ دینا چاہیے کہ بھائی میں اتنا زیادہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہوں گا۔ اس لیے تم میری طرف سے اپنے اس احسان کا بدلہ پانے کی توقع مت رکھنا۔ یہی وہ شرط ہے جسے عائد کرنے کی جرات احسان اٹھاتے وقت ہم کو ہو، تو ہم اپنے تئیں دوسروں کے توقعات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، ہم دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اگر ہم پر احسان کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کا بدلہ پانے کی توقع ہم سے بالکل نہ رکھیں۔ اسی طرح ہم دوسروں پر کوئی احسان کرنا چاہیں، تو اس کا بھی بدلہ پانے کی توقع رکھنا ہمارے لیے صحیح نہیں ہو سکتا۔
لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت سمجھتے ہوں تو پھر اس پر تجارت کے اصول و قوانین نافذ کرنے ضروری ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم دوسروں پر احسان کریں اور دوسروں سے احسان کی توقع نہ رکھیں۔ زندگی اگر تجارت ہے تو پھر اپنوں اور دوسروں کے احسان کو تجارت کے ترازو پر تولنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ پھر کسی پر ایک احسان کرنے کے بعد ہم اسے یاد دلا سکتے ہیں کہ ہم نے آپ پر فلاں احسان کیا تھا۔ لیکن اگر ہم زندگی کو تجارت نہ سمجھ کر سراپا احسان سمجھیں تو پھر زندگی کی اس تجارت میں ہونے والے نفع و نقصان سے بے نیاز ہو جانا ہمارے لیے ضروری ہے۔ بلکہ زندگی کو احسان کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد زندگی سےتجارتی رویہ کو رخصت ہو جانا چاہیے۔ پھر نہ کسی کو بدلہ دینا ہے اور نہ کسی سے بدلہ لینا ہے۔ بس احسان کرتے چلے جانا ہے اور کبھی بھول کر بھی کسی سے احسان کا بدلہ نہیں چاہنا ہے۔
احسان کا نہ کوئی بدل ہو سکتا ہے اور نہ اس کو خود تسلیم کرنے یا دوسروں سے کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس، شکریہ کے الفاظ بھی غیرضروری ہیں۔ جس وقت ایک شخص ہم پر احسان کرتا ہے، اگر ہم اسی وقت اس کا شکریہ ادا کر دیں تو گویا زندگی ایک تجارت ہو گئی، ہم نے شکریہ کا لفظ کہہ کر احسان کا بدلہ چکا دیا۔ اسی طرح اپنے احسان کے بدلے کسی سے شکریہ کی توقع رکھنا بھی عبث ہے کیونکہ آپ زندگی کو تجارت نہیں احسان سمجھتے ہیں اور احسان کی نوعیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کے بدلے آپ کچھ بھی نہ چاہیں، یہاں تک کہ شکریہ کے کلمات بھی نہیں۔ شکریہ احسان کی رسید نہیں ہے۔ کیونکہ احسان کوئی تجارتی قسم کی چیز نہیں۔ شکریہ ادا کرنا ہمارا فرض بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ فرض وہی ہوتا ہے جس کو ہم اپنے ذمے قرض سمجھیں۔ اور کسی شخص کا ہم پر احسان کرنا قرض نہیں ہے، بلکہ بالکل مفت ہے۔ اور جو چیز بالکل مفت حاصل ہو، اس کے لیے کسی کو شکریہ کہنا نہ صرف یہ کہ وقت اور انرجی کی بربادی ہے، بلکہ اس احسان کو تجارت بنا دینا ہے جو ہم پر کسی اور نے کیا ہے۔
لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ شکریہ کے وہ معنی ہی نہ ہوں جو ہم اب تک سمجھتے آئے ہیں۔ یہاں ہمیں شکریہ کے عام رائج مفہوم سے یا لغوی مفہوم سے بحث نہیں ہے۔ شکریہ کے معنی صرف مسرت کے ہیں۔ اگر ایک شخص نے آپ کو چائے پلا دی اور آپ واقعی چائے کی ضرورت محسوس کر رہے تھے تو اس پر آپ کو خوشی ہونی چاہیے اور آپ کے منہ سے اہا، واہ جیسے الفاظ نکلنے چاہئیں۔ یہ گویا اس بات کی اطلاع ہے کہ چائے دیکھ کر آپ کی طبیعت خوش ہوئی۔ چائے پلائے جانے پر جو واہ زبان سے ادا ہوئی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے ایک رسید کاٹ کر دے دی کہ ہاں بھائی، میں اس وقت چائے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، جو تم نے پوری کر دی تو اب میں بھی تمہیں کبھی چائے پلا دوں گا۔ واہ کے معنی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ آپ کو از حد خوشی ہوئی۔ واہ کا مطلب صرف اظہارِ مسرت سے ہے۔ اور جو مطلب واہ کا ہے، وہی شکریہ کا بھی ہے۔ اس لیے شکریہ بھی اصلاََ صرف اپنے لیے ہے کیونکہ لطف ہمیں آیا اور چونکہ ہمارے محسن کو احسان کر کے لطف ملا، اس لیے ہم نے لفظ شکریہ اس کو بھی سنایا تا کہ اجتماعی لطف آ سکے۔
اس بات کی اطلاع ہے کہ آپ کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی احسان سے خوش ہوئی، یا آپ کی کوئی ضرورت پوری ہوئی۔ اس اطلاع سے آپ کے محسن کو بھی مسرت کا احساس ہوگا کہ چلو میری کوشش یا سرمایہ ضائع ہونے کے بجائے کسی کے کام آ گیا۔ یعنی احسان جو ہے وہ اگر نہ کیا جائے تو سراسر ایک ضائع ہو جانے والی چیز ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کا مفہوم بھی یہی ہے کہ آپ نے جو نیکی کی، اگر وہ نہ کرتے تو بھی اس نیکی پر آنے والا صرفہ یا سرمایہ ضائع ہی ہو جانے والا تھا، اب آپ نے نیکی کر ہی دی، تو اس میں آپ کی کیا تخصیص ہے، ایسی نیکی پر تو وہ لوگ بھی قادر ہیں جنہوں نے یہ نہیں کیا، آپ نے کر دیا تو اس کے معنی یہ تھوڑے ہی ہوئے کہ آپ بڑی قدرت رکھتے ہیں جس کا احسان خدا کی طرح جتا رہے ہیں اگر آپ نے کوئی نیکی کی، اور وقت بے وقت اس کی گردان کرتے رہے، تو سمجھیے کہ آپ نے جو کچھ کیا، وہ بنیادی طور پر از قسم تجارت ہے۔ اور اب آپ بازار میں کھڑے ہو کر اس کی قیمت لگوا رہے ہیں۔ اور اس دنیا کی ریت یہی ہے کہ وہ مال خریدنے سے پہلے مول جول کرتی ہے۔ پھر آپ کے مال پر خریدار جرح کیوں نہ کریں گے؟ تجارت کے ہر مال کی طرح آپ کا مال بھی بازار کی زینت بنے گا اور لوگ اس کے دام لگائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ تجارت کرنا بھی ایک قسم کی نیکی ہی ہے اگر آپ اس میں نہ ڈنڈی ماریں اور نہ حق سے زیادہ منافع لیں۔
معلوم ہوا کہ نیکی دو قسم کی ہوتی ہے۔ تجارتی اغراض سے کی جانے والی نیکی، اور بالکل مفت یعنی دریا میں ڈال دینے والی نیکی۔ احسان جتانے والے زیادہ تر لوگوں سے مجھے اسی لیے کوفت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے ہی ذریعے کی گئی نیکی کی نوعیت کو نہیں سمجھ پاتے اور تکلیف دہ حد تک اپنے ذریعے کے جانے والے احسانات کا بدلہ، اور وہ بھی ان کے تمام تر احسانات سے زیادہ بدلہ چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہیں۔۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پاتے کہ اگر وہ نہ ہوتے تب بھی کوئی نہ کوئی میری مدد کرتا ہی، اور اگر کوئی نہ ہوتا تو میں اپنی مدد آپ کرتا۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ کوئی احسان کیا ہو، میں نے کبھی ان کا کوئی کام سرے سے کیا ہی نہ ہو۔ اپنے بہتیرے دوستوں کے لیے میں نے بہت کچھ کیا ہے، اور اکثر کسی بدلے کی خواہش کے بغیر کیا۔ البتہ کبھی کبھار ایسا ضرور محسوس ہوا کہ میں فلاں کا کام کر رہا ہوں تو وہ بھی ضرور میرا کام کر دے گا۔ لیکن مجھے تسلیم ہے کہ یہ کوئی اچھی سوچ نہیں. 
جن دوستوں کے لیے میں نے اپنا بہت وقت صرف کیا ہے، اس پر مجھے نہ کبھی کوئی افسوس ہوتا ہے اور نہ میں نے کبھی اس کا کوئی حوالہ اپنے کسی دوست کو دیا ہے اور نہ آئندہ کبھی دینے کی خواہش ہے۔
ایک شخص جو آپ کا ساتھی ہو، آپ کا دن رات اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو، اگر وہ اس قسم کا طرز عمل اپنائے تو ذہنی اذیت کا ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا احسان، خواہ وہ قلم گر جانے پر اٹھا دینے، یا دو چار گھنٹوں سے لے کر دو چار دنوں تک دوڑ دھوپ کرنے کا احسان ہی کیوں نہ ہو، کیا اسی لیے کیا گیا تھا کہ اس کا بدلہ چاہا جائے؟ اور ہمیشہ ہمیشہ مختلف طریقوں سے اس کا حوالہ دیا جاتا رہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہ ہوا کہ کسی کا احسان اٹھا کر گویا ہم نے ایک دائمی اذیت مول لے لی۔ اب ہم اس کے ہاتھوں گروی ہو گئے کہ وہ جب چاہے اپنے احسانات کا حوالہ دے اور ہر مرتبہ ہم اس کے آگے دم ہلانے پر مجبور ہوں۔ ہم بارہا لوگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں کہ کسی کا احسان نہیں اٹھانا چاہیے، لیکن اس کا صحیح مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ آپ عملا کسی کے احسان کے شکار نہ ہوئے ہوں۔ ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ لوگ احسانات کر کے دراصل آپ کا شکار کر رہے ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کسی کا احسان لینے سے پہلے بار بار سوچیں کہ تھوڑی سی زحمت سے بچنے کے لیے آپ مستقبل میں اپنے لیے کوئی بڑی مصیبت تو کھڑی نہیں کر رہے۔
لیکن زندگی میں ایسے موڑ بھی آ سکتے ہیں جب دوسروں کا احسان اٹھانا ہمارے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایسے احسانات کو تجارتی نوعیت کا سمجھنا چاہیے اور انہیں وقتاََ فوقتاََ چکتا کرتے رہنا چاہیے الا یہ کہ احسان کرنے والا عالی ظرف اور وسیع القلب ہو. لیکن خبردار، احسان کبھی ایسے شخص کا نہ اٹھائیں جو انتہائی جھگڑالو ہو، یا اپنی افضلیت کو تسلیم کرانا چاہتا ہو، یا اس کی خواہش یہ ہو کہ آپ اس کے چیلا رحمانی بنے اس کے آگے ہمیشہ دم ہلاتے رہیں۔ البتہ ایسے شخص کا احسان ضرور اٹھایا جا سکتا ہے جو اس کو خالصتاََ تجارتی نوعیت کی چیز سمجھتا ہے اور آپ سے بدلے کی توقع رکھتا ہے۔ لیکن اس میں ایک دقت یہ ہے کہ آخر آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے احسان کا بدلہ کس شکل میں اور کب چاہتا ہے؟ بہتر ہے کہ اسے لوگوں سے مدد لیتے وقت، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، یہ واضح کر دینا چاہیے کہ آپ اس کے بدلے مستقبل میں اس کی کوئی مدد اسی وقت کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس اس کے لیے مطلوبہ وقت، سرمایہ، صحت اور صلاحیت وغیرہ پائی جاتی ہو۔
لیکن اس تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ احسان کا حقیقی مفہوم صرف اتنا ہے کہ یہ بالکل مفت وجود میں آنے والا عمل ہے اور جس نے کیا، اور جس پر ہوا، دونوں ایک دوسرے سے بالکلیہ آزاد ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ محسن کی حیثیت نہ زبردست کی ہوتی ہے نہ زیردست کی۔ بلکہ جس وقت وہ ہم پر احسان کر رہا ہوتا ہے، وہی خود گویا احسانمند بھی ہوتا ہے کہ اس کو احسان کرنے کا موقع ملا۔ 

امت کی بازیافت

فیس بک پر ایک بلند پایہ عالم دین سے ہونی والی گفتگو سے ایک اقتباس. ان کا نام حذف کر دیا گیا ہے:

عالم دین: شیعہ اور سنی فرقہ بندی مجهے بہت زیادہ مضحکہ خیز لگتی ہے. ڈیڑه ہزار سال پہلے اقتدار کے مسئلے پر جنگ ہوئی اور ختم ہوگئی. پر بعد میں آنے والے احمقوں کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی.

طارق صدیقی: اتحاد امت کا ہر درس جعلی/ بناوٹی ہے, یا سادہ لوحی ہے, اور اتحاد امت کے نعرے سے انتخابی پروپگنڈے کی باس آتی ہے.

عالم دین: میں اتحاد امت کی بات نہیں کررہا ہوں. میں تو امت کی بازیافت کی فکر میں ہوں. اور اسی لئے کسی فرقے کی بات مجهے نہیں بهاتی.

طارق احمدصدیقی: یہ امت فرقوں اور ذیلی فرقوں میں عقائد کی بنا پر منقسم ہو چکی ہے. اور ہر ایک فرقہ اور ذیلی فرقہ اب بجائے خود ایک امت ہے. اس لیے امت کی بازیافت کا عمل فرقوں اور ذیلی فرقوں کے اندر کی چیز ہے. اور جیسے جیسے ان فرقوں کے اندر "امت کی بازیافت" اور اس جیسی دوسری علمی کوششیں ہوتی ہیں, ویسے ویسے مزید جدید فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جاتے ہیں. اصل سے رجعت کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید فصل, افتراق اور انتشار کی شکل میں برآمد ہوتا ہے. پس, مسلمانوں کی مذہبی وحدت اب کثرت میں بدل چکی ہے, اور امت واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہو چکا ہے. عقائد و افکار کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے ذریعے "اصل اسلام" کے  "بازیافتی عمل" سے پہلے تو خود مروجہ لفظی عقائد غیر معتبر ہوں گے, پھر ان عقائد و افکار کی ماتحت جماعتیں اور فرقے غیر معتبر ہوں گے, اور انتشار کا ایک دور اپنی انتہا کو پہنچے گا جس کے بعد مسلمان ایک دوسرے سے عقائد کی بنا پر نہیں بلکہ ماضی کی  اپنی مجرد مذہبی شناخت کی بنا پر خاندانی و معاشرتی تعلقات قائم کر سکیں گے. صرف نکاح و طلاق, اور تدفین سے متعلق رسوم و رواج عملاً باقی رہ جائیں گے لیکن ان کا اسی دنیا کی انسانی روایت سے تعلق ہوگا نہ کہ کسی اور دنیا سے:
ہم موحد ہیں, ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں, اجزائے ایماں ہو گئیں
دیکھیے غالب تو ملتوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے, دانشور وہی ہے جو قبل از وقت آنے والے حالات کی نشاندہی کرے.
ملت کی بازیافت کا یہ عمل متعدد دوسرے ناموں کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں امت کے ہر فرقے کے لوگ زور و شور سے لگے ہوئے ہیں لیکن وہ دراصل امت کو مزید منتشر کرنے کا کارنامہ انجام دے رہے ہیں, لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہو سکتا. اور یہ ملت مزید منتشر ہو, مزید سر سید, مزید شبلی و فراہی, مودودی و غامدی, جیراجپوری و پرویز, چکڑالوی و گورایہ, حنیف ندوی, فضل الرحمان, طاہرالقادری جیسے لوگ پیدا ہوں, یہی وقت کا تقاضا بھی ہے. لیکن بہت جلد, سو پچاس سالوں کے اندر اندر, امتداد زمانہ سے درکتا اور دھسکتا بوسیدہ منقولاتی تصور مذہب کا تاریخی ڈھانچہ تجددپسندانہ تاویلات و تعبیرات کے اوپری پلاسٹر اور سطحی رنگ و روغن کے باوجود بالآخر زمیں بوس ہو جائے گا اور اس کا ملبہ ایک جدید انسانی تہذیب کی تعمیر میں کام آسکے گا.
عالم دین:
انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون.
باقي سو سال بعد کیا ہوگا وہ طارق صاحب جیسے غیب داں بتاسکتے ہیں. اور چونکہ مستقبل کی بات ہے اس لئے ان کو دلیل پیش کرنے کی بهی ضرورت نہیں پڑے گی.

طارق صدیقی: آپ کا یہ تبصرہ ذاتی نوعیت کا ہے. میرے دعوے کی دلیل تبصرے میں ہی موجود ہے کہ امت کی بازیافت یا تعمیر نو یا امت سازی کا کام "اصل اسلام" کی بازیافت کے علمی کارنامے پر موقوف ہے اور جس قدر اصل اسلام (بشمول عقائد و افکار) کی بازیافتیں ہوں گی, اسی قدر نئے نئے فرقے اور ذیلی فرقے وجود میں آتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ فرقوں کی کثرت سے خود لفظی عقیدہ غیرمعتبر ہو جائے گا, اور ان کے ماتحت فرقے بھی بے اثر ہو جائیں گے. امت کی بازیافت کا کوئی ایک طریقہ نہیں بلکہ جس قدر جماعتیں کام کر رہی ہیں, وہ سب اپنے طریقے سے عہد رسالت کے اصل اسلام ہی کو وجود میں لانا چاہتی ہیں, اس طرح تحقیق ماضی کے عمل میں دیکھنے کا ہمارا زاویہ ہی ایک سے زیادہ "اصل اسلام" کو وجود میں لاتا یے. اور ہمارا اسلام ہی اصل اسلام ہے اس لیے اسی کی بنیاد پر امت کی بازیافت, تشکیل نو یا تعمیر نو ہونی چاہیے, ایسا دعوی کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں ہے بلکہ بے شمار افراد اور جماعتیں یہی کر رہی ہیں, اور اصل یا حقیقی اسلام کے نام پر جو کچھ وہ پیش کرتی ہیں, اس پر قیل وقال کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے, جس سے افتراق و انتشار کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں.
ہر وہ شخص جس نے کم از کم دو مخالف جماعتوں کے درمیان ہونے والی علمی بحثوں کو پڑھا ہو, اس موجودہ صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہے جس کی طرف میں ابتدا سے ہی اشارہ کر رہا ہوں.

اتوار، 16 اگست، 2015

کیا ’سیکولر مسلم‘ کی اصطلاح درست ہے؟

گزشتہ روز فیس بک پر ایک صاحب کے اسٹیٹس کے نیچے میں نے ' سیکولر مسلم' کی اصطلاح اور اس سے جڑے ہوئے کچھ اہم مسائل پر درج ذیل تبصرہ لکھا:
سیکولر مسلم کی اصطلاح کی حقیقت  کی مدلل وضاحت سے  پہلے ہم کو مذہبی اور سیکولر کی ایک تعریف متعین کرنی ہوگی۔ یہ بتانا ہوگا کہ مذہبی کیا ہے اور سیکولر کیا، اس کے بعد ہی ہم دونوں میں مشترک قدروں کی تلاش کر سکتے ہیں۔
مذہب مافوق الفطری/ معجزاتی طریقے سے حاصل شدہ علم کی بنا پر انسان کی مابعد موت نجات کے اصول مقرر کرتا ہے اور اسی علم کی بنا پر انسان کو نجات یافتہ بنانے کے غرض سے پیدائش، موت، شادی و غمی کے موقعوں کے لیے رسوم و رواج کی تخلیق، تنقید، حذف و اضافہ اور ترتیب و تہذیب کرتا ہے۔ اس طرح ہر وہ شئے اور رسم بالآخر مذہبی نوعیت کی ہو جاتی ہے جس کو مذہب اپنے اصول نجات سے متصادم نہ پائے۔
سیکولر کے معنی ‘‘دنیاوی’’ کے ہوتے ہیں۔ دنیاوی یعنی محسوسات سے متعلق چیزیں۔ یہ مذہب یا دین سے مختلف  ہے۔ ایک سیکولر شخص مافوق الفطری طریقے سے حاصل شدہ کسی علم کی بنا پر انسان کے لیے مابعد موت نجات کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ دین و مذہب کے بالمقابل کسی اور دنیا کی فکر کرنے کے بجائے اسی دنیا کو بہتر طور پر چلانے کے کچھ اصول بتاتا ہے اور ان اصولوں تک ہر شخص اپنے علم کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ سیکولر نظریہ کوئی پراسرار شئے نہیں ہے اور اس کا علم و فہم حاصل کرنا، اس علم و فہم میں حذف و اضافہ اور نظرثانی  کرنا محض اہل کشف و کرامت، برگزیدہ اور منتخب انسانوں کا حق نہیں ہے بلکہ یہ ہر انسان  کا حق ہے۔ سیکولر نظریہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کا کیا ہوگا (و علی ہذا) کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ مرتے دم تک انسان کو دکھ درد سے محفوظ رکھنے کے طریقے سوچتا ہے۔ جن چیزوں کو انسان کی دنیاوی زندگی کے لیے وہ مفید پاتا ہے، ان کا تحفظ کرتا ہے، اور جن میں وہ نوع انسانی کا نقصان دیکھتا ہے اس کو مٹاتا ہے۔
مذہب کے لیے اس کا مافوق الفطری ذریعہ ٔعلم  بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جس تک کسی منتخب یا برگزیدہ ہستی کی ہی رسائی ہو سکتی ہے۔ حضرت گوتم بدھ کو جو گیان پراپت ہوا، یا حضرت عیسی کو جو وحی آتی تھی، وہ سب کے حصے میں نہیں ہو سکتی۔ عیسی و گوتم بننا ہما و شما کے بس کی بات نہیں۔ سیکولر نظریہ   تخلیق و تفہیم ، بڑا اور برگزیدہ بن سکنے کے اعتبار سے   سائنس کی طرح ہے کہ جس میں  نیوٹن کے بعد آئن اسٹائن  پیدا ہو سکتا ہے ، کل تک جو دنیا نیوٹن کو پوج رہی تھی آج آئن اسٹائن کو بھی  اسی  یا زیادہ ذوق و شوق سے پوج رہی ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب نیوٹن سے زیادہ سائنسداں ہونا، زیادہ علم رکھنا ممکن نہیں، بلکہ یہ مانا جاتا ہے  کہ نوع انسانی کے علم میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا  ہے اور بعد میں  آنے والے پہلے آنے والوں سے زیادہ عالم ہوتے ہیں۔
مافوق الفطری ذرائع سے جو  علم  حاصل ہوتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کے اندر  ٹھیک اس کے برعکس رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مذہب میں آپ متقدمین  سے بازی نہیں لے جا سکتے۔ ان سے بڑے نہیں بن سکتے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے کہ مافوق الفطری ذریعہ علم ہما و شما  کے لیے نہیں بلکہ  چند برگزیدہ اور چنے ہوئے لوگوں کے لیے ہے۔ اور ہم کو ان کے فرمودات کی صرف   تفہیم و  توضیح، تاویل و   تعبیر  یا کہیں لیں کہ  الفاظ کی ’’    شرح ‘‘ لکھتے رہنا ہے۔یہی سبب ہے کہ مذہب کا  تخلیقی دور  اب گزر گیا۔ بالفرض محال مستقبل میں کوئی شخص آئے اور کسی مافوق الفطری دعوے کا سہارا لے کر دنیا کی سب برگزیدہ اور چنی ہوئی  مذہبی شخصیتوں کے کارناموں کے نقش   کو دھندلا کر دے تو اس مذہبی رہنما کو اپنے جیسے  مذہبی رہنماوں کا ایک سلسلہ قائم کر کے بتانا پڑے گا کہ نوع انسانی تک اس کا یہ پیغام جاودانی ہمیشہ پہنچتا رہا ہے اور ہر دور کے لوگوں کے سامنے حق و باطل میں سے کسی ایک  پر چل کر اپنی جنت یا اپنا جہنم چن لینے کا آپشن تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر یہ الزام آئے گا کہ سابقہ افراد اس کے  جدید مذہبی  اصول نجات سے محروم رہے  جس کو اس نے اتنے ہزار سال بعد پیش کیا!  پس، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب پر لازم ہے کہ وہ  ہمیشہ کچھ خاص لوگوں پر ہدایت و رہنمائی کا بار ڈالے  اور بقیہ عوام کو اس سے محروم کر دے۔
مذہب ایسا کیوں کرتا ہے؟ صرف اس لیے کہ ایک انسان اپنے بزرگوں سے دریافت کرتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے ، کہاں جائے گا، اور مرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہوگا۔ سیکولرازم  میں ان تین سوالوں  کا سائنسی  جواب   موجود  نہیں ہے جبکہ ہر مذہب ان سوالات کا  ایسے  جوابات  فراہم کرتا ہے جو  عقائد  کی شکل میں ذہنوں میں راسخ ہو جاتے ہیں۔ یہ جوابات متفق علیہ کے بجائے مختلف فیہ ہیں ۔ مختلف عقائد کی بنا پر مختلف قوموں کی تشکیل ہوتی ہے  جو باہم برسرپیکار رہتی  ہیں۔ ایسے سوالات چونکہ اسی دنیا میں آنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ، اسی دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقوں سے متعلق ہو تے یا ہو جاتے ہیں، اس لیے  جب تک ان جوابات میں تصادم رہے گا تب تک ان کے ماننے والوں میں تصادم یقینی ہے۔ اس تصادم کو کم کیا جا سکتا ہے ،  بالکلیہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں سوال پیدا ہوا کہ یہ تصادم یقینی کیوں ہے؟ اس لیے کہ دنیا میں دو قومیں ایک دوسرے کے ربط میں آنے کے بعد  ایک دوسرے کے عقائد  پر مطلع ہوتی ہیں، ان  عقائد  کی بنا پر استوار اوران سے ہم آہنگ   عملی زندگی  کو دیکھتی ہیں۔ ایک قوم کے افراد یہ دیکھتے ہیں  کہ وہ مذہبی اسباب سے وہ  باہم دگر نکاح نہیں کر سکتے،  ایک  کے ہاں جو کچھ کھایا  پیا جاتا ہے وہ کھا پی نہیں سکتے، ایک کے ہاں  بعض خونی رشتوں میں   نکاح جائز ہے دوسرے کے ہاں  یہ حرام ہے۔ تو ظاہر ہے بنیادی نوعیت کے سوالات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہر قوم اپنے طریقے کو صحیح اور دوسرے کے طریقے کو غلط ہی کہے گی۔ اور بات یہیں تک رہتی تو غنیمت  تھی، لیکن جب ایک مذہب  دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنے  افراد قوم کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے تو صورتحال بیحد مکروہ  اور متعفن ہو جاتی ہے ۔
یہ کوئی بین مذہبی  یا بین قومی سچویشن ہی نہیں بلکہ ایک دروں مذہبی اور دروں قومی سچویشن بھی ہے۔انسانی  عقل کی انحرافی نوعیت کے سبب ایک مذہب مزید ذیلی مذاہب اور ایک قوم مزید ذیلی قوموں میں منقسم ہوتی چلی جاتی ہے۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل  جس قدر گہرا ہوتا جاتا ہے ، جامعیت بشری تار تار ہوتی چلی جاتی ہے، ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا،  شادی و غم، ملنا جلنا، سلام کلام سب حرام ہو جاتا ہے۔پس دروں مذہبی اور بین مذہبی  تقسیم کی ایسی صورتحال میں فرقہ واریت کی تقریریں وجود میں آتی ہیں اور باہمی خون خرابے کے سبب مذہب کا  کم از کم ایک  مقصد  تو فوت ہو جاتا ہے جس کے لیے    مذہبی رہنماوں نے اس کو پیش کیا تھا۔
اور یہیں  مغربی افق سے  سیکولرازم کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ طلوع ہی مغرب سے ہوتا ہے اس لیے یہ قیامت کی ایک نشانی ہے۔ سیکولرازم کہتا ہے کہ ہم قضیہ زمین برسرزمین کے اصول پر زندگی گزاریں گے اور جو سوالات اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کو دنیاوی اصولوں  پر گزاریں گے نہ کہ اسے مافوق  الفطری علم کی رو سے پیدا ہونے والے مختلف فیہ عقائد  کی بنیاد پر استوار کریں گے۔ چونکہ تجربے  سے ثابت ہوا کہ کسی جغرافیائی خطے میں ایک سے زیادہ قوموں  اور ذیلی قوموں  یا فرقوں کے آباد ہونے کی صورت میں  عقیدہ اور عمل کا اختلاف قتال و جدال کے سوا کسی اور نتیجے تک نہیں پہنچتا اس لیے  مذہبی عقیدہ ہر قوم، فرقہ ، فرد اور جماعت کا ذاتی معاملہ  ہونا چاہیے۔  مرنے کے بعد کی زندگی کیسی ہے، مابعد موت نجات کے صحیح اصول کیا ہیں، ان سوالات کا اس دنیا کے سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک یہ تعلق باقی رہے گا، باہمی خون خرابہ، فساد اور خونریزی سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا ۔پس،  مذہب  سیکولراز م کو نہیں گردان سکتا کیونکہ وہ انسان کی سیاسی زندگی کو مذہب کے دائرے سے نکال کر اس کی تحدید کا مرتکب ہوتا ہے۔ 
مذہب اور سیکولرازم  کے درمیان فکری اختلاف اتنا شدید ہے کہ دونوں کے مابین مصالحت کی ہر کوشش بالآخر ناکام ہو جاتی ہے، اس لیے ایسی کوشش ناکام کے بجائے  ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔یعنی یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکولرازم  میں مذہب کی گنجائش ہے یا مذہب میں سیکولرازم کی گنجائش ہے۔لیکن اس  اختلاف کے باوجود مذہب اور سیکولرازم دونوں ایک ساتھ ایک ہی  شخص میں جمع ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک ہی کینواس پر سفید اور سیاہ رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسرے بے شمار رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں اور ایک جمالیاتی اثر پیدا کرتے ہیں۔ میں خود کو مسلمان سمجھتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں سیکولر بھی ہوں۔ اور میں اس کے لیے قرآن و سنت سے کوئی دلیل  پیش نہیں کرتا اور نہ سیکولر ازم کی تاریخ  یا نظریے  سے اپنے مذہبی عقیدے کی گنجائش برامد کرتا ہوں۔ مذہب اور سیکولرازم میں کوئی تطبیق دینا مجھے گوارا نہیں۔ اسی طرح مذہب اور ڈیموکریسی میں بھی میں کوئی مطابقت تلاش نہیں کرتا۔ ڈیموکریسی کے معنی جمہوریت کے نہیں ہوتے۔ ڈیموس کے معنی عوام، اور کریٹوس کے معنی حکومت، پس، ڈیموکریسی کے مغربی لفظ کے معنی عوام کی حکومت کے ہوں گے۔جبکہ  جمہوریت کے معنی  اکثریت کی حکومت کے ہوں گے   جس کو انگریزی میں آپ میجریٹیرین سسٹم یا میجریٹیرین ازم کہہ سکتے ہیں جو ڈیموکریسی سے مختلف ایک شئے ہے۔اس لیے  جمہوریت ڈیموکریسی کا درست ترجمہ نہیں ہے۔  اردو میں ترجمہ کی ایک غلطی  نے  اردو آبادی  میں کیسی کیسی غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں    ۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ مذہب اسلام نے عوام کو اپنا حکمراں ، اپنا قانون ساز آپ بننے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر ہم قرآن کو آج کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی مانتے ہیں تو قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر اور ظالم ہیں۔ اسلام میں عوام کو یہ حق حاصل نہیں  ہے کہ وہ اجتماعی طور پر خود حاکم مطلق  بن بیٹھے اور قانون بنانے لگے۔ ڈیموکریسی میں عوام حاکم مطلق ہوتے ہیں اور اس میں قانون سازی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ  عوام کے افراد کی کثرت آرا سے  عوام کے نمائندوں کا انتخاب  ہوتا ہے تا کہ وہ  بقدر ضرورت جیسی قانون سازی چاہیں کریں۔ عوام کے نمائندوں کا فرض ہے کہ  وہ  ایک فرد یا جماعت کے نقطہ نظر سے  متاثر نہ ہوتے ہوئے کل عوام کی اجتماعی  فلاح کے نقطہ نظر سے قانون سازی کریں۔ ہمیشہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ڈیموکریسی کی مجالس قانون ساز میں جو لوگ منتخب ہو کر پہنچتے ہیں وہ اکثریت کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ  تمام عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جن میں اقلیت بھی شامل ہے۔اور یہ صرف  ایک قانونی  بات ہی نہیں بلکہ اخلاقی بات بھی ہے جس کی پابندی اگر نہ کی جائے تو سب گڑ گوبر ہوجائے گا۔
اوپر کی گزارشات سے واضح ہے کہ اسلام  کے ڈھانچے میں ڈیموکریسی اور سیکولرازم کی کوئی جگہ نہیں اورنہ  ڈیموکریسی اور سیکولرازم کے  ڈھانچے میں  اسلام کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ دنیا ایک کینواس ہے اور اس پر بہت سے رنگ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دنیا کے اس کینواس پر خون خرابے کا رنگ نہ پوتا جائے، ڈیموکریسی اور سیکولرازم صرف اس لیے ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ڈیموکریسی اور سیکولرازم ایک دوسرے کے پورک  یعنی لازم و ملزوم ہیں۔ اگر سیکولرازم کو خارج کر دیا جائے تو ڈیموکریسی  کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمان  اکثریت اپنا مذہبی نقطہ نظر اقلیت  پر نافذ کرنے  لگے تو ظاہر بات ہے کہ یہ ڈیموکریسی یعنی تمام عوام کی حکومت نہ ہوئی بلکہ فقط  اسلامی جمہوریت  ہوکر رہ  گئی جو ڈیموکریسی سے  مختلف چیز ہے ۔بعض لوگ یہ کہیں گے کہ بات ایک ہی ہے جمہوریت کہو یا ڈیموکریسی، کیونکہ بہرحال اس نظام میں بات اکثریت ہی کی چلتی ہے،  یہ صرف گھما کر ناک پکڑنا ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن ایسے افراد ناعاقبت اندیش ہیں کیونکہ  ڈیموکریسی کو جمہوریت کہہ کر  ہم نظری اور اصولی طور پر اکثریت کو  حاکم مطلق تسلیم کر لیتے ہیں، پھر اصولا کسی  منتخب سرکار پر یہ  قانونی اور اخلاقی  ذمہ داری نہیں رہتی کہ وہ قانون سازی کرتے وقت   تمام عوام کی فلاح  کو ذہن میں رکھے۔ سرکار یہ صاف کہہ کر نکل جائے گی کہ ہم پر ایسی کوئی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم  اقلیت  کی فلاح کو بھی ذہن میں رکھیں۔ پھر ایسے نظام کو آپ جمہور کی بادشاہت  ہی کہیں گے کیونکہ  جب تک  کسی سیاسی  نظام میں حاکمیت مطلقہ عوام کے تمام افراد میں  منحصر نہ سمجھی جائے گی، تب تک ڈیموکریسی کا کا لفظ اس نظام  پر صادق نہ آئے  گا ۔  حاکمیت مطلقہ کوکل  عوام(   ڈیموس )کے اندر رکھ کر عوام ہی کے ایک حصے سے اس کو چھین کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم چونکہ جمہور ہیں اس لیے  حاکمیت مطلقہ ہم میں عود کر آئی ہے۔

مردوں کی حاکمانہ قوامیت اور نئی عورت

انسان کی نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہی ہے۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے آ کر اس کو اخلاقی طور پر مٹا دیا۔ لیکن قانونی طور پر اس کو برقرار رکھا۔ غلامی کی حرمت پر کوئی نصِ شرعی نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام جنگوں میں محارب خواتین کو لونڈی نہ بناتے۔ لیکن چونکہ نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہتی ہے اس لیے قانون کا فرض ہے کہ وہ تبدیل شدہ اخلاقیات کی پیروی کرے۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو ناپسندیدہ قرار دیے کر ایک اخلاقی اصول قائم فرما دیا لیکن بعض مصلحتوں کے تحت اس قانون کو باقی رہنے دیا گیا۔ لیکن اب جبکہ ان مصالح کی ضرورت ختم ہو گئی ہے، یہ قانون بھی عملاً دنیا سے اٹھ چکا ہے۔ اور جو قوم بھی جنگ کے بعد محاربین کو غلام بنائے، وہ غیر انسانی سلوک کی مرتکب کہلائے گی۔ بے شک اسلام میں جنگ کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایک دور وہ بھی آ سکتا ہے جب سرے سے جنگ کی ضرروت ہی نہ رہ جائے۔ اس صورت میں اسلامی قوانین جنگ بھی نہیں رہیں گے۔
اسی طرح عورت اور اس کی حیثیت کے سلسلے میں جو اخلاقی نظریے اور رویے چودہ سو سال پہلے پائے جاتے تھے، انہیں جدید انسانی معاشرے میں اعتبار حاصل نہیں رہا۔ اس دور میں عورت کا بدن ایک مرد کی قبائلی غیرت کا مرکز تھا جس کو نشانہ بنائے جانے پر  مرد کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی تھی۔ وہ چیز آج بھی بڑی حد تک باقی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی ہیروئن وینا ملک ہندوستان آ کر ہولی کھیلتی ہے تو پاکستانیوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔ لیکن موجودہ دور کی خواتین اپنے جسم کو کسی مرد کی عزت سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے جسم کے ارد گرد مردوادی غیرت کا جو بھونڈا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے،اس کا کسی طرح خاتمہ ہو۔ نظری اخلاقیات میں یہ جو  تغیر عورتوں کی مداخلت سے واقع ہوا ہے ، وہ بہت قیمتی ہے۔
اب رہا یہ اشکال کہ اس طرح تو عورت جہاں چاہے , منہ مارے اور مرد اس کو برداشت کر تا رہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور اب مرد کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ نہ عورت کے جسم کا مالک ہے اور نہ اس کے دل و دماغ کا۔ عورت اپنی ان چیزوں کو  جیسے چاہے گی استعمال کرے گی۔اس کو آپ کسی مذہبی کتاب کا حوالہ دے کر نہیں روک سکتے۔ اس کی  بہت سی مثالیں ہیں، اور میں مثالیں دینے سے یہاں  گریز کرنا چاہتا ہوں۔ مثال سنتے ہی بنیاد پرستوں کو غصہ آ جاتا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ عورت کو مذہب کے حوالے سے قابو میں نہیں کیا جا سکتا ۔دورِ جدید میں اس کو فنونِ لطیفہ کے ذریعے قابو میں کیا جا تا ہے۔ آرٹ اور کلچر کے نام پر بالکل ایک مختلف قسم کی غلامی میں اس کو مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ یعنی عورت کا مقدر بالکل صاف طور پر یہ ہے کہ یا تو وہ چہار دیواری میں  رہ کر غلامی کرے، یا پھر وہاں سے باہر نکل کر جدید ثقافتی بھیڑیوں کی شکار بن جائے۔ بعض روایتی مذہبی طبقے عورت کو چہار دیواری میں رہنے کا حکم دیتے اور رقص و سرود سے منع کرتے ہیں اور اس کی امنگوں کا گلا گھونٹ کر اس کو بچہ پیدا کرنے کی مشین بنا دیتے ہیں۔ وہ مرد کو عورت پر حاکمانہ قوامیت کا اختیار عطا کرتے ہیں جس کی رو سے وہ اس کو راہ راست پر لانے کے لیے آخری چارہ ٔ کار کے طور پر مار  بھی سکتا ہے۔ چہار دیواری سے باہر اس کو قانونی طور پر مارنے پیٹنے کا اختیار تو کسی کو نہیں مگر  غیر قانونی طور پر اس کا استحصال بہت کیا جاتا ہے۔ ویسے گھر کے اندر کی دنیا میں بھی اس کا جنسی استحصال ہوتا ہی ہے  تاہم  یہاں عورت کو اصولاً کم از کم ایک مقدس شئے ضرور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وہ تقدس کس کام کا جو اس کو گھریلو دایہ اور نوکرانی بنا کر رکھ دے؟ اس لیے وہ چہاردیواری کی اپنی  ذلیل محکومانہ حالت سے باہر  کھلے میدان میں نکل آتی ہے جہاں پہلے ہی  اپنے ہوس ہونٹوں سے رال ٹپکاتے  شہوانی درندے  منتظر ہوتے جو اس کے جسم کو بھنبھوڑتے ہیں۔  موجودہ حالات میں دونوں جگہوں پر عورت  ایک ذلیل شئے ہے۔ اس کی جدوجہد اس ذلت  و محکومی  اور استحصال و ابتذال سے نکلنا ہے خواہ وہ گھر کی زندگی میں ہورہا  ہو یا باہر کی۔ اب یہ معاملہ طے  ہو چکا ہے کہ وہ مرد کی  ماتحت بن کر نہیں رہ سکتی۔ مغرب میں  وہ تن ِ تنہا مرد کی مدد کے بغیر اپنے بچے پال رہی ہے یا نہیں؟ کتنے ہی بے وفا مرد ایسے ہیں جو سال ڈیڑھ سال ساتھ رہ کر اس کو چھوڑ جاتے ہیں اور عورت  اکیلی اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت میں مصروف رہتی ہے۔  جس طرح بن ماں کے بچے پل جاتے ہیں، اسی طرح بن باپ کے بھی پل ہی جائیں گے۔ اور اگر اس کا کوئی بہت برا نتیجہ نکلے گا، یا نکل رہا ہے تو اس کی فکر اکیلے عورت کو ہی کیوں ہو؟ مرد اپنے اخلاق کی اصلاح کیوں نہیں کرتا؟ فرمانبردار، اطاعت شعاری، وفاداری اور پے در پے قربانیوں کا سارا مطالبہ عورت سے ہی کیوں؟
 یہ سمجھنا کہ عورت مرد سے کمزور ہے اس لیے لازماً اس کو آج نہ کل مرد کی ماتحتی میں آنا ہوگا، یا اس قسم کی باتیں کرنا کہ چاقو تربوز پر گرے یا تربوز چاقو پر، دونوں صورتوں میں نقصان صرف عورت کا ہوتا ہے، ایک ضلالت  آمیز فکر ہے۔ نہ عورت تربوز ہے، نہ مرد چاقو، عورت کی تذلیل گھر میں ہو یا باہر، اس سے مرد کا بھی اتنا ہی نقصان ہے جتنا عورت کا۔ بلکہ مرد کا کچھ زیادہ ہی نقصان ہے۔ عورت کے لیے اولاد پیدا کرنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔  آج کل تو بہت سے طریقے نکل آ ئے ہیں۔ اب یہ ایک انجکشن کی بات رہ گئی ہے۔ مرد  میں اس کی صلاحیت سرے سے ہے ہی۔  ظاہر ہے اس کے لیے بھی اس کو ایک عورت ہی کی ضرورت  پیش آئے گی۔ اولاد کی خواہش انسان کی فطری خواہش ہے اور جس قدر عورت کو اس کی ضرورت ہے ، اسی قدر مرد کو بھی ہے۔ اس لیے جب دونوں مذاکرے کی میز پرآئیں گے تو مرد کو اپنی حاکمانہ قوامیت سے دست بردار ہونا ہی پڑے گا۔ ورنہ عورت جیسے ابھی جی رہی ہے، ویسے ہی جیتی رہے گی ۔اور جب تک مرد مذہبی طور پر اپنی بالادستی اور حاکمانہ قوامیت سے دست بردار نہ ہوگا، عورت واپس مرد کی زندگی میں وہ خوشیاں نہیں بکھیر سکتی جس کا مرد ازل سے ہی شائق رہا ہے۔ یہاں اس قسم کی بوگس دلیلیں پیش کرتے رہنا کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ خاندان کے ادارے کا ایک سربراہ ہونا چاہیے، اور مرد ہی میں اس کی صلاحیت پائی جاتی ہے، عورت تو صرف ایک جذباتی مخلوق ہے، وہ کیا سربراہی کر سکے گا ـــــ انتہائی درجے کی نادانی ہے اور اس سے مابعد جدید عورتیں مزید مشتعل ہوتی ہیں۔ مرد میں اگر عورت سے زیادہ جسمانی طاقت ہے تو اس کی حیثیت سربراہ کی نہیں بلکہ باڈی گارڈ کی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ باڈی گارڈ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے نہ کہ حکم چلانے کے لیے۔ مابعد جدید عورت تحفظ فراہم کرنے کی مردوادی دلیل کی چالاکی کو سمجھ گئی ہے۔ اس لیے اس نے باڈی گارڈ کو معزول کر دیا ہے اور اپنے جسم کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔