اتوار، 8 مئی، 2011

مذہب اور مذہبیت

صدہاسال سے
فقہی موشگافیوں کی بدولت
فتویٰ سے پیدا کیا جا رہا ہے جو تقویٰ
اس تقویٰ سے مارگیا ہے لقویٰ ہماری مذہبیت کو
اور اب الٹی چل رہی ہے سانس
بس تھوڑی دیر اور
تھوڑی دیر اور
پھر دم اکھڑجائے گا
سر ہانے بیٹھا مولوی آیت الکرسی تو پڑھ ہی رہا ہے
کچھ دیر بعد جھولم جھول فاتحہ خوانی بھی کرے گا
پھر حلق تک ٹھونس لے گا حلوہ، ملیدہ، پلاو اور مرغ
اور لمبی تان کر سو جائے گا بعد نماز فجر
رات بھر چلنے والے میلاد کی تھکان مٹانے کے لیے
ظہر میں اٹھ کر ٹونٹی والے لوٹے میں پانی منگوائے گا
منہ میں کلی بھر کر پھچاک سے پانی پھینکے گا آگے
اوربائیں ہاتھ کی دو انگلیاں
حلق میں ڈال کر اوع اوع کرے گا
لو ہو گیا وضو
اب نماز پڑھائے گا
دن بھر میں پانچ بار پڑھاتا ہے
نماز کے نام پر اپنے مسلک کا جنازہ
جس سے مذہب کو روزانہ ملتی ہے پانچ بار زندگی
اور مذہبیت کو پانچ بار موت

2009

المعلقات

لعنت ہے ان سب زن مریدوں کی زن مریدی پر
جو طاق راتوں میں بھی جفت ہو کر سوئے
اور اونٹ کی طرح گردن پھیر لی اپنی ایسی جورووں کی طرف سے
بعد اس کے کہ وہ ان سے خوب خوب متمتع ہوچکے
اور پھر اپنے ہمسایوں کی جورووں کی طرف متوجہ ہوئے
اور ان سے اپنا دردِ نہاں بیان کیا
حالانکہ ان کے لیے جائز نہ تھا کہ وہ ایسا کرتے
بے شک تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو
پس اب چکھو مزہ اپنے شریر ہمسایوں کے شر کا
تمہاری جوروئیں اب تمہارا مزید انتظار نہ کرسکیں گی
کہ تمہارے ہمسایے ضرور ڈالیں گے ان پر ڈورے
جنہیں تم نے چھوڑ دیا اَدھر لٹکتا
اور جن کی طرف سے تم ہوگئے بے نیاز
اور سمجھ لیا جنہیں تم نے بے وقوف اور بے وزن

2009

For a Well Furnished Toilet

حالانکہ میں ایک غریب آدمی ہوں
لیکن مجھے تمنا ہے
ایک ایسا مسکراتا چمچماتا بیت الخلا بنوانے کی
جس میں بیٹھ کر
قباحت و انقباض کی کیفیت میں مبتلا ہو ئے بغیر
سوچ سکوں دیر تک
دنیا جہان کے مسائل پر
ماڈرنزم، پوسٹ ماڈرنزم
اور مارکسزم، پوسٹ مارکسزم سے لے کر
دلت ومرش اور استری ومرش تک
حتی کہ نیو ورلڈ آرڈر پر بھی
اور پھر اٹھتے وقت
فلش کے ساتھ ہی بہادوں سب معاصر افکار

میں ایسا بیت الخلا ضرور بنواوں گا
حالانکہ میں فی الحال ایک غریب آدمی ہوں
شکشت بے روزگار
لیکن اپنی مرضی سے بے روزگار ہوں
بازار میں کام کی کمی نہیں
کوئی بھی کام کر سکتا ہوں
پان بیڑی سگریٹ
یا کرانے کی دوکان بھی کھول سکتا ہوں
لیکن ایسی فراغت نصیب نہ ہو سکے گی
جیسی میرے پیش نظر ہے
تب رات رات بھر نہیں جاگ سکوں گا
اور دن چڑھے تک نہیں سو سکوں گا
اور تب زندگی میں وہ بے راہ روی نہیں رہ جائے گی
جو زندگی کا عزیز ترین سرمایہ ہوتی ہے
ایک احساسِ زیاں
جو میری اُس بے راہ روی سے بڑی شدت سے پیدا ہوگا
وہی اس زندگی کی یافت ہوگی
نہیں زندگی نہیں
وہی دراصل اس جسدِ خاکی کی کوشش ناکام کا حاصل ہوگا

کسی ایسے بیت الخلا کے لیے
اسی معیار کا ایک گھر بھی بنوانا ہوگا
اور اسی معیار کا ایک گھر بنوانے کے لیے
کوئی اہم یا اعلیٰ عہدے دار
یا ایک یونیورسٹی پروفیسر بننا پڑے گا
جس کے چہرے پر ایک نفیس داڑھی ہو
اور چہرے پر ایک خاص قسم کی نظریاتی ثقاہت و سختی بھی
اور جو سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا ہوا کلاسیکل جغادری معلوم ہوتا ہو

کسی ایسے ہی بیت الخلا کی یوٹوپیائی تمنامیں
زندگی کے دن گزرتے جاتے ہیں
جوان جسم میں بڑھاپے کی آہٹ
اور چہرے کی ساخت میں نامطلوب انقلابات
آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بن گئے ہیں
اور آنکھ سے نیچے
گالوں کی ہڈیاں مزید ابھر آئی ہیں
چہرا مزید چوڑا ہو گیا ہے
سر اور داڑھی میں اکا دکا سفید بال نظر آنے لگے ہیں
اوراب کبھی کبھی درد بھی ہونے لگا ہے
آنکھوں میں پڑھتے وقت

مگرجوانی کی اسی شام
میں قسم کھاتا ہوں
میں ایسا بیت الخلا ضرور بنوا کر رہوں گا
جس سے متصل ہی ہوگا ایک خوبصورت باتھ روم
بے حد خوابناک اور طرب ناک
جس میں جاکرشاور کے نیچے
عمر بھر کی تھکن زائل ہو جائے گی
ایک ایک عضو کو مل مل کر نہاوں گاباتھ ٹب میں
اور اس طرح صبح و شام
یونیورسٹی پروفیسر ایکدم فریش ہوکر نکلے گا
اور پھر باتھ روم سے ملحق بیڈروم میں گھس جائے گا
تولیہ لپیٹے ہوئے

تو کیا ہوگی ترتیب میرے خواب کی ؟
تعمیر و تزئینِ بیت الخلا
اور بیت الخلا سے متصل غسل خانہ
اور غسل خانے سے ملحق خواب گاہ
ذرا انگریزی میں دہرالوں
ویل فرنشڈ ٹوائیلٹ اینڈ باتھ روم
اینڈ اٹیچڈ بیڈ روم، ویل ڈیکوریٹیڈ

یہ خواب اس وقت تک خواب رہے گا
جب تک کہ میں وہ پڑھتا رہوں گا جوپڑھنا چاہتا ہوں
اور وہ لکھتا رہوں گا جو میں لکھنا چاہتا ہوں
اور میرا یہ خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا
جب میں دوسروں کی ضرورت کے مطابق لکھوں گا
جب ماڈرنزم، پوسٹ ماڈرنزم
مارکسزم ، پوسٹ مارکسزم
ایکو کریٹی سزم، گائینو کریٹی سزم، فیمی نزم
اور سب رائج الوقت سکوں کی کھنک
میرے حواس پر سوار ہو جائے گی
اور میں اپنے جنون میں ایک کیمیاوی تبدیلی کرلوں گا
دوسرے جیسا کہتے ہیں
ویسا ہی بن جاوں گا
اور بس تھوڑا سا
کہیں کہیں معاصر افکار میں تصرف کرکے
اپنے افکار اور اپنی تحریرمیں ایک انفرادیت پیدا کرلوں گا
اور تب کہیں جا کر کوئی لکھے گا مضمون
’طارق صدیقی کی انفرادیت‘
یا ایسا ہی کچھ

اور تب میری پروفیسری کی راہ ہموار ہوگی
اور پھر ہو سکتا ہے
کہیں ایسا ہو جائے
کہ مجھے صدر شعبہ بنا دیا جائے
اور پھر تو ایسا بھی ہو سکتا ہے
کہ میدان علمی میں میرے کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے
مجھے اعزازی طورپر پارلیمان کا ممبر نامزد کر دیا جائے
یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جاوں
یا ساہتیہ اکادیمی کا صدر
یا ایسا ہی کچھ

دنیا بھر میں کتنی ہی یونیورسٹیاں مجھے
پی ایچ ڈی کی ڈگری دے کر اپنا نام روشن کریں گی
جانے کتنے ہی ایوارڈ مجھے دیے جائیں گے
اور میں سب کو شکریے کے ساتھ قبول کر تا چلا جاوں گا
اور دنیا کی دیوقامت شخصیات میں میرا شمار ہوگا

لیکن یہ سخت مشکل ہے
سخت مشکل ہے ایسا بیت الخلا بنوانا
کہنا آسان ہے
قسم کھانا آسان ہے
لیکن کرنا مشکل ہے

ٹھینگے سے

2009

رٹو اور

ایورسٹ پر
گیان کا سورج
اگا تھا پورب ہی میں
اگا تھا پورب ہی میں
پیارے طوطا بھائیو
جھوٹ موٹھ مت گاو اتنا
اب دھرتی ہے گتی مئے گول
فرار ہو گیا سورج پشچم

سات سمندر پار اِدھر بھی
جل دیوتا گرج رہے تھے
ڈر جاتے تھے طوطا پن میں لوگ
پشچم پیر دھریں تو کیسے

لہروں سے لڑتے بھڑتے
ہٹلر ہی آتے تھے
سچ مچ ہٹلر ہی آتے تھے
ریل چلانے
گاووں کو شہر بنانے
جیسے نئے کولمبس آج
انت رکش سے مل کر پھینکیں
جگ مگ جال طلسم

پیارے طوطا بھائیو
اب آنکھ میچ کر
سانس کھینچ کر گاو
اوم ڈبلو ڈبلو ڈبلو
دنیا بن گئی گاوں

2006

نو مینس لینڈ (میل فی میل پالیٹکس)

پڑھو اے بی سی ڈی
جتنے مرد ہیں
اتنی عورتیں
یعنی برابر برابر
تو سنسد میں بھی ، فوج میں بھی
دونوں ہوں گے برابر برابر
نہ ایک کم نہ ایک زیادہ
بلکہ پردھان منتری بھی دو ہوں گے
ایک مرد ، ایک عورت
مرد مردوں کا پردھان منتری
عورت عورتوں کی پردھان منتری
مگر ایک میان میں دو تلواریں
نہیں رہ سکتیں
دو پردھان منتریوں سے
ایک دیش نہیں چل سکتا
اس لیے پارٹیشن بہتر ہے
مردوں کا دیش الگ
عورتوں کا دیش الگ
دونوں دیشوں کی اپنی سنسد
اپنی سرحد ، اپنی فوج
اور جہاں پر
دونوں دیشوں کی سیما ریکھا ملے گی
وہ نو مینس لینڈ ہوگا
—”اور ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا بھین جی؟“
ایچ آر ڈی کا کیا ہوگا ، ا یچ آر ڈی کا کیا ہوگا !
ہم مشین نہیں عورتیں ہیں مردوادیو سمجھے
ایچ آر ڈی کا کام نومینس لینڈ میں ہوگا!
”تھینک یو بھین جی ، پاسپورٹ کے چکر سے تو نجات ملی !“

2006

دانو اور پری

ناری تم لوک کتھا کی وہی پری ہو
دور گگن سے اس دھرتی پر
کریڑا کرنے جو آتی تھی
یہیں بس گئی

یہیں بس گئی ؟
نہیں نہیں
اک دانو نے پکڑ لیا تھا
جس کے جھلمل نبھ پنکھوں کو
دھر پوَرُش سے کتر دیا تھا
جس کے تن کو
تن کے من کو
اس دانو نے
بس اک چھن میں
رشتوں ناتوں سمبندھوں کے
کرُور جال میں جکڑ لیا تھا

پھر ُیگ جانے کتنے بیتے
پنکھ رَہِت اُن بیاکل ڈَینوں کی تڑپھن میں
سونا چاندی ، ہیرے موتی
لعل ، جواہر ، نیلم روبی
مٰخمل ،ریشم، خوشبو
سب نیوچھاور
سب نیوچھاور اس کے تن پر
پھر بھی من تھا چھٹ پٹ چھٹ پٹ
جیسے جل بن مچھلی

سورج، چندا اور ستارے
گنگا ،جمنا اور ہمالَے
آتی جاتی ساری رِتوئیں
کلی، پھول اور تتلی، بھونرے
سب روتے تھے
اس کے دکھ پر
یہ کہتے تھے
اڑ جا وپھرمُکت گگن میں
پنکھ لگا کر نقلی
او ری پگلی

2005

شاعری اور نظریہ

غور سے تو ہماری جوتی بھی نہیں سنتی شاعری
شاعری کویہاں جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں
گھر کی جورو کی طرح
اور نہ جانے کتنے شعر
ہماری جوتیوں کے نیچے سے ٹیاوں ٹیاوں کرتے ہوئے نکل جاتے ہیں
ہماری جوتیوں کی ساخت ہی ایسی ہے

جی میں تو آتا ہے کہ ابھی جوتیا کے اس بے خود شعریت کو نکال باہر کریں
اس کی زبان درازی کی وجہ سے
لیکن کچھ سوچ کر رہ جاتے ہیں
آخر کو اس کی ضرورت بھی پڑتی ہی ہے
ورنہ ہماری جوتی بھی نہیں سنتی شاعری
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ
سر پر چڑھ کر ناچے گی یہ حرافہ
اسی لیے اسے گھر کی جورو کی طرح جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں
اور اس طرح اِس کو اوقات بتاتے رہتے ہیں
منہ باندھ کر مارتے ہیں روزانہ بھیتریا مار

2009

جنڈر وار

حوا کی بیٹیوں نےآدم کے بیٹوں کو للکارا
ازل سے آج تک
تم نے میرے ساتھ جو کیا
اس کا حساب دو
آدم کے بیٹوں نے کہا
تم میرے برابر نہیں ہو کیا
اچھا تو آو ’استری ومرش‘ کریں
اور پھر خوب استری ومرش ہوا
فلموں میں
نوٹنکیوں میں
میلوں ٹھیلوں میں
یہاں تک کہ
باقی رہ گیے
حوا کی بیٹیوں کے تن پر
کپڑوں کے دو تار
اور ہاتھ میں ایک رومال
آنسو پونچھنے کے لیے

2005

بھیتر کی یاترائیں

بلی ، کتے ، گدھے ، بندر، سور
پیارے پیارے اور بھیانک ، گندے
یا نالی کے کیڑے بھِن بھِن
یا مکھی مچھر، تتلی بھونرے بھَن بھَن
سب جیتے ہیں اوپر اوپر
عام سطح پر باہر باہر
اِس مایا سے اُس مایا پر
جا پڑتے ہیں جبری جبری بے خبری میں
نہیں جانتے سب کایا ہے فانی
جو ظاہر ہے سب چھایا ہے جانی
ظاہر باہِر کوئی حقیقت
نہیں ہے ایسی تیسی اس دنیا کی
چل بھیتر جا
فلس فلس فس
ہاں بھیتر جا
رینگ رینگ کر
سرک سرک کر
اپنے اندر
ڈوب خودی میں
اُب ڈُب اُب ڈُب
پھر باہر آ
کھول کے آنکھیں
دیکھ یہ دنیا، سندر اور بھیاوہ
ہے قدموں میں آنکھ بچھائے
لوٹ رہے ہیں کس شردھا سے سب دوپائے
جیت لیا نا آخر تو نے
بھیتر جا کر اس دنیا کو مردِ قلندر
مرد ِسکندر اس مایا کو، اس مدیرا کو
چھان لیا ناآخر
جی لینا ہے ٹھان لیا نا آخر!

2009

ملتِ مرحوم

ہم تاریخ میں دفن ہیں
اور تہذیب ہمارا کفن ہے
اورزبان ہمارے ماتم کا گیت
اور مذہب ہمارے قبرستان کی کانٹے دار گھیرا بندی
جو باہر ہے وہ اندر آ سکتا ہے
مگر اندر کے لوگ باہر نہیں جا سکتے
کھلی فضا میں
(2008)

ابھی نہیں

ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
ضعیفی میں
میں آسانی سے مرنا چاہتا ہوں
اپنی طبعی موت
اپنے بستر پر
رات کو سونے کے بعد
گہری نیند میں

مجھ سے پہلے
مر چکی ہو ماں
مجھ سے پہلے
مر چکا ہوباپ
جو سمجھتا ہے مجھے لاٹھی بڑھاپے کی
اور صفیہ
مجھ سے پہلے مر چکی ہو
اور نافرمان اولادیں مری زندہ رہیں
بدن پر کوڑھ کی مانند
اور انور بھی
مجھ سے پہلے مر چکا ہو
کٹ چکے ہوں دوستی کے سلسلے سارے
پرانے اور نئے
تاکہ تنہائی مقدر ہو مرا یہاں تک کہ
زندگی بوجھ بن جائے
اور پھر تیری ضرورت ہو
تب اٹھا لینا مجھے مشکل کشا
ابھی نہیں مالک
ابھی نہیں مولا
(2006)

ہم تم

ہم تم
ترجمے ہیں دوست
ایک دوجے کے لیے
آج تک
جو بھی کہا میں نے تمہیں
جو بھی کہا تم نے مجھے
سب ترجمہ پن سے
کون سمجھا ہے کسی کو تہہ تلک
خوامخواہ جذبات کی رو میں
سنو
اوریجنل کچھ بھی نہیں ہمدم
تم وہی ہو ایو
میں وہی آدم
اسی ڈسکورس میں جینا
اسی ڈسکورس میں مرنا
کبھی اقرار کا چکر
کبھی انکار کا دھرنا
یہی اپنا مقدر ہے
یہی ہے زندگی کرنا
متن سے کھینچ لوں گا ایک دن بالجبر
نفس معنی کی طرح تم کو
توڑ ڈالوں گا کسی دن فن کی زنجیریں تمام
(2006)

عورت

عورت ایک طرح سے بیل ہے جو پاس کے پیڑ پر چڑھتی ہے
عورت ایک طرح سے تیل ہے جو دیے میں جلتی رہتی ہے چپ چاپ
عورت ایک طرح سے کھیل ہے جسے کھیلتے ہیں ہم بار بار جیتنے کے لیے
عورت ایک طرح سے ریل ہے جس کا ڈرائیوراور گارڈ دونوں ہی ہیں مرد
عورت ایک طرح سے جیل ہے جس میں قید رہتی ہے مرد کی جان
بڑے آرام سے
(2009)

یاد

یاد جانے کب چلی آئی
کب چلی آئی دبے پاوں
جیسے آتی ہے بہار معتدل
موسم سرما کے بعد



تنہائیوں میں جب تمہاری یاد آتی ہے
تو لگتا ہے کہ آیا ہے
کوئی جھونکا ہوا کا
مری بے چارگی
مری مصروفیت کے بند کمرے میں
جھروکے سے
سرک جاتی ہے گویا دل سے اک پتھر کی سل

اف نہ جانے کب چلی جائے
کب چلی جائے دبے پاوں
آکاش میں اڑتے
کسی اجلے کبوتر کے سمٹ جاتے ہیں پر جیسے
زمیں پر آٹھہرتاہے وہ جب دو چار دانوں کے لیے

کیوں نہیں رہتی
ہمیشہ کیوں نہیں رہتی
موجزن دل میں سمندر کی طرح
جب بھی آئی جاں بہ لب آئی
جیسے برساتی ندی
2006

جانب ِمنزل

جس دن بھر آئیں گی آنکھیں اس دن چل دوں گا چپ چاپ
اٹھا کر جھولا
جس میں تہہ بر تہہ ہونگے میلے کپڑے دوچار
بڑھی شیو اور مڑا تڑا سا کرتا پہنے
ہاتھ میں ایک ٹفن
جس میں رکھ لوں گا خرید کرتھوڑے بُھنے چنے
کہیں رکوں گاکسی موڑ پر کھا لوں گاسر پر ہاتھ دھرے
سرکاری نل کے نیچے کپڑے دھو لوں گا
اور سکھا کرپھر چل دوں گا انجانی منزل کی اُور
(2009)