کارآمد نکتے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کارآمد نکتے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 10 جولائی، 2016

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد



علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’

اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا :

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضرت نے لگایا جن کو ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں۔آئیے ہم امامِ عالی مقام کی کتاب ‘‘المنقذ من الضلال ’’ سے وہ اقتباس پڑھیں جس میں ان کی علمی تکفیر کا ایک نمونہ پایا جاتا ہے:


‘‘پھر ارسطاطالیس نے افلاطون اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الٓہیہ کی جو اُس سے پہلے گذرے ہیں ایسی تردید کی ہے کہ کچھ کسر باقی نہیں رکھی۔ اور ان سب سے اپنی بیزاری ظاہر کی ہے۔ لیکن اُس نے بعض رذایل کفر و بدعت ایسے چھوڑ دیے جس کی تردید کی توفیق خدا تعالی نے اس کو نہیں بخشی تھی ۔ پس واجب ہے کہ اُن کو اور اُن کے اتباع مثلاً علمائے اسلام میں سے بوعلی ابن سینا اور فاریابی وغیرہ کو کافر کہا جائے۔ کیونکہ ان دو شخصوں کی مانند اور کسی شخص نے فلاسفہ اہل اسلام میں سے فلسفہ ارسطاطالیس کو اس قدر کوشش سے نقل نہیں کیا ۔’’

[حوالہ: ابی حامد محمد غزالی، خیرالمقال فی ترجمہ المنقذ من الضلال ، ترجمہ :مولوی سید ممتاز علی، مترجم چیف کورٹ پنجاب لاہور، مطبع :اسلامیہ پریس لاہو، 1890عیسوی، صفحہ نمبر 32-35]


برادرانِ اسلام، اب جتنا چاہے افسوس کیجیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ غزالی نے ابن سینا اور فارابی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا کہ وہ کافر تھے کیونکہ ان دونوں جید فلسفیوں کے عقائد و افکار بالتحقیق غیراسلامی اور خلافِ قرآن تھے۔ لیکن اگر آپ بھی علامہ غزالی کی طرح ابونصر فارابی اور ابن سینا کو کافر مانتے ہیں، تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو علم سکھایا؟ فارابی و ابن سینا تو مسلمان تھے ہی نہیں، پھر ہمارا یہ دعوی باطل ہوا یا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس کے فروغ میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا؟ اہلِ مغرب نے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا علم تو حاصل نہیں کیا ، انہوں نے تو فارابی و ابن سینا اور دوسرے کافر وملحد لوگوں سے فلسفہ ہی سیکھا، پھر سوال یہ ہے کہ عہدِ وسطی کے سائنسی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں کا کارنامہ کیوں کہا جائے؟ صرف اس لیے کہ فارابی اور ابن سینا مسلمانوں میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دور کے فلسفہ و سائنس میں اعلی ترین مقام حاصل کیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عقیدہ کی بنیاد پر تکفیر کا یہ باب بند کیا جائے اور ان سب لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، اور / یا خود کو مسلمان قرار دیا۔یہی امت کی بازیافت اور اس کی تعمیرِ نو کی دنیاوی بنیاد ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر یہ منظور نہیں توباطل تعمیمات پر مبنی ایسے گمراہ کن اور بوگس دعوے ختم کیے جائیں کہ مسلمانوں نے اہل ِ مغرب کو فلسفہ اور سائنس سکھایا، اور ٹھیک ٹھیک یہ پتا لگایا جائے کہ عہدِ وسطی کے کتنے فلاسفہ و سائنسداں اپنے عقائد کے اعتبار سے صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھے اور کتنے ان میں ملحد و زندیق اور دیگر اقسام ‘گمراہ’ اور ’گمراہ گر’ پیدائشی مسلمان تھے جنہیں امتِ مسلمہ سے خارج کرنا شرعاً ضروری ہے۔

پیر، 27 جون، 2016

آبِ حیات اور منرل واٹر

اگر ایک شئے کے متعلق تمہیں یہ یقین ہو کہ یہ آسمان سے نازل شدہ مقدس آبِ حیات ہے لیکن دنیا اس شئے کو یہ حیثیت دینے پر تیار نہ ہو، پھر تمہارے لیے کیا یہ جائز ہو سکتا ہے کہ اس پر منرل واٹر کا لیبل لگا کر اسے مقبولِ خاص و عام بنانے کی کوشش کرو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ منرل واٹر دنیا کے گڈھے سے نکالا جانے والا پانی ہے، اور لوگ دورانِ سفر منرل واٹر کے بہت سے استعمال کر سکتے اور کرتے ہیں، مثلاً وہ اس کو پی سکتے ہیں، اس سے اپنا منہ دھو سکتے ہیں، کلی کر کے پھینک سکتے ہیں. منرل واٹر کے بہت سے استعمالات ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک بوتل منرل واٹر صرف بیس روپے میں آتا ہے اور ہر کس و ناکس کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن جس شئے کے متعلق تمہیں یقین کامل ہے کہ وہ آب حیات ایسی بیش قیمتی شئے ہے، کیا اسے منرل واٹر کے نام سے بیچا جانا, پھر اس کا یوں صرف اور ضائع کر دیا جانا تم پسند کروگے؟ آب حیات تو اکثیرِ بینظیر اور شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا استعمال ہرگز وہ نہیں ہو سکتا جو منرل واٹر کا ہے، یعنی جب جی چاہا بیس روپوں کے عوض خرید لائے، پھر جیسے جی چاہا صرف کر دیا, اور خالی بوتل پلیٹ فارم پر لڑھکا دی. آب حیات اگر سیل پیک بوتل میں آئے اور خرچ ہو جائے,  تو اس کی بوتل بھی مقدس ہوگی, اور اس کو بصد احترم لوگ اپنے پاس رکھنا چاہیں گے.
اب اپنے اس نازیبا عمل پر بصیرت کی نظر ڈالو, ٹھنڈے دل سے غور کرو. تمہارے پاس آب حیات کا جو ذخیرہ ہے، اس کے متعلق اگر تم ساڑھے نو سو سال تک بھی یہ اعلان کرتے کہ یہ آسمان سے نازل شدہ امرت رس ہے جو نوعِ انسانی کے لیے شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا ایک گھونٹ تمہارے تمام دنیوی و اخروی مسائل کا حل ہے، تو سوائے دو چار کے کوئی تمہاری اس بات پر ایمان نہ لاتا، پس، اس مشکل کو محسوس کر کے تم نے  ‘‘آبِ حیات مارکہ منرل واٹر’’ کا ایک لیبل چھپوایا، اور اسے اپنے آبِ حیات کی بوتلوں پر لگوا کر کبھی مفت تقسیم کرتے رہے اور کبھی دوکانوں میں سجا دیا تاکہ لوگ خود بھی خرید کر پئیں، اور تم نے توقع یہ کی کہ تمہارے آبِ حیات برانڈ منرل واٹر کا پہلا گھونٹ ہی لوگوں کو اس کی آسمانیت کا یقین و احساس دلا دے گا، اور لوگ اسے حیات بخش سمجھ کر محفوظ کر لیں گے، اور اسے عام منرل واٹر کی طرح استعمال نہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی تم نے لیبل پر یہ انتباہ بھی لکھ دیا کہ یہ عام منرل واٹر نہیں، بلکہ آسمانی منرل واٹر ہے، اس لیے برائے مہربانی اس کو کلی کر کے نہ پھیکیں، اسے پینے کے سوا کسی اور کام میں لانا منع ہے، دیگر استعمالات کے لیے منرل واٹر کے بہت سے دنیاوی برانڈ موجود ہیں، آپ ان کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن خبردار، یہ منرل واٹر دراصل آب حیات ہے، اس کے ساتھ ادب و تمیز سے پیش آئیں۔ غرض تم نے بصد اہتمام اسے دنیا بھر کی دوکانوں میں سجایا، جگہ جگہ اسے خرید کر پینے کی دعوت دینے والے ایجنٹ مقرر کیے، ان ایجنٹوں کی حیثیت آب حیات کے محافظ کی بھی تھی کہ جب بھی کوئی کلی کر کے پھینکنا چاہے، وہ اسے اس قبیح حرکت سے منع کریں اور آبِ حیات کے تقدس کا خیال رکھنا سکھائیں، لیکن خریداروں نے ایجنٹوں سے یہ جرح شروع کر دی کہ آپ اسے بیچ تو رہے ہیں بیس ہی روپوں میں، اس پر لکھا ہوا تو منرل واٹر ہی ہے، اور یہ دوکانوں میں منرل واٹر کے دوسرے برانڈوں کے ساتھ رکھا ہوا بھی ہے، پھر کیا وجہہ ہے کہ اس کو ہم پینے کے سوا اور کسی کام میں نہ لائیں؟ پس، تم لاجواب ہو گئے۔
غرض، اس ظاہر و باہر حقیقت پر غور کرو کہ تم اپنی چیز کو جس لیبل کے ساتھ، جس شمار و قطار میں رکھوگے، دنیا بھی اس کے ساتھ اسی شمار و قطار کی دوسری چیزوں کا سا معاملہ کرے گی۔
دیکھو، ہم کیسی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں تا کہ تم عقل کے ناخن لو۔ غالباً تم سمجھ گئے ہو گے کہ یہاں کیا کچھ کہا جا رہا ہے، پھر بھی اب استعارے کی یہ زبان ترک کر کے ہم اس لطیف نکتے کو مزید واضح کرتے ہیں۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ مذہب ایک آسمانی شئے ہے، پھر اس کو فلسفہ، نظریہ اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ فلسفہ تو انسانی ذہن و دماغ سے پیدا ہونے والی چیز ہے اور نظریہ، تھیوری اور آئیڈیالوجی بھی انسانی اختراعات میں سے ہیں۔ بھلا ان چیزوں کا اس شئے سے کیا تعلق ہے جسے تم مذہب کہہ کر آسمان سے نازل شدہ بتاتے ہو؟ کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے؟ کیا مذہب کو آئیڈیالوجی قرار دینا آب حیات پر منرل واٹر کا لیبل چپکانا نہیں ہے؟ پھر جب اسے عام منرل واٹر سمجھا گیا اور اسی حیثیت سے کبھی پی لیا گیا اور کبھی کلی کر کے پھینکا گیا, تو اب اس میں اتنا سیخ پا کیوں ہوتے ہو کہ فلاں نے کلی کر دی اور اس کا احترام نہیں کیا۔
تمہاری گمراہی یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ مذہبی آئیڈیالوجی کی کونسلیں تشکیل دے بیٹھے ہو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ، تم نے اصطلاحات کی سطح پر دورِ جدید میں نہ صرف یہ کہ آسمانی مذہب کو دنیاوی اصطلاحات کا اسیر و محتاج بنا دیا بلکہ تم میں سے بہتوں نے مذہبی احکامات و فرامین میں تحریفات کا ارتکاب بھی کیا.
بھلا بتاو تو سہی کہ آخر وہ کیا محرک ہے کہ تم ایک آسمانی شئے پر منرل واٹر ایسی دنیاوی شئے کا نام لگاتے ہو، کیا اس لیے کہ منرل واٹر ایک اسمارٹ اور پرکشش تصور ہے، مقبول خاص و عام ہے، اور اس کی تجارت خوب پھل پھول رہی ہے، جبکہ آب حیات کا تصور عامۃ الناس کے ذہنوں میں دھندلا اور گدلا ہو گیا ہے، اور چونکہ ہو تم آبِ حیات کے سوداگر جس کی دنیا میں مانگ نہیں الا ماشااللہ، اس لیے تم نے محض اسے بیچنے کے لیے اپنے ہی آب حیات پر ‘‘منرل واٹر’’ کا لیبل لگا دیا ہے۔ پس، بالتحقیق، یہاں تم نے اپنی دنیا کو اپنا دین اور اپنے دین کو اپنی دنیا بنا لیا ہے، تاکہ تمہارا کاروبار چل نکلے۔
ہائے افسوس! یہ تم نے کیا کیا؟ اپنے آسمانی مذہب کو ایک دنیاوی آئیڈیالوجی بنا کر رکھ دیا! کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس لیبل بازی سے غلط فہمی کے سوا اور جو کچھ بھی پھیلا، وہ بھی اسی غلط فہمی کی نذر ہو گیا؟
پس، اے مکمل نظام حیات آئیڈیالوجی کے پروانو، تم کب تک یوں ہی مکھی مچھروں کی طرح مغربی تعقل پسندی کی شمع مضمحل پر گرتے رہوگے، اور اپنے ہی جلنے سے پیدا ہونے والی روشنی کو اپنی جدوجہد سے پیدا ہونے والا نورِ حق باور کراتے رہوگے؟ ہرگز نہیں، حق اس سے بہت بلند چیز ہے جو تمہارے ذہنوں ںے قائم کر رکھا ہے۔
اے آبِ حیات مارکہ منرل واٹر بیچنے والو، ذرا اپنے جلنے کی پھڑپھڑاہٹ اور چراندھ کو محسوس کرو، سارا ماحول ایک غلیظ دھوئیں سے بھر گیا ہے، اور ساری دنیا کھانس رہی ہے۔ کب محسوس کروگے کہ تم نے  قدیم میں جدید کی چھونک لگا کر ایک طرف تو قدیم کو متحجر ہونے سے روکا، اور دوسری طرف، جدید میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اور اس چیز کو انقلاب اور کارتجدید کا نام دیتے ہو۔ یہی تمہاری وہ غیرعلمی اور غیرعقلی روش ہے جس کے سبب نہ تم دین کو اس کی روایتی شکل میں دیکھ سکتے ہو، نہ کبھی حکمائے مغرب کی طرح نچھک اور تری فلسفہ میں ڈبکی لگا سکتے ہو. تم نے قدیم میں جدید کا جوڑ پیوند لگا کر اپنے کو روایت کے فیوض اور جدیدیت کی برکات, دونوں سے محروم کر لیا اور اس طرح نہ گھر کے رہے, نہ گھاٹ کے.

پیر، 2 نومبر، 2015

فکری پسماندگی کی کچھ علامتیں

فکری طور پر پسماندہ وہ ہوتا ہے جو دنیائے فکرو نظر میں اپنی تمام تر ذہنی قوت کے ساتھ ازکار رفتہ مذہبی یا قومی عقائد و افکار کا راگ الاپتا رہے اور آگے نکل جانے والی قوموں سے بغض و حسد رکھتا ہو. ایسے لوگوں کی بہت سی علامتیں ہیں:  تعقل پسندی اور مغربی فلسفہ و سائنس کی تحقیر کرنا, مغربی فلسفہ و سائنس کے مقابلے میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کے منقولاتی اجدادی فلسفہ و سائنس کی  بنا ڈالنا, نوع انسانی پر اپنی تاریخی قوم کے ذریعے کیے جانے والے علمی احسانوں کو یاد دلاتے رہنا کہ ہم نے فلاں تحقیق سب سے پہلے پیش کی اور ہم نہ ہوتے تو دنیا  علمی و تکنیکی ترقی کے موجودہ مقام تک ہرگز نہ پہنچتی, اوریجنل اور گہرے فکری, تحقیقی کام کے ذیل میں صرف مقدس کتابوں کی شرحیں اور حاشیے لکھنا, مذہب اور سائنس میں تطبیق دینے کی ناکام کوشش کرتے رہنا, جدید تہذیب کو گمراہ, بے حیا اور بے شرم قرار دینا, اپنے اخلاقی نقطہ نظر کو پورے قوم کا اخلاقی نقطہ نظر بنانے کی کوشش کرنا, ماضی بعید کی عظمت و شوکت کی گردان کرتے رہنا, کوئی بھی نئی بات سنتے ہی آگ بگولا ہو کر پوچھنا کہ یہ کہاں لکھا ہے اور یہ کس سے ثابت یا منقول ہے؟