یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...
کیا اسلام میں سرشماری کے بعد کثرت آرا پر مبنی شورائیت قرآن سے ثابت
ہوتی ہے؟ یعنی صدر حکومت اس کو چنا جائے جس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں؟ اور
ریاست کے معاملات میں صدر ریاست اپنے مشیروں کی اکثریت کی رائے ماننے کا
پابند ہو؟ فرض کیجیے، اگر مشیر پانچ ہوں اور چھٹا خود صدر ریاست ہو تو پانچ
مشیر مل کر صدر کو تگنی کا ناچ نچا دیں گے، اور اگر مشیر چار ہوں تو ان
میں سے تین اگر آپس میں مل جائیں تو صدر صاحب کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ اسی
لیے اسلام میں اکثریت کی حاکمیت پر مبنی
شورائی نظام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ مشورے میں
شریک ضرور ہوں لیکن چلے وہی بات جو حق ہو، اور حق وہ ہے جو طاقت کی بنیاد
پر واقع ہو۔ اور طاقت وہ ہے جس کا لوہا طوعا و کرہاً سب کو ماننا پڑے۔
قرآن اگر کوئی بین کتاب ہے تو اس میں یقینا یہ بات آنی چاہیے کہ تم آپس میں مشورہ کرو اور پھر سرشماری کے بعد کثرت کو دیکھو کہ کس رائے کی طرف ہے، پھر جس رائے کے حق میں سب سے زیادہ افراد ہوں، انہیں کی رائے کو نافذ کرنا حق ہے۔ اتنی صاف بات نہ قرآن میں کہیں ہو سکتی ہے اور نہ حدیث میں۔ کیونکہ عقلا یہ ایک کمزور بات ہے، اور قرآن یا حدیث عقلاً کمزور باتیں نہیں کہتے۔ کثرتِ تعداد ایسی چیز ہے کہ کسی کٹھ پتلی کو امیر بنا دے اور پھر اسے اکثریت کے مشورے کا پابند یعنی کاٹھ کا الو بنا کر چھوڑ دے۔ اسی لیے قرآن میں صریحا کہیں پر اکثریت کی رائے کو تسلیم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ شاورھم فی الامر۔اس سے کثرتِ آرا کو ماننے کا حکم نہیں نکلتا۔ کیا امرھم شوری بینھم سے کثرتِ آرا کو ماننے کا حکم نکلتا ہے؟
(27 ستمبر2018عیسوی)
قرآن اگر کوئی بین کتاب ہے تو اس میں یقینا یہ بات آنی چاہیے کہ تم آپس میں مشورہ کرو اور پھر سرشماری کے بعد کثرت کو دیکھو کہ کس رائے کی طرف ہے، پھر جس رائے کے حق میں سب سے زیادہ افراد ہوں، انہیں کی رائے کو نافذ کرنا حق ہے۔ اتنی صاف بات نہ قرآن میں کہیں ہو سکتی ہے اور نہ حدیث میں۔ کیونکہ عقلا یہ ایک کمزور بات ہے، اور قرآن یا حدیث عقلاً کمزور باتیں نہیں کہتے۔ کثرتِ تعداد ایسی چیز ہے کہ کسی کٹھ پتلی کو امیر بنا دے اور پھر اسے اکثریت کے مشورے کا پابند یعنی کاٹھ کا الو بنا کر چھوڑ دے۔ اسی لیے قرآن میں صریحا کہیں پر اکثریت کی رائے کو تسلیم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ شاورھم فی الامر۔اس سے کثرتِ آرا کو ماننے کا حکم نہیں نکلتا۔ کیا امرھم شوری بینھم سے کثرتِ آرا کو ماننے کا حکم نکلتا ہے؟
(27 ستمبر2018عیسوی)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں