منگل، 21 نومبر، 2017

سر سید اور علامہ شبلی نعمانی کا علمی رشتہ

اردوزبان وادب  کی ایک ناموراور شہیر ہستی اور صحیح العقیدہ عالم مولٰنا مولوی عبدالحلیم شرر نے معتزلہ  اوران کے عروج و زوال پر ابطالی نوعیت کا ایک  طویل لیکچرمسلم اکیڈیمی کے اجلاس مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ءکو دیاتھا جس میں  انہوں نے  سر سید کے تصورِ دین و شریعت پر ایک زبردست تنقید بھی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید جدید اعتزال کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم اورسائنس میں تطبیق دینے کی سر سید کی تعبیراتی  کوششوں کو وہم و گمان سے بھی زیادہ بعید اوراور قابلِ مضحکہ قرار دینے کے ساتھ ہی مولانا شبلی نعمانی ایسے جلیل القدر عالم کے کارناموں کو بھی سر سید کی صحبت کا ثمرہ  بتایا ہے ۔ شرر کے مطابق سر سید کی صحبت میں آنے سے پہلے شبلی  ‘‘مشدد حنفی’’ ہوا کرتے تھے  اور امام ابوحنیفہ کے جوشِ محبت میں اپنے کو ‘‘نعمانی’’ کہلاتے تھے، تاکہ ‘‘حقیقت میں ان کا رتبہ  معمولی حنفیوں کے درجے سے بڑھا ہوا ہو’’ اور  وہابیوں کے مقابلے میں ‘‘بدعتیوں کے وکیل’’بن رہے تھے۔

جمعرات، 16 نومبر، 2017

قصہ آدم اور نظریہ ارتقا: تطبیق کے امکانات

علم اللہ صاحب کے ایک فیس بک اسٹیٹس پر ابوفہد صاحب نے قصہ آدم اور نظریہ ارتقا میں تطبیق دینے کے امکانات پر ایک تبصرہ لکھا تھا اور میں نے اس کا جواب لکھا ہے۔ یہاں میں ابوفہد صاحب کا مذکورہ تبصرہ اور اپنا جواب نقل کر رہا ہوں:
ابوفہد: ویسے آدم وحوا کی کہانی اور نظریۂ ارتقاء کی تطبیق کے امکانات بھی پیداہوسکتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا تھا۔خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے۔ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے۔۔۔ تطبیق کی صورت فی الحال تو یہی ہوگی کہ جہاں جہاں سائنس اور قرآن میں تضاد نظرآتا ہے وہاں قرآن کو مقدم رکھا جائے گا۔ یا پھر  یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن سے ہم نے جوسمجھا ہے وہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ اور یہ کہ قرآن میں آدم وحوا کی تخلیق کا جو بیان ہے ہوسکتا ہے کہ وہ تمٰثیلی انداز کا بیان ہو۔ قرآن سے یہ تو معلوم ہوا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا البتہ اس کی عملی صورت کیا ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں، اب ایسا تو نہیں ہے کہ اللہ نے بھی آدم کو اسی طرح پیدا فرمایا ہو جس طرح کمھارچاک پر مٹی کے برتن بناتا ہے۔ کہ مٹھی بھر مٹی لی اور اسے چاک پر چڑھا کر گھمادیا۔ کیا پتہ صدیوں پر محیط انسانی تخلیق کے عمل کو لفظ ’کن ‘ کے ذریعہ واضح کیا گیا ہو۔ کیونکہ وقت کی نسبت ہمارے اور اللہ کے درمیان مختلف ہے۔ ہمارے حساب سے جو صدیاں ہیں اللہ کے حساب سے وہ ایک  لمحہ بھی ہے۔ میرے خیال میں اس نہج پر فکر کو آگے بڑھایا جاسکتاہے۔