پیر، 27 جون، 2016

آبِ حیات اور منرل واٹر

اگر ایک شئے کے متعلق تمہیں یہ یقین ہو کہ یہ آسمان سے نازل شدہ مقدس آبِ حیات ہے لیکن دنیا اس شئے کو یہ حیثیت دینے پر تیار نہ ہو، پھر تمہارے لیے کیا یہ جائز ہو سکتا ہے کہ اس پر منرل واٹر کا لیبل لگا کر اسے مقبولِ خاص و عام بنانے کی کوشش کرو؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ منرل واٹر دنیا کے گڈھے سے نکالا جانے والا پانی ہے، اور لوگ دورانِ سفر منرل واٹر کے بہت سے استعمال کر سکتے اور کرتے ہیں، مثلاً وہ اس کو پی سکتے ہیں، اس سے اپنا منہ دھو سکتے ہیں، کلی کر کے پھینک سکتے ہیں. منرل واٹر کے بہت سے استعمالات ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک بوتل منرل واٹر صرف بیس روپے میں آتا ہے اور ہر کس و ناکس کے لیے دستیاب ہے۔ لیکن جس شئے کے متعلق تمہیں یقین کامل ہے کہ وہ آب حیات ایسی بیش قیمتی شئے ہے، کیا اسے منرل واٹر کے نام سے بیچا جانا, پھر اس کا یوں صرف اور ضائع کر دیا جانا تم پسند کروگے؟ آب حیات تو اکثیرِ بینظیر اور شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا استعمال ہرگز وہ نہیں ہو سکتا جو منرل واٹر کا ہے، یعنی جب جی چاہا بیس روپوں کے عوض خرید لائے، پھر جیسے جی چاہا صرف کر دیا, اور خالی بوتل پلیٹ فارم پر لڑھکا دی. آب حیات اگر سیل پیک بوتل میں آئے اور خرچ ہو جائے,  تو اس کی بوتل بھی مقدس ہوگی, اور اس کو بصد احترم لوگ اپنے پاس رکھنا چاہیں گے.
اب اپنے اس نازیبا عمل پر بصیرت کی نظر ڈالو, ٹھنڈے دل سے غور کرو. تمہارے پاس آب حیات کا جو ذخیرہ ہے، اس کے متعلق اگر تم ساڑھے نو سو سال تک بھی یہ اعلان کرتے کہ یہ آسمان سے نازل شدہ امرت رس ہے جو نوعِ انسانی کے لیے شفائے کاملہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کا ایک گھونٹ تمہارے تمام دنیوی و اخروی مسائل کا حل ہے، تو سوائے دو چار کے کوئی تمہاری اس بات پر ایمان نہ لاتا، پس، اس مشکل کو محسوس کر کے تم نے  ‘‘آبِ حیات مارکہ منرل واٹر’’ کا ایک لیبل چھپوایا، اور اسے اپنے آبِ حیات کی بوتلوں پر لگوا کر کبھی مفت تقسیم کرتے رہے اور کبھی دوکانوں میں سجا دیا تاکہ لوگ خود بھی خرید کر پئیں، اور تم نے توقع یہ کی کہ تمہارے آبِ حیات برانڈ منرل واٹر کا پہلا گھونٹ ہی لوگوں کو اس کی آسمانیت کا یقین و احساس دلا دے گا، اور لوگ اسے حیات بخش سمجھ کر محفوظ کر لیں گے، اور اسے عام منرل واٹر کی طرح استعمال نہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی تم نے لیبل پر یہ انتباہ بھی لکھ دیا کہ یہ عام منرل واٹر نہیں، بلکہ آسمانی منرل واٹر ہے، اس لیے برائے مہربانی اس کو کلی کر کے نہ پھیکیں، اسے پینے کے سوا کسی اور کام میں لانا منع ہے، دیگر استعمالات کے لیے منرل واٹر کے بہت سے دنیاوی برانڈ موجود ہیں، آپ ان کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن خبردار، یہ منرل واٹر دراصل آب حیات ہے، اس کے ساتھ ادب و تمیز سے پیش آئیں۔ غرض تم نے بصد اہتمام اسے دنیا بھر کی دوکانوں میں سجایا، جگہ جگہ اسے خرید کر پینے کی دعوت دینے والے ایجنٹ مقرر کیے، ان ایجنٹوں کی حیثیت آب حیات کے محافظ کی بھی تھی کہ جب بھی کوئی کلی کر کے پھینکنا چاہے، وہ اسے اس قبیح حرکت سے منع کریں اور آبِ حیات کے تقدس کا خیال رکھنا سکھائیں، لیکن خریداروں نے ایجنٹوں سے یہ جرح شروع کر دی کہ آپ اسے بیچ تو رہے ہیں بیس ہی روپوں میں، اس پر لکھا ہوا تو منرل واٹر ہی ہے، اور یہ دوکانوں میں منرل واٹر کے دوسرے برانڈوں کے ساتھ رکھا ہوا بھی ہے، پھر کیا وجہہ ہے کہ اس کو ہم پینے کے سوا اور کسی کام میں نہ لائیں؟ پس، تم لاجواب ہو گئے۔
غرض، اس ظاہر و باہر حقیقت پر غور کرو کہ تم اپنی چیز کو جس لیبل کے ساتھ، جس شمار و قطار میں رکھوگے، دنیا بھی اس کے ساتھ اسی شمار و قطار کی دوسری چیزوں کا سا معاملہ کرے گی۔
دیکھو، ہم کیسی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہیں تا کہ تم عقل کے ناخن لو۔ غالباً تم سمجھ گئے ہو گے کہ یہاں کیا کچھ کہا جا رہا ہے، پھر بھی اب استعارے کی یہ زبان ترک کر کے ہم اس لطیف نکتے کو مزید واضح کرتے ہیں۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ مذہب ایک آسمانی شئے ہے، پھر اس کو فلسفہ، نظریہ اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ فلسفہ تو انسانی ذہن و دماغ سے پیدا ہونے والی چیز ہے اور نظریہ، تھیوری اور آئیڈیالوجی بھی انسانی اختراعات میں سے ہیں۔ بھلا ان چیزوں کا اس شئے سے کیا تعلق ہے جسے تم مذہب کہہ کر آسمان سے نازل شدہ بتاتے ہو؟ کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے؟ کیا مذہب کو آئیڈیالوجی قرار دینا آب حیات پر منرل واٹر کا لیبل چپکانا نہیں ہے؟ پھر جب اسے عام منرل واٹر سمجھا گیا اور اسی حیثیت سے کبھی پی لیا گیا اور کبھی کلی کر کے پھینکا گیا, تو اب اس میں اتنا سیخ پا کیوں ہوتے ہو کہ فلاں نے کلی کر دی اور اس کا احترام نہیں کیا۔
تمہاری گمراہی یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ مذہبی آئیڈیالوجی کی کونسلیں تشکیل دے بیٹھے ہو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ، تم نے اصطلاحات کی سطح پر دورِ جدید میں نہ صرف یہ کہ آسمانی مذہب کو دنیاوی اصطلاحات کا اسیر و محتاج بنا دیا بلکہ تم میں سے بہتوں نے مذہبی احکامات و فرامین میں تحریفات کا ارتکاب بھی کیا.
بھلا بتاو تو سہی کہ آخر وہ کیا محرک ہے کہ تم ایک آسمانی شئے پر منرل واٹر ایسی دنیاوی شئے کا نام لگاتے ہو، کیا اس لیے کہ منرل واٹر ایک اسمارٹ اور پرکشش تصور ہے، مقبول خاص و عام ہے، اور اس کی تجارت خوب پھل پھول رہی ہے، جبکہ آب حیات کا تصور عامۃ الناس کے ذہنوں میں دھندلا اور گدلا ہو گیا ہے، اور چونکہ ہو تم آبِ حیات کے سوداگر جس کی دنیا میں مانگ نہیں الا ماشااللہ، اس لیے تم نے محض اسے بیچنے کے لیے اپنے ہی آب حیات پر ‘‘منرل واٹر’’ کا لیبل لگا دیا ہے۔ پس، بالتحقیق، یہاں تم نے اپنی دنیا کو اپنا دین اور اپنے دین کو اپنی دنیا بنا لیا ہے، تاکہ تمہارا کاروبار چل نکلے۔
ہائے افسوس! یہ تم نے کیا کیا؟ اپنے آسمانی مذہب کو ایک دنیاوی آئیڈیالوجی بنا کر رکھ دیا! کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس لیبل بازی سے غلط فہمی کے سوا اور جو کچھ بھی پھیلا، وہ بھی اسی غلط فہمی کی نذر ہو گیا؟
پس، اے مکمل نظام حیات آئیڈیالوجی کے پروانو، تم کب تک یوں ہی مکھی مچھروں کی طرح مغربی تعقل پسندی کی شمع مضمحل پر گرتے رہوگے، اور اپنے ہی جلنے سے پیدا ہونے والی روشنی کو اپنی جدوجہد سے پیدا ہونے والا نورِ حق باور کراتے رہوگے؟ ہرگز نہیں، حق اس سے بہت بلند چیز ہے جو تمہارے ذہنوں ںے قائم کر رکھا ہے۔
اے آبِ حیات مارکہ منرل واٹر بیچنے والو، ذرا اپنے جلنے کی پھڑپھڑاہٹ اور چراندھ کو محسوس کرو، سارا ماحول ایک غلیظ دھوئیں سے بھر گیا ہے، اور ساری دنیا کھانس رہی ہے۔ کب محسوس کروگے کہ تم نے  قدیم میں جدید کی چھونک لگا کر ایک طرف تو قدیم کو متحجر ہونے سے روکا، اور دوسری طرف، جدید میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اور اس چیز کو انقلاب اور کارتجدید کا نام دیتے ہو۔ یہی تمہاری وہ غیرعلمی اور غیرعقلی روش ہے جس کے سبب نہ تم دین کو اس کی روایتی شکل میں دیکھ سکتے ہو، نہ کبھی حکمائے مغرب کی طرح نچھک اور تری فلسفہ میں ڈبکی لگا سکتے ہو. تم نے قدیم میں جدید کا جوڑ پیوند لگا کر اپنے کو روایت کے فیوض اور جدیدیت کی برکات, دونوں سے محروم کر لیا اور اس طرح نہ گھر کے رہے, نہ گھاٹ کے.

پیر، 20 جون، 2016

الحاد اور مذہب دشمنی

الحاد ایک شئے ہے اور مذہب دشمنی دوسری. ایک گہرے فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے اور دوسرا سطحیت کے مارے لوگوں کا طریقہ. الحاد یہ ہے کہ زندگی پر پیغمبرانہ بلندی سے نظر ڈالی جائے اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جائے جس پر چلنے والوں کو ضال و مضل کہا جاتا ہے. جبکہ مذہب دشمنی یہ ہے کہ مذہبی لوگوں یا خود مذہبی روایت کی ہر چھوٹی بڑی بات میں کیڑے نکالیں جائیں اور یہ ہرگز نہ دیکھا جائے کہ جس بات پر ہم آج تنقید کر رہے ہیں وہ مذہب کی تشکیل کے زمانے میں کیا حیثیت رکھتی تھی اور کیوں اس زمانے کے لوگ اس کو روا یا قابل برداشت سمجھتے تھے.
ملحد اپنی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتا ہے. اس کی فکر ابنائے زماں سے مختلف ہوتی ہے, وہ اپنی جگہ ایک تسلسل کے ساتھ سوچتا رہتا ہے کہ معاصر زندگی کے مسائل کیا ہیں اور چونکہ مذہب کے صراطِ مستقیم پر چل کر ان مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا, اس لیے دوسرے راستے کون سے ہیں جنہیں اختیار کیا جا سکتا ہے.
لیکن ایک مذہب دشمن مذہب کو نیچا دکھانا اور تباہ و برباد کر دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کی نظر میں مذہب دنیا کی تمام تر برائیوں کی جڑ ہے. اس لیے, ایک مذہب دشمن کا رویہ ایک غالی مومن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہوتا جو مذہب کو دنیا کے تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے.
ملحد اپنے دور میں ادراک کے بلند ترین درجے پر فائز ہوتا ہے جبکہ مذہب دشمن کا ذہن انتقامی نہج پر سوچنے کے سبب رکاکت اور پستی کی انتہا پر. اس کو انسانی زندگی کے معمولی حقائق بھی نظر نہیں آتے.
ملحد تاریخ کے دھارے کو موڑنے میں ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے جبکہ سخت گیر مذہب دشمن عناصر اور بنیاد پرست غالی مومنین دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بدکلامانہ پیش آکر دنیا کے اخلاقی ماحول کو آلودہ کرتے ہیں اور لوگوں کی نظر سے گر جاتے ہیں. میں بھی ان دونوں قسم کے افراد کو جہلائے زمانہ میں شمار کرتا ہوں. اور وہ مومن اور وہ ملحد میری نظر میں محترم ہے جو زندگی اور کائنات کے مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے اور کج بحثی, کٹ حجتی اور یاوہ گوئی سے خود بھی محفوظ رہتا اور دوسروں کو بھی خبردار کرتا ہے.

جمعہ، 3 جون، 2016

مولوی ذکاءاللہ کا تصورِلفظ و معنی

1

لفظ و معنی میں تعلق کی بحث بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں قدیم یونانی و ہندوستانی اورعربی فلسفہ کی لسانی بحثوں میں پیوست ہیں۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان میں اس مسئلے پر اب تک کی تمام بحثوں کے نتیجے میں جو اہم ترین نکتہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کسی نہ کسی طور یہ ہے کہ لفظ، یعنی سگنی فائر اور اس سے مراد شئے کے ذہنی تصور یعنی سگنی فائیڈ میں ’’فطری رشتہ ‘‘ نہیں بلکہ یہ دونوں ’’آربٹریری ‘‘ یعنی ’’من مانے‘‘ طور پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب یہ نکتہ اپنے متعلقات کے ساتھ ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے ساتھ متعلق ہو کر اردو میں زیربحث آیا تو ابتداءً لوگوں نے سمجھا کہ یہ دور جدید میں ساختیات کے بنیاد گزار فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر کی فکری کاوش کا نتیجہ ہے ۔

سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں کسی فطری رشتے کے نہ ہونے کے مضمرات اتنے پریشان کن تھے کہ سوسیئر نے ان دونوں میں ’’وحدت کا ٹانکا ‘‘لگانے کی کوشش یہ کہہ کر کی تھی کہ یہ دونوں کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل ہیں۔[1] لیکن اگر ان میں کوئی فطری رشتہ پایا ہی نہیں جاتا تو سوسیئر کی اس مثال کی حیثیت سخن سازی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ ژاک دریدا نے سوسیئر سے بیک وقت بنیادی استفادہ اور انحراف کرتے ہوئے سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے سوسیئری ٹانکے کو کھول دیا، [2] اور اس طرح ایک مبینہ ’’ تباہ کن‘‘ ردتشکیلی فکر کو جنم دیا جس سے دنیائے فکرونظر کی دَسوں دِشاوں میں ایک عظیم زلزلہ برپا ہو گیا حالانکہ متعدد مغربی علمائے لسانیات کے نزدیک یہ ہمیشہ سے ایک معروف بات تھی اور ساختیاتی و پس ساختیاتی مباحث کے ہنگاموں میں بھی انہوں نے اس کا اعادہ کیا کہ لفظ اور اس سے مراد ذہنی شبیہ کے مابین رشتہ /اشارہ کے غیرفطری/ آربٹریری ہونے کا تصور سوسیئر سے پہلے کسی نہ کسی شکل میں افلاطون ، ہابز، لاک، لیبنیز، برکلے، فشٹے اور ہیگل ‘‘کے یہاں پایا جاتا ہے۔[3]

اردو میں ساختیات و پس ساختیات کا تفصیلی تعارف و تجزیہ پیش کرنے والوں میں ایک نمایاں ترین نام گوپی چند نارنگ کا ہے اور اس موضوع پر ان کی کتاب "ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات" میں مغربی حکمائے لسانیات اور مصنفوں کی عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔ ان کی اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ یا سگنی فائر اور اس سے مراد ذہنی شبیہ یا سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونا سوسیئری ساختیات کے بنیادی دلائل ،بحثوں اور نکتوں میں سے ہے۔ واضح رہے کہ زبان کے سوسیئری ماڈل میں شے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔سوسیئر ی فلسفہ لسان کے اس ایک بنیادی نکتے اور اس کے متعلقات سے بعینہ نہیں تو حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھنے والی ایک بحث برصغیر کے ایک اردو دانشور مولوی محمد ذکاءاللہ دہلوی کے رسالہ تقویم اللسان میں پائی جاتی ہے۔ موصوف کے اس رسالہ کا جو اڈیشن میرے پیش نظر ہے وہ 1893 میں مطبع شمس المطابع دہلی میں طبع ہو کر شائع ہوا تھا.[4] رسالہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ ایک ابتدائیہ ہے جس کے آخر میں مولوی ذکاءاللہ کا نام اور تاریخ 24 اپریل 1893 عیسوی درج ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تقویم کا پہلا اڈیشن ہے۔ سوسیئر نے جنیوا یونیورسٹی میں جنرل لنگوئسٹکس پر اپنے تاریخی خطبات 1906سے 1911 تک دیے تھے جو آگے چل کر ساختیاتی فلسفہ لسان کی بنیاد بنے۔ پس، مولوی ذکاءاللہ نے لفظ اور معنی کے متعلق موٹا موٹی وہی خیالات جو عام طور پر سوسیئر سے منسوب کیے جاتے ہیں ،سوسیئر سے کم از کم 12 سال پہلے پیش کیے ۔ حالانکہ علما لسانیات اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ لفظ و معنی کے رشتے کے فطری نہ ہونے کی بات سوسیئر سےپہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں متعدد فلاسفہ (مثلاً جان لاک) کہہ چکے ہیں.

سوسیئر کی طرح اس خاص معاملے میں اس کے پیش رو [5]مولوی ذکاءاللہ کے ہاں بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بالکل واضح ہے جس کا اردو ترجمہ نارنگ صاحب نے بالترتیب ’’معنی نما ‘‘اور ’’تصور معنی‘‘ کیا ہے جس کے لیے بالترتیب اردو میں "دال" اور "مدلول" کی اصطلاح بھی مستعمل ہے، حالانکہ مولوی ذکاءاللہ نے ایک ممکنہ حکمت کے پیش نظر دال اور مدلول کی ڈائیکاٹومی پیش نہیں کی اور اس کی جگہ انہوں نے ’’لفظ اور مدلول‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اتنا ہی نہیں ، ان کے ہاں لفظ و معنی کی جو بحث پائی جاتی ہے اس میں مستعمل لفظیات و اصطلاحات کی اگر صحیح تعبیر نہ کی جائے تو بادی النظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ بھی لفظ اور مدلول میں کسی "فطری رشتے" کے نہ پائے جانے کے قائل ہیں۔ لیکن یہ محض تعبیر کی غلطی ہوگی. مولوی ذکاءاللہ نے اپنے رسالہ تقویم اللسان میں لفظ اور معنی میں ’’طبعی مناسبت‘‘ نہ ہونے کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو میرے نزدیک ساختیاتی موقف ’’ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونے ‘‘ سے مماثلت رکھتے ہوئے بھی ایک زاویہ کا فرق اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اور یہی زاویاتی فرق مولوی ذکاءاللہ کے موقف کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات سے ممتاز کرتا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں شمس العلما ء مولوی ذکاءاللہ کے رسالہ تقویم اللسان سے اپنے ان دعووں کا ثبوت پیش کروں، میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لفظ اور اس کی ذہنی شبیہ میں ’’فطری رشتہ‘‘ نہ ہونے کا یہ موقف کس تاریخی سیاق میں، کیوں اور کیسے وجود میں آیا ، اور یہ ساختیات کی ایک فکری بنیاد کیونکر ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع آخر میں اردو حلقوں میں ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان کے حوالے سے لفظ و معنی کے باہمی رشتے پر بحثوں کی اس گرم بازاری پر بھی کچھ روشنی ڈالوں گا جو حالی کی مقدمہ شعرو شاعری کی اشاعت کے ٹھیک ایک صدی بعد 1993میں گوپی چند نارنگ کی ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات کے کتابی شکل میں یکجا ہوکر شائع ہونے کے بعد اپنے عروج پر پہنچی ۔ مقدمہ کے ٹھیک ایک صدی بعد ، اور نئی صدی کے آغاز سے پہلے پہلے نارنگ صاحب کی کتاب کا تہذیب کے ماضی بعید کی گم گشتہ بصیرتوں سے آراستہ ہو کر شائع ہونا میدانِ ادب میں کارِتجدیدکے مترادف تھا، چنانچہ خود فرماتے ہیں:
اردو میں تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی کی پہلی باضابطہ کتاب حالی کا مقدمہ شعر و شاعری ہے۔ یوں تو شعریات کا احساس پہلے سے موجود چلا آتا تھا، لیکن اسے منضبط کرنے کی اولین کوشش حالی نے ہی کی۔ مقدمہ ٹھیک ایک صدی پہلے 1893 میں شائع ہوا ۔ اس دوران اردو میں بہت کچھ لکھا گیا۔ [6]
لیکن گوپی چند نارنگ کی اس کتاب کی اشاعت سے ٹھیک ایک صدی پہلے 1893 میں مقدمہ حالی کے ساتھ ساتھ مولوی ذکاءاللہ کا رسالہ تقویم اللسان بھی شائع ہوا تھا اور اس میں لفظ و معنی کی حقیقت پر علمی بحث کے بہت کچھ سامان تھے ، لیکن معلوم ہوتا ہے اس وقت برصغیر میں اس پر اتنی بڑی بحث قائم نہ ہوسکی جتنی ساختیاتی و پس ساختیاتی نظریات کے اردو میں داخل ہونے کے بعد بڑی شد و مد سے برپا کی گئی جس کے خلاف ایک ردعمل یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بعض اردو حلقوں میں سوسیئر ودریدا سے پہلے کے فلسفیوں اور مصنفوں کے کارناموں سے وہ فلسفیانہ نکتے پیش کیے جانے لگے جو ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان بشمول ردتشکیل میں بھی پائے جاتے تھے تاکہ ان جدید ترین افکار و نظریات کو ازکار رفتہ قرار دے کر تاریخ کے ڈسٹ بن کی نذر کر دیا جائے۔


2

یہ مسئلہ کہ لفظ (سگنی فائر) اور اس کی ذہنی شبیہ (سگنی فائیڈ) میں کوئی فطری رشتہ نہیں، لسانیاتی تحقیق سے زیادہ فلسفیانہ تعبیر کا موضوع ہے۔لیکن گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریا ت کے دیباچےمیں ساختیات و پس ساختیات کو نئی تھیوری اور نئی فکر کے طور پر متعارف کراتے ہوئے انتہائی جزم کے ساتھ سوال اٹھایا تھا کہ کیا اس کی ’’بعض بصیرتوں کا درجہ سائنسی دریافتوں کا نہیں؟‘‘[7] لفظ و معنی میں کسی’’ فطری رشتہ ‘‘ کا نہ ہونا ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان کی ایک بنیادی بحث ہے اور ممکن ہے یہ ان بصیرتوں میں بھی شامل ہو جن کا درجہ نارنگ کے مطابق سائنسی دریافتوں کا ہونا چاہیے۔

نارنگ صاحب کے مطابق سوسیئر کے زمانے تک زبان کی نسبت یہ نظریہ عام تھا کہ زبان ’جوہری‘ یا ’قائم بالذات‘ شئے ہے۔ سوسیئر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیوں سے چلے آتے زبان کے اس نظریے کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور زبان کے ’نسبتی ‘ تصور کو پیش کیا جس کی رو سے زبان کی آوازوں کی شناخت بالذات ہونے کے بجائے ان میں پائے جانے والے فرق کی بنا پر ہوتی ہے اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ زبان تسمیہ یعنی اشیا کو نام دینے والا نظام نہ ہو کر ’’افتراقات کا نظام ہے جس میں کوئی مثبت عنصر نہیں ہے۔‘‘ [8]

زبان کے نسبتی تصور کو پیش کرنے، اس کو نظام افتراقات کے بطور قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ لفظ اور اس سے مراد شئے میں فطری رشتہ پائے جانے کا عام خیال تھا۔ اسی خیال کی بنا پر زبان کو جوہری یا قائم بالذات چیز سمجھا جاتا تھا جسے رفع کیے بغیر زبان کو ایک نظام کے طور پر دیکھنے کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک شخص کہہ سکتا تھا کہ زبان اپنی جگہ افتراقات کا نظام ہو تو ہو، لیکن معنی تو الفاظ میں بالذات موجود ہیں، لفظ اور اس سے مراد شئے میں ایک اور ایک کا فطری رشتہ بہرحال پایا جاتا ہے، لہذا زبان کی آوازوں میں پائے جانے والے فرق اور ا س کی بنا پر مفروضہ ’’تفریقی رشتوں‘‘ کے فلسفے کی چنداں اہمیت نہیں۔چنانچہ لفظ و معنی کے اس موہوم ’’فطری رشتے ‘‘کو منقطع دکھانا ضروری تھا:
۔۔۔ لفظ ’شجر‘ کی اصوات اور اس کے تصور میں اور اس شئے میں جو زمین سے اگتی ہے اور جس میں ٹہنیاں اور پتے ہوتے ہیں، کوئی ’فطری‘ رشتہ نہیں۔ لفظ ’شجر‘ میں یا اس کی کسی صوت میں درخت کی کوئی خصوصیت نہیں،[9]
اس کے بعد لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ’ شجر‘ کو اس کے معنی آخر کہا ں سے حاصل ہو گئے اگر لفظ میں شئے کی خصوصیت نہیں پاتی جاتی ؟ تو اس کا جواب یہ دیا گیا:
اور نہ ہی اس لفظ کا یہ تصور کسی خارجی قوت کی رو سے طے ہوا ہے۔’شجر‘ کو یہ معنی زبان کی ساخت نے دیے ہیں۔[10]
اس کے علاوہ، ساختیاتی فلسفہ لسان کو مزید مدلل بنانے کی غرض سے بھی سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے رشتے کے فطری ہونے کے بجائے ان کے باہم آربٹریری متعلق ہونے پر مہرتصدیق ثبت کرنے کے ذریعے زبان کے مروجہ عامیانہ خیال کی تردید کر دی گئی کہ لفظ میں شئے کی حقیقت پائی جاتی ہے۔ زبان کو غیرشفاف قرار دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے:
سوسیئر مزید کہتا ہے کہ زبان میں ’معنی نما‘ اور تصور معنی کا ناقابل تقسیم رشتہ یعنی شیر کے صوتی امیج سے مراد شیر ہی کا تصور ہے، گائے، بھینس، بکری، یا کوئی اور جانورنہیں، یہ واہمہ پیدا کرتا ہے کہ زبان شفاف چیز ہے، یعنی اس کے آرپار دیکھا جا سکتاہے، یا لفظوں اور اشیا میں ایک اور ایک کی نسبت ہے۔ زبان چونکہ ہماری عادت کا حصہ ہے اس لیے زبان کے بارے میں ایسا سوچنا عین فطری ہے، لیکن فکری اعتبار سے بھی اس کو صحیح سمجھ لینا خود کو دھوکا دینا ہے، اس لیے کہ زبان کی اصل نوعیت اس کے برعکس ہے۔ زبان شفاف نہیں ہے ۔ [11]
پس، اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ ساختیاتی فلسفہ لسان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کے درمیان ’’ فطری رشتے ‘‘کا نہ ہونا، ایک ناگزیر فکری بنیاد ہے ۔ اگر علمائے لسانیات کو شئے کی حقیقت لفظ میں مل جاتی تو لسانیات کی سائنس میں زبان کی ساخت کا مسئلہ محض زبان کی آوازوں کے میکانیکی پہلووں تک محدود رہ جاتا اور اس صورت میں ساختیات کا تعلق فلسفہ معنی سے نہ رہ سکتا اور نہ کسی لفظ کے متعلق یہ دعوی وجود میں آ سکتا کہ اس کے معنی ’’زبان کی ساخت نے دیے ہیں۔‘‘

ساختیات کی یہ ناگزیر فکری بنیاد نہ صرف ساختیات کو اس کے پیروں پر کھڑا کرتی ہے بلکہ تاریخ میں اس کے ارتقا کو بھی ممکن بناتی ہے۔ انسانی ذہن زبان کے اسرار معلوم کرنے کی سمت میں پہلے لفظ پر توجہ کرتا ہے نہ کہ زبان کی آوازوں کے فرق پر۔زمانہ حال میں بھی وہ لفظ اور معنی کے باہمی رشتے پر غور کیے بغیر ایک ہی جست میں زبان کے نظام افتراقات تک نہیں پہنچ سکتا ۔ انسان نے ایک طویل زمانے تک لفظ و معنی کے مسئلے پر غور کیا اور اس کے بعد جب زبان کی اصل سرشت اور جبلت کا سرا نہ ملا تو اس نے معاملے کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا اور ایک دن فلسفہ ساختیات تک پہنچا۔

فرڈی ننڈ ڈی سوسیئر نے جس تاریخی سیاق میں آنکھ کھولی، اس میں لفظ و معنی کے رشتے پر جتنی کچھ بحثیں ماضی قریب و بعید میں ہو چکی تھیں، اورلسانیات میں تاریخی تحقیقات کا جو سلسلہ جاری تھا، اس سے زبان کی فطرت کا علم نہیں ہوتا تھا ۔کہہ سکتے ہیں کہ زبان کے نظام افتراقات کے انکشاف کا سیاق یہ ہے کہ پہلے مغربی علمائے لسانیات نے لفظ میں شئے کی خصوصیت تلاش کی ،اِسی کوانہوں نے لفظ و معنی میں فطری رشتہ ہونے یا نہ ہونے کی شرط قرار دی ، اور جب لفظ میں شئے کی خصوصیت نہ ملی تو لفظ و معنی کے رشتے کو فطری کی تعریف سے خارج کیا ، لفظ کا اپنے معنی پر اشارہ کے آربٹریری ہونے کا حکم لگایا، اور اس کے بعد زبان کی میکانیکیت کی تحقیق کے ذریعے معنی آفرینی کو زبان کی ساخت کے تابع کر دیا، پہلے جس کا سرچشمہ لفظ کو سمجھا جاتا تھا۔


3

اوپر میں کہہ چکا ہوں کہ علمی حلقوں میں یہ بات معروف ہے کہ لفظ و معنی کے مابین تعلق پر ساختیات کے بنیاد گزار سوسیئر نے جو کچھ کہا، وہ اس سے پہلے کئی فلاسفہ اور علمائے زبان و ادب اپنے طور پر کہہ چکے تھے اور اس خاص معاملے میں سوسیئر کی تخصیص نہیں ہے الا یہ کہ اس نے اپنے متقدمین سے کسی قدر مختلف شکل میں مسئلے کی تعبیر کی ہو۔ گوپی چند نارنگ نے بھی اپنی مذکورہ بالا کتاب میں اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا اور افلاطون کے مکالمہ کریٹیلس [12]کے حوالے سے بتایا کہ یہ مسئلہ وہاں بھی زیر بحث آیا لیکن لاینحل رہ گیا. اس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب میں ہندوستانی روایت میں سوسیئر کے خیالات سے مماثلت رکھنے والے خیالات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، مثلاً
زیرنظرباب (سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر) کا مقصد یہی ہے کہ سوسیئر کے فلسفہ لسان ، پس ساختیات اور ردتشکیل کے فلسفہ معنی کے تناظر میں یہ دیکھا جائے کہ اس بارے میں ہندوستانی روایت میں کیا کیا بحثیں اٹھائی گئی ہیں اور ہندوستانی ذہن کا موقف کیا رہا ہے۔ اس نظر سے جب ہم نے ہندوستانی فکری روایت اور شعریات کا جائزہ لیا تو بعض حیران کن نتائج سامنے آئے۔ یعنی مغرب میں جو نکات اب ساختیاتی اور ردتشکیلی فکر کے ذریعے سامنے آ رہے ہیں، ان سے ملتے جلتے نکات ہندوستانی فکر و فلسفے بالخصوص بودھ فلسفے میں صدیوں پہلے زیر غور رہے ہیں۔ [13]
(نیائے اور ویشیشک مفکرین ) کا کہنا ہے کہ نہ شبد مقتدر ہے نہ معنی مستحکم، یعنی شبد اور ارتھ کا رشتہ فطری نہیں ہے، نیز یہ رشتہ مستقل بھی نہیں ہے، بلکہ یہ رسمی اور روایتی نوعیت کا ہے۔ یعنی لفظ کے معنی فی نفسہ طے نہیں ہیں، یہ رواج اور چلن سے طے ہوتے ہیں۔ گوتم رشی کا کہنا ہے کہ شبد اور ارتھ میں کوئی براہ راست رشتہ نہیں ہے ۔ اگر ہم شبد ’اگنی‘ کہہ کر جلانے والی چیز اور شبد گئو کہہ کر خاص قسم کا جانور مراد لیتے ہیں، تو ایسا اس لیے نہیں ہے کہ شبد ’اگنی‘ میں جلانے کے یا شبد ’گئو‘ میں جانور کے خواص موجود ہیں، بلکہ ایسا صرف اس لیے ہے کہ روایت اور چلن سے ان لفظوں کے یہ معنی طے پا گئے ہیں… [14]
بودھی مفکرین کہتے ہیں کہ شبد میں ہرگز کوئی شئیت براہ راست نہیں ہے ، اس لیے کہ ارتھ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفی ہے ۔ ان کے بقول شبد چونکہ تصوراتی امیج ہیں جو خالصتاً ذہنی تشکیل یعنی ’وکلپ‘ ہیں، اس لیے شبد اور شے میں کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہو سکتا۔بودھی مفکر دن ناگا کا کہنا ہے کیہ شبد ایسا وکلپ ہے جس کی خصوصیت خاصہ اس کی منفیت ہے، اور اپنے زمرے کے دوسرے تمام عناصر سے اس کا رشتہ تفریقی نوعیت کا ہے۔ شبد ’گئو‘ سے گائے براہ راست مراد نہیں ہے، بلکہ الا ان تمام اشیا کے جو گائے نہیں ہیں، یعنی ایسی تمام اشیا کی نفی جو گائے نہیں ہیں۔ ۔۔۔۔ظاہر ہے کہ بودھی فکر کے ان نکات اور سوسیئر کے خیالات اور دریدا کے نظریہ افتراق میں حیرت انگیز مطابقت اور مشابہت ہے۔ بودھوں کے یہاں یہ نکتہ بالکل سوسیئر سے ملتا جلتا ہے کہ زبان کے تصوراتی امیج میں (جس کا حامل شبد ہے) اور اشیا میں کوئی لازمی یا فطری رشتہ نہیں ہے اور ارتھ کا انفراد فقط اس کی تفریقی حوالگی میں ہے۔[15]
حیرت ہوتی ہے کہ جن نتائج تک جدید لسانیات و پس ساختیات و ردتشکیل بیسویں صدی میں پہنچیں ان تک بودھی ذہن صدیوں پہلے پہنچ چکا تھا۔[16]

نارنگ نے عربی و فارسی روایت اور ساختیاتی فکر والے باب میں اس سلسلے میں ایک انتہائی دلچسپ اقتباس پیش کیا ہے:
محمد رضوان الدایہ مقدمہ دلائل الاعجاز میں لکھتا ہے کہ جرجانی کا تصور لسان بہت کچھ سوسیئر کے خیالات سے مماثل ہے۔ اس کا کہنا ہے:
عبدالقاہر جرجانی نے دلائل الاعجاز میں زبان سے متعلق خالص علمی اور بے مثل موقف اختیار کیا ہے۔ اس نے دلالت کا ایک اصول مقرر کیا ہے جسے ایک باضابطہ قانون کی حیثیت سے اختیار کرنے کے لیے جدید مطالعات کو تقریباً ایک ہزار برس انتظار کرنا پڑا تب کہیں چمنستان بلاغت کے سوئس دیدہ ور سوسیئر کے ہاتھوں بیسویں صدی کے شروع میں لسانیات کا ایک تسلیم شدہ ضابطہ تشکیل پایا کہ الفاظ بذات خود کوئی معانی نہیں رکھتے۔ یعنی لفظ اور معنی میں کوئی فطری ربط نہیں، بلکہ لسانی اشکال اور ان کے مفاہیم سماجی اور اجتماعی طور پر طے پاتے ہیں اور لسانی ساخت ہی لفظ و معنی کا ربط طے کرتی ہے ۔‘‘ (ترجمہ بشکریہ ڈاکٹر ضیاء الحسن ندوی) [17]
لیکن نارنگ کی اس کتاب میں اس سلسلے میں ماضی بعید کی ہندوستانی و عربی روایت میں ہونے والی متعلقہ بحثوں کے علاوہ ماضی قریب کے مغربی تاریخی دستاویزات کے حوالے سے کچھ نہیں ملتا. مثلاً برطانوی فلسفی جان لاک نے 1690 عیسوی میں بھی اپنی کتاب این ایسے آن ہیومن انڈراسٹینڈنگ میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے دوران کہا تھا کہ لفظ کا اشارہ (اپنے خیال کی طرف ) مطلقاً آربٹریری ہے اور ان کے درمیان کوئی فطری تعلق (نیچرل کنکشن ) نہیں پایا جاتا۔[18] حالانکہ اس کا حوالہ ناصر عباس نیر کی مرتب کردہ کتاب ’’ساختیات: ایک تعارف ‘‘ میں پایا جاتا ہے لیکن چونکہ میں نے ساختیات و پس ساختیات پر اردو زبان میں اول اول نارنگ کی ہی کتاب سے استفادہ کیا جس میں جان لاک وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا ، اس لیے مجھ ہیچمداں پر ایک تاثر تو یہ قائم ہوا کہ افلاطون کے کریٹیلس کے بعد سوسیئر وہ پہلا شخص ہے جس کے لیکچرز سے یہ لاینحل مسئلہ کسی قدر حل ہو گیا اور دوسرا یہ کہ اردو میں بھی دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح لفظ و معنی میں فطری رشتہ کی بحث پہلی بار ہو رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی تاثر اس وقت بھی پڑا ہوگا جب اردو دنیا ساختیاتی و پس ساختیاتی افکار سے واقف ہوئی ہوگی۔ چنانچہ اس پورے دور میں ماہنامہ شبخون کے متعدد شماروں میں ساختیاتی و پس ساختیاتی افکار کی منجملہ دیگر بحثوں کے ساتھ یہ بحث بھی سوسیئر سے پہلے کی تفکیر میں پائے جانے کی نشاندہی مغربی مصنفین کے اقتباسات کی پیش کش کے ذریعے کر دی گئی جن سے مجموعی طور پر یہ ثابت ہوا کہ سوسیئر اور دریدا سے پہلے بھی دنیا اس نکتے سے نابلد نہ تھی، مثال کے طور پرشبخون ، جولائی اگست ستمبر1985میں ژرار ژینت کا ایک اقتباس پیش کیا گیا:  
سوسیور کی کتاب ’’عمومی لسانیات کا درس‘ میں جن باتوں پر خاص زور دیا گیا ہے، ان میں ایک یہ بھی ہے اور سوسیور کے بھی پہلے ڈبیلیو۔ ڈی ۔ وہٹنی اور ولیم جیمس کا بھی یہی خیال تھا۔ انہوں نے بڑے محاکاتی انداز میں لکھا تھا کہ ’’لفظ کتا‘‘ کسی کو نہیں کاٹتا۔ بلکہ اور بھی پہلے جائیں تو انسائیکلو پیڈیا میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ ’الفاظ جس چیز کو ظاہر کرتے ہیں اس سے ان کا کوئی لازمی رشتہ نہیں ہوتا۔ [19]
اسی طرح مئی جون 1999 کے شبخون میں ’’زبان ، معنی اور رسومیات ‘‘ کے عنوان سے صفحہ اول پر ونفرائیڈ ناتھ [20]کی 1995 کی کسی تحریرسے ایک اقتباس درج ذیل ادارتی نوٹ لگاکر پیش کیا گیا :
[آج کل بعض حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ لفظ اور معنی کی دوئی کا مسئلہ بعض جدید فرانسیسی فلاسفہ، مثلاً دریدا نے دریافت کیا ہے۔ درج ذیل اقتباس سے معلوم ہوگا کہ یہ مسئلہ سقراط کے بھی قبل سے یونانی فلسفے میں موجود ہے]۔[21]
یہاں تک کہ خود شمس الرحمان فاروقی نے رچرڈ اور اوگڈن کی کتاب د میننگ آف میننگ کے حوالے سے اس خیال کے ازکار رفتہ ہونے کے سلسلے میں کہا:
دریدا کا یہ خیال اس کے عام فلسفیانہ تصور سے ہم آہنگ ہے کہ الفاظ میں کوئی وجود نہیں، اور الفاظ نہ اشیا ہیں اور نہ اشیا کے قائم مقام ہیں۔ یہ تصور دریدا کا اپنا نہیں۔ اور جس چیز کو وہ لفظ مرکزیت (لوگوسنٹرزم) کہہ کر مطعون کرتا ہے، مغرب و مشرق کے فلسفہ لسان اور فلسفہ وجود میں بہت پہلے مسترد ہو چکی تھی۔ آگڈن او ر رچرڈس نے اپنی کتاب THE MEANING OF MEANING (اول اشاعت ۱۹۲۳، تیسری اشاعت ۱۹۳۰) میں اس تصور کو کہ الفاظ اور اشیا میں مکمل ہم آہنگی ہے VERBOMANIA ( مراق اللفظ) اور GRAPHOMANIA (مراق التحریر) کہہ کر اس کا خوب مذاق اڑایا ہے۔
(فاروقی کا رچرڈ اور اوگڈن کی مذکورہ کتاب سے اقتباس حذف کر دیا گیا ہے)
آگڈن اور رچرڈس کا یہ اقتباس میں نے دریدا کی وقعت کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ تعبیر کے مسائل میں ایک اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کی غرض سے پیش کیا ہے ۔ آگڈن اور رچرڈس کی پوری کتاب ہی اس مسئلے کی چھان بین پر ہے کہ ہم معنی کو کس طرح گرفت میں لا سکتے ہیں ؟[22]
لفظ و معنی کے درمیان کسی فطری رشتہ کا نہ ہونا ایک ایسی فلسفیانہ تعبیر ہے جس کی فراہم کردہ عقبی زمین کے بغیر ساختیاتی فلسفہ لسان میں زبان کو ایک بامعنی نظام کے طور پر قائم کرنا ہی نہیں بلکہ پس ساختیات اور ردتشکیل تک کا وجود میں آنا دشوار تھا۔ ردتشکیل پر گوپی چند نارنگ کی تحریروں سے میرے ذہن میں جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ دریدا نے ساختیات پر ہتھوڑے کی آخری ضرب لگاتے ہوئے زبان کے سوسیئری نشان کی وحدت کا خاتمہ کر ڈالا۔ نارنگ صاحب نے دریدا کی ردتشکیل پر کیا خوب اس کی تاریخی معنویت کے ساتھ لکھا ہے:
لاکاں نے فرائیڈ کے نظریۂ لاشعور کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اتنی بڑی سائنسی دریافت تھی کہ خود فرائیڈ اس کی تاب نہ لا سکا اور اس کو فکری اعتبار سے زیرِ دام لانے کی سعی میں لگ گیا۔ اسی طرح سوسیئر کا یہ معلوم کر لینا کہ زبان محض افتراقات پر قائم ہے ، بھی معمولی دریافت نہ تھی، کیونکہ جیسا کہ سوسیئر نے کہا ہے کہ افتراق تضاد سے ہوتا ہے ، اور تضاد بہرحال کچھ نہ کچھ تو اثبات رکھتا ہے ، لیکن زبان میں مطلق کسی مثبت عنصر کا نہ ہونا اتنی تحیر زا بات تھی کہ سوسیئر نے اگرچہ اپنی بصیرت سے اس راز کو پا تو لیا لیکن جلد ہی وہ اس پر پردہ ڈالنے لگ گیا۔ کیونکہ اس کے سامنے اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ زبان جب ‘افتراقِ محض’ سے عبارت ہے اور اس میں کوئی مثبت عنصر نہیں تو پھر یہ مثبت طور پر عمل آرا کیونکر ہوتی ہے؟ سوسیئر نے اپنی سوچ سے اس کا یہ حل نکالا کہ Signifier/Signified کے تفریقی تصورات کو کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل قرار دے کر ان میں ارتباط (وحدت) پیدا کی، اور اس کو Sign (نشان) کا نام دیا۔ غرض یوں سوسیئر نے اپنے پہلے بیان کی توسیع کر دی ، اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بے شک Signifier/Signified الگ الگ تو افتراقی نوعیت رکھتے ہیں، لیکن جب یہ زبان میں مل کر عمل آرا ہوتے ہیں بطورِ نشان یعنی بطور ایک واحدے کے تو یہ ‘‘مثبت’’ کردار ادا کرتے ہیں۔
… … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … …
سوسیئر نے Signifier/Signified کے افتراقی تصورات میں ٹانکا لگا کر ان میں وحدت پیدا کر دی اور یوں اپنی اصل دریافت کے انتشار انگیز مضمرات پر قابو پا لیا۔ دریدا اور سوسیئر کی فکر میں فرق بس یہی ہے کہ کہ سوسیئر نے زبان کے جس افتراق پر قابو پانے کے لیے نشانِ وحدت کو قائم کیا، دریدا نے اپنی منطقی قوت سے اسے پاش پاش کر دیا اور دلیل افتراق کو استقلال عطا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں Sinifier/Signified کے درمیان وحدت کا جو ٹانکا سوسیئر نے لگا دیا تھا، دریدا نے اسے کھول دیا، اور دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں ۔۔۔۔Signifier اور Signified اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے۔[23]
لفظ اور معنی کے باہمی رشتہ کے فطری نہ ہو کر آربٹریری ہونے کی فلسفیانہ تعبیر کی کلیدی اہمیت پر ناصر عباس نیر کی ایک تحریر سے بھی پرروشنی پڑتی ہے :
…سوسیئر نے لسانی نشان کے باب میں جو خیالات ظاہر کیے ہیں، وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں، بلکہ یہی وہ خیالات ہیں جن پر لیوی اسٹراس (ماہر بشریات) رولاں بارت (نقاد) میثل فوکو (تاریخی فلسفی) ژاک لاکان (ماہر تحلیل نفسی) اور ژاک دریدا (فلسفی اور نقاد) نے اپنے اپنے فکری نظاموں کی بنیادیں کھڑی کیں۔ سوسیئر نے واضح کیا کہ دال اور مدلول لازم و ملزوم تو ہیں مگر دونوں میں جو رشتہ ہے وہ من مانا (Arbitrary) ہے۔ آسان لفظوں میں: کسی شئے کی نمائندگی کے لیے جو لفظ وضع کیا جاتا ہے وہ اس شے کی حقیقی فطرت اور داخلی خاصیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ لفظ اور شے میں کوئی حقیقی، فطری اور منطقی رشتہ نہیں۔ الفاظ اور اسما اشیا کی اصل کو منعکس نہیں کرتے…[24]
اقتباس طویل تو ہے لیکن یہ اس لیے پیش کیا گیا تا کہ معلوم ہو کہ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ میں فطری رشتہ نہ ہونے، سوسیئر کے ذریعے لسانی نشان کی وحدت کی تشکیل اور پھر ژاک دریدا کے ذریعے اس کی ردتشکیل کا یہ پورا معاملہ کس درجہ حساس ہے اور مغرب میں واقع ہونے والے اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی کی کس درجہ اہمیت ہو سکتی ہے اگر تحقیق سے ثابت ہو کہ ان کے ہاں بھی اس موضوع پر ایک نہیں کئی مماثل نکات کا پائے جاتے ہیں.


4
اب میں مولوی ذکاءاللہ کے رسالہ تقویم اللسان سے نمبر وار کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے لفظ و معنی اور زبان کی نوعیت و ماہیت پر ان کے خیالات سے کسی قدر واقفیت حاصل ہوتی ہے. کئی اقتباسات کے نیچے میں نے اپنے مختصر تبصرے کیے ہیں اور ان میں سے بعض تبصروں میں گوپی چند نارنگ کی متعلقہ کتاب سے کارآمد اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی ذکاء اللہ کا تصور لفظ و معنی سوسیئری تصورات کے مشابہ ہے اور زمانی طور پر مقدم بھی۔ اقتباس میں جو جملہ یا اس کا کوئی حصہ خصوصی توجہ کا طالب ہے وہ خط کشیدہ ہیں۔

رسالہ تقویم اللسان از شمس العلماء مولوی محمد ذکااللہ ، مطبع شمس المطابع دہلی میں باہتمام منشی محمد عطاءاللہ ،مطبوعہ ۱۸۹۳ عیسوی

تصور کے لئے الفاظ کا یا کلمات کا علامات عامہ بننا
چیزوں کی صورتیں جو ذہن میں پیدا ہوتی ہیں ان صورتوں کو تصور کہتے ہیں یعنی ہر ایک چیز کے لیے جو ایک خیال ذہن میں ہے وہی خیال اس چیز کا تصور ہے۔ جب ہم کسی چیز کا خیال کریں اس سے جو کچھ ہمارے ذہن میں آئے وہ تصور ہے۔ … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … … …. … … … … … … … … … … … … … ... … … …تصور کے لیے جو آواز علامت یا نشانی مقرر کی جاتی ہے اسکو لفظ کہتے ہیں۔ علامت یا نشانی کے معنی تم جانتے ہو کہ یہ ہیں کہ اس سے وہی تصور پیدا ہو جو اصل اس شئے سے پیدا ہوتا ہے جسکی وہ نشانی ہے۔ [25]

یہاں کسی تشریح مزید کی حاجت نہیں۔ خط کشیدہ جملوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے صرف گوپی چند نارنگ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرنا کافی ہوگا:’’ نشان (سائن) کو اس دوہرے رشتے کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے ، جو اس کے ’صوتی امیج ‘ اور ’تصور‘ کے بیچ میں ہے ۔ نشان ان دونوں کا مجموعہ ہے ۔ … … … یعنی صوتی امیج ’ معنی نما‘ ہے اور تصور ’معنی ‘ ہے۔… … ‘‘ [26]

مادی اشیائے خارجی کے تصورِ محسوسہ کے لیے جو الفاظ وضع ہوئے تھے انہیں کے معانی ایسے وضع ہو گئے کہ وہ اشیا ٔ باطنی غیر مادی پر دلالت کرنے لگے مثلاً عقل کے اصل معنی لغت میں پانؤں میں بند باندھنے کے تھے۔ مگر اب وہ اس قوت پر دلالت کرتی ہے جو حقائق و امور کو ادراک کرتی ہے اور علوم کی مدرک ہے اور وہ بھلائی اور نفع خیز چیز ہےکی طرف خواہش دلاتی ہے اور شر و مضرت سے بچاتی ہے۔ یعنی جیسے پیروں کی بندش جانور کو چلنے نہیں دیتی تھی اسی طرح جو قوت طبیعت کو افعال ذمیمہ کی طرف نہیں جانے دیتی۔ اسکا نام عقل رکھا گیا۔ غرض وہی الفاظ کہ جو اشیأ باعیان خارجی پر دلالت کرتے تھے، اشیا ذہنی پر دلالت کرنے لگے۔ [27]

… … … ضرورت پڑی کہ وہ (انسان) اپنے تصورات و خیالات کے اظہار کے لیے علامات جو محسوس ہوں وضع کرے۔ اس مطلب برآری کے لیے آواز سے بہتر کوئی شئے اور انسان کو ہاتھ نہ لگی۔ آواز ہی ایسی شئے ہے کہ جلدی سے ایک کے پاس سے دوسرے پاس پہنچ جائے اور طرح طرح کی صورتیں بہ آسانی و بکثرت بنا لے۔ پس یہ آوازیں جنکو الفاظ یا کلمات کہتے ہیں گویا قدرت ہی سے اس کام کے لیے موضوع و موزوں ہوئی تھیں۔ مگر یہ یاد رکھو کہ الفاظ و معانی میں کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے۔ اگر دلالتِ لفظ باقتضا ٔ ذات لفظ ہوتی تو قریوں و شہروں و ملکوں میں زبانوں کا اختلاف نہ ہوتا۔ ہر شخص ہر لفظ کے ایک ہی معنی سمجھتا اور لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معانی کی طرف محال ہوتی اس واسطے کہ جب لفظ کے معنی بالذات ہوتے تو اسکا انفکاک محال تھا۔ ساری دنیا کی ایک زبان ہوتی۔ غرض یہ امر کہ انسان کے اختیار میں تھا کہ اپنے ہر تصور کی ظاہری نشانی اسنے کسی لفظ کو مقرر کر لیا۔ پس الفاظ کا بولنا اپنے تصور کی محسوس نشانیاں دکھانا ہے اور ان الفاظ کے معانی وہی ہمارے تصور کہلاتے ہیں یعنی جو انکا مدلول ہمارے ذہن میں ہے۔[28]
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مولوی ذکاءاللہ نے فطری رشتہ کے بجائے طبعی مناسبت کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو’’ فطری رشتہ ‘‘ سے مختلف ہیں اور یہ محض ایک لفظی فرق نہیں ہے۔سابقہ اقتباسات میں یہ نکتہ گز ر چکا ہے کہ ان کے نزدیک الفاظ علامات عامہ ہیں اور ’’ مادی اشیائے خارجی کے تصور محسوسہ کے لیے جو الفاظ یا علامات وضع ہوئے وہ بعد میں اشیائے باطنی غیرمادی پر دلالت کرنے لگے۔‘‘ پیش نظر اقتباس میں مزید آگے انہوں نے فرمایا کہ ’’ الفاظ کا بولنا اپنے تصور کی محسوس نشانیاں دکھانا ہے اور ان الفاظ کے معانی وہی ہمارے تصور کہلاتے ہیں یعنی جو انکا مدلول ہمارے ذہن میں ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ذکا اللہ کے نزدیک ’معنی ‘ سے مراد ہر وہ ذہنی خیال یا تصور ہے جس پر کوئی علامت یا نشانی دلالت کرتی ہے۔ اس طرح لفظ و معنی میں طبعی مناسبت نہ ہونے کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ لفظ یا علامت اور اس کے ذہنی تصور یا مدلول میں کوئی ایسی مناسبت نہیں جس کو طبعی کہا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی ساختیاتی و پس ساختیاتی فلسفہ لسان سے زاویاتی طور پر مختلف ہے اور ان کے موقف کو پہلے اور بعد کے علمائے لسانیات کے موقف سے ممتاز کرتا ہے ۔ممکن ہے مزید دیگر نقطہ ہائے نظر سے تحقیق کرنے پر زاویے کا یہ اختلاف اور بھی بڑھ جائے یا تقریباً وہی رہے جو سوسیئر کا ہے لیکن اتنا قطعی ہے کہ یہ بعینہ وہی بات ہرگز نہیں ہے جس کی رو سے لفظ و معنی کا رشتہ فطری نہ ہو کر آربٹریری ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ وہ کہہ چکے ہوں کہ زبان کی بامعنی "آوازیں جن کو الفاظ یا کلمات کہتے ہیں گویا قدرت ہی سے اس کام کے لیے موضوع و موزوں ہوئی تھیں۔" پس، مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی زبان کے الفاظ کو فطری کی تعریف سے خارج کرتا ہوا نہیں معلوم ہوتا.

انہوں نے اس اقتباس میں مدلول کا ذکر جس سیاق میں کیا ہے اس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ کا تصور بھی بالکل واضح ہے۔ اردو میں ان اصطلاحات کا متبادل معنی نما اور تصور معنی مستعمل ہے حالانکہ دال اور مدلول کی اصطلاح بھی رائج ہے ۔کیس فرستیخ [29] کے بقول دال اور مدلول کو سوسیئر کے سگنی فائیڈ اور سگنی فائر کے مساوی سمجھنا غلط ہے کیونکہ اول الذکر ایک فکری اصطلاح ہے جو لسانیاتی نشان کا لسانیاتی معنی قطعی نہیں ہو سکتا۔ [30] لیکن مولوی ذکاءاللہ نے تقویم میں دال اور مدلول کی اصطلاح کے بجائے’لفظ اور مدلول‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہاں پر کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مولوی ذکاءاللہ نے بعینہ سوسیئر کے معنوں میں لسانی نشان کی وحدت کی تشکیل کی تھی اور وہ بھی لفظ اور مدلول کو کاغذ کی دو طرفوں کے مماثل قراردیتے تھے حالانکہ وہ لفظ اور مدلول میں "ایک تعلق" ہونے کی بات تسلیم کرتے ہیں جس کا ذکر اگلے اقتباس میں آ رہا ہے۔
جب آدمی مشق سے اپنے مفہومات ذہنی اور مافی الضمیر کے بیان کرنے پر قادر ہو جاتا ہے تو اس کے ذہن میں الفاظ فوراً تصورات کی ایسی تحریک کرتے ہیں جیسے کہ اصل اشیا جن سے وہ تصورات ہوئے تھے۔ ابھی منہ سے لفظ نکلا نہیں کہ اس کا اصل مدلول ذہن میں آ موجود ہوتا ہے۔
… … … جب ہم بولتے ہیں تو الفاظ کے معانی قریبہ وہی تصورات ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم کو بچپنے سے بہت سے الفاظ بولنے کی مشق ایسی چڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ بے اختیار ہمارے زبان کی نوک پر آتے ہیں … … … الفاظ کا استعمال جب تک بامعانی ہوتا ہے تو آواز اور تصور میں ایک تعلق ہوتا ہے اور جب یہ نہ ہو تو الفاظ ایک آواز بے معنی ہوتے ہیں۔ [31]
مولوی ذکاءاللہ لفظ اور معنی میں ایک تعلق تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کی نوعیت کے بارے میں نہیں کہتے کہ وہ غیرفطری یا آربٹریری ہے بلکہ اس کے برعکس وہ الفاظ کو گویا قدرت ہی کی جانب سے موضوع اور موزوں بتاتے ہیں ۔ پھر وہ اس رشتے کو فطری کی تعریف سے کیسے خارج کر سکتے تھے؟


5

جو اقتباسات اوپر پیش کیے گئے ہیں ان سے صریحاً یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ لفظ و معنی میں طبعی مناسبت کے نہ ہونے کی حکمت ان کے نزدیک کیا ہے لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک بار پھر اس کا اعادہ سوسیئری نشان کی دریدائی ردتشکیل کے حوالے سے کرنا ضروری ہے. جب بقول نارنگ ژاک دریدا ’’دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر تا ہے کہ زبان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے‘‘ تو کیا وہ ، غالباً، وہی بات تو نہیں کہہ رہا ہے کہ جو مولوی ذکاءاللہ ایک صدی قبل سے زیادہ عرصہ ہوا کہہ گئے ہیں؟ (یہ میں نے مجرد ایک سوال اٹھایا ہے، سوال کے پردے میں یہ میرا دعوی نہیں ہے). یعنی اگر معنی نما اور تصور معنی (سگنی فائر و سگنی فائیڈ ) میں افتراق نہ ہو کر ان میں طبعی مناسبت ہوتی تو لفظ اور اس کے معنی ایک دوسرے سے جدا نہ کیے جا سکتے، ان کے درمیان ایک اور ایک کا ناقابل انفکاک رشتہ قائم ہو جاتا ، اور ہر ایک معنی کے لیے جد ا جدا الفاظ وضع ہوتے، یہاں تک کہ انہیں یاد رکھنا اور استعمال کرنا رفتہ رفتہ قطعی ناممکن ہوجاتا۔ اوپر ردتشکیل کے سلسلے میں جو عبارت میں نے نارنگ کی ساختیات سے نقل کی ہے، اس کے ایک حصے کو ایک بار پھر دیکھنے کی زحمت دینا چاہتا ہوں:
دریدا اور سوسیئر کی فکر میں فرق بس یہی ہے کہ کہ سوسیئر نے زبان کے جس افتراق پر قابو پانے کے لیے نشانِ وحدت کو قائم کیا، دریدا نے اپنی منطقی قوت سے اسے پاش پاش کر دیا اور دلیل افتراق کو استقلال عطا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں سگنی فائر/ سگنی فائیڈ کے درمیان وحدت کا جو ٹانکا سوسیئر نے لگا دیا تھا، دریدا نے اسے کھول دیا، اور دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں ۔۔۔۔ سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں، اور ان میں وصل ناممکن ہے۔
یہ نکتہ کہ "زبان میں سگنی فائر و سگنی فائیڈ اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں " فی الاصل وہی بات ہو سکتی ہے جو مولوی ذکا اللہ کی درج ذیل عبار ت میں کہی گئی ہے:
مگر یہ یاد رکھو کہ الفاظ و معانی میں کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے۔ اگر دلالتِ لفظ باقتضا ٔ ذات لفظ ہوتی تو قریوں و شہروں و ملکوں میں زبانوں کا اختلاف نہ ہوتا۔ ہر شخص ہر لفظ کے ایک ہی معنی سمجھتا اور لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معانی کی طرف محال ہوتی اسواسطے کہ جب لفظ کے معنی بالذات ہوتے تو اسکا انفکاک محال تھا۔
اور لفظ سے اگر اس کے معنی کو جدا کر کے اسے دوسرے معنوں میں استعمال نہ کیا جا سکے تو کیا مسئلہ پیدا ہوگا، اس کے متعلق وہ کہتے ہیں:
اگر ہر تصور جزئی کے لیے لفظ وضع کیا جاتا تو الفاظ نہایت کثیرالتعداد ہوتے کہ اونکا انحصار و انضباط متعذر ہوتا۔ اسلیے یہی زبان کے لیے مفید سمجھا گیا کہ کلی تصور کے ناموں کے لئے زیادہ تر الفاظ وضع کئے جائیں اور جزئی تصور کے لئے خاص الفاظ مقرر ہوں۔ ایسی صورت میں آدمیوں کا باہم ہم ہمکلام ہونا سہل ہوگا۔ اسلئے کلی تصور کے لئے عام نام رکھے گئے۔[32]
مجھے قطعی واضح طور پر نہیں معلوم کہ ژاک دریدا کے نزدیک زبان میں سگنی فائر و سگنی فائیڈ اپنے افتراقات سے کیونکر کارگر ہوتے ہیں ، مجھے اس سلسلے میں مزید مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت ہے اور ممکن ہے میرا یہ قیاس غلط ہو، لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مولوی ذکاءاللہ کے نزدیک لفظ و معنی میں طبعی مناسبت کا نہ ہونا کتنا ضروری اور مفید ہے کہ زبان اس کے بغیر ہرگز کارگر نہیں ہو سکتی. انفکاک کا جو تصور مولوی ذکاءاللہ کے ہاں موجود ہے ، تقریباً وہی دریدا کے ہاں افتراق کا ہے۔ مولوی ذکاءاللہ ’’انفکاک‘‘ کو مثبت طور پر بیان کرتے ہیں جبکہ گوپی چند نارنگ کی ترجمانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دریدا ’’ افتراق ‘‘کو منفی طور پر بیان کرتا ہے۔مولوی ذکاءاللہ اپنے تصور’’ انفکاک‘‘ کو لفظ کے ایک معنی کی نقل دوسرے معنی کی طرف ہونے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ ژاک دریدا سوسیئر سے ماخوذ اپنے نظریے ’’افتراق‘‘ کو معنی خیزی کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ دریدا کی ترجمانی میں نارنگ نے لکھا ہے کہ وہ اپنے تصور افتراق کو ایک ساخت اور ایک تحریک قرار دیتا ہے جس کے تین خصائص ہیں جن میں پہلی خصوصیت یہ ہے:
… … …اس کی رو سے زبان کے عناصر میں افتراق اور اس کی وجہ سے معنی خیزی کا کھیل جاری رہتا ہے ۔[33]
پس، غالباً یہی وہ نکتہ ہے جس کے متعلق نارنگ صاحب نے فرمایا ہے کہ’’ دریدا نے دلیل کی مضبوطی سے ثابت کر دیا کہ زبان میں سگنی فائر اور سگنی فائیڈ اپنے افتراقات ہی سے کارگر ہیں۔ ‘‘اگر الفاظ و معنی باہم ناقابل انفکاک ہوں یا ان میں افتراق نہ پایا جائے تو ظاہر ہے ذکاءاللہ کے نزدیک ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی نہیں ہو سکتے ، اور کثرت الفاظ کے سبب زبان کا استعمال ناممکن ہو جائے اور دریدا کے نزدیک بھی افتراق وہ سبب ہے جو معنی خیزی کے کھیل کو ممکن بناتا ہے۔ یعنی ذکاءاللہ اور دریدا دونوں اصل بات پر متفق ہیں لیکن کہنے کا انداز جدا ہے۔ ایک معنی خیزی کو کھیل بتاتا ہے اور دوسرا اس کی حکمت بیان کرتا ہے اور باتیں دونوں کی دلچسپ ہیں البتہ مولوی ذکاءاللہ کے تصورِ انفکاک کو دریدا کے نظریہ افتراق پر زمانی تقدم حاصل ہے حالانکہ ’’انفکاک ‘‘کا تصور مولوی ذکاءاللہ کے ہاں کسی باضابطہ نظریہ کی صورت میں نہیں ڈھلتا ہے۔

6

گوپی چند نارنگ اردو کے جن الفاظ کی مدد سے سوسیئر کی تفہیم کراتے ہیں ان سے میری سمجھ میں فی الحال یہی باتیں آتی ہیں کہ سوسیئر کے زمانے تک دنیا آزادانہ وجود رکھنے والی اشیا سے عبارت تھی، لوگ صدیوں سے مانتے چلے آ رہے تھے کہ زبان ایک "جوہری" اور "قائم بالذات" چیز ہے، یہ تسمیہ یا اشیا کو نام دینے والا نظام ہے جس سے بالعموم مراد یہ تھی کہ لفظ کا معنی اور شئے سے فطری رشتہ ہے، لفظ میں معنی کسی نہ کسی طور موجود ہے، اسی لیے زبان اظہار خیال کا ایک شفاف میڈیم ہے۔ لوگوں کے ذہن میں زبان کے فطری ہونے کی شرط یہ تھی کہ لفظ میں شئے کی خصوصیت ہونی چاہیے ۔ یہی وہ عقبی تصور تھا جس کی بنا پر یہ خیال اپنی جڑیں جمائے ہوئے تھا کہ لفظ میں شئے کی حقیقت پائی جاتی ہے، چنانچہ سوسیئر نے لفظ اور معنی میں فطری رشتہ ڈھونڈا ، یعنی لفظ میں شئے کی خصوصیت جس کو نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ پس جو رشتہ پہلے فطری ہوا کرتا تھا وہ اب غیرفطری ٹھہرا، اور جو زبان پہلے شفاف سمجھی جاتی تھی اب وہ غیرشفاف قرار پائی۔ تعبیر کی یہ غلطی اور شدید ہو گئی جب لفظ و معنی کے رشتے کو آربٹریری بھی کہہ دیا گیا۔ اس سے یہ بات نکلتی تھی کہ جس لفظ کو جیسے چاہو استعمال کرو، وہ نقلِ معنی میں مزاحم نہیں ہو سکتا ۔ یہ مسئلہ یوں دور ہوا کہ معنی کسی خارجی قوت کی رو سے طے نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ زبان کی ساخت کے عطاکردہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مفروضے کا ایک اثر ساختیاتی فلسفہ لسان میں یہ ظاہر ہوا کہ معنی آفرینی زبان کے نظام کے تابع ہو گئی جس کے بعد اس میں سے زبان کی یہ حقیقت خارج ہو گئی کہ یہ انسان کے ارادہ پر مبنی ایک فنکارانہ شئے بھی ہے جسے سائنسی طور پر گرفت میں لانا ممکن نہیں ہے۔ نارنگ صاحب نے اپنی کتاب میں سوسیئر کی جس قدر ترجمانی کی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کی دنیا میں منفرد لفظ اپنے معنی کی تشکیل میں بالذات اپنا کوئی دخل نہیں رکھتا اور زبان کی ساخت کے سوا کوئی خارجی قوت ایسی نہیں ہے جو اس کو معنی عطاکرتی ہو۔ ان کی ترجمانی کے مطابق فلسفہ ساختیات میں لفظ و معنی کا وہ نقطہ نظر جگہ نہ پا سکا کہ زبان کے الفاظ اور معانی قدرت ہی کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے باہم ’’موضوع ہونے‘‘ کے ساتھ ’’موزوں‘‘ بھی ہوتے ہیں حالانکہ اس موزونیت کو گرفت میں لانا اکثر اوقات ممکن نہیں رہتا۔ لیکن محض اس سبب سے کہ ہم لفظ و معنی کی موزونیت و تناسب باہمی کو گرفت میں نہیں لا سکتے، لفظ و معنی کے رشتہ کے فطری ہونے کی نہ صرف یہ کہ نفی کریں بلکہ اس کو آربٹریری بھی باور کرائیں، یہ بھی یقیناً کوئی سائنسی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض الفاظ و معانی میں ایک مناسبت پائی جاتی ہے اگرچہ ان میں طبعی یا فطری رشتہ نہ ہو ۔ پس، ایسی تعبیرکو نہ سائنس کہا جا سکتا ہے اور نہ سائنس کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

لفظ و معنی کے باہمی رشتے کے فطری و آربٹریری ہونے کا یہ پورا معاملہ مروجہ عقائد کی ایک غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے دوسری غلطی میں مبتلا ہو جانے پر مبنی تھا۔ اگر ہم بالذات زبان کے قوانین کو قوانین فطرت کا حصہ ہونا تسلیم کریں تو کچھ وجہ نہیں کہ لفظ اور معنی کے تعلق کو بھی ہم فطری نہ کہیں۔انسان کے آلات نطق سے کلمات کا نکلنا کسی نہ کسی فطری قانون کے تحت ہی تو واقع ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کے ذہن میں جو تصورات و خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی فطری قانون کی رو سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح لفظ کا اپنے ذہنی تصور اور خیال کی طرف اشارہ بھی کسی فطری قانون کے تحت ہی واقع ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کائنات کی کوئی بھی شئے اور مظہر ایسا نہیں ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ غیرفطری ہے۔جو کچھ ہوا، ہو رہا ہے اور ہوگا وہ سب کچھ فطری کی تعریف میں داخل سمجھا جائے گا۔لیکن انسان کائنات میں ارادتاً تصرف کرتا ہے جس کے بعد اس کے گرد و پیش کی اشیا سابقہ حالت پر باقی نہیں رہتیں، اور چونکہ انسان کے ارادی اعمال کے نتیجے میں اشیا میں جو تغیر ات دیکھے جاتے ہیں انہیں سابقہ فطری حالت سے جدا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، اور محض اسی لیے انسانی ارادہ کی کارفرمائی پر مبنی تغیرات کو تمدنی حالت بتاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں سابقہ حالت کو فطری حالت کہتے ہیں،اسی کے نتیجے میں تمدنی اور فطری حالت میں اختلاف معنی ہوتا ہے اور تہذیبی و فطری کی ڈائیکاٹومی وجود میں آتی ہے ورنہ پہاڑوں اور درختوں کی طرح تہذیب و تمدن بھی قوانین فطرت کے تحت ہی ظہور میں آتے ہیں۔ اس سیاق میں کہہ سکتے ہیں کہ زبان بھی ایک فطری شئے ہے لیکن چونکہ زبان ایک ایسا انسانی کارنامہ ہے جو بیک وقت ارادی بھی ہے اور غیرارادی بھی اس لیے اس کو سابقہ ان چھوئی حالت کے معنوں میں فطری نہیں کہہ سکتے ہیں ورنہ پھر انسان کے ارادی اعمال کو قدرتی واقعات و حوادث سے ممتاز نہ کیا جا سکے گا۔ پس، فطرت کے وسیع تر معنوں میں انسانی زبان کا فطری ہونا ضروری ہے لیکن سابقہ ان چھوئی حالت پر مبنی معنوں میں زبان کو فطری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں انسانی ارادہ شامل ہو چکا ۔یہی معاملہ لفظ و معنی اور ان کے باہمی رشتے کا بھی ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں انسانی ارادہ اور شعور کی کارفرمائی ہے ، اس لیے یہ دونوں چیزیں بھی اس خاص معنی میں فطری نہیں ہو سکتیں۔ لیکن وسیع تر معنوں میں یقیناً وہ فطری حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وہ ممکنہ سبب نظر آتا ہے کہ مولوی ذکاءاللہ نے تقویم میں لفظ و معنی میں تعلق پر فطری و آربٹریری والی بحث نہیں اٹھائی اور فرمایا کہ لفظ و معنی گویا قدرت ہی کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے موضوع اور موزوں ہوئے تھے. اس نقطہ نظر کے مقابلے میں یہ نقطہ نظر کہ لفظ میں شئے کی خصوصیت ہو تبھی ہم زبان کو فطری مانیں گے کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتا۔ یہ نقطہ نظر دراصل اور چیزوں کے طبیعی خواص کو تو تسلیم کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے لیکن زبان ہی کے سلسلے میں اس کو اعتراض ہے کہ دیگر اشیا کی خصوصیات اس کے اندرکیوں نہیں پائی جاتیں؟ زبان اگر مثل دیگر متنوع اشیا کے ایک نوع کی شئے ہے تو اس کا اپنا امتیازی وجود بھی ضرور ہوگا جس کو دیگر اشیا کی طرح فطری ہی کہنا چاہیے اور اسی نسبت سے زبان کے الفاظ کو بھی اپنے معنی کی طرف فطری اشارہ کرنے والا سمجھنا چاہیے۔

7

مجھے علم نہیں کہ شبخون یا کسی اور اردو جریدے میں مولوی ذکاءاللہ کا تصور لفظ و معنی ساختیاتی و پس ساختیاتی تھیوری کے اردو میں داخلے کے بعد زیربحث آیا یا نہیں۔ اس کے لیے ظاہر ہے کم و بیش چالیس سال پہلے سے اب تک کے علمی و ادبی لٹریچر کو کھنگالنا ہوگا جو بہت مشکل کام ہے۔ لیکن اپنی حدتک مجھے یقین ہے کہ میں نے اس سے پہلے نہ کہیں مولوی ذکاءاللہ کے تصور لفظ و معنی پر کوئی مضمون پڑھا نہ کسی اور سے اس کا ذکر سنا۔ یہ تو میری تحقیقی جستجو تھی جس نے مجھے ان تک پہنچایا ۔ممکن ہے بعض لوگ کہیں کہ لفظ و معنی پر مولوی ذکاءاللہ کے تصورات کو اس تناظر میں بیان کرنے کی کیا ضرورت ؟ پہلےبھی تو یہ بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ لفظ و معنی میں کوئی فطری رشتہ نہیں ۔مشرقی ہو یا مغربی کسی بھی علمی روایت میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں رہ گئی، اس لیے ضرورت سے زیادہ اس مسئلے کو طول دینا آخر کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ نارنگ صاحب کی اس پوری کتاب کو دیکھ جائیے، ماضی بعید کے مشرقی فلسفوں میں جہاں کہیں بھی انہیں سوسیئر کے اس نکتے سے جس قدر مشابہت کا امکان تھا،، انہوں نے بصد اہتمام اس کو درج کیا ہے۔ پس، اگر ہمارا علمی ماضی بعید واقعی اتنا شاندار اور تابناک ہے تو اس کو سامنے لانا ہماری ہی ذمہ داری ہے جسے اہل مغرب ادا کر رہے ہیں اپنے علمی کارناموں کے ذریعے . چنانچہ نارنگ صاحب ساختیات کے دیباچے میں ہی فرماتے ہیں کہ:
اس مطالعے سے یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ سوسیئر سنسکرت میں استعداد علمی رکھتا تھا اور قرینہ غالب ہے کہ اس نے سنسکرت فلسفہ لسان اور بودھی فکر سے استفادہ کیا ہو۔ سوسیئر اور دریدا کی فکر اور نیایے اور بودھی نظریہ اپوہ اور شونیہ میں حیرت انگیز مماثلت اور مطابقت ملتی ہے، اس مطالعہ سے یہ توقع بھی پیدا ہوتی ہے کہ مشرقی شعریات کے وہ تصورات و نکات جو اپنی سرزمین میں بھولی بسری یاد بن گئے، ممکن ہے کہ نئی تھیوری سے فکری مشابہتوں کے باعث از سر نو دلچسپی کا مرکز بن جائیں اور نئی ادبی توقعات کے افق پر نئی معنویت کے حامل نظر آنے لگیں۔ یہی کیفیت عربی فارسی روایت میں بھی ملتی ہے۔ کتنے نکات ایسے ہیں جو جدید فلسفہ لسان یا ساختیات کے پیشرو معلوم ہوتے ہیں بھلے ہی ان کی منطقی تحلیل اس درجہ نہ کی گئی ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم ان سے غافل رہے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ عبدالقاہر جرجانی یا ابن حزم تک بھی ہم نئے فلسفیوں کی وساطت سے پہنچے ہیں ورنہ مشرقی کتابیں تو بالعموم ان کے ذکر سے خالی ہیں۔ بہرحال روایت کو چوں کہ ہم نئی معنویت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ہمیں از سر نو پرانی بصیرتوں کا سراغ مل رہا ہے ۔ [34]
پس، اگر ہمارے تابناک لیکن بعید ماضیوں میں کتنے ہی نکات ایسے ہیں جو جدید فلسفہ لسان یا ساختیات کے پیش رو معلوم ہوتے ہیں تو ماضی قریب کے مولوی ذکاءاللہ تو لسانی نشان کے باب میں بدرجہ اولی سوسیئر کے پیشروں میں سے ایک کہلانے کے مستحق ہیں. لفظ و معنی کے باب میں ساختیاتی فلسفہ لسان سے اس درجہ مشابہت کے ساتھ سوسیئر بلکہ اپنے تصور’’ انفکاک ‘‘کی بنا پر ژاک دریدا پر معنوی تقدم حاصل ہوجانا کوئی معمولی بات تو نہیں اور وہ بھی اس دور میں جبکہ ہم اپنی ان پرانی بصیرتوں کا سراغ فرزندان مغرب کے کارناموں میں لگانے پر مجبور ہوں جنہیں لوگ بھول بسر گئے ہوں.

لیکن ، ٹھہریے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم گرفتارماضی اور مبتلائے تاریخ لوگ ہیں۔ ہم کسی نئے فلسفے پر ایمان نہیں لاتے جس کی اجازت ہمارا تہذیبی ماضی نہ دیتا ہو۔ ہم ہر اس چیز پر بحث اور گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو ہماری روایت سے لگا نہ کھاتا ہو۔ اس چیز کو عالم مغرب میں بنیادپرستی کہا جاتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارا ماضی واقعی تابناک تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کی یہ بصیرتیں ماضی میں ہی کیوں رہ گئیں؟ ہم انہیں اپنے ساتھ زمانہ حال تک کیوں نہ لا سکے ؟ صرف اس لیے کہ جن بنیادوں پر ہم نئی چیزوں کی تصدیق اپنے ماضی سے آج کرنا چاہتے ہیں اسی طرح ماضی میں بھی ہر نئی چیز کی تصدیق لوگ ماضی سے ہی چاہتے تھے جو ہر معاملے میں نہیں ہو سکتی تھی ، پس بہت سی نئی چیزوں کو بھُلا اور مٹا دینا ہی انسب خیال کیا جاتا تھا تا کہ روایت ایک انچ بھی اِدھر سے اُدھر نہ ہو۔اور وہی غلطی ہم ایک بار پھر کر رہے ہیں کہ ماضی کی عظمت رفتہ کی بنا پر زمانہ آئندہ کا قصر تعمیر کرنا چاہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمان و مکاں کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتے ہی نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی تثلیث میں زمانہ کے دو مفروضہ حصوں، حال اور مستقبل پر تیسرے مفروضہ حصے ماضی کو فوقیت دیتے ہیں ۔ لیکن چونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تہذیبوں کے قوائے فکر و عمل سرود رفتہ اور ایام گم گشتہ کی ترغیب سے حرکت میں آتے ہیں اس لیے تابناک ماضی کو ان کا محرک بنایا جاتا ہے اور گردش ایام سے کہا جاتا ہے کہ لوٹ کر آئے اور پھر وہی صبح و شام دکھائے جو تہذیبوں کے طاق نسیاں کی نذر ہو گئیں.لیکن نہ ہر نئی فکر کے لیے ماضی سے ایک دلیل فراہم کی جا سکتی ہے اور نہ ماضی کی ہر بنیاد پر مستقبل کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے ۔اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ماضی کی فلاں بنیاد ابدی و دائمی ہے اور فلاں عارضی، اس لیے ایک میں تغیر جائز ہے اور دوسرے میں ناجائز۔ کارتجدید کے لیے تہذیبی روایتِ نقلی میں حریت فکر و ضمیر سے مالامال درایتِ عقلی کی ضرورت پڑتی ہے اور یہی وہ نعمت عظمی ہے جس کے حاصل ہونے سے انسان عمل و خیال کی نئی طرحیں بھی ڈال سکتا ہے اور تعبیر و تحقیق معانی میں نئی طرفوں کو بھی سامنے لا سکتا ہے.

[زمانہ ٔ فکر و تحقیق اور تحریر: دسمبر 2013 سے 11 جنوری 2016، تاریخ اشاعت: 11 جنوری 2016 ، ادبی دنیا ڈوٹ کوم، مشمولہ جدید ترین ، پہلا شمارہ ، اڈیٹر: تصنیف حیدر، نئی دہلی ] 

حواشی:
[1] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، بار سوم (دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2004)، 46.
[2] حوالہ سابق، 225–26.
[3] ناصر عباس نیر، ساختیات: ایک تعارف، دوم (اسلام آباد: پورب اکادمی، ۲۰۱۱)، ۱۲۲.
[4] اس پر اڈیشن درج نہیں ہے۔
[5] یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ سوسیئر مولوی ذکاءاللہ سے متاثر تھا۔
[6] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 9.
[7] حوالہ سابق، 10.
[8] حوالہ سابق، 60.
[9] حوالہ سابق، 67.
[10] حوالہ سابق.
[11] حوالہ سابق، 68.
[12] CRATYLUS
[13] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 338.
[14] حوالہ سابق، 343.
[15] حوالہ سابق، 349.
[16] حوالہ سابق، 348.
[17] حوالہ سابق، 399–400.
[18] Their signification perfectly arbitrary، not the consequence of a natural connexion. John Locke، AN ESSAY CONCERNING HUMAN UNDERSTANDING (1690)، 27th Ed. (London: Printed For T. Tegg and Son، 1836)، 293–94، http://books.google.com/books/about/An_Essay_Concerning_Human_Understanding.html?id=vjYIAAAAQAAJ.
[19] ژرار ژینت، “زبان کے بارے میں وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تصورات،” شبخون، 1985، 1.
[20] Winfried Noth
[21] ونفرائیڈ ناتھ، “زبان، معنی، اور رسومیات،” شبخون، 1999، 1.
[22] شمس الرحمان فاروقی، “تعبیر کی شرح،” شبخون، 1994، 62–63.
[23] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 225–26.
[24] ناصر عباس نیر، ’’ساختیات اور ساختیاتی تنقید‘‘ ، مشمولہ ساختیات: ایک تعارف، 2011t (اسلام آباد: پورب اکادمی)، 116.
[25] مولوی محمد ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، اڈیشن درج نہیں (مطبع شمس المطابع بااہتمام منشی محمد عطااللہ، 1893)، 4.
[26] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 66.
[27] ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، 4–5.
[28] حوالہ سابق، 5–6.
[29] Kees Versteegh
[30] “One might be tempted to equate d¯all and madl¯ul with the Saussurean dichotomy of ‘signifiant’ and ‘signifié’. But such an equation would be wrong: the madl¯ul or the ma_n¯a is a thought concept، or perhaps the intended meaning of the speaker، but certainly not the linguistic meaning of a linguistic sign.” Kees Versteegh، “The Arabic Tradition،” in The Emergence of Semantics in Four Linguistic Traditions : Hebrew، Sanskrit، Greek، Arabic، Editor: E. F. Konrad Koerner (Amsterdam/ Philadelphia: John Benjamins Publishing Co.، 1997)، 256.
[31] ذکأاللہ، رسالہ تقویم اللسان، 7–8.
[32] حوالہ سابق، 4.
[33] گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، 227.
[34] حوالہ سابق 16.
ماخذ
اردو

ذکاءاللہ، مولوی محمد. رسالہ تقویم اللسان. اڈیشن درج نہیں. مطبع شمس المطابع بااہتمام منشی محمد عطااللہ، 1893.
ژرار ژینت.’’زبان کے بارے میں وضعیاتی اور بعد وضعیاتی تصورات‘‘ شبخون، جولائی تا ستمبر 1985.
شمس الرحمان فاروقی.’’تعبیر کی شرح.‘‘ شبخون،جون جولائی 1994.
گوپی چند نارنگ. ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات. بار سوم. دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، 2004.
ناتھ، ونفرائیڈ. ’’زبان، معنی، اور رسومیات.‘‘ شبخون،مئی جون 1999.
نیر، ناصر عباس. ’’ساختیات اور ساختیاتی تنقید.‘‘ مشمولہ ساختیات: ایک تعارف، 2011. اسلام آباد: پورب اکادمی.
———. ساختیات: ایک تعارف. دوم. اسلام آباد: پورب اکادمی،2011.

انگریزی

Locke, John. AN ESSAY CONCERNING HUMAN UNDERSTANDING (1690). 27th Ed. London: Printed For T. Tegg and Son, 1836. http://books.google.com/books/about/An_Essay_Concerning_Human_Understanding.html?id=vjYIAAAAQAAJ.

Versteegh، Kees. “The Arabic Tradition.” in The Emergence of Semantics in Four Linguistic Traditions : Hebrew, Sanskrit, Greek, Arabic edited by E. F. Konrad Koerner. Amsterdam/ Philadelphia: John Benjamins Publishing Co., 1997.

جمعرات، 2 جون، 2016

ادب، احتجاج اور دم ہلانا

احتجاجی ادب بھی پسند و ناپسند کا معاملہ ہے اور یہ بھی آئیڈیالوجی سے متاثر ہوتا ہے۔ معاملہ احتجاج کے ادب کا ہو یا ادب کے احتجاج کا، اگر ایک شخص ہماری آئیڈیالوجی کے دائرے میں لکھتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں ہمارے حق میں اس کی دم ہلتی رہتی، وہی بڑا ادیب اور ایکٹیوسٹ۔ جیسے ہی دم کا ہلنا بند ہوا، کہ وہ برادری سے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ جو دم ہے وہ مالک کے اقتدار کی علامت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ادیب پہلے بنے، دم بعد میں ہلایا اور کچھ نے ابتدا ہی سے دم ہلایا، اور ادیب قرار پا گئے۔ اس میں شک نہیں کہ پہلی قسم کا ادیب زیادہ باصلاحیت ہوتا ہے لیکن جوں ہی کہ اس نے دم ہلانا شروع کیا، اس کی صلاحیتوں میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر وہ اپنی زندگی کے آخر تک یہ محسوس نہیں کر پاتا کہ اس نے جس آئیڈیالوجی کے حق میں دم ہلانا شروع کیا ہے، اس کی صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں اس آئیڈیالوجی کا کوئی خاص ہاتھ نہیں ہے۔ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنی ادبی زندگی کی ابتدا میں وہ آئیڈیالوجیکل نہیں تھا، لیکن جوں ہی کہ اس کو شہرت ملی، اور وہ مقبولِ خاص و عام ہوا، اس کو خود بخود دم ہلانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور وہ اس نے اسے عین انسانی فطرت کا تقاضا خیال کیا۔
مقبولِ خاص و عام بن جانے کے بعد ادیب ایک پورا دارالافتا بن جاتا ہے۔ لوگ اس سے پوچھنے لگتے ہیں کہ آپ فلاں معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جس میں اگر وہ دم ہلانے سے چوکا تو قبولِ عام و شرفِ دوام کی نعمتِ عظمی سے محروم ہوا۔ کیا پوچھنے والا نہیں جانتا کہ ایک حساس مسئلے میں صحیح رائے کیا ہو سکتی ہے؟ شہرۂ آفاق ادیب سے رائے پوچھنے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ اس کو پیغمبر سمجھتے اور اس سے رہنمائی کے طالب ہیں بلکہ اس کا ایک ہی مفہوم ہے کہ تم کس طرف ہو؟ حق کی طرف یا باطل کی طرف؟ حق و باطل کی پرسش کا جواب شاعر اپنی تخلیقات میں بھی فراہم کرتا ہے اور انٹرویو کی شکل میں بھی۔
جون ایلیا سے جب پوچھا جاتا ہے تو ایک مقام پر یہ جواب ملتا ہے:
میں تو خدا کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو؟
ہر لمحہ ‘لا’ کے ساتھ ہوں، تم کس کے ساتھ ہو؟
لیکن میر ایسی پرسش کا یہ جواب دیتا ہے
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
کہنے کی ضرورت نہیں کہ دم یہاں مذکورہ بالا دونوں میں سے کسی شعر میں نہیں ہل رہی، لیکن ایک میں تصوفانہ حکمت کا پیچ ہے اور دوسرے میں لہجہ نرم تو ہے لیکن احتجاج کی تکمیل ہو گئی ہے۔ ادبیت کس شعر میں زیادہ ہے، یہاں مجھے اس سے غرض نہیں ہے اور نہ اس سے غرض ہے کہ کسی خاص معاملے میں میر یا ایلیا کا فکری موقف کیا ہے، البتہ میر کے اس شعر کو اس کے درجِ ذیل شعر کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے، تب جا کر بات واضح ہو گی۔
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

مذہب اور صلح جوئی

مذہب جس قدر انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، اسی قدر وہ انہیں توڑتا بھی ہے۔ یہ نوعِ انسانی کا اجتماعِ باہمی ہی نہیں بلکہ ان کے مابین افتراقِ دائمی بھی ہے۔ مذہب اگر انسان میں بھائی چارہ پیدا کرتا اور انہیں امن و آشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے تو اقوام و ملل کو اپنے عقائد کے تحفظ، مدافعت اور تبلیغ و اشاعت کی خاطر باہم لڑاتا بھی ہے۔ مذہب یہی چاہتا ہے کہ انسان اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں صرف اسی کی خاطر جیے اور مرے۔ اسی کے حسبِ منشا دوسرے انسانوں سے تعلق بنائے اور منقطع بھی کرے۔ چنانچہ مذہب نکاح ہی نہیں کراتا، جبری طلاق بھی دلواتا ہے۔ اور مذہب عبارت ہے انسانوں کو جماعتوں اور گروہوں میں منقسم کرنے اور ہھر انہیں باہم لڑا بھڑا کر ان کی دنیاوی زندگی کو برباد کر دینے سے۔ دنیا میں کسی اور چیز کی بنیاد پر تمام انسانوں کے درمیان اتفاق ہو سکتا ہے، لیکن مذہب کی بنیاد پر صلح نا ممکن ہے۔ خود ایک مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان طویل المیعاد طور پر اتحاد ممکن نہیں کجا کہ دو مذاہب والوں میں اتحاد ہو جائے۔ انسان جب گروہ در گروہ منقسم ہو جائیں تو ان کے درمیان مذہباً کیا مشترک ہے، اس کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے، اور دفعتاً وہ شئے اہمیت اختیار کر لیتی ہے جو ان کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ یعنی انسانی گروہوں کے درمیان مشترکہ مذہبی خصائص کی کوئی فیصلہ کن اہمیت نہیں ہو سکتی بلکہ اصل اہمیت اس اختلاف کی ہے جس کی بدولت وہ گروہ کی شکل میں منظم ہوئے ہیں اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنوں اور غیروں کی تفریق کرتے ہیں۔
جیسے ہی کسی مذہبی اختلاف، امتیاز یا وصف کی بنا پر ایک جماعت یا گروہ کی تشکیل ہوتی ہے، ویسے ہی انسانیت کی زمین میں تنگ نظری کے شجرِ خبیث کا بیج پڑ جاتا ہے۔ اگر مذہبی اختلاف کی نوعیت انفرادی ہو تو کچھ مضائقہ نہیں، لیکن جیسے ہی یہ اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے، ویسے ہی انسان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ یکساں مذہبی خصائص، اوصاف یا اختلافات یا جداگانہ مقاصد کی بنا پر جماعت سازی اور اِس کو اخروی فلاح کی بنیاد بنانا ہی وہ لعنت ہے جس سے کام لے کر شیطان انسانوں سے انتہائی طویل مدتی خون خرابہ کا ناپاک عمل سرزد کراتا ہے۔ مذہب کا یہی اجتماعی تصور ہے جو انسانی قلوب کو جذبۂ قتال سے آلودہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں حیاتِ دنیوی فتنہ و فساد سے بھر اٹھتی ہے۔
اگر مذہب کا یہ اجتماعی تصور ختم ہو جائے، پھر کوئی ایسی ط۔ویل المعیاد شئے باقی نہیں رہتی جو سیکڑوں ہزاروں سالوں تک حق و باطل کی لایعنی کشمکش کو برقرار رکھ سکے۔ نسل، رنگ، زبان، ذات پات، یہ سب چیزیں انسانوں کے اختلاطِ باہمی سے بدل جاتی ہیں لیکن اہلِ مذہب اپنے عقائد کو ان کی اولین خالص شکل میں باقی رکھنا چاہتے ہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر ‘‘اصل’’ مذہب سے رجوع کرنے کی بے پناہ تڑپ ہوتی ہے۔ اور چونکہ ہر اجتماعی مذہب اور ہر مذہبی فرقہ کا ماننے والا اپنے مذہبی اور فرقہ وارانہ عقائد کے اصلی اور خالص ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسروں کے عقائد کو بے اصل اور غلط بتاتاہے اس لیے اہلِ مذاہب کے اندر نہ بین مذہبی اتحاد ممکن ہے اور نہ دروں مذہبی۔  
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر ایک مذہب یا فرقہ میں شامل شخص اپنے عقائد  کو خالص اور دوسروں کے عقائد کو غیرخالص قرار دیتا رہے. یہ گویا مذہب نہ ہوا دودھ گھی، شہد اور سونے چاندی کا کاروبار ہو گیا۔ اب اسی کی دوکان زیادہ چلے گی جو اپنے آپ کو واقعات کی دنیا میں خالص ثابت کردے۔ اور یہ اس دنیا کی زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ دودھ میں اگر پانی ملا ہوا ہو یا سونے چاندی میں دیگر دھاتوں کی آمیزش کر دی گئی ہو تو سائنسی آلات کی مدد سے اس کا پتا لگایا جا سکتا ہے لیکن مذہب میں جو آمیزش ہو چکی، اس کی تحقیق کا کوئی یکساں معروضی آلہ ہمارے پاس ہمارے پاس نہیں ہے جس سے کام لے کر ہم ثابت کر دیں کہ ایک ہمارا ہی مذہب حق اور خالص ہے اور بقیہ تمام باطل اور ملاوٹ والے ہیں۔
اس لیے مذہبی مسائل بنیادی طور پر ناقابلِ حل ہیں۔ اور جب مذہب کی بنیاد پر جماعت سازی اور گروہ بندی ہو تو ان کے درمیان جو تنازعات ہوں گے، وہ بھی حتمی طور پر لاینحل ہوں گے۔ پھر جب وہ تنازعات مذہبی گروہوں کے مابین جنگ و جدال میں بدلیں گے تو ظاہر ہے انسانی خون کا بہنا بھی رک نہ سکے گا۔ اس کے برعکس، اگر مذہب کو ہر فرد کا نجی معاملہ بنا دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اہلِ مذاہب کے درمیان امن و سکون کی ایک دائمی حالت پیدا ہو گئی ہے اور ہر شخص اپنا من پسند عقیدہ چننے یا ایک نئے عقیدے کی تخلیق کرنے کے لیے آزاد ہے اور کسی دوسرے کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ وہ کس مذہب کو ترک کر کے کیا عقیدہ اختیار کر رہا ہے یا اس کے ایسا کرنے سے کس مذہبی قوم کے افراد کی تعداد گھٹ یا بڑھ رہی ہے!
مذہب کو اگر قوموں اور جماعتوں کی بنیاد نہ بنایا جائے تو اس کے بعد اول تو یہی ممکن نہیں کہ کوئی دوسری چیز اس کی جگہ لے سکے گی، دوسرے یہ کہ اگر زبان، نسل یا کوئی اور شئے اس کی جگہ لینے کی کوشش کرتی بھی ہے اور اس کے سبب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ شئے، اور اس سے پیداشدہ مسائل چونکہ اسی دنیا سے متعلق ہوں گے نہ کہ حیات بعد الموت یا مابعدالطبیعات سے، اس لیے انہیں بحسن و خوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
مذہب کو ایک نجی و ذاتی، داخلی و موضوعی، اور انفرادی نوعیت کی شئے بنانے کے بعد ان تمام فتنوں کا سدّ باب ہو جائے گا جو مذہب کو اجتماعی شئے کے طور پر برتنے سے پیدا ہوتی ہیں۔