18 اپریل 2018 کو فیس بک پر میں نے درجِ ذیل مراسلہ لکھا تھا:
مندرجہ بالا مراسلہ کے نیچے فیس بک دوستوں کے تبصرے اور میری طرف سے ان کا جواب:
اجمل کمال صاحب:
اجمل کمال صاحب: طارق صدیقی صاحب، آپ کی سب دلیلیں اپنی جگہ لیکن آپ کا بنیادی مفروضہ قطعی غیرحقیقی ہے اور یہ مفروضہ ہے جغرافیے سے آزاد گشتی تاریخ کا۔ یہ عالم اسلام کیا شے ہے اور دنیا میں کس جگہ واقع ہے جس میں یونانی علوم کے عرب مترجمین سے بات سیدھے شیخ سرہندی، شاہ ولی اللہ، اہلحدیث، سرسید، مودودی یہاں تک کہ غامدی پر آ پہنچتی ہے۔ گویا دنیا کے باقی جغرافیائی خطوں میں ان مترجمین کے بعد کچھ ہوا ہی نہیں (بالکل جس طرح برصغیر میں ہماری مقامی متبرک ہستیوں سے پہلے جہل کا اندھیرا تھا)۔ عالم اسلام تو نہیں،یہ تو کچھ عالمِ خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہم آپ مصر، ایران، مراکش، صومالیہ وغیرہ کے مقامی مفسروں اور فقیہوں کو اسی طرح جانتے مانتے ہیں جیسے شاہ ولی اللہ اور غامدی کو، اور کیا وہاں کے مسلمانوں نے کبھی ہمارے ان جغادریوں کا نام سنا ہے یا ان کو کوئی اہمیت دی ہے؟
اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرنے کے بعد کہ ہر جغرافیائی خطے کے مذاہب اپنے اپنے تاریخی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ان تاریخی حالات ہی میں اپنے معنی متعین کرتے ہیں، اس قسم کے جتنے چاہیں اتنے طومار باندھ لیجیے۔ نہ بات سمجھ میں آئے گی اور نہ حالات میں کوئی تبدیلی ہو گی۔ اب اس دین بیچو، دیش بیچو ریلی ہی کو لیجیے (بشکریہ خالد انیس انصاری)، یہ قاہرہ، خرطوم یا ریف میں منعقد نہیں ہوئی، آپ کے آس پاس کے ہی کسی مقام پر پیش آئی ہے۔ کیا اس معمولی سی حقیقت کی کوئی اہمیت نہیں؟
آپ کی باتوں سے سمجھ میں یہ آتا ہے کہ کنویں کے مینڈکوں کے کنویں سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے میں تو غالباً کوئی حرج نہیں، لیکن دراصل ہم اس کنویں کے ہیں ہی نہیں۔ پہلے ہمیں سرنگ لگا کر اپنے اصل کنویں تک پہنچنا ہو گا اور پھر اُس کنویں سے باہر نکلنے کی نئے سرے سے کوشش کرنی ہو گی۔ کیوں بھئی، آخر کیوں؟
طارق احمد صدیقی: جناب اجمل کمال صاحب،
1. عالم اسلام سے میری مراد وہ ممالک ہیں جہاں کی بہت بڑی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ یعنی ان کے پیدا ہونے، جینے اور مرنے سے متعلق رسوم اسلامی عقائد کی بنا پر وجود میں آئے ہوں اور کسی نہ کسی حد تک ان کی زندگی کے معاملات اسلامی قوانین پر چلتے ہوں۔ ہم چاہیں تو ایسےممالک کو مسلم دنیا یا مسلم اکثریتی ممالک بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں حقیقتاً کسی خاص اصطلاح کو ترجیح دینا میرا مقصد نہیں ہے۔
2. دنیا بھر کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اسلام سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتی ہے اور مابعد موت نجات کو اپنے ہی مذہب کے ساتھ مخصوص کرتی ہے۔ کہنے کو تو ہندوستان میں بہت سے مسلمان خود کو سیکولر بھی کہتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگی میں مذہب اس قدر دخیل ہے کہ یہی سیکولر حضرات مسلم پرسنل لا میں ادنی درجے کی مداخلت پر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ اس نوع کے مسلمان اب تک صحیح العقیدہ سیکولر نہیں ہو سکے، خواہ یہ اپنی زبان و قلم سے سیکولرازم کی کتنی ہی گردانیں کرتے رہیں۔ جیسے قرآن میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ، حالانکہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اسی طرح سیکولرازم بھی ان بہت سے سیکولر مسلمانوں کے حلق سے نیچے نہیں اترا، ورنہ ان کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کی اتنی مخالفت کیوں کی جاتی؟
3. یہ کوئی متنازعہ بات نہیں ہے کہ مسلمانوں کی اسلام سے یہ وابستگی بہت گہری ہے اور وہ اس کے مقابلے میں کسی دوسری چیز کو معیار حق و صداقت نہیں سمجھتے۔ یہ مسلمانوں کے عوام اور خواص دونوں کی زبردست اکثریت کا حال ہے جس میں روایتی دارالعلوموں کے علاوہ جدید یونیورسٹیوں سے پڑھے لکھے اہل علم تک شامل ہیں۔ ایسے لوگ جو مسلمانوں میں صحیح العقیدہ سیکولر یا ترقی پسند یا منکرین خدا یا دہریہ کہلا سکتے ہوں بہت کم ہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد ادھر بڑھتی جا رہی ہے لیکن ان کے مقابلے میں اسلام کے کسی نہ کسی اڈیشن پر سچا ایمان رکھنے والے مسلمانوں میں بھی کم اضافہ نہیں ہو رہا۔
4. مسلمان بحیثیت مجموعی اپنے مذہب میں کسی اصولی تبدیلی کے روادار نہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہر ایک مکتب فکر سے وابستہ بعض یا سب علما روایتی شرعی احکام میں عملاً کچھ نہ کچھ، یا کسی نہ کسی حد تک پھیر بدل کرنے پر مجبور بھی ہیں اور اپنی ان تبدیلیوں یا انحرافات کے متعلق وہ کوئی صاف بات نہیں کرتے، گھما پھرا کر وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کا تاثر زیادہ تر یہی پڑتا ہے کہ پہلے اسلام کے فلاں فلاں حکم کو غلط سمجھا یا سمجھایا گیا تھا، اور اب جا کر اسے صحیح طور پر سمجھا جا سکا ہے۔ اس نوعیت کی سخن سازیوں پر میں اوپر کے اپنے مراسلے اور کئی سابقہ مراسلوں میں مفصل لکھ چکا ہوں۔
5. سوشل میڈیا پر تجدد پسند اسلامسٹ براہ راست اسلام پر کوئی تنقید نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں لیکن وہ "مولوی" کو برا بھلا کہتے ہیں، اسے مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ اسی نے اسلام میں یہ اور یہ خیانتیں کیں جن کے سبب اسلام کا سرچشمہ صافی آلودہ ہو گیا۔ لیکن انہیں یہ شعور نہیں کہ جن باتوں کے لیے وہ مولوی کو مطعون کرتے ہیں ان کے قائلین میں تو کبار صحابہ سے لے کر تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سب شامل ہیں، اور ہندوستان کے تمام روایتی دارالعلوموں سے فارغ علما کے مواقف بھی وہی کے وہی ہیں (جن کے لیے مولوی ملا کو ذمہ دار بتایا جاتا ہے). اس لیے اصولا انہیں ماضی و حال کے تمام سنی صحیح العقیدہ علما و فقہا کو مطعون کرنا چاہیے جس کی انہیں جرات نہیں ہو سکتی۔ چونکہ مولوی کی شاعروں اور ادیبوں نے اتنی زبردست مذمت کی ہے کہ یہ بیچارہ ہر کس و ناکس کے لیے آسان ترین ہدف بن چکا ہے۔ اس مولوی مخالف بہتی گنگا میں اسلامسٹ حضرات و خواتین بھی اکثر ہاتھ دھویا کرتے ہیں تاکہ اسلام کے غیرموزوں اور ناقابل عمل ہو جانے والے احکامات کو مولوی کی طرف منسوب کرنے کی خودفریبی میں پڑ سکیں جس کے بعد ان کے لیے سینہ تان کر یہ دعویٰ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ دیکھ لو ہمارے اسلام میں یہ اور یہ قوانین تو دراصل ملا مولوی کی ایجادات و اختراعات تھیں، اور اصل اسلام تو وہ ہے جو سر سید، اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز، فضل الرحمان اور جاوید احمد غامدی وغیرہ بتا رہے ہیں! اس کا نتیجہ دیر سویر یہ نکلے گا کہ روایتی دارالعلوموں کے علمائے کرام فقط ’’مولوی’’ قرار پائیں، اور انہیں بیدخل کر کے ان کی جگہ غامدی ایسے تجدد پسند حضرات مسند ارشاد پر متمکن ہوں، انہیں کو دنیا اسلامک اسکالر، اسلامی مفکر اور عالم دین سمجھے (اس عمل میں مغربی جامعات سے وابستہ اسلامیات اور دیگر شعبوں کے اسلام پسند ماہرین اور محققین بھی شامل ہیں)۔
6. یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مذہبی و روحانی اقتدار کی اس کشمکش میں وہ کون سے روایتی مسالک اور فرقے ہیں جن کی مستند اور ماضی میں اپنی جڑیں رکھنے والی آرا کو مولویت کہہ کر دبا دیا جا رہا ہے اور وہ کون سے جدید ترین اسلامی مکاتب فکر ہیں جن کی تعبیری ملمع کاریوں کو اجتہادِ عصر ہونے (یا اسلام کو اس کی اصل صورت میں منقح کر کے پیش کرنے) کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔ اور یہ دیکھنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ ایک بار اگر یہ تجدد پسند، روایت پر حاوی ہو گئے تو عالم اسلام؍ مسلم دنیا؍ مسلم اکثریتی ممالک میں ایک نیم عقلی اور جہل آمیز نظام کو ہی فروغ دیں گے۔ فلسفہ، سائنس، ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ تمام تر علوم و فنون کو صحیح خطوط پر ترقی دینا ان کے بس کی بات نہیں۔ اسے علاوہ ایسا ہونے سے طویل المیعاد سطح پر دنیا کی ترقی یافتہ قومیں یا بڑی طاقتیں ان پر بدستور اپنی بالادستی کو برقرار رکھ سکیں گی۔یعنی مسلمان معاشرے میں غلبہ و اقتدار روایت پسندوں کا برقرار رہے یا تجدد پسندوں کا ہو جائے، عام مسلمانوں کی فکری حالت میں سدھار ممکن نہیں ہے۔
7. اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی تجدد پسند فکر اپنی بنیاد میں ٹھیک ویسی ہی منقولاتی ہے جیسی کہ روایتی فکر۔ دونوں زندگی اور کائنات میں اپنی ہر پیشقدمی پر ماضی سے منقولات پر مبنی کوئی دلیل چاہتی ہیں۔ دونوں کی عقل پر نقل کی گرہ لگی ہوئی ہے۔ زندگی اور کائنات کا براہ راست مشاہدہ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ ان کی آنکھوں پر آیات و روایات کا حجاب پڑا ہوا ہے۔ وہ مقدس متن کو ایک یوزر مینوئیل کی طرح سمجھتی ہیں۔ اس لیے نہ یہ اسلامی روایت کے بس میں ہے اور نہ اسلامی تجدد پسندی کے، کہ وہ اپنی نیم عقلی فکر کی بدولت مسلم اکثریتی ممالک میں کوئی علمی و فکری انقلاب لا سکیں۔ مسلم اکثریتی ممالک میں جوں جوں یہ تجدد پسند فکر اپنی جڑیں جمائے گی، صداقت کا ان کا نیم عقلی تصور مسلم اقلیتی ممالک کے مسلمانوں میں بھی فروغ پائے گا، اور ایسے ممالک میں اکثریت اور اقلیت کے مابین مکالمہ کا عمل متاثر ہو کر مجادلہ کی شکل اختیار کرے گا، بین مذہبی تصادم کی مکروہ صورتحال کو وجود میں لائے گا (بلکہ لا رہا ہے) جس کے شکار صرف مومنین ہی نہ بنیں گے بلکہ مسلمان ملاحدہ، متفرنجین و متشککین بھی گیہوں میں گھن کی طرح پس جائیں گے۔ واضح رہے کہ مسلمان ملاحدہ اور صحیح العقیدہ سیکولروں، لبرلوں اور دیگر منحرفین کے لیے روایتی اور جدید اسلاموں کے کسی بھی حقانی اور ادعائیت پسندانہ اڈیشن کو نہ صدق دل سے قبول کرنا ممکن ہے اور نہ ببانگ دہل رد کرنا، کیونکہ ان کو بہرحال جینا اور مرنا اسی ’’مذہب گزیدہ‘‘ معاشرے میں ہے جس کی ’’ثقافتی گھٹن‘‘ کے حوالے ان کی تحریروں میں بارہا آتے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی طرف علامہ نیازفتحپوری نے "ناچار مسلمان شو" کہہ کر مولانا مودودی کو متوجہ کیا تھا۔ اور ایسے ہی ناچاروں کا قلعہ قمع کرنے کے لیے اس دور میں مولانا مودودی نازل ہوئے تھے اور اب جاوید احمد غامدی مبعوث ہوئے ہیں۔ البتہ وہ جراتمند لوگ جو اپنے آبائی دین کو خیرباد کہہ چکے ہوں، اپنے جینے اور مرنے کا طریقہ الگ کر چکے ہوں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اور ان کے اس انفرادی انقلابی قدم سے اس صورتحال میں کوئی واضح تغیر نہیں ہو سکتا۔ عالم اسلام میں مختلف قسم کے انحرافی رویے ہمیشہ رہے ہیں لیکن سواد اعظم نے ہر دور میں انہیں کچل پیس کر برابر کر دیا ہے۔
8. پس، میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی تجدد پسندی کے اس پورے عمل پر تنقید اور اس میں مداخلت ضروری ہے تاکہ اسلامی روایت کو اسلامی تجددپسندی کےذپ مقابلے پر اس طور کھڑا کیا جائے کہ روایت پورے شعور کے ساتھ تجدد پسندانہ کارروائیوں کا فہم حاصل کر سکے۔ روایت آنکھ کھول کر یہ دیکھ سکے کہ آخر دورجدید میں یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے، اس کے اسباب و علل کیا ہیں اور انجام کار تجدد پسندوں کا یہ قافلہ کس منزل پر جاکر ٹھہرے گا؟ اور خود روایت کا آخر کیا انجام ہوگا، اور سو سوالوں کا ایک سوال یہ کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہر قسم کے اسلامسٹ سکینت کی حالت میں جا کر فرماتے ہیں کہ بالآخر امرت رس کی پیاسی دنیا ایک نہ ایک دن اپنے تعصبات سے پیچھا چھڑا کر مشرف بہ اسلام ہو جائے گی۔ ان کی اس خود فریبی نے عامۃالمسلمین کو بھی اسی ذہنی کیفیت میں گہرا اتار دیا ہے۔
9. اس بات میں کوئی شک نہ ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے خواص اور عوام کی بہت بڑی/ غالب اکثریت کے اندر اسلام کو براہ راست تنقید کی خراد پر چڑھانے کی نہ خواہش پائی جاتی ہے، نہ وہ اس کی کوئی ضرورت سمجھتی ہے۔ اس کا قطعی ماننا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور ساری دنیا کو ایک نہ ایک دن جھک مار کر ایمان لانا پڑے گا، کیونکہ یہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے ماننے والوں کی اخروی نجات ممکن ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح کی کئی اسلام پسند تحریکات ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک اسلامسٹ تنظیم اخوان المسلمین مصر، ترکی،عراق، فلسطین، اردن، قطر،کویت، شام، متحدہ عرب امارات،یمن، الجیریا، لیبیا،موریطانیہ، مراکش، صومالیہ،سوڈان، تونس، وغیرہ میں یا تو اپنے نام کے ساتھ پائی جاتی ہیں یا پھر نام بدل کر، یا کسی سیاسی پارٹی کے روپ میں موجود ہے۔ اس کے علاؤہ یہ تنظیم مغربی ممالک میں بھی کہیں نام بدل کر تو کہیں اپنے نام کے ساتھ فروغ پا رہی ہے، بعض مغربی ممالک میں اس تنظیم پر قانونی پابندی عاید ہے۔ برصغیر میں بھی پاکستان اور بنگلہ دیش میں اخوان المسلمون سے تقریبا کامل مماثلت رکھنے والی تنظیم جماعت اسلامی کام کر رہی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک میں دہشت گرد تنظیمیں بھی ہیں جو اسلام کو غالب کرنے کی پرتشدد کوششیں کر رہی ہیں۔ ان سب کے علاؤہ تبلیغی نوعیت کی دیگر جماعتیں بھی ہیں جن کا نیٹ ورک ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ وسط ایشیا کے مسلم ممالک میں بھی اسلامی تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا کی مسلمانوں کے اندر مذہب سے وابستگی اور مذہبی ادعا کا فروغ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں مذہب سے رجوع کرنے کی یہ تحریکیں باہمی تشدد اور خونریزی ہی نہیں (جو ایک طویل عرصے سے جاری ہے) بلکہ بین مذہبی اور بین تہذیبی کشمکش کا سبب بن جائیں جس کے بعد اس قوم اور اس کے مذہب کے مستقبل کے متعلق آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہوگا۔
10. اس لیے یہ کہنا حقیقت سے بعید نہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی نفسیات ایک ہے، کیونکہ ان کے جینے اور مرنے کا طریقہ ایک ہے، شریعت کا ان کا تصور منقولاتی ہے اور وہ مقدس متن میں لکھے ہوئے کو خدا کا کلام ہی تصور کرتے ہیں اور اپنی مذہبی تاریخ کے سلسلے کو قرون وسطی کے عرب میں وجود میں آنے والے مذہب اسلام اور اس کے پیغمبر اور صحابہ سے ملاتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ مسلمان کوئی امت واحدہ ہیں، لیکن بہرحال وہ ایسی وحدت ہیں جس میں جگہ جگہ دراریں پھٹی ہوئی ہیں جنہیں تاقیامت پر نہیں کیا جا سکتا۔ بعض علما فرماتے ہیں کہ اسلام میں اختلافات کے مقابلے اتفاقات کی بے پناہ کثرت ہے اور ایسا کہنے سے ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اتفاقات زیادہ ہیں اس لیے امت کو متحد کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں اس علمی نکتے کا ادراک نہیں کہ جب امت میں تفرقہ پڑ جاتا ہے تو اتفاقات کے بجائے اختلافات اہم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان پر ایک فرقے کے وجود کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ بعض ترقی پسند؍ سیکولر نظریہ ساز اسلام کے مقامی اڈیشنوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان کی دانست میں ایک وقت ایسا آئے گا جب مسلمانان عالم کے رسوم و رواج اور عائلی قوانین مقامی ثقافتوں میں رل مل جائیں گے۔ لیکن ایسا جہاں کہیں بھی ہوتا ہے دین کے قیام اور شریعت کے نفاذ کی پرامن اور متشدد کوششیں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔
11. میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایسے ہر صاحب علم و دانش کے سامنے یہ واضح ہے کہ اس قسم کے متعصبانہ عقائد و نظریات کی حامل قومیں دنیا میں زیادہ عرصے تک کھیپ نہیں سکتیں۔ اب دنیا جس بدلی ہوئی علمی و فکری حالت میں پائی جاتی ہے، اس میں (فکری سطح پر) قرون وسطی کی مذہبی ادعائیت بلکہ مذہبی اصولوں اور قانونوں کے لیے ادنی درجے کی جگہ بھی نہیں پائی جاتی الا یہ کہ اسلام پسندوں کا ایک کثیر گروہ شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے شور و غوغا کر رہا ہو اور ان کے زیر اثر عامۃ المسلمین بھی اپنی آوازیں بلند کر رہے ہوں۔ چنانچہ جو قومیں اس قسم کے ادعا میں گرفتار ہوں، دیر سویر ان کا شیرازہ بکھرنا ہی ہے۔ جب ایک بار کسی قوم کا شیرازہ بکھر جائے تو معاشی پہلو پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور پوری قوم بلالحاظ (قبیلہ و ذات برادری) پسماندگی کی شکار ہو جائے گی۔ ایسا دو اسباب سے ہوگا، پہلا یہ کہ قوم کی اکثریت جن غیرموزوں مذہبی عقائد، طور طریقوں، رسوم اور قانونوں پر عمل کرے گی ان کے سبب اس کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہوگی بلکہ خود ان کی ترقی مسدود ہو جائے گی۔ دوسرا یہ کہ ایسی قوم پر اس کے خارج سے اجنبی طور طریقے اور قوانین لادے جائیں گے، اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ زندگی کے چھوٹے بڑے معاملات میں غالب قوموں کا طرز عمل اختیار کرے۔ ظاہر ہے، ان اسباب کے درمیان کوئی تیسرا سبب اگر نہ ہو جو اس قوم کو اپنے لیے ایک موزوں فکری و عملی نظام کی تخلیق پر مجبور کرے تو اس سے افراد قوم کے اجتماعی وقار اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچے گی، دوسری قوموں کے لوگ انہیں دیکھ کر کہیں گے، یہ ہیں وہ قابل رحم لوگ جن کے ہاں ایسی اور ایسی خرافات پائی جاتی تھیں۔
12. چونکہ اس قوم کے لوگ نہ خود اپنے مذہب میں کسی اصلاح کی جرات کر سکیں گے، اور نہ دوسری قوموں کے ذریعےعائد کردہ اصلاحات کو قبول کر سکیں گے، اس لیے نوبت بین قومی/ بین مذہبی کشمکش تک پہنچے گی جس سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے کہ ایسی قوم کے افراد کے اندر غور وفکر اور حصول علم کی صلاحیت پیدا کی جائے تاکہ ان میں چیزوں کو مختلف زاویوں اور طریقوں سے دیکھنے کا صبر پیدا ہو اور وہ اپنے لیے خود ایک جدید ترین اور موزوں ترین راہ نکال سکیں۔ یہ صبر اگر پیدا نہ ہو تو وہ چیزوں کو مختلف زاویوں اور طریقوں سے دیکھنے کے باوجود کلامی، تردیدی اور ابطالی رویے کے اسیر بنے رہیں گے اور بہرحال وہ اپنے مذہب کی ہر موزوں اور غیرموزوں روایت کی متکلمانہ، مدافعانہ اور معذرت خواہانہ تاویلات میں مشغول رہیں گے۔
13. سوال یہ ہے کہ ایسی قوم کے افراد میں غور و فکر اور حصول علم کا جذبہ کیسے پیدا کیا جائے؟ کیونکہ علم کا ان کا تصور دنیا کے بدلے ہوئے تصور علم سے مختلف ہے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیسے ان کے اندر مختلف زاویوں اور طریقوں سے چیزوں کو دیکھ سکنے کا صبر پیدا کیا جائے؟ کیونکہ جیسے ہی اس قوم کے افراد کسی دوسرے نظام فکر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ویسے ہی ان کے اندر تردید و ابطال کا جذبہ ابھر آتا ہے۔ ایک پیرا پڑھا نہیں کہ عصبیت عود کر آئی۔ ان میں چبا چبا کر پوری کتاب پڑھنے اور ہضم کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے۔ چنانچہ جب مودودی ایسے علما مغربی افکار و نظریات کا ابطال کرتے ہیں تو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کو ماخذ بناتے ہیں۔ اولین ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب سے ان کا سابقہ کم ہی پڑتا ہے۔ ایسے لوگ ریڈی میڈ مٹیریل کی تلاش میں زیادہ رہتے ہیں کہ ہاتھ آئے تو ایک ابطالی مضمون لکھ ماریں۔ چنانچہ ایک بہت بڑے اسلام پسند مصنف نے ردتشکیل پر اپنے ابطالی مضامین گوپی چند نارنگ کی کتاب سے تھوڑا بہت پڑھ کر لکھے اور کبھی اوریجنل ماخذ سے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی۔
14. غور و فکر اور حصول علم کے جذبے کو ابھارنے کے لیے کوئی ایسی سرگرمی ہونی چاہیے جس میں قوم کے ذہین افراد اپنا دماغ صرف کر سکیں۔ فی زمانہ ہمارے ذہین افراد مقدس متن کی تفسیر میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نے غامدی صاحب اور ان کے مخالفوں کی تحریریں یقینا پڑھی ہوں گی۔ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ ذہین افراد کی جتنی محنت ایک نیا اسلام ایجاد کرنے اور اس نئے اسلام کی تردید و ابطال میں صرف ہوئی ہے، اتنی اگر فلسفہ کے میدان میں کی گئی ہوتی تو آج مذہبی شدت پسندی کو ہر قسم کے اسلام پسندوں کی کمک نہ پہنچ رہی ہوتی۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے عبقری مقدس متن کی جدید تعبیر میں کام آ گئے اور جو باقی بچے وہ مذہب کی تردید و ابطال میں شہید ہونے والے ہیں، حالانکہ اصل کام تفکیری، تخلیقی، تنقیدی، اور تعبیری نوعیت کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعے چیزوں کو ان کی جگہ رکھنے کا ایک جامع/ قابل عمل منصوبہ بنانا اور اس طرح ایک نئے نظام فکر اور نظام عمل/ طریق فکر اور طریق عمل اور نئی صورتحال کو وجود میں لانے کی عملی کوشش کرنا ہے۔ اور اس طرف کسی کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیسے؟ ہمارے پاس اردو میں فلسفیانہ جہت میں سوچنے اور پڑھنے اور لکھنے کے لیے مٹیریل ناکافی ہے۔ واضح رہے کہ پڑھنے اور لکھنے سے مراد اردو/ ہندی یا اپنی تہذیبی زبان میں لکھنا اور پڑھنا ہے، کسی غیر زبان میں فکری اور تخلیقی نوعیت کے لکھنے اور پڑھنے کا میں بہ دلیل قائل نہیں ہوں۔ اس سلسلے میں کئی نکات میں اپنے سابقہ مراسلات اور مضامین میں لکھ چکا ہوں اور کئی لکھنا ابھی باقی ہے۔ یہ میٹیریل مغربی زبانوں سے ماخذ کا درجہ رکھنے والی فلسفیانہ کتب کے تراجم کے ذریعے درآمد کیا جا سکتا ہے۔
اوپر کے نکات کی روشنی میں اصل مسئلہ میرے سامنے یہ ہے کہ روایت اور جدیدیت (یہ تفریق کلاسیکی اسلام میں قابل قبول نہیں ہے، وہاں صرف روایتی فکر ہی اسلام ہے اور بقیہ سب ضلالت و گمراہی ہے، اس لیے اسلامی جدیدیت کے قائلین کو بھی تجددپسند ہی کہا جاتا ہے اور کارتجدید یا مجددیت و مہدویت کے اسلامی تصور کو تجددپسندانہ افکار و نظریات سے علیحدہ رکھا جاتا ہے) کو معاصر دنیا میں فکری اور اکادمک سطح پر رائج فلسفیانہ بنیادوں اور خرد کی روایتوں سے واقفیت حاصل کرنے پر کیسے آمادہ کیا جائے۔
اس کا طریقہ میری نظر میں مغربی علوم و افکار کا اردو اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا ہے جو مسلمان کثرت سے بولتے اور لکھتے ہوں۔ ترجمہ ایک شخص میں صبر و ضبط اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ یہ کسی غیر زبان کی کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کا ایک زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ یہ اجنبی تہذیب کے اندر وجود میں آنے والے علوم و افکار کو جاننے، سمجھنے اور اس سے اثر قبول کرنے یا اپنے حالات کے اعتبار سے انہیں ڈھال لینے کا فن ہے۔ ترجمہ سے ذہن و دماغ کی جو مشق ہوتی ہے اس سے تخلیقیت اور ندرت کی صفات پیدا ہوتی ہیں جن سے عقائد و رسوم کا جمود اور جبر ٹوٹتا ہے۔ ترجمہ اس بات کا دستاویزی ثبوت بھی ہوتا ہے کہ ہدفی زبان میں اصل زبان کے افکار و نظریات اور علمی تصورات کو سمجھنے کی باضابطہ اور سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔
ترجمہ دوسری زبانوں کے افکار و نظریات پر تعارفی نوعیت کی کتاب یا مقالہ نگاری نہیں جسے محض آوارہ، سرسری اور سطحی مطالعہ کے بعد بھی لکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مترجم کو سخت محنت اور دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے اور اگر اس کا ترجمہ اچھا ہو تو اس کو مصنف کی تفہیم پر اتھارٹی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ رہی بات تعارفی نوعیت کی کتابوں سے آگے بڑھ کر اعلی درجے کی فکری کتابیں لکھنے کی تو سو پچاس انگریزی کتابیں پڑھ کر اردو میں ایک کتاب لکھتے وقت بھی ترجمہ کا عمل ناگزیر ہے لیکن اس میں ہر بنیادی اصطلاح اور فکری نکتہ کی ترجمانی و توضیح نہیں کی جا سکتی، مصنف اپنی فکری رو میں بعض اصطلاحات کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا چلا جاتا ہے اور کچھ کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، اگر مغرب میں زیر بحث کوئی موضوع اردو والوں کے لیے اجنبی، نیا یا اچھوتا ہو اور ایک اردو مصنف اس موضوع پر تعارف سے آگے بڑھ کر اعلی درجے کی طبع زاد تصنیف لکھے تو وہ قارئین کے لیے چیستان ہو جاسکتی ہے کیونکہ مصنف نے ہر فکری نکتے اور اصطلاح کی تفہیم اپنی کتاب میں نہیں کی ہے۔ یہ صورت تب بھی پیش آ سکتی جب ہم گوپی چند نارنگ صاحب کی طرح کسی نئے موضوع پر بہت سی مغربی کتابوں کے اقتباسات کے تراجم کو چند ابواب میں مرتب کردیں۔ اگر اردو میں سوسیئر کی کتاب عام لسانیات کا درس اور دیگر بنیادی کتابوں کا ترجمہ پہلے کیا جا چکا ہوتا تو نارنگ صاحب کی کتاب ساختیات٬ پس ساختیات اور مشرقی شعریات اردو کے بعض ناقدین کے لیے معمہ نہ بن سکتی۔ حاصل یہ کہ اپنی زبان میں حصول علم اور فروغ علم کے لیے باضابطہ ترجمہ سے بڑھ کر کوئی دوسرا طریقہ اتنا کارآمد نہیں ہوتا۔
15. اب میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا کہ مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم اقلیتی ممالک میں مغربی زبانوں سے مسلمانوں کے ذریعے بولی جانے والی زبانوں میں فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ جدید اور معاصر افکار و نظریات پر مبنی، ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب کے تراجم کا علمی، عملی اور تاریخی جواز کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں غیر زبانوں سے ترجمہ کا کام مسلمانوں نے ہی نہیں کیا اور کروایا، بلکہ اہل مغرب نے بھی اپنے موجودہ دور عروج سے پہلے یہ کام کیا ہے اور وہ اب بھی مسلسل یہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے طویل عرصے تک مسلمانوں کے ذریعے ترقی پانے والے یونانی علوم و افکار کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
ترجمہ علم کے خزانوں سے فایدہ اٹھانے اور اسے ترقی دینے کا ایک باضابطہ طریقہ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اردو، ہندی بنگلہ یا دیگر بڑی زبانوں کے بولنے والے ہمیشہ جدید علوم و فنون کی تعلیم و تربیت ایک غیر زبان انگریزی میں پائیں اور اسی زبان میں انہیں ترقی بھی دیتے رہیں، یہ صورتحال ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی۔ دیر سویر ان کے بولنے والوں میں اپنی زبان میں علوم کو ترقی دینے کا سودا سمائے گا اور ان میں بڑے پیمانے پر فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے تراجم کی تحریکیں برپا ہوں گی۔ یہ کام اب تک اس لیے سست رفتاری سے ہو رہا ہے کہ برصغیر میں ہمارے ذہین افراد مقدس متن کی جدید/ تجددپسندانہ تعبیروں میں مصروف ہیں یا مذہب کی تردید و ابطال میں۔ اور اصل کام جس کی بدولت ایک قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی اور اپنے رسوم و رواج، قوانین اور طور طریقوں میں عہد بہ عہد حذف و اضافہ پر مائل ہوتی، اور خود کو ترقی کے بام عروج پر لے جاتی ہے۔۔۔ اس کی طرف ہمارے ہاں کم لوگوں کی توجہ ہے۔ یہ اصل کام دنیا کی دوسری قوموں بالخصوص غالب تہذیبوں سے علمی و عملی سطح پر کٹ کر ممکن نہیں۔ قومیں اور تہذیبیں ایک دوسرے سے نسبت رکھتی ہیں، ان کے درمیان تفریقیں اور مماثلتیں پائی جاتی ہیں اور ایک میں ظاہر ہونے والے واقعات کا دوسری پر اثر پڑتا ہے، وہ ایک دوسرے کی ضد اور مقابلے میں متشکل ہوتی اور پہچانی جاتی ہیں۔
16. اگر ایک قوم کے افراد دوسری قوموں پر اپنا ہمہ گیر غلبہ ہی چاہتے ہوں یا اپنے تصور دین کو دیگر ادیان و ملل سے بلند کرنا چاہتے ہوں تو ایسے کام بھی فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمی کے بغیر ممکن نہیں۔ حالانکہ اس قسم کی خواہش تخریبی ہے اور جامعیت بشری کو تار تار کر دینے والی ہے لیکن اگر ایک قوم کے لوگوں کو اسی قسم کی چیزوں سے تحریک ملتی ہو تو یہی سہی۔ لیکن جب وہ فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمی کریں گے، انہیں یہ ادراک ہو کر رہے گا کہ یہ کاروبار ہستی مکمل طور پر وہ صورت نہیں رکھتا جو ان کے آبائی دین کی رو سے انہیں معلوم پڑتا ہے۔ کاروبار ہستی کا صحیح ادراک و احساس ایک انتہائی داخلی چیز ہے جو سطح ظاہر پر بہت کم عرصے کے لیے ظاہر ہوتا ہے اور پھر فورا نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ سر دست اتنا سمجھنا کافی ہے کہ دنیا میں ہر مذہبی قوم اور نظریاتی گروہ کا ایک قبلہ ہے جس کے گرد ان کے افراد چکر کھا رہے ہیں، اور ہر فرد کسی نہ کسی اجتماعیت سے اپنے کو وابستہ رکھتا ہے۔ کائنات اور اس میں زندگی کا ظہور کوئی الل ٹپ اور لغو صورتحال نہیں ہے، یہ کوئی لایعنی اور بے معنی سچویشن نہیں ہے جس میں ہم پڑے ہوئے ہیں، اور یہ سمجھنا بھی نادانی ہے کہ کوئی ایک گروہ، کوئی ایک قوم، کوئی ایک دین اور کوئی ایک نظریہ اپنی جگہ زندگی اور کائنات کے راز سے واقف ہے، اور فلسفیانہ مسائل کا کافی و شافی جواب دے سکتا ہے۔ یہ کائنات ایک کل ہے اور اس میں سب کا حصہ اور کردار ہے۔ سب مل کر حقائق کو ظاہر کرتے اور ایک دوسرے کی ہفوات و اباطیل سے خبردار رہتے ہیں۔
17. یہ سوال کہ برصغیر کے مسلمان اپنی تاریخ کو قرون وسطی کے عرب و ایران سے کیوں جوڑیں/ اور کیوں نہ جوڑیں، بیحد اہمیت رکھتا ہے۔ میں نے اس سوال پر کافی غور و فکر کیا ہے۔ اس سے بحث کرنے سے پہلے اگر اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں کہ ہم مثلا برصغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے لوگ ہیں کون؟ تو اس کے بہت سے جواب ہو سکتے ہیں مثلا: ہم ایک نسلی وجود ہیں، یا مذہبی وجود ہیں، یا کسی ملکی جغرافیے یا جغرافیائی خطے سے منسوب ہیں، یا لسانی وجود ہیں وغیرہ۔
اگر ہم ایک نسلی وجود ہیں تو اس میں متعدد مذاہب کے ماننے والے شریک ہیں۔ پھر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے اور وہ نہیں کرنا چاہیے جیسی باتیں بے اصل ہیں۔ پھر تو میرا یہ مراسلہ ہی غیر ضروری ہے کیونکہ اس میں نسلی کے بجائے مذہبی شناخت کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اگر ہمارے نزدیک نسل زیادہ اہمیت رکھتی ہے تو ہم نسل کی بنیاد پر متحد ہوں گے اور دوسری نسلوں سے خود کو ممتاز کریں گے۔ لیکن اس کے لیے ڈی این اے جانچ کی ضرورت ہوگی کہ فی الواقع ہماری نسلیں کیا ہیں؟ پھر اگر نسلیں علیحدہ ہوں گی تو ہماری اجتماعی کوششیں بھی علیحدہ ہوں گی، پھر کسی متفقہ بات تک پہنچنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں بعض نسلوں کا بعض نے استحصال کیا ہے اور اس بنا پر ان کے مابین کشمکش ہو رہی ہے۔ میں ایسی نسلی کشمکش کا قائل نہیں ہوں البتہ کمزور نسلوں کی حمایت اور ماضی میں ان کی حق تلفیوں کی زمانہ حال میں تلافی کی کوششوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن دنیا میں دیگر اہم مسائل بھی ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں کیا شک ہے کہ ہماری شناخت کسی ایک چیز مثلا صرف مذہب سے قائم نہیں ہوتی، اور اسی طرح یہ صرف نسل، رنگ، زبان، ذات برادری، علاقہ، ملک یا جغرافیائی خطہ، سے بھی قائم نہیں ہوتی۔ اور ہر ایک شناخت کے اندر یہ قوت ہے کہ وہ اپنی حد تک لوگوں کو منقسم کر دے۔ مذہبی شناخت کی بنیاد پر پاکستان بنا لیکن لسانی شناخت کی بنا پر پاکستان سے ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا۔ اس لیے اس نکتہ پر کسی حد تک غور کرنا ضروری ہوتا ہے کس دور میں شناخت کی کون سی سیاست ہو رہی ہے اور اس کے مقابلے میں کس دوسری شناخت کو ہوا دیں تاکہ پہلی شناخت کا دبدبہ یا شر کچھ دیر کو ٹل جائے۔ اس وقت مسلم اکثریتی اور اقلیتی ممالک میں مذہبی شناخت کا زور توڑنے کے لیے کچھ دوسری شناختوں کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن یہ مسئلے کا ایک فوری حل ہو سکتا ہے لیکن اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
مذہبی شناخت کی بالادستی کچھ عرصے تک تو ٹل سکتی ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ مذہب دیگر تمام شناختوں میں زیادہ ممتاز اور طاقتور شناخت ہے اور انسانی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ بہت کچھ یہی حال افکار و نظریات پر مبنی شناختوں کا ہے لیکن مذہب کے مقابلے میں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہوگا کہ بڑے بڑے ترقی پسند اپنی آخری عمر میں حج ہو آتے ہیں اور نوجوان ترقی پسندوں کے لیے نشان عبرت بنے دارفانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ ہندوستان میں کم ترقی پسند ہوں گے جو مذہبی شناخت سے عاری ہو جانا پسند کریں۔ اس لیے مذہبی شناخت کی بنا پر جو سیاست ہوتی ہے وہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اور سیکولر ملکوں میں مختلف حیلوں اور بہانوں کے ساتھ سیاست پر اثرانداز ہوتی رہتی ہے۔
18. سوال یہ ہے کہ مذہبی شناخت اتنی طاقتور کیوں ہے؟اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ انسان کے سامنے دنیا و مافیہا سے متعلق کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا وہ کوئی یقینی جواب چاہتا ہے۔ یہ دنیا کیسے پیدا ہوئی، انسان اور دیگر موجودات کہاں سے آئے اور ان کا کیا اور کیسا انجام ہوگا؟ اچھا یا برا؟ اور ہم کیسے اچھے انجام تک پہنچیں؟ مذہب ان سوالات کا جواب انتہائی جزم و یقین کے ساتھ فراہم کرتا ہے جبکہ فلسفیانہ و سائنسی علم میں اس کی کمی ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ فلسفہ و سائنس منطقی پیراڈائم میں بات کرتے ہیں جبکہ مذہب اپنے علم کا ماخذ کسی مافوق الفطرت وجود کو بناتا ہے یا کم از کم ایک پراسرار طریقے سے اپنے اوپر علم کے نزول کا دعویٰ کرتا ہے۔ اپنے مذہب کے جواب پر انسان ایک امت بن کر رہتا ہے۔ پھر جیسا جواب ایک مذہب اپنے ماننے والوں کو فراہم کرتا ہے اسی کی بنا پر زندگی بسر کرنے کے لیے موزوں رسوم و قیود اور احکام و قوانین بھی وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔
اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مذہب رنگ و نسل کی طرح کوئی غیرفعال شناخت نہیں بلکہ یہ فاعل کی حیثیت میں ہے اور اپنے لیے ایک دفاعی میکنزم بھی رکھتا ہے اور دیگر شناختوں کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیتا ہے۔
اس کا تیسرا سبب یہ ہے کہ مذہب محض ایک شناخت ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مقتدر اور ہمہ گیر نظام بھی ہے۔ وقت کی کروٹ نے مذہبی نظام کو دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے اکھاڑ پھینکا ہے لیکن یہ ابھی بھی بڑی زبردست قوت ہے اور جہاں بھی کوئی مذہبی نظام قائم ہے وہاں سے غیرمذہبی، سیکولر اور دیگر نظاموں پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔
انہیں اسباب سے مذہب ہماری زندگیوں میں دوسری کسی بھی شناخت سے زیادہ دخیل ہے اور دوسرے کسی بھی مسئلے سے زیادہ گمبھیر مسئلہ ہے۔
19. پس، دیگر تمام شناختوں کے ساتھ ساتھ ہم ایک مذہبی وجود بھی ہیں جس کی شہادت ہمارے پیدا ہونے، شادی بیاہ کرنے، والدین سے وراثت پانے اور مرنے سے متعلق رسوم و رواج/ قوانین دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنی اس شناخت کو کہاں لے جا کر دفن کریں؟ ہمارا کنورژن ہوا، چاہے جیسے بھی ہو، تو اب ہمارے سامنے کیا یہ راستہ ہے کہ ہم اپنے سابق مذہب/ مذاہب کے طریقے پر جیئیں اور مریں؟ یہ کہنا مزید تخریب کاری ہوگی۔ ہم جس مذہب کے طریقے پر جیتے اور مرتے ہیں، چاہے اس طریقے میں کتنے ہی تغیرات واقع ہو گئے ہوں، اس کی تاریخ تو عرب کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اور جب بھی ہم اپنے جینے اور مرنے کے طریقوں میں کوئی تغیر کریں گے، محمد کا نام لازما آئے گا۔ یہ امت تو محمد ہی کو لے کر اگتی اور ڈوبتی رہے گی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نام محمد کو فراموش کر دیں اور ان کے طریقے پر جیتے اور مرتے رہیں؟ اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اپنی مذہبی تاریخ کو عرب سے یقینا منسوب کریں گے، جیسے عیسی علیہ السلام کے ماننے والے ہندوپاک میں ان سے اپنے کو منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ بھی اتنے ہی کنورٹیڈ ہیں جتنے کہ مسلمان اور ان کے ہاں بھی مسلمانوں کی طرح ذات برادری کی تفریق پائی جاتی ہے۔ اسلام اور عیسائیت پر مقامی اثرات یقینا پڑے ہیں۔ اس سب سے انکار نہیں لیکن یہ کہ ہندوستان میں رہنے والے وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اپنے کو عرب کی اسلامی تاریخ سے نہ جوڑیں، یہ تبھی ممکن ہے جبکہ وہ اسلام کو بحیثیت مذہب ترک کر دیں جو محال ہے۔ اس لیے جب تک وہ مسلمان رہیں گے، ان کی شناخت، ان کی تاریخ، ان کا شعر و ادب اس سب پر اسلام کا اثر ہوگا گو وہ مقامی اثرات سے کتنا ہی منقلب ہو چکا ہو۔ جیسے ہم شعر و ادب سے اسلامی قصص و تمثیلات، تلمیحات وغیرہ کو خارج نہیں کر سکتے، اسی طرح اپنی زندگیوں کو اسلام کی ابتدائی تاریخ سے نہیں کاٹ سکتے۔ جب ہم مشترکہ ہند اسلامی تہذیب کہتے ہیں تو اس کے معنی بھی یہی نکلتے ہیں کہ ہم عرب و ایران کی تہذیبوں کی تاریخ کے ایک حصے سے پیچھا نہیں چھڑا پائے۔
20. جو لوگ اپنے آبائی مذہب کے کنویں میں قید ہوں اور اسی کنویں کو کل کائنات تصور کیے بیٹھے ہوں تو ان کو یہ تعلیم دینا کیا غلط ہے کہ پہلے اپنے کنویں سے باہر نکل کر دیکھ تو لو کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے کیسی کیسی نہریں کھود رکھی ہیں؟ ترجمہ اسی کنویں سے کچھ دیر کو باہر نکل کر دیکھنے کی ایک تدبیر ہے۔ واضح رہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کنویں سے نکل کر کسی اور کنویں میںں چلے جاو۔ کسی بھی دوسرے کنویں میں اتنی جگہ نہیں ہو سکتی، وہاں کے اپنے مسائل ہوں گے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اس کنویں میں رہنا چھوڑ دو۔ کنواں کیسا بھی ہو، ہم پیدا تو اسی میں ہوئے ہیں اس لیے اس کو ترک کرنے نہ کرنے کا سوال نہیں، البتہ ہم کو یہ سمجھنا اور سمجھانا ہے کہ دنیا کے ہر ایک کنویں، چشمے، نہر، ندی اور سمندر میں اصلا پانی ہی ہوتا ہے، خواہ وہ میٹھا ہو، کھارا ہو، یا کسی قدر یا بہت بڑی حد تک آلودہ ہو، پس اصل مسئلہ کسی کنویں یا دیگر آبی ذخائر کے حجم یا ان کی مختلف النوع شکلوں کا نہیں بلکہ اس میں پائے جانے والے پانی کا ہے، اور اگر کسی مقام کا پانی سڑ گیا ہو، یا کسی حدتک آلودہ ہو گیا ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ دوسری جگہوں سے پانی لے لیا جائے یا اپنے کنویں کے پانی کو صاف کرنے کا طریقہ معلوم کیا جائے۔
اور ایسا موقف ہمارے لیے صحح نہیں ہو سکتا کہ رہنے دو ان لوگوں کو اسی کنویں میں قید۔ ہم بھی اسی کنویں میں پیدا ہوئے ہیں اور جب تک اس میں رہیں گے، جو حال اس کنویں کے دوسرے باشندوں کا ہوگا، وہی ہمارا بھی ہوگا۔ [نمبروار گفتگو ختم]
طارق احمد صدیقی: جناب اشعر نجمی صاحب، آپ نے تبصرہ فرمایا تھا:
"آپ کی اس پوسٹ سے جو اہم سوال اٹھتا ہے کہ اگر جدید دنیا اتنی ترقی کرچکی ہے اور آپ عقل کی بنیاد پر روایتی اسلام سے براہ راست فرسودہ اور ازکار رفتہ چیزوں کی کاٹ چھانٹ بغیر کسی قیل و قال کرنے کی جرات رکھتے ہیں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذہب کی پھر ضرورت کیا ہے؟ کیا فی زمانہ زندگی گزارنے کے لیے عقل کافی نہیں ہے؟"
اس کا جواب درج ذیل ہے:
میں مذہب کے اس تصور پر ایمان نہیں رکھتا کہ وہ ازلی و ابدی اور آفاقی نوعیت کے عقائد و ہدایات کا مجموعہ ہے جس پر زمانہ کا کچھ اثر نہیں پڑتا، یعنی اس میں انسانوں کے حالات و ضروریات کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ میرے نزدیک مذہب کا ہر ایک عقیدہ اور ہدایت کسی سیاق میں ہی وجود میں آتا ہے اور اسی سیاق میں اسے عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ جب تک وہ سیاق باقی رہے گا، اس سے متعلق عقائد پر ایمان اور ہدایات پر عمل بھی ممکن ہوگا اور جب سیاق بدل جائے تو اس سے متعلق عقائد اور ہدایات دونوں بے اثر ہو جائیں گی اور اس کی جگہ نئے عقائد اور نئی ہدایات کی تحقیق کرنی ہوگی جو اپنے زمانے کے اعتبار سے موزوں ترین ہو۔
میرا ماننا ہے کہ کسی بھی مذہب کے بعض اجزا کے غیرموزوں ہونے سے وہ پورا مذہب باطل نہیں ہو جاتا۔ اس کے برعکس، جو حضرات مذہب سے متنفر ہیں ان کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ایک مذہب کے بعض عقائد و رسوم اور قوانین ازکار رفتہ ہو چکے ہیں یا ان کی غلطی ثابت ہو چکی ہے اور اس کے معنی لازماً یہی ہیں کہ اس مذہب میں صداقت نہ کبھی تھی اور نہ اب ہو سکتی ہے اس لیے اس میں کسی کاٹ چھانٹ کی مشقت اٹھانے کے بجائے اسے خیرباد کہہ دیا جائے اور عقل کی بنیاد پر زندگی گزاری جائے۔
بالفرض یہ موقف صحیح بھی ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کو اسلام سے فوری طور پر نکل جانا چاہیے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں ایک بڑی کارآمد بات لکھی ہے کہ اسلام سے نکل کر تم جس دوسرے مذہب/ نظام کا حصہ بنوگے، تمہیں وہاں بھی کسی ضابطے اور کسی قانون کی پابندی کرنی پڑے گی۔ میں بھی مولانا کی طرح یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے مذہب میں جانے کے بجائے خالص عقلی زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں تو ہم کو اپنے لیے ایک نظام فکر و عمل اور ایک شریعت وضع کرنی پڑے گی اور اسی کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم اپنے لیے ایک آسان اور قابل عمل ضابطہ حیات تشکیل دے لیں جس میں افراد معاشرہ کی گردنوں پر رکھا جانے والا جوا مذہب سے زیادہ ہلکا ہو۔ یہ ایک مثالی لیکن خیالی معاشرہ ہوگا جس کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کم از کم ایک مرد اور ایک عورت کی ضرورت پڑے گی تا کہ وہ ایک نئے معاشرے کے قیام کی بنا ڈال سکیں۔
غرض اگر ہم ایک عقلی زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو یہ ایک روایتی سماج کے اندر اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جبکہ ہمیں اس کی قانونی رخصت بھی ہو اور اس سماج کے لوگوں میں سے کم از کم ایک جنس مخالف ہمارا ساتھ بھی دے تاکہ ہم انسانی سماج کے اندر ایک علیحدہ جماعت اور معاشرہ بن کر رہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم کو زندگی اور کائنات کے ایک عقیدہ یا نظریہ کی تخلیق کرنی ہوگی تاکہ اس کی بنا پر ہم اپنے معاشرے کے لیے کچھ رسوم، کچھ ضابطے اور کچھ قوانین وضع کر سکیں۔ یہ اس لیے ضروری ہوگا کہ ہمارے ہاں پیدا ہونے والا ایک فرد پیدائش سے لے کر موت تک ان کی پابندی کر سکے۔ مثلاً، اگر ہم اپنی غیر مذہبی عقلی جماعت اور معاشرے میں خاندان کے ادارے کو تسلیم کریں تو افراد کے لیے نکاح، طلاق، وراثت، ان کی آخری رسومات سے متعلق ضابطے اور قوانین بنانے ہوں گے۔ یعنی، نکاح و طلاق کے باب میں شوہر و بیوی کے حقوق طے کرنے ہوں گے کہ کون کس کی کفالت کرے، طلاق ہونے کی صورت میں کون کس کو کن صورتوں میں خرچہ دے یا نہ دے؟
اسی طرح، وراثت سے متعلق قوانین وضع کرنے ہوں گے اور اس سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ بیٹا اور بیٹی برابر ہیں یا نہیں؟ اور اگر برابر ہیں تب انہیں وراثت میں برابر کا حصہ دینا ہوگا یا کتنا دینا ہوگا اور کس بنیاد پر؟ اسی طرح، میت/ لاش سے نجات پانے کے لیے ہم کیا طریقہ اپنائیں؟ اسے غسل اور کفن دے کر سپرد خاک کریں یا نذر آتش؟ یا الیکٹرانک بھٹی میں ڈال دیں؟ اور ان میں سے کوئی طریقہ اپناتے وقت لاش کے سامنے موجود اہل خانہ اور دوست احباب کے سامنے کچھ رسمی جملے کہیں یا ایک مختصر اور جامع تقریر کریں جس میں زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کیا گیا ہو؟ غرض اس قسم کے خدا معلوم کتنے مسائل ہیں جنہیں اپنی عقلی زندگی کی ابتدا کرتے ہی ہمیں عقل ہی کی روشنی میں طے کرنا شروع کر دینا ہوگا۔
اشعر نجمی: وراثت،ترکہ، معاش اور دیگر قوانین عقل کی بنیاد پر طے کیے جا چکے ہیں اور ہر معاشرے نے اپنی سہولت کی بنا پر کرلیا ہے۔ اس کے لیے بھی مذہب کی ضرورت نہیں۔ ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے اور انھی قوانین کے سہارے وہ بڑے آرام سے زندگی گزر بسر کرسکتا ہے۔ ترکہ اور وراثت کے اسلامی قوانین میں جو چھید ہیں، وہ اظہر من الشمس ہیں، ان پر سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ پھر یہ بھی متفقہ نہیں اور ایک ہی مذہب کے مختلف مسالک میں متفقہ نہیں ہیں۔ تو کیوں نہ عقلی قوانین کا متفقہ فیصلہ تسلیم کرلیا جائے۔
طارق احمد صدیقی: قانون اصلا عقل کی بنیاد پر نہیں بلکہ رواج کی بنا پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ عقل کے ذریعے بعض غیرموزوں قوانین میں وقتا فوقتاً تغیرات کیے جاتے ہیں۔
انسانی زندگی سے متعلق قوانین باہم دگر مربوط اور متعلق ہونے چاہئیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں مساوات مرد و زن کی بنا پر جو جدید قوانین رائج ہیں ان میں وراثت میں لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر حصہ ملتا ہے، اب اس سے غیر مربوط ایک قانون دیکھیے جو نکاح و طلاق سے متعلق ہے: نکاح اور طلاق دونوں صورتوں میں مرد ہی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو خرچہ دے۔ کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ ایک طرف مرد و زن کو مساوی درجہ دیں، وراثت میں برابر کا حقدار تسلیم کریں اور دوسری طرف نکاح کے دوران بھی اور طلاق کے بعد بھی مرد ہی عورت کو گزارہ بھتہ دے؟
دنیا میں کہیں بھی عقل کی بنیاد پر جو قوانین بھی بنائے جاتے ہیں وہ اکثریت کے مذہب اور رواج سے متاثر ہوتے ہیں۔ مثلا ایسے عقلی قوانین میں محرمات کی فہرست اصلا مذہبی قوانین سے ہی ماخوذ ہوتی ہے اور پھر بتدریج ان محرمات کی فہرست میں تخفیف کی جاتی ہے،مثلا کزن سے نکاح کو بعض مذاہب میں ممنوع کیا گیا، لیکن آگے چل کر سیکولر ممالک میں اسے جائز کیا گیا لیکن فہرست میں بقیہ محرمات بدستور باقی رہیں۔ عقل کی بنا پر کوئی متفقہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کن رشتوں میں نکاح جائز ہے اور کن میں نہیں، ایسا رواج کی بنا پر کیا جاتا ہے اور مذہب اس رواج کو منظور کرتا ہے یا نہیں کرتا۔
[اب ایک سوال آپ سے: فرض کیجیے ایک مسلمان لڑکی جو اسلام کو ترک کر دے، کیا وہ ہندوستان میں اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت اپنے باپ کے بھائی کے بیٹے سے نکاح کر سکتی ہے؟]
میں سمجھتا ہوں کہ اتنی خالص نوعیت کی عقلی زندگی ہم نہیں گزار سکتے۔ اوپر جس قسم کے مسائل میں نے پیش کیے، ان کے حل پر دو عقل پرستوں کے درمیان بھی مکمل اتفاق نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے تو حیات و کائنات کے متعلق کسی عقلی نوعیت کے عقیدہ یا نظریہ پر اتفاق رائے ضروری ہوگا جو اگر بہ مشکل چند اشخاص کے مابین واقع ہو جائے تو بھی ان کی آئندہ نسل اس پر متفق ہو سکے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ جو آزادی ہم اپنے لیے چاہتے ہیں وہی ہمیں اپنی نئی نسل کو بھی دینی ہوگی ورنہ عقلی زندگی کے کیا معنی رہ جائیں گے؟ اس لیے، جب ہماری نئی نسل ہمارے عقائد سے انحراف کرے گی تو ان کی بنا پر وجود میں آنے والے رسوم، ضابطے اور قوانین میں بھی تغیر واقع ہوگا اور کچھ ہی عرصے میں ہمارے عقلی نظام کے اندر سے ایک دوسرا عقلی نظام برامد ہوگا اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اجتماعی زندگی تغیر سے زیادہ ثبات کی متقاضی ہوتی ہے تا کہ جس عقلی نظام فکر و عمل کا بیج بویا گیا ہے وہ تہذیب کا تناور درخت بنے، برگ و بار لائے اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچے۔ اس لیے عقل کی بنیاد پر جو نظام فکر و عمل بھی بنایا جائے گا اس کو برقرار رکھنے کے لیے خاطر خواہ جبر و قہر کی ضرورت بھی پڑے گی تا کہ تہذیب کا شجر تغیرات کی زد سے لمبے عرصے تک محفوظ رہے۔ مذہب اسلام نے بھی اسی طریقے سے اپنے عقائد و رسوم کی حفاظت کی ہے اور بدعات کے باب کو مضبوطی کے ساتھ بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام اپنے ڈھانچے کو ایک طویل عرصے تک برقرار رکھنے میں اس لیے کامیاب رہا ہے کیونکہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں عقل کا دخل برداشت نہیں کرتا اور اسے نقل/ رواج/ سنت کے ماتحت رکھتا ہے۔ اس کا نقصان خود اسلام اور مسلمانوں کو یقیناً پہنچا ہے لیکن اس کا فائدہ عقائد و رسوم اور قوانین کے استحکام کی شکل میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے متفقہ عقائد و تصورات، طور طریقوں، محللات و محرمات، طریقہ عبادت اور قوانین وغیرہ میں بڑی یکسانیت ہے اور اختلافات سے کہیں زیادہ اتفاقات کی کثرت ہے (حالانکہ اس کے باوجود عالم اسلام پرامن نہیں ہے جو ایک علیحدہ مسئلہ ہے، اور اس کا سب میں اوپر اپنے ایک تبصرے میں بیان کر چکا ہوں )۔ یہ استحکام اگر انسانی تہذیبوں میں نہ ہو، اور وہ نسل در نسل تغیرات کی شکار ہوتی رہیں تو تہذیب و ثقافت برگ و بار نہیں لا سکتی۔ ایسی تہذیبیں جن میں عقلی گھوڑ دوڑ اپنی مطلوبہ حد سے بہت زیادہ ہو جائے اور ہر کسی کو اپنی عقل کی رو سے عملی زندگی بسر کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے تو معاشرہ بہت جلد شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا۔
اسی عدم استحکام سے بچنے کے لیے مذاہب اور تہذیبیں اپنے کو ازلی و ابدی بتاتی ہیں اور اپنی بنیادوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ لیکن جس طرح ہر ایک شجر کو ایک نہ ایک دن بوڑھا ہونا اور مرجھا جانا ہے اسی طرح تہذیب کا درخت بھی ایک طویل دور کے بعد بوڑھا ہو کر زمیں دوز ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام پر ابھی وہ وقت نہیں آیا۔
خالص عقلی بنیادوں پر جس معاشرتی نظام کی تعمیر ہم کریں گے، اسے بھی انحراف اور تغیرات سے بچانے کے لیے بعض تدبیریں کرنی ہوں گی اور مذہبی نظام ہی کی طرح جبر و قہر سے کام لینا ہوگا حالانکہ اسی چیز سے ہم متنفر ہیں اور مذہب کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک مذہبی نظام/ طریقے کو چھوڑ کر عقل کی بنیاد پر دوسرا نظام/ طریقہ وضع کرنا آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا ہے۔ اس کے علاؤہ ایسے کسی عقلی نظام کی تخلیق کے لیے جس علمی و عملی قوت کی ضرورت ہے وہ میں اپنے اندر نہیں پاتا۔ یہ کام تو پیغمبرانہ جرأت کا متقاضی ہے۔ البتہ عقلی زندگی کا ایک اور طریقہ ہے وہ یہ کہ ہم شب و روز جس مذہب کےخلاف بولتے رہیں۔۔۔ہمارے جینے مرنے، نکاح و طلاق اور تقسیم وراثت سے متعلق ضابطے اسی مذہب سے مستعار ہوں۔ میرے نزدیک یہ غیرذمہ دارانہ رویہ ہے اور اسی لیے میں اس طریقے کو عقلی نہیں سمجھتا۔ میری عقل یہ کہتی ہے کہ اگر ہم ایک قدیم آبائی عمارت میں مع اہل و عیال رہ رہے ہوں تو سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ وہ کب تک قابل رہائش ہے؟ اگر وہ مرمت کرنے کے لائق ہو تو چند سال اور اس میں گزارے جا سکتے ہیں اور اس درمیان کہیں خالی پلاٹ دیکھ کر ایک جدید نقشے کے ساتھ دوسرا مکان بنا کر اس میں منتقل ہوا جا سکتا یے۔ لیکن نیا مکان بناتے وقت ہم اپنی قدیم آبائی عمارت کے نقشے کو بھی پیش نظر رکھیں گے اور اس کے مفید اور کارآمد پہلوؤں کو جدید نقشے میں یقینا جگہ دیں گے۔ ہم یہ بیوقوفی نہیں کریں گے کہ اپنی آبائی عمارت اور اس کے نقشے کو ترک کر دیں، اور خالی ہاتھ اپنے گھر سے نکل کر جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکتے ہوئے عقلی زندگی گزارتے رہیں۔ حالانکہ اگر کھنڈر میں بدلتی ہوئی کوئی قدیم عمارت یکایک منہدم ہو جائے تو بات دوسری ہے، پھر تو سب کو جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا ہوگا اور جو نہ بھاگ سکیں گے، کچل کر مر جائیں گے۔ جو لوگ ذی شعور ہوتے ہیں، ایسی صورتحال پیش آنے سے پہلے بوسیدہ اور خطرناک عمارتوں سے نکل جاتے ہیں۔
اشعر نجمی: آپ نے جو حل پیش کیے، ان کی رو سے ایک مذہبی معاشرے میں دو شخص میں بھی مکمل اتفاق نہیں ہو سکتا لیکن مغرب کے وہ جمہوری اور سیکولر ممالک کے باشندے جن کی پوری زندگی کی اساس اپنے مخصوص ممالک کے متفقہ قوانین پر ہے، ان اس معاملہ میں کوئی تنازعہ نہیں، اس کے برعکس ذرا جنوبی ایشیا کے اسلامی ممالک پر نظر ڈال لیں کہ کس طرح ایک ہی مذہبی قانون کو لے کر رسہ کشی جاری ہے۔
طارق احمد صدیقی: میں نے طویل المیعاد سطح پر اپنی بات رکھی ہے۔ کیا ہر مذہب کے تارکین مل کر کوئی قوم اور تہذیب بن سکتے ہیں اور کسی ایک متفقہ طریقہ حیات پر چل سکتے ہیں؟ ان کا کوئی ایک ورلڈویو ہو سکتا ہے؟ لامذہبیت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں پیدائش اور موت سے متعلق رسومات سے لے کر نکاح و طلاق، اکل و شرب، وراثت اور دوسرے بہت سے قوانین پر اتفاق رائے نہیں پایا جا سکتا۔ لامحالہ انہیں اکثریت کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔ اور اگر ہم کو مسئلہ اسی سے ہے تو ہم اسلام کیوں ترک کریں؟ فرض کیجیے دو عورتیں ایک ساتھ کسی ایک مرد کے نکاح میں رہنے کے لیے تیار ہوں تو اسلام کے سوا کس ملک کا سیکولر قانون ان کو اس کی اجازت دے سکتا ہے؟ اسی طرح، اگر ایک شخص اپنی بیوی سے طلاق چاہتا ہو تو اس کو تاحیات اپنی بیوی کو خرچ دینا ہوگا۔ لیکن اسلامی قانون اس معاملے میں نہایت عقلی ہے اور مرد کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ تاحیات اپنی سابقہ بیوی کے مصارف برداشت کرے۔ دیگر قوانین کے مطابق نکاح کرنے کا مطلب ہی ہے کہ اب آپ پھنس گئے اور طلاق کی صورت میں بہت دن عدالتوں کے چکر کاٹنے ہوں گے۔ اسلام میں بھی مرد پر ہی عورت کے نان و نفقہ کا بار ڈالا گیا ہے لیکن آگے چل کر جب مرد و زن کی مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام عمل آئے گا تو نان و نفقہ کی شرط ہٹائی جا سکتی ہے۔ اللہ نے عورتوں کو بھی دو ہاتھ اور دو پیر دیے ہیں، وہ خود کما کر کھا سکتی ہے تو کیوں نہ کھائے؟ البتہ اولاد پر استقرار حمل سے لے کر جوان ہونے تک کے جسمانی مشقت و مالی مصارف میاں بیوی دونوں کو مل کر برداشت کرنے ہوں گے۔ اور جہاں مرد اولاد پر آنے والی جسمانی مشقت نہ اٹھا سکتا ہو، تو اس مشقت کے برابر مال اس کو خرچ کرنا ہوگا۔ لیکن یہ طریقہ کہ ہر حال میں عورت کا خرچ مرد ہی برداشت کرے اور قریبی رشتے داروں کے ترکے میں سے مرد کے برابر ہی حصہ بھی پائے، کیونکر عقل میں آ سکتا ہے؟
اسلام میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں اور بہت سی چیزوں میں عقل کی بنیاد پر اصلاحات کی جا سکتی ہیں لیکن اس کے لیے خود مسلمانوں میں رائے عامہ کا ہموار ہونا ضروری ہے۔
مختلف مذاہب کے تارکین اپنے اپنے مذہب کو گوں ناگوں اسباب سے ترک کرتے ہیں۔ اور چونکہ وہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ذی شعور لوگ ہوتے ہیں، اس لیے کائنات اور عملی زندگی سے متعلق ان کی آرا میں تنوع بھی ہوتا ہے۔ اسی سبب سے وہ کبھی ایک قوم اور ایک تہذیب نہیں بن سکتے۔ بعض لوگ مذاہب کو ترک کر کے لاادریت کو اختیار کرتے ہیں، بعض بیخدا بن جاتے ہیں، بعض کسی نہ کسی قسم کے خدا پر بدستور یقین رکھتے ہیں، بعض نیچرلسٹ بن جاتے ہیں، بعض کے نزدیک زندگی محض ایک لغو و لایعنی صورتحال ہوتی ہے۔ غرض لامذہبیت ایک ایسی حالت ہے جس کو اختیار کرنے والے افراد کا ایک تہذیب کی شکل اختیار ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ وہ دنیا میں عملی نوعیت کے مسائل پر یعنی بین انسانی معاملات پر متفق ہو سکتے ہیں اور ان پر اپنے حسب حال قانون سازی بھی کر سکتے ہیں۔ زندگی اور کائنات کے سلسلے میں اس قدر نظری اختلافات کے بعد عملی اور قانونی مسائل میں اتفاق رائے کی بدولت ایک تہذیب بننے کا عمل ابھی اپنی کامیابی کے لیے ٹھوس ثبوت چاہتا ہے۔
میں یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر بات عقل اور ضمیر کی ہو تو ہر ایک شخص کو اکل و شرب اور جنسی معاملات میں مکمل آزادی دینی ہوگی، ایسی آزادی جس سے اوروں کو کوئی جسمانی اور ذہنی نقصان نہ پہنچتا ہو، لیکن موجودہ عالمی نظام میں یہ ممکن نہیں ہے۔ پھر ہم اسلام سے کیوں تائب ہوں کہ یہ تو ایک نجات دہندہ مذہب ثابت ہوگا اگر اس میں ضروری اصلاحات پر لوگ تیار ہو جائیں۔
[یہ بلاگر پوسٹ کیے جانے تک مراسلے کے نیچے اب تک اتنے ہی تبصرے موجود ہیں۔ ]
دین خطرے میں ہے۔ مجھے بھی اس جملے سے لفظ بہ لفظ اتفاق ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے خطرے میں ہے، اس پر میری رائے دنیا کے بہت سے لوگوں سے علیحدہ ہے۔
ہمارا دین آج سے چودہ سو سال پہلے وجود میں آیا اور پہلا خطرہ اس دین کو تب پیش آیا جب عالم اسلام میں یونانی فلسفہ داخل ہوا۔ اس وقت کے مسلمانوں نے اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں اسلام میں علوم عقلیہ کا ظہور ہوا اور ہر بات کو عقل کی میزان پر تولا جانے لگا۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق مختلف قسم کے سوالات کیے جانے لگے، وجودی اور شہودی جھگڑا پیدا ہوا۔ وحی و رسالت پر مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور عقیدہ ایسا غیر متزلزل ہوا کہ اس کے اجزائے ترکیبی کے ٹوٹنے بکھرنے ک سلسلہ آج تک جاری ہے۔
دوسرا خطرہ دور جدید میں مغرب کے فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی کے ہمہ گیر عالمی غلبہ سے پیدا ہوا اور عقائد دینیہ کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ بھی سوالات کے دائرے میں آ گئی۔ اب عقیدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین، احکام اور ہدایات کی غیر موزونیت پر گفتگو ہونے لگی۔ ایسے متکلمین پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام کے درجن بھر سے زائد مستند احکام، ہدایات اور قوانین کو بدل ڈالا۔ انہوں نے مغربی فنون لطیفہ کی ہر شکل کو حلال کیا، رقص و موسیقی، مصوری، سنگ تراشی، اداکاری سب کو اندھادھند جائز کر لیا۔ قطع ید اور سنگسار جیسی سزاؤں سے انکار کیا کہ یہ اسلام کا حصہ نہیں ہیں، یتیم پوتےکی وراثت کے حق کو تسلیم کیا جو اسلام کی رو سے محجوب الارث ہے۔ ارتداد کی نئی تعریف کی اور تارک اسلام کے لیے کسی سزا کے نہ ہونے کے قائل ہوئے، خواتین کے ستر عورت کی شرعی حدود کا انکار کیا اور اوڑھنی یا دوپٹہ کی فرضیت کو خارج کیا بلکہ اس معاملے میں یہاں تک پہنچے کہ بعض نے کہا کہ خواتین کے ستر عورت کی شرعی حد عام حالات کے لیے ہے لیکن فٹ بال، کرکٹ، ٹینس، کبڈی وغیرہ کھیلتے وقت دنیا میں مروجہ لباس پہن سکتے ہیں۔ مغرب زدگی پر مبنی ایسے انحرافات بڑھتے ہی گئے، حلالہ جو فقہی و قانونی چور دروازے کی ایک مثال ہے اس کے خلاف لب کشائی کی (حالانکہ قرآن کے مطابق تین طہر میں تین طلاق دینے کے بعد عورت مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ پھر اگر ایک مرد اپنی سابقہ بیوی کو واپس پانا چاہے تو حلالہ کے چور دروازے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ چور دروازے تو دنیا کے بہت سے قانونوں میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں لیکن اس سبب سے کسی قانون کو بالکلیہ ختم نہیں کر دیا جاتا). مصر کے ایک مولوی نے نامحرم مرد اور عورتوں کا مصافحہ جائز کر دیا۔ کتنے انحرافات گنوائے جائیں، باطل نظام میں ووٹ ڈالنا، جج اور وکیل بننا ہی جائز نہ ہوا بلکہ باطل نظام میں سود کھانا بھی حلال کیا گیا۔ اور تازہ ترین انحراف ہے اسلام میں ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کو تسلیم کر لینا۔
دور جدید کے یا معاصر اسلاموں کے مختلف ایڈیشنوں میں یہ انقلابات یک بہ یک رونما نہیں ہوئے۔ بلکہ سب سے پہلے اہلحدیث فرقہ پیدا ہوا جس نے فقہ سے پیچھا چھڑایا اور خاصی تعداد میں مسلمانوں کو غیر مقلد بنا دیا۔ اہلحدیث فرقہ نے جب فقہ کو منہدم کر دیا تو اس کے بعد اہلحدیث فرقے کے اندر سے سر سید کا ظہور ہوا اور انہوں نے احادیث کے انکار کی انوکھی طرحیں ایجاد کیں، ان کے پیچھے پیچھے بہت سے تجدد پسند چلے یہاں تک کہ مولانا اسلم جیراج پوری اور غلام احمد پرویز ایسے عظیم منکرین حدیث پیدا ہوئے۔ اسی کے متوازی مولانا مودودی ایسے مخفی اہلحدیث پیدا ہوئے جنہوں نے اسلامی فقہ کی شرط نہ صرف ہٹا دی بلکہ صحابہ پر بھی کڑی تنقیدیں کی اور صحابہ کے عمل کو حجت نہ سمجھا، مثلا داڑھی کے مسئلے میں انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضہ اللہ عنہ کے عمل کا اعتبار نہ کیا جو ایک مشت داڑھی رکھتے تھے اور کمال بے پروائی سے فرمایا کہ ذرا وہ حدیث تو دکھاؤ جس میں اللہ کے رسول نے داڑھی کے مقدار کے متعلق کچھ فرمایا ہو۔ پس، انہوں نے بھی اہلحدیث حضرات کی طرح فقہ کی پابندی سے نجات پائی اور اس طرح ان کے ماننے والوں نے خشخشی داڑھی رکھنی شروع کی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پس، جب نہ صحابہ کا دینی عمل اور فہم دین حجت رہا، نہ ائمہ مجتہدین کی فقہ حجت رہی، تو اس کے بعد جرات بڑھتی گئی، حدیثوں کا انکار کیا گیا، مدتوں سے صورتحال یہ ہے کہ جیسے ہی آپ اسلام کے کسی حکم کے متعلق کسی تجددپسند جدید تعلیم یافتہ مسلمان سے کچھ کہیں وہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ کیا قرآن میں یہ حکم ہے؟ اگر قرآن میں یہ حکم نہیں ہے تو میں اس کو اسلام کا حکم نہیں مانتا۔ یعنی اسلامی فقہ، صحابہ کا عمل اور فہم دین، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، اب یہ سب کچھ یا تو تجددپسند اسلامسٹوں پر حجت نہ رہا یا پھر وضع شدہ اور جعلی قرار پایا۔ پھر سارا دین، اور ساری شریعت صرف اور محض قرآن تک محدود ہوگئی اور قرآن کے سوا سب کچھ کسی نہ کسی طریقے سے ناقابل اعتبار قرار دے دیا گیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ قرآن کی قدیم اور وسطی تفاسیر بلکہ بہت سی جدید روایتی تفسیری اور ترجمے بھی دین اسلام کو جدیدیانے کے پروجیکٹ میں سد راہ تھے، چنانچہ تمام روایتی تفسیروں کی بہت سی باتوں کو غیر معتبر سمجھا گیا اور لغت لے کر قرآن کی جدید ترین تفسیریں لکھی جانے لگیں۔ سب سے آخر میں اسلامی تجدد پسندی کے چمکتے ہوئے ستارے جاوید احمد غامدی کا ظہور ہوا جنہوں نے بالکل ہی ایک نیا اسلام ایجاد کر ڈالا۔ دینی اصطلاحات و لفظیات کی ایسی ایسی تعبیریں پیش کیں کہ خدا کی پناہ!
اب قارئین کو کسی حد تک میرا موقف سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اسلام خطرے میں کیوں ہے اور کن لوگوں کی وجہہ سے ہے۔ دور جدید میں پہلے فقہ سے انکار کیا گیا، پھر حدیث سےانکار کیا گیا، پھر قرآن کی روایتی تفسیروں سے انکار کیا گیا اور لغت کی مدد سے من مانی تفسیر کی جانے لگی۔ حال یہ ہے کہ عالم اسلام میں ہر پانچ دس کوس پر ایک مفسر بیٹھا ہے جو دن رات قرآن کریم کی تحریری ہی نہیں، بلکہ آڈیو ویڈیو تفسیریں کرنے میں رات دن ایک کیے ہوئے ہے۔
اسلام کو اصل خطرہ اسی قسم کے منکرین فقہ، منکرین حدیث، اور لغت پرست مفسروں سے ہے جو چودہ سو سالہ اسلامی احکام اور قوانین کے برعکس جدید مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر قرآن اور/ یا سنت کی رو سے نئے نئے احکام و قوانین ایجاد کرنے میں مصروف ہیں۔ اس تجددپسندانہ کوشش کا نتیجہ بہت مہلک ہوگا خاص طور سےان ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ایسے ملکوں میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے فایدہ اٹھا کر ان پر بالکل ہی اجنبی قانون لاد دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات میں نے 2016 میں بھی کہی تھی اور اب پھر اس کا اعادہ کر رہا ہوں۔
میرا ماننا ہے کہ اسلام کو دور جدید کے علم و سائنس اور فلسفیانہ و اخلاقی معیارات کے مطابق بنانے کا طریقہ جو تجدد پسندوں نے اپنایا ہے انتہائی غلط ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ لغوی اور نیم عقلی قیل و قال کے ذریعے دور جدید میں غیر موزوں ہو جانے والے اسلامی قانونوں کے متعلق کہنا کہ وہ کبھی اسلام کا حصہ ہی نہیں تھے بلکہ صرف مسلمان علما اور فقہا کی غلطیوں اور خیانتوں کا نتیجہ تھے۔ ایسا کہنے سے چودہ سو سالہ اسلامی قوانین اسلام سے خارج نہیں ہو سکتے۔ مثلا قتل مرتد اور رجم جیسے قوانین کے متعلق دنیا کو یہ یقین دلانا کہ یہ قوانین اسلام کا حصہ نہیں، ایک مہابیوقوفی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی شریعت اتنی عسیرالفہم ہے کہ مسلمان علما کے جمہور ہی نہیں بلکہ 90 فیصد سے زیادہ حصہ چودہ سو سالہ اسلام کو بالکل غلط سمجھتا رہا، اور صرف انیسویں بیسویں اور اکیسویں صدی کے مٹھی بھر تجدد پسندوں نے ہی اسے صحیح طور پر سمجھنے میں کامیابی حاصل کی تو سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی مشکلوں سے سمجھ میں آنے والی شریعت نازل ہی کیوں کی؟ کیا دنیا یہ نہ سمجھے گی کہ بارہ سے چودہ سو سال تک ہم اسلامی شریعت کے روایتی احکام و قوانین کے گن گاتے تھے، اور انیسویں سے اکیسویں صدی میں آخر ایسا کیا ہو گیا کہ درجن بھر سے زائد روایتی احکام و قوانین اسلام کا حصہ ہی نہیں رہے؟
دنیا بھر کے پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے تمام اسلامی ماخذ کھلے ہیں، اسلامی تاریخ کا ہر باب روشن ہے، پھر یہ سمجھنا اپنی حماقت کا ثبوت دینا ہے کہ لوگ ایسی سخن سازیوں اور جدید کاریوں کو اصل اسلام سمجھیں گے۔ اسلام کو جدیدیانے کے اس انتہائی غیراصولی طریقے کا اثر یہ ہوگا کہ روایتی اسلامی فرقوں اور جدید اسلامی فرقوں کے مابین اختلافات اور تنازعات بڑھیں گے جو بالآخر فرقہ ورانہ تشدد پسندی کو ہوا دے گی اور امن عالم درہم برہم ہو کر رہے گا۔
تجددپسندوں کو چاہیے کہ وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ آخر وہ اسلام کا یکسر نیا اڈیشن کیوں نکال رہے ہیں؟ روایتی فقہ سے انہیں اتنے زبردست اختلافات کیوں ہیں؟ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اسلام کی نئی قرات مغربی تہذیب کے معیارات کے تحت کر رہے ہیں یا نہیں؟
روایت پسندوں کو چاہیے کہ وہ تجددپسندوں کی مجبوریوں کا علم حاصل کریں، دور جدید کے تقاضوں کو سمجھیں کہ آخر ایک شخص ایل جی بی ٹی حقوق کو اسلام میں کیوں جگہ دینا چاہتا ہے، کیوں وہ چاہتا ہے کہ اسلام میں قتل مرتد اور رجم جیسے قوانین نہ ہوں، داڑھی رکھنے کی مجبوری نہ ہو، خواتین کے ستر عورت کی فقہی حدود میں تخفیف ہو، دور جدید کا سود حلال ہو جو بقول اس کے قرآن میں مذکور سود سے علیحدہ ہے، وہ کیوں چاہتا ہے کہ فنون لطیفہ کی تمام شکلیں حلال ہو جائیں؟ وہ رقص و سرود، موسیقی، مصوری اور مجسمہ سازی کو کیوں جائز کرنا چاہتا ہے؟ کل ملا کر روایت پسندوں کو یہ سوچنے سمجھنے، جاننے اور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ تجددپسند ایک ماڈرن اسلام کی ایجاد کیوں کرنا چاہتا ہے جس کے عقائد اور قوانین قدیم چودہ سو سالہ اسلام سے بہت مختلف ہیں، ماخذ کے اعتبار سے بھی اور تعبیر کے اعتبار سے بھی۔
روایت پسندوں کو ایک اور میدان میں توجہ دینی ہے۔ وہ ہے جدید تہذیب کے ذہن و مزاج کو جاننے اور سمجھنے کا۔ اس کا علم اور سمجھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ جدید اور معاصر مغربی فلسفہ و سائنس کا ترجمہ و تشریح نہ کی جائے۔ قرون وسطی میں جب عالم اسلام میں یونانی فلسفہ داخل ہوا تھا تو مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کی کتابوں کا بڑے پیمانے پر ترجمہ کرایا بھی تھا اور کیا بھی تھا۔ اور اسی کی بدولت انہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے دور کی ہر ایک قوم سے زیادہ ترقی کی تھی۔ آج عالم اسلام میں جدید مغربی فلسفہ کے داخلے کے بعد پھر وہی صورتحال ہے۔ اس لیے آج بھی مغربی فلسفہ کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کے ترجمہ اور تشریح کی اشد ضرورت ہے۔ مغربی فلسفہ کے ترجمہ و تشریح کے میدان میں ہمارے ہاں ماضی میں کچھ کام ضرور ہوا ہے لیکن وہ بہت کم ہے۔ اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
مغربی فلسفہ و سائنس کو سمجھے بغیر معاصر دنیا کے غالب علمی و فکری نظام کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اور اسے سمجھے بغیر تجددپسند ہوں یا روایت پرست، ہر محاذ پر بالآخر ناکام ہی ہوں گے، اور سمجھنے کا طریقہ اپنی تہذیبی زبان میں مغرب کے تہذیبی سرمایوں (عظیم مصنفوں) کا ترجمہ و تشریح لکھنا ہے، ان پر تنقید کرنا ہے، اور پھر ایک جدید فکری و عملی صورتحال کی تخلیق کرنا ہے۔ یہی تین طریقے ہیں جنہیں یکے بعد دیگرے یا متوازی طور پر اپنانے سے مسائل حل ہوں گے اور وہ خطرہ دور ہوگا جو اسلام کو درپیش ہے یعنی مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے فایدہ اٹھا کر ان پر اجنبی قوانین لاد دینا جنہیں وضع کرنے میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہ ہو۔ جب ایک بار اقلیتی ممالک میں مسلمانوں کا یہ حال ہوگا، تو پھر مسلم اکثریتی ممالک میں اس کا اثر ضرور پڑے گا کیونکہ دنیا اب بیحد سمٹ چکی ہے اور مقام کے حالات کا اثر دوسرے مقامات پر ضرور پڑتا ہے۔
میں یہاں واضح کر دوں کہ میں روایت پسندوں کے چودہ سو سالہ اسلام کو اصل اسلام سمجھتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ مانتا ہوں کہ معاصر زندگی میں اس اصل اسلام کے بہت سے قوانین ناقابل عمل ہو چکے۔ رجم اور قتل مرتد ناقابل عمل ہو چکے، سب کے لیے مشت بھر داڑھی رکھنا ناقابل عمل ہو چکا، ذی روح کی مصوری کی حرمت کی پابندی ناقابل عمل ہو چکی اور اب فوٹو کھنچانا اور ویڈیو بنانا زندگی کے ہر شعبے میں ناگزیر ہے، یہ بس مثالیں تھیں۔ لیکن ان تمام ناقابل عمل احکام و قوانین کے اسلام کا حصہ ہونے پر میرا ایمان ہے اور میں تجدد پسندوں کی طرح ان احکام و قوانین کو تعبیری قیل و قال کے ذریعے اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
یہ تصور ہی مکروہ ہے کہ ہم دور جدید کے تقاضوں سے اتنے متاثر ہو جائیں کہ اسلام کو بدل ڈالیں، قرآن کی تفسیر کو بدل ڈالیں، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
میں مزید واضح کر دوں کہ اگر اسلام میں واقعی کسی عصری تبدیلی کی ضرورت ہے تو اسے بالکل شعوری طور پر کیا جائے۔ اور ایسا احکام کی سطح پر بھی ممکن ہے اور عقائد کی سطح پر بھی لیکن میں اس فریب خوردہ ذہنی کیفیت میں نہیں جی سکتا کہ فلاں فلاں احکام دراصل اسلام کا حصہ ہیں ہی نہیں اور تقریبا چودہ صدیوں تک تمام صحیح العقیدہ سنی علما اور فقہا اتنے سارے اسلامی قوانین و احکام کو غلط سمجھتے رہے اور ایک ہم ہی ہیں جو دور جدید میں انہیں صحیح سمجھ رہے ہیں!
مندرجہ بالا مراسلہ کے نیچے فیس بک دوستوں کے تبصرے اور میری طرف سے ان کا جواب:
اجمل کمال صاحب:
It
were the Arabs who translated the works of Greek philosophers into
Arabic. We are not Arab; why do we need to translate from one foreign
language (civilization) into another? Why look at the west from the
middle eastern lens and increase the confusion?
Or do you think our conversion a few centuries ago has completely
transformed us into something essentially different from those of this
region who did not convert? Why must our engagement with the present be
entirely different from theirs?
اشعر نجمی صاحب: آپ کی اس پوسٹ سے جو اہم سوال اٹھتا ہے کہ اگر جدید دنیا اتنی ترقی کرچکی ہے اور آپ عقل کی بنیاد پر روایتی اسلام سے براہ راست فرسودہ اور ازکار رفتہ چیزوں کی کاٹ چھانٹ بغیر کسی قیل و قال کرنے کی جرات رکھتے ہیں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذہب کی پھر ضرورت کیا ہے؟ کیا فی زمانہ زندگی گزارنے کے لیے عقل کافی نہیں ہے؟ اجمل کمال صاحب: طارق صدیقی صاحب، آپ کی سب دلیلیں اپنی جگہ لیکن آپ کا بنیادی مفروضہ قطعی غیرحقیقی ہے اور یہ مفروضہ ہے جغرافیے سے آزاد گشتی تاریخ کا۔ یہ عالم اسلام کیا شے ہے اور دنیا میں کس جگہ واقع ہے جس میں یونانی علوم کے عرب مترجمین سے بات سیدھے شیخ سرہندی، شاہ ولی اللہ، اہلحدیث، سرسید، مودودی یہاں تک کہ غامدی پر آ پہنچتی ہے۔ گویا دنیا کے باقی جغرافیائی خطوں میں ان مترجمین کے بعد کچھ ہوا ہی نہیں (بالکل جس طرح برصغیر میں ہماری مقامی متبرک ہستیوں سے پہلے جہل کا اندھیرا تھا)۔ عالم اسلام تو نہیں،یہ تو کچھ عالمِ خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہم آپ مصر، ایران، مراکش، صومالیہ وغیرہ کے مقامی مفسروں اور فقیہوں کو اسی طرح جانتے مانتے ہیں جیسے شاہ ولی اللہ اور غامدی کو، اور کیا وہاں کے مسلمانوں نے کبھی ہمارے ان جغادریوں کا نام سنا ہے یا ان کو کوئی اہمیت دی ہے؟
اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرنے کے بعد کہ ہر جغرافیائی خطے کے مذاہب اپنے اپنے تاریخی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ان تاریخی حالات ہی میں اپنے معنی متعین کرتے ہیں، اس قسم کے جتنے چاہیں اتنے طومار باندھ لیجیے۔ نہ بات سمجھ میں آئے گی اور نہ حالات میں کوئی تبدیلی ہو گی۔ اب اس دین بیچو، دیش بیچو ریلی ہی کو لیجیے (بشکریہ خالد انیس انصاری)، یہ قاہرہ، خرطوم یا ریف میں منعقد نہیں ہوئی، آپ کے آس پاس کے ہی کسی مقام پر پیش آئی ہے۔ کیا اس معمولی سی حقیقت کی کوئی اہمیت نہیں؟
آپ کی باتوں سے سمجھ میں یہ آتا ہے کہ کنویں کے مینڈکوں کے کنویں سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے میں تو غالباً کوئی حرج نہیں، لیکن دراصل ہم اس کنویں کے ہیں ہی نہیں۔ پہلے ہمیں سرنگ لگا کر اپنے اصل کنویں تک پہنچنا ہو گا اور پھر اُس کنویں سے باہر نکلنے کی نئے سرے سے کوشش کرنی ہو گی۔ کیوں بھئی، آخر کیوں؟
طارق احمد صدیقی: جناب اجمل کمال صاحب،
1. عالم اسلام سے میری مراد وہ ممالک ہیں جہاں کی بہت بڑی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ یعنی ان کے پیدا ہونے، جینے اور مرنے سے متعلق رسوم اسلامی عقائد کی بنا پر وجود میں آئے ہوں اور کسی نہ کسی حد تک ان کی زندگی کے معاملات اسلامی قوانین پر چلتے ہوں۔ ہم چاہیں تو ایسےممالک کو مسلم دنیا یا مسلم اکثریتی ممالک بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں حقیقتاً کسی خاص اصطلاح کو ترجیح دینا میرا مقصد نہیں ہے۔
2. دنیا بھر کے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اسلام سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتی ہے اور مابعد موت نجات کو اپنے ہی مذہب کے ساتھ مخصوص کرتی ہے۔ کہنے کو تو ہندوستان میں بہت سے مسلمان خود کو سیکولر بھی کہتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگی میں مذہب اس قدر دخیل ہے کہ یہی سیکولر حضرات مسلم پرسنل لا میں ادنی درجے کی مداخلت پر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ اس نوع کے مسلمان اب تک صحیح العقیدہ سیکولر نہیں ہو سکے، خواہ یہ اپنی زبان و قلم سے سیکولرازم کی کتنی ہی گردانیں کرتے رہیں۔ جیسے قرآن میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ، حالانکہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اسی طرح سیکولرازم بھی ان بہت سے سیکولر مسلمانوں کے حلق سے نیچے نہیں اترا، ورنہ ان کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کی اتنی مخالفت کیوں کی جاتی؟
3. یہ کوئی متنازعہ بات نہیں ہے کہ مسلمانوں کی اسلام سے یہ وابستگی بہت گہری ہے اور وہ اس کے مقابلے میں کسی دوسری چیز کو معیار حق و صداقت نہیں سمجھتے۔ یہ مسلمانوں کے عوام اور خواص دونوں کی زبردست اکثریت کا حال ہے جس میں روایتی دارالعلوموں کے علاوہ جدید یونیورسٹیوں سے پڑھے لکھے اہل علم تک شامل ہیں۔ ایسے لوگ جو مسلمانوں میں صحیح العقیدہ سیکولر یا ترقی پسند یا منکرین خدا یا دہریہ کہلا سکتے ہوں بہت کم ہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد ادھر بڑھتی جا رہی ہے لیکن ان کے مقابلے میں اسلام کے کسی نہ کسی اڈیشن پر سچا ایمان رکھنے والے مسلمانوں میں بھی کم اضافہ نہیں ہو رہا۔
4. مسلمان بحیثیت مجموعی اپنے مذہب میں کسی اصولی تبدیلی کے روادار نہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہر ایک مکتب فکر سے وابستہ بعض یا سب علما روایتی شرعی احکام میں عملاً کچھ نہ کچھ، یا کسی نہ کسی حد تک پھیر بدل کرنے پر مجبور بھی ہیں اور اپنی ان تبدیلیوں یا انحرافات کے متعلق وہ کوئی صاف بات نہیں کرتے، گھما پھرا کر وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کا تاثر زیادہ تر یہی پڑتا ہے کہ پہلے اسلام کے فلاں فلاں حکم کو غلط سمجھا یا سمجھایا گیا تھا، اور اب جا کر اسے صحیح طور پر سمجھا جا سکا ہے۔ اس نوعیت کی سخن سازیوں پر میں اوپر کے اپنے مراسلے اور کئی سابقہ مراسلوں میں مفصل لکھ چکا ہوں۔
5. سوشل میڈیا پر تجدد پسند اسلامسٹ براہ راست اسلام پر کوئی تنقید نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں لیکن وہ "مولوی" کو برا بھلا کہتے ہیں، اسے مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ اسی نے اسلام میں یہ اور یہ خیانتیں کیں جن کے سبب اسلام کا سرچشمہ صافی آلودہ ہو گیا۔ لیکن انہیں یہ شعور نہیں کہ جن باتوں کے لیے وہ مولوی کو مطعون کرتے ہیں ان کے قائلین میں تو کبار صحابہ سے لے کر تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سب شامل ہیں، اور ہندوستان کے تمام روایتی دارالعلوموں سے فارغ علما کے مواقف بھی وہی کے وہی ہیں (جن کے لیے مولوی ملا کو ذمہ دار بتایا جاتا ہے). اس لیے اصولا انہیں ماضی و حال کے تمام سنی صحیح العقیدہ علما و فقہا کو مطعون کرنا چاہیے جس کی انہیں جرات نہیں ہو سکتی۔ چونکہ مولوی کی شاعروں اور ادیبوں نے اتنی زبردست مذمت کی ہے کہ یہ بیچارہ ہر کس و ناکس کے لیے آسان ترین ہدف بن چکا ہے۔ اس مولوی مخالف بہتی گنگا میں اسلامسٹ حضرات و خواتین بھی اکثر ہاتھ دھویا کرتے ہیں تاکہ اسلام کے غیرموزوں اور ناقابل عمل ہو جانے والے احکامات کو مولوی کی طرف منسوب کرنے کی خودفریبی میں پڑ سکیں جس کے بعد ان کے لیے سینہ تان کر یہ دعویٰ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ دیکھ لو ہمارے اسلام میں یہ اور یہ قوانین تو دراصل ملا مولوی کی ایجادات و اختراعات تھیں، اور اصل اسلام تو وہ ہے جو سر سید، اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز، فضل الرحمان اور جاوید احمد غامدی وغیرہ بتا رہے ہیں! اس کا نتیجہ دیر سویر یہ نکلے گا کہ روایتی دارالعلوموں کے علمائے کرام فقط ’’مولوی’’ قرار پائیں، اور انہیں بیدخل کر کے ان کی جگہ غامدی ایسے تجدد پسند حضرات مسند ارشاد پر متمکن ہوں، انہیں کو دنیا اسلامک اسکالر، اسلامی مفکر اور عالم دین سمجھے (اس عمل میں مغربی جامعات سے وابستہ اسلامیات اور دیگر شعبوں کے اسلام پسند ماہرین اور محققین بھی شامل ہیں)۔
6. یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مذہبی و روحانی اقتدار کی اس کشمکش میں وہ کون سے روایتی مسالک اور فرقے ہیں جن کی مستند اور ماضی میں اپنی جڑیں رکھنے والی آرا کو مولویت کہہ کر دبا دیا جا رہا ہے اور وہ کون سے جدید ترین اسلامی مکاتب فکر ہیں جن کی تعبیری ملمع کاریوں کو اجتہادِ عصر ہونے (یا اسلام کو اس کی اصل صورت میں منقح کر کے پیش کرنے) کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔ اور یہ دیکھنے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ ایک بار اگر یہ تجدد پسند، روایت پر حاوی ہو گئے تو عالم اسلام؍ مسلم دنیا؍ مسلم اکثریتی ممالک میں ایک نیم عقلی اور جہل آمیز نظام کو ہی فروغ دیں گے۔ فلسفہ، سائنس، ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ تمام تر علوم و فنون کو صحیح خطوط پر ترقی دینا ان کے بس کی بات نہیں۔ اسے علاوہ ایسا ہونے سے طویل المیعاد سطح پر دنیا کی ترقی یافتہ قومیں یا بڑی طاقتیں ان پر بدستور اپنی بالادستی کو برقرار رکھ سکیں گی۔یعنی مسلمان معاشرے میں غلبہ و اقتدار روایت پسندوں کا برقرار رہے یا تجدد پسندوں کا ہو جائے، عام مسلمانوں کی فکری حالت میں سدھار ممکن نہیں ہے۔
7. اس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی تجدد پسند فکر اپنی بنیاد میں ٹھیک ویسی ہی منقولاتی ہے جیسی کہ روایتی فکر۔ دونوں زندگی اور کائنات میں اپنی ہر پیشقدمی پر ماضی سے منقولات پر مبنی کوئی دلیل چاہتی ہیں۔ دونوں کی عقل پر نقل کی گرہ لگی ہوئی ہے۔ زندگی اور کائنات کا براہ راست مشاہدہ کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ ان کی آنکھوں پر آیات و روایات کا حجاب پڑا ہوا ہے۔ وہ مقدس متن کو ایک یوزر مینوئیل کی طرح سمجھتی ہیں۔ اس لیے نہ یہ اسلامی روایت کے بس میں ہے اور نہ اسلامی تجدد پسندی کے، کہ وہ اپنی نیم عقلی فکر کی بدولت مسلم اکثریتی ممالک میں کوئی علمی و فکری انقلاب لا سکیں۔ مسلم اکثریتی ممالک میں جوں جوں یہ تجدد پسند فکر اپنی جڑیں جمائے گی، صداقت کا ان کا نیم عقلی تصور مسلم اقلیتی ممالک کے مسلمانوں میں بھی فروغ پائے گا، اور ایسے ممالک میں اکثریت اور اقلیت کے مابین مکالمہ کا عمل متاثر ہو کر مجادلہ کی شکل اختیار کرے گا، بین مذہبی تصادم کی مکروہ صورتحال کو وجود میں لائے گا (بلکہ لا رہا ہے) جس کے شکار صرف مومنین ہی نہ بنیں گے بلکہ مسلمان ملاحدہ، متفرنجین و متشککین بھی گیہوں میں گھن کی طرح پس جائیں گے۔ واضح رہے کہ مسلمان ملاحدہ اور صحیح العقیدہ سیکولروں، لبرلوں اور دیگر منحرفین کے لیے روایتی اور جدید اسلاموں کے کسی بھی حقانی اور ادعائیت پسندانہ اڈیشن کو نہ صدق دل سے قبول کرنا ممکن ہے اور نہ ببانگ دہل رد کرنا، کیونکہ ان کو بہرحال جینا اور مرنا اسی ’’مذہب گزیدہ‘‘ معاشرے میں ہے جس کی ’’ثقافتی گھٹن‘‘ کے حوالے ان کی تحریروں میں بارہا آتے ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی طرف علامہ نیازفتحپوری نے "ناچار مسلمان شو" کہہ کر مولانا مودودی کو متوجہ کیا تھا۔ اور ایسے ہی ناچاروں کا قلعہ قمع کرنے کے لیے اس دور میں مولانا مودودی نازل ہوئے تھے اور اب جاوید احمد غامدی مبعوث ہوئے ہیں۔ البتہ وہ جراتمند لوگ جو اپنے آبائی دین کو خیرباد کہہ چکے ہوں، اپنے جینے اور مرنے کا طریقہ الگ کر چکے ہوں، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اور ان کے اس انفرادی انقلابی قدم سے اس صورتحال میں کوئی واضح تغیر نہیں ہو سکتا۔ عالم اسلام میں مختلف قسم کے انحرافی رویے ہمیشہ رہے ہیں لیکن سواد اعظم نے ہر دور میں انہیں کچل پیس کر برابر کر دیا ہے۔
8. پس، میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی تجدد پسندی کے اس پورے عمل پر تنقید اور اس میں مداخلت ضروری ہے تاکہ اسلامی روایت کو اسلامی تجددپسندی کےذپ مقابلے پر اس طور کھڑا کیا جائے کہ روایت پورے شعور کے ساتھ تجدد پسندانہ کارروائیوں کا فہم حاصل کر سکے۔ روایت آنکھ کھول کر یہ دیکھ سکے کہ آخر دورجدید میں یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے، اس کے اسباب و علل کیا ہیں اور انجام کار تجدد پسندوں کا یہ قافلہ کس منزل پر جاکر ٹھہرے گا؟ اور خود روایت کا آخر کیا انجام ہوگا، اور سو سوالوں کا ایک سوال یہ کہ اسلام کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہر قسم کے اسلامسٹ سکینت کی حالت میں جا کر فرماتے ہیں کہ بالآخر امرت رس کی پیاسی دنیا ایک نہ ایک دن اپنے تعصبات سے پیچھا چھڑا کر مشرف بہ اسلام ہو جائے گی۔ ان کی اس خود فریبی نے عامۃالمسلمین کو بھی اسی ذہنی کیفیت میں گہرا اتار دیا ہے۔
9. اس بات میں کوئی شک نہ ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے خواص اور عوام کی بہت بڑی/ غالب اکثریت کے اندر اسلام کو براہ راست تنقید کی خراد پر چڑھانے کی نہ خواہش پائی جاتی ہے، نہ وہ اس کی کوئی ضرورت سمجھتی ہے۔ اس کا قطعی ماننا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور ساری دنیا کو ایک نہ ایک دن جھک مار کر ایمان لانا پڑے گا، کیونکہ یہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے ماننے والوں کی اخروی نجات ممکن ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح کی کئی اسلام پسند تحریکات ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک اسلامسٹ تنظیم اخوان المسلمین مصر، ترکی،عراق، فلسطین، اردن، قطر،کویت، شام، متحدہ عرب امارات،یمن، الجیریا، لیبیا،موریطانیہ، مراکش، صومالیہ،سوڈان، تونس، وغیرہ میں یا تو اپنے نام کے ساتھ پائی جاتی ہیں یا پھر نام بدل کر، یا کسی سیاسی پارٹی کے روپ میں موجود ہے۔ اس کے علاؤہ یہ تنظیم مغربی ممالک میں بھی کہیں نام بدل کر تو کہیں اپنے نام کے ساتھ فروغ پا رہی ہے، بعض مغربی ممالک میں اس تنظیم پر قانونی پابندی عاید ہے۔ برصغیر میں بھی پاکستان اور بنگلہ دیش میں اخوان المسلمون سے تقریبا کامل مماثلت رکھنے والی تنظیم جماعت اسلامی کام کر رہی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک میں دہشت گرد تنظیمیں بھی ہیں جو اسلام کو غالب کرنے کی پرتشدد کوششیں کر رہی ہیں۔ ان سب کے علاؤہ تبلیغی نوعیت کی دیگر جماعتیں بھی ہیں جن کا نیٹ ورک ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ وسط ایشیا کے مسلم ممالک میں بھی اسلامی تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا کی مسلمانوں کے اندر مذہب سے وابستگی اور مذہبی ادعا کا فروغ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں مذہب سے رجوع کرنے کی یہ تحریکیں باہمی تشدد اور خونریزی ہی نہیں (جو ایک طویل عرصے سے جاری ہے) بلکہ بین مذہبی اور بین تہذیبی کشمکش کا سبب بن جائیں جس کے بعد اس قوم اور اس کے مذہب کے مستقبل کے متعلق آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہوگا۔
10. اس لیے یہ کہنا حقیقت سے بعید نہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی نفسیات ایک ہے، کیونکہ ان کے جینے اور مرنے کا طریقہ ایک ہے، شریعت کا ان کا تصور منقولاتی ہے اور وہ مقدس متن میں لکھے ہوئے کو خدا کا کلام ہی تصور کرتے ہیں اور اپنی مذہبی تاریخ کے سلسلے کو قرون وسطی کے عرب میں وجود میں آنے والے مذہب اسلام اور اس کے پیغمبر اور صحابہ سے ملاتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ مسلمان کوئی امت واحدہ ہیں، لیکن بہرحال وہ ایسی وحدت ہیں جس میں جگہ جگہ دراریں پھٹی ہوئی ہیں جنہیں تاقیامت پر نہیں کیا جا سکتا۔ بعض علما فرماتے ہیں کہ اسلام میں اختلافات کے مقابلے اتفاقات کی بے پناہ کثرت ہے اور ایسا کہنے سے ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اتفاقات زیادہ ہیں اس لیے امت کو متحد کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں اس علمی نکتے کا ادراک نہیں کہ جب امت میں تفرقہ پڑ جاتا ہے تو اتفاقات کے بجائے اختلافات اہم ہو جاتے ہیں کیونکہ ان پر ایک فرقے کے وجود کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ بعض ترقی پسند؍ سیکولر نظریہ ساز اسلام کے مقامی اڈیشنوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور ان کی دانست میں ایک وقت ایسا آئے گا جب مسلمانان عالم کے رسوم و رواج اور عائلی قوانین مقامی ثقافتوں میں رل مل جائیں گے۔ لیکن ایسا جہاں کہیں بھی ہوتا ہے دین کے قیام اور شریعت کے نفاذ کی پرامن اور متشدد کوششیں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔
11. میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایسے ہر صاحب علم و دانش کے سامنے یہ واضح ہے کہ اس قسم کے متعصبانہ عقائد و نظریات کی حامل قومیں دنیا میں زیادہ عرصے تک کھیپ نہیں سکتیں۔ اب دنیا جس بدلی ہوئی علمی و فکری حالت میں پائی جاتی ہے، اس میں (فکری سطح پر) قرون وسطی کی مذہبی ادعائیت بلکہ مذہبی اصولوں اور قانونوں کے لیے ادنی درجے کی جگہ بھی نہیں پائی جاتی الا یہ کہ اسلام پسندوں کا ایک کثیر گروہ شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے شور و غوغا کر رہا ہو اور ان کے زیر اثر عامۃ المسلمین بھی اپنی آوازیں بلند کر رہے ہوں۔ چنانچہ جو قومیں اس قسم کے ادعا میں گرفتار ہوں، دیر سویر ان کا شیرازہ بکھرنا ہی ہے۔ جب ایک بار کسی قوم کا شیرازہ بکھر جائے تو معاشی پہلو پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور پوری قوم بلالحاظ (قبیلہ و ذات برادری) پسماندگی کی شکار ہو جائے گی۔ ایسا دو اسباب سے ہوگا، پہلا یہ کہ قوم کی اکثریت جن غیرموزوں مذہبی عقائد، طور طریقوں، رسوم اور قانونوں پر عمل کرے گی ان کے سبب اس کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہوگی بلکہ خود ان کی ترقی مسدود ہو جائے گی۔ دوسرا یہ کہ ایسی قوم پر اس کے خارج سے اجنبی طور طریقے اور قوانین لادے جائیں گے، اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ زندگی کے چھوٹے بڑے معاملات میں غالب قوموں کا طرز عمل اختیار کرے۔ ظاہر ہے، ان اسباب کے درمیان کوئی تیسرا سبب اگر نہ ہو جو اس قوم کو اپنے لیے ایک موزوں فکری و عملی نظام کی تخلیق پر مجبور کرے تو اس سے افراد قوم کے اجتماعی وقار اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچے گی، دوسری قوموں کے لوگ انہیں دیکھ کر کہیں گے، یہ ہیں وہ قابل رحم لوگ جن کے ہاں ایسی اور ایسی خرافات پائی جاتی تھیں۔
12. چونکہ اس قوم کے لوگ نہ خود اپنے مذہب میں کسی اصلاح کی جرات کر سکیں گے، اور نہ دوسری قوموں کے ذریعےعائد کردہ اصلاحات کو قبول کر سکیں گے، اس لیے نوبت بین قومی/ بین مذہبی کشمکش تک پہنچے گی جس سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے کہ ایسی قوم کے افراد کے اندر غور وفکر اور حصول علم کی صلاحیت پیدا کی جائے تاکہ ان میں چیزوں کو مختلف زاویوں اور طریقوں سے دیکھنے کا صبر پیدا ہو اور وہ اپنے لیے خود ایک جدید ترین اور موزوں ترین راہ نکال سکیں۔ یہ صبر اگر پیدا نہ ہو تو وہ چیزوں کو مختلف زاویوں اور طریقوں سے دیکھنے کے باوجود کلامی، تردیدی اور ابطالی رویے کے اسیر بنے رہیں گے اور بہرحال وہ اپنے مذہب کی ہر موزوں اور غیرموزوں روایت کی متکلمانہ، مدافعانہ اور معذرت خواہانہ تاویلات میں مشغول رہیں گے۔
13. سوال یہ ہے کہ ایسی قوم کے افراد میں غور و فکر اور حصول علم کا جذبہ کیسے پیدا کیا جائے؟ کیونکہ علم کا ان کا تصور دنیا کے بدلے ہوئے تصور علم سے مختلف ہے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیسے ان کے اندر مختلف زاویوں اور طریقوں سے چیزوں کو دیکھ سکنے کا صبر پیدا کیا جائے؟ کیونکہ جیسے ہی اس قوم کے افراد کسی دوسرے نظام فکر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، ویسے ہی ان کے اندر تردید و ابطال کا جذبہ ابھر آتا ہے۔ ایک پیرا پڑھا نہیں کہ عصبیت عود کر آئی۔ ان میں چبا چبا کر پوری کتاب پڑھنے اور ہضم کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے۔ چنانچہ جب مودودی ایسے علما مغربی افکار و نظریات کا ابطال کرتے ہیں تو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کو ماخذ بناتے ہیں۔ اولین ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب سے ان کا سابقہ کم ہی پڑتا ہے۔ ایسے لوگ ریڈی میڈ مٹیریل کی تلاش میں زیادہ رہتے ہیں کہ ہاتھ آئے تو ایک ابطالی مضمون لکھ ماریں۔ چنانچہ ایک بہت بڑے اسلام پسند مصنف نے ردتشکیل پر اپنے ابطالی مضامین گوپی چند نارنگ کی کتاب سے تھوڑا بہت پڑھ کر لکھے اور کبھی اوریجنل ماخذ سے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی۔
14. غور و فکر اور حصول علم کے جذبے کو ابھارنے کے لیے کوئی ایسی سرگرمی ہونی چاہیے جس میں قوم کے ذہین افراد اپنا دماغ صرف کر سکیں۔ فی زمانہ ہمارے ذہین افراد مقدس متن کی تفسیر میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ آپ نے غامدی صاحب اور ان کے مخالفوں کی تحریریں یقینا پڑھی ہوں گی۔ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ ذہین افراد کی جتنی محنت ایک نیا اسلام ایجاد کرنے اور اس نئے اسلام کی تردید و ابطال میں صرف ہوئی ہے، اتنی اگر فلسفہ کے میدان میں کی گئی ہوتی تو آج مذہبی شدت پسندی کو ہر قسم کے اسلام پسندوں کی کمک نہ پہنچ رہی ہوتی۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے عبقری مقدس متن کی جدید تعبیر میں کام آ گئے اور جو باقی بچے وہ مذہب کی تردید و ابطال میں شہید ہونے والے ہیں، حالانکہ اصل کام تفکیری، تخلیقی، تنقیدی، اور تعبیری نوعیت کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعے چیزوں کو ان کی جگہ رکھنے کا ایک جامع/ قابل عمل منصوبہ بنانا اور اس طرح ایک نئے نظام فکر اور نظام عمل/ طریق فکر اور طریق عمل اور نئی صورتحال کو وجود میں لانے کی عملی کوشش کرنا ہے۔ اور اس طرف کسی کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیسے؟ ہمارے پاس اردو میں فلسفیانہ جہت میں سوچنے اور پڑھنے اور لکھنے کے لیے مٹیریل ناکافی ہے۔ واضح رہے کہ پڑھنے اور لکھنے سے مراد اردو/ ہندی یا اپنی تہذیبی زبان میں لکھنا اور پڑھنا ہے، کسی غیر زبان میں فکری اور تخلیقی نوعیت کے لکھنے اور پڑھنے کا میں بہ دلیل قائل نہیں ہوں۔ اس سلسلے میں کئی نکات میں اپنے سابقہ مراسلات اور مضامین میں لکھ چکا ہوں اور کئی لکھنا ابھی باقی ہے۔ یہ میٹیریل مغربی زبانوں سے ماخذ کا درجہ رکھنے والی فلسفیانہ کتب کے تراجم کے ذریعے درآمد کیا جا سکتا ہے۔
اوپر کے نکات کی روشنی میں اصل مسئلہ میرے سامنے یہ ہے کہ روایت اور جدیدیت (یہ تفریق کلاسیکی اسلام میں قابل قبول نہیں ہے، وہاں صرف روایتی فکر ہی اسلام ہے اور بقیہ سب ضلالت و گمراہی ہے، اس لیے اسلامی جدیدیت کے قائلین کو بھی تجددپسند ہی کہا جاتا ہے اور کارتجدید یا مجددیت و مہدویت کے اسلامی تصور کو تجددپسندانہ افکار و نظریات سے علیحدہ رکھا جاتا ہے) کو معاصر دنیا میں فکری اور اکادمک سطح پر رائج فلسفیانہ بنیادوں اور خرد کی روایتوں سے واقفیت حاصل کرنے پر کیسے آمادہ کیا جائے۔
اس کا طریقہ میری نظر میں مغربی علوم و افکار کا اردو اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا ہے جو مسلمان کثرت سے بولتے اور لکھتے ہوں۔ ترجمہ ایک شخص میں صبر و ضبط اور ڈسپلن پیدا کرتا ہے۔ یہ کسی غیر زبان کی کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کا ایک زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ یہ اجنبی تہذیب کے اندر وجود میں آنے والے علوم و افکار کو جاننے، سمجھنے اور اس سے اثر قبول کرنے یا اپنے حالات کے اعتبار سے انہیں ڈھال لینے کا فن ہے۔ ترجمہ سے ذہن و دماغ کی جو مشق ہوتی ہے اس سے تخلیقیت اور ندرت کی صفات پیدا ہوتی ہیں جن سے عقائد و رسوم کا جمود اور جبر ٹوٹتا ہے۔ ترجمہ اس بات کا دستاویزی ثبوت بھی ہوتا ہے کہ ہدفی زبان میں اصل زبان کے افکار و نظریات اور علمی تصورات کو سمجھنے کی باضابطہ اور سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔
ترجمہ دوسری زبانوں کے افکار و نظریات پر تعارفی نوعیت کی کتاب یا مقالہ نگاری نہیں جسے محض آوارہ، سرسری اور سطحی مطالعہ کے بعد بھی لکھا جا سکتا ہے۔ اس میں مترجم کو سخت محنت اور دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے اور اگر اس کا ترجمہ اچھا ہو تو اس کو مصنف کی تفہیم پر اتھارٹی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ رہی بات تعارفی نوعیت کی کتابوں سے آگے بڑھ کر اعلی درجے کی فکری کتابیں لکھنے کی تو سو پچاس انگریزی کتابیں پڑھ کر اردو میں ایک کتاب لکھتے وقت بھی ترجمہ کا عمل ناگزیر ہے لیکن اس میں ہر بنیادی اصطلاح اور فکری نکتہ کی ترجمانی و توضیح نہیں کی جا سکتی، مصنف اپنی فکری رو میں بعض اصطلاحات کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا چلا جاتا ہے اور کچھ کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، اگر مغرب میں زیر بحث کوئی موضوع اردو والوں کے لیے اجنبی، نیا یا اچھوتا ہو اور ایک اردو مصنف اس موضوع پر تعارف سے آگے بڑھ کر اعلی درجے کی طبع زاد تصنیف لکھے تو وہ قارئین کے لیے چیستان ہو جاسکتی ہے کیونکہ مصنف نے ہر فکری نکتے اور اصطلاح کی تفہیم اپنی کتاب میں نہیں کی ہے۔ یہ صورت تب بھی پیش آ سکتی جب ہم گوپی چند نارنگ صاحب کی طرح کسی نئے موضوع پر بہت سی مغربی کتابوں کے اقتباسات کے تراجم کو چند ابواب میں مرتب کردیں۔ اگر اردو میں سوسیئر کی کتاب عام لسانیات کا درس اور دیگر بنیادی کتابوں کا ترجمہ پہلے کیا جا چکا ہوتا تو نارنگ صاحب کی کتاب ساختیات٬ پس ساختیات اور مشرقی شعریات اردو کے بعض ناقدین کے لیے معمہ نہ بن سکتی۔ حاصل یہ کہ اپنی زبان میں حصول علم اور فروغ علم کے لیے باضابطہ ترجمہ سے بڑھ کر کوئی دوسرا طریقہ اتنا کارآمد نہیں ہوتا۔
15. اب میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا کہ مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم اقلیتی ممالک میں مغربی زبانوں سے مسلمانوں کے ذریعے بولی جانے والی زبانوں میں فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ جدید اور معاصر افکار و نظریات پر مبنی، ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب کے تراجم کا علمی، عملی اور تاریخی جواز کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں غیر زبانوں سے ترجمہ کا کام مسلمانوں نے ہی نہیں کیا اور کروایا، بلکہ اہل مغرب نے بھی اپنے موجودہ دور عروج سے پہلے یہ کام کیا ہے اور وہ اب بھی مسلسل یہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے طویل عرصے تک مسلمانوں کے ذریعے ترقی پانے والے یونانی علوم و افکار کا اپنی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
ترجمہ علم کے خزانوں سے فایدہ اٹھانے اور اسے ترقی دینے کا ایک باضابطہ طریقہ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اردو، ہندی بنگلہ یا دیگر بڑی زبانوں کے بولنے والے ہمیشہ جدید علوم و فنون کی تعلیم و تربیت ایک غیر زبان انگریزی میں پائیں اور اسی زبان میں انہیں ترقی بھی دیتے رہیں، یہ صورتحال ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی۔ دیر سویر ان کے بولنے والوں میں اپنی زبان میں علوم کو ترقی دینے کا سودا سمائے گا اور ان میں بڑے پیمانے پر فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے تراجم کی تحریکیں برپا ہوں گی۔ یہ کام اب تک اس لیے سست رفتاری سے ہو رہا ہے کہ برصغیر میں ہمارے ذہین افراد مقدس متن کی جدید/ تجددپسندانہ تعبیروں میں مصروف ہیں یا مذہب کی تردید و ابطال میں۔ اور اصل کام جس کی بدولت ایک قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی اور اپنے رسوم و رواج، قوانین اور طور طریقوں میں عہد بہ عہد حذف و اضافہ پر مائل ہوتی، اور خود کو ترقی کے بام عروج پر لے جاتی ہے۔۔۔ اس کی طرف ہمارے ہاں کم لوگوں کی توجہ ہے۔ یہ اصل کام دنیا کی دوسری قوموں بالخصوص غالب تہذیبوں سے علمی و عملی سطح پر کٹ کر ممکن نہیں۔ قومیں اور تہذیبیں ایک دوسرے سے نسبت رکھتی ہیں، ان کے درمیان تفریقیں اور مماثلتیں پائی جاتی ہیں اور ایک میں ظاہر ہونے والے واقعات کا دوسری پر اثر پڑتا ہے، وہ ایک دوسرے کی ضد اور مقابلے میں متشکل ہوتی اور پہچانی جاتی ہیں۔
16. اگر ایک قوم کے افراد دوسری قوموں پر اپنا ہمہ گیر غلبہ ہی چاہتے ہوں یا اپنے تصور دین کو دیگر ادیان و ملل سے بلند کرنا چاہتے ہوں تو ایسے کام بھی فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمی کے بغیر ممکن نہیں۔ حالانکہ اس قسم کی خواہش تخریبی ہے اور جامعیت بشری کو تار تار کر دینے والی ہے لیکن اگر ایک قوم کے لوگوں کو اسی قسم کی چیزوں سے تحریک ملتی ہو تو یہی سہی۔ لیکن جب وہ فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے میدان میں پیش قدمی کریں گے، انہیں یہ ادراک ہو کر رہے گا کہ یہ کاروبار ہستی مکمل طور پر وہ صورت نہیں رکھتا جو ان کے آبائی دین کی رو سے انہیں معلوم پڑتا ہے۔ کاروبار ہستی کا صحیح ادراک و احساس ایک انتہائی داخلی چیز ہے جو سطح ظاہر پر بہت کم عرصے کے لیے ظاہر ہوتا ہے اور پھر فورا نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ سر دست اتنا سمجھنا کافی ہے کہ دنیا میں ہر مذہبی قوم اور نظریاتی گروہ کا ایک قبلہ ہے جس کے گرد ان کے افراد چکر کھا رہے ہیں، اور ہر فرد کسی نہ کسی اجتماعیت سے اپنے کو وابستہ رکھتا ہے۔ کائنات اور اس میں زندگی کا ظہور کوئی الل ٹپ اور لغو صورتحال نہیں ہے، یہ کوئی لایعنی اور بے معنی سچویشن نہیں ہے جس میں ہم پڑے ہوئے ہیں، اور یہ سمجھنا بھی نادانی ہے کہ کوئی ایک گروہ، کوئی ایک قوم، کوئی ایک دین اور کوئی ایک نظریہ اپنی جگہ زندگی اور کائنات کے راز سے واقف ہے، اور فلسفیانہ مسائل کا کافی و شافی جواب دے سکتا ہے۔ یہ کائنات ایک کل ہے اور اس میں سب کا حصہ اور کردار ہے۔ سب مل کر حقائق کو ظاہر کرتے اور ایک دوسرے کی ہفوات و اباطیل سے خبردار رہتے ہیں۔
17. یہ سوال کہ برصغیر کے مسلمان اپنی تاریخ کو قرون وسطی کے عرب و ایران سے کیوں جوڑیں/ اور کیوں نہ جوڑیں، بیحد اہمیت رکھتا ہے۔ میں نے اس سوال پر کافی غور و فکر کیا ہے۔ اس سے بحث کرنے سے پہلے اگر اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں کہ ہم مثلا برصغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے لوگ ہیں کون؟ تو اس کے بہت سے جواب ہو سکتے ہیں مثلا: ہم ایک نسلی وجود ہیں، یا مذہبی وجود ہیں، یا کسی ملکی جغرافیے یا جغرافیائی خطے سے منسوب ہیں، یا لسانی وجود ہیں وغیرہ۔
اگر ہم ایک نسلی وجود ہیں تو اس میں متعدد مذاہب کے ماننے والے شریک ہیں۔ پھر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے اور وہ نہیں کرنا چاہیے جیسی باتیں بے اصل ہیں۔ پھر تو میرا یہ مراسلہ ہی غیر ضروری ہے کیونکہ اس میں نسلی کے بجائے مذہبی شناخت کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اگر ہمارے نزدیک نسل زیادہ اہمیت رکھتی ہے تو ہم نسل کی بنیاد پر متحد ہوں گے اور دوسری نسلوں سے خود کو ممتاز کریں گے۔ لیکن اس کے لیے ڈی این اے جانچ کی ضرورت ہوگی کہ فی الواقع ہماری نسلیں کیا ہیں؟ پھر اگر نسلیں علیحدہ ہوں گی تو ہماری اجتماعی کوششیں بھی علیحدہ ہوں گی، پھر کسی متفقہ بات تک پہنچنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہوگا کیونکہ ماضی میں بعض نسلوں کا بعض نے استحصال کیا ہے اور اس بنا پر ان کے مابین کشمکش ہو رہی ہے۔ میں ایسی نسلی کشمکش کا قائل نہیں ہوں البتہ کمزور نسلوں کی حمایت اور ماضی میں ان کی حق تلفیوں کی زمانہ حال میں تلافی کی کوششوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن دنیا میں دیگر اہم مسائل بھی ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں کیا شک ہے کہ ہماری شناخت کسی ایک چیز مثلا صرف مذہب سے قائم نہیں ہوتی، اور اسی طرح یہ صرف نسل، رنگ، زبان، ذات برادری، علاقہ، ملک یا جغرافیائی خطہ، سے بھی قائم نہیں ہوتی۔ اور ہر ایک شناخت کے اندر یہ قوت ہے کہ وہ اپنی حد تک لوگوں کو منقسم کر دے۔ مذہبی شناخت کی بنیاد پر پاکستان بنا لیکن لسانی شناخت کی بنا پر پاکستان سے ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا۔ اس لیے اس نکتہ پر کسی حد تک غور کرنا ضروری ہوتا ہے کس دور میں شناخت کی کون سی سیاست ہو رہی ہے اور اس کے مقابلے میں کس دوسری شناخت کو ہوا دیں تاکہ پہلی شناخت کا دبدبہ یا شر کچھ دیر کو ٹل جائے۔ اس وقت مسلم اکثریتی اور اقلیتی ممالک میں مذہبی شناخت کا زور توڑنے کے لیے کچھ دوسری شناختوں کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن یہ مسئلے کا ایک فوری حل ہو سکتا ہے لیکن اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
مذہبی شناخت کی بالادستی کچھ عرصے تک تو ٹل سکتی ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ مذہب دیگر تمام شناختوں میں زیادہ ممتاز اور طاقتور شناخت ہے اور انسانی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ بہت کچھ یہی حال افکار و نظریات پر مبنی شناختوں کا ہے لیکن مذہب کے مقابلے میں وہ بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہوگا کہ بڑے بڑے ترقی پسند اپنی آخری عمر میں حج ہو آتے ہیں اور نوجوان ترقی پسندوں کے لیے نشان عبرت بنے دارفانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ ہندوستان میں کم ترقی پسند ہوں گے جو مذہبی شناخت سے عاری ہو جانا پسند کریں۔ اس لیے مذہبی شناخت کی بنا پر جو سیاست ہوتی ہے وہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اور سیکولر ملکوں میں مختلف حیلوں اور بہانوں کے ساتھ سیاست پر اثرانداز ہوتی رہتی ہے۔
18. سوال یہ ہے کہ مذہبی شناخت اتنی طاقتور کیوں ہے؟اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ انسان کے سامنے دنیا و مافیہا سے متعلق کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا وہ کوئی یقینی جواب چاہتا ہے۔ یہ دنیا کیسے پیدا ہوئی، انسان اور دیگر موجودات کہاں سے آئے اور ان کا کیا اور کیسا انجام ہوگا؟ اچھا یا برا؟ اور ہم کیسے اچھے انجام تک پہنچیں؟ مذہب ان سوالات کا جواب انتہائی جزم و یقین کے ساتھ فراہم کرتا ہے جبکہ فلسفیانہ و سائنسی علم میں اس کی کمی ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ فلسفہ و سائنس منطقی پیراڈائم میں بات کرتے ہیں جبکہ مذہب اپنے علم کا ماخذ کسی مافوق الفطرت وجود کو بناتا ہے یا کم از کم ایک پراسرار طریقے سے اپنے اوپر علم کے نزول کا دعویٰ کرتا ہے۔ اپنے مذہب کے جواب پر انسان ایک امت بن کر رہتا ہے۔ پھر جیسا جواب ایک مذہب اپنے ماننے والوں کو فراہم کرتا ہے اسی کی بنا پر زندگی بسر کرنے کے لیے موزوں رسوم و قیود اور احکام و قوانین بھی وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔
اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ مذہب رنگ و نسل کی طرح کوئی غیرفعال شناخت نہیں بلکہ یہ فاعل کی حیثیت میں ہے اور اپنے لیے ایک دفاعی میکنزم بھی رکھتا ہے اور دیگر شناختوں کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیتا ہے۔
اس کا تیسرا سبب یہ ہے کہ مذہب محض ایک شناخت ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مقتدر اور ہمہ گیر نظام بھی ہے۔ وقت کی کروٹ نے مذہبی نظام کو دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے اکھاڑ پھینکا ہے لیکن یہ ابھی بھی بڑی زبردست قوت ہے اور جہاں بھی کوئی مذہبی نظام قائم ہے وہاں سے غیرمذہبی، سیکولر اور دیگر نظاموں پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔
انہیں اسباب سے مذہب ہماری زندگیوں میں دوسری کسی بھی شناخت سے زیادہ دخیل ہے اور دوسرے کسی بھی مسئلے سے زیادہ گمبھیر مسئلہ ہے۔
19. پس، دیگر تمام شناختوں کے ساتھ ساتھ ہم ایک مذہبی وجود بھی ہیں جس کی شہادت ہمارے پیدا ہونے، شادی بیاہ کرنے، والدین سے وراثت پانے اور مرنے سے متعلق رسوم و رواج/ قوانین دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنی اس شناخت کو کہاں لے جا کر دفن کریں؟ ہمارا کنورژن ہوا، چاہے جیسے بھی ہو، تو اب ہمارے سامنے کیا یہ راستہ ہے کہ ہم اپنے سابق مذہب/ مذاہب کے طریقے پر جیئیں اور مریں؟ یہ کہنا مزید تخریب کاری ہوگی۔ ہم جس مذہب کے طریقے پر جیتے اور مرتے ہیں، چاہے اس طریقے میں کتنے ہی تغیرات واقع ہو گئے ہوں، اس کی تاریخ تو عرب کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اور جب بھی ہم اپنے جینے اور مرنے کے طریقوں میں کوئی تغیر کریں گے، محمد کا نام لازما آئے گا۔ یہ امت تو محمد ہی کو لے کر اگتی اور ڈوبتی رہے گی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نام محمد کو فراموش کر دیں اور ان کے طریقے پر جیتے اور مرتے رہیں؟ اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اپنی مذہبی تاریخ کو عرب سے یقینا منسوب کریں گے، جیسے عیسی علیہ السلام کے ماننے والے ہندوپاک میں ان سے اپنے کو منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ بھی اتنے ہی کنورٹیڈ ہیں جتنے کہ مسلمان اور ان کے ہاں بھی مسلمانوں کی طرح ذات برادری کی تفریق پائی جاتی ہے۔ اسلام اور عیسائیت پر مقامی اثرات یقینا پڑے ہیں۔ اس سب سے انکار نہیں لیکن یہ کہ ہندوستان میں رہنے والے وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اپنے کو عرب کی اسلامی تاریخ سے نہ جوڑیں، یہ تبھی ممکن ہے جبکہ وہ اسلام کو بحیثیت مذہب ترک کر دیں جو محال ہے۔ اس لیے جب تک وہ مسلمان رہیں گے، ان کی شناخت، ان کی تاریخ، ان کا شعر و ادب اس سب پر اسلام کا اثر ہوگا گو وہ مقامی اثرات سے کتنا ہی منقلب ہو چکا ہو۔ جیسے ہم شعر و ادب سے اسلامی قصص و تمثیلات، تلمیحات وغیرہ کو خارج نہیں کر سکتے، اسی طرح اپنی زندگیوں کو اسلام کی ابتدائی تاریخ سے نہیں کاٹ سکتے۔ جب ہم مشترکہ ہند اسلامی تہذیب کہتے ہیں تو اس کے معنی بھی یہی نکلتے ہیں کہ ہم عرب و ایران کی تہذیبوں کی تاریخ کے ایک حصے سے پیچھا نہیں چھڑا پائے۔
20. جو لوگ اپنے آبائی مذہب کے کنویں میں قید ہوں اور اسی کنویں کو کل کائنات تصور کیے بیٹھے ہوں تو ان کو یہ تعلیم دینا کیا غلط ہے کہ پہلے اپنے کنویں سے باہر نکل کر دیکھ تو لو کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے کیسی کیسی نہریں کھود رکھی ہیں؟ ترجمہ اسی کنویں سے کچھ دیر کو باہر نکل کر دیکھنے کی ایک تدبیر ہے۔ واضح رہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کنویں سے نکل کر کسی اور کنویں میںں چلے جاو۔ کسی بھی دوسرے کنویں میں اتنی جگہ نہیں ہو سکتی، وہاں کے اپنے مسائل ہوں گے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اس کنویں میں رہنا چھوڑ دو۔ کنواں کیسا بھی ہو، ہم پیدا تو اسی میں ہوئے ہیں اس لیے اس کو ترک کرنے نہ کرنے کا سوال نہیں، البتہ ہم کو یہ سمجھنا اور سمجھانا ہے کہ دنیا کے ہر ایک کنویں، چشمے، نہر، ندی اور سمندر میں اصلا پانی ہی ہوتا ہے، خواہ وہ میٹھا ہو، کھارا ہو، یا کسی قدر یا بہت بڑی حد تک آلودہ ہو، پس اصل مسئلہ کسی کنویں یا دیگر آبی ذخائر کے حجم یا ان کی مختلف النوع شکلوں کا نہیں بلکہ اس میں پائے جانے والے پانی کا ہے، اور اگر کسی مقام کا پانی سڑ گیا ہو، یا کسی حدتک آلودہ ہو گیا ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ دوسری جگہوں سے پانی لے لیا جائے یا اپنے کنویں کے پانی کو صاف کرنے کا طریقہ معلوم کیا جائے۔
اور ایسا موقف ہمارے لیے صحح نہیں ہو سکتا کہ رہنے دو ان لوگوں کو اسی کنویں میں قید۔ ہم بھی اسی کنویں میں پیدا ہوئے ہیں اور جب تک اس میں رہیں گے، جو حال اس کنویں کے دوسرے باشندوں کا ہوگا، وہی ہمارا بھی ہوگا۔ [نمبروار گفتگو ختم]
طارق احمد صدیقی: جناب اشعر نجمی صاحب، آپ نے تبصرہ فرمایا تھا:
"آپ کی اس پوسٹ سے جو اہم سوال اٹھتا ہے کہ اگر جدید دنیا اتنی ترقی کرچکی ہے اور آپ عقل کی بنیاد پر روایتی اسلام سے براہ راست فرسودہ اور ازکار رفتہ چیزوں کی کاٹ چھانٹ بغیر کسی قیل و قال کرنے کی جرات رکھتے ہیں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذہب کی پھر ضرورت کیا ہے؟ کیا فی زمانہ زندگی گزارنے کے لیے عقل کافی نہیں ہے؟"
اس کا جواب درج ذیل ہے:
میں مذہب کے اس تصور پر ایمان نہیں رکھتا کہ وہ ازلی و ابدی اور آفاقی نوعیت کے عقائد و ہدایات کا مجموعہ ہے جس پر زمانہ کا کچھ اثر نہیں پڑتا، یعنی اس میں انسانوں کے حالات و ضروریات کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ میرے نزدیک مذہب کا ہر ایک عقیدہ اور ہدایت کسی سیاق میں ہی وجود میں آتا ہے اور اسی سیاق میں اسے عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ جب تک وہ سیاق باقی رہے گا، اس سے متعلق عقائد پر ایمان اور ہدایات پر عمل بھی ممکن ہوگا اور جب سیاق بدل جائے تو اس سے متعلق عقائد اور ہدایات دونوں بے اثر ہو جائیں گی اور اس کی جگہ نئے عقائد اور نئی ہدایات کی تحقیق کرنی ہوگی جو اپنے زمانے کے اعتبار سے موزوں ترین ہو۔
میرا ماننا ہے کہ کسی بھی مذہب کے بعض اجزا کے غیرموزوں ہونے سے وہ پورا مذہب باطل نہیں ہو جاتا۔ اس کے برعکس، جو حضرات مذہب سے متنفر ہیں ان کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ایک مذہب کے بعض عقائد و رسوم اور قوانین ازکار رفتہ ہو چکے ہیں یا ان کی غلطی ثابت ہو چکی ہے اور اس کے معنی لازماً یہی ہیں کہ اس مذہب میں صداقت نہ کبھی تھی اور نہ اب ہو سکتی ہے اس لیے اس میں کسی کاٹ چھانٹ کی مشقت اٹھانے کے بجائے اسے خیرباد کہہ دیا جائے اور عقل کی بنیاد پر زندگی گزاری جائے۔
بالفرض یہ موقف صحیح بھی ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم کو اسلام سے فوری طور پر نکل جانا چاہیے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں ایک بڑی کارآمد بات لکھی ہے کہ اسلام سے نکل کر تم جس دوسرے مذہب/ نظام کا حصہ بنوگے، تمہیں وہاں بھی کسی ضابطے اور کسی قانون کی پابندی کرنی پڑے گی۔ میں بھی مولانا کی طرح یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے مذہب میں جانے کے بجائے خالص عقلی زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں تو ہم کو اپنے لیے ایک نظام فکر و عمل اور ایک شریعت وضع کرنی پڑے گی اور اسی کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم اپنے لیے ایک آسان اور قابل عمل ضابطہ حیات تشکیل دے لیں جس میں افراد معاشرہ کی گردنوں پر رکھا جانے والا جوا مذہب سے زیادہ ہلکا ہو۔ یہ ایک مثالی لیکن خیالی معاشرہ ہوگا جس کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کم از کم ایک مرد اور ایک عورت کی ضرورت پڑے گی تا کہ وہ ایک نئے معاشرے کے قیام کی بنا ڈال سکیں۔
[درمیانی تبصرے (پچھلے تبصرے کے جواب میں)
اشعر نجمی: //جو حضرات مذہب سے متنفر ہیں ان کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ایک مذہب کے بعض عقائد و رسوم اور قوانین ازکار رفتہ ہو چکے ہیں یا ان کی غلطی ثابت ہو چکی ہے اور اس کے معنی لازماً یہی ہیں کہ اس مذہب میں صداقت نہ کبھی تھی اور نہ اب ہو سکتی ہے اس لیے اس میں کسی کاٹ چھانٹ کی مشقت اٹھانے کے بجائے اسے خیرباد کہہ دیا جائے اور عقل کی بنیاد پر زندگی گزاری جائے۔// آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ سبھی مذہب سے متنفر لوگ مذہب کا بالاستیعاب مطالعہ کیے بغیر اس کا انکار کردیتے ہیں اور اس کے پس پشت "بعض عقائد و رسوم و قوانین" ہی ہوتے ہیں؟ کیا آپ کے اخذ کردہ یہ نتائج کسی سروے رپورٹ کے تحت ہیں یا آپ کا صرف ایسے ہی ملحدین سے واسطہ اب تک پڑا ہے جن کا مذہب کے متعلق سطحی علم ہے۔ آپ سیم ہیرس اور رچرڈ ڈاکنز کو بھی شاید اسی فہرست میں رکھیں گے؟ کیا آپ المعری، ابن وراق، علی سینا، ایان ہرسی علی وغیرہ جیسے سینکڑوں اسکالرز کے بارے میں یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کا بغور مطالعہ نہیں کیا، البتہ آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کا مسلمان بن کر مطالعہ نہیں کیا یا apologists' eye کا استعمال نہیں کیا۔
دیکھیے، مطالعہ کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ قاری دماغ میں یہ جملہ بسا لے: I don't want to believe, I want to knowطارق احمد صدیقی: انسان معاشرہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور موجودہ دنیا میں معاشرہ خاندان سے بنتا ہے، اور خاندان کم از کم ایک مرد اور ایک عورت سے۔ تنہا کوئی مرد یا عورت اگر عقلی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے تو یہ اس لیے ممکن نہیں ہو گا کہ اس کو جنسی ضرورت بھی لاحق ہوگی جو اسی وقت پوری ہو سکتی ہیں جبکہ اس کے ساتھ عقلی بنیادوں پر کوئی جنس مخالف جنسی تعلق قائم کرنے پر رضامند ہو۔ پھر اس جنسی تعلق کے نتیجے میں اولادیں پیدا ہوں گی اور ان کی پرورش کے لیے میاں بیوی کو پہلے سے زیادہ محنت و مشقت کرنی ہوگی، اولادوں کے جوان ہونے کے بعد ان کا شادی بیاہ ہوگا، پھر والدین بوڑھے ہوں گے یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے اور ان کی اولادیں اپنے والدین کی لاش سے کسی مروجہ یا غیر مروجہ طریقے سے نجات پائیں گی، اور ان کے ترکہ کو آپس میں کسی پرانے یا نئے اصول کے تحت تقسیم کر لیں گی۔ یہ سب معاملات ایسے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر سنجیدہ فکر و تحقیق کے ذریعے دنیا کی مختلف قوموں میں مروجہ طریقوں اور رسموں میں سے بعض کو اختیار کرنا ہوگا اور بعض رسمیں اور طریقے خود ہی نکالنے ہوں گے۔
طارق احمد صدیقی: اچھا، میرے اس جملے میں سے سبھی کے بجائے "مذہب سے متنفر بعض لوگ" سمجھا جائے۔
اشعر نجمی: اب جہاں تک "بعض" کی بات ہے تو وہ گفتگو کا موضوع اس لیے نہیں ہوسکتےچونکہ یہ "بعض" مذہب میں بہتات میں بدل جاتے ہیں۔ گفتگو کا موضوع ہمیشہ اکثریتی رجحان کو بنایا جاتا ہے، نہ کہ استثنیٰ کو۔
طارق احمد صدیقی: آپ کا سوال مجھ سے یہ تھا کہ اگر میں ایسا اور ایسا سمجھتا ہوں تو پھر مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ تو میں نے آگے کے تبصروں میں بتایا ہے کہ مذہب کی ضرورت فی الواقع کیا ہے۔
رہ گئی بات تارکین اسلام کی، تو ان کی جرأت کو سلام۔ وہ ایک اعلی درجے کی تہذیب پیدا کر کے دکھائیں یا دنیا کی کسی اعلی درجے کی تہذیب کا حصہ بنیں۔
اشعر نجمی: جی ہاں، وہ سوال اب بھی برقرار ہے۔ لیکن آپ اپنا جواب دہریے کیوں مذہب چھوڑتے ہیں، اس کی جانب گھمادیا۔ میرا سوال یہ نہیں تھا کہ دہریے کیوں مذہب چھوڑتے ہیں، کیسے چھوڑتے ہیں۔ آپ نے عقلی سطح پر مذہب کی تعبیر پر زور دیا، وہاں یہ کسی سے بھی سوال پوچھتے بنتا ہے کہ سب کچھ عقل پر موقوف ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا ہے؟ اچھائی کیا ہے برائی کیا ہے، نیکی کیا ہے بدی کیا ہے، اخلاقیات کیا ہیں، یہ تو انسان کے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے اور وہ ہر زمانہ، جغرافیہ اور اپنی عصری صورت حال کے پیش نظر اپنی عقل کی مدد سے وہ ان میں اضافہ، توسیع و ترمیم کرتا رہا ہے۔لہٰذا مذہب کی کیا ضرورت ہے؟
تارکین اسلام کو ابھی کتنا عرصہ گزرا ہے؟ ابھی تو وہ مکی زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں بھی آپ چودہ سو سال بخش دیں، پھر مطالبہ کریں۔
طارق احمد صدیقی: اسی سوال کا تو جواب میں نے آگے دیا ہے کہ مذہب کی کیا ضرورت ہے؟ کسی بھی مذہب کی تمام باتیں غیر عقلی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے جتنی باتیں عقل کی میزان پر تل سکتی ہیں، ان سب کی پابندی کیجیے۔ بقیہ کو ہٹائیے۔ یہی تو میں کہہ رہا ہوں شروع سے۔ اس میں آسانی زیادہ ہے۔
اشعر نجمی: ویسے دنیا میں جتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ جمہوریت اور یہ سیکولرازم اور یہ ایجادات؛ ان میں مذہب کا کیا دخل ہے؟ کیا انسان نے جو کچھ آج تک حاصل کیا ہے، وہ مذہب کی بدولت ہے؟ کیا وہ ممالک جنھوں نے خود کو مذہب کے تسلط سے خود کو آزاد رکھا ہے اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، کیا ان کا موازنہ آپ ان ممالک سے کرسکتے ہیں جہاں اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے اور پوری دنیا میں اعلیٰ اخلاقیات کا نمونہ پیش کررہا ہے؟
طارق احمد صدیقی: یہ سب تو میں نے کہا ہی نہیں۔
اشعر نجمی: آپ نے تارکین اسلام کے سامنے کچھ مطالبات پیش کیے تھے، سو اسی تناظر میں یہ بات کی گئی ہے۔ حالاں کہ آپ اپنی سہولت کے مطابق کبھی مذہب پر بات کرتے ہیں اور کبھی مذہب صرف اسلام ہوجاتا ہے۔ خیر، مذہب میں کون سی ایسی عقلی توجیہ پیش کی گئی ہے جو بغیر مذہب کی مدد کے عقل نہیں پیش کرسکتی اور جس کی انسان کو حاجت ہے؟
طارق احمد صدیقی: اسلام مذاہب کے درمیان ایک مذہب ہے۔ اس لیے جب اسلام کی بات آئے گی تو مذہب کا نام بھی آئے گا۔
علاوہ ازیں، چونکہ بہت سے مسلمان اسلام میں براہ راست کسی حذف و اضافے کی بات سنتے ہی چراغ پا ہو جاتے ہیں اس لیے انہیں کم سے کم گراں گزرے، اور وہ بات بھی سمجھ جائیں، اس لحاظ سے مذہب بول کر اسلام مراد لینا میرے نزدیک حکمت کا تقاضا ہے۔
میں تو یہ کہہ چکا ہوں کہ مذہب عقل اور رواج دونوں کی بنا پر متشکل ہوتا ہے۔ اور ہر ایک رواج کسی زمانے میں عقل ہی کی بنا پر وجود میں آیا تھا جو آگے چلکر غیرموزوں ہو گیا۔ ایسے ہی رواجوں کو بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اپنی عقل کی بنا پر ہم یہ متفقہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کن کن خونی رشتوں میں نکاح جائز ہے۔ ایسا پہلے سے چلے آتے رواج کی بنا پر متعین ہوتا ہے۔ اور مذہبی اقتدار اس رواج کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے اور لوگ اس کو مانتے ہیں۔
مذہب کے سلسلے میں ایک موٹی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ یہ قدیم اور وسطی ادوار میں اور آج بھی کئی جگہوں پر ایک ہمہ گیر نظام یا طریقہ زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ساری چیزیں مابعد الطبیعی عقائد اور مابعد موت نجات سے متعلق نہیں ہیں بلکہ اس میں بہت بڑا حصہ انسانی اور مادی وسائل کے انتظام و انصرام کا بھی ہے جو انسانی عقل کی بنا پر ہی وجود میں آیا ہے۔ مذہب کو ترک کرنے کے ساتھ انسانی عقل کی ان ساری برکتوں سے محروم ہونا پڑے گا۔
اشعر نجمی: طارق صاحب۔ مذہبی عقل کی بنا پر بھی متفقہ فیصلہ اب تک نہیں کیا گیا کہ کن کن رشتوں سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کئی ایسے رشتے ہیں جو اسلام میں نکاح کے لیے حلال ہیں، جب کہ دوسرے مذاہب میں حرام یا ممنوع۔ رہی بات عقل کی بنیاد پر نکاحی رشتوں کی تخصیص، محترم اس کا بھی فیصلہ سائنس (عقل) نے کردیا۔اسلام نے جن قریبی رشتوں میں شادی کو جائز قرار دیا، از روئے تحقیق وہ مضرت رساں ثابت ہوئیں۔ شاید آپ اس بارے میں جانتے ہوں گے، اگر نہیں جانتے تو بتادیں، میں کچھ حوالے تلاش کرکے آپ کی نذر کردوں گا۔
طارق احمد صدیقی: آپ خون کے رشتوں میں نکاح سے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اس سے واقف ہوں۔ اس مسئلے میں خود سائنسدانوں میں اختلاف ہے۔ اور خود سائنس میں یہ تعبیر کا مسئلہ ہے۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مختلف مذاہب میں محرمات (نکاح) کی فہرست علیحدہ علیحدہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپنا مذہب ترک کرنے کے بعد ان کی کیا فہرست خالص عقل و سائنس کی بنا پر بنائی جا سکتی ہے؟
درمیانی تبصرے ختم، پچھلا سلسلۂ کلام جاری]
غرض اگر ہم ایک عقلی زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو یہ ایک روایتی سماج کے اندر اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جبکہ ہمیں اس کی قانونی رخصت بھی ہو اور اس سماج کے لوگوں میں سے کم از کم ایک جنس مخالف ہمارا ساتھ بھی دے تاکہ ہم انسانی سماج کے اندر ایک علیحدہ جماعت اور معاشرہ بن کر رہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم کو زندگی اور کائنات کے ایک عقیدہ یا نظریہ کی تخلیق کرنی ہوگی تاکہ اس کی بنا پر ہم اپنے معاشرے کے لیے کچھ رسوم، کچھ ضابطے اور کچھ قوانین وضع کر سکیں۔ یہ اس لیے ضروری ہوگا کہ ہمارے ہاں پیدا ہونے والا ایک فرد پیدائش سے لے کر موت تک ان کی پابندی کر سکے۔ مثلاً، اگر ہم اپنی غیر مذہبی عقلی جماعت اور معاشرے میں خاندان کے ادارے کو تسلیم کریں تو افراد کے لیے نکاح، طلاق، وراثت، ان کی آخری رسومات سے متعلق ضابطے اور قوانین بنانے ہوں گے۔ یعنی، نکاح و طلاق کے باب میں شوہر و بیوی کے حقوق طے کرنے ہوں گے کہ کون کس کی کفالت کرے، طلاق ہونے کی صورت میں کون کس کو کن صورتوں میں خرچہ دے یا نہ دے؟
اسی طرح، وراثت سے متعلق قوانین وضع کرنے ہوں گے اور اس سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ بیٹا اور بیٹی برابر ہیں یا نہیں؟ اور اگر برابر ہیں تب انہیں وراثت میں برابر کا حصہ دینا ہوگا یا کتنا دینا ہوگا اور کس بنیاد پر؟ اسی طرح، میت/ لاش سے نجات پانے کے لیے ہم کیا طریقہ اپنائیں؟ اسے غسل اور کفن دے کر سپرد خاک کریں یا نذر آتش؟ یا الیکٹرانک بھٹی میں ڈال دیں؟ اور ان میں سے کوئی طریقہ اپناتے وقت لاش کے سامنے موجود اہل خانہ اور دوست احباب کے سامنے کچھ رسمی جملے کہیں یا ایک مختصر اور جامع تقریر کریں جس میں زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کیا گیا ہو؟ غرض اس قسم کے خدا معلوم کتنے مسائل ہیں جنہیں اپنی عقلی زندگی کی ابتدا کرتے ہی ہمیں عقل ہی کی روشنی میں طے کرنا شروع کر دینا ہوگا۔
اشعر نجمی: وراثت،ترکہ، معاش اور دیگر قوانین عقل کی بنیاد پر طے کیے جا چکے ہیں اور ہر معاشرے نے اپنی سہولت کی بنا پر کرلیا ہے۔ اس کے لیے بھی مذہب کی ضرورت نہیں۔ ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے اور انھی قوانین کے سہارے وہ بڑے آرام سے زندگی گزر بسر کرسکتا ہے۔ ترکہ اور وراثت کے اسلامی قوانین میں جو چھید ہیں، وہ اظہر من الشمس ہیں، ان پر سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ پھر یہ بھی متفقہ نہیں اور ایک ہی مذہب کے مختلف مسالک میں متفقہ نہیں ہیں۔ تو کیوں نہ عقلی قوانین کا متفقہ فیصلہ تسلیم کرلیا جائے۔
طارق احمد صدیقی: قانون اصلا عقل کی بنیاد پر نہیں بلکہ رواج کی بنا پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ عقل کے ذریعے بعض غیرموزوں قوانین میں وقتا فوقتاً تغیرات کیے جاتے ہیں۔
انسانی زندگی سے متعلق قوانین باہم دگر مربوط اور متعلق ہونے چاہئیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں مساوات مرد و زن کی بنا پر جو جدید قوانین رائج ہیں ان میں وراثت میں لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر حصہ ملتا ہے، اب اس سے غیر مربوط ایک قانون دیکھیے جو نکاح و طلاق سے متعلق ہے: نکاح اور طلاق دونوں صورتوں میں مرد ہی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو خرچہ دے۔ کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ ایک طرف مرد و زن کو مساوی درجہ دیں، وراثت میں برابر کا حقدار تسلیم کریں اور دوسری طرف نکاح کے دوران بھی اور طلاق کے بعد بھی مرد ہی عورت کو گزارہ بھتہ دے؟
دنیا میں کہیں بھی عقل کی بنیاد پر جو قوانین بھی بنائے جاتے ہیں وہ اکثریت کے مذہب اور رواج سے متاثر ہوتے ہیں۔ مثلا ایسے عقلی قوانین میں محرمات کی فہرست اصلا مذہبی قوانین سے ہی ماخوذ ہوتی ہے اور پھر بتدریج ان محرمات کی فہرست میں تخفیف کی جاتی ہے،مثلا کزن سے نکاح کو بعض مذاہب میں ممنوع کیا گیا، لیکن آگے چل کر سیکولر ممالک میں اسے جائز کیا گیا لیکن فہرست میں بقیہ محرمات بدستور باقی رہیں۔ عقل کی بنا پر کوئی متفقہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کن رشتوں میں نکاح جائز ہے اور کن میں نہیں، ایسا رواج کی بنا پر کیا جاتا ہے اور مذہب اس رواج کو منظور کرتا ہے یا نہیں کرتا۔
[اب ایک سوال آپ سے: فرض کیجیے ایک مسلمان لڑکی جو اسلام کو ترک کر دے، کیا وہ ہندوستان میں اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت اپنے باپ کے بھائی کے بیٹے سے نکاح کر سکتی ہے؟]
میں سمجھتا ہوں کہ اتنی خالص نوعیت کی عقلی زندگی ہم نہیں گزار سکتے۔ اوپر جس قسم کے مسائل میں نے پیش کیے، ان کے حل پر دو عقل پرستوں کے درمیان بھی مکمل اتفاق نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے تو حیات و کائنات کے متعلق کسی عقلی نوعیت کے عقیدہ یا نظریہ پر اتفاق رائے ضروری ہوگا جو اگر بہ مشکل چند اشخاص کے مابین واقع ہو جائے تو بھی ان کی آئندہ نسل اس پر متفق ہو سکے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ جو آزادی ہم اپنے لیے چاہتے ہیں وہی ہمیں اپنی نئی نسل کو بھی دینی ہوگی ورنہ عقلی زندگی کے کیا معنی رہ جائیں گے؟ اس لیے، جب ہماری نئی نسل ہمارے عقائد سے انحراف کرے گی تو ان کی بنا پر وجود میں آنے والے رسوم، ضابطے اور قوانین میں بھی تغیر واقع ہوگا اور کچھ ہی عرصے میں ہمارے عقلی نظام کے اندر سے ایک دوسرا عقلی نظام برامد ہوگا اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اجتماعی زندگی تغیر سے زیادہ ثبات کی متقاضی ہوتی ہے تا کہ جس عقلی نظام فکر و عمل کا بیج بویا گیا ہے وہ تہذیب کا تناور درخت بنے، برگ و بار لائے اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچے۔ اس لیے عقل کی بنیاد پر جو نظام فکر و عمل بھی بنایا جائے گا اس کو برقرار رکھنے کے لیے خاطر خواہ جبر و قہر کی ضرورت بھی پڑے گی تا کہ تہذیب کا شجر تغیرات کی زد سے لمبے عرصے تک محفوظ رہے۔ مذہب اسلام نے بھی اسی طریقے سے اپنے عقائد و رسوم کی حفاظت کی ہے اور بدعات کے باب کو مضبوطی کے ساتھ بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام اپنے ڈھانچے کو ایک طویل عرصے تک برقرار رکھنے میں اس لیے کامیاب رہا ہے کیونکہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں عقل کا دخل برداشت نہیں کرتا اور اسے نقل/ رواج/ سنت کے ماتحت رکھتا ہے۔ اس کا نقصان خود اسلام اور مسلمانوں کو یقیناً پہنچا ہے لیکن اس کا فائدہ عقائد و رسوم اور قوانین کے استحکام کی شکل میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے متفقہ عقائد و تصورات، طور طریقوں، محللات و محرمات، طریقہ عبادت اور قوانین وغیرہ میں بڑی یکسانیت ہے اور اختلافات سے کہیں زیادہ اتفاقات کی کثرت ہے (حالانکہ اس کے باوجود عالم اسلام پرامن نہیں ہے جو ایک علیحدہ مسئلہ ہے، اور اس کا سب میں اوپر اپنے ایک تبصرے میں بیان کر چکا ہوں )۔ یہ استحکام اگر انسانی تہذیبوں میں نہ ہو، اور وہ نسل در نسل تغیرات کی شکار ہوتی رہیں تو تہذیب و ثقافت برگ و بار نہیں لا سکتی۔ ایسی تہذیبیں جن میں عقلی گھوڑ دوڑ اپنی مطلوبہ حد سے بہت زیادہ ہو جائے اور ہر کسی کو اپنی عقل کی رو سے عملی زندگی بسر کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے تو معاشرہ بہت جلد شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا۔
اسی عدم استحکام سے بچنے کے لیے مذاہب اور تہذیبیں اپنے کو ازلی و ابدی بتاتی ہیں اور اپنی بنیادوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ لیکن جس طرح ہر ایک شجر کو ایک نہ ایک دن بوڑھا ہونا اور مرجھا جانا ہے اسی طرح تہذیب کا درخت بھی ایک طویل دور کے بعد بوڑھا ہو کر زمیں دوز ہو جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام پر ابھی وہ وقت نہیں آیا۔
خالص عقلی بنیادوں پر جس معاشرتی نظام کی تعمیر ہم کریں گے، اسے بھی انحراف اور تغیرات سے بچانے کے لیے بعض تدبیریں کرنی ہوں گی اور مذہبی نظام ہی کی طرح جبر و قہر سے کام لینا ہوگا حالانکہ اسی چیز سے ہم متنفر ہیں اور مذہب کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک مذہبی نظام/ طریقے کو چھوڑ کر عقل کی بنیاد پر دوسرا نظام/ طریقہ وضع کرنا آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا ہے۔ اس کے علاؤہ ایسے کسی عقلی نظام کی تخلیق کے لیے جس علمی و عملی قوت کی ضرورت ہے وہ میں اپنے اندر نہیں پاتا۔ یہ کام تو پیغمبرانہ جرأت کا متقاضی ہے۔ البتہ عقلی زندگی کا ایک اور طریقہ ہے وہ یہ کہ ہم شب و روز جس مذہب کےخلاف بولتے رہیں۔۔۔ہمارے جینے مرنے، نکاح و طلاق اور تقسیم وراثت سے متعلق ضابطے اسی مذہب سے مستعار ہوں۔ میرے نزدیک یہ غیرذمہ دارانہ رویہ ہے اور اسی لیے میں اس طریقے کو عقلی نہیں سمجھتا۔ میری عقل یہ کہتی ہے کہ اگر ہم ایک قدیم آبائی عمارت میں مع اہل و عیال رہ رہے ہوں تو سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ وہ کب تک قابل رہائش ہے؟ اگر وہ مرمت کرنے کے لائق ہو تو چند سال اور اس میں گزارے جا سکتے ہیں اور اس درمیان کہیں خالی پلاٹ دیکھ کر ایک جدید نقشے کے ساتھ دوسرا مکان بنا کر اس میں منتقل ہوا جا سکتا یے۔ لیکن نیا مکان بناتے وقت ہم اپنی قدیم آبائی عمارت کے نقشے کو بھی پیش نظر رکھیں گے اور اس کے مفید اور کارآمد پہلوؤں کو جدید نقشے میں یقینا جگہ دیں گے۔ ہم یہ بیوقوفی نہیں کریں گے کہ اپنی آبائی عمارت اور اس کے نقشے کو ترک کر دیں، اور خالی ہاتھ اپنے گھر سے نکل کر جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکتے ہوئے عقلی زندگی گزارتے رہیں۔ حالانکہ اگر کھنڈر میں بدلتی ہوئی کوئی قدیم عمارت یکایک منہدم ہو جائے تو بات دوسری ہے، پھر تو سب کو جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا ہوگا اور جو نہ بھاگ سکیں گے، کچل کر مر جائیں گے۔ جو لوگ ذی شعور ہوتے ہیں، ایسی صورتحال پیش آنے سے پہلے بوسیدہ اور خطرناک عمارتوں سے نکل جاتے ہیں۔
اشعر نجمی: آپ نے جو حل پیش کیے، ان کی رو سے ایک مذہبی معاشرے میں دو شخص میں بھی مکمل اتفاق نہیں ہو سکتا لیکن مغرب کے وہ جمہوری اور سیکولر ممالک کے باشندے جن کی پوری زندگی کی اساس اپنے مخصوص ممالک کے متفقہ قوانین پر ہے، ان اس معاملہ میں کوئی تنازعہ نہیں، اس کے برعکس ذرا جنوبی ایشیا کے اسلامی ممالک پر نظر ڈال لیں کہ کس طرح ایک ہی مذہبی قانون کو لے کر رسہ کشی جاری ہے۔
طارق احمد صدیقی: میں نے طویل المیعاد سطح پر اپنی بات رکھی ہے۔ کیا ہر مذہب کے تارکین مل کر کوئی قوم اور تہذیب بن سکتے ہیں اور کسی ایک متفقہ طریقہ حیات پر چل سکتے ہیں؟ ان کا کوئی ایک ورلڈویو ہو سکتا ہے؟ لامذہبیت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں پیدائش اور موت سے متعلق رسومات سے لے کر نکاح و طلاق، اکل و شرب، وراثت اور دوسرے بہت سے قوانین پر اتفاق رائے نہیں پایا جا سکتا۔ لامحالہ انہیں اکثریت کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔ اور اگر ہم کو مسئلہ اسی سے ہے تو ہم اسلام کیوں ترک کریں؟ فرض کیجیے دو عورتیں ایک ساتھ کسی ایک مرد کے نکاح میں رہنے کے لیے تیار ہوں تو اسلام کے سوا کس ملک کا سیکولر قانون ان کو اس کی اجازت دے سکتا ہے؟ اسی طرح، اگر ایک شخص اپنی بیوی سے طلاق چاہتا ہو تو اس کو تاحیات اپنی بیوی کو خرچ دینا ہوگا۔ لیکن اسلامی قانون اس معاملے میں نہایت عقلی ہے اور مرد کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ تاحیات اپنی سابقہ بیوی کے مصارف برداشت کرے۔ دیگر قوانین کے مطابق نکاح کرنے کا مطلب ہی ہے کہ اب آپ پھنس گئے اور طلاق کی صورت میں بہت دن عدالتوں کے چکر کاٹنے ہوں گے۔ اسلام میں بھی مرد پر ہی عورت کے نان و نفقہ کا بار ڈالا گیا ہے لیکن آگے چل کر جب مرد و زن کی مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام عمل آئے گا تو نان و نفقہ کی شرط ہٹائی جا سکتی ہے۔ اللہ نے عورتوں کو بھی دو ہاتھ اور دو پیر دیے ہیں، وہ خود کما کر کھا سکتی ہے تو کیوں نہ کھائے؟ البتہ اولاد پر استقرار حمل سے لے کر جوان ہونے تک کے جسمانی مشقت و مالی مصارف میاں بیوی دونوں کو مل کر برداشت کرنے ہوں گے۔ اور جہاں مرد اولاد پر آنے والی جسمانی مشقت نہ اٹھا سکتا ہو، تو اس مشقت کے برابر مال اس کو خرچ کرنا ہوگا۔ لیکن یہ طریقہ کہ ہر حال میں عورت کا خرچ مرد ہی برداشت کرے اور قریبی رشتے داروں کے ترکے میں سے مرد کے برابر ہی حصہ بھی پائے، کیونکر عقل میں آ سکتا ہے؟
اسلام میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں اور بہت سی چیزوں میں عقل کی بنیاد پر اصلاحات کی جا سکتی ہیں لیکن اس کے لیے خود مسلمانوں میں رائے عامہ کا ہموار ہونا ضروری ہے۔
مختلف مذاہب کے تارکین اپنے اپنے مذہب کو گوں ناگوں اسباب سے ترک کرتے ہیں۔ اور چونکہ وہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ذی شعور لوگ ہوتے ہیں، اس لیے کائنات اور عملی زندگی سے متعلق ان کی آرا میں تنوع بھی ہوتا ہے۔ اسی سبب سے وہ کبھی ایک قوم اور ایک تہذیب نہیں بن سکتے۔ بعض لوگ مذاہب کو ترک کر کے لاادریت کو اختیار کرتے ہیں، بعض بیخدا بن جاتے ہیں، بعض کسی نہ کسی قسم کے خدا پر بدستور یقین رکھتے ہیں، بعض نیچرلسٹ بن جاتے ہیں، بعض کے نزدیک زندگی محض ایک لغو و لایعنی صورتحال ہوتی ہے۔ غرض لامذہبیت ایک ایسی حالت ہے جس کو اختیار کرنے والے افراد کا ایک تہذیب کی شکل اختیار ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ وہ دنیا میں عملی نوعیت کے مسائل پر یعنی بین انسانی معاملات پر متفق ہو سکتے ہیں اور ان پر اپنے حسب حال قانون سازی بھی کر سکتے ہیں۔ زندگی اور کائنات کے سلسلے میں اس قدر نظری اختلافات کے بعد عملی اور قانونی مسائل میں اتفاق رائے کی بدولت ایک تہذیب بننے کا عمل ابھی اپنی کامیابی کے لیے ٹھوس ثبوت چاہتا ہے۔
میں یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر بات عقل اور ضمیر کی ہو تو ہر ایک شخص کو اکل و شرب اور جنسی معاملات میں مکمل آزادی دینی ہوگی، ایسی آزادی جس سے اوروں کو کوئی جسمانی اور ذہنی نقصان نہ پہنچتا ہو، لیکن موجودہ عالمی نظام میں یہ ممکن نہیں ہے۔ پھر ہم اسلام سے کیوں تائب ہوں کہ یہ تو ایک نجات دہندہ مذہب ثابت ہوگا اگر اس میں ضروری اصلاحات پر لوگ تیار ہو جائیں۔
[یہ بلاگر پوسٹ کیے جانے تک مراسلے کے نیچے اب تک اتنے ہی تبصرے موجود ہیں۔ ]
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
تبصرہ کریں