بدھ، 29 جولائی، 2015

فلسفہ و سائنس میں مادری، تہذیبی و مذہبی زبان کا لزوم



[یہ ایک فیس بک نوٹ ہے جو۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی کو لکھا گیا۔ مخاطب کا نام حذف کر دیا گیا ہے ۔]

محترم … … …،
فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک انسان تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اپنی مادری زبان کو اپنے فلسفیانہ اظہارکا وسیلہ بنائے یا پھر اس زبان کو جس کو وہ اپنا سمجھتا ہو یعنی جس سے اس کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی یا ماحولی و جغرافیائی وابستگی ہو، نیز وہ زبان اس کے اردگرد بہ قدر ضرورت موجود ہونے کے علاوہ لسانیاتی طور پر اس کی فطرت میں پیوست ہو جانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں برصغیر ہندوپاک، بلکہ عالم اسلام کے اکثر ملکوں میں بھی، عظیم فلسفی یا سائنسداں اس لیے پیدا نہ ہو سکے کہ برطانوی استعمارکے خاتمے کے بعد بھی پوری اکادمک دنیا پرانگریزی جیسی غیر موزوں زبان (مذکورہ بالا معنوں میں) کا تسلط قائم رہا۔ واضح رہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے درمیان رہنے کے باجود انگریزی ہماری ’’اپنی‘‘ زبان نہ بن سکی۔ اور ہماری علمی و سیاسی  قیادت نے بعض غیر حقیقی معذوریوں کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و رسرچ کی زبان کے طور پر مسلط کیا جاتا رہا۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم علم و فکر کی ہر سطح پر کم مایگی و بے بسی کا شکار بنے رہے۔ اس کا ایک سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے ہمارے درمیان بقدر ضرورت ایسے حکما و فلاسفہ کا ظہور نہ ہو سکا جو کسی قوم یا تہذیب کو قعرمذلت سے نکال کر بام عروج تک لے جاتے ہیں۔
لیکن آپ کا موقف یہ ہے کہ زبان ترسیل و ابلاغ کا وسیلہ ٔ محض ہے اور فکر و فلسفہ اور سائنس کے باب میں اس کی اس سے زیادہ حیثیت نہیں۔ اور خاطرخواہ محنت کے بعد بھی انگریزی جیسی  غیر زبان میں بھی فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں اس دلیل پر زور دیا ہے کہ ابن سینا اور فارابی، اور غزالی وغیرہ کی مادری زبان فارسی ہونے کے باوجود انہوں نے عربی زبان میں بڑے فلسفیانہ اور سائنسی کارنامے انجام دیے۔ یہ آپ کے نزدیک امرواقعہ یا فیکٹ بھی ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ فی الحال ایک صحیح تاریخی معلومات ہے جس کو موضوع زیر بحث کے تناظر میں ’’حقائق‘‘ یا فیکٹ سے تعبیر کرنا گمراہ کن ہوگا۔ فیکٹ کہہ کر ہم ایک طرف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے لیے انگریزی میں فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے اور دوسری طرف ہم یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ علمی و عالمی نظام کے تناظر میں مختلف سطحوں پر انگریزی ذریعۂ تعلیم ہمارے حق میں ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے۔ اور غالباً آپ کا موقف یہ بھی ہے کہ زبان خواہ کوئی بھی رائج ہو، فکر و فلسفہ اور سائنس اور ٹکنالوجی میں تاریخ ساز ترقی کرنے کی انسانی اہلیت پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
’’فلسفہ کے باب میں زبان کا وظیفہ ابلاغ و ترسیل محض ہے‘‘، میں اس بحث میں جانے سے پہلے ان فیکٹس کی ایک صحیح توجیہ کی کوشش ضرور کروں گا جن پرآپ کا اصرار ہے اور جن سے میرے دعووں پر ضرب پڑ سکتی ہے:
1.     عہد وسطیٰ یا اسلامی عہد میں عربی حکومت کی زبان تھی، عربی پڑھی اور پڑھائی جا رہی تھی، بڑے پیمانے پر ترجمے کیے اور کرائے جا رہے تھے۔ لیکن صرف عربی کا مقتدر زبان کی حیثیت میں ہونا ہی بنیادی سبب نہیں تھا کہ ابن سینا اور دیگر اسلامی فلاسفہ عربی زبان کی طرف مائل ہوئے۔ اگر اس عہد کے عالم اسلام میں عربی زبان اسی طرح (یعنی اسی نوعیت، کیفیت اور حیثیت سے) ایران میں موجود ہوتی جس طرح آج انگریزی برصغیر ہند و پاک اور عالم عرب میں پائی جاتی ہے  اور فارسی ذہن میں عربی زبان کو اخذ و قبول کرنے کی فطری و تہذیبی نیز لسانی صلاحیت نہ پائی جاتی تو فارسی کے اہل زبان طبقے ہرگز عربی کا رخ نہ کرتے، اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔
2.     میرا خیال ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں انگریزی کی جو حیثیت ہے، اس دور کے ایران میں عربی کی وہ حیثیت نہیں تھی۔ عربی ایرانیوں کے لیے سات سمندر پار کی زبان نہیں تھی جس طرح انگریزی ہندوستانیوں کے لیے ہے۔ اردو آبادی کے کسی انگریزی مصنف کو انگریزی میں تحریری مشق بہم پہنچانے میں جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فارسی کے ایک مصنف کو اس دور میں عربی میں لکھنے کے لیے انہیں دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا رہا ہوگا۔ ابن سینا نے جس لسانیاتی ماحول میں آنکھ کھولی اور زندگی گزاری اس ماحول میں عربی ٹھیک اسی طرح ایک غیرملکی زبان، یعنی فارین یا سکنڈ لینگویج نہیں رہی ہوگی جس طرح آج انگریزی ہے۔ فارسی و عربی زبانین اپنے فطری اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب تھیں اور دونوں زبانوں کے افراد میں ایک دوسرے کی زبان پر قدرت حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی تھی۔   
3.     پس ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس پورے دور اور اس پورے جغرافیائی خطے کی لسانی اور لسانیاتی صورت حال کیا تھی، نیز پوری عربی زبان و تہذیب ایرانی زبان و تہذیب پر کس طور اثرانداز ہو رہی تھی۔ صرف تبھی ہم اس سلسلے میں کوئی مثبت یا منفی رائے دے سکتے ہیں کہ سینا و فارابی صرف فارسی کے اہل زبان تھے، عربی کے نہیں، اور انہوں نے ایک غیر اہل زبان کی حیثیت سے عربی کو اپنے فلسفیانہ اظہار کے طور پر منتخب کیا، جیسے ہم آج انگریزی کو منتخب کرتے ہیں۔
4.     عربی ایرانیوں کے لیے کوئی باہری، حملہ آور زبان کی حیثیت میں باقی نہیں رہی تھی کیونکہ وہ ان کی مذہبی زبان بن گئی تھی۔ انہیں اس سے ایک قلبی لگاو ہو گیا تھا۔ وہ اس کو جذبہ عبودیت کے ساتھ سیکھتے اور پڑھتے تھے۔ ہندوستان میں یہ مقام انگریزی کو حاصل نہیں رہا۔ کسی زبان سے مذہبی نوعیت کا لگاو اس زبان کو سیکھنے، اس پر قدرت حاصل کرنے، اور اس میں اظہار کرنے کے بے پناہ امکانات پیدا کر دیتا ہے، اور وہ زبان بمنزلہ مادری زبان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔ آپ نے خود مجھ سے پہلے اس امرواقعہ کو تسلیم کیا ہے کہ عربی ایرانیوں کی مادری زبان تھی۔
5.     پھر یہ تاریخی سوال بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا عرب اسی طرح ایران گئے جس طرح انگریزی ہندوستان آئے؟ نیز قابض و دخیل ہو جانے کے بعد عربوں کا فارسیوں کے ساتھ وہی رویہ تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا؟ عرب جہاں بھی گئے طلب علم کی نیت کے ساتھ بھی گئے۔ وہ مشرق و مغرب کے علوم کے وارث ہونا چاہتے تھے۔ جبکہ انگریز جہاں بھی گئے اپنی تہذیبی احساس برتری کے ساتھ گئے۔ ظہور اسلام کے سبب عربوں کی تہذیبی احساس برتری کا انسداد ایران پر حملہ آور ہونے سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور اسی لیے ان کا وہ رویہ نہیں ہو سکتا تھا جو انگریزوں کا ہندوستانیوں کے ساتھ رہا۔ البتہ عربوں میں ایک مذہبی احساس برتری ضرور پائی جا سکتی تھی۔ لیکن ایسی احساس برتری انگریزوں میں بھی پائی جاتی تھی۔ اسی لیے عیسائی مشنریوں کا تانتا سا لگا رہتا تھا۔ لیکن عربوں اور انگریزوں کی مذہبی احساس برتری میں بھی نمایاں فرق تھا۔ عرب ایرانیوں سے ویسا غیرانسانی سلوک نہیں کر سکتے تھے جو انگریزوں نے ہندوستانیوں سے کیا۔ پھر عربوں کی مذہبی احساس برتری کی قلب ماہیئت بھی اسلامی مساوات کی تعلیم کے ذریعے ہو جاتی تھی کیونکہ مسلمان ہو جانے کے بعد ایرانی بھی عربوں جیسے مسلمان ہونے کی قانونی و اخلاقی حیثیت میں آ چکے تھے۔ اس لیے عربوں کا ایرانیوں کے ساتھ جو رویہ رہا وہ بہ حیثیت مجموعی مساویانہ ہی ہو سکتا تھا۔ عرب ایرانیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انہیں علمی و فکری ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ یہی تاریخی اسباب تھے کہ عربوں کے ایران پر غلبے کے تقریباً ساڑھے تین سو سال کے اندر ہی ابن سینا جیسا عبقری پیدا ہوا جو مشرق و مغرب کی علمی و فکری تاریخ پر’’معلم ثانی‘‘ کی حیثیت سے چھایا رہا (معلم اول ارسطو کے لیے مخصوص ہے)۔ اب یہیں سوال اٹھتا ہے کہ انگریزوں یا یورپیوں کےغلبے کے تقریباً اتنے ہی طویل عرصے میں ایشیا و افریقہ کے کسی خطے میں انگریزی میں لکھنے والے کتنے غیر انگریز یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے غیر یورپی فلسفی یا سائنسداں پیدا ہوئے جن کا مقابلہ سینا و فارابی یا خیام و طوسی سے کیا جا سکے؟ جن کا مقابلہ ڈارون مارکس، فرائیڈ، نیوٹن یا آئن اسٹائن سے کیا جا سکے؟ میرا خیال ہے کہ ایسے  فلسفیوں کو تو خود انگریز بھی پیدا نہ کر سکے۔ (جرمن اور فرانسیسی فلسفیوں کے تناظر میں ) عالم مغرب کی فکری  لحاظ سے نسبتاً ایک کمزور زبان جو اپنے بولنے والوں کے قوائے عملی کی بنیاد پر ساری دنیا میں چھا گئ، کیسے کسی ڈارون یا مارکس کو پیدا کر سکتی تھی؟ انگریزی میں تو زیادہ تر اعلیٰ درجے کے مقلد ہی ہو سکتے تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ مغربی استعمار اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانوں، یا غیر مسلموں میں ہی سہی،  کسی ایک عظیم المرتبت فلسفی یا سائنسداں کا ظہور نہ ہو سکا جو انگریزی یا کسی بھی یورپی زبان میں لکھتا ہو اور اس کی تحریروں نے مشرق و مغرب کی علمی دنیا میں کوئی بڑا انقلاب برپا کر دیا ہو۔ بلاشبہ ایک لمحے کو اس سلسلے میں فرانسیسی یہودی فلسفی ژاک دریدا کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن اپنے وطن الجیریا میں اس کے مذہبی، تہذیبی اور جغرافیائی حالات و مسائل بالکل دوسرے تھے، اور وہ غیر یورپی ہونے کے باوجود مسلمہ طور فرانسیسی اہل زبان تھا اور فرانسیسی لہجے میں فرانسیسی بولنے اور لکھنے پر قادر تھا۔   
6.     زبان و ادب اور فکر و فلسفہ کی ترقی پر گفتگو کرتے ہوئے ’’مادری زبان‘‘ تو ایک عام حقیقت کے اظہار کئے لیے اپنایا جانے والا لفظ ہے۔ عام لوگوں کو سمجھانے کے لیے ہی عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مادری زبان میں ہی بڑے کارنامے ممکن ہیں۔ لیکن جب بھی علمی نوعیت کی بحث ہوگی تو دیکھا جائے گا کہ کون فلسفی یا شاعر یا ادیب اہل زبان ہے اور کون نہیں ہے۔ اردو میں لکھنے والے کئی مغربی علما کو کیا ہم اہل زبان تسلیم کرسکتے ہیں؟ مثلاً رالف رسل؟ اگر کوئی یورپی شخص ہندوستان آکر فصیح و بلیغ اردو بولنا شروع بھی کر دیتا ہے تو بھی ہم اس کو اہل زبان تسلیم نہیں کرتے اور اس کے متعلق یہی کہتے رہتے ہیں کہ دیکھیے، یہ انگریز ہیں اور اہل زبان کی طرح اردو بولتے ہیں۔ ہم کبھی اس کو یہ نہیں کہتے کہ ’’یہ اردو کے برطانوی یا انگریز اہل زبان ہیں‘‘، کیونکہ انہوں نے اردو میں خواہ جس قدر بھی مشق بہم پہنچائی ہو وہ فطری نہیں سمجھی جائے گی۔ لیکن ہم اقبال کو اہل زبان قرار دینے میں ایک لمحہ کو بھی نہ ہچکچائیں گے خواہ ان کی مادری زبان پنجابی ہو کہ ہریانوی! مادری زبان اہل زبان ہونے کی شرط لازم نہیں ہے۔ ہم جس طرح علامہ اقبال کو اہل زبان قرار دیتے ہیں، اسی طرح ابن سینا کو اہل زبان کیوں نہیں سمجھ سکتے؟ انگریزی کی بالادستی کے دو ڈھائی سو سالوں کے بعد بھی طلبا جس بڑے پیمانے پر انگریزی میں بولنے اور لکھنے کی جتنی مشق کرتے ہیں، structure drills سے لے کر word usage تک، کیا ایرانی حکما و فلاسفہ اپنی طالب علمی کے دور میں اتنی ہی کدو کاوش کے ساتھ عربی کی مشق بہم پنچاتے رہے ہوں گے؟ یا یہ نسبتاً زیادہ آسان مرحلہ ہوتا ہوگا؟ کیونکہ ابن سینا کا ظہور عربی و فارسی کے اختلاط کے تین ساڑھے تین سو سالوں کے بعد ہی ہو سکا۔ اس پورے عرصے میں فارسی نے عربی کا رسم الخط اپنا لیا ہوگا، لاتعداد عربی الفاظ اپنی اصلی اور منحرف شکل و صورت میں فارسی میں داخل ہوچکے ہوں گے اور ایرانیوں کے لیے عربی سیکھنا بڑی حد تک اتنا ہی آسان ہو چکا ہوگا جتنا کہ پنجابی والوں کے لیے اردو، یا اردو والوں کے لیے ہندی، یا ہندی والوں کے بنگلہ۔
7.     آپ نے کارل مارکس کا حوالہ دیا ہے کہ وہ انگلینڈ کے دوران قیام انگریزی میں بھی لکھتا تھا۔ لیکن مارکس بنیادی طور پر اپنی انگریزی تحریروں کے لیے نہیں جانا جاتا۔ میرا خیال ہے مارکس داس کیپیٹل کسی اور یورپی زبان میں نہ لکھ سکتا۔ اس لیے مارکس اور اس جیسے تمام بائی لنگول مغربی فلاسفہ اس بحث سے خارج ہیں۔
8.      آپ نے علامہ اقبال کا حوالہ دیا ہے کہ ان کی مدر ٹنگ یا مادری بولی پنجابی تھی لیکن مدر ٹنگ اور مدر لینگویج میں فرق ہے۔ مدر ٹنگ یا مادری بولی تو وہی ہے جس کو ہم اپنے خاندان یا بہت آس پاس کے ماحول میں سنتے بولتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ مدر لینگویج یا مادری زبان سے مراد صرف ماں باپ کی، خاندان کی، گلی محلے یا شہر کی زبان یا بولی نہیں ہے۔ ہماری مادری زبان کا تعین یوں نہیں ہوتا کہ ہمارے ماں باپ یا خاندان کے لوگ چونکہ بھوجپوری (یا پنجابی، اودھی، مگہی یا میتھلی) بولتے آئے ہیں اس لیے ہماری مادری بھی زبان لازماً بھوجپوری ہی ہے! یا ہمارے شہر کے لوگ چونکہ ہندی بولتے ہیں اس لیے ہماری مادری زبان ہندی ہے۔ مادری زبان کے تعین کے پس پشت نسلی، تاریخی اور مذہبی وابستگی کے ساتھ ساتھ صوبائی، ملکی اور جغرافیائی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ مذکورہ تمام ترمختلف عوامل پر مبنی پہلووں سے غور و فکر کرنے کے بعد ہی ایک نسل اور ایک قوم اپنی مادری زبان کا تعین کرتی ہے۔ اس لیے مادری زبان کبھی ’’فطری‘‘ سے زیادہ ’’ترجیحی‘‘ نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی ترجیحی سے زیادہ فطری نوعیت کی، یا کبھی ان دونوں نوعیتوں کا تناسب یکساں ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک امرواقعہ ہے کہ علامہ اقبال ’’مادری زبان‘‘ پنجابی اس لیے تھی کہ ان کے اہل خاندان پنجابی بولتے تھے۔ لیکن اس بات پر زور دینا کہ ’’اردو علامہ اقبال کی مادری زبان نہیں تھی‘‘ خود صورت واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہوگی۔ کیا اقبال کے دور میں’’مادری زبان‘‘ کی اس ترجیحی سیاست کا وجود تھا جیسا کہ منقسم ہندوستان میں ہے؟ اگر نہیں تو پھر پنجابی اقبال کی مادری زبان ہونے کے باوجود ان کے لیے علمی و فکری لحاظ سے غیر اہم زبان تھی۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے اردو اسی طرح سیکھی تھی جس طرح ہم انگریزی سیکھتے ہیں؟ یا کیا خود اقبال نے اردو اسی طرح سیکھی تھی جس طرح خود انہوں نے فارسی یا انگریزی سیکھی تھی؟ ظاہر ہے نہیں۔ اقبال بچپن ہی سے اردو سنتے اور بولتے آئے تھے اور بہ نسبت فارسی کے اردو سے زیادہ قریب تھے۔ اور اسی طرح وہ انگریزی کے مقابلے میں فارسی سے زیادہ قریب تھے، اتنے قریب کہ ایک میں (یعنی فارسی میں) وہ بڑی شاعری کر سکتے تھے اور دوسری (یعنی انگریزی) میں نہیں۔
9.     آج بھی اگر تحقیق کی جائے تو کہ علامہ اقبال کی فارسی میں اور ایک ایرانی کی فارسی میں خاصا فرق پایا جا سکتا ہے، اور شعروادب اور فکروفلسفہ میں یہی فرق فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایران کا ایک فارسی اہل زبان فارسی کے روزمرہ، محاورات، ضرب الامثال اور دن بہ دن  بدلتی ہوئی کیفیتوں سے واقف ہوتا ہے۔ اقبال کو ہندوستان میں رہنے کی وجہہ سے ایسا موقع میسر نہیں تھا۔ اسی لیے وہ فارسی کے اس درجہ بلند پایہ اور ہمہ گیر شاعرنہیں ہو سکتے تھے جتنے کہ وہ اردو کے تھے۔ انہیں ایران کے لوگوں کے دکھ درد، مسائل، عادات و خصائل، رغبتوں اور نفرتوں کا ویسا اندازہ نہیں ہو سکتا تھا جیسا کہ ایران ہی کے ایک فارسی اہل زبان کو ہو سکتا تھا۔ اقبال کو برصغیر کے عوام کے دکھ درد اور مسائل  کا ہی کماحقہ اندازہ  ہو سکتا تھا اور وہ برصغیر ہی کی کسی زبان میں موثر شاعری کر سکتے تھے، ایسی موثر شاعری جس میں زبان زد خاص و عام ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
10.لیکن نہیں، آپ فرماتے ہیں کہ اقبال یکساں طور پر ایران میں مقبول ہے۔ اور آپ نے اس سلسلے میں ایک دلیل بھی دی ہے۔ لیکن وہ دلیل ’’یکساں مقبولیت‘‘ کے اس نظریے کو قبول کرنے کے لیے کافی نہیں۔ کیا اقبال کے فارسی اشعار ایران میں زبان زد خاص و عام ہو سکے ہیں؟ کیا اقبال کے فارسی اشعار ہندوپاک کی طرح ایران کی ہر سنجیدہ محفل حتی کہ مسجدوں کے خطبوں تک میں اسی شوق سے پڑھے جاتے رہے ہیں؟ اقبال کا خودی کو کر بلند اتنا والا شعر ہندوستان کی اردو آبادی میں ہی نہیں بلکہ ہندی آبادی میں بھی زبان زد خاص و عام ہے، غالب کے کسی بھی شعر سے زیادہ زبان زد خاص و عام ہے، یہاں تک زبان زد خاص و عام ہے کہ بہار کا ایک رکشا چالک بھی بے اختیار بول اٹھتا ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے! کیا اقبال کے ایسے کسی فارسی شعر کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو ایران میں زبان زدِ خاص و عام ہو، اور اس حد تک ہو؟ میرا خیال ہے کہ اقبال کے فارسی شعروں میں زبان زد خاص و عام بننے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ ہو سکتا ہے اقبال کی ایران میں ’’یکساں مقبولیت‘‘ کوئی نئی اور تازہ صورت حال ہو لیکن برصغیر ہندوپاک میں اقبال کی شاعری کی زبان زدیت کے تسلسل میں خود اقبال کی زندگی سے لے کر آج تک ایک دن کا انقطاع بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
11.                          پھر یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں پر فکر اقبال کے جتنے گہرے اثرات مرتب ہوئے کیا اس کے ویسے اثرات ایران کے مسلمانوں پر مرتب ہوئے؟ اور اگر مرتب نہیں ہو سکے تو اس کی کیا وجہیں تھیں؟ کیا اس کی وجہہ فکر اقبال کا سنی ہونا بھی تھا یا نہیں؟ یا کیا اس کی وجہہ اقبال کی فارسی کا اردو کے مقابلے میں کمزور ہونا تھا؟
12.حالانکہ اقبال فارسی میں اردو جیسی شاعری نہیں کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی فارسیت میں زیادہ دور تک کلام نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ تو فارسی کے اہل زبان بھی تسلیم کیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس دور میں ہندوستان میں فارسی زبان مختلف سطحوں پر برقرار تھی، لیکن اردو اس سے کہیں زیادہ سطحوں پر رائج تھی۔ اگر ایک شاعر کسی بھی رائج یا مقتد زبان میں شاعری کر سکتا ہے تو اقبال نے انگریزی میں شاعری کیوں نہ کی (کہ انگریزی اس وقت بھی فارسی سے زیادہ مقتد زبان تھی)؟ میرا خیال ہے کہ صرف اس لیے کہ انگریزی ہندوستان کے عوام کی زبان نہ تھی اور نہ اقبال کی۔ عوام کی زبان تو فارسی بھی نہ تھی لیکن اقبال نے فارسی میں شاعری کی کیونکہ فارسی سے اردو کا گہرا مذہبی و تہذیبی رشتہ تھا۔
13.یہ واضح ہے کہ علامہ اقبال نے بھی مقتدر زبان ہونے کے باوجود انگریزی کو اپنے اظہار کے لیے منتخب نہیں کیا حالانکہ انہوں نے کالج میں انگریزی بھی پڑھی تھی۔ صرف اقتدار کی بنیاد پر فروغ پائی ہوئی زبان کسی قوم یا شخص کو شعروادب اور غوروفکر پر مائل نہیں کر سکتی۔ البتہ اقبال انگریزی میں ابلاغی نوعیت کے خطبے ضرور دے سکتے تھے (مثلا تشکیل الہیات اسلامیہ)۔ مگر کسی فلسفی کے ایک غیر زبان میں ابلاغی نوعیت کا خطبہ دے سکنے کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ محدود معنوں میں زبان ترسیل و ابلاغ کا ذریعہ محض ہے، جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ وسیع تر معنوں میں ایک شخص اپنی مادری زبان یا اپنی ماحولی زبان کے علاوہ کسی سیکھی ہوئی زبان میں اپنے مافی الضمیر کا ابلاغ نہیں کر سکتا۔ ’’کیا لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا‘‘ کا ابلاغ انگریزی میں ممکن ہے؟
14.پھر میں نے پڑھا ہے کہ علامہ اقبال نے عربی سے ایم اے بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اس زبان کو شاعری کے لیے انتخاب نہ کر سکتے تھے کیونکہ ہندوستان کے حالات اور ماحول انگریزی ہی کی طرح عربی کو بھی وسیلہ اظہار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ فکری و فلسفیانہ اظہار کے لیے زبان کا انتخاب کرتے وقت یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ مذہبی، سماجی، نسلی، تہذیبی اور جغرافیائی پہلووں سے ہماری ضروریات کیا ہیں اور خود ان پہلووں میں سے کسی ایک کو کیسے اور کیوں ترجیح دینا ضروری ہے۔
15.اگر اقبال کے عہد میں جو مقام اور حالت فارسی کی ہندوستان میں تھی، وہ فارسی کی نہ ہو کر انگریزی کی ہوتی تو کیا اقبال انگریزی میں شاعری کرتے؟ اور ٹھیک اسی طرز پر پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان میں فارسی کی جگہ عربی مقتدر زبان ہوتی تو کیا اقبال عربی کے شاعر ہوتے؟ میرا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں اقبال فارسی کی جگہ انگریزی یا عربی میں ضرور شعر کہتے۔ میں سمجھتا ہوں اقبال نے اردو اور فارسی میں شاعری اس لیے کی کہ وہ اردو اور فارسی کے صدیوں پرانے ہندوستانی ماحول میں رہ رہے تھے اور یہاں کے حالات و روایات سے واقف تھے۔
16.اقبال جس دور میں پیدا ہوئے تھے اس پورے دور کے ہندوستان کی لسانی حقیقت یہ تھی کہ ایک زبان یعنی اردو دوسری یعنی فارسی پر غالب آ رہی تھی۔ اس دور میں اردو زبان فارسی پر جس قدر غالب تھی اسی قدر اقبال کی اردو شاعری بھی ان کی فارسی شاعری پر غالب تھی۔ چونکہ ہندوستان میں انگریزی کی وہ حیثیت کبھی رہی ہی نہیں اس لیے اقبال جیسا شاعر انگریزی میں شاعری نہ کر سکا۔ انگریزی بالکل صحیح معنوں میں ایک غیر زبان ہے جس میں کوئی سچا ہندوستانی شاعر کچھ موزوں کر ہی نہیں سکتا۔ اور اگر موزوں کرتا بھی ہے تو اس کے کلام کی حیثیت اردو کے تیسرے درجے کے شاعرکے کلام سے بھی فروتر ہوگی۔ اور یہی بات فکروفلسفہ کے سلسلے میں بھی راست آتی ہے۔
17.جو حالت ہندوستان میں فارسی کی تھی، کیا یہ ممکن نہیں کہ بعینہ وہی حالت ایران میں عربی کی رہی ہو اور اسی لیے ایرانی یا فارسی حکما و فلاسفہ عربی میں اپنے علوم و افکار کو تشکیل دے سکے۔ اگر وہ بجائے عربی کے فارسی میں اپنے افکار لکھتے تو میرا خیال ہے کہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دیتے۔ آخر یہ سوچنے میں کیا اور کتنا حرج ہے کہ سینا و فارابی کی عبقریت کو عربی زبان کی بالادستی نے جلا نہیں دی بلکہ کسی نہ کسی حد تک اس کی تخفیف کی  (یا جو بھی لفظ تخفیف کی جگہ مناسب ہو) ۔ کیونکہ فارسی عربی سے بہت پہلے سے ایک بڑی علمی زبان تھی۔ پھر کیا وجہ تھی کہ سینا و فارابی فارسی میں بمقابلہ عربی زیادہ بڑے فکری کارنامے انجام نہ دے سکتے؟ جیسا کہ مودودی نے لکھا ہے کہ جو قومیں تلوار میں شکست کھا جاتی ہیں وہ فکر و فلسفہ کے میدان میں بھی سرنگوں ہو جاتی ہیں۔ فرزندان فارس چونکہ عربوں سے شکست کھا چکے تھے اس لیے وہ اپنی زبان میں بھی فکری لحاظ سے کسی نہ کسی حد تک خاموش ہو جانے پر مجبورومعتوب تھے۔ پس یہ سمجھنا کہ مادری زبان یا اپنے سماجی ماحول میں پائی جانے والی کسی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں شعروادب اور فکر و فلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچنا ممکن ہے ایک بڑی فکری غلطی ہے (اور انگریزی ہندوستان کے سماجی ماحول میں پائی جانے والی زبان نہیں)۔  میرا تو یہ خیال ہے کہ اگرآج بھی سینا و فارابی کی عربیت پر تنقید کی جائے گی تو معلوم ہوگا کہ ان کی زبان عربوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی حد تک ضرور فروتر تھی۔
18.چونکہ سائنسی معاملات و مسائل میں سماجی و تہذیبی روایات اور سروکاروں سے واقفیت رکھنے کی کوئی بہت (فوری) ضروت نہیں ہوتی اس لیے اپنے سماجی و ثقافتی حالات سے کٹی ہوئی زبان میں وقتی طور پر سائنسی مسائل کا کامیاب اظہار کیا جا سکتا ہے (فلسفیانہ اور سماجی، نفسیاتی، ادبی، مذہبی مسائل کا نہیں)۔ لیکن یہ عمل اگر طویل عرصے تک جاری رہے تو اس سے وہ سماج شدید طور پر متاثر ہوتا ہے جس کے افراد اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر ایک غیرمادری زبان یا غیر تہذیبی زبان میں علمی و فکری کارنامے انجام دیتے ہیں۔ آج ہماری اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں مغرب کے کام کیوں آ رہی ہیں؟ باصلاحیت افراد اس بڑے پیمانے پر مغرب میں کیوں منتقل ہو رہے ہیں؟ اور کیوں ساری ایجادات واختراعات صرف مغرب میں ہی انجام دی جا رہی ہیں؟ برصغیرہندوپاک اور عالم اسلام میں عبقری اور نابغہ روزگار شخصیات کا قحط کیوں ہے؟ ادبا و شعرا کو چھوڑ دیں تو سید احمد، آزاد، جمال الدین افغابی، مودودی، اقبال، سید قطب، حسن البنا وغیرہ درجن بھر شخصیتوں اور کارناموں کے علاوہ ہمارے پاس کیا ہے؟ ڈیسکارٹس، برکلے، کانٹ، ہیگل، ڈارون، مارکس اور فرائیڈ، نیوٹن، آئن اسٹائن، مارکونی ایسے پچاسوں جید و سید حکما و فلاسفہ اور سائنسداں ہمارے یہاں کیوں نہیں پیدا ہو رہے ہیں؟ جیدیت اور سیدیت کے تمام تر امکانات درجن بھر مغربی زبانوں تک کیوں محدود ہو کر رہ گئے ہیں؟ پس جناب والا بھی اگر غور فرمائیں گے تو اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ انگریزی زبان کے اتنے طویل المدت غلبے کے سبب ایسے عظیم نقصانات سے ہمیں دوچار ہونا پڑا۔
19.اہل فارس کے ذریعے عربی میں انجام دیے جانے والے عظیم فلسفیانہ کارنامے اس وجہہ سے وجود میں نہیں آئے کہ انسان اور اس کا ذہن اپنی سماجی و جغرافیائی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں فکروفلسفہ کے معیار مطلوب تک پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت کے اسلامی فلاسفہ، خواہ ان کی مادری زبان جو بھی رہی ہو، عربی کو شعوری اور غیر شعوری طور پر‘اپنی زبانکا درجہ دیتے اور اس میں کوئی غیریت محسوس نہیں کرتے رہے ہوں گے، کیونکہ عربی زبان سے ان کو طبعی مناسبت رہی ہوگی، ایسی طبعی مناسبت جو دو زبانیں بولنے والی قوموں کے درمیان طویل عرصے تک باہمی اختلاط (تصادم، تنازعات، افہام و تفہیم، ادغام وغیرہ) کے بعد ہی انفرادی سطح  پر وجود میں آتی ہے۔ اور جب ایک بار ایسی طبعی مناسب وجود میں آ جاتی ہے پھر زبان اجنبی یا غیر نہیں رہتی، وہ اپنا لی جاتی ہے، اجتماعی شعور سے لے کر لاشعور تک میں سرایت کر جاتی ہے۔
20. عربی و فارسی ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ فارسی اہل زبان کے لیے عربی، یونانی جیسی کوئی غیرزبان نہیں۔ نہ عربی کے نزدیک فارسی اس درجہ غیر زبان ہے جتنی کہ یونانی۔ ظاہر ہے عربی و یونانی میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ مذہبی اعتبار سے بھی عربی و فارسی تہذیبیں طویل عرصے تک مشرکانہ مزاج کی حامل رہی تھیں۔ اس اعتبار سے بھی دونوں قوموں کے مابین اس زمانے میں ایک غیر شعوری ہم آہنگی رہی ہوگی۔ پھر یہ کہ تہذیبی اعتبار سے بھی دونوں اقوام میں مختلف الاقسام تبادلے ہوتے ہی رہے ہوں گے۔ اور سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی عہد میں فارسی نے عربی کا رسم الخط اپنا لیا۔ یہ فارسی کا عربی کو بحثیت ایک طاقتور اور امکانات سے بھرپور ایک زبان کے طور پر اپنا لیے جانے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ اور دیگر متعدد وجوہ سے عہد وسطیٰ میں فارسی ذہن میں عربی ذخیرۂ الفاظ سے استفادہ کرنے کی صلْاحیت بدرجہ اتم  موجود تھی۔ یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ فارسیوں میں یہ صلاحیت محض اس لیے پیدا ہوئی ہوگی کہ عربی اس وقت کی مقتدر زبان تھی۔ عربی و فارسی میں جیسی کچھ  قربتیں بھی پائی جاتی ہیں وہ صرف اس محدود اور چند روزہ اقتدار کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں جو عربوں کو فارسیوں پر حاصل ہوا۔ وہ نتیجہ ہو سکتی ہیں مدت ہائے دراز تک دونوں قوموں کے اختلاط کا، اقتدار جس کا صرف ایک خارجی سبب تھا۔ اقتدار تو عربوں کو اسپین پر بھی حاصل ہوا لیکن کیا اسپینی زبان میں عربی اسی طرح، اور اسی بڑے پیمانے پر، داخل ہو سکی جس طرح فارسی میں ہوئی؟ نہیں، اسپنی پر عربی اثرات فارسی کے مقابلے میں آٹے کے نمک کے برابر ہی ہوں گے، جیسا کہ میرا خیال ہے۔ پس، یہ جو تاریخی دخول عمل میں آیا اس کی وجہہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ فارسی نے اس وقت بھی عربی کو انتہائی فطری طور پرقبول کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح اردو نے فارسی و عربی کو فطری طور پر قبول کیا اور آج بھی کر رہی ہے، اور آئندہ بھی اگر اردو کو علمی و فکری، حتی کہ کوئی عظیم الشان ادبی کارنامہ بھی، انجام دینا ہوگا تو اس کو پہلے سے کہیں زیادہ عربی و فارسی سے رجوع کرنا ہوگا، نہ کہ انگریزی و فرانسیسی سے۔ زبانیں ایک دوسرے سے اسی صورت میں متاثر ہو سکتی ہیں جب ان کے بولنے والوں میں تہذیبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔ اسپینی زبان پر عربی کے فارسی جیسے اثرات اس لیے بھی نہیں پڑ سکے ہوں گے کہ دونوں زبانوں میں مغرب و مشرق کا تہذیبی فرق پایا جاتا ہے۔ زبانیں فطری و داخلی قربتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الفاظ مستعار لیتی ہیں، نہ کہ محض خارجی اقتدار کے سبب۔ پس، اگر فارسی عربی الفاظ کو اس حد تک جذب کرسکتی ہے تو فارسی بولنے والے افراد کیوں نہیں عربی کو بہت کچھ مادری زبان کی طرح ہی جذب کر کے اس میں کمال حاصل کر سکتے تھے؟ یہی وجہ تھی کہ ابن سینا جیسے عبقری، اور وہ تمام فلاسفہ جن کی مادری زبان فارسی تھی، عربی پر اس درجہ قدرت حاصل کر سکے جو فلسفیانہ کاوشوں کے لیے مطلوب تھی۔ (لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے عربی پر جس درجہ قدرت حاصل کی وہی فکر و فلسفہ کا معیار مطلوب بھی ہے!)۔ یہ سراسر ایک فطری صورت حال تھی، اور دو تہذیبوں کے باہمی تفاعل، ان کے فطری میلان اور ان کی ارتقائی رغبتوں کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ یہ زیادہ تر ایک خود رُو اور خود رَو صورت حال تھی نہ کہ اوپر سے بالجبر نافذ کی گئی، منصوبہ بند استحصال پر مبنی ایک ہمہ گیر کارروائی تھی جو انگریزوں نے ہندیوں کے ساتھ روا رکھی۔
21. اس پورے معاملے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھیے۔ انگریزوں نے اردو زبان کی ترقی کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں (فورٹ ولیم کالج اور دلی کالج)۔ تاہم انگریزی کا اردو پر ویسا اثر نہیں پڑ سکا جیسا کہ عربی و فارسی کا اردو پر پڑا۔ انگریزی سے اتنی قربت کے باوجود انگریزی زبان کے الفاظ اردو میں اس بڑے  پیمانے پر رائج نہ ہو سکے جس بڑے پیمانے پر اس میں عربی و فارسی کے رائج ہوئے۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انگریزی ہندوستانیوں کی فطرت اور ان کے ذہن و تہذیب کے لیے اجنبی اور غیر زبان ہے جس میں وہ اعلٰی ترین فکری اظہار کی اہلیت پیدا نہیں کر سکتے۔ جبکہ ایرانیوں پر تین سو سالوں کے اندر عربی کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ لاتعداد عربی الفاظ فارسی کے اپنے الفاظ ہو گے۔ اگرعربوں کی جگہ انگریزوں نے فارس پر حملہ کیا ہوتا تو کیا اس صورت میں انگریزی الفاظ اسی پیمانے پر فارسی میں داخل ہو سکتے جس پیمانے پر عربی کے داخل ہوئے؟ ظاہر ہے یہ ناممکن ہوتا۔ پس فارسیوں کے لیے عربی ایک قریب کی زبان تھی۔ اور اسی لیے اس پر خاطر خواہ عبور حاصل کرنا ان کے لیے بہت کچھ مشکل نہ تھا۔
22. اس طرح کسی زبان میں اعلیٰ ترین فلسفیانہ یا سائنسی کارنامہ انجام دینے کے لیے اس زبان کی تہذیب و ثقافت اور اس کے ہرلحظہ تغیرپذیر اور زندہ سماج کے ’’اندر‘‘ ہونا یا کم از کم اس زبان کی تہذیب و ثقافت سے رابطے میں رہنا اور اس کو اپنی زبان سمجھنا لازم ہے۔ ایک شخص کسی زبان کو اپنی زبان تبھی سمجھ سکتا ہے جب اس کی مادری زبان اور اس زبان (جس کو اپنا سمجھنا ہے) کے مابین فطری و تہذیبی اور مذہبی قربتیں پائی جاتی ہوں۔
23. دنیا کی زبانوں میں پائی جانے والی قربتوں اور دوریوں کی بنیاد پر بھی ہم اپنے لیے مختلف زبانوں کے اجنبی، کم اجنبی یا زیادہ اجنبی ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ (واضح رہے کہ فارسی انڈو یوروپین اور عربی افروایشاٹک خاندان السنہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں زبانوں میں خاندانی قربت نہیں۔ میں نسلی یا خاندانی بنیاد پر پائے جانے والے قرب و بعد یا اجنبیت و غیریت سے قطع نظر ایک دوسرے مفہوم میں عربی و فارسی کو باہم دگر قریب کہہ رہا ہوں۔ اور وہ مفہوم ہے: فارسی کا عربی الفاظ اور رسم الخط کو اپنا لینے کی صوتی و صرفی قربت)۔  انگریزی، اردو، فارسی اور عربی سے ایک بڑے فاصلے پر واقع ہوئی ہے اور اسی لیے ان مشرقی زبانوں کے بولنے والے انگریزی پر وہ قدرت حاصل نہیں کر سکتے جو شعروادب یا فکر و فلسفہ کا معیار مطلوب ہے۔ اور اسی وجہہ سے ان زبانوں کے بولنے والوں نے انگریزی میں لکھنے کی جرات کی بھی تو کوئی ایسا  کارنامہ انجام نہ دے پائے جو دنیا کے علمی و فکری نظام میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دے، ایسا عظیم انقلاب جو ڈارون، مارکس اور فرائڈ کی فلسفیانہ کاوشوں نے برپا کیا۔ آج ڈارون، مارکس اور فرائیڈ کی فلسفیانہ کاوشیں موجودہ علمی نظام کی بنیاد ہیں۔
24. مستثنیات کے پائے جانے سے کسی قاعدہ کلیہ کی صداقت پر حرف نہیں آتا۔ لیکن اس کے باوجود میں نے ان کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان مستثنیات کی بھی قلب ماہیئت ہوجائے اور اردو یا ہندی کے کاز کو نقصان نہ پہنچے۔ پھر اوپر جتنا کچھ میں نے سوچا ہے اس کی بنیاد پر میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ امرِ واقعہ ہوں تو ہوں، لیکن صورت واقعہ تو ہر گز نہیں ہیں۔ پس، صورت واقعہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان ‘‘حقائق‘‘ کو مستثنیات کے ذیل میں رکھنا مناسب نہیں ۔ زیر بحث معاملے میں استثنی تو اس کو کہیں گے کہ ایک شخص ہندوستان میں پلا بڑھا، انگریزی میں تعلیم پائی اور اس نے فلسفہ کے میدان میں کچھ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو ابن سینا، ابن رشد، ڈارون یا مارکس یا مغرب کے دیگر جید فلاسفہ کے فلسفیانہ کارناموں کے مساوی ہوں۔ لیکن ایسا ہونا سخت محال ہے۔ اور بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اس سے فکر و فلسفہ کے لیے مادری زبان کے لزوم والے قاعدہ کلیہ پر کچھ فرق نہیں پڑ سکتا۔
25. ور اب لگے ہاتھوں انگریزیت کو تمام برصغیرہند سے بے دخل کرنے والے چند ریڈیکل سوالات: فی زمانہ ایشیا و افریقہ میں انگریزی یا یورپی زبان میں لکھنے والے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہیں اہل زبان کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر ہیں تو انہوں نے اب تک کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ اور ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایشیا کے چند ملکوں مثلاً ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ میں ایک ہندوستانی نسل کا، یا کوئی اینگلو انڈین ہی سہی، واقعی انگریزی کا اسی پائے کا اہل زبان ہو سکتا ہے جس پائے کے اہل زبان یورپ امریکہ میں پائے جاتے ہیں؟ اور بالفرض محال اگر وہ اس پائے کا اہل زبان ہو بھی جائے، تو ایسے اہل زبان کا سماجی رول برصغیر ہندوپاک کے سماجی ماحول میں کیا ہو سکتا ہے؟ اور ایسے ہی کسی اہل زبان کے سماجی استعمالات اور فوائد کیا ہیں؟ اور کیا ایسے اہل زبان انگریزی میں برصغیر ہند کے پونے دو ارب افراد کے حقیقی مسائل، ان کے دکھ درد، ان کے جمالیاتی احساسات میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟ اور شریک ہونا تو دور، ایسے اہل زبان برصغیر کے تمامتر حالات و مسائل سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں؟ پھر یہ کہ ادب اگر سماجی حالات کا آئینہ دار ہے تو بتایا جائے کہ ہندوستانی انگریزی ادب نے ہندوستانی افراد کے حقیقی مسائل کی کتنی عکاسی کی ہے؟ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ انگریزی نے ہندوستان کے تمام تر سماجی حالات کی خاطرخواہ عکاسی کی بھی ہے تو ہندوستانی انگریزی ادب، ہندوستانی اردویا ہندی ادب سے کس درجہ بلند تر ہے؟ ہندوستان کی انگریزی شاعری اور ناول میں اور اردویا ہندی کی انگریزی شاعری اور ناول میں بہ اعتبار کیفیت اور کوالٹی کیا فرق ہے؟ اور کیا ہندوستان کا پورا انگریزی ادب ایسے تقابلی مطالعے کے بعد نقلی ثابت ہو کر ڈسٹ بن کی نذر نہیں ہو جائے گا ؟
26. پس، اگر ادب کے میدان میں ہندوستان میں انگریزی کا یہ حال ہے توپھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی میں سوچا جانے والا فلسفہ ہندی یا اردو میں سوچے جانے والے فلسفے سے بہ اعتبار گہرائی و گیرائی اور بہ اعتبار کیفیت زیادہ وقیع اور کارآمد ہوگا؟ کیونکہ ادب پہلے آتا ہے اور فلسفہ اس کے بعد، ادبی ہیئتوں اور اصناف کی تشکیل پہلے ہوتی ہے اور فلسفیانہ تجرید کی اس کے بعد؛ کیونکہ شعر و ادب فلسفی کو زبان سکھاتے ہیں، اس کو فلسفیانہ اسالیب کی تعلیم دیتے ہیں، اس کو علمی مسائل میں کلام کرنے کے آداب فراہم کرتے ہیں، کیونکہ فلسفہ کا عمل زبان کے اندر ہوتا ہے اور زبان بہ اعتبار ماہیئت و نوعیت آرٹ سے زیادہ قریب ہے نہ کہ سائنس سے۔
میرا خیال ہے اس سلسلے میں مجھے مزید مطالعہ اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ میں نے انتہائی عجلت میں لکھا ہے جس میں نہ معلوم کیا کیا خلاف واقعہ نکات در آئے ہوں گے۔ لیکن غوروفکر کا عمل اسی طرح جلا پاتا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ میری علمی غلطیوں پرگرفت نہ کرتے ہوئے (لیکن ان کی نشاندہی کے استثنیٰ کے ساتھ) میرے پیش کردہ فکری نکات پر توجہ فرمائیں گے۔ 
آپ کا
 طارق احمد صدیقی، حیدرآباد
۳ فروری، ۲۰۱۲ عیسوی

مذہب اور واقعاتی صداقت


[یہ  بحث  ۲۰۱۲ عیسوی  میں فیس بک پر سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ساتھ ہوئی   تھی۔اس وقت سے   اب تک  میرے نقطہ نظر میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اب میرا یہ ماننا ہے کہ روایتی علمائے دین کا نقطہ نظر ہی اس اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو قرآن و سنت میں منقول ہے اور جس پر چودہ سو سالوں سے مسلمانوں کے صحیح العقیدہ فرقے عمل پیرا ہیں۔  چنانچہ میں اب مذہب میں   مغربی طرز کی تعقل پسندانہ روش اور دینی  و شرعی امور و مسائل میں فلسفیانہ  افکار و نظریات کے دخول نیز  شریعت کی اصلاح کے ذریعے ایک ماڈرن اسلام کی تخلیق کا سخت  مخالف ہوں ــــــــ   طارق صدیقی، ۲۹ جولائی ، ۲۰۱۵ عیسوی]

محترم سعادت اللہ حسینی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں بخاری شریف کی ایک حدیث  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا  کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے جہنم میں جانے کا عقیدہ رکھنا ایک غیرمعقول بات ہے۔  آپ کے بقول   میرا ایسا کہنا علمی بددیانتی ہے  کیونکہ اسی  حدیث میں آگے یہ کہا گیا ہے کہ  وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے۔اس سے پہلے کہ میں اپنی علمی ’’ بددیانتی‘‘  کا جائزہ لوں  قرآن و سنت کے مفہوم کا تعین کرنے کے آپ کے اصولوں کو واضح کر دینا چاہتا ہوں جو آپ ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہیں:
قرآن و سنت میں جنت و دوزخ کا ذکر اور منظر کشی اس قدر تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے اور جزئیات تک اس طرح شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ اس توجیہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ باتیں محض بطور تمثیل ہیں یا صرف خوف پیدا کرنے کے لئے ہیں۔ کسی بھی متن کو ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ متن میں جو منشا مصنف کا واضح ہو رہا ہے، اسے مانا جائے۔ قرآن کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہے کہ اس کے واضح معنوں کو چھوڑ کر دور دراز کی تاویلات کی جائیں۔ (میڈیا فائر پر آپ کا جواب، صفحہ 13)[1]

قرآن و سنت کے معنی کا تعین

مذکورہ بالا جملوں میں آپ نے قرآن و سنت کے متن کو سمجھنے کے سلسلے میں درج ذیل نکات بیان فرمائے ہیں:
1)    قرآن و سنت میں جنت و دوزخ کا ذکر اور منظر کشی اس قدر تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے اور  جزئیات تک  اس طرح شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ
2)    اس توجیہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ باتیں محض بطور تمثیل ہیں یا صرف خوف پیدا کرنے کے لئے ہیں۔
3)    کسی بھی متن کو ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ متن میں جو منشا مصنف کا واضح ہو رہا ہے، اسے مانا جائے۔
4)    قرآن کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہے کہ اس کے واضح معنوں کو چھوڑ کر دور دراز کی تاویلات کی جائیں۔
ان چار نکات میں  سے پہلےتین  تو قرآن و سنت دونوں کے لیے ہیں، اور چوتھا نکتہ  صرف قرآن کے لیے مخصوص ہے، یا سنت کے لیے بھی؟ یہ قطعی واضح ہے کہ احادیث  کو بھی شاعری نہیں سمجھا جا سکتا۔ قرآن   کے مطابق   اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعری نہیں سکھائی گئی تھی۔اس لیے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان کے کلام میں کوئی شاعرانہ نوعیت کا خیال نہیں پایا جا سکتا الا یہ  کہ بعض چیزیں شعرا اور انبیا میں یکساں ہوں، مثلاً تشبیہ دینا۔   پس  آپ کے نقطہ نظر کے مطابق جو مثالیں، تشبیہیں اور دیگر لسانی و ادبی صنعتیں احادیث میں پائی جاتی ہیں ان کا اطلاق  متعلقہ صورت واقعہ پر  انہیں صنعتوں کے بقدر یا  ان کی مناسبت سے ہی ہوگا۔  اور اس سلسلے میں ’’مصنف کے منشا‘‘  کو بھی ذہن میں رکھا جائے گا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ یہی چیز  آپ کے  لیے قران و سنت کے معنی کے تعین پر حجت ہوگی اور آپ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ جو مفہوم قرآن یا سنت کا نکل رہا ہے ، آپ اس کو ماننے کے مکلف نہیں ہیں۔ 
آپ کی نظر میں میری علمی بددیانتی کیا ہے؟
اب آئیے آپ کے علمی بددیانتی والے سوال کی طرف۔ فرماتے ہیں:
میں نے آپ کے سوالات سے اسی لئے تعرض نہیں کیا کہ ان کے تفصیلی جوابات موجو د ہیں اور ان  کے ذرائع سے آپ واقف بھی ہیں۔ اب یہی ۹۹۹ فی ہزار والی حدیث لے لیجئے ۔ آپ یا تو جان بوجھ کر حدیث کے بقیہ حصہ کونظر انداز کررہے ہیں یا پھر صرف ملاحدہ کے اعتراض کو آپ نے اصل کا جائزہ لئے بغیر نقل کردیا ہے۔
نہ میں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور نہ کسی ملحد کی کتاب میں یہ اعتراض پڑھا۔ کیا میری اس فرو گزاشت کے یہی دو ممکنہ اسباب ہو سکتے تھے جو آپ نے بیان فرمائے ہیں؟ کسی تیسرے ممکنہ سبب تک آپ کا ذہن کیوں نہیں پہنچ سکا؟
آگے مجھ پرکئی اہم الزامات لگاتے ہوئے آپ نے زیربحث حدیث کی تاویل بھی فرمائی ہے:
 اصل حدیث میں صحابہ اور آں حضرت ﷺکے درمیان کی پوری گفتگو نقل کی گئی ہے۔ جو حیرت آپ کو ہورہی ہے وہی صحابہ کو بھی ہوئی۔  تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ابشروا فانّ من یاجوج و ماجوج الفا ومنکم رجل یعنی  ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک آدمی تم میں سے۔ یعنی قیامت کے قریب  فتنون کے زمانہ میں یاجوج ماجوج جیسے خونخوار اور ظالم لوگوں کی نسل اس تیزی سے بڑھے گی کہ  تعداد کے اعتبار سے وہ نیک لوگوں کے مقابلہ میں کئی گنا ہوجائیں گے۔اور بالآخر یہ وحشی جہنم کی نذر ہوں گے۔ آپ اس پوری حدیث کو نظر انداز کرکے صرف ایک فقرہ نقل کردیتے ہیں اور اس بات کو قارئین سے چھپاتے ہیں کہ بعینہ یہی حیرت جس کا اظہار ہورہا ہے وہ صحابہ کو بھی ہوئی  اور حضور نے اس کا یہ جواب دیا۔
’’بعینہ یہی حیرت ‘‘کیا، صحابہ کے اندر تو سرے سے حیرت نام کی کوئی چیز ہی ثابت نہیں کی جاسکتی۔ ان کے تو چہرے مارے ڈر کے بدل گئے ۔۹۹۹ فی ہزار والی بات ہی انہیں اس قدر دہلا دینے والی تھی  کہ حیرت کا پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ بالفرض ، کسی صحابی کو حیرت ہوئی بھی ہو تو ہمارے پاس یہ کہنے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ صحابہ کی حیرت پر دلالت نہیں کرتے۔ مذہب فلسفیانہ اٹکلوں کے بجائے ثقہ راویوں کی مستندروایتوں  کے ذریعے ہم تک پہنچتاہے، اور اس کی تشریح میں کسی غیرمتعلق  بات کو داخل کرنا معروضیت کے خلاف  ہے۔ ’’حیرت ‘‘کے بجائے’’ شک‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے آپ سیدھے سیدھے یہ کہہ سکتے تھے کہ ’’جو شک مجھے  (یعنی طارق کو) ہوا بعینہ وہی شک  صحابہ کو بھی ہوا‘‘۔ لیکن  یہ کہنا آپ کے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ اس دورکے عرب میں صحابہ کا ذہن  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی بتائی ہوئی کسی بات پر شک نہیں کر سکتا تھا۔ ایسی باتوں پر موجودہ دور میں ہی  شک  ہوسکتا ہے  اور چونکہ  آپ اس حدیث کے سلسلے میں لوگوں کو  ’’شک ‘‘سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے لفظ ’’حیرت ‘‘ جیسے دور دراز کے  ایک لفظ کا انتخاب کیا  تا کہ  سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔البتہ آپ یہ کہتے کہ’’ جو خوف مجھے ہو رہا ہے وہی صحابہ کو بھی ہوا‘‘  توایک بہت خفیف سی حد تک ضرورصحیح ہوتا۔لیکن اس بحث میں یہ کہنے  کی  گنجائش نہیں تھی۔
یہ بالکل یقینی بات ہے کہ موجودہ دور میں اس قسم کی حدیثوں کو پڑھ کر ایک عام  تعلیم یافتہ  شخص  حیرت یا خوف  کے بجائے شک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے تو خدا کا وجود ہی  مشکوک  ہے،جنت  کی حوروں اور جہنم کے اژدہوں پر یقین کرنا  تو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ لیکن عہد وسطیٰ کے عرب عام طور پر  ایسی باتوں سے خوف میں جکڑ کر رہ جاتے تھے۔اس حدیث سے بھی اس نکتے کی تصدیق ہوتی ہے۔ہم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ دور میں مذہب  کی صداقت پر شک کرناعہد وسطیٰ  سے بہت  زیادہ بڑا ایک مسئلہ ہے جو علمائے ظواہر کی ان تاویلات سے دور نہیں ہو سکتا جن سے آپ کام لیتے نظر آ رہے ہیں۔
آگے لکھتے ہیں:
عام حالات میں حدیث کا ایک فقرہ نقل کردینا ایک الگ بات ہے۔ لیکن آپ کسی جملہ پر اعتراض کررہے ہیں اور اس سے اگلے جملہ میں خود کہنے والا اس اعتراض کا جواب دے رہا ہے اور آپ اسے نظر انداز کرکے صرف معترضہ جملہ نقل کررہے ہیں، کیا یہ علمی بددیانتی نہیں ہے؟حالانکہ ابو سعید خدری سے مروی اس حدیث کو امام بخاری نے باب یاجوج و ماجوج میں رکھا ہے۔یعنی بحث یاجوج ماجوج کی چل رہی ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ خود یاجوج ماجوج جیسے ظالم قبائل کو اللہ  تعالی کیوں پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی موجود ہے اور آپ کو معلوم ہے۔سرکش اور خوں خوار لوگوں کو سزا دینے والا ظالم نہیں کہلاتا اور اللہ تعلی کی صفات میں جہاں رحمن و رحیم کا ذکر ہے وہیں قہار و جبار کابھی ذکر ہے۔‘‘

میری ’’علمی بددیانتی‘‘ کی حقیقت

آپ سے یہ بحث  یا گفتگو دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں والے نوٹ کے نیچے ہو رہی ہے اور میری وال پر پہلے آپ کہہ چکے ہیں:
If you really believe in what you are telling here, then you should simply stop delivering all these sermons. What a great paradox! You write lengthy notes elaborating your peculiar views. Tag these notes to so many people. Carry out passionate debates in favor of your ideas. If somebody writes one sentence criticizing your views, he will get a detailed article in reply. What else is Dawah? Convincing others is Dawah and you are doing that one only. See the tone of this note. Are you not considering others (Dayees) "Nawaqif-e-Rah"? When you can put your personal opinions with such arrogance, what is wrong if somebody who believes in divine guidance puts Allah's words as the only truth? Such paradoxes and confusions are there in almost each of the note put by you here[2]
اپنے اس  تبصرے میں آپ میرے تقریباً تمام نوٹس  کے متعلق وثوق سے یہ کہہ رہے ہیں کہ  وہ تضادات اورالجھنوں سے پر ہیں۔ میں نے ’’دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں‘‘  والااپنا  نوٹ اور اپنا پچھلا تبصرہ (جس میں آپ نے  میری علمی بددیانتی  کا سوال اٹھایا ہے)  لکھنے سے پہلے اپنے نوٹ ’’جہنم کا عقیدہ اور انسانی عقل‘‘  کے پہلے حصے[3] میں اس پوری حدیث کو بخاری شریف کے اردو ترجمے سے من و عن نقل کیا تھا  اور اس  کی کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔اس کے باوجود آپ فرما رہے ہیں کہ میں نے حدیث کی بات  صحیح طور پر نقل نہیں کی۔  کیا ایک شخص جو جہنم  کےتصور کا عقلی جائزہ لے رہا ہو ہو، اور اس سلسلے میں ایک حدیث بھی نقل کر رہا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اس کا جائزہ نہ لے؟  میں ایک مرتبہ اس حدیث کو بہ تمام و کمال نقل کر چکا تھا ۔ فیس بک کے میرے کئی دوست اس کو پڑھ بھی چکے تھے اور کئی افراد نے اس پر تبصرہ بھی کیا تھا اور کسی صاحب نے اس کا لنک  غامدی انٹرنیشنل گروپ میں شیئر بھی کیا تھا ۔ وہاں بھی کسی سے  میرے اس نوٹ کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔  ایسی صورت میں کیا یہ ضروری تھا کہ میں اس حدیث کو بار بار من و عن نقل کرتا رہتا۔
پھر یہی نہیں کہ آپ نے مجھ پر یہ غلط  الزام لگایا کہ میں نے اصل سے رجوع نہیں کیا یا اس کا جائزہ نہیں لیا، بلکہ آپ نے یہ غلط الزام بھی لگایا کہ میں نے یہ اعتراض ملاحدہ کی تحریروں سے اٹھا کر لکھ مارا ہے:
آپ یا تو جان بوجھ کر حدیث کے بقیہ حصہ کونظر انداز کررہے ہیں یا پھر صرف ملاحدہ کے اعتراض کو آپ نے اصل کا جائزہ لئے بغیر نقل کردیا ہے۔
آپ کی اس بات سے پڑھنے والوں پر  یہ تاثرقائم ہوسکتا  ہے کہ میں ملاحدہ کے اعتراضات سے فائدہ اٹھاتے وقت بھی اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتاکجا کہ اپنی عقل سے کسی حدیث پر کوئی نیا’’ اعتراض ‘‘پیش کروں۔نیزان پریہ تاثر بھی قائم ہوتا ہے کہ آپ  اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر معترض ایک ایسے شخص سے کلام کر رہے ہیں جو بددیانت بھی ہے، اور آدھی ادھوری بات نقل کرتا ہے۔ یہ سب مفہوم آپ کے تبصرے کے صریحی الفاظ سے برامد ہوتے ہیں ۔ داعیان دین مذہب میں عقل کا استعمال کرنے والوں کے تئیں پہلے  ہی سوئے ظن رکھتے ہیں۔  بعید نہیں کہ آپ کی تحریروں سے  وہ  بعینہ یہی تاثر قبول کر لیں۔

الزامات کے تئیں میرا رد عمل اور وضاحت

 مجھے کسی بھی نظریاتی معاملے میں اپنی علمی یا فکری بددیانتی کا کوئی ادنی ٰ سا  سراغ  بھی نہیں ملتا، اور اگر ملے تو میں فوراً اس کو سامنے لے آؤں کہ بطور مصنف یہ میری ایک کامیابی ہوگی۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ  میرا ذہن اس حدیث کے مذکورہ جملے سے سرسری گزر گیا ہو، اور توجہ ۹۹۹ فی ہزار پر ہی اٹک کر رہ گئی ہو؟ اور ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ اس حدیث کے  یہ  جملے بخاری شریف سے نقل کرتے وقت میں پڑھ ہی نہ سکا ہوں؟ ان دونوں میں سے کیا صورت واقع ہوئی ، یہ  مجھے اب یاد نہیں۔ آج سے تقریباً سات  آٹھ ماہ پہلے انٹرنیٹ کی کسی ویب سائٹ پر (غالباً یاہوآنسر زمیں) جہنمیوں کی تعداد پر کسی مسلمان شخص کے ذریعے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں  کسی دوسرے  مسلمان شخص  نے ہی یہ حدیث پوسٹ کی تھی۔ پھر تصدیق کے لیے صحیح بخاری سے رجوع کیا اور پایا کہ اس میں کم از کم تین مقامات پر یہ حدیث پائی جاتی ہے۔ میں نےکئی بار ان تینوں حدیثوں کو  دیکھا  اور ایک کو بغور پڑھالیکن ایک بار بھی ذہن اس جملے سے برامد ہونے والے اس معنی  کو اپنی گرفت میں نہ لے سکا (کہ وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے) جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں۔ ذہن کسی بات کو گرفت میں نہ لے سکے تو اس کو بددیانتی نہیں کہتے ہیں۔ آپ اگر یہ لکھتے کہ’’ طارق ، تم نے  شاید پوری حدیث اچھی طرح نہیں پڑھی ہے۔ آگے کے جملوں میں اس بات کی وضاحت آ گئی ہے کہ وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے ‘‘ تویقیناً مجھے یہ بات گراں نہیں گزرتی۔
اگر آپ نے  ملاحدہ کا اس حدیث پر یہ اعتراض پڑھا ہو تو  براہ مہربانی نشاندہی کریں۔ ملاحدہ و متکلمین کی بنیادی کتابیں میں نے اب تک نہیں پڑھی ہیں۔ ان کے کارناموں کا معمولی علم مجھے ثانوی درجے کے  ماخذ کے ذریعے ہوا ہے۔ یہ بات میں جزوی طور پر پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ میرے نوٹس میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ میرے اعتراضات اور استدلالات  بہت  دوسرے ہیں۔ مجھ سے ایک غلطی یہ ہوتی چلی آ رہی تھی   کہ میں نے  حدیث کے سلسلے میں عقلی ’’اعتراضات ‘‘کا لفظ استعمال کیا۔ حالانکہ اعتراض کی جگہ   ’’اشکال‘‘ کا لفظ موجود تھا۔لیکن میرے  تمام تر الفاظ  اور جملوں کو ذہن میں رکھیں گے تو مصنف کے طور پر میرا یہ منشا برامد نہ ہو سکے گا کہ میں بالذات قرآن و سنت پر اعتراض کرتا ہوں یا ان کو  تسلیم نہیں کرتا۔ میں پچھلے تبصرے میں یہ کہہ چکا ہوں  کہ میں قرآن و سنت کی تمام باتوں کو بصمیم قلب تسلیم کرتا ہوں۔لیکن میرا انسانی ذہن  قرآن  کے بعض عقائد و احکام  کو ایک خاص دوریا حالت  کے باقی رہنے تک ہی مفید سمجھتا ہے ۔ مثلاً  زوجہ کو مارنے کااختیار ایک خاص دوریا حالت کے باقی رہنے  تک ہی مفید ہو سکتاتھا، اس کے بعدمرد کااس پر اصرار کرنا  اور اپنے حق میں قرآن سے استدلال  کرنا دورجدید میں غیردانشمندی  کا ثبوت دینا ہے۔ اسی طرح  میرا ذہن سنت  یا حدیث میں مذکور بعض عقائدکی واقعاتی نوعیت کی غیر معقول تفصیلات کوواقعاتی صداقت کے طور پر قبول نہیں کرسکتا اور ان کی اخلاقی توجیہ کرتے ہوئے انہیں  تخویف و تشویق سے عبارت قرار دیتا ہے، مثلاً اس حدیث کے بعض مشتملات جن سے میں آگے بحث کروں گا۔ ممکن ہے میری کچھ باتیں عہد وسطیٰ کے ملاحدہ و متکلمین سے  عمومی مشابہت رکھتی ہوں لیکن اس سے میرے ’’اعتراضات‘‘ یا اشکالات اور استدلالات  بعینہ وہی نہیں ہو جاتے جو  ان کے تھے  کیونکہ زیر بحث حدیث کی جن تفصیلات پر میں اشکالات  یا اعتراضات  پیش کر رہا ہوں  انہیں میں نے قدیم ملاحدہ کی تحریر وں میں اب تک نہیں دیکھا۔   رہے دور جدیدکے ملاحدہ تو میں نے انہیں بہت کم پڑھا ہے اور اس حدیث پر ان کا کوئی اعتراض تو بالکل نہیں پڑھا۔

۹۹۹ فی ہزار جہنمی والی حدیث کا عقلی جائزہ:

اب آئیے  آپ کے مذکورہ اصولوں کی رو سے اس حدیث کا انتہائی  تفصیل سے جائزہ لیں کہ جنت اور جہنم کی آبادی کا اصل تناسب کیا ہے؟  اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم کریں کہ آپ کے یہ اصول  مذہب اسلام  کو سمجھنے میں کس قدر معاون ثابت ہوتے ہیں؟ اور اس حدیث کو  آپ کے  پیش کردہ اصولوں کی مدد سے پڑھنے والے شخص  کا ایمان محفوظ رہے گا یا ضائع ہو جائے گا۔اور اگر کسی جدید تعلیم یافتہ اور تعقل پسند  مسلمان شخص کا ایمان  آپ کے مخصوص  معروضی اصولوں کے مطابق قرآن و سنت کو پڑھنے سے ضائع ہوا تو اس کے ذمہ دار وہی  حضرات علمائے کرام ہوں گے جو قرآن و سنت کی اس نوع کی باتوں کو واقعاتی صداقت  کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
زیر بحث  حدیث بخاری شریف کی کتاب الانبیا کے باب یاجوج و ماجوج میں ہی نہیں  (جیساکہ آپ فرماتے ہیں کہ بحث یاجوج ماجوج کی چل رہی ہے!) بلکہ بخاری شریف کی کتاب التفسیر کے باب ’’آیت وتری الناس سکاریٰ کی تفسیر‘‘ اور کتاب الرقاق کے باب ’’آیت إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيم کی  تفسیر‘‘  میں بھی چند لفظی و معنوی اختلافات کے ساتھ مذکور ہے۔ یہ حدیث مزید کن لفظی و معنوی اختلافات کے ساتھ صحیح بخاری شریف  اورکن  دیگر کتب حدیث کے  کن کن مقامات پر درج ہے یہ مجھے معلوم نہیں۔ آگے ضرورت پڑے گی تو انشا اللہ معلوم کر لوں گا۔ موجودہ دور میں معلومات کی فراہمی کوئی مشکل کام نہیں۔ مشکل کام تجزیہ و تحلیل ہے جس میں غلطی ہو جاتی ہے لیکن ایک کے تجزیے کی غلطی پر دوسرا شخص مطلع کر سکتا ہے۔  

صحیح بخاری شریف، حدیث نمبر : 4741

ان تینوں احادیث کا مرکزی مفہوم ایک ہی ہے۔ بخاری کتاب التفسیر میں باب ’و ترالناس سکاریٰ کی تفسیر‘ میں وہ حدیث درج ذیل طور پر آئی ہے:
حدثنا عمر بن حفص،‏‏‏‏ حدثنا أبي،‏‏‏‏ حدثنا الأعمش،‏‏‏‏ حدثنا أبو صالح،‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري،‏‏‏‏ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏" يقول الله عز وجل يوم القيامة يا آدم‏.‏ يقول لبيك ربنا وسعديك،‏‏‏‏ فينادى بصوت إن الله يأمرك أن تخرج من ذريتك بعثا إلى النار‏.‏ قال يا رب وما بعث النار قال من كل ألف ـ أراه قال ـ تسعمائة وتسعة وتسعين فحينئذ تضع الحامل حملها ويشيب الوليد ‏ {‏ وترى الناس سكارى وما هم بسكارى ولكن عذاب الله شديد‏}‏ ‏"‏‏.‏ فشق ذلك على الناس حتى تغيرت وجوههم،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من يأجوج ومأجوج تسعمائة وتسعة وتسعين،‏‏‏‏ ومنكم واحد،‏‏‏‏ ثم أنتم في الناس كالشعرة السوداء في جنب الثور الأبيض،‏‏‏‏ أو كالشعرة البيضاء في جنب الثور الأسود،‏‏‏‏ وإني لأرجو أن تكونوا ربع أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا ثم قال ‏"‏ ثلث أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا ثم قال ‏"‏ شطر أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا‏.‏ قال أبو أسامة عن الأعمش ‏ {‏ ترى الناس سكارى وما هم بسكارى‏}‏ وقال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين‏.‏ وقال جرير وعيسى بن يونس وأبو معاوية ‏ {‏ سكرى وما هم بسكرى‏}‏‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا۔ اے آدم! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب! تیری فرمانبرداری کے لئے۔ پروردگار آواز سے پکارے گا (یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گا) اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اورتو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج کی (جو کافر ہیں) نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتا ہے اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی) یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرئہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرئہ تکبیر بلند کیا اور ابواسامہ نے اعمش سے یوں روایت کیا تری الناس سکاریٰ وماھم بسکا ریٰ جیسے مشہور قرآت ہے اور کہا کہ ہر ہزار میں سے نو سوننانوے نکا لو (تو ان کی روایت حفص بن غیاث کے موافق ہے) اور جریر بن عبدالحمید اور عیسیٰ بن یونس اور ابومعاویہ نے یوں نقل کیا وتری الناس سکری وما ھم بسکری (حمزہ اور کسائی کی بھی یہی قرآت ہے(

زیر بحث حدیث کا چار نکاتی تجزیہ    

اب میں معروضی نقطہ نظر سے  اس حدیث کے ان مشتملات کا تجزیہ کرتا ہوں  جن میں  جنت اور جہنم  کی آبادی سے متعلق  واقعاتی نوعیت کی  خبر دی گئی ہے، اور دیکھتا ہوں کہ اس کا کیا نتیجہ برامد ہوتا ہے:   
1.     اس حدیث میں  پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کو جہنم کے جتھے کےطور پر الگ نکال لینے کا حکم دے گا۔
2.     پھر یہ بتایا گیا ہے  (ترجمہ کے مطابق )کہ اگر یاجوج ماجوج  ہی کی (جو کافر ہیں) نسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے  ملائی جائے تو ان میں سے ۹۹۹ کے مقابل امت محمدیہ میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ ترجمہ ٔ حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عددی تناسب  ہے۔
3.     پھر یہ بتایا گیا ہے کہ میدان حشر میں امت محمدیہ کے افراد دیگرانبیا کی  مسلم امتوں اور کافر و مشرک قوموں کے افراد کے مقابلے میں ایسے ہوں گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال ہوتا ہے یا کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں۔
4.     پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جنت میں امت محمدیہ کی آبادی تمام دیگر امتوں کے مقابلے میں  (حتمی طور پر) آدھی ہو گی۔

نکتہ نمبر 1

اولاد آدم میں سے ۹۹۹ فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے، حدیث کے ابتدائی جملوں سے یہ  بالکل واضح ہے۔(اللہ کے رسول کے بقول) اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو اپنی اولاد میں سے جہنمیوں کو ۹۹۹ فی ہزار کے تناسب سے الگ نکال لینے کا حکم دیتا ہے اور اس  کا یہ حکم  بلا تخصیص و تفریق ِمذہب و ملت ہے۔

نکتہ نمبر 2

۹۹۹ فی ہزار والی اس خبر کو سنتے ہی صحابہ کرام پر زبردست خوف  طاری ہو جاتا ہے ۔اس  کا سیاق و سباق دیکھیے: آنحضرت نے میدان حشر میں آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی خبر دی۔ وہ  ایک عمومی نوعیت کا حکم ہے اور اس میں کسی بھی قوم کی تخصیص نہیں ہے۔ جو شخص بھی حدیث کے ابتدائی جملے پڑھے گا اسے اس کا مفہوم یہی سمجھ میں آئے گا۔  حدیث میں  ’’من کل الف‘‘ (یعنی  تمام  ہزار میں سے) کے الفاظ  آئے ہیں یعنی اولاد آدم میں سے ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ اس  حدیث میں آگے اللہ کے رسول  کے اس قول ’’ ۹۹۹ لوگ  یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے  اور ایک تم میں سے ہوگا‘‘ کا صرف وہی  مفہوم نہیں  ہو سکتا جو آپ  بتا رہے ہیں (کہ وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے)  کیونکہ انہوں نے’’ من کل الف‘‘ کی نفی نہیں کی ہے۔  خود صحابہ نے بھی اس کا یہی مفہوم سمجھا کہ اللہ کا یہ حکم اولاد آدم کے ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کے لیے ہے۔ صحیح بخاری  کے کتاب الرقاق (حدیث نمبر   (6530 میں یہی حدیث چند لفظی و معنوی اختلاف کے ساتھ موجود  ہے۔ اس میں صحابہ کا اللہ کے رسول سے یہ سوال بھی درج ہے:
فاشتد ذلك عليهم فقالوا يا رسول الله أينا الرجل
’’صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہو گا؟‘‘  (صحابہ کا یہ سوال اِس روایت میں نہیں ہے جس کا نمبر 4741 ہے)
صحابہ اولاد آدم کے  ہر ہزار میں سے (فی کل الف) ایک جنتی نہ سمجھتے تو اللہ کے رسول سے یہ سوال ہی نہ کرتے کہ وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہوگا؟ ایک نکتہ اور ہے کہ ’’وہ ایک ہم میں سے کون ہوگا‘‘ کا سوال صحابہ کے ذہن میں  موجود اس خیال کو ظاہر کر رہا ہے  کہ ۹۹۹ جہنمیوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اسی لیے تو انہوں نے وہ سوال کیا ۔ اس وقت وہاں پر صحابہ کی تعداد کیا تھی اس کے متعلق مجھے نہیں معلوم لیکن سوال کرنے کا انداز بتا رہا ہے کہ ان کے ذہن نے اسی طور معنی کو اخذ کیا  کہ ہزار میں   ایک شخص  کو چھوڑ کر بقیہ تمام لوگ ضرور بالضرور جہنم میں جائیں گے۔اسی لیے تو ان کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ ایک خوش نصیب شخص کون ہو گا ؟ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
 أبشروا،‏‏‏‏ فإن من يأجوج ومأجوج ألف ومنكم رجل ‏.
تمہیں خوشخبری ہو، ایک ہزار یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہو گا۔ ( کتاب الرقاق حدیث نمبر   (6530 
سوال یہ ہے کہ جو عموم اللہ تعالی کے حکم  میں پایا جاتا ہے، کیا اس  کے رسول کے جواب سے  وہ صرف یاجوج ماجوج کے لیے خاص ہو جاتا ہے، یا اس کی گنجائش  بہرحال رہتی ہے کہ ۹۹۹ فی ہزار کو  تمام انسانوں کے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان کا تناسب بھی مانا جا سکے؟   شروع میں تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ  اللہ تعالٰی کا یہ  قول  تمام انسانوں کے لیے ہے۔  پھر بعد میں اللہ کے رسول نے یہ کیوں فرمایا  کہ  ۹۹۹ یاجوج ماجوج ہوں گے اور ایک تم میں سے ہوگا؟ (کیا غالباً  ترغیب دینے کے مقصدسے)۔ کیا ایسا نہیں سمجھا جا سکتا کہ  ’’ اگر اللہ کا قول ایک امر واقعہ ہے تو اس کے رسول کا قول اسی امر ِواقعہ  کی تمام تر تفصیلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے صرف مسلمانوں اور یاجوج ماجوج کے درمیان کے  تناسب کی وضاحت ہے نہ کہ پچھلے عمومی حکم  کی نفی۔پس یہ ظاہر ہے اولاد آدم کے بقیہ  گروہوں (یا امتوں) کے جہنمیوں کے جتھے کی تعداد بھی وہی ہوگی جواس حدیث میں اللہ سے منقول  حکم میں بیان ہوئی یعنی ۹۹۹ فی ہزار۔ خود مترجم نے بھی یہی معنی مراد لیے ہیں اوراللہ کے رسول کے قول کا ترجمہ درج ذیل طور پر  کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح لفظی  ترجمہ نہیں ہے):
’’اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج کی (جو کافر ہیں) نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔‘‘
یعنی اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔تم سب جنت میں جاوگے۔ رہی بات تناسب کی تو  صرف ایک جہنمی قوم یاجوج ماجوج سے ہی  تمہارا مقابلہ کیا جائے تو ۹۹۹ فی ہزار کا تناسب پورا ہو جاتا ہے۔ مولانا داؤد راز کے اس ترجمے سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ ورنہ اگر ۹۹۹ فی ہزار کی تعداد صرف یاجوج ماجوج کے لیے خاص ہے تو مولانا کا یہ ترجمہ ہی سرے سے غلط ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں حدیث کے الفاظ  ’’فی کل الف‘‘ (یعنی ’’ہر ایک ہزار میں سے‘‘ ) کے الفاظ غیرموزوں ہو جاتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کے  ’’اولاد آدم میں سے ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے‘‘ کو الگ کرلینے والے اس حکم  سے صحابہ نے بھی وہی سمجھا، میں نے بھی وہی سمجھا، اور جو بھی پڑھے گا، اسے بھی یہی سمجھ میں آئے گا۔
لیکن چونکہ اللہ کے رسول نے آگے فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار یا ۹۹۹  لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے، اور ایک آدمی تم میں سے، تو بلاشبہ  جہاں تک میں اب سمجھ سکتا ہوں حدیث کے اس مقام پر ایک سے زیادہ معنی مراد لینے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، یعنی  وہ معنی  بھی جو آپ کہہ رہے ہیں ، اور وہ بھی جو میں اپنے پچھلے تبصرے میں کہہ رہا  تھا۔  لیکن  صحیح بات یہ ہے کہ میں نے جو معنی مراد لیے ہیں وہ زیادہ قرین عقل ہیں اور ’’مصنف کے منشا‘‘ کی ترجمانی کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ کے عمومی حکم  ’’فی کل الف‘‘ کی نفی نہیں کی ہے۔جب آدم علیہ السلام کی اولاد کے  سلسلے میں’’ فی کل الف ‘‘کے الفاظ بولے جائیں گے تو  اس  ’’کل‘‘ کے دائرے میں تمام اولاد آدم آ جاتی ہے  نہ کہ صرف امت محمدیہ اور یاجوج ماجوج۔
کیا اس حدیث کے الفاظ سے ہم ایسا نہیں سمجھ سکتے کہ جو تناسب مسلمانوں اور یاجوج ماجوج کے درمیان کا ہے، وہی تناسب  تمام جہنمیوں اور جنتیوں کے درمیان کا بھی ہے؟  اللہ کے رسول کی اس حدیث سے یہ دونوں معنی ایک ساتھ لینے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اگر ہم یہ دونوں معانی ایک ساتھ مراد نہیں لیتے تو پھرآدم کی اولاد میں سے ’’ فی کل الف ‘‘ کی بات ہی غیرموزوں ہو جاتی ہے۔ورنہ آپ ہی بتائیے کہ اس حدیث میں ’’ فی کل الف‘‘  کہنے کا کیا معقول سبب ہو سکتا ہے؟
 آپ نے جو تاویل کی ہے اس کا نفسیاتی سبب یہ ہے کہ آپ ۹۹۹ فی ہزار جہنمی کا یہ تناسب  تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔کیونکہ ایسا تسلیم کرلینے کے بعد وہی شخص اسلام کے دائرے میں رہ سکتا ہے جو اسے اپنے باپ دادا کا دین سمجھتا ہو اور صرف اسی سبب سے اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو! تحریک اسلامی کے افراد ایک طرف تو دیگر قوموں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کا دین ترک کر کے مشرف بہ اسلام ہو جائیں اور دوسری طرف وہ اس اسلام کو بھی ترک نہیں کرنا چاہتے جو ان کے باپ دادا کی طرف سے روایتاً ان کو منتقل ہوا ہے۔ اور چونکہ  ۹۹۹ فی ہزار والی بات انتہائی غیرمعقول بھی ہے اس لیے حدیث میں آگے جو  بیان کیا گیا ہے ، (یعنی کہ ’’۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک مسلمانوں میں سے  ) اسے وہ اپنے ایمان کی  ڈھال بنا لیتے ہیں۔ پھر ان کے ذہن میں روایتی علمائے اسلام کا خوف بھی موجود ہوتا ہے اس سبب سے بھی وہ ایسی حدیثوں کی واقعاتی صداقت سے انکار نہیں کر سکتے۔

نکتہ نمبر 3

حدیث میں   ۹۹۹ فی ہزار یاجوج ماجوج کے  جہنم میں جانے کے مقابلے میں امت محمدیہ کے ایک فرد کے جنت میں جانے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ میدان حشر میں امت محمدیہ کے افراد دوسرے لوگوں  کے مقابلے میں ایسے ہوں گے جیسے ایک سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال ہوتا ہے یا ایک کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں۔  یہ تشبیہ تمام تر قوموں کے درمیان امت محمدیہ کو حاصل امتیاز کو نمایاں کرنے کے ساتھ ہی یکساں طور پر  یہ بھی بتا رہی ہے کہ امت محمدیہ کے افراد کی تعداد دیگر قوموں کے مقابلے میں کیا ہوگی۔ اگر بات  صرف امتیاز کو نمایاں کرنے کی ہوتی  تو یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ دیگر قومیں امت محمدیہ کے مقابلے میں دو کالے یا ایک سفید بال کی طرح ہوں گے، لیکن  کہا اس کے برعکس گیا ہے۔  مصنف کے منشا کے نقطۂ نظر سے بھی غور کیا جا ئے تو معلوم ہوتا ہے کہ  یہ تشبیہ  صرف ان کا  امتیاز بتانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی عددی قلت کو نمایاں کرنے کے لیے بھی دی گئی ہے۔ میرے اس نتیجے کی تصدیق  حدیث میں موجود اس ’’امرواقعہ‘‘ سے بھی ہوتی ہے کہ امت محمدیہ کے ایک فرد کے مقابلے میں یاجوج ماجوج کے ۹۹۹ افراد ہوں گے۔
اس لیے حدیث کے الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ امت محمدیہ کے افراد کاعددی تناسب دوسرے لوگوں کے مقابلے میں  ’’اتنا ‘‘ہوگا جتنا کہ سیاہ بیل کے جسم پر ایک یا دو سفید بال ہوتے ہیں۔

حدیث میں ’’دوسرے لوگوں‘‘ سے کون مراد ہیں؟

یہ سوال بھی خاصا اہم ہے کہ حدیث میں مذکور’’ دوسرے لوگوں‘‘  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد نبوی ہے:
ثم أنتم في الناس كالشعرة السوداء في جنب الثور الأبيض،‏‏‏‏ أو كالشعرة البيضاء في جنب الثور الأسود،
’’ـــغرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتا ہے ـــ‘‘
یہ ظاہر ہے کہ اصل متن میں ’’دوسرے لوگوں‘‘ کے بعد  قوسین کے درمیان جو الفاظ ’’(جو دوزخی ہوں گے)‘‘ درج ہیں وہ قول رسول نہیں ہیں۔وہ مترجم کا اضافہ ہے جو غلط معلوم ہوتا ہے   کیونکہ خود  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ’’ دوسرے لوگ ‘‘صرف  جہنمی ہوں گے۔ اگر دوسرے لوگ صرف جہنمی ہوں گے  تو بقیہ  پیغمبروں کی امتوں کے جنتی  کہاں ہوں  گے ؟  یہ قطعی  نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے رسول مندرجہ بالا جملے میں ’’ تم‘‘ سے  ’’تمام پیغمبروں کے مسلمان افراد ‘‘ مراد لے رہے ہیں  ورنہ پھر اس حدیث میں ان کےاگلے قول کی کوئی توجیہ نہ کی جا سکے گی کہ ’’تم  جنت میں آدھے ہوگے‘‘  کیونکہ اگر یہاں ’’تم‘‘ سے مراد تمام قوموں کے مسلمان افراد ہیں تو پھر یہی ’’تم‘‘ جنت کی آدھی آبادی ہے! پھر اس صورت میں کفار و مشرکین سے بقیہ آدھی جنت کو  بھرنا ہوگا جو قرآن کے منشا کے خلاف ہے! یا روایتی علما کے نقطہ نظر سے اس کی تاویل  کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ  بقیہ آدھی جنت میں مسلمان’’ جنات ‘‘ ہوں گے![ویسےروایتی علما کے نقطہ نظر سے بحث دور تک جاری رکھی جا سکتی ہے ، مثلاً  آزمائش جنات کی بھی ہو رہی ہے اور وہ بھی قرآن پڑھتے  اور سنتے  اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون کی آیت  قرآن میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی فرماتا ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔جب جہنم میں جنات کا جانا قرآن سے ثابت ہے تو ظاہر ہے وہ جنت میں بھی جائیں گے۔  اسی لیے آدھی جنت میں تمام مسلمان قومیں اور آدھی جنت میں جنات اقوام رہیں گی۔  لیکن میدان حشر میں جنات کا اٹھایا جانا، وہاں ان سے ان کے اعمال کی پرسش کیا جانا ، ان کا جنت میں انسانوں کے ساتھ رہنا، ان سب امور کے متعلق مجھے اب تک کوئی علم حاصل نہیں ہو سکا۔  ’’آدھی جنت میں جنات ہوں گے‘‘ جیسی  من مانی تاویل کرنے سے پہلےہمیں  ایسے سوالوں کا جواب پیش کرنا ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی بتانا ہوگا کہ قرآن اگر جنوں کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی ہے تو جنات مردو خواتین کے لیے کیا شرعی و اخلاقی احکامات  اس میں پائے جاتے ہیں حالانکہ عربوں پر قرآن میں نبوت کی  یہ حجت قائم کی گئی کہ ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے ، اورانسانوں کے لیے  جو رسول بھی ہم بھیجتے ہیں وہ انسان ہی ہوتے ہیں، پھر  اسی اصول کے تحت جنوں کے لیے بھی علیحدہ ایک رسول ہونا چاہیے  تھا یا نہیں جس پر جنوں کی  مخصوص  زبان میں  وحی نازل ہوتی؟  ؟ ورنہ جن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس رسول کو ہرگز نہ مانیں گے جو انسانوں میں سے ہیں؟ اس قسم کے سوالات پوچھتے ہی روایتی علما یہ فرما دیتے ہیں کہ اسلام میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے۔ رہے تحریک اسلامی کے علما  تو جہاں تک ان سے بن پڑتا ہے وہاں تک اپنی سی تاویل کیے جاتے ہیں، پھر تنگ آ کر کہہ دیتے ہیں کہ بس اب عقل کا کام ختم،سوال پوچھنا بند کرو اور اطاعت  و فرمانبرداری شروع کر دو۔]
پھراس حدیث میں  ایک جگہ تم سے مراد ’’تمام پیغمبروں کی امت کے مسلمان ‘‘افراد ، اور دوسری جگہ اسی تم سے مراد  ’’صرف امت محمدیہ کے افراد‘‘ نہیں ہو سکتا۔  اس لیے مترجم نے ’’(جو جہنمی ہوں گے)‘‘ والا یہ قوسین لگایا ہے وہ غلط اور گمراہ کن ہے۔  اس لیے یہی صحیح ہے کہ  امت محمدیہ کے مسلمانوں کا  یہ بال برابر تناسب  تمام  دیگر ’’مومن و کافر قوموں کے  جنتیوں  اور جہنمیوں‘‘ کے  مقابلے میں قائم کیا گیا ہے نہ کہ صرف  ان کے اور تمام جہنمیوں کے درمیان۔اور اسی لیے بخاری شریف کے اس  مترجم کا یہ اضافہ غلط معلوم ہوتا  ہے جو اس نے اپنی طرف سے کیاہے ۔
لیکن مترجم کے قوسین کے اضافے کو اتنی آسانی سے غلط بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں’’ دوسرے لوگوں ‘‘  سے مراد تمام امتوں کے جہنمی ہی ہوں اور تمام امتوں  کے جنتیوں کا تذکرہ سرے سے  چھوڑ ہی  دیا گیا ہو ۔ اس صورت میں  اس پر غور کرنا  ہوگا کہ حشر کے میدان میں  دوسری امتوں کے جنتیوں کا تذکرہ اس حدیث میں کیوں نہیں ہے  (حالانکہ آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ امت محمدیہ جنت کی آدھی آبادی ہوگی اور دوسری قومیں جنت کی آبادی کا آدھا حصہ ہوں گی)۔

نکتہ نمبر ۴

حدیث میں امت محمدیہ کے دیگر امتوں کے مقابلے میں بال برابر ہونے  کی خبر کے بعد اللہ کے رسول نے امید ظاہر کی کہ جنت میں ان کی امت کی تعداد چوتھائی ہوگی، پھر بتایا کہ تہائی ہوگی، اور حتمی طور پر بتایا کہ آدھی ہوگی۔
آگے مندرہ بالا چاروں  نکات کی بنیاد پر اس حدیث کا عقلی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

 نکتہ نمبر ایک تا چار کا تجزیہ

اگر  ۹۹۹  فی ہزار سے مراد  صرف وہی  ہے جو آپ کہہ رہے ہیں، اور واقعی یہ  میری بھول تھی کہ میں ۹۹۹ فی ہزار کو تمام انسانوں یا اولاد آدم کے  جنتیوں اور جہنمیوں کا تناسب سمجھ رہا تھا جو بالکل غلط ہے، تو اس  صورت میں  بھی اس حدیث کی رو سے جنتیوں اور جہنمیوں کے تناسب میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ وہ اس سے بھی  زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ 
پہلے حدیث میں یہ بات آ چکی ہے  کہ امت محمدیہ کے افراد دیگر قوموں کے مقابلے بال کی طرح  ہوں گے (نکتہ نمبر تین)۔ اس کے  بعد یہ کہا گیا ہے کہ امت محمدیہ کے افراد جنت میں آدھے ہوگے (نکتہ نمبر چار)۔معلوم یہ ہوا کہ یہی ایک یا دو بال برابر امت محمدیہ جنت کا آدھا حصہ ہوگی۔اس طرح، جنت میں  ایک یا دو  بال کے بقدر امت محمدیہ کے افراد ہوں گے اور ایک یا دو بال کے بقدر ہی دیگر امتوں کے افراد ہوں گے۔ اور بیل کی کھال پر بقیہ جتنے بال ہوتے ہیں اس کے بقدر دیگر تمام امتوں اور قوموں کے  کافر و مشرک افراد جہنم میں ہوں گے۔ اور مترجم نے دوسرے لوگوں کے بعد ’’جو جہنمی ہوں گے‘‘ والا یہ قوسین  اسی لیے لگایا ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر لوگوں کا ذکر کیا کرنا!
لیکن چونکہ تحریک اسلامی کے افراد تاویل کے بھی ماہر ہیں۔ اس لیے اب وہ اس بات پر اصرار کریں  گے کہ یہ جو بال برابر والی  تشبیہ ہے ، اس کی نوعیت ’’عددی‘‘ نہ ہو کر ’’امتیازی‘‘ ہے۔  یعنی جس طرح سفید بیل پر چند سیاہ بال دیکھنے میں ممتاز ہوتے ہیں اسی طرح امت محمدیہ بقیہ دیگر امتوں سے  صرف دیکھنے میں ممتاز نظر آئے گی! بے شک  اس سے امت محمدیہ کا امتیاز بھی ثابت ہوتا ہے لیکن  یہ  نہیں بھولنا چاہیے کہ بال کی جو تشبیہ دی گئی ہے وہ’’ ۹۹۹ فی ہزار جہنمی‘‘ والی بات  اور’’ جنت میں  امت محمدیہ کے چوتھائی، تہائی، بلکہ آدھا حصہ ہونے ‘‘ والی بات کے پس منظر میں دی گئی ہے اس لیے بالیقین اس  تشبیہ کی نوعیت عددی بھی ہے، اور اس سے انکار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کھینچ تان کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ’’مصنف کا منشا‘‘ وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آ رہا ہے!
یہاں پر یہ بھی  سوچنا چاہیے کہ اگر بات دیگر قوموں کی ہوتی تو کیا  اللہ کے رسول یہ فرما سکتے تھے کہ دوسری  قومیں یا دوسرے لوگ تمہارے مقابلے میں ایسے ہوں گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر ایک کالا بال؟ ظاہر ہے نہیں۔کیونکہ دوسرے  لوگ  مسلمانوں کے مقابلے میں کبھی بال برابر نہیں ہو سکتے۔ یاجوج ماجوج کی ایک ہی قوم  امت  محمدیہ کے مقابلے میں ۹۹۹ فی ہزار ہے تو دوسری قوموں  کی بات کیا کرنا! مبالغہ کے ساتھ کہا جائے تو امت محمدیہ  صرف یاجوج ماجوج کے مقابلے میں ہی بال برابر ہے!
اس لیے  آپ بھی غور کریں گے تو پائیں گے کہ بال والی تشبیہ کی نوعیت عددی بھی ہے۔ اور اس سے انکار کرنے کا نفسیاتی سبب سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ آپ جہنمیوں کی  ۹۹۹ گنا زیادہ تعداد سے انکار کرنا چاہتے ہیں جبکہ بال کی یہ تشبیہ ہی ’’مصنف کا منشا‘‘ ظاہر کر دیتی ہے کہ ایک پورے بیل پر ایک یا دو بال کا کیا مطلب ہوتا ہے اور کس معنی کی ترسیل کے لیے یہ تشبیہ دی گئی ہے؟
اب کیا  آپ بتا سکتے ہیں کہ مصنف کا منشا پر آپ کا وہ  اصرار ، وہ آپ کی تمام ترمعروضیت ، وہ قرآن و سنت میں  جنت اور جہنم کی  تفصیلات و جزئیات کا اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا جانا، اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش کا نہ ہونا، یہ سب کہاں چلے گئے؟  آپ کا ذہن  تاویل کے پردے میں مصنف کے منشا سے اس حد تک انکار پر کیوں  آمادہ ہوا؟

حدیث ِ کی رو سے جنت اور جہنم کی آبادی کا ’’ناقابل انکار‘‘ تناسب

اگر ہم  حدیث میں مذکوراس خبر کو صحیح سمجھیں :
’’اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی) یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرۂ تکبیر بلند کیا۔‘‘ 
تو صورت حال انتہائی حد تک غیرمعقول ہو جاتی ہے یعنی وہ عقل میں نہیں آتی (واضح رہے کہ میں اس تحریر میں کہیں بھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کررہا ہوں، میں صرف معقول اور غیرمعقول کی بات کر رہا ہوں) ۔
موجودہ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ سو کروڑ ہے۔ نبی آخرالزماں کے دور سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والی امت محمدیہ کےافراد کی تعداد اگر ایک ہزار کروڑہی تسلیم کی جائے  تواس حدیث کی   رو سے  چونکہ مسلمان جنت میں آدھے ہیں تو اگروہ  ایک ہزار کروڑ ہوں تو جنت میں کل دوہزار کروڑ لوگ ہوں گے۔ اور جہنم میں کم سے کم ۹۹۹ ہزار کروڑ لوگ ہوں گے کیونکہ   یہ تناسب پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ ایک جنتی مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج جہنم میں ہوں گے۔اور یہاں کسی قسم کی سخن سازی  کا موقع بھی نہیں ہے۔ اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ۹۹۹ والی بات  میں کوئی مبالغہ کارفرما ہے کیونکہ حدیث میں ’’فی کل الف‘‘ یعنی ہر ایک ہزار میں سے‘‘ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی زبان سے پہلے ہی ادا ہو چکے ہیں اور یہ صریح عددی تناسب ہے! اگر اللہ تعالیٰ نے بھی کوئی مبالغہ کیا تو ظاہرہے ایسا مبالغہ بھی انتہائی کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے ہی کیا جائے گا ۔کوئی بھی مصنف جب ایسا مبالغہ کرے تو اس سے گنے ہوئے ٹھیک ۹۹۹ مراد نہیں لیے جائیں گے بلکہ  اصل تعداد اس سے کچھ زیادہ یا کچھ کم ہو سکتی ہے۔
  ذرا ملاحظہ فرمائیے۔جنت کے  دوہزار کروڑ کے مقابلے میں جہنم کے  ۹۹۹ ہزار کروڑافراد ۔ کیا تناسب بنتا ہے؟ ایک جنتی شخص کے مقابلے میں تقریباً ’’ ۵۰۰ ‘‘افرادجہنم میں جا رہے ہیں۔ اور یہ تناسب صرف تبھی بنتا ہے جب جہنم میں  صرف یاجوج ماجوج کو ہی مان لیا جائے اور عیسائی، ہندو، بودھ، چینی، لاطینی امریکی اور تمام دیگر غیر مسلم اقوام کے جہنمیوں کو چھوڑ دیا جائے۔
لیکن یہ ظاہر ہے کہ جہنمیوں میں صرف یاجوج ماجوج ہی نہیں ہوسکتے بلکہ تمام وہ کافر و مشرک قومیں ہوں گی جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ۔ اوریاجوج ماجوج کے ساتھ ان سب کو بھی جوڑا جائے  تو تخمینہ ۹۹۹ فی ہزار سےبہت  زیادہ کا نکلےگا۔ پس اگر میں نے یہ بتایا کہ حدیث کی رو سے ۹۹۹ فی ہزار  لوگ جہنم میں جا رہے ہیں تو کیا  غلطی کی؟ جہنم میں اگر  صرف یاجوج ماجوج کی قوم کو ہی مان لیا جائے تو  ۹۹۹ یا جوج ماجوج کے مقابلے میں جنت میں صرف دو اشخاص (جن میں سے ایک مسلمان ہوگا!) کا یہ غیرمعقول تناسب ہی اس قدر ناقابل یقین بات ہے کہ یہ سنتے ہی ایک تعقل پسند شخص کافر ہو جائے گا۔ کیا اس حدیث کو سنا کر آپ کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھا سکتے ہیں؟ پھر کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس حدیث سے کیا فائدہ اس کو ہوگا جو اس کو سنے گا اور کیا فائدہ اس کو ہوگا جو اس کو سنائے گا اور کیا فائدہ خود آپ کو ہوگا جو اس حدیث کے منشا کے خلاف اس کی  ’’دورازکار‘‘ تاویل پیش کر رہے ہیں؟ لیکن میں اس حدیث کے فوائد و مصالح کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہوں اگر آپ مجھ سے ایسا چاہیں۔
آپ ذرا خود اپنی عقل سے اندازہ لگائیں:
امت محمدیہ کے ایک مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج
گویا یاجوج ماجوج تمام امت محمدیہ کے مسلمانوں کا ۹۹۹ گنا زیادہ ہوں گے
اور خود مسلمان جنت کا آدھا حصہ ہوں گے
تو اس طرح آپ خود قیاس کر لیں کہ جہنم میں کتنے لوگ ہوں گے اور جنت میں کتنے لوگ اگر جہنم میں صرف یاجوج ماجوج ہی ہوں۔ دوسری مشرک اور اہل کتاب قوموں کو چھوڑ بھی دیں تو۔  آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ قیامت نہ جانے کب آئے گی اور قیامت تک بفضلہ تعالیٰ اتنے مسلمان پیدا ہو جائیں گے کہ  جنتیوں کے مقابلے میں جہنمیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس حدیث میں واقعاتی نوعیت کی خبر پہلے ہی دے دی گئی ہے کہ امت محمدیہ جنت کی آدھی آبادی ہوگی اور اس کے ایک شخص کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج  جہنم میں ہوں گے۔اب مسلمان چاہے جتنی زیادہ تعداد میں پائے جائیں ، یاجوج ماجوج لازماً ا ن سے ۹۹۹ گنا زیادہ ہوں گے۔پس ’’دور ازکار ‘‘تاویل کی ساری راہیں  مجھے آپ پر بند نظر آ رہیں ۔
لیکن نہیں،غالباً  اب آپ یہ فرمائیں گے  کہ ۹۹۹ کی تعداد محض کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے آئی ہے اس سے مراد گنے ہوئے ۹۹۹ فی ہزار نہیں ہیں۔ لیکن یہاں پر یہ کہا جا سکتا کہ ہے کہ گنے ہوئے ۹۹۹ نہ سہی ۹۹۸ یا ۹۹۵ ہی سہی۔ اس سے کم تو آپ نہیں کر سکتے؟  اور پھر آپ ’’کم‘‘ میں ہی کیوں سوچ رہے ہیں؟ ’’زیادہ‘‘ میں کیوں نہیں سوچ سکتے؟ دس ہزار یاجوج ماجوج فی  ایک   امت محمدیہ کا فرد  کیوں نہیں سوچ سکتے؟ اگر ۹۹۹ فی ہزار کی بات   کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے آئی ہے تو اس کے ذریعے سے    جہنمیوں کی تعداد یا تناسب  کو کم کرنا حدیث کے معروضی مفہوم  یا’’ مصنف کے منشا ‘‘کے بالکل خلاف بات ہے۔ حدیث میں یہ بھی  صاف فرما دیا گیا ہے کہ امت محمدیہ کی تعداد کا تناسب غیر مسلم قوموں (میرے مطابق جنتی و جہنمی دونوں اور مترجم کے مطابق صرف جہنمی!)  کے مقابلے میں ایسا ہوگا جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال یا کالے بیل کے جسم پر ایک یا دو سفید بال۔ او ریہی دو سفید یا چار کالے بال جنت کا آدھا حصہ ہوں گے۔ کیا اس سے جہنم میں انسانی آبادی کی بے پناہ کثرت اور جنت میں ان کی انتہائی قلیل ترین اقلیت کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے؟
پھر ۹۹۹ فی ہزار کا مطلب آخر کیا ہے؟ اگریہ عدد دوگنی تعداد کے لیے بولا گیا ہوتا تو دوگنا کا لفظ عربی زبان میں اس وقت بھی موجود تھا۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کے رسول نے نعوذ باللہ اپنے امتیوں کو غلط معلومات فراہم کیں۔ اس لیے  دوگنی کیا یہ  تناسب تو دس گنی تعداد کے لیے بھی نہیں بولا گیا معلوم ہوتاہے۔حدیث کے الفاظ سے ایسی  تاویل کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی :
اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اورتو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج کی (جو کافر ہیں) نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔
حدیث کے الفاظ صاف ہیں کہ ’’اگر یاجوج ماجوج کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا‘‘۔ اور یہاں کوئی مبالغہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ تناسب بالکل صاف ہے۔ اور اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اللہ کا یہ حکم سن کر بچے بوڑھے ہو جاتے ہیں، حمل والیاں  اپنا حمل گرادیتی ہیں، اور لوگ خوف سے ایسے  ڈولنے لگتے ہیں جیسے کوئی پی کر ڈول رہا  ہو۔ ۹۹۹ فی ہزار کی خبر واقعی ایسی دہشت ناک ہے ۔ اور یہ منظر کشی سن کر خود صحابہ کے چہرے بدل گئے۔
پھر ہماری عقل میں یہ بات  کیوں نہیں آ رہی ہے  کہ اللہ چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔۹۹۹ فی ہزار سے زیادہ کی تعداد کو جہنم میں بھیج دے سکتا ہے۔  یہ تقابل اللہ کے رسول صاف الفاظ میں فرما رہے ہیں اور معنی میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں ہے کہ تعداد دوگنی ہو گی یا ڈیڑھ گنی ہوگی۔ صاف بتایا جا رہا ہے کہ یاجوج ماجوج کی نسل امت محمدیہ سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل ایک آدمی پڑے گا!
 چونکہ انسانی  ذہن  اپنے آبائی مسلک اور مذہب کے بعید از عقل مشتملات کی  تاویل پر آمادہ رہتا ہے اس لیے یہاں پرہم  ایک اور تاویل ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ وہ یہ کہ اس وقت  جو صحابہ حاضر تھے  ۹۹۹  فی ہزار والی  یہ بات ان پر سخت گزری اور  اللہ کے رسول انہی صحابہ سے کہہ رہے ہیں کہ یاجوج ماجوج دراصل انہی صحابہ کے مقابل ہوں گے!لیکن پھر حدیث میں اللہ تعالیٰ کے اس قطعی حکم کی کیا توجیہ کریں گے کہ اے آدم اپنی اولاد میں سے جہنمیوں کا جتھا ۹۹۹ فی ہزار  نکال لو! پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو کیا کہیں گے کہ جنت میں تمہاری تعداد آدھی ہوگی؟   یعنی جنت  صرف ان ہی  قلیل التعداد صحابہ پر مشتمل ہوگی؟ پھر ان کے  اس قول کو کیا کہیں گے کہ میدان حشر میں دوسری قوموں کے مقابلے میں تمہاری تعداد اتنی ہوگی جتی کہ سیاہ بیل کے جسم پر ایک دو کالے بال ہوتے ہیں؟ گویا یہی چند ہزار صحابہ امت محمدیہ میں ہوں گے۔ اور یہی ایک دو’’ کالے  سفید بال‘‘ جنت میں ہوں گے! اور جنت میں صرف دو یا چار بال ہوں گے۔ اور دو یا  چار بالوں کے سوا بیل کی کھال پر جس قدر بال ہوتے ہیں اسی قدر انسان جہنم میں ہوں گے، یعنی اسی تناسب سے ہوں گے۔ایسے تمام سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ اور کیا  اس  من مانی تاویل کی کوئی گنجائش اس حدیث میں ہے کہ ایک جگہ تم سے مراد صرف صحابہ اور دوسری جگہ’’ تم‘‘  سے مراد بعثت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والی تمام تر امت محمدیہ ۔ اس من مانی تاویل کو مانیں  تو پھر بات بن سکتی ہے۔ اور بعید نہیں کہ آپ کہیں کہ ہاں، بالکل ٹھیک کہا تم نے طارق، دراصل یہی بات ہے! ایک جگہ تم سے مراد صرف صحابہ ہیں اور دوسری جگہ تم سے مراد تمام امت محمدیہ ! یعنی یاجوج ماجوج  کی ۹۹۹ فی ہزار تعداد صرف صحابہ کے مقابلے میں ہے ! پھر حدیث کی رو سے تو یہی صحابہ جنت کے آدھے ہونے چاہئیں نہ؟  
ایک اور بہانہ  جو یہاں کیا جا سکتا ہے کہ یہ تناسب کسی خاص دور میں یاجوج ماجوج  کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے درمیان قائم کیا گیا ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی مذکورہ بالا پیراگراف میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا حل نہیں ملتا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ’’فی کل الف ‘‘والا حکم۔
پھر یہ  بھی غور کرنا چاہیے کہ اللہ کے رسول ’’تم ‘‘ سے مراد تمام امت محمدیہ لے رہے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت یہ فرما رہے ہیں کہ’’ ۹۹۹ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک تم میں سے‘‘ تو اس تناسب میں صحابہ بھی شامل ہو ہی جاتے  ہیں۔ لیکن اگراس  دور از کار تاویل  کو  مان لیا جائے کہ ۹۹۹ فی ہزار والی بات ’’ کسی خاص دور میں یاجوج ماجوج کی کثرت کے مقابلے میں اسی خاص دور کے مسلمانوں کی قلت‘‘ کے لیے ہی صحیح ہے تو  پھر اس حدیث کے مفہوم کو کچھ اس طرح بیان کرنا ہوگا:
’’ایک دور آئے گا جب یاجوج ماجوج  نامی ایک قوم مسلمانوں کا ۹۹۹ گنا ہو جائے گی۔اور اللہ تعالیٰ اسی خاص دور کے متعلق حضرت آدم علیہ السلام سے کہہ رہا ہے کہ اے آدم ، ایک خاص دور میں اپنی اولاد میں سے ۹۹۹ فی ہزار کے تناسب سے جہنمیوں کے جتھے کو الگ نکال  لو۔ ‘‘ لیکن یہ تاویل حدیث کی بقیہ تفصیلات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور ایسا سمجھنا مصنف کے منشا کے  بھی بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ آگے اسی حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمان  دیگر قوموں کے مقابلے میں  بال برابر ہوں گے اور یہی بال برابر لوگ جنت کا آدھا حصہ ہوں گے  ۔ اس پس منظر میں ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ  یاجوج ماجوج اور مسلمانوں کے ۹۹۹ فی ہزار کے تناسب  کو کسی خاص دور تک محدود کر دینا معروضیت کے ساتھ ساتھ ’’ مصنف کے منشا ‘‘ کو بھی  خیر باد کہہ دینا ہے۔ اور اگر احادیث مبارکہ میں اس قدر اٹکل لگانا جائز ہے جس کی اصل متن میں کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی تومیری اس  تعبیر پر آپ کو اعتراض کیوں ہے کہ ایسی باتیں  لوگوں میں خوف خدا پیدا کرنے کی غرض سے فرمائی گئیں؟
پھر سب سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ ساری تاویلیں اسی لیے چل رہی ہیں نہ  کہ۹۹۹ فی ہزار والی تعداد کو ہمارا ذہن قبول نہیں کر رہا ہے۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس تعداد سے نجات حاصل ہو۔منقولات کی یہی وہ گرفت ہے جو ہر داعی کی عقل کو خبط کر کے رکھ دیتی ہے۔ اپنے تجزیے کے ذریعے   اس کی عقل پر نقل کی جو گرہ پڑی ہوئی ہے ، میں اس کو کھولنے کی پوری  کوشش کر رہا ہوں۔ اگر ایک بار یہ گرہ کھل جاتی ہے تو پھر مذہب کا صحیح تصور اس کو انشا اللہ سمجھ میں آ جائے گا۔
اگر ہم جہنم میں جانے والوں کی تعداد کو کم کرنا ہی چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ۹۹۹ فی ہزار والی بات کا وہ مفہوم نہیں ہے جو بظاہر نکل رہا ہے  تو پھر ہم جنت اور جہنم میں جانے والوں کی تعداد کا آخر کیا تناسب قائم کرسکتے ہیں؟  ہم جانتے ہیں کہ قرآن و سنت  کی روایتی تشریح کے مطابق عقیدہ جنت میں داخلے کی لازمی شرط ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنکھ اٹھا کر دیکھیے  کہ اس دنیا میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کی تعداد کا صحیح تناسب کیا ہے؟ دنیا میں عیسائی، ہندو، چینی  کس قدر زیادہ تعداد میں  پائے جاتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اکیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے یہ سب لوگ اسلام قبول کر لیں گے؟ پچھلی صدیوں میں جس قدر غیر مسلم قوموں کے لوگ دنیاسے کوچ کر چکے ہیں کیا وہ سب جہنمی ہیں؟روزانہ جس قدر  عاقل و بالغ غیرمسلم فوت ہوتے ہیں کیا وہ سب جہنم میں جائیں گے؟ قرآن و سنت کی روایتی تشریح کی  رو سے جواب اثبات میں ہے۔روایتی فہم  کے اعتبار سے معاذاللہ  جب عقیدہ کی بنا پرآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے  چچا  حضرت ابو طالب (رضی اللہ عنہ )کو ہی نہیں بخشا گیا تو اور کس کی بخشائی ہو سکتی ہے؟   
پس، دین کے روایتی نقطہ نظر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ۹۹۹ فی ہزار کی تعداد کو کم کر کے بتانا ، یا اس میں کسی تخفیف کا مرتکب ہونا خود غیر اسلامی طرز فکر ہے، اور قرآن و سنت سے صریحاً  متصادم ہے۔اور جب بات روایت ہی کی پاسداری کرنے کی ہے ، عقلی نوعیت کے سوالوں کا گلا گھونٹتے رہنے کی ہے تو مولانا مودودی یا جماعت اسلامی ہند میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، میرے لیے علمائے دیوبند اور بریلی کی کتابیں کافی ہیں۔اور وہاں بھی جگہ نہ ملے تو درجنوں خانقاہیں اور درگاہیں موجود ہیں، خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہے، حضرت نظام الدین اولیا کا آستانہ ہے۔روحانی سکون کے لیے ادھر کا ہی رخ کروں گا۔لیکن عقل اور نقل کے درمیان اَدھر لٹکتا رہنا مجھے منظور نہیں ہے۔
[ بعض لوگ  اپنی دانست میں میرے اوپر رحم کھاتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو جنت اور جہنم کے تناسب پر غور کرنے کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ جتنے افراد کو چاہے گا جہنم میں بھیجے گا، آپ کو ایسی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ زیر بحث حدیث ایسے کسی  تناسب سے کافی و شافی طور پر بحث کرتی ہے اور ظاہری  و معروضی اعتبار سے یہی اس کا موضوع بھی ہے، اور جو کوئی بھی ایسی حدیثوں کو پڑھے گا، اس کے ذہن میں ایسے سوالات  ضرور پیدا ہوں گے۔ اور ان سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ کم ازکم اندر سے کافر  ہوجائیں ، چاہے باہر سے اس کا پتا نہ لگایا جا سکے۔( میری اس تحریر کو میرے فیس بک کے نوٹ ’’جہنم کا عقیدہ اور انسانی عقل ‘‘کے ساتھ ملا کر پڑھا جا نا چاہیے۔)]

حدیث کا معروضی مفہوم اور آپ کی دور از کار تاویلیں

اب آپ یہ  بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ  اس حدیث کی تمام تر باتوں پر من و عن یقین رکھتے ہیں اور وہ سب کچھ مانتے ہیں جو معروضی طور پر اس حدیث سے  نکل رہا ہے کیونکہ آپ اس مفہوم کی تاویل پہلے ہی  کر چکے ہیں:
 اصل حدیث میں صحابہ اور آں حضرت ﷺکے درمیان کی پوری گفتگو نقل کی گئی ہے۔ جو حیرت آپ کو ہورہی ہے وہی صحابہ کو بھی ہوئی۔  تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ابشروا فانّ من یاجوج و ماجوج الفا ومنکم رجل یعنی  ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک آدمی تم میں سے۔ یعنی قیامت کے قریب  فتنون کے زمانہ میں یاجوج ماجوج جیسے خونخوار اور ظالم لوگوں کی نسل اس تیزی سے بڑھے گی کہ  تعداد کے اعتبار سے وہ نیک لوگوں کے مقابلہ میں کئی گنا ہوجائیں گے۔اور بالآخر یہ وحشی جہنم کی نذر ہوں گے۔ آپ اس پوری حدیث کو نظر انداز کرکے صرف ایک فقرہ نقل کردیتے ہیں اور اس بات کو قارئین سے چھپاتے ہیں کہ بعینہ یہی حیرت جس کا اظہار ہورہا ہے وہ صحابہ کو بھی ہوئی  اور حضور نے اس کا یہ جواب دیا۔
عام حالات میں حدیث کا ایک فقرہ نقل کردینا ایک الگ بات ہے۔ لیکن آپ کسی جملہ پر اعتراض کررہے ہیں اور اس سے اگلے جملہ میں خود کہنے والا اس اعتراض کا جواب دے رہا ہے اور آپ اسے نظر انداز کرکے صرف معترضہ جملہ نقل کررہے ہیں، کیا یہ علمی بددیانتی نہیں ہے؟حالانکہ ابو سعید خدری سے مروی اس حدیث کو امام بخاری نے باب یاجوج و ماجوج میں رکھا ہے۔یعنی بحث یاجوج ماجوج کی چل رہی ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ خود یاجوج ماجوج جیسے ظالم قبائل کو اللہ  تعالی کیوں پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی موجود ہے اور آپ کو معلوم ہے۔سرکش اور خوں خوار لوگوں کو سزا دینے والا ظالم نہیں کہلاتا اور اللہ تعلی کی صفات میں جہاں رحمن و رحیم کا ذکر ہے وہیں قہار و جبار کابھی ذکر ہے۔‘‘
دیکھا، آپ نے کیسے  حدیث کے معروضی مفہوم  (text on page meaning)  میں خود آپ نے  تحریف کی۔  یہی نہیں آپ نے خود ’’مصنف کے منشا‘‘ کا خیال نہیں رکھا،  ظاہری الفاظ کی پیروی بھی نہیں کی ۔ اور معنوی پہلو پر بھی ایسی کوئی ناقدانہ نظر نہیں ڈالی  کہ تاریخ میں ایک جنتی  مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹  جہنمی افراد کا تناسب رکھنے والی کوئی قوم ایسی  نہیں گزری ہے جس نے روئے زمین پر اتنی بڑی تباہی مچائی ہو۔ تباہی تو  کئی  بڑی قوموں نے مچائی ہے جن پر یاجوج ماجوج کا اطلاق  ہرگز نہیں کیا جا سکتا ،مثلاً منگول اور تاتاری، کیونکہ اول تو  ان کی عددی قوت مسلمانوں کے مقابلے میں اتنی بڑی نہیں  ہو سکتی  اور دوم یہ ہے کہ آگے چل کر ان کی بڑی تعداد اسلام قبول  کرنے کے سبب جہنم میں داخل بھی نہ ہو سکی۔ پھر احادیث میں یہ پیش گوئی بھی نہیں ملتی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تم یاجوج ماجوج کو کلمہ شہادت پڑھتے دیکھو گے! اگر  یاجوج ماجوج سے مراد منگول اور تاتار قوم تھی تو ان کے قبول اسلام کی پیش گوئی بھی لازماً ہونی چاہیے تھی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم یاجوج ماجوج بھی ہو ،ان کی ایک بڑی تعداد اسلام بھی قبول کرے  اور اس کی بشارت نہ دی جائے۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ یورپی قوموں نے دو عالمی جنگوں کی شکل میں منگولوں  اور تاتاریوں سے زیادہ  تباہی دنیا میں مچائی ہے۔لیکن انہیں  یاجوج ماجوج نہیں  سمجھا جاتا۔  فی الحال یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ قیامت کتنی دور یا قریب ہے لیکن یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسے یاجوج ماجوج  اب تک نہیں آئے جو مسلمانوں سے ۹۹۹ گنا زیادہ ہوں۔ظاہر ہے یاجوج ماجوج نے مستقبل میں ہی آ کر تباہی مچانی ہے۔ لیکن  مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہی مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں اور آئندہ ان کی تعدادمیں اضافہ  ہی ہوگا۔ لیکن چلیے مستقبل میں مسلمانوں کی تعداد کوتجزیے کی آسانی کے لیے  صرف ایک  ارب مان لیا جائے  تو حدیث کے الفاظ کے مطابق  یاجوج ماجوج کی تعداد کو ۹۹۹ ارب ہونا چاہیے۔ پانچ سات ارب کی آبادی میں ہی دنیا کا یہ حال ہو گیا کہ فیملی پلاننگ کے ذریعے اس پر قابو پایا جا رہا ہے!  کیا  مستقبل میں  دنیا کی آبادی میں کبھی اتنا بڑا اضافہ ہو سکتا ہے، الا یہ کہ انسانی آبادیاں چاند اور مریخ پر بھی بسائی جائیں؟ لیکن ایک داعی کے تاویلاتی ذہن سے یہ بھی بعید نہیں ہے کہ وہ نظام شمسی کے دیگر سیاروں پر انسانی آبادی کے جا بسنے کی پیش گوئی کرنے لگے! پھر یاجوج ماجوج  کو لازماً چاند اور مریخ سے آ کر زمین پر تباہی مچانی ہوگی کیونکہ مستقل قریب یا بعید میں اتنی بڑی آبادی کا اس  روئے زمین پر  پایا جانا تو مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ کیونکہ جیسے  ہی دنیا کی آبادی میں کوئی بہت بڑا اضافہ ہوگا، مثلاً دس بیس گنا، تو انسان یا تو اس پر  خود قابو پا لے گا یا پھر آفات ارضی و سماوی کے ذریعے اللہ تعالیٰ آبادی کم کرنے کی کوئی تدبیر کر دے گا۔لیکن کسی مستقبل  قریب یا بعید میں ایک ڈیڑھ  ہزار ارب کی آبادی، اور وہ بھی صرف ایک قوم یاجوج ماجوج کی آبادی کا تصور کرنا اس قدر بعید از عقل ہے کہ مطلق  سادہ دل اور سادہ لوح افراد سے ہی اس کی توقع ہے۔  
اوپر کے پیراگرا ف میں میرے ذریعے پیش کردہ  ناممکنات  کی پوری فہرست کو  ذہن میں رکھتے ہوئے  علمائے ظواہر کو لازماً اب یہی تاویل کرنی ہوگی: ’’ مسلمانوں سے ۹۹۹ گنا زیادہ تعداد والی یاجوج ماجوج کی اس قوم کا تعلق مستقبل سے نہیں بلکہ ماضی سے ہے،  اور وہ تاریخ کے کسی دور میں  تباہی مچا کر جا چکی اور اب کبھی لوٹ کر  نہ آئے گی۔‘‘  کیونکہ جیسے ہی وہ  لوٹ کر دوبارہ آئے گی حدیث کے مطابق اس کی تعداد کوبہرحال  مسلمانوں سے ۹۹۹ گنا زیادہ ہوجانا ہے۔  پس، علمائے ظواہر کے  لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ماضی میں پناہ لیں اور نت نئی تحقیقات سے یاجوج ماجوج کا  ماضی میں آکر تباہی مچانا ثابت کر دیں تاکہ اس حدیث کا  واقعاتی صداقت ہونا خطرے میں نہ پڑے۔ عین ممکن ہے آپ  ہی کے قلم سے یہ تحقیقی کارنامہ انجام پائے۔ لیکن باجود اس قدر ’’مشکوک ‘‘ ہونے کے میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں یاجوج ماجوج کے آنے کی ۹۹۹ فی ہزار گنجائش بھی نہیں ہے۔ جب تک ہم احادیث نبوی کی تخویفی و تشویقی نوعیت کو تسلیم نہیں کر لیتے تب تک ایسی تحقیقات، تعبیرات ، تشریحات اور تاویلات جاری رہتی ہیں اورمسلمان عوام اور  علمائے کرام کی قوت اسی سب میں صرف ہوتی رہتی ہے۔میری بھی صرف ہو رہی ہے۔لیکن اگر آپ مجھ پر بددیانتی کا  سوال  قائم کرنے سے پہلے خود ہی ان سب باتوں پر غور کر لیتے تو میرا وقت بھی بچتا اور آپ کے تبصرے کے دیگر نکات سے بحث ہو سکتی۔
اب اپنی  اتنی غیرمعقول تاویلوں کے بعد آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث ضعیف یا کسی اور سبب سے ناقابل اعتبار  ہے۔کیونکہ اگریہ حدیث آپ کے نزدیک  ناقابل اعتبار تھی تو تاویل کرنے کی  سرے سے کوئی ضرورت  ہی نہ تھی۔ آپ کہہ دیتے کہ میں اس حدیث کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہوں ۔پس بخاری کی اس حدیث کو آپ مستند سمجھتے ہیں اور اس سے انکار نہیں کر سکتے ۔ انکار کی صورت میں آپ روایتی  علمائے کرام کے فتووں کی رو سے مومن نہ رہیں گے۔ حالانکہ میں اس حدیث کو ہر لحاظ سے  مستند نہیں مانتا ۔ میں اس کو تخویفی و تشویقی نوعیت کی حدیث سمجھتا ہوں جس کا حقیقت واقعہ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ اور صرف اتنی سی بات کے لیے  کہ میری انسانی عقل سوال کرتی ہے،کوئی مجھے ملحد اور کافر بنائے تو اس کو پہلے اپنے ایمان پر غور کرنا چاہیے کہ اس کا دل کسی گناہ میں تو مبتلا نہیں ہے۔
ہمارے یہاں ایک انتہائی ناروا طریقہ یہ  اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے ہی احادیث نبوی کی بعض باتوں میں  کوئی ناقابل انکار عقلی مسئلہ نظر آیا ، فوراً اس کے استناد پر سوال اٹھا دیا گیاکہ یہ حدیث تو موضوع ہے، کہ یہ حدیث تو ضعیف ہے، کہ یہ حدیث غریب ہے، کہ اس کی  سند منقطع ہے۔(موسیقی کو جائز کرنے کے لیے بخاری کی ایک حدیث  کی سند کو ابن حزم کے حوالے سےمنقطع قرار دیا گیا، دیکھیے کلام نبوت حصہ سوم) گویا منقولات کو بہرحال حجت تسلیم کرنا ہے اور اس  میں کوئی آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کا موقع آئے  تو سرے سے اس کی صحت کا  ہی انکار کر دیا جائے۔یا پھر’’ راوی کو سہو ہوا‘‘ ،  ’’وہ بھول گیا‘‘،یا اس جیسی کوئی  دوسری بات اڑا دی جائے۔ لیکن آپ اب یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ اب  آپ کو اپنے روایتی اصولوں کی مدد سے  اس حدیث سے نکلنے والے ہر صریحی مفہوم کا اطلاق صورت واقعہ پر کرنا ہوگا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ اس حدیث کی ایک خبر کوتو  آپ  واقعاتی صداقت تسلیم کریں اور دوسری خبر کو واقعاتی صداقت کے دائرے سے خارج کر دیں۔ آپ اس حدیث کو واقعاتی صداقت تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے لکھے کو ایک بار پھر دیکھ لیجیے:
’’قیامت کے قریب  فتنون کے زمانہ میں یاجوج ماجوج جیسے خونخوار اور ظالم لوگوں کی نسل اس تیزی سے بڑھے گی کہ تعداد کے اعتبار سے وہ نیک لوگوں کے مقابلہ میں کئی گنا ہوجائیں گے۔اور بالآخر یہ وحشی جہنم کی نذر ہوں گے‘‘۔
پتا نہیں  یہ’’ کئی گنا ‘‘ کا لفظ  آپ کہاں سے نکال لائے ۔ آپ خود کہتے ہیں کہ ’’ کسی بھی متن کو ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ متن میں جو منشا مصنف کا واضح ہو رہا ہے، اسے مانا جائے‘‘ اور خود  اپنے ہی اصول کی خلاف ورزی  بھی کررہے ہیں۔  حدیث میں تو  یہ بات آئی ہے کہ  ’’ اگر یاجوج ماجوج کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔‘‘ وہاں ۹۹۹ گنا کی بات ہو رہی ہے اور آپ فرما رہے ہیں کئی گنا! یہی آپ مصنف کے منشا کو مان رہے ہیں؟  
اگر آپ اپنے اس ’’کئی گنا‘‘ کی مدافعت میں یہ  کہیں گے کہ  ۹۹۹ کا عدد صرف کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے تو پھر آپ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ کہ صحابہ نے  ۹۹۹ کو۹۹۹ ہی سمجھتے ہوئے اللہ کے رسول سے یہ سوال کیوں کیا کہ وہ ایک خوش نصیب شخص ہم سے کون ہوگا؟   (دیکھیے صحیح بخاری، کتاب الرقاق، حدیث نمبر( 6530۔ ظاہر ہے ۹۹۹ اور ایک کے تناسب کو کئی گنا کہنے کی یہ تاویل یہاں نہیں چل سکتی الا یہ کہ مصنف کے منشا کو خیر باد کہہ دیا جائے!۔   یا اب آپ یہ فرمائیں گے کہ ’’مصنف کا منشا‘‘ صرف قرآن میں چلتا ہے، حدیث میں نہیں کیونکہ احادیث قرآن جیسی قطعیت نہیں رکھتیں۔ لیکن قرآن میں تو یہ صاف فرمایا گیا ہےکہ: جو کچھ رسول تمہیں دےاسے لے لو، اور جس چیز سے روکے ، اس سے رک جاو۔‘‘ پھر رسول جو کچھ دیں وہ سوائے سنت کے اور کہاں پایا جا سکتا ہے؟ اور سنت وہ ہے جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے اور علم و عمل (مع عقیدہ  اوراورادو ظائف) کی صورت  میں عملاً جاری و ساری ہے۔ احادیثِ صحیحہ یہی کہتی ہیں کہ ایمان کے بغیر نجات نہ ہوگی، اسی طرح عملاً بھی جمہور امت  یہ سمجھتی  ہے  کہ ایمان  کے بغیر نجات نہ ہوگی۔ احادیث یہ کہتی ہیں کہ جہنم میں جنت سے سیکڑوں  نہیں بلکہ ہزار گنا زیادہ افراد ہوں گے اور مسلمان عملاً بھی یہی سمجھتے آرہے ہیں۔ پھر آپ کے اس ’’کئی گنا‘‘ کی تشریح کی  کیا گنجائش ہے؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ امت محمدیہ جنت کی آدھی آبادی ہوگی اور اس کے مقابلے میں یاجوج ماجوج ۹۹۹ گنا زیادہ کی تعداد میں جہنم میں جائیں گے۔ اورجو ’’حیرت‘‘ مجھے ہو رہی ہے ، بعینہ وہی حیرت صحابہ کو بھی ہوئی تھی جس کا جواب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیا اس کی رو سے جہنم میں جنت سے کم سے کم  499.5  گنا زیادہ آبادی ہوگی (مسلمان جنت میں آدھے ہوں گے اور ایک مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج جہنم میں جائیں گے اس حساب سے )؟ آپ خود انصاف سے بتائیے، کیا یہی اس ’’حیرت‘‘ کا جواب ہوا جو مجھے اور آپ کے بقول ’’صحابہ‘‘ کو ہوئی؟ پھر یہی نہیں کہ آپ کے اس قول سے صحابہ کا متحیر ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ گویا صحابہ مجھ جیسے مشکوک لوگ تھے جو متحیر ہوئے۔ حالانکہ صحابہ کو وہ حیرت بالکل نہیں ہوئی،وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نوع کی باتوں کوواقعاتی صداقت  ہی فرض کرتے تھے۔ یعنی وہ ۹۹۹ کو ۹۹۹ ہی سمجھتے تھے۔لیکن  آپ نے ۹۹۹ گنا کو ’’کئی گنا‘‘ فرمایا۔ اللہ کے رسول کی بات کے خلاف باوجود اپنی نیت کی صالحیت کے آپ نے ایک بات کہی۔ ۹۹۹ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ’’کئی گنا‘‘ نہیں ہے۔ میں تو مشکوک ہوں ہی، خود آپ کو کون سا شک اب لاحق ہو رہا ہے کہ ۹۹۹ کی عظیم تعداد کو صرف ’’کئی گنا‘‘ تک محدود کر رہے ہیں؟ اگر اللہ تعالٰی قادر مطلق ہے تو وہ ۹۹۹ فی ہزار بلکہ اس سے زیادہ کی تعداد کو جہنم میں کیوں نہیں بھیج سکتا؟ کس جذبے کے تحت، کس عقلی یا نقلی، یا لسانیاتی و روایتی، یا فن حدیث میں موجود کس دلیل کے تحت آپ نے ۹۹۹ کو ’’کئی گنا‘‘ کے لفظوں میں ملفوف کر کے پیش کیا؟ ۹۹۹ سے ’’کئی گنا‘‘ کے معنی کیسے لیے جا سکتے ہیں الا یہ کہ آپ کو بھی  اس بات پر شک ہو اور اسے صرف ’’کئی گنا‘‘ قرار دے کر اس پر سے دوسروں کے اور خود اپنے ذہن کو ہٹا  دینا چاہتے ہوں؟
پس یہ رہا آپ کے ذہن میں موجود کا شک کا ایک  کیڑا ، جس کو تجزیہ و تحلیل کے اپنے عمل میں چمٹے سے پکڑ کریا الیکٹران مائیکرواسکوپ  میں بار بار آپ کو دکھا رہا ہوں تاکہ آپ خود سورہ ٔ ناس پڑھ کراس کودور کرسکیں۔ میری ایسی تحریروں میں اسی لیے طوالت پائی جاتی ہے تاکہ خوب صاف طور پر آپ اپنے اندر موجوداس  شک کو دیکھ سکیں جو بنائے اصلی ہے ان تمام دور از کار تاویلات کی جن میں آپ خود بھی مبتلا ہیں۔ رہی بات میری، تو بلا شبہ آپ اس کو بھی ’’دورازکار‘‘ کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ متن کے معروضی معنوں کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن پہلے اپنے ’’دور از کار‘‘ کو تو ’’قریب از کار‘‘ لے آئیے۔ میں تو صاف بتا رہا ہوں کہ میں اپنے ’’دور از کار‘‘ میں کیوں مبتلا ہوں؟ دراصل ہم سب اپنے اپنے دور از کاروں  میں گزر بسر کر رہے ہیں۔  مجھے تو اپنے دور از کار کی خبر ہو گئی۔ لیکن دبستان مودودی کی فکری عصبیت میں مبتلا تحریکِ اسلامی کے دیگر افراد کو اپنے دور از کار کی خبر کب ہوگی؟  
آپ کے نزدیک قرآن و سنت میں جنت اور جہنم کی تفصیلات اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ باتیں بطور تمثیل ہیں یا صرف خوف پیدا کرنے کے لیے دی گئی ہیں‘‘۔ لیکن  میرے نزدیک اصل مسئلہ یہی تو ہے کہ آخر  اس قدر وضاحت سے ایسی تفصیلات اسلام میں پائی کیوں جاتی ہیں؟ اور وہ بھی ۹۹۹ فی ہزار جیسی، جہنم میں عورتوں کی اکثریت جیسی!اگر صرف مجردات میں گفتگو کی گئی ہوتی تو روایتی اسلام زیادہ قابل یقین ہوتا۔  
’’مصنف کے منشا ‘‘کو اگر آپ مانتے ہیں تو اب اپنے اس اصول سے انحراف کیا معنی؟ تسلیم کیجیے کہ امت محمدیہ تمام دیگر قوموں کے مقابلے میں بال برابر تعداد میں  میدان حشر میں نظر آئے گی۔ اور یہی بال برابر لوگ  جنت کی تمام تر آبادی  کا آدھا ہوں گے! اگر جنت واقعی اتنے قلیل التعداد لوگوں کی ہے تو پھر دنیا کی دولت کو اتنی قلیل التعداد اقلیت  کے ہاتھ  میں سمٹتے چلے جانے کی مارکسوادیت  میں آپ حضرات کیوں مبتلا نظر آتے ہیں؟  مٹھی طبقہ ٔ اشرافیہ کے خلاف اس قدر شورو  شغب کہ اسلامی نظامِ زکوٰۃ  کی تبلیغ کریں اور مٹھی بھر ’’طبقہ ٔ ایمانیہ‘‘  کے فردوس بریں میں جانے اورحشرات الارض کی طرح  روز انہ پیدا ہوتے اور مرتےہوئے لاتعداد انسانوں کے  واصلِ جہنم  ہونے  کا عقیدہ رکھنے  پر دل میں ذرہ برابر کوئی کھٹک نہیں! آٹے میں نمک کے برابر لوگ جنت میں ہوں اور آٹے کی بوریوں پر بوریاں  جہنم میں ، کیا اس بات پر آپ  تھوڑا  بھی غور نہیں کرسکتے؟

مذہب اورواقعاتی صداقت

معروضی نقطہ نظر سے فی الحال سنت کی حد تک آپ کے وہ تمام پانچوں اصول غلط ہو چکے ہیں۔  اور اصولاً اب آپ کو یہ مان لینا چاہیے کہ زیر نظر حدیث کے ظاہری معنوں پر ایمان لانا صحیح نہیں ہے ۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس قسم کے  مذہبی منقولات  میں واقعاتی نہیں بلکہ  اخلاقی نوعیت کی صداقت پائی جاتی ہے، اور اسی لحاظ سے ایسی حدیثوں پر میں ایمان بھی لاتا ہوں۔ میں اپنی جگہ یہ سمجھتا ہوں کہ  جنت و جہنم سے متعلق واقعاتی نوعیت کی یہ تفصیلات  جزیرۂ عرب کے لوگوں میں خوف خدا پیدا کرنے  کی غرض سے ایک خاص دور میں وجود میں آئیں، اور اس کا مقصد ان کی اخلاقی اصلاح کرنا تھا۔بے شک جنت اور جہنم کی کوئی نہ کوئی شکل ایسی موجود ہے جس پر انسان کو ایمان لانا چاہیے لیکن واقعاتی نوعیت کی تمام تر مصدقہ  تفصیلات پر ایمان لانے سے  اسلامی عقائد میں جو عقلی مسائل پیدا ہوتے اور اس پر جو اخلاقی اعتراضات  وارد ہوتے ہیں ان کے سبب خود اسلام کی حقانیت مشتبہ ہو جاتی ہے۔ موجودہ ہ دور کے انسان ان پر ایمان نہیں لا سکتے الا یہ کہ چند ہزار یا لاکھ لوگ اپنی مذہبی عصبیت کے زیر اثر ان کی تاویل کرنے کی ناکام  کوشش کرتے رہیں  جس کا ایک نمونہ خود آپ نے پیش فرمایا ہے۔ خدارا مذہب کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کیجیے اور ان فروعات سے باہر نکل کر مذہب کے عقلی تصور پر از سرِ نو غور کیجیے ۔ جن ادیان و ملل کا  تاریخی ارتقا رک جاتا ہے  ان میں نہ فلاسفہ پیدا ہوتے ہیں، نہ سائنسداں اور نہ کوئی تکنیکی ترقی ان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسفیانہ پسماندگی سائنسی پسماندگی کا پیش خیمہ ہے،جس کے بعد تکنیکی ارتقا کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں ۔ زوال پذیر  تہذیبوں  کا عروج تبھی ہو سکتا ہے جب وہ فلسفہ کے مقفل ابواب کو ایک بار پھر کھولیں، مذہب کے باب میں روایت نقلی کے بجائے درایت عقلی کو ترجیح دیں  اور ازسرنو غور کریں کہ مذہب کی تجدید، اصلاح، ارتقا یا تشکیل نو کی دورِ جدید میں فی الواقع کیا ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں  کہ میری ایسی باتوں کے سبب مجھے ملحد  کہا جائے گا ۔لیکن ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ  الکندی، فارابی، ابن سینا، ابن رشد، علامہ اقبال، نیاز فتح پوری، اور فضل الرحمان سب پر مذہب میں عقل سے کام لینے کے سبب کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے ہیں۔اور  جن اسلامی شخصیات کی عبقریت کا انکار علمائے ظواہر سے ممکن نہیں ان کے متعلق وہ ’’ معتبر‘‘ شہادتیں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں مرتے وقت انہوں نے  اپنے  ملحدانہ خیالات سے رجوع کر لیا تھا۔  مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ علامہ اقبال جیسے  بڑے بڑے ملحدوں [4] کو  آخری عمر میں ہی  توبہ کی توفیق کیوں ملتی ہے کہ انہیں اپنے سابقہ نظریات کے خلاف   چند  پیراگراف لکھنے  تک کا موقع  تک نہیں مل پاتا؟
آپ کے پچھلے تبصرے  کے بقیہ دلائل پر مزید غور و فکر کے بعد کچھ عرض کروں گا۔ 

والسلام
آپ کا ہی
طارق احمد صدیقی

حیدرآباد، ۲۶ جنوری ۲۰۱۲ عیسوی


[1] سعادت اللہ حسینی صاحب کا وہ جواب جو انہوں نے میڈیافائر پر پوسٹ کیا تھا اس کا لنک درج ذیل  ہے :
[3]  جہنم کا عقیدہ اور انسانی عقل کے عنوان سے لکھے گئے اس نوٹ کو درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں: