[بہت پہلے ہمارے ایک دوست نے مسئلہ ٔ ارتداد پر مولانا عنایت اللہ سبحانی کے حوالے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تاویل پیش کی تھی۔ ان کی تاویل کے مطابق اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اسلام میں تبدیلی مذہب ارتداد کے مترادف نہیں ہے اس لیے مذہبِ اسلام ترک کرنے کی سزا ‘‘قتل ’’ نہیں ہے۔میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تھا جس پر آج اتفاق سے میری نظر پڑ گئی۔ میں نے اپنے لکھے تبصرے کو دوبارہ پڑھا اور قارئین کے فائدے کی غرض سے اس میں چند حذف اور اضافے کے بعد اسے بلاگر پر پوسٹ کر رہا ہوں:۔] جناب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ صاحب، روایتی اصولِ شریعت کی رو سے اختلاف بھی اسی وقت منعقد اور معتبر ہو سکتا ہے جب کہ خود نصوص شرعیہ میں اس کی گنجائش پائی جاتی ہو۔ یعنی گنجائش خود آیت یا روایت کے الفاظ ہی میں ہو نہ کہ ہم باہر سے ایک مفہوم لا کر اس میں ٹھونسنے کی کوشش کریں۔ پھر جب اختلاف ہی منعقد نہ ہو تو وہ معتبر کیسے ہو سکتا ہے؟ پس ایسے جملہ امور میں مختلفین کی تکفیر کی جائے گی نہ کہ ان کے اختلاف کو برداشت کیا جائے گا۔ اختلاف میں رواداری وہیں تک ہے جہاں تک نصوصِ شرعیہ میں ایک سے زیادہ معنی لی...