اسلامی نظریہ اور تنقید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلامی نظریہ اور تنقید لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 10 اکتوبر، 2018

مسئلہ ٔ ارتداد پر ایک حدیث کا تجزیہ

[چند سال قبل ہمارے ایک دوست نے مسئلہ ٔ ارتداد پر مولانا عنایت اللہ سبحانی کے حوالے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تاویل پیش کی تھی۔ ان کی تاویل کے مطابق اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اسلام میں تبدیلی مذہب ارتداد کے مترادف نہیں ہے اس لیے مذہبِ اسلام ترک کرنے کی سزا ‘‘قتل ’’ نہیں ہے۔میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تھا جس پر آج اتفاق سے میری نظر پڑ گئی۔ میں نے اپنے لکھے تبصرے کو دوبارہ پڑھا اور قارئین کے فائدے کی غرض سے اس میں چند حذف اور اضافے کے بعد اسے بلاگر پر پوسٹ کر رہا ہوں:۔]

منگل، 9 اکتوبر، 2018

اسلام میں چہرے کا پردہ اور تجدد پسندوں کا فہم قرآن

1
بعض اسلامی تجدد پسند یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت نہیں ہے۔ لیکن میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ملاحظہ ہو ایک فیسس بک دوست ا۔ش۔ صاحب کے ایک اسٹیٹس پر میرا درجِ ذیل تبصرہ:
ذرا تفصیل کے ساتھ احزاب کی ان آیات پر غور کریں:
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ۠ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ
نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب ۵۳)
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۵۹
اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (احزاب ۵۹)

تلاوت یعنی پڑھنا اور سمجھنا دونوں؟

عصرِ حاضر کے ایک بلند پایہ عالم دین مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو فیس بک پر’قرآن کو سمجھ کر پڑھنے‘‘ سے متعلق ایک اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا جو درجِ ذیل ہے:
’’قرآن کے الفاظ اللہ کے ہیں انہیں پڑھنا مطلوب۔ یہ الفاظ بامعنی ہیں، انہیں سمجھنا مطلوب۔ یہی پڑھنا اور سمجھنا تلاوت ہے۔‘‘
میں نے موصوف کے اس اسٹیٹس اپڈیٹ پر ایک مختصر گفتگو کی تھی جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں:

اسلام میں شورائیت پر ایک سوال

کیا اسلام میں سرشماری کے بعد کثرت آرا پر مبنی شورائیت قرآن سے ثابت ہوتی ہے؟ یعنی صدر حکومت اس کو چنا جائے جس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں؟ اور ریاست کے معاملات میں صدر ریاست اپنے مشیروں کی اکثریت کی رائے ماننے کا پابند ہو؟ فرض کیجیے، اگر مشیر پانچ ہوں اور چھٹا خود صدر ریاست ہو تو پانچ مشیر مل کر صدر کو تگنی کا ناچ نچا دیں گے، اور اگر مشیر چار ہوں تو ان میں سے تین اگر آپس میں مل جائیں تو صدر صاحب کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ اسی لیے اسلام میں اکثریت کی حاکمیت پر مبنی شورائی نظام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ مشورے میں شریک ضرور ہوں لیکن چلے وہی بات جو حق ہو، اور حق وہ ہے جو طاقت کی بنیاد پر واقع ہو۔ اور طاقت وہ ہے جس کا لوہا طوعا و کرہاً سب کو ماننا پڑے۔

بدھ، 4 جنوری، 2017

ناقل اور عاقل کا فرق

ناقل اور عاقل میں قطبین کا فرق ہے۔ ناقل اور کائنات کے درمیان آیات و روایات کا حجاب حائل رہتا ہے اور وہ زندگی کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنی مذہبی کتاب سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتا ہے جبکہ عاقل کائنات کا براہ راست مطالعہ کرتا ہے اور درپیش صورتحال میں اپنی انسانی عقل سے ایک راہ عمل متعین کرتا ہے۔ دور جدید میں مذہبی معذرتخواہوں ںے ایک منقول معقولی طریق کار اپنایا ہے جس کے مطابق وہ نقل کی روشنی میں عقل سے کام لیتے ہیں۔ یعنی پہلے وہ کسی زیر بحث مسئلے میں تمام آیات و روایات کو اکٹھا کرتے ہیں، ان کے سیاق کا تعین کرتے ہیں اور پھر جدید حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک ملتا جلتا حکم اپنے اس منقول معقولی طریقہ کار سے برامد کرتے ہیں۔ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ اگلے زمانوں میں بھی ائمہ مجتہدین اسی طریقہ کار سے کام لے کر مذہبی منقولات سے جدید احکام و ہدایات برامد کرتے تھے۔ نقل پہلے بھی عقل پر مقدم تھی، اور آج بھی ہے۔ یہ سمجھنا کہ تجدد پسندوں ںے ائمہ مجتہدین کی روش سے ہٹ کر کوئی نیا طریق کار اپنا لیا ہے، ایک خام خیالی ہے۔ جب تک مذہبی منقولات کی بالادستی انسانی ذہن پر قائم رہے گی، اس وقت تک انسانی عقل جدید تر حالات کو انہیں کی روشنی میں دیکھتی رہے گی اور عوام الناس کی اکثریت زندگی کے ہر معاملے میں پسماندگی کی شکار ہوگی اور علمی و فنی ترقی کے اعلی درجوں پر نہ پہنچ سکے گی۔

مذہب اور تعمیرِ نو؟

بی بی سی ہندی پر زبیر احمد کی ایک اسٹوری میں حوالوں کے ساتھ خبر دی گئی ہے کہ سلفی مسلمانوں نے کیرلا میں ایک مثالی گاوں بسایا تھا جو اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا۔ اس مثالی مذہبی گاوں میں ایک ہی عقیدہ کے ماننے والوں میں کسی سبب سے مذہبی اختلاف یہاں تک بڑھا کہ گاوں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ یہی حال اس حکومت کا ہوگا جو مذہبِ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
کوئی بھی مذہب فرقہ بندی سے خالی نہیں ہے۔ اور فرقہ بندی ایسی چیز ہے کہ کبھی اس کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ فرقہ بندی کا بنیادی سبب مذہبی منقولات یعنی آیات و روایات کی نئی تعبیر بنتی ہے۔ آیات و روایات ایک خاص سیاق یا صورتحال میں وجود آتی ہیں لیکن صورتحال ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی مذہبی کتاب نہیں جو تمام حالات میں ہدایات فراہم کرتی ہو۔

جمعرات، 8 دسمبر، 2016

مذہبی صداقت کا شمولیتی تصور

"چونکہ حدیث کا کوئی حکم,  مثلاً ایک مشت داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کا حرام ہونا قرآن سے ثابت نہیں ہے  اس لیے داڑھی رکھنا یا ذی روح کی مصوری کرنا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے"، یہ موجودہ دور کی ایک غالب تقریر ہے,  اور اس کا سبب یہ ہے کہ تجددپسند اسلام کو بجائے ایک مذہب رہنے دینے کے,  ایک سیاسی آئیڈیالوجی بنا دینا چاہتے ہیں.  اس قسم کے تخفیفی اسلامزم کے سبب ہم سینہ ٹھوک کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب سراسر عقل و خرد کی بنیاد پر قائم ہے گو ہماری محدود عقل خدائی مصلحتوں کو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے بعد ہم  "یہ حکم قرآن میں نہیں ہے" کہہ کر مروجہ اسلام میں جہاں چاہے تبدیلی کر سکتے ہیں. سرسید,  فراہی اور غامدی ایسے تجدد پسند اسلامسٹ اپنی دانست میں چونکہ  صداقت کو مقدس صحیفے میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ حدیثوں سے کسی نہ کسی طرح نجات پالیں جن پر موجودہ سائنسی دور میں ایمان نہیں لایا جا سکتا.  لیکن اس کے بعد اسلام پانی کی طرح رقیق ہو جاتا ہے اور اس کو جس برتن میں چاہو ڈھال لو.

پیر، 11 جولائی، 2016

امام رازی کی ’’گمراہی‘‘ کا ایک ثبوت

مولانا شبیر احمد خاں غوری امام رازی کے متعلق لکھتے ہیں:
امام رازی اپنی فلسفہ بیزاری کے باوجود شیخ بو علی سینا کی ”الاشارات و التنبیہات “ کے نمط تاسع سے جو علوم صوفیا کے باب میں ہے، حد درجہ متاثر تھے، چنانچہ انہوں نے اس ”نمط“ کی شرح شروع کرنے سے پہلے لکھا تھا: انہ ذا الباب اجل ما فیہ ذا الکتاب قانہ رتب فیہ علومالصوفیة ترتیبا ماسبقہ الیہ من قبلہ و لا لحقہ من بعدہ ترجمہ: یہ باب اس کتاب میں سب سے زیادہ جلیل القدر ہے، کیونکہ (اس کے اندر شیخ بو علی سینا نے) علوم صوفیہ کو ایک ایسے انداز سے مرتب کیا ہے جس کی نہ اس کے پیش روؤں کو ہوا لگی تھی اور نہ بعد میں آنے والے اس تک پہنچ سکے۔
لیکن یہ نام نہاد ”علوم ِ صوفیا کی تبیین و توضیح “ نبوت کی فلسفیانہ توجیہ ہےکیونکہ اس نے نبوت کے ”وہبی“ ہونے کے عقیدہ کے خلاف اس کے ”کسبی“ و اکتسابی ہونے کے شوشہ کو ہوا دی۔ امام رازی ابن سینا کی اس فلسفیانہ توجیہ کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہوں نے اس کے رسالہ ”معراج نامہ “ کو جس میں اس نے ”الاشارات“ سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ اس توجیہ کو قلمبند کیا ہے، اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ اس معراج نامہ نے بعد کے تفلسف زدہ متصوفین کو بے حد متاثر کیا۔ ان میں نمایاں نام دسویں صدی ہجری کے شیخ غوث گوالیری کے “رسالہ معراجیہ“ کا ہے۔ اس کی خلاف شرع عبارتوں سے برہم ہو کر پہلے شمالی ہند کے علما نے اور پھر گجرات کے علما نے ان کی تکفیر کی اور قتل کا فتویٰ صادر کیا۔“ (غوری، شبیر احمد خاں، شیخ بو علی سینا کی شخصیت۔حقائق کی روشنی میں، مشمولہ اسلامی منطق و فلسفہ۔ ایک جائزہ، مرتب و ناشر: خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، صفحہ336)۔۔

اتوار، 10 جولائی، 2016

امت کی بازیافت کی دنیاوی بنیاد



علامہ غزالی جن کو بصد احترام امام لکھا جاتا ہے، اور ہمارے بہت سے احباب انہیں بہت بڑا اسلامی متکلم مانتے ہیں، اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، ان کے متعلق جاننا چاہیے کہ وہ اسلامی فلسفیوں کے سخت دشمن تھے اور ان کی تکفیر فرماتے رہتے تھے۔آج میں اپنے اسی دعوے کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت پیش کروں گا کہ انہوں نے کم از کم دو جید، عباقرہ روزگار اسلامی فلسفیوں کو کافر قرار دیا ۔ ان میں سے ایک کو ہم معلم ثانی امام ابو نصر فارابی اور دوسرے کو شیخ الرئیس بو علی ابن سینا کے نام سے جانتے ہیں، اور ان کے متعلق ہم آج فخر سے بتاتے ہیں کہ‘‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نےمغربی تہذیب کو علم سکھایا اور اسے ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچایا۔’’

اس میں شک نہیں کہ آج مغربی تہذیب کی مادی ترقی کو دیکھ کر ہمارا کلیجہ پھٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اقبال ایسے مفکرِ اسلام کا دل بھی ٹکڑے ٹکرے ہو گیا :

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

یہ کتنی بڑی بات ہے میرے بزرگو اور دوستو کہ تاریخ انسانی کے اتنے عظیم فلسفیوں پر پر کفر کا فتوی اُن حضرت نے لگایا جن کو ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتے ہیں۔آئیے ہم امامِ عالی مقام کی کتاب ‘‘المنقذ من الضلال ’’ سے وہ اقتباس پڑھیں جس میں ان کی علمی تکفیر کا ایک نمونہ پایا جاتا ہے:


‘‘پھر ارسطاطالیس نے افلاطون اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الٓہیہ کی جو اُس سے پہلے گذرے ہیں ایسی تردید کی ہے کہ کچھ کسر باقی نہیں رکھی۔ اور ان سب سے اپنی بیزاری ظاہر کی ہے۔ لیکن اُس نے بعض رذایل کفر و بدعت ایسے چھوڑ دیے جس کی تردید کی توفیق خدا تعالی نے اس کو نہیں بخشی تھی ۔ پس واجب ہے کہ اُن کو اور اُن کے اتباع مثلاً علمائے اسلام میں سے بوعلی ابن سینا اور فاریابی وغیرہ کو کافر کہا جائے۔ کیونکہ ان دو شخصوں کی مانند اور کسی شخص نے فلاسفہ اہل اسلام میں سے فلسفہ ارسطاطالیس کو اس قدر کوشش سے نقل نہیں کیا ۔’’

[حوالہ: ابی حامد محمد غزالی، خیرالمقال فی ترجمہ المنقذ من الضلال ، ترجمہ :مولوی سید ممتاز علی، مترجم چیف کورٹ پنجاب لاہور، مطبع :اسلامیہ پریس لاہو، 1890عیسوی، صفحہ نمبر 32-35]


برادرانِ اسلام، اب جتنا چاہے افسوس کیجیے لیکن حقیقت یہی ہے کہ علامہ غزالی نے ابن سینا اور فارابی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا کہ وہ کافر تھے کیونکہ ان دونوں جید فلسفیوں کے عقائد و افکار بالتحقیق غیراسلامی اور خلافِ قرآن تھے۔ لیکن اگر آپ بھی علامہ غزالی کی طرح ابونصر فارابی اور ابن سینا کو کافر مانتے ہیں، تو پھر یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو علم سکھایا؟ فارابی و ابن سینا تو مسلمان تھے ہی نہیں، پھر ہمارا یہ دعوی باطل ہوا یا نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں فلسفہ و سائنس کے فروغ میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا؟ اہلِ مغرب نے امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دین کا علم تو حاصل نہیں کیا ، انہوں نے تو فارابی و ابن سینا اور دوسرے کافر وملحد لوگوں سے فلسفہ ہی سیکھا، پھر سوال یہ ہے کہ عہدِ وسطی کے سائنسی کارناموں کو اسلام اور مسلمانوں کا کارنامہ کیوں کہا جائے؟ صرف اس لیے کہ فارابی اور ابن سینا مسلمانوں میں پیدا ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنے دور کے فلسفہ و سائنس میں اعلی ترین مقام حاصل کیا تھا؟ اگر ہاں، تو پھر عقیدہ کی بنیاد پر تکفیر کا یہ باب بند کیا جائے اور ان سب لوگوں کو مسلمان تسلیم کیا جائے جو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے، اور / یا خود کو مسلمان قرار دیا۔یہی امت کی بازیافت اور اس کی تعمیرِ نو کی دنیاوی بنیاد ہے جسے ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر یہ منظور نہیں توباطل تعمیمات پر مبنی ایسے گمراہ کن اور بوگس دعوے ختم کیے جائیں کہ مسلمانوں نے اہل ِ مغرب کو فلسفہ اور سائنس سکھایا، اور ٹھیک ٹھیک یہ پتا لگایا جائے کہ عہدِ وسطی کے کتنے فلاسفہ و سائنسداں اپنے عقائد کے اعتبار سے صحیح العقیدہ سنی مسلمان تھے اور کتنے ان میں ملحد و زندیق اور دیگر اقسام ‘گمراہ’ اور ’گمراہ گر’ پیدائشی مسلمان تھے جنہیں امتِ مسلمہ سے خارج کرنا شرعاً ضروری ہے۔

اتوار، 16 اگست، 2015

کیا ’سیکولر مسلم‘ کی اصطلاح درست ہے؟

گزشتہ روز فیس بک پر ایک صاحب کے اسٹیٹس کے نیچے میں نے ' سیکولر مسلم' کی اصطلاح اور اس سے جڑے ہوئے کچھ اہم مسائل پر درج ذیل تبصرہ لکھا:
سیکولر مسلم کی اصطلاح کی حقیقت  کی مدلل وضاحت سے  پہلے ہم کو مذہبی اور سیکولر کی ایک تعریف متعین کرنی ہوگی۔ یہ بتانا ہوگا کہ مذہبی کیا ہے اور سیکولر کیا، اس کے بعد ہی ہم دونوں میں مشترک قدروں کی تلاش کر سکتے ہیں۔
مذہب مافوق الفطری/ معجزاتی طریقے سے حاصل شدہ علم کی بنا پر انسان کی مابعد موت نجات کے اصول مقرر کرتا ہے اور اسی علم کی بنا پر انسان کو نجات یافتہ بنانے کے غرض سے پیدائش، موت، شادی و غمی کے موقعوں کے لیے رسوم و رواج کی تخلیق، تنقید، حذف و اضافہ اور ترتیب و تہذیب کرتا ہے۔ اس طرح ہر وہ شئے اور رسم بالآخر مذہبی نوعیت کی ہو جاتی ہے جس کو مذہب اپنے اصول نجات سے متصادم نہ پائے۔
سیکولر کے معنی ‘‘دنیاوی’’ کے ہوتے ہیں۔ دنیاوی یعنی محسوسات سے متعلق چیزیں۔ یہ مذہب یا دین سے مختلف  ہے۔ ایک سیکولر شخص مافوق الفطری طریقے سے حاصل شدہ کسی علم کی بنا پر انسان کے لیے مابعد موت نجات کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ دین و مذہب کے بالمقابل کسی اور دنیا کی فکر کرنے کے بجائے اسی دنیا کو بہتر طور پر چلانے کے کچھ اصول بتاتا ہے اور ان اصولوں تک ہر شخص اپنے علم کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ سیکولر نظریہ کوئی پراسرار شئے نہیں ہے اور اس کا علم و فہم حاصل کرنا، اس علم و فہم میں حذف و اضافہ اور نظرثانی  کرنا محض اہل کشف و کرامت، برگزیدہ اور منتخب انسانوں کا حق نہیں ہے بلکہ یہ ہر انسان  کا حق ہے۔ سیکولر نظریہ مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کا کیا ہوگا (و علی ہذا) کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ مرتے دم تک انسان کو دکھ درد سے محفوظ رکھنے کے طریقے سوچتا ہے۔ جن چیزوں کو انسان کی دنیاوی زندگی کے لیے وہ مفید پاتا ہے، ان کا تحفظ کرتا ہے، اور جن میں وہ نوع انسانی کا نقصان دیکھتا ہے اس کو مٹاتا ہے۔
مذہب کے لیے اس کا مافوق الفطری ذریعہ ٔعلم  بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جس تک کسی منتخب یا برگزیدہ ہستی کی ہی رسائی ہو سکتی ہے۔ حضرت گوتم بدھ کو جو گیان پراپت ہوا، یا حضرت عیسی کو جو وحی آتی تھی، وہ سب کے حصے میں نہیں ہو سکتی۔ عیسی و گوتم بننا ہما و شما کے بس کی بات نہیں۔ سیکولر نظریہ   تخلیق و تفہیم ، بڑا اور برگزیدہ بن سکنے کے اعتبار سے   سائنس کی طرح ہے کہ جس میں  نیوٹن کے بعد آئن اسٹائن  پیدا ہو سکتا ہے ، کل تک جو دنیا نیوٹن کو پوج رہی تھی آج آئن اسٹائن کو بھی  اسی  یا زیادہ ذوق و شوق سے پوج رہی ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب نیوٹن سے زیادہ سائنسداں ہونا، زیادہ علم رکھنا ممکن نہیں، بلکہ یہ مانا جاتا ہے  کہ نوع انسانی کے علم میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا  ہے اور بعد میں  آنے والے پہلے آنے والوں سے زیادہ عالم ہوتے ہیں۔
مافوق الفطری ذرائع سے جو  علم  حاصل ہوتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کے اندر  ٹھیک اس کے برعکس رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مذہب میں آپ متقدمین  سے بازی نہیں لے جا سکتے۔ ان سے بڑے نہیں بن سکتے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے کہ مافوق الفطری ذریعہ علم ہما و شما  کے لیے نہیں بلکہ  چند برگزیدہ اور چنے ہوئے لوگوں کے لیے ہے۔ اور ہم کو ان کے فرمودات کی صرف   تفہیم و  توضیح، تاویل و   تعبیر  یا کہیں لیں کہ  الفاظ کی ’’    شرح ‘‘ لکھتے رہنا ہے۔یہی سبب ہے کہ مذہب کا  تخلیقی دور  اب گزر گیا۔ بالفرض محال مستقبل میں کوئی شخص آئے اور کسی مافوق الفطری دعوے کا سہارا لے کر دنیا کی سب برگزیدہ اور چنی ہوئی  مذہبی شخصیتوں کے کارناموں کے نقش   کو دھندلا کر دے تو اس مذہبی رہنما کو اپنے جیسے  مذہبی رہنماوں کا ایک سلسلہ قائم کر کے بتانا پڑے گا کہ نوع انسانی تک اس کا یہ پیغام جاودانی ہمیشہ پہنچتا رہا ہے اور ہر دور کے لوگوں کے سامنے حق و باطل میں سے کسی ایک  پر چل کر اپنی جنت یا اپنا جہنم چن لینے کا آپشن تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر یہ الزام آئے گا کہ سابقہ افراد اس کے  جدید مذہبی  اصول نجات سے محروم رہے  جس کو اس نے اتنے ہزار سال بعد پیش کیا!  پس، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب پر لازم ہے کہ وہ  ہمیشہ کچھ خاص لوگوں پر ہدایت و رہنمائی کا بار ڈالے  اور بقیہ عوام کو اس سے محروم کر دے۔
مذہب ایسا کیوں کرتا ہے؟ صرف اس لیے کہ ایک انسان اپنے بزرگوں سے دریافت کرتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے ، کہاں جائے گا، اور مرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہوگا۔ سیکولرازم  میں ان تین سوالوں  کا سائنسی  جواب   موجود  نہیں ہے جبکہ ہر مذہب ان سوالات کا  ایسے  جوابات  فراہم کرتا ہے جو  عقائد  کی شکل میں ذہنوں میں راسخ ہو جاتے ہیں۔ یہ جوابات متفق علیہ کے بجائے مختلف فیہ ہیں ۔ مختلف عقائد کی بنا پر مختلف قوموں کی تشکیل ہوتی ہے  جو باہم برسرپیکار رہتی  ہیں۔ ایسے سوالات چونکہ اسی دنیا میں آنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ، اسی دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقوں سے متعلق ہو تے یا ہو جاتے ہیں، اس لیے  جب تک ان جوابات میں تصادم رہے گا تب تک ان کے ماننے والوں میں تصادم یقینی ہے۔ اس تصادم کو کم کیا جا سکتا ہے ،  بالکلیہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں سوال پیدا ہوا کہ یہ تصادم یقینی کیوں ہے؟ اس لیے کہ دنیا میں دو قومیں ایک دوسرے کے ربط میں آنے کے بعد  ایک دوسرے کے عقائد  پر مطلع ہوتی ہیں، ان  عقائد  کی بنا پر استوار اوران سے ہم آہنگ   عملی زندگی  کو دیکھتی ہیں۔ ایک قوم کے افراد یہ دیکھتے ہیں  کہ وہ مذہبی اسباب سے وہ  باہم دگر نکاح نہیں کر سکتے،  ایک  کے ہاں جو کچھ کھایا  پیا جاتا ہے وہ کھا پی نہیں سکتے، ایک کے ہاں  بعض خونی رشتوں میں   نکاح جائز ہے دوسرے کے ہاں  یہ حرام ہے۔ تو ظاہر ہے بنیادی نوعیت کے سوالات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہر قوم اپنے طریقے کو صحیح اور دوسرے کے طریقے کو غلط ہی کہے گی۔ اور بات یہیں تک رہتی تو غنیمت  تھی، لیکن جب ایک مذہب  دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنے  افراد قوم کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے تو صورتحال بیحد مکروہ  اور متعفن ہو جاتی ہے ۔
یہ کوئی بین مذہبی  یا بین قومی سچویشن ہی نہیں بلکہ ایک دروں مذہبی اور دروں قومی سچویشن بھی ہے۔انسانی  عقل کی انحرافی نوعیت کے سبب ایک مذہب مزید ذیلی مذاہب اور ایک قوم مزید ذیلی قوموں میں منقسم ہوتی چلی جاتی ہے۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل  جس قدر گہرا ہوتا جاتا ہے ، جامعیت بشری تار تار ہوتی چلی جاتی ہے، ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا،  شادی و غم، ملنا جلنا، سلام کلام سب حرام ہو جاتا ہے۔پس دروں مذہبی اور بین مذہبی  تقسیم کی ایسی صورتحال میں فرقہ واریت کی تقریریں وجود میں آتی ہیں اور باہمی خون خرابے کے سبب مذہب کا  کم از کم ایک  مقصد  تو فوت ہو جاتا ہے جس کے لیے    مذہبی رہنماوں نے اس کو پیش کیا تھا۔
اور یہیں  مغربی افق سے  سیکولرازم کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ طلوع ہی مغرب سے ہوتا ہے اس لیے یہ قیامت کی ایک نشانی ہے۔ سیکولرازم کہتا ہے کہ ہم قضیہ زمین برسرزمین کے اصول پر زندگی گزاریں گے اور جو سوالات اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کو دنیاوی اصولوں  پر گزاریں گے نہ کہ اسے مافوق  الفطری علم کی رو سے پیدا ہونے والے مختلف فیہ عقائد  کی بنیاد پر استوار کریں گے۔ چونکہ تجربے  سے ثابت ہوا کہ کسی جغرافیائی خطے میں ایک سے زیادہ قوموں  اور ذیلی قوموں  یا فرقوں کے آباد ہونے کی صورت میں  عقیدہ اور عمل کا اختلاف قتال و جدال کے سوا کسی اور نتیجے تک نہیں پہنچتا اس لیے  مذہبی عقیدہ ہر قوم، فرقہ ، فرد اور جماعت کا ذاتی معاملہ  ہونا چاہیے۔  مرنے کے بعد کی زندگی کیسی ہے، مابعد موت نجات کے صحیح اصول کیا ہیں، ان سوالات کا اس دنیا کے سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک یہ تعلق باقی رہے گا، باہمی خون خرابہ، فساد اور خونریزی سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا ۔پس،  مذہب  سیکولراز م کو نہیں گردان سکتا کیونکہ وہ انسان کی سیاسی زندگی کو مذہب کے دائرے سے نکال کر اس کی تحدید کا مرتکب ہوتا ہے۔ 
مذہب اور سیکولرازم  کے درمیان فکری اختلاف اتنا شدید ہے کہ دونوں کے مابین مصالحت کی ہر کوشش بالآخر ناکام ہو جاتی ہے، اس لیے ایسی کوشش ناکام کے بجائے  ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔یعنی یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکولرازم  میں مذہب کی گنجائش ہے یا مذہب میں سیکولرازم کی گنجائش ہے۔لیکن اس  اختلاف کے باوجود مذہب اور سیکولرازم دونوں ایک ساتھ ایک ہی  شخص میں جمع ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک ہی کینواس پر سفید اور سیاہ رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسرے بے شمار رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں اور ایک جمالیاتی اثر پیدا کرتے ہیں۔ میں خود کو مسلمان سمجھتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں سیکولر بھی ہوں۔ اور میں اس کے لیے قرآن و سنت سے کوئی دلیل  پیش نہیں کرتا اور نہ سیکولر ازم کی تاریخ  یا نظریے  سے اپنے مذہبی عقیدے کی گنجائش برامد کرتا ہوں۔ مذہب اور سیکولرازم میں کوئی تطبیق دینا مجھے گوارا نہیں۔ اسی طرح مذہب اور ڈیموکریسی میں بھی میں کوئی مطابقت تلاش نہیں کرتا۔ ڈیموکریسی کے معنی جمہوریت کے نہیں ہوتے۔ ڈیموس کے معنی عوام، اور کریٹوس کے معنی حکومت، پس، ڈیموکریسی کے مغربی لفظ کے معنی عوام کی حکومت کے ہوں گے۔جبکہ  جمہوریت کے معنی  اکثریت کی حکومت کے ہوں گے   جس کو انگریزی میں آپ میجریٹیرین سسٹم یا میجریٹیرین ازم کہہ سکتے ہیں جو ڈیموکریسی سے مختلف ایک شئے ہے۔اس لیے  جمہوریت ڈیموکریسی کا درست ترجمہ نہیں ہے۔  اردو میں ترجمہ کی ایک غلطی  نے  اردو آبادی  میں کیسی کیسی غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں    ۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ مذہب اسلام نے عوام کو اپنا حکمراں ، اپنا قانون ساز آپ بننے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر ہم قرآن کو آج کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی مانتے ہیں تو قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر اور ظالم ہیں۔ اسلام میں عوام کو یہ حق حاصل نہیں  ہے کہ وہ اجتماعی طور پر خود حاکم مطلق  بن بیٹھے اور قانون بنانے لگے۔ ڈیموکریسی میں عوام حاکم مطلق ہوتے ہیں اور اس میں قانون سازی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ  عوام کے افراد کی کثرت آرا سے  عوام کے نمائندوں کا انتخاب  ہوتا ہے تا کہ وہ  بقدر ضرورت جیسی قانون سازی چاہیں کریں۔ عوام کے نمائندوں کا فرض ہے کہ  وہ  ایک فرد یا جماعت کے نقطہ نظر سے  متاثر نہ ہوتے ہوئے کل عوام کی اجتماعی  فلاح کے نقطہ نظر سے قانون سازی کریں۔ ہمیشہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ڈیموکریسی کی مجالس قانون ساز میں جو لوگ منتخب ہو کر پہنچتے ہیں وہ اکثریت کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ  تمام عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جن میں اقلیت بھی شامل ہے۔اور یہ صرف  ایک قانونی  بات ہی نہیں بلکہ اخلاقی بات بھی ہے جس کی پابندی اگر نہ کی جائے تو سب گڑ گوبر ہوجائے گا۔
اوپر کی گزارشات سے واضح ہے کہ اسلام  کے ڈھانچے میں ڈیموکریسی اور سیکولرازم کی کوئی جگہ نہیں اورنہ  ڈیموکریسی اور سیکولرازم کے  ڈھانچے میں  اسلام کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ دنیا ایک کینواس ہے اور اس پر بہت سے رنگ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دنیا کے اس کینواس پر خون خرابے کا رنگ نہ پوتا جائے، ڈیموکریسی اور سیکولرازم صرف اس لیے ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ڈیموکریسی اور سیکولرازم ایک دوسرے کے پورک  یعنی لازم و ملزوم ہیں۔ اگر سیکولرازم کو خارج کر دیا جائے تو ڈیموکریسی  کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمان  اکثریت اپنا مذہبی نقطہ نظر اقلیت  پر نافذ کرنے  لگے تو ظاہر بات ہے کہ یہ ڈیموکریسی یعنی تمام عوام کی حکومت نہ ہوئی بلکہ فقط  اسلامی جمہوریت  ہوکر رہ  گئی جو ڈیموکریسی سے  مختلف چیز ہے ۔بعض لوگ یہ کہیں گے کہ بات ایک ہی ہے جمہوریت کہو یا ڈیموکریسی، کیونکہ بہرحال اس نظام میں بات اکثریت ہی کی چلتی ہے،  یہ صرف گھما کر ناک پکڑنا ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن ایسے افراد ناعاقبت اندیش ہیں کیونکہ  ڈیموکریسی کو جمہوریت کہہ کر  ہم نظری اور اصولی طور پر اکثریت کو  حاکم مطلق تسلیم کر لیتے ہیں، پھر اصولا کسی  منتخب سرکار پر یہ  قانونی اور اخلاقی  ذمہ داری نہیں رہتی کہ وہ قانون سازی کرتے وقت   تمام عوام کی فلاح  کو ذہن میں رکھے۔ سرکار یہ صاف کہہ کر نکل جائے گی کہ ہم پر ایسی کوئی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم  اقلیت  کی فلاح کو بھی ذہن میں رکھیں۔ پھر ایسے نظام کو آپ جمہور کی بادشاہت  ہی کہیں گے کیونکہ  جب تک  کسی سیاسی  نظام میں حاکمیت مطلقہ عوام کے تمام افراد میں  منحصر نہ سمجھی جائے گی، تب تک ڈیموکریسی کا کا لفظ اس نظام  پر صادق نہ آئے  گا ۔  حاکمیت مطلقہ کوکل  عوام(   ڈیموس )کے اندر رکھ کر عوام ہی کے ایک حصے سے اس کو چھین کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم چونکہ جمہور ہیں اس لیے  حاکمیت مطلقہ ہم میں عود کر آئی ہے۔

مردوں کی حاکمانہ قوامیت اور نئی عورت

انسان کی نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہی ہے۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے آ کر اس کو اخلاقی طور پر مٹا دیا۔ لیکن قانونی طور پر اس کو برقرار رکھا۔ غلامی کی حرمت پر کوئی نصِ شرعی نہیں ہے ورنہ صحابہ کرام جنگوں میں محارب خواتین کو لونڈی نہ بناتے۔ لیکن چونکہ نظری اخلاقیات میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہتی ہے اس لیے قانون کا فرض ہے کہ وہ تبدیل شدہ اخلاقیات کی پیروی کرے۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو ناپسندیدہ قرار دیے کر ایک اخلاقی اصول قائم فرما دیا لیکن بعض مصلحتوں کے تحت اس قانون کو باقی رہنے دیا گیا۔ لیکن اب جبکہ ان مصالح کی ضرورت ختم ہو گئی ہے، یہ قانون بھی عملاً دنیا سے اٹھ چکا ہے۔ اور جو قوم بھی جنگ کے بعد محاربین کو غلام بنائے، وہ غیر انسانی سلوک کی مرتکب کہلائے گی۔ بے شک اسلام میں جنگ کی اجازت دی گئی ہے لیکن ایک دور وہ بھی آ سکتا ہے جب سرے سے جنگ کی ضرروت ہی نہ رہ جائے۔ اس صورت میں اسلامی قوانین جنگ بھی نہیں رہیں گے۔
اسی طرح عورت اور اس کی حیثیت کے سلسلے میں جو اخلاقی نظریے اور رویے چودہ سو سال پہلے پائے جاتے تھے، انہیں جدید انسانی معاشرے میں اعتبار حاصل نہیں رہا۔ اس دور میں عورت کا بدن ایک مرد کی قبائلی غیرت کا مرکز تھا جس کو نشانہ بنائے جانے پر  مرد کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی تھی۔ وہ چیز آج بھی بڑی حد تک باقی ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی ہیروئن وینا ملک ہندوستان آ کر ہولی کھیلتی ہے تو پاکستانیوں کی رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔ لیکن موجودہ دور کی خواتین اپنے جسم کو کسی مرد کی عزت سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے جسم کے ارد گرد مردوادی غیرت کا جو بھونڈا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے،اس کا کسی طرح خاتمہ ہو۔ نظری اخلاقیات میں یہ جو  تغیر عورتوں کی مداخلت سے واقع ہوا ہے ، وہ بہت قیمتی ہے۔
اب رہا یہ اشکال کہ اس طرح تو عورت جہاں چاہے , منہ مارے اور مرد اس کو برداشت کر تا رہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے اور اب مرد کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ نہ عورت کے جسم کا مالک ہے اور نہ اس کے دل و دماغ کا۔ عورت اپنی ان چیزوں کو  جیسے چاہے گی استعمال کرے گی۔اس کو آپ کسی مذہبی کتاب کا حوالہ دے کر نہیں روک سکتے۔ اس کی  بہت سی مثالیں ہیں، اور میں مثالیں دینے سے یہاں  گریز کرنا چاہتا ہوں۔ مثال سنتے ہی بنیاد پرستوں کو غصہ آ جاتا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ عورت کو مذہب کے حوالے سے قابو میں نہیں کیا جا سکتا ۔دورِ جدید میں اس کو فنونِ لطیفہ کے ذریعے قابو میں کیا جا تا ہے۔ آرٹ اور کلچر کے نام پر بالکل ایک مختلف قسم کی غلامی میں اس کو مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ یعنی عورت کا مقدر بالکل صاف طور پر یہ ہے کہ یا تو وہ چہار دیواری میں  رہ کر غلامی کرے، یا پھر وہاں سے باہر نکل کر جدید ثقافتی بھیڑیوں کی شکار بن جائے۔ بعض روایتی مذہبی طبقے عورت کو چہار دیواری میں رہنے کا حکم دیتے اور رقص و سرود سے منع کرتے ہیں اور اس کی امنگوں کا گلا گھونٹ کر اس کو بچہ پیدا کرنے کی مشین بنا دیتے ہیں۔ وہ مرد کو عورت پر حاکمانہ قوامیت کا اختیار عطا کرتے ہیں جس کی رو سے وہ اس کو راہ راست پر لانے کے لیے آخری چارہ ٔ کار کے طور پر مار  بھی سکتا ہے۔ چہار دیواری سے باہر اس کو قانونی طور پر مارنے پیٹنے کا اختیار تو کسی کو نہیں مگر  غیر قانونی طور پر اس کا استحصال بہت کیا جاتا ہے۔ ویسے گھر کے اندر کی دنیا میں بھی اس کا جنسی استحصال ہوتا ہی ہے  تاہم  یہاں عورت کو اصولاً کم از کم ایک مقدس شئے ضرور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وہ تقدس کس کام کا جو اس کو گھریلو دایہ اور نوکرانی بنا کر رکھ دے؟ اس لیے وہ چہاردیواری کی اپنی  ذلیل محکومانہ حالت سے باہر  کھلے میدان میں نکل آتی ہے جہاں پہلے ہی  اپنے ہوس ہونٹوں سے رال ٹپکاتے  شہوانی درندے  منتظر ہوتے جو اس کے جسم کو بھنبھوڑتے ہیں۔  موجودہ حالات میں دونوں جگہوں پر عورت  ایک ذلیل شئے ہے۔ اس کی جدوجہد اس ذلت  و محکومی  اور استحصال و ابتذال سے نکلنا ہے خواہ وہ گھر کی زندگی میں ہورہا  ہو یا باہر کی۔ اب یہ معاملہ طے  ہو چکا ہے کہ وہ مرد کی  ماتحت بن کر نہیں رہ سکتی۔ مغرب میں  وہ تن ِ تنہا مرد کی مدد کے بغیر اپنے بچے پال رہی ہے یا نہیں؟ کتنے ہی بے وفا مرد ایسے ہیں جو سال ڈیڑھ سال ساتھ رہ کر اس کو چھوڑ جاتے ہیں اور عورت  اکیلی اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت میں مصروف رہتی ہے۔  جس طرح بن ماں کے بچے پل جاتے ہیں، اسی طرح بن باپ کے بھی پل ہی جائیں گے۔ اور اگر اس کا کوئی بہت برا نتیجہ نکلے گا، یا نکل رہا ہے تو اس کی فکر اکیلے عورت کو ہی کیوں ہو؟ مرد اپنے اخلاق کی اصلاح کیوں نہیں کرتا؟ فرمانبردار، اطاعت شعاری، وفاداری اور پے در پے قربانیوں کا سارا مطالبہ عورت سے ہی کیوں؟
 یہ سمجھنا کہ عورت مرد سے کمزور ہے اس لیے لازماً اس کو آج نہ کل مرد کی ماتحتی میں آنا ہوگا، یا اس قسم کی باتیں کرنا کہ چاقو تربوز پر گرے یا تربوز چاقو پر، دونوں صورتوں میں نقصان صرف عورت کا ہوتا ہے، ایک ضلالت  آمیز فکر ہے۔ نہ عورت تربوز ہے، نہ مرد چاقو، عورت کی تذلیل گھر میں ہو یا باہر، اس سے مرد کا بھی اتنا ہی نقصان ہے جتنا عورت کا۔ بلکہ مرد کا کچھ زیادہ ہی نقصان ہے۔ عورت کے لیے اولاد پیدا کرنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔  آج کل تو بہت سے طریقے نکل آ ئے ہیں۔ اب یہ ایک انجکشن کی بات رہ گئی ہے۔ مرد  میں اس کی صلاحیت سرے سے ہے ہی۔  ظاہر ہے اس کے لیے بھی اس کو ایک عورت ہی کی ضرورت  پیش آئے گی۔ اولاد کی خواہش انسان کی فطری خواہش ہے اور جس قدر عورت کو اس کی ضرورت ہے ، اسی قدر مرد کو بھی ہے۔ اس لیے جب دونوں مذاکرے کی میز پرآئیں گے تو مرد کو اپنی حاکمانہ قوامیت سے دست بردار ہونا ہی پڑے گا۔ ورنہ عورت جیسے ابھی جی رہی ہے، ویسے ہی جیتی رہے گی ۔اور جب تک مرد مذہبی طور پر اپنی بالادستی اور حاکمانہ قوامیت سے دست بردار نہ ہوگا، عورت واپس مرد کی زندگی میں وہ خوشیاں نہیں بکھیر سکتی جس کا مرد ازل سے ہی شائق رہا ہے۔ یہاں اس قسم کی بوگس دلیلیں پیش کرتے رہنا کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ خاندان کے ادارے کا ایک سربراہ ہونا چاہیے، اور مرد ہی میں اس کی صلاحیت پائی جاتی ہے، عورت تو صرف ایک جذباتی مخلوق ہے، وہ کیا سربراہی کر سکے گا ـــــ انتہائی درجے کی نادانی ہے اور اس سے مابعد جدید عورتیں مزید مشتعل ہوتی ہیں۔ مرد میں اگر عورت سے زیادہ جسمانی طاقت ہے تو اس کی حیثیت سربراہ کی نہیں بلکہ باڈی گارڈ کی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ باڈی گارڈ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے نہ کہ حکم چلانے کے لیے۔ مابعد جدید عورت تحفظ فراہم کرنے کی مردوادی دلیل کی چالاکی کو سمجھ گئی ہے۔ اس لیے اس نے باڈی گارڈ کو معزول کر دیا ہے اور اپنے جسم کو ہی اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔

بدھ، 29 جولائی، 2015

مذہب اور واقعاتی صداقت


[یہ  بحث  ۲۰۱۲ عیسوی  میں فیس بک پر سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے ساتھ ہوئی   تھی۔اس وقت سے   اب تک  میرے نقطہ نظر میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اب میرا یہ ماننا ہے کہ روایتی علمائے دین کا نقطہ نظر ہی اس اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو قرآن و سنت میں منقول ہے اور جس پر چودہ سو سالوں سے مسلمانوں کے صحیح العقیدہ فرقے عمل پیرا ہیں۔  چنانچہ میں اب مذہب میں   مغربی طرز کی تعقل پسندانہ روش اور دینی  و شرعی امور و مسائل میں فلسفیانہ  افکار و نظریات کے دخول نیز  شریعت کی اصلاح کے ذریعے ایک ماڈرن اسلام کی تخلیق کا سخت  مخالف ہوں ــــــــ   طارق صدیقی، ۲۹ جولائی ، ۲۰۱۵ عیسوی]

محترم سعادت اللہ حسینی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!

میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں بخاری شریف کی ایک حدیث  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا  کہ ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کے جہنم میں جانے کا عقیدہ رکھنا ایک غیرمعقول بات ہے۔  آپ کے بقول   میرا ایسا کہنا علمی بددیانتی ہے  کیونکہ اسی  حدیث میں آگے یہ کہا گیا ہے کہ  وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے۔اس سے پہلے کہ میں اپنی علمی ’’ بددیانتی‘‘  کا جائزہ لوں  قرآن و سنت کے مفہوم کا تعین کرنے کے آپ کے اصولوں کو واضح کر دینا چاہتا ہوں جو آپ ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہیں:
قرآن و سنت میں جنت و دوزخ کا ذکر اور منظر کشی اس قدر تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے اور جزئیات تک اس طرح شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ اس توجیہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ باتیں محض بطور تمثیل ہیں یا صرف خوف پیدا کرنے کے لئے ہیں۔ کسی بھی متن کو ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ متن میں جو منشا مصنف کا واضح ہو رہا ہے، اسے مانا جائے۔ قرآن کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہے کہ اس کے واضح معنوں کو چھوڑ کر دور دراز کی تاویلات کی جائیں۔ (میڈیا فائر پر آپ کا جواب، صفحہ 13)[1]

قرآن و سنت کے معنی کا تعین

مذکورہ بالا جملوں میں آپ نے قرآن و سنت کے متن کو سمجھنے کے سلسلے میں درج ذیل نکات بیان فرمائے ہیں:
1)    قرآن و سنت میں جنت و دوزخ کا ذکر اور منظر کشی اس قدر تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے اور  جزئیات تک  اس طرح شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ
2)    اس توجیہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ باتیں محض بطور تمثیل ہیں یا صرف خوف پیدا کرنے کے لئے ہیں۔
3)    کسی بھی متن کو ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ متن میں جو منشا مصنف کا واضح ہو رہا ہے، اسے مانا جائے۔
4)    قرآن کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہے کہ اس کے واضح معنوں کو چھوڑ کر دور دراز کی تاویلات کی جائیں۔
ان چار نکات میں  سے پہلےتین  تو قرآن و سنت دونوں کے لیے ہیں، اور چوتھا نکتہ  صرف قرآن کے لیے مخصوص ہے، یا سنت کے لیے بھی؟ یہ قطعی واضح ہے کہ احادیث  کو بھی شاعری نہیں سمجھا جا سکتا۔ قرآن   کے مطابق   اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعری نہیں سکھائی گئی تھی۔اس لیے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان کے کلام میں کوئی شاعرانہ نوعیت کا خیال نہیں پایا جا سکتا الا یہ  کہ بعض چیزیں شعرا اور انبیا میں یکساں ہوں، مثلاً تشبیہ دینا۔   پس  آپ کے نقطہ نظر کے مطابق جو مثالیں، تشبیہیں اور دیگر لسانی و ادبی صنعتیں احادیث میں پائی جاتی ہیں ان کا اطلاق  متعلقہ صورت واقعہ پر  انہیں صنعتوں کے بقدر یا  ان کی مناسبت سے ہی ہوگا۔  اور اس سلسلے میں ’’مصنف کے منشا‘‘  کو بھی ذہن میں رکھا جائے گا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ یہی چیز  آپ کے  لیے قران و سنت کے معنی کے تعین پر حجت ہوگی اور آپ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ جو مفہوم قرآن یا سنت کا نکل رہا ہے ، آپ اس کو ماننے کے مکلف نہیں ہیں۔ 
آپ کی نظر میں میری علمی بددیانتی کیا ہے؟
اب آئیے آپ کے علمی بددیانتی والے سوال کی طرف۔ فرماتے ہیں:
میں نے آپ کے سوالات سے اسی لئے تعرض نہیں کیا کہ ان کے تفصیلی جوابات موجو د ہیں اور ان  کے ذرائع سے آپ واقف بھی ہیں۔ اب یہی ۹۹۹ فی ہزار والی حدیث لے لیجئے ۔ آپ یا تو جان بوجھ کر حدیث کے بقیہ حصہ کونظر انداز کررہے ہیں یا پھر صرف ملاحدہ کے اعتراض کو آپ نے اصل کا جائزہ لئے بغیر نقل کردیا ہے۔
نہ میں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور نہ کسی ملحد کی کتاب میں یہ اعتراض پڑھا۔ کیا میری اس فرو گزاشت کے یہی دو ممکنہ اسباب ہو سکتے تھے جو آپ نے بیان فرمائے ہیں؟ کسی تیسرے ممکنہ سبب تک آپ کا ذہن کیوں نہیں پہنچ سکا؟
آگے مجھ پرکئی اہم الزامات لگاتے ہوئے آپ نے زیربحث حدیث کی تاویل بھی فرمائی ہے:
 اصل حدیث میں صحابہ اور آں حضرت ﷺکے درمیان کی پوری گفتگو نقل کی گئی ہے۔ جو حیرت آپ کو ہورہی ہے وہی صحابہ کو بھی ہوئی۔  تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ابشروا فانّ من یاجوج و ماجوج الفا ومنکم رجل یعنی  ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک آدمی تم میں سے۔ یعنی قیامت کے قریب  فتنون کے زمانہ میں یاجوج ماجوج جیسے خونخوار اور ظالم لوگوں کی نسل اس تیزی سے بڑھے گی کہ  تعداد کے اعتبار سے وہ نیک لوگوں کے مقابلہ میں کئی گنا ہوجائیں گے۔اور بالآخر یہ وحشی جہنم کی نذر ہوں گے۔ آپ اس پوری حدیث کو نظر انداز کرکے صرف ایک فقرہ نقل کردیتے ہیں اور اس بات کو قارئین سے چھپاتے ہیں کہ بعینہ یہی حیرت جس کا اظہار ہورہا ہے وہ صحابہ کو بھی ہوئی  اور حضور نے اس کا یہ جواب دیا۔
’’بعینہ یہی حیرت ‘‘کیا، صحابہ کے اندر تو سرے سے حیرت نام کی کوئی چیز ہی ثابت نہیں کی جاسکتی۔ ان کے تو چہرے مارے ڈر کے بدل گئے ۔۹۹۹ فی ہزار والی بات ہی انہیں اس قدر دہلا دینے والی تھی  کہ حیرت کا پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ بالفرض ، کسی صحابی کو حیرت ہوئی بھی ہو تو ہمارے پاس یہ کہنے کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ صحابہ کی حیرت پر دلالت نہیں کرتے۔ مذہب فلسفیانہ اٹکلوں کے بجائے ثقہ راویوں کی مستندروایتوں  کے ذریعے ہم تک پہنچتاہے، اور اس کی تشریح میں کسی غیرمتعلق  بات کو داخل کرنا معروضیت کے خلاف  ہے۔ ’’حیرت ‘‘کے بجائے’’ شک‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے آپ سیدھے سیدھے یہ کہہ سکتے تھے کہ ’’جو شک مجھے  (یعنی طارق کو) ہوا بعینہ وہی شک  صحابہ کو بھی ہوا‘‘۔ لیکن  یہ کہنا آپ کے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ اس دورکے عرب میں صحابہ کا ذہن  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی بتائی ہوئی کسی بات پر شک نہیں کر سکتا تھا۔ ایسی باتوں پر موجودہ دور میں ہی  شک  ہوسکتا ہے  اور چونکہ  آپ اس حدیث کے سلسلے میں لوگوں کو  ’’شک ‘‘سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اس لیے آپ نے لفظ ’’حیرت ‘‘ جیسے دور دراز کے  ایک لفظ کا انتخاب کیا  تا کہ  سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔البتہ آپ یہ کہتے کہ’’ جو خوف مجھے ہو رہا ہے وہی صحابہ کو بھی ہوا‘‘  توایک بہت خفیف سی حد تک ضرورصحیح ہوتا۔لیکن اس بحث میں یہ کہنے  کی  گنجائش نہیں تھی۔
یہ بالکل یقینی بات ہے کہ موجودہ دور میں اس قسم کی حدیثوں کو پڑھ کر ایک عام  تعلیم یافتہ  شخص  حیرت یا خوف  کے بجائے شک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے تو خدا کا وجود ہی  مشکوک  ہے،جنت  کی حوروں اور جہنم کے اژدہوں پر یقین کرنا  تو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ لیکن عہد وسطیٰ کے عرب عام طور پر  ایسی باتوں سے خوف میں جکڑ کر رہ جاتے تھے۔اس حدیث سے بھی اس نکتے کی تصدیق ہوتی ہے۔ہم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ دور میں مذہب  کی صداقت پر شک کرناعہد وسطیٰ  سے بہت  زیادہ بڑا ایک مسئلہ ہے جو علمائے ظواہر کی ان تاویلات سے دور نہیں ہو سکتا جن سے آپ کام لیتے نظر آ رہے ہیں۔
آگے لکھتے ہیں:
عام حالات میں حدیث کا ایک فقرہ نقل کردینا ایک الگ بات ہے۔ لیکن آپ کسی جملہ پر اعتراض کررہے ہیں اور اس سے اگلے جملہ میں خود کہنے والا اس اعتراض کا جواب دے رہا ہے اور آپ اسے نظر انداز کرکے صرف معترضہ جملہ نقل کررہے ہیں، کیا یہ علمی بددیانتی نہیں ہے؟حالانکہ ابو سعید خدری سے مروی اس حدیث کو امام بخاری نے باب یاجوج و ماجوج میں رکھا ہے۔یعنی بحث یاجوج ماجوج کی چل رہی ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ خود یاجوج ماجوج جیسے ظالم قبائل کو اللہ  تعالی کیوں پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی موجود ہے اور آپ کو معلوم ہے۔سرکش اور خوں خوار لوگوں کو سزا دینے والا ظالم نہیں کہلاتا اور اللہ تعلی کی صفات میں جہاں رحمن و رحیم کا ذکر ہے وہیں قہار و جبار کابھی ذکر ہے۔‘‘

میری ’’علمی بددیانتی‘‘ کی حقیقت

آپ سے یہ بحث  یا گفتگو دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں والے نوٹ کے نیچے ہو رہی ہے اور میری وال پر پہلے آپ کہہ چکے ہیں:
If you really believe in what you are telling here, then you should simply stop delivering all these sermons. What a great paradox! You write lengthy notes elaborating your peculiar views. Tag these notes to so many people. Carry out passionate debates in favor of your ideas. If somebody writes one sentence criticizing your views, he will get a detailed article in reply. What else is Dawah? Convincing others is Dawah and you are doing that one only. See the tone of this note. Are you not considering others (Dayees) "Nawaqif-e-Rah"? When you can put your personal opinions with such arrogance, what is wrong if somebody who believes in divine guidance puts Allah's words as the only truth? Such paradoxes and confusions are there in almost each of the note put by you here[2]
اپنے اس  تبصرے میں آپ میرے تقریباً تمام نوٹس  کے متعلق وثوق سے یہ کہہ رہے ہیں کہ  وہ تضادات اورالجھنوں سے پر ہیں۔ میں نے ’’دعوتی نقطہ نظر کی خامیاں‘‘  والااپنا  نوٹ اور اپنا پچھلا تبصرہ (جس میں آپ نے  میری علمی بددیانتی  کا سوال اٹھایا ہے)  لکھنے سے پہلے اپنے نوٹ ’’جہنم کا عقیدہ اور انسانی عقل‘‘  کے پہلے حصے[3] میں اس پوری حدیث کو بخاری شریف کے اردو ترجمے سے من و عن نقل کیا تھا  اور اس  کی کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔اس کے باوجود آپ فرما رہے ہیں کہ میں نے حدیث کی بات  صحیح طور پر نقل نہیں کی۔  کیا ایک شخص جو جہنم  کےتصور کا عقلی جائزہ لے رہا ہو ہو، اور اس سلسلے میں ایک حدیث بھی نقل کر رہا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اس کا جائزہ نہ لے؟  میں ایک مرتبہ اس حدیث کو بہ تمام و کمال نقل کر چکا تھا ۔ فیس بک کے میرے کئی دوست اس کو پڑھ بھی چکے تھے اور کئی افراد نے اس پر تبصرہ بھی کیا تھا اور کسی صاحب نے اس کا لنک  غامدی انٹرنیشنل گروپ میں شیئر بھی کیا تھا ۔ وہاں بھی کسی سے  میرے اس نوٹ کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔  ایسی صورت میں کیا یہ ضروری تھا کہ میں اس حدیث کو بار بار من و عن نقل کرتا رہتا۔
پھر یہی نہیں کہ آپ نے مجھ پر یہ غلط  الزام لگایا کہ میں نے اصل سے رجوع نہیں کیا یا اس کا جائزہ نہیں لیا، بلکہ آپ نے یہ غلط الزام بھی لگایا کہ میں نے یہ اعتراض ملاحدہ کی تحریروں سے اٹھا کر لکھ مارا ہے:
آپ یا تو جان بوجھ کر حدیث کے بقیہ حصہ کونظر انداز کررہے ہیں یا پھر صرف ملاحدہ کے اعتراض کو آپ نے اصل کا جائزہ لئے بغیر نقل کردیا ہے۔
آپ کی اس بات سے پڑھنے والوں پر  یہ تاثرقائم ہوسکتا  ہے کہ میں ملاحدہ کے اعتراضات سے فائدہ اٹھاتے وقت بھی اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتاکجا کہ اپنی عقل سے کسی حدیث پر کوئی نیا’’ اعتراض ‘‘پیش کروں۔نیزان پریہ تاثر بھی قائم ہوتا ہے کہ آپ  اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر معترض ایک ایسے شخص سے کلام کر رہے ہیں جو بددیانت بھی ہے، اور آدھی ادھوری بات نقل کرتا ہے۔ یہ سب مفہوم آپ کے تبصرے کے صریحی الفاظ سے برامد ہوتے ہیں ۔ داعیان دین مذہب میں عقل کا استعمال کرنے والوں کے تئیں پہلے  ہی سوئے ظن رکھتے ہیں۔  بعید نہیں کہ آپ کی تحریروں سے  وہ  بعینہ یہی تاثر قبول کر لیں۔

الزامات کے تئیں میرا رد عمل اور وضاحت

 مجھے کسی بھی نظریاتی معاملے میں اپنی علمی یا فکری بددیانتی کا کوئی ادنی ٰ سا  سراغ  بھی نہیں ملتا، اور اگر ملے تو میں فوراً اس کو سامنے لے آؤں کہ بطور مصنف یہ میری ایک کامیابی ہوگی۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ  میرا ذہن اس حدیث کے مذکورہ جملے سے سرسری گزر گیا ہو، اور توجہ ۹۹۹ فی ہزار پر ہی اٹک کر رہ گئی ہو؟ اور ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ اس حدیث کے  یہ  جملے بخاری شریف سے نقل کرتے وقت میں پڑھ ہی نہ سکا ہوں؟ ان دونوں میں سے کیا صورت واقع ہوئی ، یہ  مجھے اب یاد نہیں۔ آج سے تقریباً سات  آٹھ ماہ پہلے انٹرنیٹ کی کسی ویب سائٹ پر (غالباً یاہوآنسر زمیں) جہنمیوں کی تعداد پر کسی مسلمان شخص کے ذریعے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں  کسی دوسرے  مسلمان شخص  نے ہی یہ حدیث پوسٹ کی تھی۔ پھر تصدیق کے لیے صحیح بخاری سے رجوع کیا اور پایا کہ اس میں کم از کم تین مقامات پر یہ حدیث پائی جاتی ہے۔ میں نےکئی بار ان تینوں حدیثوں کو  دیکھا  اور ایک کو بغور پڑھالیکن ایک بار بھی ذہن اس جملے سے برامد ہونے والے اس معنی  کو اپنی گرفت میں نہ لے سکا (کہ وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے) جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں۔ ذہن کسی بات کو گرفت میں نہ لے سکے تو اس کو بددیانتی نہیں کہتے ہیں۔ آپ اگر یہ لکھتے کہ’’ طارق ، تم نے  شاید پوری حدیث اچھی طرح نہیں پڑھی ہے۔ آگے کے جملوں میں اس بات کی وضاحت آ گئی ہے کہ وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے ‘‘ تویقیناً مجھے یہ بات گراں نہیں گزرتی۔
اگر آپ نے  ملاحدہ کا اس حدیث پر یہ اعتراض پڑھا ہو تو  براہ مہربانی نشاندہی کریں۔ ملاحدہ و متکلمین کی بنیادی کتابیں میں نے اب تک نہیں پڑھی ہیں۔ ان کے کارناموں کا معمولی علم مجھے ثانوی درجے کے  ماخذ کے ذریعے ہوا ہے۔ یہ بات میں جزوی طور پر پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ میرے نوٹس میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ میرے اعتراضات اور استدلالات  بہت  دوسرے ہیں۔ مجھ سے ایک غلطی یہ ہوتی چلی آ رہی تھی   کہ میں نے  حدیث کے سلسلے میں عقلی ’’اعتراضات ‘‘کا لفظ استعمال کیا۔ حالانکہ اعتراض کی جگہ   ’’اشکال‘‘ کا لفظ موجود تھا۔لیکن میرے  تمام تر الفاظ  اور جملوں کو ذہن میں رکھیں گے تو مصنف کے طور پر میرا یہ منشا برامد نہ ہو سکے گا کہ میں بالذات قرآن و سنت پر اعتراض کرتا ہوں یا ان کو  تسلیم نہیں کرتا۔ میں پچھلے تبصرے میں یہ کہہ چکا ہوں  کہ میں قرآن و سنت کی تمام باتوں کو بصمیم قلب تسلیم کرتا ہوں۔لیکن میرا انسانی ذہن  قرآن  کے بعض عقائد و احکام  کو ایک خاص دوریا حالت  کے باقی رہنے تک ہی مفید سمجھتا ہے ۔ مثلاً  زوجہ کو مارنے کااختیار ایک خاص دوریا حالت کے باقی رہنے  تک ہی مفید ہو سکتاتھا، اس کے بعدمرد کااس پر اصرار کرنا  اور اپنے حق میں قرآن سے استدلال  کرنا دورجدید میں غیردانشمندی  کا ثبوت دینا ہے۔ اسی طرح  میرا ذہن سنت  یا حدیث میں مذکور بعض عقائدکی واقعاتی نوعیت کی غیر معقول تفصیلات کوواقعاتی صداقت کے طور پر قبول نہیں کرسکتا اور ان کی اخلاقی توجیہ کرتے ہوئے انہیں  تخویف و تشویق سے عبارت قرار دیتا ہے، مثلاً اس حدیث کے بعض مشتملات جن سے میں آگے بحث کروں گا۔ ممکن ہے میری کچھ باتیں عہد وسطیٰ کے ملاحدہ و متکلمین سے  عمومی مشابہت رکھتی ہوں لیکن اس سے میرے ’’اعتراضات‘‘ یا اشکالات اور استدلالات  بعینہ وہی نہیں ہو جاتے جو  ان کے تھے  کیونکہ زیر بحث حدیث کی جن تفصیلات پر میں اشکالات  یا اعتراضات  پیش کر رہا ہوں  انہیں میں نے قدیم ملاحدہ کی تحریر وں میں اب تک نہیں دیکھا۔   رہے دور جدیدکے ملاحدہ تو میں نے انہیں بہت کم پڑھا ہے اور اس حدیث پر ان کا کوئی اعتراض تو بالکل نہیں پڑھا۔

۹۹۹ فی ہزار جہنمی والی حدیث کا عقلی جائزہ:

اب آئیے  آپ کے مذکورہ اصولوں کی رو سے اس حدیث کا انتہائی  تفصیل سے جائزہ لیں کہ جنت اور جہنم کی آبادی کا اصل تناسب کیا ہے؟  اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم کریں کہ آپ کے یہ اصول  مذہب اسلام  کو سمجھنے میں کس قدر معاون ثابت ہوتے ہیں؟ اور اس حدیث کو  آپ کے  پیش کردہ اصولوں کی مدد سے پڑھنے والے شخص  کا ایمان محفوظ رہے گا یا ضائع ہو جائے گا۔اور اگر کسی جدید تعلیم یافتہ اور تعقل پسند  مسلمان شخص کا ایمان  آپ کے مخصوص  معروضی اصولوں کے مطابق قرآن و سنت کو پڑھنے سے ضائع ہوا تو اس کے ذمہ دار وہی  حضرات علمائے کرام ہوں گے جو قرآن و سنت کی اس نوع کی باتوں کو واقعاتی صداقت  کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
زیر بحث  حدیث بخاری شریف کی کتاب الانبیا کے باب یاجوج و ماجوج میں ہی نہیں  (جیساکہ آپ فرماتے ہیں کہ بحث یاجوج ماجوج کی چل رہی ہے!) بلکہ بخاری شریف کی کتاب التفسیر کے باب ’’آیت وتری الناس سکاریٰ کی تفسیر‘‘ اور کتاب الرقاق کے باب ’’آیت إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيم کی  تفسیر‘‘  میں بھی چند لفظی و معنوی اختلافات کے ساتھ مذکور ہے۔ یہ حدیث مزید کن لفظی و معنوی اختلافات کے ساتھ صحیح بخاری شریف  اورکن  دیگر کتب حدیث کے  کن کن مقامات پر درج ہے یہ مجھے معلوم نہیں۔ آگے ضرورت پڑے گی تو انشا اللہ معلوم کر لوں گا۔ موجودہ دور میں معلومات کی فراہمی کوئی مشکل کام نہیں۔ مشکل کام تجزیہ و تحلیل ہے جس میں غلطی ہو جاتی ہے لیکن ایک کے تجزیے کی غلطی پر دوسرا شخص مطلع کر سکتا ہے۔  

صحیح بخاری شریف، حدیث نمبر : 4741

ان تینوں احادیث کا مرکزی مفہوم ایک ہی ہے۔ بخاری کتاب التفسیر میں باب ’و ترالناس سکاریٰ کی تفسیر‘ میں وہ حدیث درج ذیل طور پر آئی ہے:
حدثنا عمر بن حفص،‏‏‏‏ حدثنا أبي،‏‏‏‏ حدثنا الأعمش،‏‏‏‏ حدثنا أبو صالح،‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري،‏‏‏‏ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏" يقول الله عز وجل يوم القيامة يا آدم‏.‏ يقول لبيك ربنا وسعديك،‏‏‏‏ فينادى بصوت إن الله يأمرك أن تخرج من ذريتك بعثا إلى النار‏.‏ قال يا رب وما بعث النار قال من كل ألف ـ أراه قال ـ تسعمائة وتسعة وتسعين فحينئذ تضع الحامل حملها ويشيب الوليد ‏ {‏ وترى الناس سكارى وما هم بسكارى ولكن عذاب الله شديد‏}‏ ‏"‏‏.‏ فشق ذلك على الناس حتى تغيرت وجوههم،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من يأجوج ومأجوج تسعمائة وتسعة وتسعين،‏‏‏‏ ومنكم واحد،‏‏‏‏ ثم أنتم في الناس كالشعرة السوداء في جنب الثور الأبيض،‏‏‏‏ أو كالشعرة البيضاء في جنب الثور الأسود،‏‏‏‏ وإني لأرجو أن تكونوا ربع أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا ثم قال ‏"‏ ثلث أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا ثم قال ‏"‏ شطر أهل الجنة ‏"‏‏.‏ فكبرنا‏.‏ قال أبو أسامة عن الأعمش ‏ {‏ ترى الناس سكارى وما هم بسكارى‏}‏ وقال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين‏.‏ وقال جرير وعيسى بن يونس وأبو معاوية ‏ {‏ سكرى وما هم بسكرى‏}‏‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابوصالح نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا۔ اے آدم! وہ عرض کریں گے، میں حاضر ہوں اے رب! تیری فرمانبرداری کے لئے۔ پروردگار آواز سے پکارے گا (یا فرشتہ پروردگار کی طرف سے آواز دے گا) اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اورتو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج کی (جو کافر ہیں) نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ غرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتا ہے اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی) یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرئہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرئہ تکبیر بلند کیا اور ابواسامہ نے اعمش سے یوں روایت کیا تری الناس سکاریٰ وماھم بسکا ریٰ جیسے مشہور قرآت ہے اور کہا کہ ہر ہزار میں سے نو سوننانوے نکا لو (تو ان کی روایت حفص بن غیاث کے موافق ہے) اور جریر بن عبدالحمید اور عیسیٰ بن یونس اور ابومعاویہ نے یوں نقل کیا وتری الناس سکری وما ھم بسکری (حمزہ اور کسائی کی بھی یہی قرآت ہے(

زیر بحث حدیث کا چار نکاتی تجزیہ    

اب میں معروضی نقطہ نظر سے  اس حدیث کے ان مشتملات کا تجزیہ کرتا ہوں  جن میں  جنت اور جہنم  کی آبادی سے متعلق  واقعاتی نوعیت کی  خبر دی گئی ہے، اور دیکھتا ہوں کہ اس کا کیا نتیجہ برامد ہوتا ہے:   
1.     اس حدیث میں  پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو ۹۹۹ فی ہزار لوگوں کو جہنم کے جتھے کےطور پر الگ نکال لینے کا حکم دے گا۔
2.     پھر یہ بتایا گیا ہے  (ترجمہ کے مطابق )کہ اگر یاجوج ماجوج  ہی کی (جو کافر ہیں) نسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے  ملائی جائے تو ان میں سے ۹۹۹ کے مقابل امت محمدیہ میں سے ایک آدمی پڑے گا۔ ترجمہ ٔ حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عددی تناسب  ہے۔
3.     پھر یہ بتایا گیا ہے کہ میدان حشر میں امت محمدیہ کے افراد دیگرانبیا کی  مسلم امتوں اور کافر و مشرک قوموں کے افراد کے مقابلے میں ایسے ہوں گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال ہوتا ہے یا کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں۔
4.     پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جنت میں امت محمدیہ کی آبادی تمام دیگر امتوں کے مقابلے میں  (حتمی طور پر) آدھی ہو گی۔

نکتہ نمبر 1

اولاد آدم میں سے ۹۹۹ فی ہزار لوگ جہنم میں جائیں گے، حدیث کے ابتدائی جملوں سے یہ  بالکل واضح ہے۔(اللہ کے رسول کے بقول) اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو اپنی اولاد میں سے جہنمیوں کو ۹۹۹ فی ہزار کے تناسب سے الگ نکال لینے کا حکم دیتا ہے اور اس  کا یہ حکم  بلا تخصیص و تفریق ِمذہب و ملت ہے۔

نکتہ نمبر 2

۹۹۹ فی ہزار والی اس خبر کو سنتے ہی صحابہ کرام پر زبردست خوف  طاری ہو جاتا ہے ۔اس  کا سیاق و سباق دیکھیے: آنحضرت نے میدان حشر میں آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی خبر دی۔ وہ  ایک عمومی نوعیت کا حکم ہے اور اس میں کسی بھی قوم کی تخصیص نہیں ہے۔ جو شخص بھی حدیث کے ابتدائی جملے پڑھے گا اسے اس کا مفہوم یہی سمجھ میں آئے گا۔  حدیث میں  ’’من کل الف‘‘ (یعنی  تمام  ہزار میں سے) کے الفاظ  آئے ہیں یعنی اولاد آدم میں سے ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ اس  حدیث میں آگے اللہ کے رسول  کے اس قول ’’ ۹۹۹ لوگ  یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے  اور ایک تم میں سے ہوگا‘‘ کا صرف وہی  مفہوم نہیں  ہو سکتا جو آپ  بتا رہے ہیں (کہ وہ ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے)  کیونکہ انہوں نے’’ من کل الف‘‘ کی نفی نہیں کی ہے۔  خود صحابہ نے بھی اس کا یہی مفہوم سمجھا کہ اللہ کا یہ حکم اولاد آدم کے ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کے لیے ہے۔ صحیح بخاری  کے کتاب الرقاق (حدیث نمبر   (6530 میں یہی حدیث چند لفظی و معنوی اختلاف کے ساتھ موجود  ہے۔ اس میں صحابہ کا اللہ کے رسول سے یہ سوال بھی درج ہے:
فاشتد ذلك عليهم فقالوا يا رسول الله أينا الرجل
’’صحابہ کو یہ بات بہت سخت معلوم ہوئی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر ہم میں سے وہ (خوش نصیب) شخص کون ہو گا؟‘‘  (صحابہ کا یہ سوال اِس روایت میں نہیں ہے جس کا نمبر 4741 ہے)
صحابہ اولاد آدم کے  ہر ہزار میں سے (فی کل الف) ایک جنتی نہ سمجھتے تو اللہ کے رسول سے یہ سوال ہی نہ کرتے کہ وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہوگا؟ ایک نکتہ اور ہے کہ ’’وہ ایک ہم میں سے کون ہوگا‘‘ کا سوال صحابہ کے ذہن میں  موجود اس خیال کو ظاہر کر رہا ہے  کہ ۹۹۹ جہنمیوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اسی لیے تو انہوں نے وہ سوال کیا ۔ اس وقت وہاں پر صحابہ کی تعداد کیا تھی اس کے متعلق مجھے نہیں معلوم لیکن سوال کرنے کا انداز بتا رہا ہے کہ ان کے ذہن نے اسی طور معنی کو اخذ کیا  کہ ہزار میں   ایک شخص  کو چھوڑ کر بقیہ تمام لوگ ضرور بالضرور جہنم میں جائیں گے۔اسی لیے تو ان کی طرف سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ ایک خوش نصیب شخص کون ہو گا ؟ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
 أبشروا،‏‏‏‏ فإن من يأجوج ومأجوج ألف ومنكم رجل ‏.
تمہیں خوشخبری ہو، ایک ہزار یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ اور تم میں سے وہ ایک جنتی ہو گا۔ ( کتاب الرقاق حدیث نمبر   (6530 
سوال یہ ہے کہ جو عموم اللہ تعالی کے حکم  میں پایا جاتا ہے، کیا اس  کے رسول کے جواب سے  وہ صرف یاجوج ماجوج کے لیے خاص ہو جاتا ہے، یا اس کی گنجائش  بہرحال رہتی ہے کہ ۹۹۹ فی ہزار کو  تمام انسانوں کے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان کا تناسب بھی مانا جا سکے؟   شروع میں تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ  اللہ تعالٰی کا یہ  قول  تمام انسانوں کے لیے ہے۔  پھر بعد میں اللہ کے رسول نے یہ کیوں فرمایا  کہ  ۹۹۹ یاجوج ماجوج ہوں گے اور ایک تم میں سے ہوگا؟ (کیا غالباً  ترغیب دینے کے مقصدسے)۔ کیا ایسا نہیں سمجھا جا سکتا کہ  ’’ اگر اللہ کا قول ایک امر واقعہ ہے تو اس کے رسول کا قول اسی امر ِواقعہ  کی تمام تر تفصیلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے صرف مسلمانوں اور یاجوج ماجوج کے درمیان کے  تناسب کی وضاحت ہے نہ کہ پچھلے عمومی حکم  کی نفی۔پس یہ ظاہر ہے اولاد آدم کے بقیہ  گروہوں (یا امتوں) کے جہنمیوں کے جتھے کی تعداد بھی وہی ہوگی جواس حدیث میں اللہ سے منقول  حکم میں بیان ہوئی یعنی ۹۹۹ فی ہزار۔ خود مترجم نے بھی یہی معنی مراد لیے ہیں اوراللہ کے رسول کے قول کا ترجمہ درج ذیل طور پر  کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح لفظی  ترجمہ نہیں ہے):
’’اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج کی (جو کافر ہیں) نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔‘‘
یعنی اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔تم سب جنت میں جاوگے۔ رہی بات تناسب کی تو  صرف ایک جہنمی قوم یاجوج ماجوج سے ہی  تمہارا مقابلہ کیا جائے تو ۹۹۹ فی ہزار کا تناسب پورا ہو جاتا ہے۔ مولانا داؤد راز کے اس ترجمے سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ ورنہ اگر ۹۹۹ فی ہزار کی تعداد صرف یاجوج ماجوج کے لیے خاص ہے تو مولانا کا یہ ترجمہ ہی سرے سے غلط ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں حدیث کے الفاظ  ’’فی کل الف‘‘ (یعنی ’’ہر ایک ہزار میں سے‘‘ ) کے الفاظ غیرموزوں ہو جاتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ کے  ’’اولاد آدم میں سے ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے‘‘ کو الگ کرلینے والے اس حکم  سے صحابہ نے بھی وہی سمجھا، میں نے بھی وہی سمجھا، اور جو بھی پڑھے گا، اسے بھی یہی سمجھ میں آئے گا۔
لیکن چونکہ اللہ کے رسول نے آگے فرمایا ہے کہ وہ ایک ہزار یا ۹۹۹  لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے، اور ایک آدمی تم میں سے، تو بلاشبہ  جہاں تک میں اب سمجھ سکتا ہوں حدیث کے اس مقام پر ایک سے زیادہ معنی مراد لینے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، یعنی  وہ معنی  بھی جو آپ کہہ رہے ہیں ، اور وہ بھی جو میں اپنے پچھلے تبصرے میں کہہ رہا  تھا۔  لیکن  صحیح بات یہ ہے کہ میں نے جو معنی مراد لیے ہیں وہ زیادہ قرین عقل ہیں اور ’’مصنف کے منشا‘‘ کی ترجمانی کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ کے عمومی حکم  ’’فی کل الف‘‘ کی نفی نہیں کی ہے۔جب آدم علیہ السلام کی اولاد کے  سلسلے میں’’ فی کل الف ‘‘کے الفاظ بولے جائیں گے تو  اس  ’’کل‘‘ کے دائرے میں تمام اولاد آدم آ جاتی ہے  نہ کہ صرف امت محمدیہ اور یاجوج ماجوج۔
کیا اس حدیث کے الفاظ سے ہم ایسا نہیں سمجھ سکتے کہ جو تناسب مسلمانوں اور یاجوج ماجوج کے درمیان کا ہے، وہی تناسب  تمام جہنمیوں اور جنتیوں کے درمیان کا بھی ہے؟  اللہ کے رسول کی اس حدیث سے یہ دونوں معنی ایک ساتھ لینے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اگر ہم یہ دونوں معانی ایک ساتھ مراد نہیں لیتے تو پھرآدم کی اولاد میں سے ’’ فی کل الف ‘‘ کی بات ہی غیرموزوں ہو جاتی ہے۔ورنہ آپ ہی بتائیے کہ اس حدیث میں ’’ فی کل الف‘‘  کہنے کا کیا معقول سبب ہو سکتا ہے؟
 آپ نے جو تاویل کی ہے اس کا نفسیاتی سبب یہ ہے کہ آپ ۹۹۹ فی ہزار جہنمی کا یہ تناسب  تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔کیونکہ ایسا تسلیم کرلینے کے بعد وہی شخص اسلام کے دائرے میں رہ سکتا ہے جو اسے اپنے باپ دادا کا دین سمجھتا ہو اور صرف اسی سبب سے اس کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو! تحریک اسلامی کے افراد ایک طرف تو دیگر قوموں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کا دین ترک کر کے مشرف بہ اسلام ہو جائیں اور دوسری طرف وہ اس اسلام کو بھی ترک نہیں کرنا چاہتے جو ان کے باپ دادا کی طرف سے روایتاً ان کو منتقل ہوا ہے۔ اور چونکہ  ۹۹۹ فی ہزار والی بات انتہائی غیرمعقول بھی ہے اس لیے حدیث میں آگے جو  بیان کیا گیا ہے ، (یعنی کہ ’’۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک مسلمانوں میں سے  ) اسے وہ اپنے ایمان کی  ڈھال بنا لیتے ہیں۔ پھر ان کے ذہن میں روایتی علمائے اسلام کا خوف بھی موجود ہوتا ہے اس سبب سے بھی وہ ایسی حدیثوں کی واقعاتی صداقت سے انکار نہیں کر سکتے۔

نکتہ نمبر 3

حدیث میں   ۹۹۹ فی ہزار یاجوج ماجوج کے  جہنم میں جانے کے مقابلے میں امت محمدیہ کے ایک فرد کے جنت میں جانے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ میدان حشر میں امت محمدیہ کے افراد دوسرے لوگوں  کے مقابلے میں ایسے ہوں گے جیسے ایک سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال ہوتا ہے یا ایک کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتے ہیں۔  یہ تشبیہ تمام تر قوموں کے درمیان امت محمدیہ کو حاصل امتیاز کو نمایاں کرنے کے ساتھ ہی یکساں طور پر  یہ بھی بتا رہی ہے کہ امت محمدیہ کے افراد کی تعداد دیگر قوموں کے مقابلے میں کیا ہوگی۔ اگر بات  صرف امتیاز کو نمایاں کرنے کی ہوتی  تو یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ دیگر قومیں امت محمدیہ کے مقابلے میں دو کالے یا ایک سفید بال کی طرح ہوں گے، لیکن  کہا اس کے برعکس گیا ہے۔  مصنف کے منشا کے نقطۂ نظر سے بھی غور کیا جا ئے تو معلوم ہوتا ہے کہ  یہ تشبیہ  صرف ان کا  امتیاز بتانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی عددی قلت کو نمایاں کرنے کے لیے بھی دی گئی ہے۔ میرے اس نتیجے کی تصدیق  حدیث میں موجود اس ’’امرواقعہ‘‘ سے بھی ہوتی ہے کہ امت محمدیہ کے ایک فرد کے مقابلے میں یاجوج ماجوج کے ۹۹۹ افراد ہوں گے۔
اس لیے حدیث کے الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ امت محمدیہ کے افراد کاعددی تناسب دوسرے لوگوں کے مقابلے میں  ’’اتنا ‘‘ہوگا جتنا کہ سیاہ بیل کے جسم پر ایک یا دو سفید بال ہوتے ہیں۔

حدیث میں ’’دوسرے لوگوں‘‘ سے کون مراد ہیں؟

یہ سوال بھی خاصا اہم ہے کہ حدیث میں مذکور’’ دوسرے لوگوں‘‘  سے کیا مراد ہے؟ ارشاد نبوی ہے:
ثم أنتم في الناس كالشعرة السوداء في جنب الثور الأبيض،‏‏‏‏ أو كالشعرة البيضاء في جنب الثور الأسود،
’’ـــغرض تم لوگ حشر کے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جو دوزخی ہوں گے) ایسے ہو گے جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک بال کالا ہوتا ہے یا جیسے کالے بیل کے جسم پر ایک دو بال سفید ہوتا ہے ـــ‘‘
یہ ظاہر ہے کہ اصل متن میں ’’دوسرے لوگوں‘‘ کے بعد  قوسین کے درمیان جو الفاظ ’’(جو دوزخی ہوں گے)‘‘ درج ہیں وہ قول رسول نہیں ہیں۔وہ مترجم کا اضافہ ہے جو غلط معلوم ہوتا ہے   کیونکہ خود  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ’’ دوسرے لوگ ‘‘صرف  جہنمی ہوں گے۔ اگر دوسرے لوگ صرف جہنمی ہوں گے  تو بقیہ  پیغمبروں کی امتوں کے جنتی  کہاں ہوں  گے ؟  یہ قطعی  نہیں ہو سکتا کہ اللہ کے رسول مندرجہ بالا جملے میں ’’ تم‘‘ سے  ’’تمام پیغمبروں کے مسلمان افراد ‘‘ مراد لے رہے ہیں  ورنہ پھر اس حدیث میں ان کےاگلے قول کی کوئی توجیہ نہ کی جا سکے گی کہ ’’تم  جنت میں آدھے ہوگے‘‘  کیونکہ اگر یہاں ’’تم‘‘ سے مراد تمام قوموں کے مسلمان افراد ہیں تو پھر یہی ’’تم‘‘ جنت کی آدھی آبادی ہے! پھر اس صورت میں کفار و مشرکین سے بقیہ آدھی جنت کو  بھرنا ہوگا جو قرآن کے منشا کے خلاف ہے! یا روایتی علما کے نقطہ نظر سے اس کی تاویل  کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ  بقیہ آدھی جنت میں مسلمان’’ جنات ‘‘ ہوں گے![ویسےروایتی علما کے نقطہ نظر سے بحث دور تک جاری رکھی جا سکتی ہے ، مثلاً  آزمائش جنات کی بھی ہو رہی ہے اور وہ بھی قرآن پڑھتے  اور سنتے  اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون کی آیت  قرآن میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ بھی فرماتا ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔جب جہنم میں جنات کا جانا قرآن سے ثابت ہے تو ظاہر ہے وہ جنت میں بھی جائیں گے۔  اسی لیے آدھی جنت میں تمام مسلمان قومیں اور آدھی جنت میں جنات اقوام رہیں گی۔  لیکن میدان حشر میں جنات کا اٹھایا جانا، وہاں ان سے ان کے اعمال کی پرسش کیا جانا ، ان کا جنت میں انسانوں کے ساتھ رہنا، ان سب امور کے متعلق مجھے اب تک کوئی علم حاصل نہیں ہو سکا۔  ’’آدھی جنت میں جنات ہوں گے‘‘ جیسی  من مانی تاویل کرنے سے پہلےہمیں  ایسے سوالوں کا جواب پیش کرنا ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی بتانا ہوگا کہ قرآن اگر جنوں کے لیے بھی ہدایت و رہنمائی ہے تو جنات مردو خواتین کے لیے کیا شرعی و اخلاقی احکامات  اس میں پائے جاتے ہیں حالانکہ عربوں پر قرآن میں نبوت کی  یہ حجت قائم کی گئی کہ ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے ، اورانسانوں کے لیے  جو رسول بھی ہم بھیجتے ہیں وہ انسان ہی ہوتے ہیں، پھر  اسی اصول کے تحت جنوں کے لیے بھی علیحدہ ایک رسول ہونا چاہیے  تھا یا نہیں جس پر جنوں کی  مخصوص  زبان میں  وحی نازل ہوتی؟  ؟ ورنہ جن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس رسول کو ہرگز نہ مانیں گے جو انسانوں میں سے ہیں؟ اس قسم کے سوالات پوچھتے ہی روایتی علما یہ فرما دیتے ہیں کہ اسلام میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہے۔ رہے تحریک اسلامی کے علما  تو جہاں تک ان سے بن پڑتا ہے وہاں تک اپنی سی تاویل کیے جاتے ہیں، پھر تنگ آ کر کہہ دیتے ہیں کہ بس اب عقل کا کام ختم،سوال پوچھنا بند کرو اور اطاعت  و فرمانبرداری شروع کر دو۔]
پھراس حدیث میں  ایک جگہ تم سے مراد ’’تمام پیغمبروں کی امت کے مسلمان ‘‘افراد ، اور دوسری جگہ اسی تم سے مراد  ’’صرف امت محمدیہ کے افراد‘‘ نہیں ہو سکتا۔  اس لیے مترجم نے ’’(جو جہنمی ہوں گے)‘‘ والا یہ قوسین لگایا ہے وہ غلط اور گمراہ کن ہے۔  اس لیے یہی صحیح ہے کہ  امت محمدیہ کے مسلمانوں کا  یہ بال برابر تناسب  تمام  دیگر ’’مومن و کافر قوموں کے  جنتیوں  اور جہنمیوں‘‘ کے  مقابلے میں قائم کیا گیا ہے نہ کہ صرف  ان کے اور تمام جہنمیوں کے درمیان۔اور اسی لیے بخاری شریف کے اس  مترجم کا یہ اضافہ غلط معلوم ہوتا  ہے جو اس نے اپنی طرف سے کیاہے ۔
لیکن مترجم کے قوسین کے اضافے کو اتنی آسانی سے غلط بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں’’ دوسرے لوگوں ‘‘  سے مراد تمام امتوں کے جہنمی ہی ہوں اور تمام امتوں  کے جنتیوں کا تذکرہ سرے سے  چھوڑ ہی  دیا گیا ہو ۔ اس صورت میں  اس پر غور کرنا  ہوگا کہ حشر کے میدان میں  دوسری امتوں کے جنتیوں کا تذکرہ اس حدیث میں کیوں نہیں ہے  (حالانکہ آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ امت محمدیہ جنت کی آدھی آبادی ہوگی اور دوسری قومیں جنت کی آبادی کا آدھا حصہ ہوں گی)۔

نکتہ نمبر ۴

حدیث میں امت محمدیہ کے دیگر امتوں کے مقابلے میں بال برابر ہونے  کی خبر کے بعد اللہ کے رسول نے امید ظاہر کی کہ جنت میں ان کی امت کی تعداد چوتھائی ہوگی، پھر بتایا کہ تہائی ہوگی، اور حتمی طور پر بتایا کہ آدھی ہوگی۔
آگے مندرہ بالا چاروں  نکات کی بنیاد پر اس حدیث کا عقلی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

 نکتہ نمبر ایک تا چار کا تجزیہ

اگر  ۹۹۹  فی ہزار سے مراد  صرف وہی  ہے جو آپ کہہ رہے ہیں، اور واقعی یہ  میری بھول تھی کہ میں ۹۹۹ فی ہزار کو تمام انسانوں یا اولاد آدم کے  جنتیوں اور جہنمیوں کا تناسب سمجھ رہا تھا جو بالکل غلط ہے، تو اس  صورت میں  بھی اس حدیث کی رو سے جنتیوں اور جہنمیوں کے تناسب میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ وہ اس سے بھی  زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ 
پہلے حدیث میں یہ بات آ چکی ہے  کہ امت محمدیہ کے افراد دیگر قوموں کے مقابلے بال کی طرح  ہوں گے (نکتہ نمبر تین)۔ اس کے  بعد یہ کہا گیا ہے کہ امت محمدیہ کے افراد جنت میں آدھے ہوگے (نکتہ نمبر چار)۔معلوم یہ ہوا کہ یہی ایک یا دو بال برابر امت محمدیہ جنت کا آدھا حصہ ہوگی۔اس طرح، جنت میں  ایک یا دو  بال کے بقدر امت محمدیہ کے افراد ہوں گے اور ایک یا دو بال کے بقدر ہی دیگر امتوں کے افراد ہوں گے۔ اور بیل کی کھال پر بقیہ جتنے بال ہوتے ہیں اس کے بقدر دیگر تمام امتوں اور قوموں کے  کافر و مشرک افراد جہنم میں ہوں گے۔ اور مترجم نے دوسرے لوگوں کے بعد ’’جو جہنمی ہوں گے‘‘ والا یہ قوسین  اسی لیے لگایا ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر لوگوں کا ذکر کیا کرنا!
لیکن چونکہ تحریک اسلامی کے افراد تاویل کے بھی ماہر ہیں۔ اس لیے اب وہ اس بات پر اصرار کریں  گے کہ یہ جو بال برابر والی  تشبیہ ہے ، اس کی نوعیت ’’عددی‘‘ نہ ہو کر ’’امتیازی‘‘ ہے۔  یعنی جس طرح سفید بیل پر چند سیاہ بال دیکھنے میں ممتاز ہوتے ہیں اسی طرح امت محمدیہ بقیہ دیگر امتوں سے  صرف دیکھنے میں ممتاز نظر آئے گی! بے شک  اس سے امت محمدیہ کا امتیاز بھی ثابت ہوتا ہے لیکن  یہ  نہیں بھولنا چاہیے کہ بال کی جو تشبیہ دی گئی ہے وہ’’ ۹۹۹ فی ہزار جہنمی‘‘ والی بات  اور’’ جنت میں  امت محمدیہ کے چوتھائی، تہائی، بلکہ آدھا حصہ ہونے ‘‘ والی بات کے پس منظر میں دی گئی ہے اس لیے بالیقین اس  تشبیہ کی نوعیت عددی بھی ہے، اور اس سے انکار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم کھینچ تان کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ’’مصنف کا منشا‘‘ وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آ رہا ہے!
یہاں پر یہ بھی  سوچنا چاہیے کہ اگر بات دیگر قوموں کی ہوتی تو کیا  اللہ کے رسول یہ فرما سکتے تھے کہ دوسری  قومیں یا دوسرے لوگ تمہارے مقابلے میں ایسے ہوں گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر ایک کالا بال؟ ظاہر ہے نہیں۔کیونکہ دوسرے  لوگ  مسلمانوں کے مقابلے میں کبھی بال برابر نہیں ہو سکتے۔ یاجوج ماجوج کی ایک ہی قوم  امت  محمدیہ کے مقابلے میں ۹۹۹ فی ہزار ہے تو دوسری قوموں  کی بات کیا کرنا! مبالغہ کے ساتھ کہا جائے تو امت محمدیہ  صرف یاجوج ماجوج کے مقابلے میں ہی بال برابر ہے!
اس لیے  آپ بھی غور کریں گے تو پائیں گے کہ بال والی تشبیہ کی نوعیت عددی بھی ہے۔ اور اس سے انکار کرنے کا نفسیاتی سبب سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ آپ جہنمیوں کی  ۹۹۹ گنا زیادہ تعداد سے انکار کرنا چاہتے ہیں جبکہ بال کی یہ تشبیہ ہی ’’مصنف کا منشا‘‘ ظاہر کر دیتی ہے کہ ایک پورے بیل پر ایک یا دو بال کا کیا مطلب ہوتا ہے اور کس معنی کی ترسیل کے لیے یہ تشبیہ دی گئی ہے؟
اب کیا  آپ بتا سکتے ہیں کہ مصنف کا منشا پر آپ کا وہ  اصرار ، وہ آپ کی تمام ترمعروضیت ، وہ قرآن و سنت میں  جنت اور جہنم کی  تفصیلات و جزئیات کا اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا جانا، اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش کا نہ ہونا، یہ سب کہاں چلے گئے؟  آپ کا ذہن  تاویل کے پردے میں مصنف کے منشا سے اس حد تک انکار پر کیوں  آمادہ ہوا؟

حدیث ِ کی رو سے جنت اور جہنم کی آبادی کا ’’ناقابل انکار‘‘ تناسب

اگر ہم  حدیث میں مذکوراس خبر کو صحیح سمجھیں :
’’اور مجھ کو امید ہے تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہو گے (باقی تین حصوں میں اور سب امتیں ہوں گی) یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تہائی ہو گے ہم نے پھر نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا نہیں بلکہ آدھا حصہ ہو گے (آدھے حصہ میں اور امتیں ہوں گی) ہم نے پھر نعرۂ تکبیر بلند کیا۔‘‘ 
تو صورت حال انتہائی حد تک غیرمعقول ہو جاتی ہے یعنی وہ عقل میں نہیں آتی (واضح رہے کہ میں اس تحریر میں کہیں بھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کررہا ہوں، میں صرف معقول اور غیرمعقول کی بات کر رہا ہوں) ۔
موجودہ دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ سو کروڑ ہے۔ نبی آخرالزماں کے دور سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والی امت محمدیہ کےافراد کی تعداد اگر ایک ہزار کروڑہی تسلیم کی جائے  تواس حدیث کی   رو سے  چونکہ مسلمان جنت میں آدھے ہیں تو اگروہ  ایک ہزار کروڑ ہوں تو جنت میں کل دوہزار کروڑ لوگ ہوں گے۔ اور جہنم میں کم سے کم ۹۹۹ ہزار کروڑ لوگ ہوں گے کیونکہ   یہ تناسب پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ ایک جنتی مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج جہنم میں ہوں گے۔اور یہاں کسی قسم کی سخن سازی  کا موقع بھی نہیں ہے۔ اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ۹۹۹ والی بات  میں کوئی مبالغہ کارفرما ہے کیونکہ حدیث میں ’’فی کل الف‘‘ یعنی ہر ایک ہزار میں سے‘‘ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی زبان سے پہلے ہی ادا ہو چکے ہیں اور یہ صریح عددی تناسب ہے! اگر اللہ تعالیٰ نے بھی کوئی مبالغہ کیا تو ظاہرہے ایسا مبالغہ بھی انتہائی کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے ہی کیا جائے گا ۔کوئی بھی مصنف جب ایسا مبالغہ کرے تو اس سے گنے ہوئے ٹھیک ۹۹۹ مراد نہیں لیے جائیں گے بلکہ  اصل تعداد اس سے کچھ زیادہ یا کچھ کم ہو سکتی ہے۔
  ذرا ملاحظہ فرمائیے۔جنت کے  دوہزار کروڑ کے مقابلے میں جہنم کے  ۹۹۹ ہزار کروڑافراد ۔ کیا تناسب بنتا ہے؟ ایک جنتی شخص کے مقابلے میں تقریباً ’’ ۵۰۰ ‘‘افرادجہنم میں جا رہے ہیں۔ اور یہ تناسب صرف تبھی بنتا ہے جب جہنم میں  صرف یاجوج ماجوج کو ہی مان لیا جائے اور عیسائی، ہندو، بودھ، چینی، لاطینی امریکی اور تمام دیگر غیر مسلم اقوام کے جہنمیوں کو چھوڑ دیا جائے۔
لیکن یہ ظاہر ہے کہ جہنمیوں میں صرف یاجوج ماجوج ہی نہیں ہوسکتے بلکہ تمام وہ کافر و مشرک قومیں ہوں گی جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ۔ اوریاجوج ماجوج کے ساتھ ان سب کو بھی جوڑا جائے  تو تخمینہ ۹۹۹ فی ہزار سےبہت  زیادہ کا نکلےگا۔ پس اگر میں نے یہ بتایا کہ حدیث کی رو سے ۹۹۹ فی ہزار  لوگ جہنم میں جا رہے ہیں تو کیا  غلطی کی؟ جہنم میں اگر  صرف یاجوج ماجوج کی قوم کو ہی مان لیا جائے تو  ۹۹۹ یا جوج ماجوج کے مقابلے میں جنت میں صرف دو اشخاص (جن میں سے ایک مسلمان ہوگا!) کا یہ غیرمعقول تناسب ہی اس قدر ناقابل یقین بات ہے کہ یہ سنتے ہی ایک تعقل پسند شخص کافر ہو جائے گا۔ کیا اس حدیث کو سنا کر آپ کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھا سکتے ہیں؟ پھر کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس حدیث سے کیا فائدہ اس کو ہوگا جو اس کو سنے گا اور کیا فائدہ اس کو ہوگا جو اس کو سنائے گا اور کیا فائدہ خود آپ کو ہوگا جو اس حدیث کے منشا کے خلاف اس کی  ’’دورازکار‘‘ تاویل پیش کر رہے ہیں؟ لیکن میں اس حدیث کے فوائد و مصالح کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہوں اگر آپ مجھ سے ایسا چاہیں۔
آپ ذرا خود اپنی عقل سے اندازہ لگائیں:
امت محمدیہ کے ایک مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج
گویا یاجوج ماجوج تمام امت محمدیہ کے مسلمانوں کا ۹۹۹ گنا زیادہ ہوں گے
اور خود مسلمان جنت کا آدھا حصہ ہوں گے
تو اس طرح آپ خود قیاس کر لیں کہ جہنم میں کتنے لوگ ہوں گے اور جنت میں کتنے لوگ اگر جہنم میں صرف یاجوج ماجوج ہی ہوں۔ دوسری مشرک اور اہل کتاب قوموں کو چھوڑ بھی دیں تو۔  آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ قیامت نہ جانے کب آئے گی اور قیامت تک بفضلہ تعالیٰ اتنے مسلمان پیدا ہو جائیں گے کہ  جنتیوں کے مقابلے میں جہنمیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس حدیث میں واقعاتی نوعیت کی خبر پہلے ہی دے دی گئی ہے کہ امت محمدیہ جنت کی آدھی آبادی ہوگی اور اس کے ایک شخص کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج  جہنم میں ہوں گے۔اب مسلمان چاہے جتنی زیادہ تعداد میں پائے جائیں ، یاجوج ماجوج لازماً ا ن سے ۹۹۹ گنا زیادہ ہوں گے۔پس ’’دور ازکار ‘‘تاویل کی ساری راہیں  مجھے آپ پر بند نظر آ رہیں ۔
لیکن نہیں،غالباً  اب آپ یہ فرمائیں گے  کہ ۹۹۹ کی تعداد محض کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے آئی ہے اس سے مراد گنے ہوئے ۹۹۹ فی ہزار نہیں ہیں۔ لیکن یہاں پر یہ کہا جا سکتا کہ ہے کہ گنے ہوئے ۹۹۹ نہ سہی ۹۹۸ یا ۹۹۵ ہی سہی۔ اس سے کم تو آپ نہیں کر سکتے؟  اور پھر آپ ’’کم‘‘ میں ہی کیوں سوچ رہے ہیں؟ ’’زیادہ‘‘ میں کیوں نہیں سوچ سکتے؟ دس ہزار یاجوج ماجوج فی  ایک   امت محمدیہ کا فرد  کیوں نہیں سوچ سکتے؟ اگر ۹۹۹ فی ہزار کی بات   کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے آئی ہے تو اس کے ذریعے سے    جہنمیوں کی تعداد یا تناسب  کو کم کرنا حدیث کے معروضی مفہوم  یا’’ مصنف کے منشا ‘‘کے بالکل خلاف بات ہے۔ حدیث میں یہ بھی  صاف فرما دیا گیا ہے کہ امت محمدیہ کی تعداد کا تناسب غیر مسلم قوموں (میرے مطابق جنتی و جہنمی دونوں اور مترجم کے مطابق صرف جہنمی!)  کے مقابلے میں ایسا ہوگا جیسے سفید بیل کے جسم پر ایک کالا بال یا کالے بیل کے جسم پر ایک یا دو سفید بال۔ او ریہی دو سفید یا چار کالے بال جنت کا آدھا حصہ ہوں گے۔ کیا اس سے جہنم میں انسانی آبادی کی بے پناہ کثرت اور جنت میں ان کی انتہائی قلیل ترین اقلیت کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے؟
پھر ۹۹۹ فی ہزار کا مطلب آخر کیا ہے؟ اگریہ عدد دوگنی تعداد کے لیے بولا گیا ہوتا تو دوگنا کا لفظ عربی زبان میں اس وقت بھی موجود تھا۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کے رسول نے نعوذ باللہ اپنے امتیوں کو غلط معلومات فراہم کیں۔ اس لیے  دوگنی کیا یہ  تناسب تو دس گنی تعداد کے لیے بھی نہیں بولا گیا معلوم ہوتاہے۔حدیث کے الفاظ سے ایسی  تاویل کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی :
اللہ حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں سے دوزخ کا جتھا نکالو۔ وہ عرض کریں گے اے پروردگار! دوزخ کا جتھا کتنا نکالوں۔ حکم ہو گا (راوی نے کہا میں سمجھتا ہوں) ہر ہزار آدمیوں میں نو سو ننانوے (گویا ہزار میں ایک جنتی ہو گا) یہ ایسا سخت وقت ہو گا کہ پیٹ والی کا حمل گر جائے گا اور بچہ (فکر کے مارے) بوڑھا ہو جائے گا (یعنی جو بچپن میں مرا ہو) اورتو قیامت کے دن لوگوں کو ایسا دیکھے گا جیسے وہ نشہ میں متوالے ہو رہے ہیں حالانکہ ان کو نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ کا عذاب ایسا سخت ہو گا (یہ حدیث جو صحابہ حاضر تھے ان پر سخت گزری۔ ان کے چہرے (مارے ڈر کے) بدل گئے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا (تم اتنا کیوں ڈرتے ہو) اگر یاجوج ماجوج کی (جو کافر ہیں) نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔
حدیث کے الفاظ صاف ہیں کہ ’’اگر یاجوج ماجوج کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا‘‘۔ اور یہاں کوئی مبالغہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ تناسب بالکل صاف ہے۔ اور اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اللہ کا یہ حکم سن کر بچے بوڑھے ہو جاتے ہیں، حمل والیاں  اپنا حمل گرادیتی ہیں، اور لوگ خوف سے ایسے  ڈولنے لگتے ہیں جیسے کوئی پی کر ڈول رہا  ہو۔ ۹۹۹ فی ہزار کی خبر واقعی ایسی دہشت ناک ہے ۔ اور یہ منظر کشی سن کر خود صحابہ کے چہرے بدل گئے۔
پھر ہماری عقل میں یہ بات  کیوں نہیں آ رہی ہے  کہ اللہ چاہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔۹۹۹ فی ہزار سے زیادہ کی تعداد کو جہنم میں بھیج دے سکتا ہے۔  یہ تقابل اللہ کے رسول صاف الفاظ میں فرما رہے ہیں اور معنی میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں ہے کہ تعداد دوگنی ہو گی یا ڈیڑھ گنی ہوگی۔ صاف بتایا جا رہا ہے کہ یاجوج ماجوج کی نسل امت محمدیہ سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل ایک آدمی پڑے گا!
 چونکہ انسانی  ذہن  اپنے آبائی مسلک اور مذہب کے بعید از عقل مشتملات کی  تاویل پر آمادہ رہتا ہے اس لیے یہاں پرہم  ایک اور تاویل ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ وہ یہ کہ اس وقت  جو صحابہ حاضر تھے  ۹۹۹  فی ہزار والی  یہ بات ان پر سخت گزری اور  اللہ کے رسول انہی صحابہ سے کہہ رہے ہیں کہ یاجوج ماجوج دراصل انہی صحابہ کے مقابل ہوں گے!لیکن پھر حدیث میں اللہ تعالیٰ کے اس قطعی حکم کی کیا توجیہ کریں گے کہ اے آدم اپنی اولاد میں سے جہنمیوں کا جتھا ۹۹۹ فی ہزار  نکال لو! پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو کیا کہیں گے کہ جنت میں تمہاری تعداد آدھی ہوگی؟   یعنی جنت  صرف ان ہی  قلیل التعداد صحابہ پر مشتمل ہوگی؟ پھر ان کے  اس قول کو کیا کہیں گے کہ میدان حشر میں دوسری قوموں کے مقابلے میں تمہاری تعداد اتنی ہوگی جتی کہ سیاہ بیل کے جسم پر ایک دو کالے بال ہوتے ہیں؟ گویا یہی چند ہزار صحابہ امت محمدیہ میں ہوں گے۔ اور یہی ایک دو’’ کالے  سفید بال‘‘ جنت میں ہوں گے! اور جنت میں صرف دو یا چار بال ہوں گے۔ اور دو یا  چار بالوں کے سوا بیل کی کھال پر جس قدر بال ہوتے ہیں اسی قدر انسان جہنم میں ہوں گے، یعنی اسی تناسب سے ہوں گے۔ایسے تمام سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ اور کیا  اس  من مانی تاویل کی کوئی گنجائش اس حدیث میں ہے کہ ایک جگہ تم سے مراد صرف صحابہ اور دوسری جگہ’’ تم‘‘  سے مراد بعثت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والی تمام تر امت محمدیہ ۔ اس من مانی تاویل کو مانیں  تو پھر بات بن سکتی ہے۔ اور بعید نہیں کہ آپ کہیں کہ ہاں، بالکل ٹھیک کہا تم نے طارق، دراصل یہی بات ہے! ایک جگہ تم سے مراد صرف صحابہ ہیں اور دوسری جگہ تم سے مراد تمام امت محمدیہ ! یعنی یاجوج ماجوج  کی ۹۹۹ فی ہزار تعداد صرف صحابہ کے مقابلے میں ہے ! پھر حدیث کی رو سے تو یہی صحابہ جنت کے آدھے ہونے چاہئیں نہ؟  
ایک اور بہانہ  جو یہاں کیا جا سکتا ہے کہ یہ تناسب کسی خاص دور میں یاجوج ماجوج  کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے درمیان قائم کیا گیا ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی مذکورہ بالا پیراگراف میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا حل نہیں ملتا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ’’فی کل الف ‘‘والا حکم۔
پھر یہ  بھی غور کرنا چاہیے کہ اللہ کے رسول ’’تم ‘‘ سے مراد تمام امت محمدیہ لے رہے ہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت یہ فرما رہے ہیں کہ’’ ۹۹۹ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک تم میں سے‘‘ تو اس تناسب میں صحابہ بھی شامل ہو ہی جاتے  ہیں۔ لیکن اگراس  دور از کار تاویل  کو  مان لیا جائے کہ ۹۹۹ فی ہزار والی بات ’’ کسی خاص دور میں یاجوج ماجوج کی کثرت کے مقابلے میں اسی خاص دور کے مسلمانوں کی قلت‘‘ کے لیے ہی صحیح ہے تو  پھر اس حدیث کے مفہوم کو کچھ اس طرح بیان کرنا ہوگا:
’’ایک دور آئے گا جب یاجوج ماجوج  نامی ایک قوم مسلمانوں کا ۹۹۹ گنا ہو جائے گی۔اور اللہ تعالیٰ اسی خاص دور کے متعلق حضرت آدم علیہ السلام سے کہہ رہا ہے کہ اے آدم ، ایک خاص دور میں اپنی اولاد میں سے ۹۹۹ فی ہزار کے تناسب سے جہنمیوں کے جتھے کو الگ نکال  لو۔ ‘‘ لیکن یہ تاویل حدیث کی بقیہ تفصیلات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور ایسا سمجھنا مصنف کے منشا کے  بھی بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ آگے اسی حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمان  دیگر قوموں کے مقابلے میں  بال برابر ہوں گے اور یہی بال برابر لوگ جنت کا آدھا حصہ ہوں گے  ۔ اس پس منظر میں ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ  یاجوج ماجوج اور مسلمانوں کے ۹۹۹ فی ہزار کے تناسب  کو کسی خاص دور تک محدود کر دینا معروضیت کے ساتھ ساتھ ’’ مصنف کے منشا ‘‘ کو بھی  خیر باد کہہ دینا ہے۔ اور اگر احادیث مبارکہ میں اس قدر اٹکل لگانا جائز ہے جس کی اصل متن میں کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی تومیری اس  تعبیر پر آپ کو اعتراض کیوں ہے کہ ایسی باتیں  لوگوں میں خوف خدا پیدا کرنے کی غرض سے فرمائی گئیں؟
پھر سب سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ ساری تاویلیں اسی لیے چل رہی ہیں نہ  کہ۹۹۹ فی ہزار والی تعداد کو ہمارا ذہن قبول نہیں کر رہا ہے۔ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس تعداد سے نجات حاصل ہو۔منقولات کی یہی وہ گرفت ہے جو ہر داعی کی عقل کو خبط کر کے رکھ دیتی ہے۔ اپنے تجزیے کے ذریعے   اس کی عقل پر نقل کی جو گرہ پڑی ہوئی ہے ، میں اس کو کھولنے کی پوری  کوشش کر رہا ہوں۔ اگر ایک بار یہ گرہ کھل جاتی ہے تو پھر مذہب کا صحیح تصور اس کو انشا اللہ سمجھ میں آ جائے گا۔
اگر ہم جہنم میں جانے والوں کی تعداد کو کم کرنا ہی چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ۹۹۹ فی ہزار والی بات کا وہ مفہوم نہیں ہے جو بظاہر نکل رہا ہے  تو پھر ہم جنت اور جہنم میں جانے والوں کی تعداد کا آخر کیا تناسب قائم کرسکتے ہیں؟  ہم جانتے ہیں کہ قرآن و سنت  کی روایتی تشریح کے مطابق عقیدہ جنت میں داخلے کی لازمی شرط ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آنکھ اٹھا کر دیکھیے  کہ اس دنیا میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کی تعداد کا صحیح تناسب کیا ہے؟ دنیا میں عیسائی، ہندو، چینی  کس قدر زیادہ تعداد میں  پائے جاتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اکیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے یہ سب لوگ اسلام قبول کر لیں گے؟ پچھلی صدیوں میں جس قدر غیر مسلم قوموں کے لوگ دنیاسے کوچ کر چکے ہیں کیا وہ سب جہنمی ہیں؟روزانہ جس قدر  عاقل و بالغ غیرمسلم فوت ہوتے ہیں کیا وہ سب جہنم میں جائیں گے؟ قرآن و سنت کی روایتی تشریح کی  رو سے جواب اثبات میں ہے۔روایتی فہم  کے اعتبار سے معاذاللہ  جب عقیدہ کی بنا پرآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے  چچا  حضرت ابو طالب (رضی اللہ عنہ )کو ہی نہیں بخشا گیا تو اور کس کی بخشائی ہو سکتی ہے؟   
پس، دین کے روایتی نقطہ نظر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ۹۹۹ فی ہزار کی تعداد کو کم کر کے بتانا ، یا اس میں کسی تخفیف کا مرتکب ہونا خود غیر اسلامی طرز فکر ہے، اور قرآن و سنت سے صریحاً  متصادم ہے۔اور جب بات روایت ہی کی پاسداری کرنے کی ہے ، عقلی نوعیت کے سوالوں کا گلا گھونٹتے رہنے کی ہے تو مولانا مودودی یا جماعت اسلامی ہند میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، میرے لیے علمائے دیوبند اور بریلی کی کتابیں کافی ہیں۔اور وہاں بھی جگہ نہ ملے تو درجنوں خانقاہیں اور درگاہیں موجود ہیں، خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہے، حضرت نظام الدین اولیا کا آستانہ ہے۔روحانی سکون کے لیے ادھر کا ہی رخ کروں گا۔لیکن عقل اور نقل کے درمیان اَدھر لٹکتا رہنا مجھے منظور نہیں ہے۔
[ بعض لوگ  اپنی دانست میں میرے اوپر رحم کھاتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو جنت اور جہنم کے تناسب پر غور کرنے کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ جتنے افراد کو چاہے گا جہنم میں بھیجے گا، آپ کو ایسی باتیں کرنے سے کیا فائدہ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ زیر بحث حدیث ایسے کسی  تناسب سے کافی و شافی طور پر بحث کرتی ہے اور ظاہری  و معروضی اعتبار سے یہی اس کا موضوع بھی ہے، اور جو کوئی بھی ایسی حدیثوں کو پڑھے گا، اس کے ذہن میں ایسے سوالات  ضرور پیدا ہوں گے۔ اور ان سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ کم ازکم اندر سے کافر  ہوجائیں ، چاہے باہر سے اس کا پتا نہ لگایا جا سکے۔( میری اس تحریر کو میرے فیس بک کے نوٹ ’’جہنم کا عقیدہ اور انسانی عقل ‘‘کے ساتھ ملا کر پڑھا جا نا چاہیے۔)]

حدیث کا معروضی مفہوم اور آپ کی دور از کار تاویلیں

اب آپ یہ  بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ  اس حدیث کی تمام تر باتوں پر من و عن یقین رکھتے ہیں اور وہ سب کچھ مانتے ہیں جو معروضی طور پر اس حدیث سے  نکل رہا ہے کیونکہ آپ اس مفہوم کی تاویل پہلے ہی  کر چکے ہیں:
 اصل حدیث میں صحابہ اور آں حضرت ﷺکے درمیان کی پوری گفتگو نقل کی گئی ہے۔ جو حیرت آپ کو ہورہی ہے وہی صحابہ کو بھی ہوئی۔  تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ابشروا فانّ من یاجوج و ماجوج الفا ومنکم رجل یعنی  ۹۹۹ لوگ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور ایک آدمی تم میں سے۔ یعنی قیامت کے قریب  فتنون کے زمانہ میں یاجوج ماجوج جیسے خونخوار اور ظالم لوگوں کی نسل اس تیزی سے بڑھے گی کہ  تعداد کے اعتبار سے وہ نیک لوگوں کے مقابلہ میں کئی گنا ہوجائیں گے۔اور بالآخر یہ وحشی جہنم کی نذر ہوں گے۔ آپ اس پوری حدیث کو نظر انداز کرکے صرف ایک فقرہ نقل کردیتے ہیں اور اس بات کو قارئین سے چھپاتے ہیں کہ بعینہ یہی حیرت جس کا اظہار ہورہا ہے وہ صحابہ کو بھی ہوئی  اور حضور نے اس کا یہ جواب دیا۔
عام حالات میں حدیث کا ایک فقرہ نقل کردینا ایک الگ بات ہے۔ لیکن آپ کسی جملہ پر اعتراض کررہے ہیں اور اس سے اگلے جملہ میں خود کہنے والا اس اعتراض کا جواب دے رہا ہے اور آپ اسے نظر انداز کرکے صرف معترضہ جملہ نقل کررہے ہیں، کیا یہ علمی بددیانتی نہیں ہے؟حالانکہ ابو سعید خدری سے مروی اس حدیث کو امام بخاری نے باب یاجوج و ماجوج میں رکھا ہے۔یعنی بحث یاجوج ماجوج کی چل رہی ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ خود یاجوج ماجوج جیسے ظالم قبائل کو اللہ  تعالی کیوں پیدا کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی موجود ہے اور آپ کو معلوم ہے۔سرکش اور خوں خوار لوگوں کو سزا دینے والا ظالم نہیں کہلاتا اور اللہ تعلی کی صفات میں جہاں رحمن و رحیم کا ذکر ہے وہیں قہار و جبار کابھی ذکر ہے۔‘‘
دیکھا، آپ نے کیسے  حدیث کے معروضی مفہوم  (text on page meaning)  میں خود آپ نے  تحریف کی۔  یہی نہیں آپ نے خود ’’مصنف کے منشا‘‘ کا خیال نہیں رکھا،  ظاہری الفاظ کی پیروی بھی نہیں کی ۔ اور معنوی پہلو پر بھی ایسی کوئی ناقدانہ نظر نہیں ڈالی  کہ تاریخ میں ایک جنتی  مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹  جہنمی افراد کا تناسب رکھنے والی کوئی قوم ایسی  نہیں گزری ہے جس نے روئے زمین پر اتنی بڑی تباہی مچائی ہو۔ تباہی تو  کئی  بڑی قوموں نے مچائی ہے جن پر یاجوج ماجوج کا اطلاق  ہرگز نہیں کیا جا سکتا ،مثلاً منگول اور تاتاری، کیونکہ اول تو  ان کی عددی قوت مسلمانوں کے مقابلے میں اتنی بڑی نہیں  ہو سکتی  اور دوم یہ ہے کہ آگے چل کر ان کی بڑی تعداد اسلام قبول  کرنے کے سبب جہنم میں داخل بھی نہ ہو سکی۔ پھر احادیث میں یہ پیش گوئی بھی نہیں ملتی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تم یاجوج ماجوج کو کلمہ شہادت پڑھتے دیکھو گے! اگر  یاجوج ماجوج سے مراد منگول اور تاتار قوم تھی تو ان کے قبول اسلام کی پیش گوئی بھی لازماً ہونی چاہیے تھی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم یاجوج ماجوج بھی ہو ،ان کی ایک بڑی تعداد اسلام بھی قبول کرے  اور اس کی بشارت نہ دی جائے۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ یورپی قوموں نے دو عالمی جنگوں کی شکل میں منگولوں  اور تاتاریوں سے زیادہ  تباہی دنیا میں مچائی ہے۔لیکن انہیں  یاجوج ماجوج نہیں  سمجھا جاتا۔  فی الحال یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ قیامت کتنی دور یا قریب ہے لیکن یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسے یاجوج ماجوج  اب تک نہیں آئے جو مسلمانوں سے ۹۹۹ گنا زیادہ ہوں۔ظاہر ہے یاجوج ماجوج نے مستقبل میں ہی آ کر تباہی مچانی ہے۔ لیکن  مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہی مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں اور آئندہ ان کی تعدادمیں اضافہ  ہی ہوگا۔ لیکن چلیے مستقبل میں مسلمانوں کی تعداد کوتجزیے کی آسانی کے لیے  صرف ایک  ارب مان لیا جائے  تو حدیث کے الفاظ کے مطابق  یاجوج ماجوج کی تعداد کو ۹۹۹ ارب ہونا چاہیے۔ پانچ سات ارب کی آبادی میں ہی دنیا کا یہ حال ہو گیا کہ فیملی پلاننگ کے ذریعے اس پر قابو پایا جا رہا ہے!  کیا  مستقبل میں  دنیا کی آبادی میں کبھی اتنا بڑا اضافہ ہو سکتا ہے، الا یہ کہ انسانی آبادیاں چاند اور مریخ پر بھی بسائی جائیں؟ لیکن ایک داعی کے تاویلاتی ذہن سے یہ بھی بعید نہیں ہے کہ وہ نظام شمسی کے دیگر سیاروں پر انسانی آبادی کے جا بسنے کی پیش گوئی کرنے لگے! پھر یاجوج ماجوج  کو لازماً چاند اور مریخ سے آ کر زمین پر تباہی مچانی ہوگی کیونکہ مستقل قریب یا بعید میں اتنی بڑی آبادی کا اس  روئے زمین پر  پایا جانا تو مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ کیونکہ جیسے  ہی دنیا کی آبادی میں کوئی بہت بڑا اضافہ ہوگا، مثلاً دس بیس گنا، تو انسان یا تو اس پر  خود قابو پا لے گا یا پھر آفات ارضی و سماوی کے ذریعے اللہ تعالیٰ آبادی کم کرنے کی کوئی تدبیر کر دے گا۔لیکن کسی مستقبل  قریب یا بعید میں ایک ڈیڑھ  ہزار ارب کی آبادی، اور وہ بھی صرف ایک قوم یاجوج ماجوج کی آبادی کا تصور کرنا اس قدر بعید از عقل ہے کہ مطلق  سادہ دل اور سادہ لوح افراد سے ہی اس کی توقع ہے۔  
اوپر کے پیراگرا ف میں میرے ذریعے پیش کردہ  ناممکنات  کی پوری فہرست کو  ذہن میں رکھتے ہوئے  علمائے ظواہر کو لازماً اب یہی تاویل کرنی ہوگی: ’’ مسلمانوں سے ۹۹۹ گنا زیادہ تعداد والی یاجوج ماجوج کی اس قوم کا تعلق مستقبل سے نہیں بلکہ ماضی سے ہے،  اور وہ تاریخ کے کسی دور میں  تباہی مچا کر جا چکی اور اب کبھی لوٹ کر  نہ آئے گی۔‘‘  کیونکہ جیسے ہی وہ  لوٹ کر دوبارہ آئے گی حدیث کے مطابق اس کی تعداد کوبہرحال  مسلمانوں سے ۹۹۹ گنا زیادہ ہوجانا ہے۔  پس، علمائے ظواہر کے  لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ماضی میں پناہ لیں اور نت نئی تحقیقات سے یاجوج ماجوج کا  ماضی میں آکر تباہی مچانا ثابت کر دیں تاکہ اس حدیث کا  واقعاتی صداقت ہونا خطرے میں نہ پڑے۔ عین ممکن ہے آپ  ہی کے قلم سے یہ تحقیقی کارنامہ انجام پائے۔ لیکن باجود اس قدر ’’مشکوک ‘‘ ہونے کے میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں یاجوج ماجوج کے آنے کی ۹۹۹ فی ہزار گنجائش بھی نہیں ہے۔ جب تک ہم احادیث نبوی کی تخویفی و تشویقی نوعیت کو تسلیم نہیں کر لیتے تب تک ایسی تحقیقات، تعبیرات ، تشریحات اور تاویلات جاری رہتی ہیں اورمسلمان عوام اور  علمائے کرام کی قوت اسی سب میں صرف ہوتی رہتی ہے۔میری بھی صرف ہو رہی ہے۔لیکن اگر آپ مجھ پر بددیانتی کا  سوال  قائم کرنے سے پہلے خود ہی ان سب باتوں پر غور کر لیتے تو میرا وقت بھی بچتا اور آپ کے تبصرے کے دیگر نکات سے بحث ہو سکتی۔
اب اپنی  اتنی غیرمعقول تاویلوں کے بعد آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث ضعیف یا کسی اور سبب سے ناقابل اعتبار  ہے۔کیونکہ اگریہ حدیث آپ کے نزدیک  ناقابل اعتبار تھی تو تاویل کرنے کی  سرے سے کوئی ضرورت  ہی نہ تھی۔ آپ کہہ دیتے کہ میں اس حدیث کو ناقابل اعتبار سمجھتا ہوں ۔پس بخاری کی اس حدیث کو آپ مستند سمجھتے ہیں اور اس سے انکار نہیں کر سکتے ۔ انکار کی صورت میں آپ روایتی  علمائے کرام کے فتووں کی رو سے مومن نہ رہیں گے۔ حالانکہ میں اس حدیث کو ہر لحاظ سے  مستند نہیں مانتا ۔ میں اس کو تخویفی و تشویقی نوعیت کی حدیث سمجھتا ہوں جس کا حقیقت واقعہ سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ اور صرف اتنی سی بات کے لیے  کہ میری انسانی عقل سوال کرتی ہے،کوئی مجھے ملحد اور کافر بنائے تو اس کو پہلے اپنے ایمان پر غور کرنا چاہیے کہ اس کا دل کسی گناہ میں تو مبتلا نہیں ہے۔
ہمارے یہاں ایک انتہائی ناروا طریقہ یہ  اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے ہی احادیث نبوی کی بعض باتوں میں  کوئی ناقابل انکار عقلی مسئلہ نظر آیا ، فوراً اس کے استناد پر سوال اٹھا دیا گیاکہ یہ حدیث تو موضوع ہے، کہ یہ حدیث تو ضعیف ہے، کہ یہ حدیث غریب ہے، کہ اس کی  سند منقطع ہے۔(موسیقی کو جائز کرنے کے لیے بخاری کی ایک حدیث  کی سند کو ابن حزم کے حوالے سےمنقطع قرار دیا گیا، دیکھیے کلام نبوت حصہ سوم) گویا منقولات کو بہرحال حجت تسلیم کرنا ہے اور اس  میں کوئی آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کا موقع آئے  تو سرے سے اس کی صحت کا  ہی انکار کر دیا جائے۔یا پھر’’ راوی کو سہو ہوا‘‘ ،  ’’وہ بھول گیا‘‘،یا اس جیسی کوئی  دوسری بات اڑا دی جائے۔ لیکن آپ اب یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ اب  آپ کو اپنے روایتی اصولوں کی مدد سے  اس حدیث سے نکلنے والے ہر صریحی مفہوم کا اطلاق صورت واقعہ پر کرنا ہوگا۔یہ نہیں ہو سکتا کہ اس حدیث کی ایک خبر کوتو  آپ  واقعاتی صداقت تسلیم کریں اور دوسری خبر کو واقعاتی صداقت کے دائرے سے خارج کر دیں۔ آپ اس حدیث کو واقعاتی صداقت تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے لکھے کو ایک بار پھر دیکھ لیجیے:
’’قیامت کے قریب  فتنون کے زمانہ میں یاجوج ماجوج جیسے خونخوار اور ظالم لوگوں کی نسل اس تیزی سے بڑھے گی کہ تعداد کے اعتبار سے وہ نیک لوگوں کے مقابلہ میں کئی گنا ہوجائیں گے۔اور بالآخر یہ وحشی جہنم کی نذر ہوں گے‘‘۔
پتا نہیں  یہ’’ کئی گنا ‘‘ کا لفظ  آپ کہاں سے نکال لائے ۔ آپ خود کہتے ہیں کہ ’’ کسی بھی متن کو ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ متن میں جو منشا مصنف کا واضح ہو رہا ہے، اسے مانا جائے‘‘ اور خود  اپنے ہی اصول کی خلاف ورزی  بھی کررہے ہیں۔  حدیث میں تو  یہ بات آئی ہے کہ  ’’ اگر یاجوج ماجوج کی نسل تم سے ملائی جائے تو ان میں سے نو سو ننانوے کے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا۔‘‘ وہاں ۹۹۹ گنا کی بات ہو رہی ہے اور آپ فرما رہے ہیں کئی گنا! یہی آپ مصنف کے منشا کو مان رہے ہیں؟  
اگر آپ اپنے اس ’’کئی گنا‘‘ کی مدافعت میں یہ  کہیں گے کہ  ۹۹۹ کا عدد صرف کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے تو پھر آپ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ کہ صحابہ نے  ۹۹۹ کو۹۹۹ ہی سمجھتے ہوئے اللہ کے رسول سے یہ سوال کیوں کیا کہ وہ ایک خوش نصیب شخص ہم سے کون ہوگا؟   (دیکھیے صحیح بخاری، کتاب الرقاق، حدیث نمبر( 6530۔ ظاہر ہے ۹۹۹ اور ایک کے تناسب کو کئی گنا کہنے کی یہ تاویل یہاں نہیں چل سکتی الا یہ کہ مصنف کے منشا کو خیر باد کہہ دیا جائے!۔   یا اب آپ یہ فرمائیں گے کہ ’’مصنف کا منشا‘‘ صرف قرآن میں چلتا ہے، حدیث میں نہیں کیونکہ احادیث قرآن جیسی قطعیت نہیں رکھتیں۔ لیکن قرآن میں تو یہ صاف فرمایا گیا ہےکہ: جو کچھ رسول تمہیں دےاسے لے لو، اور جس چیز سے روکے ، اس سے رک جاو۔‘‘ پھر رسول جو کچھ دیں وہ سوائے سنت کے اور کہاں پایا جا سکتا ہے؟ اور سنت وہ ہے جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے اور علم و عمل (مع عقیدہ  اوراورادو ظائف) کی صورت  میں عملاً جاری و ساری ہے۔ احادیثِ صحیحہ یہی کہتی ہیں کہ ایمان کے بغیر نجات نہ ہوگی، اسی طرح عملاً بھی جمہور امت  یہ سمجھتی  ہے  کہ ایمان  کے بغیر نجات نہ ہوگی۔ احادیث یہ کہتی ہیں کہ جہنم میں جنت سے سیکڑوں  نہیں بلکہ ہزار گنا زیادہ افراد ہوں گے اور مسلمان عملاً بھی یہی سمجھتے آرہے ہیں۔ پھر آپ کے اس ’’کئی گنا‘‘ کی تشریح کی  کیا گنجائش ہے؟ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ امت محمدیہ جنت کی آدھی آبادی ہوگی اور اس کے مقابلے میں یاجوج ماجوج ۹۹۹ گنا زیادہ کی تعداد میں جہنم میں جائیں گے۔ اورجو ’’حیرت‘‘ مجھے ہو رہی ہے ، بعینہ وہی حیرت صحابہ کو بھی ہوئی تھی جس کا جواب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیا اس کی رو سے جہنم میں جنت سے کم سے کم  499.5  گنا زیادہ آبادی ہوگی (مسلمان جنت میں آدھے ہوں گے اور ایک مسلمان کے مقابلے میں ۹۹۹ یاجوج ماجوج جہنم میں جائیں گے اس حساب سے )؟ آپ خود انصاف سے بتائیے، کیا یہی اس ’’حیرت‘‘ کا جواب ہوا جو مجھے اور آپ کے بقول ’’صحابہ‘‘ کو ہوئی؟ پھر یہی نہیں کہ آپ کے اس قول سے صحابہ کا متحیر ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ گویا صحابہ مجھ جیسے مشکوک لوگ تھے جو متحیر ہوئے۔ حالانکہ صحابہ کو وہ حیرت بالکل نہیں ہوئی،وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نوع کی باتوں کوواقعاتی صداقت  ہی فرض کرتے تھے۔ یعنی وہ ۹۹۹ کو ۹۹۹ ہی سمجھتے تھے۔لیکن  آپ نے ۹۹۹ گنا کو ’’کئی گنا‘‘ فرمایا۔ اللہ کے رسول کی بات کے خلاف باوجود اپنی نیت کی صالحیت کے آپ نے ایک بات کہی۔ ۹۹۹ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ’’کئی گنا‘‘ نہیں ہے۔ میں تو مشکوک ہوں ہی، خود آپ کو کون سا شک اب لاحق ہو رہا ہے کہ ۹۹۹ کی عظیم تعداد کو صرف ’’کئی گنا‘‘ تک محدود کر رہے ہیں؟ اگر اللہ تعالٰی قادر مطلق ہے تو وہ ۹۹۹ فی ہزار بلکہ اس سے زیادہ کی تعداد کو جہنم میں کیوں نہیں بھیج سکتا؟ کس جذبے کے تحت، کس عقلی یا نقلی، یا لسانیاتی و روایتی، یا فن حدیث میں موجود کس دلیل کے تحت آپ نے ۹۹۹ کو ’’کئی گنا‘‘ کے لفظوں میں ملفوف کر کے پیش کیا؟ ۹۹۹ سے ’’کئی گنا‘‘ کے معنی کیسے لیے جا سکتے ہیں الا یہ کہ آپ کو بھی  اس بات پر شک ہو اور اسے صرف ’’کئی گنا‘‘ قرار دے کر اس پر سے دوسروں کے اور خود اپنے ذہن کو ہٹا  دینا چاہتے ہوں؟
پس یہ رہا آپ کے ذہن میں موجود کا شک کا ایک  کیڑا ، جس کو تجزیہ و تحلیل کے اپنے عمل میں چمٹے سے پکڑ کریا الیکٹران مائیکرواسکوپ  میں بار بار آپ کو دکھا رہا ہوں تاکہ آپ خود سورہ ٔ ناس پڑھ کراس کودور کرسکیں۔ میری ایسی تحریروں میں اسی لیے طوالت پائی جاتی ہے تاکہ خوب صاف طور پر آپ اپنے اندر موجوداس  شک کو دیکھ سکیں جو بنائے اصلی ہے ان تمام دور از کار تاویلات کی جن میں آپ خود بھی مبتلا ہیں۔ رہی بات میری، تو بلا شبہ آپ اس کو بھی ’’دورازکار‘‘ کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ متن کے معروضی معنوں کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن پہلے اپنے ’’دور از کار‘‘ کو تو ’’قریب از کار‘‘ لے آئیے۔ میں تو صاف بتا رہا ہوں کہ میں اپنے ’’دور از کار‘‘ میں کیوں مبتلا ہوں؟ دراصل ہم سب اپنے اپنے دور از کاروں  میں گزر بسر کر رہے ہیں۔  مجھے تو اپنے دور از کار کی خبر ہو گئی۔ لیکن دبستان مودودی کی فکری عصبیت میں مبتلا تحریکِ اسلامی کے دیگر افراد کو اپنے دور از کار کی خبر کب ہوگی؟  
آپ کے نزدیک قرآن و سنت میں جنت اور جہنم کی تفصیلات اس قدر شرح و بسط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں کہ اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ باتیں بطور تمثیل ہیں یا صرف خوف پیدا کرنے کے لیے دی گئی ہیں‘‘۔ لیکن  میرے نزدیک اصل مسئلہ یہی تو ہے کہ آخر  اس قدر وضاحت سے ایسی تفصیلات اسلام میں پائی کیوں جاتی ہیں؟ اور وہ بھی ۹۹۹ فی ہزار جیسی، جہنم میں عورتوں کی اکثریت جیسی!اگر صرف مجردات میں گفتگو کی گئی ہوتی تو روایتی اسلام زیادہ قابل یقین ہوتا۔  
’’مصنف کے منشا ‘‘کو اگر آپ مانتے ہیں تو اب اپنے اس اصول سے انحراف کیا معنی؟ تسلیم کیجیے کہ امت محمدیہ تمام دیگر قوموں کے مقابلے میں بال برابر تعداد میں  میدان حشر میں نظر آئے گی۔ اور یہی بال برابر لوگ  جنت کی تمام تر آبادی  کا آدھا ہوں گے! اگر جنت واقعی اتنے قلیل التعداد لوگوں کی ہے تو پھر دنیا کی دولت کو اتنی قلیل التعداد اقلیت  کے ہاتھ  میں سمٹتے چلے جانے کی مارکسوادیت  میں آپ حضرات کیوں مبتلا نظر آتے ہیں؟  مٹھی طبقہ ٔ اشرافیہ کے خلاف اس قدر شورو  شغب کہ اسلامی نظامِ زکوٰۃ  کی تبلیغ کریں اور مٹھی بھر ’’طبقہ ٔ ایمانیہ‘‘  کے فردوس بریں میں جانے اورحشرات الارض کی طرح  روز انہ پیدا ہوتے اور مرتےہوئے لاتعداد انسانوں کے  واصلِ جہنم  ہونے  کا عقیدہ رکھنے  پر دل میں ذرہ برابر کوئی کھٹک نہیں! آٹے میں نمک کے برابر لوگ جنت میں ہوں اور آٹے کی بوریوں پر بوریاں  جہنم میں ، کیا اس بات پر آپ  تھوڑا  بھی غور نہیں کرسکتے؟

مذہب اورواقعاتی صداقت

معروضی نقطہ نظر سے فی الحال سنت کی حد تک آپ کے وہ تمام پانچوں اصول غلط ہو چکے ہیں۔  اور اصولاً اب آپ کو یہ مان لینا چاہیے کہ زیر نظر حدیث کے ظاہری معنوں پر ایمان لانا صحیح نہیں ہے ۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس قسم کے  مذہبی منقولات  میں واقعاتی نہیں بلکہ  اخلاقی نوعیت کی صداقت پائی جاتی ہے، اور اسی لحاظ سے ایسی حدیثوں پر میں ایمان بھی لاتا ہوں۔ میں اپنی جگہ یہ سمجھتا ہوں کہ  جنت و جہنم سے متعلق واقعاتی نوعیت کی یہ تفصیلات  جزیرۂ عرب کے لوگوں میں خوف خدا پیدا کرنے  کی غرض سے ایک خاص دور میں وجود میں آئیں، اور اس کا مقصد ان کی اخلاقی اصلاح کرنا تھا۔بے شک جنت اور جہنم کی کوئی نہ کوئی شکل ایسی موجود ہے جس پر انسان کو ایمان لانا چاہیے لیکن واقعاتی نوعیت کی تمام تر مصدقہ  تفصیلات پر ایمان لانے سے  اسلامی عقائد میں جو عقلی مسائل پیدا ہوتے اور اس پر جو اخلاقی اعتراضات  وارد ہوتے ہیں ان کے سبب خود اسلام کی حقانیت مشتبہ ہو جاتی ہے۔ موجودہ ہ دور کے انسان ان پر ایمان نہیں لا سکتے الا یہ کہ چند ہزار یا لاکھ لوگ اپنی مذہبی عصبیت کے زیر اثر ان کی تاویل کرنے کی ناکام  کوشش کرتے رہیں  جس کا ایک نمونہ خود آپ نے پیش فرمایا ہے۔ خدارا مذہب کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کیجیے اور ان فروعات سے باہر نکل کر مذہب کے عقلی تصور پر از سرِ نو غور کیجیے ۔ جن ادیان و ملل کا  تاریخی ارتقا رک جاتا ہے  ان میں نہ فلاسفہ پیدا ہوتے ہیں، نہ سائنسداں اور نہ کوئی تکنیکی ترقی ان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فلسفیانہ پسماندگی سائنسی پسماندگی کا پیش خیمہ ہے،جس کے بعد تکنیکی ارتقا کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں ۔ زوال پذیر  تہذیبوں  کا عروج تبھی ہو سکتا ہے جب وہ فلسفہ کے مقفل ابواب کو ایک بار پھر کھولیں، مذہب کے باب میں روایت نقلی کے بجائے درایت عقلی کو ترجیح دیں  اور ازسرنو غور کریں کہ مذہب کی تجدید، اصلاح، ارتقا یا تشکیل نو کی دورِ جدید میں فی الواقع کیا ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں  کہ میری ایسی باتوں کے سبب مجھے ملحد  کہا جائے گا ۔لیکن ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ  الکندی، فارابی، ابن سینا، ابن رشد، علامہ اقبال، نیاز فتح پوری، اور فضل الرحمان سب پر مذہب میں عقل سے کام لینے کے سبب کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے ہیں۔اور  جن اسلامی شخصیات کی عبقریت کا انکار علمائے ظواہر سے ممکن نہیں ان کے متعلق وہ ’’ معتبر‘‘ شہادتیں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں مرتے وقت انہوں نے  اپنے  ملحدانہ خیالات سے رجوع کر لیا تھا۔  مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ علامہ اقبال جیسے  بڑے بڑے ملحدوں [4] کو  آخری عمر میں ہی  توبہ کی توفیق کیوں ملتی ہے کہ انہیں اپنے سابقہ نظریات کے خلاف   چند  پیراگراف لکھنے  تک کا موقع  تک نہیں مل پاتا؟
آپ کے پچھلے تبصرے  کے بقیہ دلائل پر مزید غور و فکر کے بعد کچھ عرض کروں گا۔ 

والسلام
آپ کا ہی
طارق احمد صدیقی

حیدرآباد، ۲۶ جنوری ۲۰۱۲ عیسوی


[1] سعادت اللہ حسینی صاحب کا وہ جواب جو انہوں نے میڈیافائر پر پوسٹ کیا تھا اس کا لنک درج ذیل  ہے :
[3]  جہنم کا عقیدہ اور انسانی عقل کے عنوان سے لکھے گئے اس نوٹ کو درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں: