نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مذہب و تصوف اور فلسفہ و سائنس کا منتہائے مقصود

یہ کائنات نہ کوئی ڈیزائن ہے اور نہ اس کا کوئی ڈیزائنر۔ اور نہ یہ کائنات عدم ڈیزائن ہے جس کا ڈیزائنر معدوم ہے۔ یہ دونوں بیانات ناقص ہیں۔ ہم بحیثیت انسان بذریعہ حواس خارج میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ دراصل ہماری وجدان کی مشین اور ذہن ہی سے پروسیس ہو کر نکلتا ہے۔ اور وجدان کے اس جھروکے سے نظر آنے والی یہ کائنات ایک ایسی احدیّت کے طور پر ابھرتی ہے جس میں یہ ڈیزائن صرف ایک منظر ہے جس کی شناخت عدم ڈیزائن کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں منصوبہ بھی ایک منظر ہے جس کی شناخت عدمِ منصوبہ کے دوسرے منظر سے ہوتی ہے۔ کائنات میں چیزیں ایک دوسرے کے بالمقابل ہی شناخت ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ ہے اس لیے کوئی منصوبہ ساز ہونا چاہیے، یا کائنات بجائے خود کوئی ڈیزائن ہے اس لیے اس کا ڈیزائنر لازماً ہونا چاہیے ناقص خیال ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ اس کائنات میں عدم ڈیزائن ہے اور اس لیے اس کا کوئی ڈیزائنر نہیں ہے یہ بھی ایک ناقص خیال ہی ہے۔ یہ دونوں بیانات آدھے ادھورے مناظر کی تعمیم کی بنا پر گمراہ کن قیاس کی مثالیں ہیں۔ یاد رہے کہ منصوبہ صرف ایک منظر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ڈیزائن...

تہذیبوں کا تصادم اور مولانا مودودی

مولانا مودودی کا مضمون "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب" ماہنامہ ترجمان القرآن کے ستمبر 1934 عیسوی کے شمارے میں شائع ہوا تھا. درج ذیل اقتباس سے معوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے گ...

قرآن کریم کی دو رخصتیں

ایک اہم اسٹیٹس پر میرے کچھ تبصرے: Tariq Ahmad Siddiqiقرآن کی وضربوھن والی آیت کی کیا نئی تفسیر ہو سکتی ہے تا کہ اس کی رو سے مرد کا عورت کو (یعنی شوہرکا بیوی کو) مارنے کا اختیار رکھنا ممنوع قرار پائے، اور متعدد دیگر معاملات میں عصری تقاضوں کے تحت قرآنی آیات کے نئے معانی وجود میں آ جائیں؟ 6 نو مبر کو 8:55 ﺻﺒﺢ بجے · Edited · Like Muhiuddin Ghazi طارق صاحب قرآن مجید میں اپنی مرضی کا حکم تلاش کرنے کے بجائے اللہ کا حکم تلاش کریں. اور پهر دیکهیں کہ اللہ کے حکم کی کیا شان ہوتی ہے اور وہ بندوں کے وسیع تر حقیقی مفادات کی کتنی حفاظت کرتا ہے. عصری تقاضوں سے زیادہ اہمیت ابدی تقاضوں کی ہوتی ہے. 6 نو مبر کو 9:40 ﺷﺎﻡ بجے · Like · 3 Tariq Ahmad Siddiqi سورہ نور کی درج ذیل آیت میں نکاح کے سلسلے میں جو ابدی ہدایات پیش کی گئی ہیں (یا آپ کے نقطۂ نظر کی رو سے جن ابدی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور ان میں جو آپشن دیے گئے ہیں، ان کی تمام شقوں پر عمل آوری کی کیا صورت آج لوگوں کو میسر آ سکتی ہے؟: وَ اَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىِٕكُمْ١ؕ اِنْ ي...

مسئلہ ٔ ارتداد پر ایک حدیث کا تجزیہ

[چند سال قبل ہمارے ایک دوست نے مسئلہ ٔ ارتداد پر مولانا عنایت اللہ سبحانی کے حوالے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی تاویل پیش کی تھی۔ ان کی تاویل کے مطابق اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اسلام میں تبدیلی مذہب ارتداد کے مترادف نہیں ہے اس لیے مذہبِ اسلام ترک کرنے کی سزا ‘‘قتل ’’ نہیں ہے۔میں نے اس کے جواب میں ایک طویل تبصرہ لکھا تھا جس پر آج اتفاق سے میری نظر پڑ گئی۔ میں نے اپنے لکھے تبصرے کو دوبارہ پڑھا اور قارئین کے فائدے کی غرض سے اس میں چند حذف اور اضافے کے بعد اسے بلاگر پر پوسٹ کر رہا ہوں:۔]

اسلام اور مسلمانوں کو درپیش اصل خطرے

18 اپریل 2018 کو فیس بک پر میں نے درجِ ذیل مراسلہ لکھا تھا: دین خطرے میں ہے۔ مجھے بھی اس جملے سے لفظ بہ لفظ اتفاق ہے۔ لیکن کیوں اور کیسے خطرے میں ہے، اس پر میری رائے دنیا کے بہت سے لوگوں سے علیحدہ ہے۔ ہمارا دین آج سے چودہ سو سال پہلے وجود میں آیا اور پہلا خطرہ اس دین کو تب پیش آیا جب عالم اسلام میں یونانی فلسفہ داخل ہوا۔ اس وقت کے مسلمانوں نے اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں اسلام میں علوم عقلیہ کا ظہور ہوا اور ہر بات کو عقل کی میزان پر تولا جانے لگا۔ ذات باری تعالیٰ کے متعلق مختلف قسم کے سوالات کیے جانے لگے، وجودی اور شہودی جھگڑا پیدا ہوا۔ وحی و رسالت پر مختلف قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور عقیدہ ایسا غیر متزلزل ہوا کہ اس کے اجزائے ترکیبی کے ٹوٹنے بکھرنے ک سلسلہ آج تک جاری ہے۔ دوسرا خطرہ دور جدید میں مغرب کے فلسفیانہ اور سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی کے ہمہ گیر عالمی غلبہ سے پیدا ہوا اور عقائد دینیہ کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ بھی سوالات کے دائرے میں آ گئی۔ اب عقیدہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین، احکام اور ہدایات کی غیر موزونیت پر گفتگو ہونے لگی۔ ایسے متکلمی...

اسلام میں چہرے کا پردہ اور تجدد پسندوں کا فہم قرآن

1 بعض اسلامی تجدد پسند یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے چہرے کا پردہ ثابت نہیں ہے۔ لیکن میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ملاحظہ ہو ایک فیسس بک دوست ا۔ش۔ صاحب کے ایک اسٹیٹس پر میرا درجِ ذیل تبصرہ: ذرا تفصیل کے ساتھ احزاب کی ان آیات پر غور کریں: وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ۠ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب ۵۳) يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۰۰۵۹ اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (احزاب ۵۹...

تلاوت یعنی پڑھنا اور سمجھنا دونوں؟

عصرِ حاضر کے ایک بلند پایہ عالم دین مولانا ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو فیس بک پر’قرآن کو سمجھ کر پڑھنے‘‘ سے متعلق ایک اسٹیٹس پوسٹ کیا تھا جو درجِ ذیل ہے: ’’قرآن کے الفاظ اللہ کے ہیں انہیں پڑھنا مطلوب۔ یہ الفاظ بامعنی ہیں، انہیں سمجھنا مطلوب۔ یہی پڑھنا اور سمجھنا تلاوت ہے۔‘‘ میں نے موصوف کے اس اسٹیٹس اپڈیٹ پر ایک مختصر گفتگو کی تھی جسے میں ذیل میں نقل کر رہا ہوں:

اسلام میں شورائیت پر ایک سوال

کیا اسلام میں سرشماری کے بعد کثرت آرا پر مبنی شورائیت قرآن سے ثابت ہوتی ہے؟ یعنی صدر حکومت اس کو چنا جائے جس کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں؟ اور ریاست کے معاملات میں صدر ریاست اپنے مشیروں کی اکثریت کی رائے ماننے کا پابند ہو؟ فرض کیجیے، اگر مشیر پانچ ہوں اور چھٹا خود صدر ریاست ہو تو پانچ مشیر مل کر صدر کو تگنی کا ناچ نچا دیں گے، اور اگر مشیر چار ہوں تو ان میں سے تین اگر آپس میں مل جائیں تو صدر صاحب کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ اسی لیے اسلام میں اکثریت کی حاکمیت پر مبنی شورائی نظام نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ مشورے میں شریک ضرور ہوں لیکن چلے وہی بات جو حق ہو، اور حق وہ ہے جو طاقت کی بنیاد پر واقع ہو۔ اور طاقت وہ ہے جس کا لوہا طوعا و کرہاً سب کو ماننا پڑے۔

ابن صفی اور اسلامی ادب

بعض نیم عقلی دانشور کہتے ہیں کہ ابن صفی اسلامی رجحان کے حامل تھے اس لیے ان کے ناولوں میں اسلامی پسندی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اور محض اسی لیے وہ ابن صفی کو ناولوں کو بڑا ادب باور کرانے پر تل گئے ہیں۔ دراصل اردو میں اسلامی ادب قحط الرجال کا شکار ہے۔ اسلامی ادب کے نام پر لکھی گئی کہانیوں اور شاعری میں اس قدر واعظانہ اور مفتیانہ باتیں ہوتی ہیں کہ آدمی بوریت کا شکار ہوجاتاہے۔ معاشرہ میں بھی ایسے مذہبی ادب کے کردار کہیں چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔اس قسم کا پاکیزہ ادب لکھنے والوں کے فن میں بھی کوئی خاص ترقی نہیں دیکھی گئی۔ ساری ادبی شہرت اور وقار تو عصمت اور منٹو جیسے ’’فحش‘‘ لکھنے والوں کے حصے میں آئی اور پاکیزہ اسلامی ادب لکھنے والوں کو ادب کے بلند ترین معیار پر نہیں رکھا جا سکتا۔

عمران شاہد بھنڈر اور سارا مغربی فلسفہ

مغربی فلسفہ کی روایت میں ایک فلسفی کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی سامی مذہب کے پیغمبر کے پیش کردہ مقدس متون, ان سے ثابت شدہ عقائد کا اثبات کرے. اگر ایک فلسفی ایسا کرتا ہے تو یہ اپنے فلسفیانہ منہاج کو دریابرد کر دینے کے برابر ہے. فلسفہ میں علمیات کا شعبہ اسی لیے ہے تا کہ فلسفیوں کے ایک معاشرہ میں حصولِ علم کے ماخذ اور طریقوں کا تعین ہو. اس سلسلے میں پہلی اصولی بات یہ ہے کہ فلسفہ میں فلسفیانہ علم کاماخذ انسانی ذہن و دماغ ہوتا ہے نہ کہ انسان سے ماورا کوئی فوق فطری ہستی کسی فلسفی کو بذریعہ الہام و وحی حقیقت کا علم بخشتی ہے. اگر ایسا ہو تو فلسفی کا اپنا کارنامہ کیا رہ جائے گا؟ اور اس صورت میں ایک ہی دور کے فلسفیوں میں علمی اختلافات بھی نہیں پائے جا سکیں گے, کیونکہ اگر وہ فوق فطری یا برتر قوت فلسفیوں کو علم بخشتی ہے تو ایسا علم وقت واحد میں مختلف فیہ کیسے ہو سکتا ہے؟

مذہب اور سائنس دو راستے ہیں

سوال: یہ بات درست ہے  کہ سائنس  اور مذہب الگ راستے ہیں مگر قرآن کائنات پر تدبر کرنے کی ترغیب تو دیتا ہے ۔ اور چونکہ قرآن مذہبی کتاب ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ترغیب کس غرض سے دی گئی ہے؟ (خلیل خاں صاحب) جواب: انسان کے اندر خود یہ ترغیب موجود ہے، اور یہ ترغیب مذہبی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے اور سائنسداں بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔ جب آپ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہی  کہ سائنس اور مذہب دو راستے ہیں تو  سائنس کے معاملے میں سائنس کا راستہ پکڑیے، اور مذہب کے معاملے میں مذہب کا۔ سائنس کے معاملے میں مذہب کا راستہ پکڑنے سے نہ مذہب ملے گی نہ سائنس۔

تہذیبی و مذہبی ادعا کی کامیابی کے اسباب

مختلف قبائل، ذات برادریوں، طبقوں یا قوموں کے معاشی مفادات پر مبنی ایک مجرد سیاسی صف بندی کوئی دیر پا یا مستقل چیز نہیں ہے۔ چونکہ اس سے مستقل جوڑ توڑ پر مبنی سیاسی کشمکش جاری رہتی ہے اور زندگی کا کوئی اونچا آدرش سامنے نہیں آ پاتا، اس لیے ایسی سیاسی صف بندیوں کے اثر سے محض معاشی و سیاسی مفادات پر مبنی ایک کمزور تقریر وجود میں آتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیبی قوم پرستی یا مذہبی ادعا پر مبنی تحریکات اس لیے کامیاب ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ زندگی کا ایک ہمہ گیر، جامع اور کلی نقطہ نظر اور آدرش پیش کرتی ہیں خواہ وہ آدرش بجائے خود کتنا ہی غیر آدرش ہو یا دکھائی دیتا ہو۔

آزادی فکر و عمل کا مقصود

ہماری معاشرتی اور تہذیبی بیماریاں کیا ٹھیک وہی ہیں جو ہمیں محسوس ہوتی ہیں؟ یا بیماریوں کا سبب وہ ہے جو اکثر ہمارے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا؟ معاشرے میں چور، غنڈے، بدمعاش، دہشت گرد، جارحیت پسند جس صورتحال میں وجود میں آتے ہیں اس میں دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی چیز ہے جو انسانی شخصیت کو گوں ناگوں طریقوں سے مسخ کرتی ہے؟ انسانی معاشرہ گروہوں کی شکل میں ہوتا ہے اور ہر گروہ کا اپنا ایک علیحدہ طریقہ زندگی ہے۔ زندگی کے بہت سے طریقے بہ یک وقت درست ہو سکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سب میں انسانی مساوات اور آزادی اظہار و عمل کو اس حد تک ملحوظ رکھا گیا ہو کسی کو کسی کے قول سے دشنام اور فعل سے جسمانی گزند نہ پہنچے۔ لیکن یہ محض ایک قانونی قسم کی بات ہوئی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ خود انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کو کس سمت میں اپنی صلاحیتوں کا ارتقا کرنا چاہیے۔

ذاکر نائیک اور تقابل ادیان

ذاکر نائیک نے تقابلِ ادیان کے نام سے ہندوستان میں پاپولر ٹی وی کلچر کی سطح پر ایک بڑی غیرسنجیدہ روایت شروع کی۔ ٹی وی پر دیگر مذاہب کے رہنما نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس میں دوسرے مذاہب کی کمی کو اچھالا جاتا ہو اور کسی ایک مذہب کو صداقت کا آخری اڈیشن بتایا جاتا ہو۔ ذاکر نائیک نے ایک طرف مختلف مذاہب کی تعلیمات کا مقابلہ پیش کیا اور اسلام کو سب سے زیادہ اچھے اور سچے مذہب کے طور پر پیش کیا، دوسری طرف انہوں نے چند لوگوں کو برسرِ عام کلمہ پڑھوا کر اسلام قبول کرنے کے عمل کو بار بار ٹی وی کے ذریعے مشتہر کیا، تیسری طرف انہوں نے بنیاد پرستی یا فنڈامنٹلزم کے متعلق کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے، جو جتنا بنیاد پرست وہ اتنا اچھا مسلمان۔ ان تین اسباب سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا۔

مذہب اور سائنس کا اصولی فرق

ہمارے مذہبی دانشور سائنس اور تکنالوجی میں پیش قدمی کی بات اکثر کیا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اس بات کو سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ سائنس میں پیش قدمی کن شرطوں پر ممکن ہے۔ وہ چونکہ مغرب کی مادی اور تکنیکی ترقیوں کو دیکھتے ہیں اس لیے متاثر ہو کر سائنس اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھنے کی سطحی بات کرتے ہیں۔ اگر مغرب ٹکنالوجی کے معاملے میں اتنی ترقی نہ کرتا تو ہمارے یہ مذہبی دانشور سائنس میں ترقی کرنے کی بات بھی منہ سے نہ نکالنے۔ سائنس سے ان کی ساری دلچسپی محض مغرب کی ٹکنولوجیکل ترقی کے سبب ہے۔ لیکن ٹکنالوجی کو مقصود بنا کر سائنس میں ترقی کرنے کا خیال صحیح نہیں ہے۔

ایک نئے قلعے کی ضرورت

اسلام جن عقائد و قوانین کا واقعی مجموعہ ہے, ان پر مغرب کے پیدا کردہ ماحول میں عمل ممکن نہیں رہ گیا ہے. اور اسلام کو محض بطور ایک سیاسی نظام کے نافذ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی قوانین اور ہدایات کے نفاذ کے بعد اسے کہیں برقرار نہیں رکھا جا سکتا. اسلامی نظام میں ایک مخلوط معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں جہاں مرد و زن تنہائی میں گوں ناگوں اسباب سے ملاقاتیں اور وقت گزاری کر سکیں. اس میں لازماً خواتین کو چاردیواری کے اندر واپس جانا پڑے گا یا معاشرے میں ان کا رول انتہائی محدود ہو کر رہ جائے گا. اس کا سبب خواتین کے ستر عورت کی مروجہ شرعی حد ہے جس کے نفاذ کے بعد عورتوں کی نمائندگی فنون لطیفہ کی تمام تر شکلوں, میڈیا, اسپورٹس اور اولمپک اور فلموں میں ہرگز ممکن نہیں.

سر سید اور علامہ شبلی نعمانی کا علمی رشتہ

اردوزبان وادب  کی ایک ناموراور شہیر ہستی اور صحیح العقیدہ عالم مولٰنا مولوی عبدالحلیم شرر نے معتزلہ  اوران کے عروج و زوال پر ابطالی نوعیت کا ایک  طویل لیکچرمسلم اکیڈیمی کے اجلاس مورخہ ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ءکو دیاتھا جس میں  انہوں نے  سر سید کے تصورِ دین و شریعت پر ایک زبردست تنقید بھی کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید جدید اعتزال کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم اورسائنس میں تطبیق دینے کی سر سید کی تعبیراتی  کوششوں کو وہم و گمان سے بھی زیادہ بعید اوراور قابلِ مضحکہ قرار دینے کے ساتھ ہی مولانا شبلی نعمانی ایسے جلیل القدر عالم کے کارناموں کو بھی سر سید کی صحبت کا ثمرہ  بتایا ہے ۔ شرر کے مطابق سر سید کی صحبت میں آنے سے پہلے شبلی  ‘‘مشدد حنفی’’ ہوا کرتے تھے  اور امام ابوحنیفہ کے جوشِ محبت میں اپنے کو ‘‘نعمانی’’ کہلاتے تھے، تاکہ ‘‘حقیقت میں ان کا رتبہ  معمولی حنفیوں کے درجے سے بڑھا ہوا ہو’’ اور  وہابیوں کے مقابلے میں ‘‘بدعتیوں کے وکیل’’بن رہے تھے۔

قصہ آدم اور نظریہ ارتقا: تطبیق کے امکانات

علم اللہ صاحب کے ایک فیس بک اسٹیٹس پر ابوفہد صاحب نے قصہ آدم اور نظریہ ارتقا میں تطبیق دینے کے امکانات پر ایک تبصرہ لکھا تھا اور میں نے اس کا جواب لکھا ہے۔ یہاں میں ابوفہد صاحب کا مذکورہ تبصرہ اور اپنا جواب نقل کر رہا ہوں: ابوفہد: ویسے آدم وحوا کی کہانی اور نظریۂ ارتقاء کی تطبیق کے امکانات بھی پیداہوسکتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا تھا۔خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے۔ میں اس فکر میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے۔۔۔ تطبیق کی صورت فی الحال تو یہی ہوگی کہ جہاں جہاں سائنس اور قرآن میں تضاد نظرآتا ہے وہاں قرآن کو مقدم رکھا جائے گا۔ یا پھر  یہ سمجھا جائے گا کہ قرآن سے ہم نے جوسمجھا ہے وہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ درست ہی ہو۔ اور یہ کہ قرآن میں آدم وحوا کی تخلیق کا جو بیان ہے ہوسکتا ہے کہ وہ تمٰثیلی انداز کا بیان ہو۔ قرآن سے یہ تو معلوم ہوا کہ آدم کو مٹی سے پیدا کیا البتہ اس کی عملی صورت کیا ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں، اب ایسا تو نہیں ہے کہ اللہ نے بھی آدم کو اسی طرح پیدا فرمایا ہو جس طرح کمھارچاک پر مٹی کے برتن بناتا ہے۔ کہ مٹھی بھر مٹی لی اور اسے چاک پر ...

جوانی میں طفلی کے قصے

خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب حکمتِ رومی میں لکھتے ہیں: ’’بعض حکمت کی کتابوں کلیلہ وہ دمنہ، انوار سہیلی، اور ایسپ کے قصوں میں انسانی اخلاق اور میلانات کو جانوروں کے قصے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، خود مثنوی میں بھی مولانا نے جبرواختیار کے مسئلے کو شیر اور خرگوش کی بحث میں بڑی بلاغت سے بیان کیا ہے۔ بچے جب یہ حکایتیں پڑھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ واقعی شیر نے آدمی کی طرح بات کی اور خرگوش یا لومڑی نے آدمی کی طرح جواب دیا۔ اکثر اہل ظاہر علما اس طفولیت کی سطح سے عمر بھر اوپر نہیں اٹھ سکتے:۔ چہل سال عمر عزیزت گزشت مزاج تو از حال طفلی نہ گشت

ماضی کا اصل سبق؟

ہمارے ہاں ایک خیال یہ ہے کہ ماضی سے ہم کو جو سیکھنا چاہیے وہ ہم نہ سیکھ سکے۔ ہم نے ماضی کے اصل سبق کو بھلا دیا۔ تو اب اسی اصل سبق کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی کا اصل سبق عملی طور پر تو ہم کو یاد نہیں، اور اسی لیے ہم پر زوال آیا، اس لیے ماضی کے اصل سبق کا نظریہ پڑھنے کے لیے ہم کو تاریخ سے رجوع کرنا ہوگا۔ اور تاریخ تعبیر کی متقاضی ہے۔ اور تعبیروں میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ تو ماضی سے متعلق جو نظریات ہم سیکھیں گے وہ مختلف فیہ ہوگا۔ اور اس طرح ماضی کا اصل سبق اختلافات کی نذر ہو کر رہ جائے گا۔ ممکن ہے بہت سی تعبیروں میں سے کوئی ایک صحیح ہو لیکن کون سی تعبیر صحیح ہے، اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ماضی سے ہم کو جو کچھ سیکھنا چاہیے تھا، وہ ہمارے ساتھ ہمارے اعمال و افکار کی شکل میں حال تک چلا آیا ہے۔ ماضی سے تو ہم یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھتے رہے اور اسی کی وجہ سے اپنی حالیہ تباہی تک پہنچے۔ اس لیے ہم کو دراصل اپنے حال سے اور حال میں سیکھنا ہے، اسی میں کچھ جوڑنا یا گھٹانا ہے، اور وہ ماضی جس کا صرف ایک موہوم خیال ہمارے اندر باقی ہے، اور جس کی گردان  ہم سیکڑوں سالوں سے کرتے آ رہے...

زوال یافتہ قوموں کے چار مسائل

زوال یافتہ قوموں کا اولین مسئلہ یہ ہے کہ ان کے افراد کے اندر تجسس کا جذبہ مر جاتا ہے جس کے سبب علوم و فنون کے میدان میں ان کی عطا صفر ہو جاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی یافتہ قوموں کی تقلید کرتے رہنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ان کا دوسرا مسئلہ اپنی اسی مجبوری کے عالم میں انتہائی غیر عقلی رویہ اپنانا ہے جو یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ بدستور ترقی یافتہ اقوام کے علوم و فنون اور طور طریقوں کی پابندی کرتی رہتی ہیں اور دوسری طرف وہ ان ترقی یافتہ اقوام کے لیے بغض و حسد کے جذبات کی پرورش بھی کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ اقوام کو دن رات کوسنا اور ان کی برائیاں کرنا ان کا قومی شعار بن جاتا ہے۔