بدھ، 20 دسمبر، 2017

ایک نئے قلعے کی ضرورت

اسلام جن عقائد و قوانین کا واقعی مجموعہ ہے, ان پر مغرب کے پیدا کردہ ماحول میں عمل ممکن نہیں رہ گیا ہے. اور اسلام کو محض بطور ایک سیاسی نظام کے نافذ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی قوانین اور ہدایات کے نفاذ کے بعد اسے کہیں برقرار نہیں رکھا جا سکتا. اسلامی نظام میں ایک مخلوط معاشرہ کی تشکیل ممکن نہیں جہاں مرد و زن تنہائی میں گوں ناگوں اسباب سے ملاقاتیں اور وقت گزاری کر سکیں. اس میں لازماً خواتین کو چاردیواری کے اندر واپس جانا پڑے گا یا معاشرے میں ان کا رول انتہائی محدود ہو کر رہ جائے گا. اس کا سبب خواتین کے ستر عورت کی مروجہ شرعی حد ہے جس کے نفاذ کے بعد عورتوں کی نمائندگی فنون لطیفہ کی تمام تر شکلوں, میڈیا, اسپورٹس اور اولمپک اور فلموں میں ہرگز ممکن نہیں.
ایک اسلامی سیاسی نظام میں یہ بھی ممکن نہیں کہ انسانی اور سائنسی علوم کو توحید, رسالت اور آخرت کی بنیاد پر استوار کر سکیں. قرآنی بنیادوں پر دنیا کی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی کیونکہ نظریہ ارتقا کے بغیر حیاتیاتی سائنسوں کی تشکیل ممکن نہیں ہے جو تاریخ نگاری کے ساتھ سماجیات و نفسیات جیسے دنیاوی علوم کی بنیاد ہے.
خدا نے سب کچھ پیدا کیا اور اس نے دنیا میں پیغمبر بھیجے جنہوں نے انسانوں کے سامنے خدا کی طرف سے وحی پیش کی, اور آخری پیغمبر نے قرآن کی شکل میں خدا کی طرف سے ابدی ہدایت پر مبنی ایسی کتاب پیش کی جس میں تمام زمانوں کے لیے اصولی ہدایات درج ہیں, اس لیے تمام سماجی علوم کو قرآنی بیانات کی بنا پر استوار کرنا چاہیے. اس نقطہ نظر سے, حساب کے سوا, ہم درجہ دہم کے کسی بھی سبجیکٹ کی کوئی ایک کتاب بھی نہیں لکھ سکتے کیونکہ ہر سبجیکٹ دوسرے سبجیکٹ سے متعلق ہے اور ایک میں کوئی اصولی تبدیلی کی جائے تو دوسرے سبجیکٹ میں بھی انہیں اصولوں کی بنا پر تغیر کرنا ہوگا, مثلاً اگر ہم حیاتیاتی سائنس میں یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالی نے آدم و حوا سے انسانی نسل چلائی تو اس بیان کی علمی اساس کو قرآن پر استوار کیا, پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ فیزکس یا کمیسٹری میں بے جان مادہ کے وجود کی یہ تعبیر نہ کریں کہ انہیں بھی خدا تعالی نے پیدا کیا. جب ہم سائنسی سطح پر اس بات کو تسلیم کریں گے تو سماجی علوم میں ہمارا طرزِ گفتگو بھی اسی کے اعتبار سے بدل کر "قرآنی" ہو جائے گا. اور ہم ہر بات کی دلیل ارسطو اور افلاطون اور دیگر غیراسلامی حکما کے بجائے قرآن ہی سے لینے پر مجبور ہوں گے. یعنی ہم بچوں کو لازماً یہ بتائیں گے کہ انبیا کو اللہ تعالی نے اس دنیا میں اس لیے بھیجا تا کہ وہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کا طریقہ سکھائیں اور خدا کے آخر پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں قرآن کی شکل میں ابدی ہدایت پیش کی جس میں خاندان اور معاشرہ کی تشکیل کا اصول یہ اور یہ ہے. اس بیانیہ کو ہم ہر ایک سماجی علم میں نصب کیے بغیر نہیں رہ سکتے. اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تمام تر مغربی سماجیات کا سرے سے ذکر ہی نہ کریں یا اگر ذکر کریں بھی تو ان کے غلط اور گمراہ ہونے کا بچوں کو یقین دلائیں.
اچھا, جب ہم دسویں تک بچوں کو یہ تعلیم دیں گے تو بارہویں اور اس سے آگے کے درجوں میں, کالج اور یونیورسیٹی کی سطح تک یہی سب کچھ پڑھانا ہوگا اور وہ تعلیمی نظام جسے ہم سیکولر تعلیمی نظام کہتے ہیں اس کی کوئی گنجائش اسلامی نظامِ تعلیم میں ہوگی تو صرف یہ کہ ہم اسے ایک باطل اور گمراہ طریقہ زندگی کی حیثیت سے متعارف کراتے رہیں اور اس پر قرآنی نقطہ نظر سے تنقیدیں کرتے رہیں. اتنا ہی نہیں, اکادمک تحقیق کی سطح پر ہمارا طریقِ کار قرآنی ہی ہو, یعنی ہم قرآنی آیات کو تحقیقی بنیاد کے طور پر تسلیم کریں اور آزادانہ سیکولر یا دنیاوی تحقیقی طریقہ کار کو رد کریں جس میں عقل و خرد کا آزادانہ استعمال تجربہ و مشاہدہ کی بنا پر کیا جاتا ہے اور کسی بھی مذہبی کتاب کے فرمودات کو تسلیم کر کے نتائج نہیں نکالے جاتے. مثلاً ایک تحقیقی سوال اگر گھریلو تشدد سے متعلق ہو تو اسلامی سماجیاتی محقق قرآن کے مطابق پہلے اس بات کے حق میں دلیل دے کہ مرد گھر کے ادارے کا سربراہ ہوتا ہے اور یہ ایک فطری بات ہے, پھر وہ گھریلو تشدد کی ایسی تعریف کرے جو قرآن کی "وضربوھن" والی آیت سے متصادم نہ ہو. یعنی اسلامی محقق قرآن کے مطابق ہلکی مار مارنے کو گھریلو تشدد میں شامل نہ کرے. سوال یہ ہے کہ ایسا اسلامی محقق آخر مغربی ممالک کے اداروں میں جا کر سماجیات/ یا اس کی کسی شاخ میں پروفیسر کیسے بن سکتا ہے جو اپنے علم کا حتمی ماخذ قرآنی آیات کو بتاتا ہو اور عورتوں کو ہلکی مار مارنے کو عقل و فطرت کا عین تقاضا خیال کرتا ہو؟
پس, اسلامی نظامِ تعلیم و تحقیق کے نفاذ کے بعد ایک اسلامی خلافت/ سلطنت/ ریاست کا پورا تعلیمی نظام بقیہ دنیا کے تعلیمی نظام سے کٹ جائے گا.
یہاں میں نے دو اسباب بتائے, پہلا, اسلامی سیاسی نظام میں مخلوط معاشرہ کی نفی جس کے بعد عورتوں کی نمائندگی ہر سطح پر اور ہر شعبے میں انتہائی محدود ہو جاتی ہے, اور دوسرا اسلامی تعلیمی نظام کا بقیہ دنیا سے کٹ جانا. ان دو اسباب سے صرف کر لیں تو ایک شخص کو اسلامی سیاسی نظام بہت قابلِ عمل معلوم ہوگا۔ اور یہ امر واقعی ہے کہ اب تک جتنے بھی اسلامی تجدد پسند یا احیاپرست گزرے ہیں انہوں نے کبھی ان دونوں اسباب پر دور اور دیر تک غور نہیں کیا۔ قلت فکر اور تنگ نظری میں مبتلا یہ لوگ مغربی نظاموں کے متبادل کی بات اکثر کیا کرتے ییں اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ دنیا میں اسلامی نظام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کریں گے۔
لیکن  اسلام کے نام پر مغربی نظامات کا جو متبادل وہ پیش کرتے ہیں اس کی تفصیلات پر بات کیجیے تو چند منٹوں میں ہی ان کی پول کھل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ان سے پوچھیے کہ علامہ آپ قرآنی نقطہ نظر سے تاریخ و ماقبل تاریخ کی تواریخ کیسے لکھیں گے؟ کیا آپ آدم علیہ السلام سے انسان کی کہانی شروع کریں گے؟ عہد حجری کے غاروں اور ان میں پائی جانے والی تصاویر کی کیا تاویل کریں گے؟ معبدوں پر جنسی عمل کی جو سنگتراشیاں ہیں اور جس قدر اصنام ازمنہ قدیم کے مندروں میں نصب ہیں ان کے متعلق کیا شرک و بت پرستی کا حکم لگائیں گے اور پھر تلاش کریں گے کہ ان ادوار میں خدا تعالیٰ نے کون سے پیغمبر مشرک قوموں میں بھیجے؟ یعنی جب آپ دنیا کی قدیم و جدید تاریخ اسلامی نقطہ نظر سے لکھیں گے تو اس میں شرک اور توحید کی کشمکش کو اساس کا درجہ دیں گے اور بتائیں گے کہ فلاں فلاں قوموں نے اپنے انبیا کے لائے ہوئے پیغامات پر ایمان لا کر نہیں دیا، چنانچہ خدا نے انہیں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیا؟ مثلا کیا آپ یہ فرمائیں گے کہ ہڑپا اور موہن جوداڑو کی تہذیب اس لیے مٹ گئی کیونکہ وہ مشرک ہو گئی تھی یا اس نے اپنے نبی کی بات نہیں  مانی؟ آپ یہ کہہ کر جان نہی  چھڑا سکتے کہ اس وقت کیا ہوا ہوگا اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ آپ کو لازما شواہد اور دلائل کی بنا پر قیاس کرنا ہوگا اور بتانا ہوگا کہ ہڑپا کی تہذیب کب شروع ہوئی، اس کے لوگ کیسے تھے، ان کے عقائد کیا تھے، ان کے معبد کیسے تھے، ان کا رہن سہن کیا تھا، اور ان کی تہذیب کا زمانہ عروج کیا تھا اور وہ کس سبب سے زوال کو پہنچے۔
یہ تو دنیا کی تاریخ کا معاملہ ہوا جس کو اسلامی نقطہ نظر سے آپ لکھ ہی نہیں سکتے۔ رہی بات سماجیات، سیاسیات اور نفسیات جیسے علوم کی تو ان میں آپ اور منہ کی کھائیں گے۔ نفسیات میں فرائیڈ کےنظریات سے سابقہ پڑے گا جس پر آپ کے مفکرین اسلام پہلے ہی ہزار بار لعنت بھیج چکے ہیں۔ آپ سب سے پہلے نظریہ  لاشعور کا انکار کریں گے۔ پھر آپ کو لیبیڈو پر اعتراض ہو گا کہ آخر نفسیات میں اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے علاؤہ آپ نفسیات میں بھی قرآنی بنیادوں پر بات کریں گے کہ جنت اور جہنم کا عقیدہ انسان کو نفسیاتی طور پر چاق و چوبند رکھتا ہے اور جس شخص کے اندر ایمان نے اپنی جڑیں گہری جما لی ہیں وہ ایب نارمل ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسیات میں بھی آپ انسان کو ایک سماجی جانور کے طور پر تسلیم نہیں کر سکتے۔ یہاں آپ قرآنی آیات کوٹ کر کے خلافت الٰہی کا نظریہ پڑھائیں گے اور بقیہ سب سیاسی نظریات کو باطل قرار دیں گے۔ قانون کے شعبے میں بلاشبہ آپ کے پاس ایک طویل قانونی روایت ہے لیکن چونکہ آپ کے ہاں قانون ماخوذ ہے کتاب و سنت میں درج بیانات سے، اس لیے جس قدر نئی سچویشنز پیش آئیں گی، ان میں ہر پھر کر قرآن و سنت سے ہی رجوع کریں گے۔ مثلاً نکاح و طلاق کے قوانین میں کوئی اصولی تغیر آپ نہ کر سکیں گے۔ بیشک دوسری قوموں کے قانون نکاح و طلاق اور وراثت کو آپ برقرار رکھیں گے لیکن اسلامی قانون کو ہمہ گیر قانون کی طرح اکادمک سطح پر جاری نہیں کر سکیں گے۔ دنیا میں قانون کا ماخذ عقل و خرد ہے اور نکاح و طلاق کے ایک قانون کے ناکام ہونے پر دوسرا قانون لایا جاتا ہے لیکن آپ کے ہاں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ قانون نکاح و طلاق میں ادنی سا بھی اصولی تغیر کر سکیں۔ مثلاً جب خواتین کسی معاشرے میں خودمختار ہو جائیں اور انہیں حق مہر کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ مرد سے مہر کی رقم وصول کرنا یا نان و نفقہ پانا کسر شان سمجھیں تو بھی اس صورت میں آپ مہر کو لازم بتائیں گے اور مرد کو عورت کا انچارج (قوام) بتاتے رہیں گے۔ آپ قرآن کی اس آیت کی کیا نئی تاویل کریں گے جس کے مطابق مرد عورتوں پر ایک درجہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس پر مال خرچ کرتے ہیں۔ غرض قانون نکاح و طلاق میں جو دفعات قرآن و سنت کی رو سے جیسی ہیں ویسی ہی رکھنے پر آپ اصرار کریں گے اور معاشرے کی حالت یہ ہوگی کہ عورت مرد کی ماتحتی، اس کی قوامیت، اور اس کے دیے نان و نفقہ کو قبول نہ کرے گی کیونکہ جدید حالات میں وہ مساوات مرد و زن کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خود مختار ہو چکی ہو گی۔ اور خاندان کا ادارہ چلانے میں مساوی حصہ لینے کے سوا ہر اس اصول کو خیرباد کہہ دے گی جو اس کو شوہر کی ماتحتی اور اطاعت پر مجبور کرتا ہو۔ اسی خطرہ کے پیش نظر تو آپ کے مفکرین اسلام مرد اور عورت کا فطری دائرہ کار الگ الگ بتاتے ہیں لیکن عملا جوں جوں عورت پر لادے گئے روایتی کاموں کا بوجھ گھٹے گا، عورتیں  ہر وہ کام مردوں کی طرح کرنے لگیں گی جن سے اسلامی احیاپرست متنفر رہتے ہیں۔ اس وقت آپ کا پورا اسلامی نظام قانون اور نظام معاشرت درہم برہم ہو کر رہے گا۔ اس کی شروعات خاصی حد تک ہو بھی چکی ہے۔ یاد کیجیے، جب کوئی روایتی دارالعلوم میڈیکل یا انجینیرنگ میں مخلوط تعلیم کے خلاف فتوے دیتا ہے تو اس کے خلاف خود مسلمان ہی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک بار جب مخلوط معاشرت اور مخلوط نظام تعلیم و تربیت مسلمانوں میں رائج ہو جائے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ عورت کو مرد کا ماتحت بنائے رکھیں کیونکہ مخلوط تعلیم و تربیت کے نتیجے میں عورتیں بڑے پیمانے پر روزگار سے جڑیں گی اور پیسے کمائیں گی، اپنی کفالت وہ خود کریں گی, پھر مردوں کی فرمانبرداری کا طوق وہ کیوں باندھیں؟ اس بات کا اندازہ تمام تجددپسندوں اور احیاپرستوں کو بخوبی ہے، اور اسی لیے وہ عورت کے حیاتیاتی وظیفے یعنی ماں بننے پر زور دیتے ہیں حالانکہ عورت کے حیاتیاتی وظیفے سے اس کا دائرہ کار متاثر تو ہوتا ہے لیکن متعین نہیں  ہوتا۔ عورت کی مادری سرگرمیاں اس کی زندگی کے پانچ دس سالوں پر محیط ہوتی ہیں اور اس درمیان بھی وہ ماں کے فرائض انجام دیتے ہوئے بھی کام کر سکتی ہے۔
غرض اسلام، اس کی معاشرت، اس کا قانون، اس کی سیاست بلکہ اس کے پورے نظام کو مغربی نظام کا متبادل بنانے کی کوشش کبھی بار آور نہیں ہو سکے گی۔ اگر اسلام پسند تحریکات نے مسلم ممالک میں اس پر اصرار کیا تو اس کے نتیجے میں قدیم و جدید کی کشمکش ہو گی جیسا کہ مصر، ترکی وغیرہ میں ہو رہا ہے اور بالآخر نتیجہ جو نتیجہ نکلے گا وہ بڑی حد تک مغربی ممالک جیسا ہو گا اور آج جس راہ پر اہل مغرب چل رہے ہیں اسی پر مسلم ممالک بھی چلیں گے۔ یعنی تاریخ اپنے کو دوہرائے گی۔ جس طرح مسیحیت کی اصلاح ہوئی، اسی طرح اسلام کی بھی ہوگی اور جن بھلائیوں اور برائیوں میں اہل مغرب مبتلا ہیں انہیں میں اہل اسلام میں مبتلا ہوں گے، اور اس پورے تاریخی پروسیس میں انسانی خون بھی بہے گا جیسا کہ مغرب میں ہوا۔
اس وقت مغرب کی تاریخ سے سبق لے کر کوشش یہ کرنی ہے کہ اسلام میں اصلاح کی کوششوں کا خاتمہ ہو جیسا کہ عیسائیت میں ہوا۔ ہمارے ہاں پرانے کی اصلاح کے بجائے نئے کی تخلیق کی ضرورت ہے۔ یہ "نئے کی تخلیق"  باز تعمیر اور تشکیل نو (ری کنسٹرکشن) سے مختلف چیز ہے۔ اگر تاج محل یا لال قلعہ امتداد زمانہ کی نذر ہو جائے تو اس کی باز تعمیر کیونکر ہو سکتی ہے؟ اور فی الواقع اس کی ضرورت کیا یے؟
ہم کسی تاریخی قلعے میں اسی وقت تک رہ سکتے ہیں جب تک کہ اس کے دیوار و در و بام محفوظ ہوں، بلا شبہ ہم تھوڑی بہت مرمت بھی کرتے ہیں لیکن بالآخر تاریخی قلعے کے کھنڈر بن جانے سے پہلے اسے آثار قدیمہ کے حوالے کر کے نئی جگہ پر نئی عمارتوں کی تعمیر ضرور کرتے ہیں۔ دنیا کا ہر قلعہ انسان ہی بناتا ہے اور اپنی عقل سے بناتا ہے، اور عقل اس کائناتی قوت کی عطا کردہ ہے جس کا اصطلاحی نام خدا ہے۔ یہ سمجھنا بڑی نادانی ہے کہ اگلے لوگوں نے جو قلعہ بنایا وہ آسمانی اور ابدی نوعیت رکھتا ہے اور وہ کبھی کھنڈر نہ بنے گا۔ دنیا میں پایا جانے والا ہر ایک قلعہ فانی ہے اور اس کو آج نہ کل کھنڈر میں بدلنا ہے۔ اس لیے اس میں رہنے والوں کو چاہیے کہ وقفے وقفے سے جائزہ لیتے رہیں کہ ان کا قلعہ کتنے عرصے میں ناقابل استعمال ہو جائے گا اور کتنے عرصے میں وہ حالات و ضروریات کے اعتبار سے ایک نیا قلعہ بنا لیں گے۔ یہ بھی ملحوظ رکھیں کہ نیا قلعہ بناتے وقت پرانے قلعے کے نقشے کی ہو بہو پیروی ضروری نہیں، بلکہ ان کو نئے قلعے کے لیے اپنی انسانی عقل سے ایک نیا نقشہ بنانا چاہیے۔ بیشک پرانے قلعے کے نقشے سے حسب ضرورت فایدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن  نئے قلعے میں سب کچھ پرانے قلعےجیسا ہی ہو، یہ اصرار ناممکن العمل ہی نہیں تباہ کن بھی ہوگا۔
نیا قلعہ بنانے کی حکمتیں کیا کیا ہیں، اس پر پھر کبھی کچھ عرض کروں گا۔